امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب “الثقات” کا تعارف PDF 220 KB
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب “الثقات” کا تعارف
محمد اظہارالحق قاسمی بستوی
نام کتاب: الثقات
مصنف: الامام الحافظ المجود ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان التمیمی الدارمی البستی،
ولادت: 270ھ، وفات 354ھ
کئی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سےصحیح ابن حبان، کتاب الثقات اور کتاب المجروحین کو زیادہ شہرت ہے۔
مصنف کا مختصرتعارف
امام ابن حبان رحمۃ اللہ ائمہ جرح وتعدیل میں سے مانے جاتے ہیں۔اکثر لوگ انھیں توثیق میں متساہل اور جرح میں متشدد مانتے ہیں۔ان كى کتاب ثقات کے موضوع پر اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے؛کیوں کہ بعد والوں نے انھیں سے استفادہ کیا ہے چاہے وہ مزی ہوں، یا ذہبی، يا ابن حجر ، سب نے اس سے مراجعت كى ہے، حافظ ابن حجر نے تہذيب التہذيب ميں بہت سے راويوں كے بارے ميں جگہ بہ جگہ لکھا ہے کہ: ذكره ابن حبان في الثقات. يعنى ابن حبان نے ان كو كتاب الثقات ميں ذكر كيا ہے۔
کتاب کا تعارف
ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب نو جلدوں میں ہے اور اس میں چار طرح کے طبقات کا تذکرہ ہے۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور اتباع تبع تابعین۔اس کتاب کے بارے علامہ سخاوی نے کہا کہ: إنه أحفل کتب الطبقات: کہ طبقات کی کتابوں میں یہ جامع ترین کتاب ہے۔
کتاب کا منہج اور تراجم کاانداز
1۔ابن حبان نے اپنی کتاب کا آغاز سیرت طیبہ کے مفصل تذکرے سے کیا ہےجس میں آپ ﷺ کی ولادت، بعثت، ہجرت سے وصال تک کی تفصیلات ذکر کی ہیں۔
2۔رسول اللہ ﷺ کے مفصل تذکرے کے بعد خلفائے راشدین کا تذکرہ کیا ہے اور حضرت علی کی شہادت کے تذکرے پر اس کی تکمیل کی ہے۔ پھرعشرہ مبشرہ کا تذکرہ کیا ہے۔
3۔ پھر حروف تہجی کی ترتیب پر صحابہ کرام کا تذکرہ کیا ہے کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعد وہی اس امت کے اشرف ترین افراد ہیں۔
4۔پھر حروف تہجی ہى کی ترتیب پر تابعین کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے بالمشافہ اصحاب رسول ﷺ سے استفادہ کیا ہے، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد یہ اشرف ترین لوگ ہیں۔
5۔پھر تبع تابعین کا بهى حروف تہجی کی ترتیب پر تذکرہ کیا ہے۔
6۔ پھر اتباع ِتبعِ تابعین کا بهى حروف تہجی کی ترتیب پر تذکرہ کیاہے۔ ان پر امام ابن حبان کا زمانہ آجاتا ہے۔
7۔ ہر طبقے کے مردوں کے تذکرے کے بعد اس طبقے کی عورتوں کا بھی تذکرہ کیاہے۔
8۔ اسی طرح ہر طبقے کے بعد اس طبقے کے کنیت سے معروف راویوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔پہلے مردوں کا پھر عورتوں کا۔
9۔ راویوں کا تذکرہ کرتے وقت ان کے نام ونسب کنیت اور اساتذہ کابھی تذکرہ کیا ہے۔ بسااوقات ان کی ماؤں کاتذکرہ بھی کیا ہے۔
10۔ تراجم صحابہ میں ان کے اسفار ورحلات کا تذکرہ کیا ہے ، اسی طرح اس بات کا بھی کہ ان سے بصریوں نے روایت کیا ہے یا کوفیوں نے۔اسی طرح ان کے غزوات میں شرکت کوبھی بیان کیا ہے۔
11۔ بعض تراجم میں سنین وفات کا بھی تذکرہ کیا ہے اور سنین وفات کے لیے کلی طور سے امام بخاری پر اعتماد کیا ہے۔
کتاب کی خصوصیات
مصنف کتاب امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں جن راویوں کا تذکرہ کیا ہے ان کے بارے میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ اس میں موجود ہر راوی ثقہ اور قابل احتجاج ہے۔ چناں چہ فرماتے ہیں کہ: اس کتاب میں مندرج اگر کسی راوی کی روایت ضعیف سامنے آجائے تواس حدیث میں مندرجہ ذیل پانچ باتوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی، یعنی وہ راوی تو ثقہ ہوگا اور اس کی روایت میں ضعف مندرجہ پانچ باتوں میں سے کسی وجہ سے ہوگی:
1- یا تو اس روای کے اوپر جس کا نام میں نے اپنی اس کتاب میں روایت کیا ہے کوئی ضعیف راوی ہے جس کی روایت کو بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جاتا۔
2۔ یا اس کے نیچے کوئی کمزور راوی ہو جس کی روایت کو لیناجائز نہیں۔
3۔ یا تو حدیث مرسل ہوگی یعنی تابعی قال رسول اللہ ﷺ کہے گا۔
4۔ یا وہ حدیث منقطع ہوگی۔
5۔ یا راویوں کے درمیان کوئی مدلس راوی گا۔
اگراس روایت میں ان پانچ باتوں میں کوئی بات نہ پائی جائے تو وہ روایت معتبر اور قابل احتجاج ہوگی۔گویا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے راوی کی وجہ سے حدیث ضعیف نہیں ہوگی بل کہ وجہ ضعف مندرجہ بالا پانچ چیزوں میں سےکوئی ہوگی۔ اسی لیے مصنف کے نزدیک جو ثقہ ہیں انھیں اس کتاب میں اور جو ضعیف ہیں انھیں کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
امام ابن حبان کی جرح و تعدیل کے سلسلے میں کچھ اہم آراء
اجمال
سوال: کیا کسی راوی کے سلسلے میں ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اس صورت میں جب کہ کسی اور نے توثیق نہ کی ہو۔
جواب: جی ،بالکل اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ حسب ضرورت ایسے راوی کی بیان کردہ حدیث سے استفاد ہ و احتجاج کر سکتے ہیں۔ حالاں کہ بہت سارے لوگ ان کی توثیق کو اس لائق نہیں مانتے۔
تفصیل
پوری کتاب کا دراسہ کرنےکے بعد پتہ چلتا ہے کہ ابن حبان نے راویوں کی چار قسمیں بیان کی ہیں:
1۔ ایسے راوی جن کا تذکرہ کتاب الثقات میں بھی ہو اور کتاب المجروحین میں بھی ہو۔(اس سے التباس بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کے 184 رجال ہیں۔)
2۔ ایسے راوی جن کی ابن حبان نے توثیق کی ہے مگر دیگر ائمہ رجال نے تضعیف کی ہے۔
3 ۔ ایسے رجال جو عام اصطلاح کے مطابق مجہول العین ہیں۔یعنی جس سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتاہو۔
4 ایسے راوی جو مجہول الحال ہیں یعنی جن سے دو یا دو سے زیادہ لوگ روایت کرنے والے ہوں اور ان کے بارے میں کوئی معتبر توثیق نہ ہو۔
راویوں کی پہلی قسم کو دونوں کتابوں(كتاب الثقات، كتاب المجروحين) میں تذکرہ کرنے کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ایسے راویوں کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ ابن حبان کی رائے بدل گئی ہو۔یا، ہو سکتاہے کہ ابن حبان کو اس کے بارے میں وہم ہو گیا ہو۔ ایسے اوہام ائمہ جرح و تعدیل کے یہاں عام ہیں۔ بخاری وغیرہ کو بھی ہوا ہے۔
راویوں کی دوسری قسم کو انھوں نے ثقہ سمجھا ہے کیوں کہ ہر امام جرح و تعدیل کا اپنا اپنا اجتہاد ہوتا ہے۔ ایک کی وجہ سے ہم دوسرے کو برا نہیں کہہ سکتے۔ معاشرے میں ہر فرد کے بارے میں لوگوں کی آراء مختلف ہیں۔ اس کی بنیاد پر ابن حبان کو متساہل نہیں کہہ سکتے۔امام احمد بن حنبل نے بعض رجال کی توثیق کی اور امام بخاری نے ان کی تضعیف کی۔ اسی طرح دیگر ائمہ جرح و تعدیل نے کیا ہے تو کیا ہم یہ کہیں کہ امام احمد متساہل ہیں؟ یا علی المدینی متساہل ہیں؟ ہر گز نہیں۔ اس کا تساہل اور تشدد سے دور تک لینا دینا نہیں ہے۔ کیوں کہ ایسی بات پر اگر ہم تساہل یا تشدد کادروازہ کھول دیں تو کوئی بھی امام جرح وتعدیل نہیں بچے گا جو اس دروازے میں داخل نہ ہو۔ لہذا ابن حبان کی توثیق کے بارے میں یہ کہا جا ئے گا کہ ہر ایک کا الگ الگ اجتہاد ہے۔ ہم اس کی وجہ سے ابن حبان کو متساہل نہیں کہہ سکتے۔
یہ دو طرح کے راوی ثقات کی قبیل سے ہیں۔
تیسری قسم کے راوی جنھیں ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے وہ عام اصطلاح میں مجہول العین کہے جاتے ہیں۔یعنی جس سے صرف ایک ہی راوی روایت کرنے والا ہو اور اس کی کسی نے توثیق نہ کی ہو۔اس کو مجہول العین کہا جاتاہے۔ اس کے بارے میں بھی یہی کہیں گے کہ یہ بھی ابن حبان کی اپنی اصطلاح ہے اور ایسے راوی کو وہ ثقہ اور لائق استدلال سمجھتے ہیں جب کہ اس سند میں ضعف کی اور کوئی وجہ نہ ہو۔یہ ان کا اپنا اک قاعدہ ہے جس پر انھوں نے عمل کیا ہے ۔کیوں کہ ایک بات مسلم ہے کہ : الأصل في الراوی العدالة: کہ کسی راوی کے اندر اس کا عادل ہونااصل ہے جب تک اس پر کسی نے جرح نہ کی ہو۔ تو اگر کسی راوی کے حالات نہیں ملے اور اس سے روایت کرنے والے زیادہ نہ ملے ہوں تو اس میں اس راوی کی کوئی خطانہیں ہے۔ اسی لیے ابن حبان نے المسلم کلھم عدول کے قاعدے پر عمل کرتے ہوئےان راویوں کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ ان کا اپنا ایک ضابطہ ہے کہ وہ مجہول العین کو ثقہ مانتے ہیں اس سے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ وہ متساہل ہیں۔
اس معاملے میں اگر ہم دیکھیں تو مجہول العین کو لائق اعتبار سمجھنے میں ابن حبان اکیلے نہیں ہیں۔ بل کہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان کی تائید کی ہے۔ انھوں نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ مجہول راوی سے جب کوئی ثقہ راوی روایت کرے اور اس کی تعدیل کردے اگر چہ وہ اکیلا ہو تو اس مجہول کی عدالت ثابت ہو جائے گی اور اس کی جہالت دور ہو جائے گی۔ چوں کہ روایت پر عمل کرنے کے لیے اور اس سے احتجاج کے لیے راوی کا عادل ہونا ضروری ہے اس لیے جب ایک ثقہ راوی اس سے روایت کرلے اور حدیث میں اور کوئی سقم نہ پیدا ہو کہ نہ وہ منقطع ہو،نہ مرسل ہو، نہ اس میں تدلیس ہو تو وہ لائق احتجاج وعمل ہے اگر چہ وہ مجہول ہے عام اصطلاح کے مطابق۔ ابن حبان اور ابن قیم اس کو مجہول نہیں مانتے۔ اور یہ ابن حبان کی شرط کے مطابق ہے کیوں کہ ابن حبان کے نزدیک ثقہ وہ ہے جس میں کوئی منکر بات (مذکورہ پانچوں میں سے کوئی ) نہ پائی جائے۔
چوتھی قسم کے راوی جنھیں ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے وہ عام اصطلاح میں مجہول الحال کہے جاتے ہیں۔مجہول الحال راوی وہ ہےجس سے دو لوگ یا اس سے زیادہ لوگ روایت کریں اور کسی امام نے توثیق نہ کی ہو تو وہ بھی ابن حبان کے یہاں ثقہ ہے۔ یہ بھی ان کا اپنا ضابطہ ہے۔ محل اعتراض نہیں ہے۔
نمبر تین اور چار کے بارے میں علماء کے اختلافات ہیں۔ بعض لوگ مطلقا ثقہ مانتے ہیں کہ ابن حبان نے جو کہا با لکل صحیح ہے۔ ان کی روایت قابل احتجاج ہے۔ بعض لوگ اس کو مطلق ناقابل قبول مانتے ہیں۔ ان میں سے معلمی، البانی، بشارعواد وغیرہ ہیں اور جو اس فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ ان کی اپنی اصطلاح اور ان کا اپنا ضابطہ ہے لہذا ان پر انگلی اٹھانا وغیرہ ناانصافی ہے۔ اور ان پر تشدد یا تساہل کا الزام لگانا بھی بعید از قیاس ہے۔ ہاں اگر ان کے بیان کردہ راوی میں بعد میں کوئی خرابی آئی ہو جو ابن حبان کے سامنے نہیں تھی تو ایسے راوی کو ضعیف مان لیا جائے گا۔ جیسے ذہبی اور ابن حجر نے کیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ابن حبان کی ساری توثیق کو مان لیا ہو اور ایسا بھی نہیں ہے کہ بالکلیہ رد کر دیا ہوآج کل کے لوگوں کی طرح۔بل کہ انھوں روایوں کی مزید تتبع و تلاش کیا اور یہ بھی دیکھا کہ روایوں کا زمانہ امام ابن حبان سے کتنا قریب یا دور ہے یا ان کے شہر کا ہے یاٍ نہیں۔
ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کی وجوہات
1۔ کسی راوی سے دو لوگوں کا روایت کرنا یا اس سے زیادہ کا روایت کرنااس سے جہالت دورہو جاتی ہے اور ثقاہت ثابت ہو جاتی ہے۔ کما ذکرنا قول ابن القیم رح۔
2۔ جب راوی کی حدیث میں کوئی منکر چیز نہ ہویعنی اس کی جرح ثابت نہ ہو یا پھر روایت میں کوئی سقم نہ ہو تو اصل قاعدہ یعنی الاصل فی الراوی العدالۃ پر عمل کرتے ہوئےہم راوی کو ثقہ مانیں گے۔
3۔ اہم چیز یہ ہے کہ ایسے ہی مجہول الحال لوگوں کو امام بخاری اور مسلم نے بھی اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔جیسے ایک راوی ہیں جعفر بن ابو ثور۔یہ مسلم کے راوی ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے الوضوء من أکل لحوم الإبل کی روایت کرتے ہیں۔ ان سے عثمان بن عبداللہ بن موہب، اشعث بن ابی الشعثاء اور سماد بن حرب یہ تین راوی روایت کرتے ہیں اور دوسرا کوئی ان سے روایت نہیں کرتا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جعفر کی توثیق کسی نے نہیں کی ہے صرف ابن حبان نے کی ہے۔اگر اس راوی کی حدیثیں ناقابل احتجاج ہوتیں تو امام مسلم اپنی کتاب میں ان کوکیوں جگہ دیتے۔ یہ غور کرنے کی چیز ہے۔ پھر ہم ابن حبان کی توثیق اور ان کے منہج کی تردید کیسے کر سکتےہیں کہ مجہول الحال ناقابل احتجاج ہے۔
دوسرے راوی ہیں ابو سعیدمولی عبداللہ بن عامر بن کریز، یہ بھی مسلم کے راوی ہیں اور مجہول الحال ہیں۔ ابو ہریرہ سے لا تحاسدوا ولا تناجشوا۔۔۔ والی روایت نقل کرتے ہیں۔ان سے داؤد بن قیس، علاء بن عبد الرحمن اور محمدبن عجلان وغیرہ روایت کرتے ہیں لیکن ان کی توثیق بھی صرف ابن حبان نے کی ہے۔کسی اور نے نہیں کی ہے۔ پتہ یہ چلا کہ اس طرح کے رجال بخاری اور مسلم میں بے شمار ہیں۔بل کہ صحیحین میں تو ایسے بھی رجال ہیں جن کی توثیق ابن حبان تو کیا کسی نے بھی نہیں کی ہے۔صرف امام مسلم وبخاری نے اپنی جلالت شان اور علمی درایت اور تبحر کی وجہ سے ان کو ذکر کیا ہے۔
اس سے پتہ چلا کہ ابن حبان کی توثیق کا اعتبار ہے۔ ورنہ ان کے توثیق کردہ راوی کو صحیحین میں جگہ نہ ملتی۔ اور ان پر تشدد اور تساہل کا الزام لگانا سراسر ناانصافی ہے۔
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب “الثقات” کا تعارف PDF 220 KB
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.