ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے طلاق
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے طلاق کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
1- شوہر موبائل یا انٹرنیٹ کے ذریعے طلاق کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔
ایسی حالت میں بہر صورت بہ اتفاق طلاق واقع ہو جائے گی؛ کیونکہ طلاق کے وقوع کے لیے بیوی کی موجودگی، اس کی رضامندی بلکہ اسے معلوم ہونا یا سننا شرط نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے گواہی ضروری ہے ، زبان سے طلاق کے الفاظ ادا کرتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی، البتہ عدت گزارنے اور دوسری شادی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عورت کو معلوم ہو کہ بولنے والا اس کا شوہر ہی ہے اور اس میں کسی طرح کی دھوکہ بازی اور جعل سازی نہیں ہے ۔اور اگر شوہر اس کا انکار کرے تو پھر ثبوت کی بنیاد پر طلاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔
2- موبائل یا انٹرنیٹ کے میسج کے ذریعے طلاق دی جائے۔
جمہور فقہاء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے بشرطیکہ تحریر واضح ہو ۔ واضح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لکھنے کے بعد باقی رہے اور اسے پڑھنا ممکن ہو اس لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ پانی پر طلاق کے الفاظ لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی گرچہ طلاق کی نیت ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اسے طلاق نامہ کے طریقے پر لکھا جائے۔ ان دونوں شرطوں کے ساتھ طلاق کے صریح الفاظ لکھے گئے ہیں تو نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جائے گی ۔اور اگر اسے طلاق نامہ کے طور پر نہ لکھا جائے بلکہ صرف لفظ طلاق لکھ کر بھیج دیا جائے تو طلاق کے وقوع کے لیے نیت کی ضرورت ہوگی.
یہ حنفیہ کی رائے ہے.[1] اس کے بر خلاف امام مالک، شافعی اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ لکھ کر طلاق دینا طلاق کنایہ میں شامل ہے گرچہ صریح لفظ استعمال کیا جائے اس لیے اس طرح سے طلاق دینے میں بہر صورت اس وقت طلاق ہوگی جبکہ طلاق دینے کی نیت ہو اور اگر نیت نہ ہو تو لکھ کر طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
حاشيہ
[1] فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء و شيء لا يمكن فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى. وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لا. وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو. (رد المحتار 442/4/)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.