hamare masayel

چوری کا سامان خریدنا، چوری کے سامان کی خرید و فروخت

چوری کا سامان خریدنا

سوال: ایک شخص نے کوئی سامان خریدا اور خریدنے والے کو معلوم ہے کہ وہ سامان چوری کا ہے لیکن اب اس شخص کا پتہ نہیں ہے جس نے سامان بیچا ہے کہ وہ کہاں ہے کہ اسکو سامان واپس کرے اور اسکو سامان استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو کیا اسکے لیے سامان استعمال کرنا صحیح ہے؟ برائےکرم جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔

المستفتی محمد صادق اعظمی پرواں شیرواں

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

جان بوجھ کر  چوری کا سامان خریدنے والے کو حدیث شریف میں چوری میں شریک ہونے والا بتایا گیا ہے۔ اس لئے جانتے ہوئے چوری کے سامان کو ہرگز خریدنا نہیں چاہئیے، لیکن اگر چوری کا سامان غلطی سے خرید لیا ہے تو واپس کردے اور اگر اصلی مالک معلوم ہوجائے تو اسی کو واپس لوٹائے، اور اگر بیچنے والے اور مالک دونوں میں سے کسی کا پتہ نہیں ہے اور سامان استعمال کرنا چاہتا تو اس کی قیمت مالک کی طرف سے فقراء پر صدقہ کردے اس کے بعد اس سامان کو استعمال کر سکتا ہے. واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

قال تعالى: ﴿لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ [البقرة: 188].

وقال رسول الله ﷺ: «مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ» [رواه مسلم].

وقد روى البيهقي والحاكم في المستدرك وصححه، وبعضهم ضعفه: أن رسول الله ﷺ قال: «من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد اشترك في إثمها وعارها». (شعب الإیمان، دارالکتب العلمیة بیروت 4/ ۳۸۹، رقم: 55۰۰، المصنف لابن أبي شیبة، جدید موسسة العلوم القرآن بیروت11/ 338، رقم: 22495، فیض القدیر 11/ 5654، رقم: 8443، بحواله محمودیه ڈابھیل 16/ 86).

والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده علیهم، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل له. (شامي، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فیمن ورث مالا حراما، کراچی 5/ 99، زکریا 7/ 301).

  والله أعلم

تاريخ الرقم: 25/1/1440ه 6/10/2018م السبت

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply