40 hadees in urdu

40 Hadees In Urdu, 40 Ahadees, 40 Hadith In Urdu

حديث نمبر 1:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى الله عنه سے روایت ہے، کہتے ہیں: میں نےرسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا : اے اللہ کے رسول! اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زياده پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ: کون سا عمل اورکام سب سے بہتر ہے؟ آپ نے جواب دیا: نماز اس کے صحيح وقت پر، میں  نےپوچھا پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، پھر میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔[1]

حديث نمبر 2:

حضرت عمر بن خطاب رضى الله عنه سے روایت ہے، کہتے ہیں كہ: میں نے حضور صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: تمہارے پاس اویس بن عامر اپنے جاں نثاروں اور چاہنے والوں کے ساتھ آئیں گے، جن کا تعلق یمن کے قبیلہ مراد اور قرن سے ہے، ان کو برص کی بیماری ہوگی جس سے وہ شفا یاب ہو جائيں گے، مگر ان کی بیماری ایک درہم کے بقدر باقی رہ جائے گی، وہ اپنی والدہ کے فرماں بردار ہىں، اگر وہ کسی چیز کے بارے میں الله كے بھروسے پر قسم کھالىں تو اللہ تعالی اس کو ضرور پورا کریں گے، اے عمر! اگر تم ا ن سے اپنی مغفرت کی دعا کرا سکو تو ضرور کرانا۔[2]

حديث نمبر 3:

حضرت ابن عمررضى الله عنہما سے روایت ہے: ایک شخص نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے، کیا اس سے توبہ کی کوئی شکل ہے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تمہاری والدہ باحیات ہیں؟ ایک دوسری روایت میں اس طرح کے الفاظ ہیں کہ: تمہارے والدین حیات ہیں؟ اس نے کہا نہیں، آپصلى الله عليه وسلم  نے اس سے پوچھا : تمہاری خالہ زندہ  ہیں؟  اس نے جواب دیا ہاں، اس پر آپ صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا: خالہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اس سے تمہارے گناہ کا کفارہ ہو جائے گا۔[3]

حديث نمبر 4:

حضرت انس بن مالک رضى الله عنه سے روایت ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا:  جو شخص اپنی عمر ميں درازی اور رزق میں برکت کا خواہش مند ہو اس کو چاہئے کہ والدین کے ساتھ بھلائی اور صلہ رحمی کرے۔[4]

 حديث نمبر 5:

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضى الله عنه سے روایت ہے، کہتے ہیں ہم ایک بار رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک آپصلى الله عليه وسلم  نے فرمایا: قطع رحمی کرنے والا ہماری مجلس سے اٹھ كر چلاجائے، آپ کی بات سن کر ایک نوجوان مجلس سے چلا گیا، وہاں سے چل کر وہ اپنی خالہ کے پاس آیا، دونوں کے درمیان كچھ خفگى اور ناراضگی تھی، دونوں نے ایک دوسرے سے معافی تلافی کی، اتنا ہونے کے بعد وہ نوجوان آپ کی مجلس میں واپس آگیا، آپصلى الله عليه وسلم  نے اسے دیکھ کر فرمایا: وہ قوم یا وہ جماعت اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتی ہے جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا موجود ہو۔[5]

  حديث نمبر6:

حضرت انس بن مالک رضى الله عنه سے روایت ہے، کہتے ہیں: رسول اللہصلى الله عليه وسلم   نے ارشاد فرمایا: جب کسی نافرمان  کے والدین کا انتقال ہو جاتا ہے،   پھر وہ ان کے لیے برابر مغفرت کی دعا کرتا رہے، تو اس  دعاکی برکت سے اللہ تعالی اس کو فرماں بردار  میں شمار کر تے ہیں۔[6]

  حديث نمبر 7:

حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا تو اسے تعجب ہوگابالآخر وه اللہ تعالی سے پوچھ پڑے گا:اے اللہ! میرے اعمال تو اس لائق نہیں تھے پھر میرے اوپر اتنی كرم فرمائى کیوں ہے؟ تو اسے بتایا جائے گا کہ یہ تیرے بیٹے کا تیرے لیے دعائے مغفرت کا كرشمہ ہے۔[7]

  حديث نمبر 8:

حضرت عبد اللہ بن عمررضى الله عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: انسان کے مرنے کے بعد اس کے نیک عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کی وجہ سے  عمل كا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور مرنے کے بعد بھی اس کو برابر ثواب ملتا رہتا ہے، وہ چیزیں یہ ہیں: (۱) صدقہ جاریہ، (۲) علمِ نافع (۳) نیک لڑکا جو اس کے لیے دعا کرتا رہے۔[8]

 حديث نمبر 9: 

حضرت عبد اللہ بن دیناررحمہ الله حضرت عبد اللہ بن عمر رضى الله عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے  راستے میں عبد اللہ بن عمر سے ایک دیہاتی کی ملاقات ہو گئی، عبد اللہ بن عمر نے اس کو سلام کیا، اور اپنی سواری پر بٹھایا، اور اس كے اعزاز واکرام میں اپنا عمامہ اس کے سر رکھ دیا،  حضرت عبد اللہ بن دینار کہتے ہیں: ہم حضرت عبد اللہ بن عمر سے کہنے لگے: حضرت آپ نے اتنی زحمت کیوں کی،یہ دیہاتی لوگ ہیں تھوڑى سى ہمدردى،سلام وکلام، اور دو مىٹھے بول  ہی سے خوش ہو جاتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا: اس کے والد میرے والد سے بہت محبت کرتے تھے، اور مجھے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وه حدیث ابھی تک یاد ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے: سب سے بڑی نیکی بیٹے کا اپنے والد سے محبت كرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے۔[9]

 حدىث نمبر 10:

حضرت عبد الله بن عباس رضى الله عنہما سے روایت ہے حضور صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے والدین کو رحمت کی نگاہ سے دیکھے گا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اسے حجِ مبرور ومقبول کا ثواب عطا کریں گے۔[10]

 حديث نمبر 11:

حضرت عائشہ رضى الله عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: تین چیزوں کی طرف دیکھنا عبادت ہے: ماں باپ کے چہرے کی طرف، قرآن کی طرف، اور سمندر کی طرف۔[11]

 حديث نمبر 12:

حضرت عائشہ رضى الله عنہا فرماتی ہیں کہ: ایک شخص نبی کریم صلى الله عليه وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھے بزرگ بھی تھے، آپ صلى الله عليه وسلم  نے اس سے پوچھا  كہ: تمہارے ساتھ ان كا كىا رشتہ ہے؟ اس نے کہا یہ میرے والد ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم  نے فرمايا: بہت خوب، لىكن برخوردار! ادب کا تقاضا یہ ہے کہ تم ان سے آگے آگے نہ چلو، بیٹھنے میں ان سے پہل نہ کرو، اور نہ ان کو ان کے نام سے پکارو، اور کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے لوگ انہىں گالی دیں۔[12]

 حديث نمبر 13:

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  کے زمانے میں ایک نوجوان اپنے لنگڑے ماں باپ کو اپنے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجدِ نبوی میں لے جایا کرتا تھا، کچھ دنوں کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم  نے لوگوں سے پوچھا کہ: بھئی کیا بات ہے آج کل وہ دونوں لنگڑے بیچارے مسجد میں نہیں دکھائی دے رہے ہیں؟ لوگوں نے آپ صلى الله عليه وسلم  کو بتایا کہ ان کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے، وہی ان کو یہاں لایا کرتا تھا، اب کون لے کر آئے، اس پر آپ صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا: اگر کوئی کسی کے لیے دنیا میں زندہ رہتا تو ان دونوں معذوروں کا بیٹا ضرور ان کےلیے دنیا میں زندہ رہتا۔[13]

 حديث نمبر 14:

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضى الله عنه سے روایت ہے: ایک بار رسول اللہ صلى الله عليه وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے، اور تین بار قسم کھا کر منبر سے نیچے اتر آئے اور فرمانے لگے: تم سب کے لیے ایک خوش خبری ہے: جو شخص پانچوں نمازوں کو پابندی كے ساتھ پڑھے گا، اور کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے بچے گا تو وه جنت میں جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے گا۔ اسی روایت کے ایک راوی مُطَّلِبْ کہتے ہیں: میں نے ایک آدمی کو عبد اللہ بن عمرو سے پوچھتے ہوئے سنا تھا کہ: کیا آپ صلى الله عليه وسلم  نے ان کبیرہ گناہوں کو بیان بھی کیا تھا؟ تو حضرت عبد الله بن عمرو رضى الله عنه  نے جواب دیا ہاں، اور وہ کبیرہ گناہ یہ ہیں: والدین کی نافرمانی، شرک، ناحق قتل، پاک دامن عورت پر تہمت، یتیم کے مال کو  ناجائز طریقے سے کھانا، لڑائی کے دن میدانِ جنگ سے بھاگنا، اور سود کھانا ۔[14]

 حديث نمبر 15:

حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالی نے ساتویں آسمان کے اوپر سے سات بار لعنت بھیجی ہے، اور اس لعنت کو ایک آدمی کے لیے تین بار دہرایا ہے، اور ان میں سے ہر ایک آدمی پر تین بار لعنت بھیجی ہے، او ر ان لعنتوں میں سے صرف ایک ہی لعنت آدمی کی ہلاکت کے لیے کافی ہے، اور وہ لعنتیں یہ ہیں:  اللہ تعالی فرماتا ہے: وہ شخص ملعون ہے جس نے لواطت جیسے فعلِ شنیع کا ارتکاب کیا، وہ شخص ملعون ہے جس نے لواطت جیسے فعلِ شنیع کا ارتکاب کیا،وہ شخص ملعون ہے جس نے لواطت جیسے فعلِ شنیع کا ارتکاب کیا،وہ شخص ملعون ہے جس نے جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا، وہ شخص ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے۔ [15]

 حديث نمبر 16:

حضرت زبیر بن عوام رضى الله عنه فرماتے ہیں: تورات میں یہ بات لکھی ہوئى ہے کہ: اپنے باپ کو گالی دینے والا ملعون ہے، اور سنگِ میل کو بدلنے والا ملعون ہے، اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو گمراہ کرنے والا بھی ملعون ہے۔ [16]

 حديث نمبر 17:

حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا:  چار لوگ ایسے ہیں کہ اگر اللہ تعالی ان کو جنت میں داخل نہ کرے، اور نہ ہی جنت کی کوئی نعمت ان کو چکھنے کے لیے دے تو وہ اپنے فیصلے میں حق بجانب ہوگا، وہ چار لوگ یہ ہیں: (۱) شراب کا  رسیا، (۲) سود کھانے والا،  (۳) ناحق کسی یتیم کا مال کھانے والا (۴) ماں باپ کا حکم نہ ماننے والا۔ [17]

 حديث نمبر 18:

حضرت علی رضى الله عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: والدین کی نافرمانی سے بچو، کیونکہ والدین کی نافرمانی کرنے والا، اور قطع رحمی کرنے والا، اور بوڑھا زانی، اور تکبر سے اپنے تہ بند یا پاجامہ یا پتلون کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا ہرگز جنت كى خوشبو نہىں پا سكتا، جب کہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے  ہی محسوس کی جاتی ہے، بڑائى اللہ کی شان ہے جو کسی بھی بندے کے لیے جائز نہیں۔ [18]

 حديث نمبر 19:

حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی نماز اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوتی جس کے ماں باپ اس سے ناراض ہوں، الا یہ کہ ماں باپ اس پر جبر وتشدد اور ظلم وزیادتی کر رہے ہوں۔ [19]

 حديث نمبر 20:

حضرت زید بن ارقم رضى الله عنه سے روایت ہے، کہتے ہیں:  رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس آدمی کی صبح اس حالت میں ہو کہ اس کے والدین اس سے راضى ہوں تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دئىے جاتے ہیں، اور جس آدمی کی صبح اس حالت میں ہو کہ اس کے ماں باپ ناراض ہوں تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھول دئىے جاتے ہیں، کسی نے کہا: اگر چہ ماں باپ ظلم کریں؟ آپ صلى الله عليه وسلم  نےجواب ديا: ہاں اگرچہ ماں باپ ظلم کریں، اس جملہ كو آپ نے تين بار دہرايا۔[20]

 حديث نمبر 21:

حضرت ابن عمر رضى الله عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں:  رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا، اپنے والد کی قرابت داری اور ان کی محبتوں کاپاس ولحاظ رکھو، ان سے رشتہ ناتا نہ توڑو، ورنہ اللہ تعالی تمہارے نور کو بھی بجھا دیں گے، یعنی تمہارا بھی کوئی دوست وساتھی نہیں رہے گا،تم تنہا اور اکیلے رہوگے۔ [21]

 حديث نمبر 22:

حضرت انس رضى الله عنه سے روایت ہے کہتے ہیں: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشادفرمایا: اگر نافرمان بیٹے کے ماں باپ یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے اور یہ بیٹا ان کے لیے برابر دعا واستغفارکرتا رہے تو اللہ اس کو فرماں بردار بندوں میں لکھ دیتا ہے۔ [22]

 حديث نمبر 23:

حضرت ابن عباس رضى الله عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا:  جس نے کسی نبی کو قتل کیا، ياکسی نبی نے اس کو قتل کیا، یا جس نے اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو قتل کیا،اسی طرح جان داروں كى تصویر بنانے والے، اور ایسا عالم جس کے علم سے لوگوں كو نفع نہ پہنچے، ایسے لوگ قیامت كے دن دوسرے گنہگاروں کے مقابلہ میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ [23]

 حديث نمبر 24:

حضرت انس رضى الله عنه سے روایت ہے کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نکاح کا حکم دیتے تھے، اور تبتل(شادى كے بغير رہنا)  اور رہبانیت (سب كچھ چھوڑ چھاڑ  كے الگ ہو جانا) سے سختی کے ساتھ منع کرتے تھے، اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ: محبت کرنے والی اور بکثرت بچہ جننے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن دوسرے نبيوں  پر فخر کرونگا۔ [24]

 حديث نمبر 25:

حضرت معقل بن یسار رضى الله عنه سے روایت ہے کہتے ہیں: ایک آدمی نبی کریم صلى الله عليه وسلم  کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول!میں ایک عورت سے بہت محبت کرتا ہوں جو انتہائی خوبصورت ہے لیکن اس سے بچے پیدا نہیں ہوتے، کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ نے جواب دیا نہیں، اس نےدوبارہ حاضرِ خدمت ہو کر اپنا مدعا بیان کیا آپ نے پھر اس کو منع کردیا، تیسری بار جب وہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس سے فرمایا: محبت كے ساتھ ساتھ بچہ جننے والی عورتوں سے نکاح کرو، میں تمہاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔[25]

 حديث نمبر 26:

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا:  بہت زیادہ بچہ جننے والی عورتوں سے نکاح کرو، میں تمہاری وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ [26]

 حديث نمبر 27:

حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے، رسول الله صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمايا: مرنے کے بعد جب آدمی کے درجات کو بلند کیا جاتا ہے تو اسے بڑی حیرت ہوگى بالآخر وہ اللہ تعالی سے پوچھ پڑے گا كہ:  اے اللہ! میرے اعمال تو اس لائق نہیں تھے اس کے باوجود میرے اوپر اتنی کرم فرمائی کیوں ہے؟ اللہ تعالی اس کو جواب دیں گے کہ: تیرے مرنے كے بعد تىرے لڑکے نے تيرى مغفرت اور بخشش کے لیے بہت دعائیں کی تھیں،یہ اسی کا ثمرہ ہے۔ [27]

 حديث نمبر 28:

حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے: نبی کریم صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کے تین نابالغ بچے مر جائیں وہ جہنم میں نہیں جائے گا، اور اگر چلا بھی جائے تو بس اتنی دیر کے لیے جائے گا جس سے اللہ تعالی  كى قسم پوری ہو جائے۔[28]

 حديث نمبر 29:

حضرت ابو ہریرہ  رضى الله عنه سے روایت ہے کہتے ہیں: ایک عورت اپنی گود میں ایک بچہ کو لے کر حضور صلى الله عليه وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: اے اللہ کے نبی! اس بچے کی درازئى عمر کے لیے دعا فرمائیں، اس سے پہلے تین بچوں کو کھو چکی ہوں، آپصلى الله عليه وسلم  نے تعجب سے اس سے پوچھا: تین بچوں کو؟ اس نے کہا: ہاں، تو آپصلى الله عليه وسلم  نے اس سے کہا: تب تو نے اپنے لیے جہنم سے بچنے کے لیے ایک بہت مضبوط ڈھال بنا لی ہے۔[29]

 حديث نمبر 30:

حضرت معاویہ بن قرۃ رضى الله عنه  اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: نبی کریم صلى الله عليه وسلم  کے پاس ایک آدمی آیا کرتا تھا، اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی ہوتا تھا، ایک مرتبہ آپ نے اس سے کہا: لگتا ہے تم اپنے لڑکے سے بہت محبت کرتے ہو اسی لیے ہمیشہ اپنے ساتھ ہى رکھتے ہو، اس نے کہا: ہاں اے الله كے رسول، اللہ تعالی آپصلى الله عليه وسلم  سے بھی اتنی محبت کریں جتنی میں اس بچے سے کرتا ہوں، پھر ایسا ہوا کہ کچھ دنوں تک آپصلى الله عليه وسلم  نے اس بچے کو آدمی کے ساتھ نہیں دیکھا تو آپصلى الله عليه وسلم   کو تشویش ہوئی، آپ نے اس آدمی سے پوچھا: کیا بات ہے تمہارا لڑکا آج کل نظر نہیں آرہا ہے؟ اس سوال پر اس كى  آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے اور زبان سے ايك لفظ بھى ادا نہ ہو سكا، لوگوں نے بتایا: حضور! اس كے بچے کا انتقال ہو گیا ہے، آپ صلى الله عليه وسلم کو بھی اس خبر سے بڑا دکھ ہوا، اور اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم جنت کے جس دروازے پرجاؤ  ، وہ تمہارا انتظار کرتے ہوئے وہاں تم کو مل جائے؟ اس آدمی نے کہا: میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے، لیکن کیا یہ میرے لیے خاص ہے یا ہر مسلمان کے لیے؟ آپصلى الله عليه وسلم  نے فرمایا:  نہیں ہر مسلمان کے لیے  ہے، ہر مسلمان کا نابالغ فوت شدہ بچہ جنت کے ہر دروازے پر اس کا منتظر رہے گا۔[30]

 حديث نمبر 31:

حضرت انس رضى الله عنه  سے روایت ہے کہتے ہیں: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنی دو  بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش كى،  اوران كى  کفالت کا بیڑا اٹھایا یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں یعنی ان كى شادى بياه ہو جائے، اور وہ اپنے گھر کی ہو جائیں تو میں اور وہ شخص قیامت کے دن ساتھ ساتھ رہیں گے، پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر کہا:  بالکل اسی طرح جس طرح یہ میری دونوں انگلیاں آپس میں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ [31]

 حديث نمبر 32:

حضرت عائشہ رضى الله عنہاسے روایت ہے کہتی ہیں: ایک عورت میرے پاس اپنی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ کھانے کی کوئی چیز مانگنے کے لیے آئی، اتفاق سے اس وقت گھر میں سوائے ایک کھجور کے کچھ اور نہ تھا، میں نے وہ کھجور اس کو دے دی، اس نے اس کھجور کو آدھا آدھا کرکے دونوں بیٹیوں کو کھلا دیااور خود اس کھجور کو چکھا بھی نہیں، پھر وہ اپنی بچیوں کو لے کر چلی گئی، اس کے جانے کے  معًا(فورا) بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  تشریف لائے، میں نے آپصلى الله عليه وسلم  سے اس عورت کا پورا واقعہ بیان کیا، اس کے قصہ کو سن کر آپ نے فرمایا: جو بھی ان بچیوں کے ساتھ آزمائش سے گذرے، فاقہ اور تنگ حالی کے دور میں بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو بچیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ ثابت ہوں گی۔[32]

 حديث نمبر 33:

حضرت عوف بن مالک رضى الله عنه  سے ایک اور روایت ہے کہتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس آدمی کے پاس تین بیٹیاں ہو اور وہ ان کی اچھی طرح سے پرورش کرے یہاں تک کہ وہ سب اس سے جدا ہوجائیں، یا انتقال کر جائیں تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے ڈھال بن جائیں گی، كسى عورت نے آپ سے پوچھا: اے الله كے رسول اگر دو بيٹياں ہوں تب بھى يہ فضيلت حاصل ہوگى؟ آپ نے كہا: ہاں، دو ہوں تب بھى۔[33]

 حديث نمبر 34:

عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضى الله عنه سے(ايك  روایت ہے)، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  نے ارشاد فرمایا: جب بچے سات سال کے ہوں جائیں تو ان کو نماز پڑھنے کے لیے کہو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کرو، اور ہر بچے کا بستر الگ الگ کردو۔ [34]

 حديث نمبر 35:

حضرت انس رضى الله عنه سے روایت ہے کہتے ہیں: ایک آدمی آپ صلى الله عليه وسلم  کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھااچانک اس کا چھوٹا بچہ کہیں سے آگیا، اس بچے کو بوسہ دیا اور اپنی گود میں بیٹھا لیا، کچھ دیر کے بعد اس کی چھوٹی بچی بھی آگئی، اس آدمی نے بچی کو بوسہ دئىے بغیر بجائے گود میں بیٹھانے کے اپنی بغل میں بیٹھا لیا، آپصلى الله عليه وسلم  کو اس کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی، اور اس آدمی سے کہا: تم نے دونوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔[35]

 حديث نمبر 36:

حضرت ابو سفیان رضى الله عنه کی بیوی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے آکر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول ابو سفیان بہت كنجوس آدمی ہیں، وہ مجھے اتنا روپیہ پیسہ نہیں دیتے جس سے میری اور میرے بچوں کی جائز ضروریات پوری ہو جائیں، تو میں ضرورت کے بقدر ان کی جیب سے پیسہ نکال لیتی ہوں، میرا ایسا کرنا گناہ تو نہیں ہے؟آپ نے فرمایا: ضرورت کے بقدر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں  اس سے زیادہ نہ ہو۔[36]

 حديث نمبر 37:

حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه سے روایت ہے کہتے ہیں:  رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ اپنے رشتوں کو جوڑے ركھے، اور جو اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۔[37]

 حديث نمبر 38:

حضرت انس رضى الله عنه سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : صدقہ اور صلہ رحمی سے اللہ تعالی آدمی کی عمر میں برکت دیتے ہیں، اور دردناک موت کو دور کر دیتے ہیں، اور ہر طرح کی مصیبت وپریشانی سے چھٹکارا دے دیتے ہیں۔[38]

 حديث نمبر 39:

حضرت ابو ایوب انصاری رضى الله عنه سے روایت ہے:  کسی سفر میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو ایک دیہاتی ملا، اس نے آپ کى اونٹنی کی لگام کو پکڑ کر کہا: اے محمد! مجھے کچھ ایسے چھوٹے موٹے کام بتاؤ جو مجھے جنت سے قریب کردیں، اور جہنم سے دور کردیں، اس کی بات سن کر آپ صلى الله عليه وسلم  ٹھہر گئے، پھر ایک نظر اپنے ساتھیوں پر ڈال کر کہا: اس دیہاتی کو اللہ کی طرف سے ایمان کی توفیق مل گئی، یا اس کو ہدایت مل گئی، دیہاتی نے کہا: آپ کیا کہہ رہے ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے دوبارہ دوہرایا، اس کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اگر تیری ىہى خواہش ہے تو تو صرف اللہ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ، زکاۃ دے، اور صلہ رحمی کر، اور میری اونٹنی کی لگام کو چھوڑ دے، اگر تو نے میری بتائی ہوئی باتوں پر عمل کیا تو تو ضرور جنت میں جائے گا۔[39]

 حديث نمبر 40:

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  کا ارشاد ہے کہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے لیے سب سے بہتر ہو، اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہترہوں۔[40]

 


حواله جات

[1] أخرجه البخاري في ;صحيحه: (2782)، ومسلم في ;صحيحه: (85).

[2] أخرجه مسلم في ;صحيحه: (2542).

[3] أخرجه الترمذي في ;سننه: (1904م)، ابن حبان في ;صحيحه: (435)، والحاكم في ;المستدرك: (7261) وقال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه، ووافقه الذهبي في تلخيصه.

[4] رواه الإمام أحمد في ;مسنده: (13401). قال الهيثمي في ;المجمع: (8/136): رواه أحمد، ورجاله رجال الصحيح.

[5] رواه ابن عساكر في ;تاريخ دمشق: (20/ 167).

[6] رواه البيهقي في ;شعب الإيمان: (7523).

[7] أخرجه ابن ماجه في ;سننه: (3660)، والإمام أحمد في ;مسنده: (10610)، والبيهقي في ;السنن الكبرى: (13459). قال البوصيري في ;مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: (4/ 98): هذا إسناد صحيح رجاله ثقات.

[8] أخرجه الإمام مسلم في صحيحه (1631)، وأبو داود في سننه  (2880).

[9] أخرجه مسلم في ;صحيحه: (2552).

[10] أخرجه الرافعي في ;تاريخ قزوين: بسند ضعيف، كما في ;الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير: للسيوطي (3/ 105).

[11] قال علي المتقي الهندي في ;كنـز العمال: (16/ 478/45536) والسيوطي في جمع الجوامع المعروف بـ ;الجامع الكبير: (4/ 201);: رواه أبو نعيم عن عائشة.

[12] أخرجه الطبراني في ;الأوسط: (4159)،  وقال: لا يروى عن النبي  صلى الله عليه وسلم  إلا بهذا الإسناد، وقال الهيثمي في ;المجمع: (8/137): عن شيخه علي بن سعيد بن بشير وهو لين، وقد نقل ابن دقيق العيد أنه وثق، ومحمد بن عرعرة بن يزيد لم أعرفه، وبقية رجاله رجال الصحيح.

[13] أخرجه البيهقي في ;السنن الكبرى: (7131)، والطبراني في ;المعجم الأوسط: (5967) عن عبد الله بن عمر.

[14] أخرجه الطبراني في ;المعجم الكبير: (13/8/3)، قال الهيثمي في ;المجمع: (1/104): وفيه مسلم بن الوليد بن العباس، ولم أر من ذكره.

[15] أخرجه الحاكم في ;المستدرك:(8053)،  والطبراني في ;الأوسط: (8497)، والبيهقي في ;شعب الإيمان: (5089). قال الهيثمي في ;المجمع: (6/272): رواه الطبراني في الأوسط، وفيه محرز بن هارون، ويقال: محرر، وقد ضعفه الجمهور، وحسن الترمذي حديثه، وبقية رجاله رجال الصحيح.

[16] أخرجه معمر بن راشد في ;جامعه: (20130)، وهناد بن السري في ;زهده: (2/480).

[17] أخرجه الحاكم في ;المستدرك: (2260)،  واللبهقي في ;شعب الإيمان: (5142). قال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، قال الذهبي في ;تلخيص المستدرك:: إبراهيم بن خثيم بن عراك بن مالك قال النسائي متروك.

[18] أخرجه الديلمي في ;مسند الفردوس: كما  أورده المتقي في كنـز العمال (44000)، وهو في مسند الفردوس عن جابر، ولفظه: ريح الْجنَّة تُوجد من مسيرَة ألف عَام وَلَا يجد رِيحهَا عَاق وَلَا قَاطع رحم وَلَا الشَّيْخ الزَّانِي وَلَا جَار إزَاره خُيَلَاء إِنَّمَا الْكِبْرِيَاء لله رب الْعَالمين. الفردوس بمأثور الخطاب (2/ 271، رقم: 3260).

[19] رواه  أبو الحسن بن معروف في ;فضائل بني هاشم: كما في ;كنز العمال:لعلي المتقي (45525)، و;الجامع الكبير: للسيوطي (778/25139).

[20] رواه الدارقطني في ;الأفراد: كما في ;كنز العمال: (45539)، و;الجامع الكبير: للسيوطي (2089/20885).

[21] رواه البخاري في ;الأدب المفرد: (40)، والبيهقي في ;شعب الإيمان: (7518)، والطبراني في ;المعجم الأوسط: (8633).

[22] رواه البيهقي في ;شعب الإيمان: (7524).

[23] أخرجه البيهقي في ;شعب الإيمان: (7504). قال الهيثمي في ;المجمع: (5/236): فيه ليث بن أبي سليم وهو مدلس، وبقية رجاله ثقات.

[24] رواه الإمام أحمد في ;مسنده: (13569).

[25] رواه أبو داود في ;سننه: (2050)،  والنسائي في ;سننه: (3227).

[26] رواه الإمام أحمد في ;مسنده: (6598).

[27] رواه ابن ماجه في ;سننه: (3660)، والإمام أحمد في ;مسنده: (10610)،  والبيهقي في ;السنن الكبرى: (13459). قال البوصيري في ;الزوائد: (4/98): هذا إسناد صحيح رجاله ثقات.

[28] أخرجه البخاري في ;صحيحه: (1251)، ومسلم في;صحيحه: (2632).

[29] أخرجه مسلم في ;صحيحه: (2636). والنسائي في ;سننه: (1877).

[30] رواه الإمام أحمد في ;مسنده: (15595)، وابن حبان في ;صحيحه: (2947)، والحاكم في ;المستدرك: (1417).

[31] أخرجه الإمام مسلم في ;صحيحه: (2631)، والترمذي في ;سننه: (1914)، ابن حبان في ;صحيحه: (447).

[32] رواه البخاري في ;صحيحه: (1418)، ومسلم في ;صحيحه: (2629)

[33] رواه الإمام أحمد في ;مسنده: (24007)، والبيهقي في ;شعب الإيمان: (8313)

[34] أخرجه أبو داود في ;سننه: (495)، وأحمد في ;مسنده: (6689).

[35] اخرجه البيهقي في ;شعب الإيمان: (8327)، والطحاوي في ;شرح معاني الآثار: (5847).

[36] رواه البخاري في ;صحيحه: (5359)، ومسلم في ;صحيحه: (1714) عن عائشة.

[37] رواه البخاري في ;صحيحه: (6138)، ومسلم في ;صحيحه: (47).

[38] رواه أبو يعلى في ;مسنده: (4104)، قال الهيثمي في ;المجمع: (8/151):  وفيه صالح المري، وهو ضعيف.

[39] أخرجه البخاري في ;صحيحه: (5983)، ومسلم في ;صحيحه: (13).

[40] رواه الترمذي في ;سننه: (3895)، والدارمي في ;سننه: (2306)، عن عائشة، قال الترمذي:  هذا حديث حسن صحيح. وروي هذا عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا. ورواه  ابن ماجه في ;سننه: ()،  وابن حبان في ;صحيحه: (4186)، والحاكم في ;المستدرك: (7327)، عن ابن عباس ، قال البوصيري في ;في زوائد ابن ماجه: (2/ 117): هذا إسناد ضعيف عمارة بن ثوبان ذكره ابن حبان في الثقات وقال: عبد الحق ليس بالقوي فرد ذلك عليه ابن القطان وقال ابن حبان ليس بالقوي.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply