hamare masayel

 کافر کے لقطہ کا حکم، لقطہ کا شرعی حکم

 کافر کے لقطہ کا حکم

 سوال: سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ایسی ہیئت کا  ملا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی ہندو کا ہے (گنیش کی شکل کا)، ممکنہ طور پر جن کا ہو سکتا ہے ان سے پوچھا گیا اور جس بستی کا ہوسکتا ہے اس بستی والوں سے بھی معلوم کیا گیا؛ لیکن کوئی دعویدار نہیں نکلا، تقریباً بیس دن ہو چکے ہیں، کیا بیچ کر اسکی قیمت صدقہ کردی جائے؟ یا وہیں رکھ دیا جائے؟ کیا کیا جائے؟ مفتیان کرام سے جواب کی مؤدبانہ درخواست ہے۔

 المستفتی محمد صابر قاسمی بیری ڈیہہ ممبر پاسبان علم وادب۔

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب

  لقطہ (یعنی لا وارث سامان)  کى تشہىر کرنا واجب ہے؛ لہٰذا جہاں وہ چىز ملى ہے اس جگہ اور مواقع اجتماع جیسے بازار اور مساجد کے دروازوں پر اور جہاں جہاں مالک کے ملنے کا احتمال ہو، اعلان کرے۔

اس اعلان کی مدت اکثر حدیث میں ایک سال بیان کی گئی لیکن بعض روایات میں اس کم زیادہ  کا بھی ذکر ہے؛ اس لئے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اتنے دن تشہیر کرے کہ غالب گمان یہ ہوجائے کہ اب مالک نے تلاش چھوڑ دى ہوگى۔

  اگرتلاش بسیار کے باوجود بھی مالک نہ ملے، تو پھر پانے والا شخص اگر غریب ہے، تو وہ اپنے استعمال میں لا سکتا ہے اور اگر وہ خود غریب نہ ہو، تو کسی غریب اورمستحق شخص کو دے دے۔

لقطہ کو واپس اس جگہ نہ رکھے ورنہ گنہ گار ہوگا ۔

اسی طرح اگر کوئی لا وارث چیز دیکھے اور یہ یقین ہو کہ نہ اٹھانے پر ضائع ہو جائے گی تو اسے اٹھالے اور گواہ بھی بنالے، ایسی صورت میں اگر نہیں اٹھائے گا تب بھی گنہ گار ہوگا۔

نوٹ: ایسا لقطہ جس کے بارے میں یقین سے معلوم ہو کہ کسی کافر  کا ہے اس کا حکم یہ ہے تشہیر کے بعد صدقہ نہ کیا جائے بلکہ بیت المال میں جمع کردیا جائے، چونکہ حکومت اسلامیہ نہ ہونے کی وجہ سے بیت المال کا وجود نہیں ہے  اس لیے مجبوراً صدقہ کردیا جائے۔

الدلائل

عن أبی هريرة أن رسول الله ﷺ سئل عن اللقطة، فقال: لا تحل اللقطة من التقط شیئا فلیعرفه سنة، فإن جاء صاحبها فلیردها إلیه وإن لم یأت صاحبها فلیتصدق بها. (سنن الدار قطنی، کتاب الرضاع، دار الکتب العلمیة بیروت 4/ 108، رقم: 4343، نصب الرایة 3/ 705، المعجم الأوسط، دار الفکر 1/ 600، رقم: 2208، الدرایة مع الهدایة اشرفی 2/ 614).

كل لقطة يعلم أنها لذمي، لا ينبغي أن يتصدق ولكن يصرف إلي بيت المال لنوائب المسلمين، كذا في السراجية، (الفتاوى العالمكيرية 290/6).

وأیضا: اللقطة أمانة إذا أشهد الملتقط أن یأخذها لیحفظها فیردّها علی صاحبها. (2/ 291)

وأیضا: إن کان الملتقط محتاجاً فله أن یصرف اللقطة إلی نفسه بعد التعریف، وإن کان الملتقط غنیاً لا یصرفها إلی نفسه ، بل یتصدق علی أجنبي أو أبویه ، أو ولده ، أو زوجته إذا کانوا فقراء. (2/ 291)

وإن کان الملتقط غنیا لم یجز له أن ینتفع بها … و إن کان الملتقط فقیرا فلا بأس بأن ینتفع بها. (هدایه، کتاب اللقطة اشرفی 2/ 617).

وفي البحر الرائق: قوله: وینتفع بها لو فقیراً وإلا تصدّق علی أجنبي، ولأبویه وزوجته، وولده لو فقیرًا، أن ینتفع الملتقط باللقطة بأن یتملکها، بشرط کونه فقیرًا نظرًا من الجانبین کما جاز الدفع إلی فقیر آخر. (5/ 2649)

وفي الدر المختار مع الشامیة: (عرف) أي نادی علیها حیث وجدها، وفي المجامع : (إلی أن علم أن صاحبها لا یطلبها). [در المختار]. وفي الشامیة : لم یجعل للتعریف مدة اتباعا للسرخسي، فإنه بنی الحکم علی غالب الرأي، فیعرف القلیل والکثیر إلی أن یغلب علی رأیه أن صاحبه لا یطلبه وصححه في الهدایة وفي المضمرات والجوهرة، وعلیه الفتوی. (6/ 436) ،کتاب اللقطة، ملتقی الأبحر علی مجمع الأنهر:2/ 225، کتاب اللقطة)

   والله أعلم

17/4/1440ه 25/12/2018م الثلاثاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply