hamare masayel

نماز باجماعت میں اتصال صفوف

(سلسلہ نمبر: 509)

نماز باجماعت میں اتصال صفوف

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ سعودی عرب میں مقیم ہوں، یہاں ہر لوگ نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے حدود مسجد سے تقریباً بیس پچیس فٹ کی دوری یا اس سے زیادہ کسی عمارت کے سایہ تلے کھڑے ہوجاتے ہیں؛ جب کہ کچھ لوگ مسجد میں جگہ ہونے کے باوجود جلدی بھاگنے کے لئے باہر ہی بیٹھتے ہیں اور بہت سے لوگ سستی کی وجہ سے تاخیر سے آتے ہیں، کیا ایسے لوگوں کی نماز بلاکراہت ادا ہو جائے گی، یا اس نماز کا اعادہ ضروری ہے؟ برائے مہربانی مدلل جواب دے کر عند اللہ مامور ہوں!

المستفتی: محمد راشد قاسمی، مقیم سعودی عرب۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: با جماعت نماز کے صحیح ہونے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ امام اور مقتدی کا مکان متحد ہو، ورنہ صفوں میں اتصال ہو، پوری مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے اس لئے مقتدی مسجد شرعی کے کسی بھی حصے میں ہو تو اس کی اقتدا درست ہوگی اور نماز صحیح ہو جائے گی اور اگر مسجد شرعی سے باہر ہو تو صفوں کا متصل ہونا ضروری ہے اگر دو صفوں کے درمیان اتنی دوری ہو کہ بیچ سے چار پہیہ گاڑی گزر جائے تو اقتدا درست نہیں ہوگی اور نماز باطل ہو جائے گی، اس لئے صورت مسئولہ میں جو لوگ مسجد سے باہر نماز پڑھتے ہیں اگر وہ حصہ مسجد شرعی سے باہر ہے اور صفوں کا اتصال نہیں ہے تو ان کی ایسی نمازیں درست نہیں ہوئیں، ان اعادہ ضروری ہے۔

الدلائل

(ومنها) اتحاد مكان الإمام والمأموم، ولأن الاقتداء يقتضي التبعية في الصلاة، والمكان من لوازم الصلاة فيقتضي التبعية في المكان ضرورة، وعند اختلاف المكان تنعدم التبعية في المكان فتنعدم التبعية في الصلاة لانعدام لازمها؛ ولأن اختلاف المكان يوجب خفاء حال الإمام على المقتدي فتتعذر عليه المتابعة التي هي معنى الاقتداء، حتى أنه لو كان بينهما طريق عام يمر فيه الناس أو نهر عظيم لا يصح الاقتداء؛ لأن ذلك يوجب اختلاف المكانين عرفا مع اختلافهما حقيقة فيمنع صحة الاقتداء، وأصله ما روي عن عمر – رضي الله عنه – موقوفا عليه ومرفوعا إلى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه قال:: «من كان بينه وبين الإمام نهر أو طريق أو صف من النساء فلا صلاة له» ، ومقدار الطريق العام ذكر في الفتاوى أنه سئل أبو نصر محمد بن محمد بن سلام عن مقدار الطريق الذي يمنع صحة الاقتداء فقال: مقدار ما تمر فيه العجلة وتمر فيه الأوقار، وسئل أبو القاسم الصفار عنه فقال: مقدار ما يمر فيه الجمل.

وأما النهر العظيم فما لا يمكن العبور عليه إلا بعلاج كالقنطرة ونحوها، وذكر الإمام السرخسي أن المراد من الطريق ما تمر فيه العجلة وما وراء ذلك طريقة لا طريق، والمراد بالنهر ما تجري فيه السفن، وما دون ذلك بمنزلة الجدول لا يمنع صحة الاقتداء، فإن كانت الصفوف متصلة على الطريق جاز الاقتداء؛ لأن اتصال الصفوف أخرجه من أن يكون ممر الناس فلم يبق طريقا بل صار مصلى في حق هذه الصلاة. …… ولو اقتدى خارج المسجد بإمام في المسجد: إن كانت الصفوف متصلة جاز، وإلا فلا؛ لأن ذلك الموضع بحكم اتصال الصفوف يلتحق بالمسجد  (بدائع الصنائع: 1/ 145، 146).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

3- 3- 1442ھ 21- 10- 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply