ہمارے معاشرے کی موجودہ صورت حال
ہمارا معاشرہ کیا ہے ، کیسا ہے، اس میں نت نئی کیسی کیسی خرابیاں ، اور کیسے کیسے مہلک جراثیم سرایت کر رہے ہیں، کسی بھی ذی شعور آدمی سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے،نوجوانو ں کی بے راہ روی ،عورتوں میں بے پردگی ،رشوت کی گرم بازاری، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ و غیبت، چوری چماری، بھائی بھائی میں عداوت ، پڑوسیوں میں نفرت، ان کے حقوق کی پامالی، لڑائی جھگڑے ، گالم گلوج ، طعنہ زنی، فقرہ بازی،اور اس جیسی نہ جانے کتنی خرابیاں اور برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرہ میں پھل پھول رہی ہیں،شہروں کو چھوڑئیے بہت سے دیہاتوں کا حال تو شہروں سے بھی گیا گزرا ہے،یہاں کے قہوہ خانے اور چائے خانے خاص طور پر برائیوں کا مرکز ہوگئے ہیں، گاؤں کے اوباش قسم کے لوگوں کی یہ دلچسپ مجلس ہیں، کوئی کام دھندا نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اپنا دل بہلانے کے لیے وقتا فوقتا یہاں جمع ہوتے رہتے ہیں، ایک کپ چائے پی ،اور بیڑی سلگائی ،بس دو چار گھنٹے کے لیے تازہ دم ہو گئے ، اب لگے ایران توران اور بے سر پیر کی ہانکنے، سننے والوں کی بھلا کمی کہاں،ان کی تو بن مانگی مراد بھی پوری ہو جارہی ہے ،یہیں پر برائی اور فحاشی کا ایک چشمہ بھی پھوٹتا ہے جس سے صبح سے لیکر شام تک لوگ سیراب ہوتے رہتے ہیں،دوسروں کی غیبت ان کی چغلی ، ان کی ٹوہ میں رہنا انہیں پریشان کرنا انہیں ذلیل ورسوا کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے،ان کی کوشش یہی رہتی کہ کون سی ایسی بات کہوں جس سے دو بھائیوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہو جائے، فلانا کہاں جارہا تھا ؟کیوں جارہا تھا؟ کیا کر رہا ہے ؟ کیوں کر رہا ہے ؟فلانا تم کو بہت برا بھلا کہہ رہا تھا،فلاں تمہارے بیٹے کے بارے میں ایسا ویسا کہہ رہا تھا، اس کا بیٹا تو بس گھر ہی میں گھسا رہتا ہے ،فلاں ایسا ہے، ویسا ہے، فلاں بہت برا آدمی ہے، فلاں فلاں فلاں، انھوں نے توبس فلاں ہی کا ٹھیکا لے رکھا ہے، یہ انہیں پر پی، ایچ، ڈی کررہے ہیں، ہم کیا ہیں ؟ کیوں ہیں؟ کیسے ہیں ؟ہم میں بھی تووہی برائیاں ہیں جو فلاں میں ہیں ، اسے دور کرنا چاہئے کہ نہیں، انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں،بس انہیں صرف دوسروں ہی کی فکر ہے۔
ہمیں صرف دوسروں کی فکر رہتی ہے
ہرسلیم الطبع آدمی چاہتا ہے کہ معاشرہ ہر طرح کی برائیوں سے پاک وصاف ہو ،پورے معاشرہ میں امن وشانتی ہو ، ایک دوسرے میں بھائی چارگی ،پیار ومحبت کا رواج ہو ، لگائی بجھائی، نفرت وعداوت، بغض وکینہ اور ماحول کو پراگندہ کرنے والی دوسری برائیوں سے ہمارامعاشرہ کوسوں دور ہو،پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے میل ملاپ اور حسن سلوک کا معاملہ ہو، غرض کہ ہمارا پورا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہو، لیکن ہماری یہ چاہت بس چاہت ہی رہتی ہے، اس کی عملی شکل کے لیے ہماری طرف سے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے، اصلاحِ معاشرہ اور اس کو سدھار نے کے لیے کوششیں تو بہت کی جارہی ہیں، جگہ جگہ تنظیمیں قائم کی جارہی ہیں، اصلاحِ معاشرہ کے نام پر تبلیغی اجتماعات اور جلسہ جلوس بھی ہو رہے ہیں، اس کے لیے کانفرنس مٹنگیں منعقد کی جا رہی ہیں، لیکن ان کا کوئی نمایاں اثر ظاہر نہیں ہو رہا ہے،معاشرہ میں خرابیاں بجائے گھٹنے کے بڑھتی ہی جارہی ہیں،ا س کا اہم سبب یہ ہے کہ ہم کو اپنے سے زیادہ دوسروں کی فکر رہتی ہے ، ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں، لوگوں کو پریشان کرنا ، ان پر تنقید وتبصرہ کرنا، کیچڑ اچھالنا ، جملے کسنا ، اور ان کی غیبت وبرائی کرنے میں ہمیں خوب مزا آتا ہے،معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں پر ہم خوب نکتہ چینی بھی کرتے ہیں ، اور بارہا کہتے رہتے ہیں کہ : یہ بہت غلط ہے ، ایسا نہیں ہونا چاہئے،لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم خود ہی اس میں ملوث رہتے ہیں،جھوٹ سے ہم سب بہت نفرت کرتے ہیں، اور رات دن خود بھی جھوٹ بولتے ہیں،رشوت اور سود خوری پر خوب تنقید کرتے ہیں،لیکن اگر عملی واستہ پڑے تو اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں، خیانت کی مذمت ہماری زبان کا ورد ہوتی ہے،لیکن موقع ہاتھ لگتے ہی اس کی آگ میں بے دریغ کود جاتے ہیں،اگر کسی سے کہا جائے کہ : آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟آپ رشوت کا لین دین کیوں کرتے ہیں ؟ تو ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں کہ: کیا کریں جناب آج کے دور میں تو اس کے بغیر کام ہی نہیں چلتا، یہ تو اس مثل کے بالکل موافق ہو گیا کہ:’’ گڑ کھائیں اور گلُگلے سے پرہیز کریں‘‘ ،ایک طرف تو ہم معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اور دوسری طرف ان کو اپنے سینہ سے لگائے ہوئے ہیں، اور اپنے عملی اقدام سے ان کو فروغ بھی دے رہے ہیں، پھر آپ ہی بتایئے کہ ہمارے معاشرہ کی اصلاح کیوں کر ہو سکتی ہے۔
معاشرے کے سدھار کا واحد حل
اگر ہمیں اپنے معاشرہ کو سدھارنا ہے، اس سے خرابیوں کو دور کرنا ہے ،تو سب سے پہلے ہمیں خود کو برائیوں سے روکنا پڑے گا ، دوسروں کی فکر کرنے کے بجائے خود اپنی فکر کرنی پڑے گی اپنا محاسبہ کرنا پڑے گأ،چنانچہ قرآن خود کہتا ہے کہ: ’’یا أیہا الذین آمنوا علیکم أنفسکم‘‘ اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، اپنی اصلاح کی طرف توجہ دو ، اپنی بداعمالیوں کو دور کر نے کی فکر کرو، دوسروں پر نکتہ چینی اور ان پر تنقید کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، اپنے آپ کو ٹٹولو، اپنا جائزہ لو، خود کو سنوارو بناؤ ، سچائی و ایمان داری کو اپنا شعار، حسن خلقی محبت ومؤدت کو اپنی فطرت بناؤ ، اس کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھال کر دیکھو آپ کا معاشرہ خود بخود صاف ستھرا ہو جائے گا،جب تک یہ جذبہ معاشرہ کے ہر ہر فرد کے اندر بیدار نہیں ہوگاتب تک نہ تو معاشرہ کی اصلاح کا خواب شرمندہء تعبیر ہو سکتا ہے، اور نہ ہی اصلاحِ معاشرہ کی تنظیموں اور دینی مدارس کی کوششیں بار آور ہو سکتی ہیں،صفائی ستھرائی اور خرابیوں کو دور کرنے میں اصلاحِ معاشرہ کی تنظیموں کی حیثیت تو بس ایک صفائی کرم چاری کی سی ہے ،کرم چاری شہروں اور محلوں کی لاکھ صفائی ستھرائی کریں، ان کو صاف ستھرا رکھنے کی ہرممکن کوشش کریں ،پھر بھی اگر محلہ اور شہر والے نہ چاہیں، اس کام میں ان کا ہاتھ نہ بٹائیں،اور گندگی کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ دیں تو کوئی شہر اور کوئی محلہ صاف ستھرا نہیں ہو سکتا، اگر اپنے شہر ومحلہ کو صاف ستھرا رکھنا ہے تو ہر ہر فرد کو صفائی ستھرائی میں کرم چاریوں کی مدد کرنی ہی پڑے گی، ہر ایک کو اس کی طرف تو جہ دینی ہی پڑے گی اس کے بغیر صفائی ستھرائی ممکن نہیں، ہمارے معاشرہ کے اندر پھیلی ہوئی برائیوں کا بھی یہی حال ہے ، اگر ہر شخص کو اس کی فکر ہو جائے، اور ہر آدمی اپنے تئیں اس سے باز رہنے کا ارادہ کر لے،اور یہ عزم مصصم کر لے کہ ہمیں اپنے شہر اور محلہ سے ہر طرح کی برائیاں ختم کرکے ہی دم لینا ہے تو ان شاء اللہ بہت جلد ہمارا پورا معاشرہ برائیوں اور خرابیوں سے پاک ہو جائے گا ، بصورتِ دیگر ہم لاکھ ہاتھ پیر مارتے رہیں، کانفرنس اور سیمنار کرتے رہیں، اصلاحِ معاشرہ کے نام پر جلسہ جلوس کرتے رہیں، لیکن ان سے کوئی خاص فائدہ نہ ہوگا،۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.