ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر بچے کا انکار

ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر بچے کا انکار

ڈی این اے ٹیسٹ DNA Test کی بنیاد پر بچے کا انکار

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے یا اس سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنا بچہ ماننے سے انکار کر دے اور اس کے پاس زنا کے ثبوت کے لیے شرعی گواہ موجود نہ ہوں اور بیوی اس تہمت سے انکار کرے تو ایسی حالت میں قران میں لعان کا حکم دیا گیا ہے ارشاد باری ہے:

{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ} [النور: 6 – 9]

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور خود اپنے سوا ان کے پاس کوئی اور گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی شخص کو جو گواہی دینی ہوگی وہ یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ بیان دے کہ وہ (بیوی پر لگائے ہوئے الزام میں) یقینا سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ : اگر میں (اپنے الزام میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔

اور عورت سے (زنا کی) سزا دور کرنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا شوہر (اس الزام میں) جھوٹا ہے۔اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ : اگر وہ سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ (سورہ النور : 6-9)

اور اگر ایسی حالت میں شوہر لعان کی جگہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ثبوت پیش کرنا چاہے تو کیا یہ ٹیسٹ لعان کے قائم مقام ہو جائے گا اور اگر اس کے ذریعے تہمت صحیح ثابت ہو جائے تو بچے کا نسب اس سے ثابت نہیں ہوگا؟

جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اگر شادی کے چھ ماہ یا اس کے بعد کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو شوہر سے نسب ثابت مانا جائے گا اور نسب کی نفی کی صرف ایک صورت لعان ہے اور یہ ٹیسٹ لعان کے قائم مقام نہیں ہو سکتا ہے کہ کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت شدہ ایک غیر قیاسی حکم ہے؛ اس لیے اس پر کسی دوسرے کو قیاس کرنا اور کسی ٹیسٹ کو اس کے قائم مقام قرار دینا درست نہیں ہے خواہ ہ وہ کتنا ہی یقینی ذریعہ ہو نیز یہ کہ لعان کی وجہ سے حد ساقط ہو جاتی ہے جبکہ ٹیسٹ کے ذریعے محض بچے کے نسب کی نفی ہوگی چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور عورت نے اس سے انکار کیا اور پھر دونوں نے لعان کیا لیکن اس کے بعد جو بچہ پیدا ہوا وہ شکل و صورت اور قد کاٹھ میں بالکل زانی کے مشابہ تھا اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت پر زنا کی حد نافذ نہیں فرمائی اور لعان کے ذریعے جو حکم ثابت ہوا تھا اسے باقی رکھا اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ” (صحیح بخاري:4747)

اور ایک حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عتبہ نے مرتے  وقت پیغام بھیجا کہ   زمعہ (ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کا باپ) کی لونڈی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے۔ لہذا تم اس کو لے لینا۔ فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ اسے لینا چاہا تو زمعہ کا بیٹا کہنے لگا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں وہ اپنا معاملہ لے کے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سننے کے بعد فرمایا ۔

الولد للفراش وللعاهر الحجر.

“بچہ تو اس کا ہے جس کےبستر پر پیدا ہوا  اور زانی کے لیے پتھر ہے۔”

 لہذا یہ زمعہ کا بیٹا سمجھا جائے گا البتہ  اپنی بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

 “احْتَجِبِي مِنْهُ ” ؛ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ.

” اس سے پردہ کیا کرو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس بچہ کی صورت عتبہ سے ملتی جلتی تھی چنانچہ اس لڑکے نے حضرت سودہ کو کبھی نہیں دیکھا یہاں تک کہ اس کی وفات ہوگئی”۔ (بخارى 2053. كتاب البيوع بات التفسير المشتبهات)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچہ کی شکل و صورت سے یہ معلوم ہو گیا تھا، کہ وہ عتبہ کا ہی بیٹا ہے اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زمعہ کا بیٹا قرار دیا، جس کی لونڈی نے اسے جنا تھا۔ لہذا اگر زوجیت کا رشتہ قائم ہے تو پھر کسی ٹیسٹ کی بنیاد پر نسب کی نفی نہیں ہوسکتی ہے اور اس کے لئے صرف ایک صورت لعان ہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply