ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ثبوتِ نسب
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
شرعی اعتبار سے کسی کا نسب ثابت ہے تو پھر ڈی این اے ٹیسٹ کرانا نہ تو درست ہے اور نہ اس کا کوئی اعتبار اور اس طرح کی کوشش کرنے والوں کو اس سے منع کرنا چاہیے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینى چاہیے اس لیے کہ اسی میں لوگوں کی عزت اور نسب کی حفاظت ہے چنانچہ شرعی طور پر ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے:
الولد للفراش وللاهر الحجر.
اس حدیث میں مزید تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ بچے کی بچہ بالکل زانی کے مشابہ تھا اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زانی کا بیٹا قرار نہیں دیا بلکہ اس سے منسوب قرار دیا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا تھا۔
البتہ اگر کسی بچے کا نسب شرعی طور پر ثابت نہ ہو اور ایک سے زائد لوگ اس کے دعوی دار ہوں یا ہسپتال میں پیدا ہونے والے بچے ایک دوسرے سے خلط ملط ہو جائیں اور شناخت مشکل ہو جائے یا حادثات کی وجہ سے بہت سے بچے یا لوگ وفات پا جائیں اور ان کے گھر والوں کے لیے انہیں پہچان پانا دشوار ہو تو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایسے ہی اگر کوئی شخص اپنے بچے کو زنا کا نتیجہ قرار دے کر بیوی سے لعان کرنا چاہے تو ڈی این اے ٹیسٹ کرا جا سکتا ہے تاکہ اگر عورت کی پاکدامنی ثابت ہو جائے تو شوہر کو لعان نہ کرنے کی ترغیب دی جائے چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا مَسْرُورًا، تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فَقَالَ : ” أَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ الْمُدْلِجِيُّ لِزَيْدٍ وَأُسَامَةَ وَرَأَى أَقْدَامَهُمَا : إِنَّ بَعْضَ هَذِهِ الْأَقْدَامِ مِنْ بَعْضٍ “.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس خوشی و مسرت کے عالم میں داخل ہوئے، آپ کے چہرے کے نقوش دمک رہے تھے، آپ نے فرمایا :کیا تم نے نہیں سنا کہ مدلجی (ایک قیافہ شناس)نے زید اور اسامہ(باپ بیٹے ،جن کے نسب کے متعلق بعض منافقین شک و شبہ کا اظہار کرتے تھے )کے بارے میں کیا کہا؟ جب اس نے ان دونوں کے قدموں کو دیکھا تو کہا: یہ قدم ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ (اس حال میں کہ وہ دونوں سوئے اور ان کے چہرے چادر میں چھپے ہوئے تھے ) (صحیح بخاری: 3555)
اس حدیث کی بنیاد پر مالکیہ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک قیافہ کے ذریعے نسب ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ اقرار و شہادت موجود نہ ہو اور حنفیہ کے نزدیک صرف قیافہ سے نسب ثابت نہیں ہوگا۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” كَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا، جَاءَ الذِّئْبُ، فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لِصَاحِبَتِهَا : إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ. وَقَالَتِ الْأُخْرَى : إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ. فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى، فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ فَأَخْبَرَتَاهُ، فَقَالَ : ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّهُ بَيْنَهُمَا. فَقَالَتِ الصُّغْرَى : لَا تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، هُوَ ابْنُهَا. فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى “.
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو عورتیں کہیں جا رہی تھیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو لے کے چلا گیا ،ان میں سے ایک عورت نے دوسری سے کہا کہ تیرے بیٹے کو لے کے گیا ہے دوسری نے کہا تیرے بیٹے کو لے کے گیا ہے، حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس دونوں اپنا معاملہ لے کر آئیں تو انھوں نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ پھر وہ دونوں حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے پاس سے گزریں اور واقعے کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا چھری لے آؤ میں اسے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان تقسیم کر دیتا ہوں ۔چھوٹی عورت نے کہا :اللہ آپ پر رحم کرے اپ ایسا مت کیجئے،یہ بڑی عورت ہی کا بیٹا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ (صحیح بخاری: 6769)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض فیصلے قرائن کی بنیاد پر بھی کیے جا سکتے ہیں اور حنفیہ کے یہاں بھی قرائن کے ذریعے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ [1] اور جب قیافہ اور قرائن کے ذریعے نسب ثابت ہو سکتا ہے تو ڈی این اے ٹیسٹ تو اس سے بہت بڑھ کر ہے جس میں غلطی کا چانس بہت ہی کم ہوتا ہے۔
حاشيہ
[1] وهي إما البينة إو الإقرار أو اليمين او النكول عنه أو القسامة أو علم القاضي بما يريد أن يحكم به أو القرائن الواضحة التي تصير الأمر في حيز المقطوع به. ( رد المحتار 354/5)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.