جنت؛ جو اجڑ گئی
شہید محمد عظیم کی ماں کی یاد میں
از قلم: *ابن شکیل بستوی*
ایم اے (عربی) جامعہ ملیہ اسلامیہ
رات کی سیاہ تاریکی تھی،سناٹے کا عالم یہ تھا کہ گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئی کسی لوہار کے بڑے ہتھوڑے سے کم آواز نہیں دے رہی تھی،یہ سب اس لئے بھی گراں بار لگ رہا تھا کہ میرے اندر ایک عجیب نامعلوم اضمحلالی کیفیت کا احساس بڑھتا ہی جا رہا تھا،کئی بار تو صرف کراہنا ہی نہیں بلکہ چیخنا بھی چاہا لیکن اس ڈر سے کہ کہیں اہل خانہ کی نیند نہ اچاٹ ہوجائے،خود کو قید الم میں محصور رکھنا ہی مناسب سمجھا۔
لیکن کب تک؟!
مانا کہ تحمل اور قوت برداشت ہم کو بہت کچھ چھپا لینے کا حوصلہ دیتی ہے پر اس کی بھی تو ایک حد ہوگی،ایک پیمانہ ہوگا،درد اب اس حد سے گزر چکا تھا۔
اگر اب بھی مجھے ایسا نہ لگتا کہ یہ شاید میری زندگی کے آخری لمحات ہیں تو میں اب بھی قطعی چیخ نہ لگاتی_____________________پر اس ظالم درد نے مجھے مجبور کردیا،بس یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے زہر پلایا ہوا تیر میرے اندر پیوست کردیا ہو اور پھر وہ اندر شاخوں میں بنٹ کر پورے جسم کے ایک ایک حصے میں جاکر چبھ رہے ہوں،یہ میری آخری چیخ تھی جو بے ساختہ میرے منھ سے نکلی،مجھے نہیں معلوم کی میں بے ہوش شدت الم سے ہوئی یا اس خوفناک چیخ کی آواز سے جو خود میرے ہی منھ سے نکل کر میرے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی_______________ پھر اس کے بعد کیا ہوا کچھ پتہ نہیں۔
اب میری نگاہوں کے سامنے ایک دوسرا منظر تھا،خواتین خانہ اور قریبی پڑوسیوں کی بیگمات میرے ارد گرد بیٹھی نظر آئیں،پہلے تو مجھے لگا کہ شاید میں اس عالم رنگ وبو سے آزاد ہوکر کسی اور عالم میں جا بسی ہوں،جہاں سے یہ سب منظر مجھے دکھایا جارہا ہے،میرے مرجانے پر لوگ جمع ہیں،لیکن اچانک پاس بیٹھی بیگمات پر میری نگاہیں یک دم جم گئیں،یہاں چہروں سے پژمردگی نہیں شادابی کے آثار ہویدا تھے،غم کی لکیروں کی بجائے خوشی کی لہریں دوڑ رہی تھیں____________________یہ سب خواب سا لگ رہا تھا،میں اسی کشمکش میں تھی کہ اگر میں نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا ہے توجہاں صف ماتم بچھنی تھی وہاں خوشی کے نغمے زبانوں پر کیوں ہیں؟
بس اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی خاطر میں نے اپنے ناتواں جی ہاں ناتواں ہاتھوں کو اٹھاکر آنکھوں پر ملنا چاہاتاکہ اس پردے کو چاک کرسکوں جو خواب اور حقیقت کے درمیان حائل تھا،ہاتھوں نے حرکت کیا کی کہ ایک آواز میرے کانوں سے ٹکرائی—————————–
بیٹی! کیسا محسوس کررہی ہو؟
ایک آواز جس سے پرانی شناسائی تھی ،سن کر میں سراپا حیرت تھی،گردن کو ذرا خم دے کر آواز کے رخ پر جو نگاہ ڈالی تو کیا دیکھا والدہ زیر لب مسکراہٹ لئے کھڑی تھیں،مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا،میں نے کہا(حیرت میں):
اماں آپ!!!!!
ہاں بیٹی؛کیسی ہو اب؟
کمزوری محسوس کر رہی ہونا؟
_________ لیکن اماں میں کہاں ہوں؟
کیاسچ میں آپ مجھ سے باتیں کررہی ہیں؟
میرے پاس عورتوں کا یہ جم گھٹا کیا یہ سب خواب نہیں ہے؟
_____________________نہیں نہیں بیٹی! تم نے کہاں کہاں تک سوچ لیا۔
مبارک ہو تمہیں بیٹی!
اوپر والے نے ایک بار پھر تمہاری گود بھردی،اس مالک نے تمہیں یہ نورنظر بیٹا عطا کیا ہے،اب اس کا شکر بجالا جس نے تمہیں اتنی بڑی دولت سے مالامال کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب مجھے اس حقیقت کا یقین ہوگیا کہ جس لخت جگر کو پچھلے نو مہینوں سے میں پیٹ میں لے کر درد و الم کے سارے ستم اٹھا رہی تھی اب وہ میری گود میں ہے،اس نورنظر کے صرف تصور نے ہی سارے غم غلط کردئے،پچھلی صعوبتوں اور دردو تکلیف کے سارے لمحات مجھ سے اس طرح دور ہوئے کہ اب وہ میرے حاشیہ خیال تک کا بھی حصہ نہ رہے۔
میرے کمرے میں ایک روشنی سی لگ رہی تھی،پورا گھر اجالا اجالا تھا،مسجد سے مائک کڑکنے کی آواز سے لگا کہ اب مؤذن بھی میری اس خوشی میں سب کو شریک کئے دینا چاہتا ہے،فرط جذبات میں مجھے لگا کہ وہ صبح کی اذان نہیں بلکہ میری مبارکبادیوں کا اعلان کرے گا،صبح کی روشنی بڑی تیزی سے اندھیروں کی بساط لپیٹ کر اپنی دلکش سفید چھتریاں تان رہی تھی،میرے استقبال کے لئے شاید وہ اب اور نہیں رک سکتی تھی،ادھر پرندوں کو نہ جانے کس نے خبر کردی وہ صبح کی ہلکی ہلکی قدرے خنک ہواؤں میں،پاس کے درختوں پر بڑی نزاکت سے لہراتی ہوئی ہری بھری شاخوں کے بیچ بیٹھے بہ یک زبان کچھ اس طرح نغمہ زن تھے کہ میرا احساس مجھ کو یہاں تک لایا کہ آج مجھے صرف ایک پھول ہی نہیں پوری جنت مل گئی ہے__________________
میری اس جنت میں نہ جانے کتنے الگ الگ رنگ وبو کے لالہ وگلاب سجے تھے!
نہ جانے خوابوں کے کتنے محل اس میں تعمیر تھے!
امیدوں اور ارمانوں کی کتنی وسیع دنیا آبادتھی!
نہ جانے عشق ومحبت کے کتنے چشمے پھوٹنے تھے!
نہ جانے کتنی چٹکتی کلیوں کا ٹھکانہ بننا اور کتنے چہچہاتے پرندوں کے آشیانے بسنے تھے!
اور نہ جانے کیا کیا؟اور کیسے کیسے خواب؟!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ہمیں اپنی اس جنت کو دیکھ کر جو تسکین ملتی تھی سچ ہے کہ ہم اسے لفظوں کے پیرایہ بیان میں ادا نہیں کرسکتے،لیکن ان سب کے باوجود دلوں پر نہ جانے کتنے وزنی پتھر رکھ کر،سینوں میں غموں کا سمندر لیے ہوئے اور اشکوں کا ایک سیلاب چھپاکر اسے اپنے سے صرف اس لئے جدا کیا کہ اس کو ایک دنیا سے دوسری دنیا تک کارآمد بنانا تھا،زیور علم سے آراستہ کرکے اس دنیا میں بھی اسے رشد وہدایت عام کرنا تھا اور اور اُس دنیا میں بھی اس کے نور علم کے سہارے کشتئ نجات پانا تھا جہاں علم وعمل کے سوا ہر سکہ کھوٹا ہوتا ہے،اس سے مستقبل کی امیدیں بھی وابستہ تھیں اور ذریعہ نجات بھی تھا________________
بس اب آگے میری قوت گویائی جواب دے رہی ہے،اپنے لفظوں میں آپ بیتی بیان کرنے سے قاصر ہوں،ہاں میری بجھی بجھی اداس نگاہوں سے نکلتی ہوئی صداؤں کو الفاظ کا جامہ پہنادو یا پھر میرے ویران چہرے پرجو ابھرے ہوئے نقوش غم ہیں انہیں سے پوچھ لو میرے یہ ترجمان بتائیں گے کہ :
دلی کے مالویہ نگر میں میری اس جنت کو آگ لگ گئی،نہیں غلط سمجھا میں نے آگ لگائی گئی،اور دم زدن میں میری جنت اجڑ گئی،ہزار خوابوں اور ارمانوں کے سارے محل چکنا چور ہوگئے،امیدوں کی میری پوری دنیا ویران ہوگئی_____________________
آج ایک بڑا ہجوم میرے گھر ہے،میرے پاس اعزہ واقارب اور رشتہ دار جمع ہیں،محلہ بھر کی خواتین میرے لئے سامان تسلی فراہم کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہیں،ان سب کے باوجود میں تنہا ہوں،ماضی کے دریچوں میں بہت دور تک نہ چاہ کر بھی اور بےساختہ اڑی جارہی ہوں،جہاں میرے سامنے ایک کھلی کتاب ہے_______________چلو اے دنیا والو چھوڑ دو مجھے!اب مجھے اسی کتاب میں ڈوب جانے دو!
مجھے اس کتاب میں اپنی جنت کے سارے مناظر ورق در ورق موجود مل رہے ہیں۔
وہ معصوم ننھے ہاتھ پاؤں زمین پر مارنا،کبھی کھل کھلا کر ہنسنا تو کبھی چیخنا چلانا وہ سب مجھے دکھ رہا ہے،مجھے دکھ رہا ہے توتلی زبانوں سے اس کابات کرنا،اوڑھنی کے پلؤوں سے اس کے آنسؤوں کا پوچھنا۔
ارے سنو تو! وہ باہر گھر سے آواز دے رہا ہے امی فلاں مجھ کو دوڑا رہا ہے،فلاں مجھ کو مار رہا ہے۔
کبھی گھر میں کودنا،چیخنا چلانا ،کبھی ضد میں آکر میرے پاؤں میں لپٹ جانا اور پھر آنسو بہانا یہ سب کچھ مجھے اسی کھلی کتاب میں دکھ رہا ہے۔
_______دنیا والو اب بس مجھے وہیں رہنے دو!
اور پھر تمہاری اس دنیا میں میرے حصہ کا بچا ہی کیا ہے؟
سوائے رنج والم کے اور سوائے ڈستی ہوئی قید تنہائی کے!!!!!
ارے کس ظالم نے ابھی دلی کانام لیا؟
یہ نام ہی میرے زخم کریدنے کو کافی ہے،یہ نام سن کر ہی میرے جوش جنوں کو پر لگ جاتے ہیں اور میں ایک آواز دیتی ہوں کہ:
جانے کس دیوانے نے “دل والوں کی دلی”کہا تھا،میراتودل کرتاہے اس جملے کی ایک تختی بناکر اسی کی قبر میں لے جاکر دفن کردوں اور اسے خبر کردوں کہ اب دل والوں کی دلّی نہیں ہے،گھروں کے چراغ غل کرنے والوں کی دلی ہے،ماؤں سے ان کے لخت جگر چھیننے والوں کی دلی ہے،دوشیزاؤں کی عزت تار تار کرنے والوں کی دلی ہے،محلوں اور بنگلوں میں رہنے والے جانوروں کی دلی ہے،لگزری گاڑیوں میں دندناتے پھرتے ڈیجیٹل بھیڑیوں کی دلی ہے،اس دلی نے نہ جانے کتنی “نربھیاؤں” کی عزتوں کے بٹے لگائے؟ نہ جانے کتنے “نجیبوں” کو ہضم کرکے ایسا پانی پیا کہ ڈکار تک نہ لی؟یہ تو صرف وہ بَس والی “نربھیا”،وہ جے این یو کا “نجیب” اور اس طرح کے دوچار اور واقعات تو کسی غلطی سے چرچے میں آگئے ورنہ آج کی دلی میں ہر روز ایک بڑی تعداد اپنی زندگی سے ہاتھ دھورہی ہے۔
اسی دلی نے مجھ سے میرا لخت جگر بھی چھینا ہے،ظالموں نے میری اس معصوم کلی کو جب مسلنا چاہا ہوگا،اس پر ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کئے ہوں گے،اس نے کیا کیا سوچا ہوگا؟لاچاری میں اس نے میرا نام بھی لیا ہوگا،کس دردوکرب اور بے چارگی سے مجھے اماں اماں کرکے پکارا ہوگا؟گھر بار سے دور رہنے کے غم نے اسے کس کس طرح ڈسا ہوگا؟مگر بھیڑیوں نے کچھ بھی رحم نہ کھایا____________________
بس یہی سوچ کر آنسؤوں کا ایک نہ تھمنے والا وہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جن کو اگر صحیح سمت اور رخ دے دیاجائے تو روئے زمین پر ایک نیا دریائے غم رواں ہوسکتا ہے،اور ان آنسؤوں کی اگر سچ میں لاج رکھ لی جائے اور ان کو کسی اور چشمے سے نہ دیکھے بغیر، صرف ایک بلکتی ماں کا،انسانیت کا آنسو سمجھا جائے تو مجھے یقین ہے کہ میرے ملک میں جو جمنا الگ اور گنگا الگ بہنے لگی ہے ان کے ملاپ کا کام بھی ان آنسؤوں سے لیاجاسکتاہے،لیکن رونا تو اسی بات کا ہے کہ میرے ان اشکوں کے سیلاب کو انصاف کی عدالت اور اس کی چوکھٹ تک پہونچنے سے پہلے ہی گندی سیاست کی بھٹیوں میں جھونک جھونک کر انہیں سلگا سلگا کر یوں خشک کردیا جائے گا کہ ان کے نشانات تک بھی باقی نہ رہیں گے،آخر اسی کا تو حصہ ہے کہ ہماری قومی میڈیا کو “راہل گاندھی”نے کیا اوڑھا کیا پہنا؟ کہاں اٹھے اور کہاں بیٹھے؟ وزیر اعظم نے کب مسکرایا اور کب ہنسا؟ کب وہ سوئے کب جاگے کب خراٹے لیا اور کیوں؟ ان سب بے بنیاد اور فرضی مدوں پر تو بحث کرنے کے لئے کئی کئی گھنٹے بھی کم پڑجاتے ہیں،لیکن میرے،اور مجھ جیسی بےشمار ملک کی ماؤں کے لئے کہ جنہوں نے اپنے لال کھوئے ہیں،انصاف کی گہار لگانے اور ان کی آواز اٹھانے کے لئے پانچ منٹ کا وقت بھی ان کے پاس نہیں ہے،خیر میرے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہوچکا،لیکن کیا اب انصاف مجھے مل پائےگا یہ ایک الگ اور مستقل سوال ہے جس کا جواب کچھ آسان نہیں۔
لیکن پھر بھی ابھی بہت سی ایسی مائیں ہیں جن کے معصوم پرندوں کی تاک میں دلی اور ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلے درندے ہوں گے جن کے لئے میں اپنے خون کے آنسؤوں سے یہ بات لکھ کر جملہ ختم کروں گی کہ: “میری جنت کو جس نے اجاڑا وہ کوئی ہندو یا خاص مذہب نہیں بلکہ میرے ملک کی صرف اور صرف گندی سیاست ہے”۔
اس لئے ملک کی سیدھی عوام اورمفکرین وسیاسی مبصرین سے میری بس اتنی اپیل ہے کہ ہمارے اس ملک میں سیاست جس رخ پر چل پڑی ہے وہاں سے اس کو ہٹانے کی کوئی راہ نکالی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب پورے ملک میں اس سے بھی بڑے پیمانے پر جنگل راج ہوگا،انسان انسان کو ویسے ہی کھائے گا جس طرح شیر اور بھیڑئے دیگر چھوٹے جانوروں کو کھاتے ہیں۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.