Sabr o Yaqeen

صبرویقین سے کٹھن مراحل کاعبور، Sabr, Yaqeen

صبرویقین سے ہی ان کٹھن مراحل کوعبور کیا جاسکتاہے

بقلم: مفتى محمداجمل قاسمی، خادم تدریس مدرسہ شاہی، مرادآباد

قرآن کریم نے اہل ایمان کی ہدایت کے لیے تاریخ انسانی سے کچھ واقعات منتخب کرکے پیش کئے ہیں،یہ واقعات زیادہ ترگذرے ہوئے انبیاء کرام اوران کی قوموں کے ہیں،واقعات کا یہ انتخاب چونکہ اس رب کا ہے جوسب بڑا جانکاراورہرچیزسے پوری طرح باخبر ہے اس لیے ان واقعات میں جہاں عبرت ونصیحت کا ایک جہاں آباد ہے، وہیں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات اورچیلنجز کے لیے بہترین رہنمائیاں اورہدایات بھی موجود ہیں،اس تحریرمیں ہم زیادہ واقعات سے تعرض نہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی تاریخ کا صرف ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو ہمارے موجود ہ حالات سے بہت ملتاجلتاہے،ساتھ ہی بنی اسرائیل کے ہادی ورہبر اللہ کے عظیم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کا ایک مختصر سا خطاب بھی نقل کریں گے،جو آپ نے اس موقع سے ارشاد فرمایا تھا ،جس میں ہمارے لیے موجودہ حالات میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے جدامجد حضرت یعقوب علیہ السلام کا اصلی وطن کنعان نام کی ایک بستی تھی ،جو فلسطین کے شہر بیت المقدس سے چند میل کے فاصلے پر واقع تھی،بھائیوں کی بدخواہی اورشرارت نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہیتے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کو ان سے جدا کرکے مصر میں پہنچا دیا، اللہ کا کرنا ایسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں کسی عام شخص کے گھر پہنچنے کے بجائے عزیز مصر(مصرکے وزیرخزانہ )کے گھر پہنچ گئے،وہاں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت وپاکیزگی ،امانت و دیانت ،علم وآگہی ،اورفہم فراست کی دھاگ بیٹھ گئی،اسی دور میں مصر میں ایک لمبی قحط سالی اورسخت قسم کے غذائی بحران کے آثار ظاہر ہوئے، توحضرت یوسف علیہ السلام نے خوراک اور زرعی انتظام وانصرام کی باگ ڈور شاہ مصر سے درخواست کرکے اپنے ہاتھوں میں لے لی، اوراپنی بہترین منصوبہ بندی اوراچھے نظم ونسق کی ذریعہ اس بحران پر قابوپانے میں کامیاب ہوگئے،حضرت یوسف علیہ السلام کے اعلی اخلاق کی دھاگ دلوں پر توپہلے ہی بیٹھ چکی تھی،اب اس بہترین حکمت عملی کے ذریعہ جو عظیم احسان انہوں نے اہل مصر پر کیا اس کے آگے ان کی گردن بھی جھک گئی ،اورانہوں نے ملک کی زمام اقتدار حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے کردی۔( سورہ ٔیوسف ۵۱تا۵۷)

اس موقع سے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجدحضرت یعقوب علیہ السلام اوران کے پورے خاندان کو کنعان سے بلا کرمصرمیں بسادیا ،حضرت یوسف علیہ السلام کی عزت وحرمت کی وجہ سے مصر میں بنی اسرائیل کو بھی احترام واکرام ملا،اورعزت کی نگاہ سے دیکھے گئے،مگر حضرت کے بعد رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی عزت میں فرق آتاگیا،اورچند نسلوں کے بعد وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری بنادئے گئے،اورخدمت وجفاکشی اوربے گاری کے کام جوسماج کے نچلے طبقے کے لوگوں سے لیے جاتے ہیں وہی بنی اسرائیل سے بھی لیے جانے لگے۔اِدھرفرعون مصرکو بعض کاہنوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تمہاری یہ عظیم سلطنت برباد ہوجائے گی،یہ سنناتھا کہ فرعون نے حکم جاری کردیا کہ بنی اسرائیل میں پید اہونے والے ہرلڑکے کو قتل کردیا جائے ،چنانچہ اس پر عمل شروع ہوگیااوربنی اسرائیل پر ایک ناگہانی قیامت ٹوٹ پڑی،ان ہی حالات میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو پیدا فرمایا،اوراسباب ایسے پیدا کردئے کہ حضرت موسی کی پرورش بجائے بنی اسرائیل کے خود فرعون کے محل میں ہوئی ،اوروہ فرعون کے جلادوں سے ہرطرح محفوظ رہے،ایک عرصہ کے بعد یہی حضرت موسی، فرعون، اس کی قوم اوربنی اسرائیل طرف رسول بناکربھیجے گئے،اللہ کے حکم سے حضرت موسی نے فرعون کو معجزات دکھائے اور اس کے سامنے دومطالبات رکھے،ایک یہ کہ اللہ پرایمان لائے اوراپنے رب ہونے کا دعوی ترک کرکے،اوردوسرے بنی اسرائیل کو آزاد کردے تاکہ حضرت موسی علیہ السلام ان کو مصر سے نکال کران کے اصلی وطن کنعان میں لے کرجاکربسائیں۔ (دیکھئے نازعات ۱۵تا ۱۹واعراف۱۰۵و۱۰۶)

فرعون آسانی سے ان مطالبات کوتسلیم کرنے والا کب تھا؟اس نے موسی علیہ السلام کو مات دینے کے لیے جادگروں کو بلاکر حضرت موسی علیہ السلام سے مقابلہ کرایا، جادگروں نے فاتحانہ انداز میں اپنے جادو کے جوہر دکھائے،اورسمجھے کہ ان کا جادو سرچڑھ کربولے گا ،مگر اللہ کے حکم سے موسی علیہ السلام کے عصا نے ازدہا بن کرجب ان کے جادو کو نگلنا شروع کیا توسارا جادو ملیامیٹ ہوگیا،جادوگر وں کو سمجھ میں آگیا کہ موسی کے پاس جادو سے مارواء کوئی طاقت ہے،اوروہ فوراً موسی علیہ السلام کے رب پر ایمان لاکر بے اختیار اس کے حضور میں سجدہ ریز ہوگئے ،اس مقابلے میں حق نے تاریخی فتح پائی ، اورفرعون کو سخت خفت اٹھانی پڑی ،اس نے محسوس کیا کہ اگر موسی کی مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی،توآگے چل کر اس کی حکومت کے لیے خطر ہ بن جائے گی ،موسی علیہ السلام سے کچھ کہنے کی جراء ت توتھی نہیں،اس لیے بنی اسرائیل کو بچوں کے قتل کی دھمکی دے ڈالی،اوران پر عبادت گاہوں میں نماز کی ادائیگی پر پابندی بھی عائد کردی گئی۔(اعراف۱۲۷ویونس۸۷)

 جوکچھ اوپر لکھا گیا وہ درحقیقت تمہید تھی ،مقصد بنی اسرائیل کے وہ حالات پیش کرنے ہیں جو اس دھمکی کے بعد پیش آئے،واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اس دھمکی سے سخت گھبرائے اور پریشان ہوئے،اس سراسیمگی میں بعض لوگوں نے توحضرت موسی علیہ السلام سے یہ بھی کہہ دیاکہ: موسی ساری پریشانیاں تمہاری وجہ سے ہیں، تمہاری پیدائش کے موقع پر بھی ہم اس ناقابل برداشت عذاب سے گذرے اورآج پھر اسی مصیبت کا پھر سامناہے،(اعراف ۱۲۹)بنی اسرائیل مصر میں ایک چھوٹی سے اقلیت کی شکل میں زندگی گذاررہے تھے،حکومت واقتدار سے دورتھے،فرعون کے لوگوں نے انہیں ہرطرح سے بے بس اورکمزور بنارکھاتھا، ان پر جوبھی ستم کرنا چاہتے تھے ،طاقت کے بل بوتے پر آسانی سے کرسکتے تھے اورکررہے تھے ،بنی اسرائیل فرعون کے قلم رو میں نہ عزت وسکون سے رہ سکتے تھے،نہ کہیں بھاگ سکتے تھے،اورفرعون کی مستحکم اورمضبوط حکومت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں لگتاتھاکہ یہ حکومت جلد یابدیر ختم ہونے والی ہے،اس لیے بنی اسرائیل کی پریشانی بالکل بجاتھی،ان مایوس کن اورسخت پریشانی کے حالات میں اللہ کے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کیا ،اورفرمایا:

{قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ } [الأعراف: 128]

‘‘حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: اللہ سے مدد مانگو اورصبر سے کام لو،یقین رکھو زمین اللہ کی ہے،وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتاہے ا س کاوارث بنادیتاہے،اورآخری انجام پرہیز گاروں ہی کے حق میں ہوتاہے’’

ان مشکلات وآزمائش اورخوف وہراس کے ماحول میں جوفرعون کے قتل اولاد کے اعلان کے بعد پیدا ہواتھا حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے اس مختصرمگر جامع خطاب میں بنی اسرائیل کی تسلی کے لیے چار باتیں ارشاد فرمائیں،جو قدرے وضاحت کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

(۱) پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ سے مدد مانگو،حالات کہیں بھی پیدا ہوں اورکسی کے ذریعہ بھی پیدا ہوں ان کے پس پردہ اللہ کی مشیت اورارادہ کام کررہاہوتاہے،اس کے ارادے اورمشیت کے بغیر کوئی پتہ بھی شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر نہیں گرتا،لہٰذا جب سارے فیصلے اسی قادر مطلق کے حکم سے ہوتے ہیں،توعقل و دانائی کی بات یہی ہے کہ اسی کے در کو کھٹکھٹاجائے ،اسی کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑی جائے،اسی سے اپنی ناتوانی ،بے بسی اورعاجزی کا اظہار کیا جائے،اوربار بار رجوع کرکے اس کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کیاجائے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر مشکل حالات میں اللہ سے مدد مانگنے اوراس سے دعا کرنے کا حکم دیاہے،اور اللہ کے مقرب و نیک بندوں کے کئی واقعات نقل کرکے بتایاہے کہ جب انہوں نے مشکل حالات میں اللہ کو پکار ا تواللہ نے کس طرح ان کی پکار سنی ،اور کیسے اس کی رحمت نے ان کی فریاد رسی کی۔

(۲)دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ صبروہمت سے کام لو،صبر اورہمت ایک بڑی مضبوط ڈھال ہے،اس کے ذریعہ مشکل سے مشکل حالات میں اپنے وجود اوراپنے فکروعقیدے پر باقی رہنا آسان ہوتاہے،صبر یہ ہے کہ آدمی آزمائشوں کے دیکھ کرنہ گھبرائے نہ حواس باختہ ہو،بلکہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے، مشکلات کوجھیلنے کے لیے اپنے ذہن کوتیار کرے، اورناگواریوں کو اللہ کے لیے گواراکرتارہے، اورصبر میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی فکروعقیدے اوراپنے مذہب پر ثابت قدم کررہے،خوف یا لالج کی وجہ سے اس سے دست بردار نہ ہوجائے۔ جو بھی اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اس کے مولی کی مشیت اورارادے سے ہوتاہے،اورجو بھی اس سچائی کو تسلیم کرتاہے دین کی خاطر اوراللہ کی رضا کے لیے جوبھی قربانی دی جائے،جوبھی نقصان اٹھانا پڑے،جو بھی قیمت چکانی پڑے ،جوبھی غم جھیلنے پڑیں، اس پر اللہ کی طرف سے اجر ملتاہے،درجے بلند ہوتے ہیں اورگناہوں کی معافی ہوتی ہے ،اس کے لیے ہرحال کو اللہ کا ایک فیصلہ سمجھ کر گوارکرلینا، اور ہرکٹھن گھڑی سے دین وایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنے کو نکال لینا آسان ہوجاتاہے۔

(۳) تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ زمین اللہ کی ہے،وہی جسے چاہتاہے اس کا مالک اورحاکم بناتاہے اورجسے چاہتاہے حکومت اقتدارسے بے دخل کرتاہے،وہ اگر کسی کو بے دخل کرنا چاہے تومضبوط سے مضبوط حکومتیں تارعنکبوت کی طرح بکھر جاتی ہیں،اورکل کے سرکش فرماں روا ؤں کا شاہانہ جلال وطمطراق دیکھتے ہی دیکھتے سامان عبرت اورداستان پارینہ بن کر رہ جاتاہے،یہ ایک ایسی سچائی ہے جو انسا ن کو مایوسی سے بچاتی ہے، اس دل کو امید وعزم سے لبریز کرتی ہے، اورظالموں کے سامنے سینہ سپر ہونے،اورظالم کی مرضی کے خلاف اپنے موقف پر اڑجانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے،اس حقیقت کے اظہار کے ذریعہ حضرت موسی نے بنی اسرائیل کو یہ پیغام دیاکہ فرعون جس کی بادشاہت کے کھونٹے بڑی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں،تم یہ بات دل سے نکال دو کہ وہ سدا اسی طرح باقی رہے گی،اورہمیشہ تمہارے اوپر اس کا اختیار چلتا ہی رہے گا،زمین اللہ کی ہے جب تک اللہ کو فرعون کا رہنا منظور ہے وہ رہے گا،اورجس دن اللہ کو کچھ اورمنظور ہوگاتویہ مضبوط بادشاہت اسی دن تہس نہس ہوجائے گی۔

غزوۂ خندق کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ نے پیشین گوئی کی تھی کہ روم وایران کی سلطنتیں میری امت کے قبضے میں آجائیں گی، تومنافقین اورکفار نے بڑا مذاق بنایاتھا کہ کھانے کوہے نہیں، بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، اورخوف کا عالم یہ ہے کہ رات دن ایک کرکے دشمنوں سے بچا و کے لیے خندق کھود ر ہے ہیں، حالات تویہ ہیں اورخواب دیکھ رہے ہیں کہ قیصر وکسری کی سلطنتوں کے مالک بنیں گے، یہ دیوانے کی بڑ نہیں تواورکیاہے؟ اس موقع پر اللہ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی، جس میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ اللہ تعالی کی قدرت میں سب کچھ ہے، وہ جس طرح کائنات عالم میں دن کے اجالے کو تاریکی شب کی چادر سے ڈھانپ دیتاہے، اوررات کی سیاہی کی جڑ سے صبح کی پوپھوڑ دیتاہے، اسی طرح وہ انسانی دنیا میں حکومت واقتدار میں بھی تبدیلیاں لا سکتاہے،جب وہ کسی کو اقتدار دینا چاہے گا توکوئی روک نہیں سکے گا، اورجب اقتدار کی کرسی اتارنا چاہے گاتوآدمی کی ہرتدبیر الٹی ہی پڑتی چلی جائے گی،چنانچہ ایسا ہی ہوا اورچند ہی سالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے بے کس وبے سہار ا مسلمانوں کو قیصر وکسری کی سلطنت کا مالک بنادیا، اللہ تعالی نے فرمایا:

{قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (26) تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ } [آل عمران: 26، 27]

کہو: کہ اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! توجس کو چاہتاہے اقتدار بخشتاہے، اورجس سے چاہتاہے اقتدار چھین لیتاہے، اورجس کو چاہتاہے عزت بخشتاہے اورجس کو چاہتاہے رسوا کردیتاہے،تمام تربھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، یقینا توہر چیز پر قادر ہے،توہی رات کو دن میں داخل کرتاہے اوردن کو رات میں داخل کرتاہے ۔ اورتوہی بے جان چیز میں جاندار کو برآمد کرلیتاہے اورجاندار میں سے بے جان چیز نکال لاتاہے، اورجس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتاہے۔،،

ایک مومن اگر ظالم کی قوت واقتدار پر نظر کرنے کے بجائے اللہ کی قدرت اور اس کی کے ذرریعہ لوگوں میں اچھے برے اورعروج وزول کے دن ادلتے بدلتے رہنے کی سنت پر غور کرے اوراس پر یقین رکھے تو اس کے دل میں ظالم اوراس کے زوال کے بارے میں نہ توکبھی مایوسی ہوگی اورنہ ہی وہ اس کے آگے خود سپردگی اوراپنے فکروعقیدے سے براء ت کے اظہار پر آمادہ ہوگا، بلکہ اس کے برعکس اس کے دل میں اپنے ایمان وعقیدے کے طاقتور دفاع کی روح پیدا ہوگی۔

(۴) چوتھی بات جس کی طرف حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو متوجہ کیا ، وہ تقوی اورپرہیزگاری ہے، جولوگ اپنی خوشی وغمی، امن وخوف، پسند وناپسند ہر حال میں اللہ سے ڈر تے ہیں، خوشگواری وناگواری ، اورنفع ونقصان ہرحال میں اللہ اوراس کے رسول کے احکام کوبجالاتے ہیں نیک انجام ہمیشہ انہیں کا مقدر بنتاہے، اس اچھے انجام کو آدمی کبھی دنیا میں بھی دیکھ لیتاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرماکر امن واطمینان کی زندگی عطا کرتاہے، جیسے فرعون کو ہلاک کرکے بنی اسرائیل کو اورکفار مکہ کے زور کوتوڑ کراہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے امن واطمینان سے نوازا تھا،اوراگر اللہ کی کسی مصلحت کی وجہ سے دنیا میں یہ نیک انجام سامنے نہ بھی آئے توآخرت میں تویقینی ہے، اورایک مومن کے لیے آخرت کی کامیابی سے بڑھ کر اورکوئی کامیابی نہیں ہے۔

غورکیا جائے تومعلوم ہوگا آج مسلمانوں کی مظلومیت اوربے بسی زندگی بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا مظلومیت اوربے بسی سے بہت ملتی جلتی ہے، حالات جس رخ پر تیزی سے دوڑ رہے ہیں وہ ظاہربینوں کو مایوسی کی طرف ڈھکیلتاہے،ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم حضرت موسی علیہ السلام کے اس موثر وعظ سے تسلی حاصل کریں، اورحضرت نے اپنی قوم کو جن چارباتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ہم بھی اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، چنانچہ ہم صبروہمت سے کام لیں، اللہ سے مدد مانگیں،اس پر بھروسہ رکھیں اوراس سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔جواللہ دن کورات اوررات کودن میں بدلنے قادر ہے وہی خدا شرکے موجودہ نقشوں سے خیربھی پیدا کرسکتاہے، اورسنگ دل اڑیل ظالموں اورفاسسٹ طاقتوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر امن وامان ،صلح وآشتی اخوت وبھائی چارہ اورہاہمی محبت کا ماحول کوقائم کرسکتاہے، جس میں آدمی عافیت کی زندگی جی سکے اورآزادی کے ساتھ اپنے رب کے احکام پر عمل پیرا ہوسکے۔

یہ چار باتیں ایسی ہیں جوہر شخص انفرادی طور پر بھی بآسانی انجام دے سکتاہے،اس کو زندگی میں لانے کے لیے کسی لمبے چوڑے پروگرام اوروسائل کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے،دعاہے کہ اللہ تعالیٰ امت کوامن ایمان اورسلامتی اوراسلام کی دولت سے مالا مال فرمائے آمین!

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply