حل (سلسلہ نمبر: 662)
ہبہ قبضہ کے بعد تام ہوتا ہے
سوال: صابرہ ماں کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے، صابرہ ماں کا انتقال 20 ستمبر 2020 میں ہوا، ان کی تین بہنیں ہیں اور دو بھائی ہے، صابرہ ماں کی کوئی اولاد نہیں، صابرہ ماں نے ان کے بھائی افضل چھاپرہ کی بیٹی اسماء کو گود لیا اور اسماء بچپن سے ہی اس کے ساتھ رہتی تھی، صابرہ ماں کے گزرنے کے پانچ سال پہلے،صابرہ ماں نے یہ طے کیا تھا کہ اپنا گھر اسماء کے نام کردے،جس کے لیے ان کے اپنی بھائی افضل چھابڑا اور دو گواہ آصف لکڑا والا اور فاروق پاٹن والا جو صابرہ ماں کے پڑوسی بھی ہیں، یہ تینوں گھر مالک کے پاس یہ بات کرنے گئے تھے،تب گھر مالک نے دس لاکھ کی مانگ کی تھی اور چھ لاکھ میں طے ھوگیا،گھر مالک نے یہ کہا کہ صابرہ ماں کے گزرنے کے بعد اسماء چاہیں تو آکر رہ سکتی ہیں اور اگر نہیں رہتی تو اس گھر کو ایک سال میں بیچ دے، جو گھر مالک کو چھ لاکھ روپیہ دیے گئے، وہ رقم صابرہ ماں نے خود اپنی رقم سے دیے تھے اور جو رقم باقی بچی تھی، وہ ان کے سگے بھائی افضل چھابڑا کے پاس رکھی ہوئی تھی، جس کی آمدنی سے چھابڑا ماں کا خرچہ چلتا تھا،صابرہ ماں نے خود حیاتی اور تندرستی میں اپنے بھائی افضل چھابڑا کو وکیل بناکر ذمہ داری دئے تھے، کہ میرے مرنے کے بعد یہ رقم اسماء کی ہے اور اپنی حیاتی ہی میں وہ اپنے لوگوں سے یہ کہتی تھی، کہ میرا سب کچھ اسماء اور اس کے بچوں کا ہے، ساری باتوں کا گواہ ان کے سگے بھائی افضل چھاپرہ اور افضل چھاپرہ کی بیوی شاھدہ چھاپرہ اور صابرا ماں کے جیٹھ کے لڑکے افضل مرچن ہیں، صابرہ ماں زندگی کے آخری تین سال اسماء کے ذاتی گھر میں تھی اور اس وقت صابرہ ماں کا گھر اور زیورات اسماء کے قبضے ہی میں تھے اور ہر مہینے جو ان کے بھائی افضل چھاپرہ پیسہ بھیجتے تھے، وہ بھی اسماء کے پاس ہی رکھے تھے، اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اس پروپرٹی کا مالک کون ہے، اسماء یا وارث؟
المستفتی: ریاض چھابڑا ۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ سے معلوم ہوا کہ صابرہ ماں نے اپنی زندگی ہی میں اپنا گھر اسماء کو دیدیا تھا اور اس پر اسماء کا قبضہ بھی ہوگیا تھا، اس لئے اب یہ پراپرٹی صرف اسماء کی ہے اس میں صابرہ ماں کے کسی وارث کا کوئی حق نہیں ہے۔
نوٹ: اس سے متعلق سوال اس سے پہلے بھی آیا تھا، اگر سوال کی نوعیت کے بارے میں فریقین کا اختلاف ہو تو متفقہ سوال بھیجیں۔
الدلائل
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها. (الدر مع الرد: 5/ 690).
وتتم بالقبض الکامل لقوله علیه الصلاۃ والسلام: لا تجوز الهبة إلا مقبوضة. (مجمع الأنهر: 3/ 491).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
13- 10- 1442ھ 26- 5- 2021م الأربعاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.