(سلسلہ نمبر: 522)
وطن اصلی میں اقامت كى نيت ضروری نہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص نوکری کی وجہ سے اپنے والدین اور اپنے بھائیوں سے مسافت سفر 90 کلومیٹر دور رہتا ہے وہیں اس نے اپنا ذاتی گھر لے لیا اور وہیں مستقل طور پر رہنے لگا، اب یہ شخص کبھی شادی ، موت، یا والدین سے ملنے جلنے اپنے آبائی وطن آتا ہے، اور اس کا اپنے آبائی مکان میں حصہ بھی ہے، تو یہ شخص اپنے آبائی وطن آکر نماز قصر کرے گا یا نہیں؟
المستفتی: اسماعیل بن عبد الرحمن۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں یہ شخص قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نماز پڑھے، کیونکہ ابھی آبائی وطن میں اس کے والدین اور گھر وغیرہ موجود ہیں، ہاں اگر رہائش کے ارادہ سے آنے کا بالکل ارادہ نہ ہو اور والدین وغیرہ بھی نہ ہوں صرف زمین جائداد ہو تو پھر قصر کرے گا۔
الدلائل
وفي المبسوط: هو الذي نشأ فيه أو توطن فيه أو تأهل. وقوله: أو توطن فيه يتناول ما عزم القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل. (حلبي كبير، ص: 544).
(يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما. (الدر المختار).
(قوله يبطل بمثله) سواء كان بينهما مسيرة سفر أو لا، ولا خلاف في ذلك كما في المحيط قهستاني، وقيد بقوله بمثله لأنه لو انتقل منه قاصدا غيره ثم بدا له أن يتوطن في مكان آخر فمر بالأول أتم لأنه لم يتوطن غيره نهر.
(قوله إذا لم يبق له بالأول أهل) أي وإن بقي له فيه عقار قال في النهر: ولو نقل أهله ومتاعه وله دور في البلد لا تبقى وطنا له وقيل تبقى كذا في المحيط وغيره.
(قوله بل يتم فيهما) أي بمجرد الدخول وإن لم ينو إقامة ط. (رد المحتار: 2/ 132).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
14- 3- 1442ھ 1- 11- 2020م الأحد.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.