نکاح کے بعد مسجد میں چھوہارے بکھیرنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے:
(1) کیا نکاح کے بعد شیرینی تقسیم کرنا حدیث سے ثابت ہے؟
(2) اگر ثابت نہیں ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ خوشی کا موقع ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا یا نہیں؟
(3) اگر نکاح مسجد میں ہو تو مسجد میں شیرینی تقسیم کرنا کیسا ہے جبکہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے وقت لوگ مسجد کے احترام کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔
امید ہے کہ تسلی بخش جواب مرحمت فرمائیں گے۔
المستفتی: ابن الحسن قاسمی گورکھپوری استاذ مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
سوال کے تینوں جزء کا جواب بالترتیب ملاحظہ فرمائیں:
(1) نکاح کے بعد چھوہارے یا کسی قسم کی شیرینی تقسیم کرنا سنت نہیں ہے، بعض روایات سے اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن سب ضعیف ہیں؛ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حوالے سے تین رواتیں ذکر کی ہیں، دو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں اور ایک حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پہلی روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن رسول الله ﷺ تزوج بعض نسائه فنثر علیه التمر (السنن الكبرى للبیہقي، رقم: 14682) اس روایت میں ایک راوی حسن بن عمرو بن سیف العبدی بصری ہیں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ”عندہ غرائب“ اور علی بن المدینی اور بخاری نے اس راوی کو ”کذاب“ کہا اور رازی نے ”متروک“ قرار دیا (لسان المیزان).
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: کان النبی ﷺ إذا زوج أو تزوّج نثر تمرًا (السنن الكبرى للبیہقي، رقم 14683) اس روایت میں ایک راوی عاصم بن سلیمان بصری ہیں، ان کے بارے میں امام بیہقی نے فرمایا کہ محدث عمرو بن علی نے انھیں ”متہم بالکذب“ قرار دیا۔ رماہ عمرو بن علی بالکذب ونسبه إلی وضع الحدیث (حوالہ سابق) علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا: کذبه غیر واحد (المغني في الضعفاء: 1/320 ، ط: بیروت)
تیسری روایت جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے تو اس کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں: انتہبوا، فقال: یا رسول اللہ! ألم تنہنا عن النہبة، قال: إنما نہیتکم عن نہبة العساکر، أما العرسات فلا، قال: فجاذبہم النبي ﷺ وجاذبوہ (سنن بیہقي، رقم: 14684) اس روایت کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا: في إسنادہ مجاہیل وانقطاع. وقد روی بإسناد آخر مجہول عن عروة عن عائشة رضي اللہ عنہا عن معاذ بن جبل ولا یثبت في ہذا الباب شيء والله أعلم (السنن الکبری للبیہقي: 14684، باب ما جاء في النثار في الفرح، ط: بیروت)
معلوم ہوا کہ چھوہارے لٹانے کی تینوں روایتوں میں شدید ضعف ہے، چنانچہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے حدیث کے بارے میں تحریر فرمایا: خرما لٹانے کی حدیث صحیح نہیں، اور اس میں اندیشہ تکلیف حاضرین کا ہے؛ لہٰذا نہ کرے۔ (باقیات، ص: 20، رقم : 448) حاصل یہ ہے کہ یہ روایت قابلِ استناد نہیں ہے، اس پر اعتماد کرتے ہوئے نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹانے کو سنت نہیں قرار دیا جاسکتا.
(2) جہاں تک نفس عمل کی بات ہے تو چونکہ خوشی کے موقع پر دعوت اور شرینی کی تقسیم مشروع ہے؛ اس لیے اس عمل یعنی نکاح (جو ایک خوشی کا موقع ہے) کے موقع پر چھوہارہ یا کوئی اور چیز لٹانے یا تقسیم کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے بہ شرطے کہ حاضرین کو تکلیف نہ ہو، یعنی اس کا درجہ استحباب کا ہے نہ کہ سنت کا.
(3) مسجد کا احترام بہت ہی ضروری ہے اس لئے اگر مسجد میں مجلس نکاح منعقد ہو تو وہاں شیرینی تقسیم کرنے سے احتراز کرنا چاہئیے کیونکہ تلویث مسجد کا امکان ہے، اور مسجد میں چھوہارا وغیرہ بکھیرنا تو کسی طرح درست نہیں کیونکہ مسجد میں ایسا کرنے کی صورت میں ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی میں بالعموم مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے جیسا کہ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب (مستفاد فتویٰ دارالعلوم دیوبند)
الدلائل
قال التهانوي في إعلاء السنن قلت: وليس ذلك (إطعام النجاشي الحاضرين بعد نكاح أم حبيبة) بوليمة بل هو طعام التزويج، ويلتحق به ما تعارفه المسلمون من نثر التمر ونحوه في مجلس النكاح، فقد روى البيهقي عن معاذ بن جبل بسند فيه ضعف وانقطاع …….. وأغرب إمام الحرمين فصححه من حديث جابر، وهو لا يوجد ضعيفًا فضلا عن صحيح، وفي مصنف ابن أبي شيبة عن الحسن والشعبي أنهما كانا لا يريان بأسًا بالنهب في العرسات والولائم، وكرهه أبو مسعود وإبراهيم وعطاء وعكرمة. كذا في التلخيص الحبير. (إعلاء السنن 11/11 النكاح/استحباب الوليمة، کراچی).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 24- 5- 1441ھ 20- 1 2020م الاثنین
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.