islam me parda

Islam Me Parda بے پردگى كے مضرات مشاہدات كے آئىنے مىں

بے پردگى كے مضرات مشاہدات اور تجربات كے آئىنے مىں

بقلم: منتشا عارف غازى ، على گڑھ، متعلمہ عالىہ خامسہ

پردہ صنف نازك كا بہت بڑا ہتھيار ہے،ىہ اسے نفسانى حملوں سے محفوظ ركھتا ہے، شيطانى حربوں اور چالوں كو پلٹ ديتا ہے، یہ عورت کی عزت و آبرو کا محافظ ہے، دلوں کی پاکیزگی اور طہارت اور بہت سے گناہوں سےرکاوٹ کا ذریعہ ہے، یہ مسلم خواتین کا شعارہے، یہ تقوی کا لباس، عزت کا تمغہ اور حیا کی دلیل ہے، یہ انسان نما بھیڑیوں کی ہوس بھری نگاہوں سے بچاتا ہے، یہ ہمیں زنا كارى، بدنظری، ناجائز تعلقات اور فضول بات چیت سے روکتا ہے،  یہ ایک ایسی نعمت ہے جس میں دین و دنیا دونوں کا فائدہ ہے، یہ عورت کا تحفظ اسکی عزت و عصمت اور وقار کا ضامن ہے۔

 باپردہ خاتون كو ديكھ كر لچے لفنگے قسم  کےمرد بھى اپنى  نظریں جھکا ليتے ہىں، اور ان كے ليے راستہ ہموار كر دىتے ہىں، اور بے پردہ بال کھول کر گلے میں دوپٹہ ڈالکر اور میک اپ کرکے باہر نکلنے والی عورت جو خود کو ماڈرن کہتی ہے،اور  زبانِ حال سے لوگوں كو دعوتِ نظارہ ديتى ہے، اس كى طرف نا چاہتے ہوئے بھى لوگ ملتفت ہوتے ہىں، اوباش قسم كے مردوں كا كيا كہنا ان كى تو بن مانگى مراد پورى ہو جاتى ہے، وه اس كے حسن وجمال  كى توصيف وتعريف كا پورا پورا حق ادا كرتے ہىں، فقرے  پر فقرہ ، سیٹی پر سيٹى، اور ماشاءاللہ سبحان اللہ کے زمزموں سے اس كے دل كو مسحور كرتے ہىں ، اور موقع ہاتھ آجائے تو چھیڑ خانی سے بھى کرنے باز نہىں آتے۔

بےپردہ عورت ا پنى تباہى وبربادى كے ساتھ ساتھ نسلوں کی تباہی کا باعث بھی بنتی ہے،قتل و غارت گری اور فساد کامحرك ہوتى ہے وہ اپنے معاشرہ اور اسلام کے روشن چہرے پر بدنما داغ بھی ہے۔  عورت جب پردہ ہوکر باہر نکلتی ہے تو عورت نہیں رہتی بلکہ وه  متاعِ كوچہء بازار ہو جاتى ہے، جس پر ہر نگاہ ايك خريدار كى طرح اٹھتى ہے، ہر مرد اس كو للچائى ہوئى نگاہ سے ديكھتا ہے، اور دل ہى دل مىں اس كى بولى لگاتا ہے،اس  ذہنى خريد وفروخت كے نتائج بسا اوقات بڑے بھيانك ہوتے ہىں،  اس كى عزت وعصمت نيلام ہو جاتى ہے، وه مرد كے ہاتھوں كا كھلونا بن كر رہ جاتى ہے، اس كے سارے حسين خواب  ٹوٹ كر بكھر جاتے ہىں،  پھر وہى معاشرہ  اور سماج جو ان كوماں، بہن، بيٹى اور بہو كى شكل مىں اپنى پلكوں پر بٹھاتا ہے وہى ان كو دھكے دے كر بھگا ديتا ہے۔

ىہ سب كيا كرايا مغربى تہذيب كا ہے ، جس كى آج ہم اندھى تقليد كرتے ہىں، جس نے آزادئ نسواں  كى آڑ مىں بے شرمى و بے حجابى بے حيائى،فحاشى، عريانيت اور عصمت فروشی  كا ايك طوفان برپا كر ركھا ہے، جس كى رو مىں ہم سب بہتے چلے جا رہے ہىں، جس كا اثر ہم مرد  وزن كے آزادانہ اختلاط، ان كى بے حجابانہ گفتار، بازاوں مىں عورتوں كا ہجوم،بے حيائى وبے پردگى كے عروج كى صورت مىں ديكھتے ہىں، آزادئ نسواں كے اس مغربى نعر ہ نے ہمارى مشرقى تہذيب كے پرخچے اڑا دىئے ہىں، اس كى عفت و عصمت كو تار تار كر ديا ہے، اور ہمارى بہن بيٹيوں كو چراغِ خانہ سے شمع انجمن بنا ديا، الله غريق رحمت كرے اكبر الہ آبادى مرحوم كو كيا پتے كى بات كہى  ہے انھوں نے:

حامدہ چمكى نہ تھيں مغرب سے جب بيگانا تھيں

اب ہيں شمع انجمن پہلے چراغِ خانہ تھيں

پردہ کا حکم قرآن سے

ہر ہوشمند آدمى كبھى بھى يہ بات گوارہ نہىں كرے گا كہ اس كى بہن بىٹىاں  ذليل خوار ہوں، اس كى عزت سرِ بازار نيلام ہو، لوگ اس پر آوازہ كسيں، طنز تعريض كے نشر چبھوئىں،وہ پورے سماج سے منھ چھپاتا پھرے، مذہب اسلام نے بے پردگى كى كوكھ سے جنم لينے والى سارى برائىوں كے سدّ باب كے ليے صنف نازك كو پردہ كا حكم ديا ہے، اسلامى معاشرتى زندگى مىں پردہ كى بڑى اہميت ہے،  قرآن وحديث مىں پردہ كرنے كى بہت تاكيد آئى ہے،  پردہ كس سے كرنا ہے؟ كب كرنا ہے؟ باہر كيسے آنا جانا ہے ان سب كے بارے مىں تفصيل سے بتايا گيا ہے، چنان چہ قرآن شريف مىں آيا ہے كہ:

﴿وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ [النور: 31]

ترجمہ: اور مومن عورتوں سے کہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں،  اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنے دوپٹّے اپنے سینے پر ڈالیں رہیں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے والد پر یا شوہر کے والد پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر  یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے مملوک پر یا ایسے خدمت گزاروں پر جو کچھ جنسی خواہش نہیں رکھتے،  یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے ابھی ناواقف ہوں، اور وہ اپنےپاؤں زور سے نہ ماریں کہ انکی چھپی ہوئى زینت معلوم  ہو جاۓ، اور اے ایمان والو تم سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾ [الأحزاب: 33]

ترجمہ: اور تم اپنے گھروں میں ٹہری رہو اور سابقہ جاہلیت کی طرح دکھلاتی نہ پھرو،  اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ اور اسکے  رسول کی اطاعت کرو، اور اللہ تو چاہتا ہے کہ تم ”اہل بیت“سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے ۔

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا﴾ [الأحزاب: 53]

ترجمہ: اے ایمان والو۔ نبیﷺ کے گھروں میں مت جایا کرو  مگر جس وقت تمکو کھانے کی اجازت دی جاۓ  ایسے طور پر کہ اسکی تیاری کے منتظر نہ رہو، لیکن جب تمکو بلایا جاۓ تو داخل ہو جاؤ، پھر جب تم کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو، اس بات سے نبیﷺ کو ناگواری ہوتی ہے مگر وہ تمھارا لحاظ کرتے ہیں،اور اللہ حق بات کہنے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا،اور جب تم نبیﷺ کی بیویوں سے کچھ مانگو تو پردہ کی اوٹ سے مانگو،یہ طریقہ تمھارے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے  اور انکے دلوں کے لئے بھی، اور تمھارے لئے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف دو،اور نہ یہ جائز ہے کہ تم انکے بعد انکی بیویوں سے کبھی نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بڑی بھاری بات ہے۔

﴿يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾[الأحزاب: 59]

ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دیجۓ کہ اپنے اوپر اپنی چادریں تھوڑی سی نیچے کر لیا کریں،اس سے انکی پہچان جلدی ہو جاۓگی تو وہ ستاٸ نہ جاٸیں گی،  اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

حدیث میں پردہ کا حکم

 عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ. رواه  ابوداود في سننه (1833).

ترجمہ: ابو داود شريف میں حضرت عائشہ سے روايت ہے، فرماتی ہیں کہ سوار ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم عورتیں نبیﷺ کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔ پس جب وہ سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتی تھیں اور جب وہ گزر جاتے تو منھ کھول لیتی تھیں۔

وعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ أَنَّهَا قَالَتْ: كُنَّا نُخَمِّرُ وُجُوهَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ، وَنَحْنُ مَعَ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ. رواه الإمام مالك في موطئه (1/ 328)

ترجمہ: اور موطا امام مالک میں ہےفاطمہ بنت منذر کا بیان ہے فرماتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہروں پر کپڑا ڈال لیتی تھیں۔اور حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت اسما۶ ہمارے ساتھ تھیں۔انہوں نے ہمیں اس سے منع نہیں کیا یعنی یہ نہیں کہا کہ حالتِ احرام میں نقاب کی جو ممانعت ہے اسکا اطلاق ہمارے اس فعل پر ہوتا ہے۔

فتح الباری کتاب الحج میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ فرماتی ہیں حالتِ احرام میں عورت اپنے سر کی طرف سے چہرے پر پردہ ڈال لیا کرے۔

شرعی پردہ كيا ہے؟ ستر اور حجاب ميں فرق

قرآن اور حدیث کی روشنی میں  شرعی پردہ دراصل دو پردوں پر مشتمل ہے۔

ایک گھر کے اندر کا پردہ ہے جس کے بارے میں احکامات سورہ نور میں بیان  ہوئے ہیں ۔ اور ان احکامات کو ”احکامات ستر“کہا جاتا ہے۔

دوسرا ہے گھر کے باہر کا پردہ جس کے بارے میں احکامات سورہ احزاب میں بیان ہوئے ہیں۔ اور یہ احکامات ”احکامات حجاب“کہلاتے ہیں۔

ستر اور حجاب ميں فرق

پردے کے حوالے سے اکثر لوگ ستر اور حجاب میں کوئى فرق نہیں کرتے ہیں حالانکہ شریعت اسلامیہ میں دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔

ستر جسم کا وہ حصہ ہےجسکا ہر حال میں دوسروں سے چھپانا فرض ہے سوائے زوجین کے یعنی میاں اور بیوی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔

مرد کا ستر ناف سے لیکر گھٹنوں تک ہے اور عورت کا ستر ہاتھ پاؤں اور چہرے کے علاوہ پورا جسم ہے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق عورت کا سارا جسم ستر ہے سوائے چہرے اور ہاتھ کے۔ البتہ عورت کے لئے عورت کا ستر ناف سے لیکر گھٹنوں تک ہے۔ معمول کے حالات میں ایک عورت ستر کا کوئى بھی حصہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں کھول سکتی۔

ستر کا یہ پردہ ان افراد سے ہے جن کو شریعت نے محرم قرار دیا ہے ۔ ان محرم افراد کی فہرست سورہ نور آیت ٣١ میں موجود ہے۔ ستر کے تمام احکامات سورہ نور میں بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیلات احادیث میں مل جاتی ہیں۔ گھر کے اندر عورت کے لۓ پردہ کی یہی صورت ہے۔

البتہ حجاب عورت کا وہ پردہ ہے جسے کسی ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکلتے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔اس صورت میں شریعت کے وہ احکامات ہیں جو اجنبی مردوں سے عورت کے پردے سے متعلق ہیں۔ حجاب کے یہ احکامات سورہ احزاب میں بیان ہوۓ ہیں۔ انکا مفہوم یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت جلباب یعنی بڑی لمبی چوڑی چادر  اوڑھے گی تاکہ اسکا پورا جسم ڈھک جاۓ اور چہرے پر بھی نقاب ڈالےگی تاکہ سوائے آنکھ کے چہرہ بھی چھپ جائے۔ گویا حجاب یہ ہے کہ عورت سوائے آنکھ کے پورا جسم چھپائے گی۔آنکھ کو کھولنے کی اجازت راستہ دیکھنے کے لئےدی گئى ہے لیکن اس وقت جو نقاب آرہے ہیں انسے آنکھیں بھی با آسانی سے ڈھک جاتی ہیں اور راستہ بھی بلکل صاف نظر آتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ انہی نقابوں کو اوڑھا جائے تاکہ آنکھ کا بھی پردہ ہو جاۓ۔

پردہ کے فوائد

میری بہنو! اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہمیں حجاب کی دولت بہت نایاب اور انمول ہے اور اس دولت کی وجہ سے ہم بہت سی برائیوں سے بچتی  ہیں۔ بہنو! ہم جب پردے میں ہوتی ہیں تو مرد ہمیں دیکھ کر نظریں جھکا لیتے ہیں اور بہت ادب کے ساتھ ايك طرف ہو جاتے ہیں۔ با پردہ خاتون کو چھیڑنے کی اور پریشان کرنے کی بھیڑیوں نما انسانوں کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ اور خود ہم سے بھی کوئى غلط قدم نہیں اٹھ سکتا۔ ہم جو حجاب میں گرمی برداشت کرتی ہیں اور پسینہ بہاتی ہیں، بہنو! اس پسینہ کے بدلے جو دولت اللہ رب العزت کی طرف سے ہمیں ملنے والی ہے وہ ہی ہماری اصل کامیابی ہے وہ ہی ہماری منزل ہے۔ جو خواتین نقاب میں دم گھٹنے کا بہانا بناتی تھیں اور نقاب ”فیس پیس“ نہیں پہنتی تھیں وہ آج کورونا کے ڈر سے کیسے خوشی خوشی ماسک لگا کر گھوم رہی ہیں، اب دم نہیں گھٹ رہا۔ جب ہمیں اللہ نے پردے کا حکم کردیا تو ہمیں پردہ کرلینا چائے تھا فیس پیس پہن لینا چاہئے تھا لیکن ہمارا تو دم گھٹتا تھا نہ فیس پیس میں تو اللہ رب العزت نے کورونہ کے ذریعہ بتادیا کہ نقاب سے دم نہیں گھٹتا بہانے نا بناؤ۔ بہنوں اگر ہم نے نقاب پہلے ہی اوڑھ لیا ہوتا اور اپنے رب کے حکم کو مان لیا ہوتا تو اگر اللہ چاہتا تو یہ ماسک لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

میری بہنو! جب ہم پوری طرح پردے میں گھر سے باہر نکلتی ہیں تو اپنے لئے دوزخ کے دروازوں، اور مردوں کے لئے فتنوں کے دروازے بند کرکے نکلتی ہیں۔

بہنو! جس طرح موتی کے لئے صدف اور جواہرات کے لئے صندوق ضروری  ہے اسی طرح عورت کے لئے پردہ ضروری ہے۔اس پردے میں ہی ہماری عزت محفوظ رہ سکتی ہے ہم اگر یہ چاہتی ہیں کہ باعزت بھی رہیں اوربے پردہ بھی  یہ تو ناممكن ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم  خود کو پردے کے زیور سے مزیّن کریں اور ایک با عزت اور باغیرت باحیا اور ایک مسلمہ  عورت کی طرح اپنی زندگی گزاریں۔

بے پردگى كے نقصانات

میری بہنو! اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں حجاب کی دولت سے نواز کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے لیکن افسوس صدا افسوس آج ہمنے اس انمول نعمت کی  قدر نہ کی اور آج یہی وجہ ہے کہ ہمارا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا۔ میری بہنو! آپ بھی یہ بہت اچھے سے جانتی ہیں کہ آج خواتین کی عزت کیسے تار تار ہو رہی ہے۔ میری بہنو! یہ بےپردگی کی ہی وجہ ہے۔

آج ہر روز اخبارات عصمت فروشی کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں کہ آج فلاں علاقہ میں عصمت فروشی کا واقعہ رونما ہو گیا پولس مصروف تفتیش ہے۔

اور اب تو ایک ایک دن میں كئى كئى خبرىں ملتى ہیں کہ فلاں جگہ  ايك خاتون کی عزت تار تار کی گئى، آج فلاں فلاں کا ریپ ہو گیا، اسکی وجہ میری بہنو! صرف اور صرف بےحجابی ہے۔ آپنے کبھی سنا کہ کسی با حیا با پردہ خاتون کی عزت سے کھیلا گیا؟ فلاں باپردہ خاتون کے ساتھ ریپ كيا گيا؟ الحمد للہ اب تک ایسی کوئى خبر نہیں آئى ہے۔

 میری بہنو! اس طرح کے ہزاروں واقعات ہیں کہ بے پردگی کی وجہ سے عزت نیلام ہوئى۔ اسی طرح کا ایک  واقعہ ابھی کچھ وقت پہلے ہی پیش آیا:

           واقعہ

اسلام نے سالی کو بہنوئى سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے نے اسکو بلکل ہی ختم کر دیا ہے، جس كے بھيانك نتائج سامنے آتے ہىں، ایک لڑکی اپنی بڑی بہن کے گھر آگئى اور وہیں رہنے لگی، لیکن  بہنوئى سے کوئى پردہ ہی نہیں، آپس میں گپ شپ کرتے کرتے تعلق قائم ہو گیا، اب کچھ دن تو ایسے ہی چلتا رہا اور پھر سالی بہنوئى رفوچکّر ہوگئے، نہ بیوی کو طلاق دی اور نہ سالی سے نکاح ہوا لیکن میاں بیوی کا رشتہ قائم کر لیا۔ اور بہن بیچارى دیکھتی رہ گئى ۔اللہ ہم سب كى حفاظت فرمائے۔

سالی سے مذاق  اور گپ شپ کی وجہ سے  ایک اور صاحب کا تعلق سالی سے قائم ہوگیا، اور میاں بیوی کی طرح رہنے لگے اور معاشرے کی رسوائى سے بچنے کے لئے سالی برابر حمل روکنے کی گولیاں کھاتی رہی، اور بالا آخر وہ شادی  كركے اپنی سسرال چلی گئى ۔ میری بہنو!  یہ گناہ کس وجہ سے ہوا صرف اور صرف بے پردگی کی وجہ سے اگر پردہ ہوتا تو ایسی نوبت ہی نہ آتی۔

اور ہم دیکھتے ہیں کہ كسى  گلی سے بھی جب بے پردہ عورت گزرتی ہے تو ہر مرد کی نگاہ اس پر پڑتی ہے۔ اور جب ہوس بھری نگاہیں پڑتی ہیں تو عورت سے برکت نکل جاتی ہے اور پھر پریشانیاں آتی ہیں۔ خواتین آکر شکایت کرتی ہیں کہ شوہر توجہ نہیں دیتا بچے بات نہیں مانتے رزق میں برکت نہیں ہوتی آپ کوئى تعویز دیدیں،  تو  بہن جسکو تیری محبت تیرے شوہر کے دل میں ڈالنی تھی بچوں کو تیرا فرمابردار بنانا تھا تیرے رزق میں برکت دینی تھی تو نے اسکے حکم کو کیسے پیٹھ پیچھے چھوڑ دیا۔تو پہلے اسکو راضی کر اور پھر دیکھ وہ تیرے کام کیسے بناتا ہے۔

پرده كے بارے مىں اسلام پر اعتراض

کچھ کم عقل اور کج فہم لوگ خواتین کے بارے میں اسلام پر یہ اعتراضات کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو بندی بنا دیا ہے، صرف گھر کی چار دیواری میں  قید کر دیا ہے اور خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے، اور انھيں ميدانِ عمل مىں اترنے کا حق نہیں دیا  ہے، ، جس طرح مرد عروج پر پہنچتا ہے،  اور اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ہے، پیسہ اور عزت کماتا ہے  اس طرح ایک مسلم خاتون یہ سب نہیں کرسکتی کیوں کہ اسلام نے اس كا حق چھىن كر اسے گھر مىں مقيد كر ديا ہے، ان كو آگے بڑھنے اور ترقى كرنے سے روك ديا ہے، يہ عورتوں پر سراسر ظلم ہے، اگر عورتوں سے اسے ہمدردى ہوتى، يہ انكا خير خواه ہوتا تو اسلام ان پر يہ ظلم نہ كرتا، بلكہ انہىں بھى اپنى خدمات پيش كرنے كا موقع فراہم كرتا۔

  اس طرح كے بہت سارے اعتراضات كے جواب مىں ايك اصولى بات سمجھ ليں كہ اسلام نے ہر انسان کو اسکی  استطاعت  کے بقدر ذمہ داری دی ہے

قرآن كہتا كہ: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا﴾ [البقرة: 286]

اللہ تعالى ہر كسى كو اس كى طاقت كے بقدر مكلف بناتا ہے، الله تعالى كسى كو ايسے كام كا مكلف نہىں بناتا جو اس كى طاقت سے باہر ہو، جس كو وہ نہ كر سكے، عورتیں چوں کہ جسمانى لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں ، نازک ہوتی ہیں اس لئے انہیں گھر کے کام کاج کی ذمہ داری دی، اور مرد مضبوط ہوتا ہے حادثوں کا مقابلہ کرنا جانتا ہے اس ليے اسے باہر کی ذمہ داریاں دیں، اور روزى روٹى كمانے پر معمور كيا۔اگر مرد روزى روٹى كى تلاش مىں نہ نكلے تو سماج اسے نكما اور بيكار گردانتا ہے،  اور ہمارا سماج گھر رہنے والى عورتوں كو كبھى بھى برا بھلا نہىں كہتا، كيونكہ ىہى اس كا اصل حق ہے، اور ىہى اس كى ذمہ دارى ہے، بالفرض اگر  ايك عورت كو اگر باہر كى ذمہ دارياں سونپ دى جائىں تو وہ اپنى ذمہ دارى مرد كے مقابلہ مىں بطريقِ احسن نہىں نبھا سكتى،  اس كو قدم قدم پر سہارے كى ضرورت محسوس ہو گى، اور بسا اوقات اسے اپنى عزت وعصمت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اس ليے اسلام نے ان كو ايسى ذمہ دارى دى جس كو وہ اچھى طرح نبھا سكيں،  اور ان كى عزت وآبرو پر كوئى آنچ نہ آئے، اور ىہى فطرى تقسيم ہے۔

دوسرى بات  يہ ہے كہ ہر عورت كے كچھ نہ  كچھ فطرى مسائل ہوتے ہىں، جس كى وجہ سے مستقل مزاجى سے باہر ذمہ دارياں نبھانا ايك مشكل امر ہے، عورت ايامِ حمل مىں دلجمعى كے ساتھ كام نہىں كرسكتى، اگر بچے چھوٹے ہوں تو ان كى بھى پورى ذمہ دارى اسى كے كندھے پر ہوتى ہے، چولہے چوكے بھى بوجھ اسى پر ہوتا ہے،  ان تمام وجوہات كو مدّ نظر ركھتے ہوئے اسلام نے اس كے ليے ايك آسان راستہ نكالا ہے كہ وہ اندرونِ خانہ رہ كر گھريلو كام كو انجام دے، اسى مىں اس كى عزت اور بھلائى ہے۔

تو اسلام پراعتراضات كرنےوالے یہ بات بہت اچھے سے سمجھ لیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں عورت کو سب سے زیادہ عزت اگر کسی مذہب نے دی ہے تو وہ صرف اور صرف مذہبِ اسلام ہے۔اسلام نے اپنی بہو بیٹیوں کو قید نہیں کیا بلکہ ہوس پرستوں کی نگاہوں سے محفوظ کیا ہے۔ جو لوگ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کیا وہ قید کے معنیٰ بھی جانتے ہیں، وہ لوگ قید کے معنیٰ تو بہت دور وہ لوگ قید کے قاف سے بھی واقف نہیں ہیں۔ وہ لوگ صرف اور صرف لولی لنگڑی بحث کرنا جانتے ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ قید کہتے کسے ہیں پہلے وہ حضرات اسکو  اچھی طرح سمجھیں۔

 ہم بتاتے ہیں قید خلافِ طبع ”خلاف طبیعت ،چاہت کے خلاف قید“ کو کہتے ہیں ۔اور جو خلافِ طبع ”طبیعت و چاہت “نہ ہو اسکو قید ہرگز نہیں کہیں گے ۔مثلاً یہ حضرات  اپنی ضرورت کے ليےباتھ روم  میں اپنی مرضی سے پردہ کرکے بیٹھتے ہیں ۔اب اگر ہر پردہ انکی نظر میں قید ہے تو ان حضرات کو بھی کہنا چاہئے کہ ہم اتنی دیر قید رہے، لیکن اس پردے کو یہ قید نہیں کہتے کیوں کہ یہ پردہ طبعی  ہے۔ اب اگر انہیں زبردستی باتھ روم میں قید کرکے باہرچوکیدار کو کھڑا کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ یہ باہر نہ نکلنے پائیں۔ تو اس صورت میں یہ پردہ خلافِ طبع ہوگا اور اسکو یہ حضرات ضرور کہیں گے کہ ہم اتنی دیر قید رہے۔ حالانکہ پردہ اُس میں تھا اور پردہ اِس میں ہے لیکن وہ طبعی تھا اور یہ خلافِ طبع۔پس ثابت ہوا کہ ہر پردے کو قید نہیں بلکہ خلافِ طبع پردے کو قید کہتے ہیں۔تو اعتراضات کرنے والے حضرات کو پہلے  اس بات کی تحقیق کرنی چاہئے کہ یہ پردہ جو اسلام نے اپنی بہو بیٹیوں پر فرض کیا ہے وہ انکی طبیعت کے موافق ہے یا غیر موافق”خلافِ طبع“  ہے۔ تو مسلم خواتین یہی جواب دیں گیں کہ یہ پردہ انکی طبیعت کے موافق ہے نہ کہ غیر موافق بشرطیکہ وہ خاتون ایک غیرت مند باحیا شریف خاندن اور عزت دار خاندان کی ہو نہ کہ چند پیسوں پے بکنے والی ہو کہ اسے کوئى بھی انسان خرید کر اپنی مرضی کی بات کہلا لے۔

مرد وزن كے آزادانہ اختلاط سے پيدا ہونے والى خرابياں

جو خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چلتی ہیں، آزادانہ گھومتی ہیں یا مردوں کے ساتھ نوکریاں کرتی ہیں وہ بیچاری مردوں کی دل لگی کے ليے ایک کھلونا بن کر رہ جاتی ہیں نہ انکی عزت محفوظ نہ انکا وقار محفوظ، اور ہر بات پر اپنی سریلی آواز میں  سر جھا کر:   یس سر ، یس سر  کی گھٹی گھول کر مردوں کو پلاتی ہیں اور ان بیچاریوں کا  گمان ہوتا ہے کہ ہماری عزت سر کی نظر میں بہت زیادہ ہے، ہم سر کی لاڈلی ہیں لیکن یہ بیچاری اس بات کو نہیں جانتی کہ یہ سر انکو ایک ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرکے کچرے کے ڈببے میں بے یارو مددگار پھینک دیگا۔ آزاد عورتوں اور مردوں کے شانہ بشانہ نوکری کرنے والی خواتین کو آخری انعام یہی ملتا ہے کہ مرد انکی عزت سے کھیلتے ہیں اور پھر خود وہ مرد بھی اور انکا معاشرہ بھی انکو دھکے دیکر اپنے علاقے سے نکال پھینکتا ہے۔

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اُسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا

تُلتی ہے کہیں دیناروں میں، بِکتی ہے کہیں بازاروں میں

ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں

یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں

عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

خواتین جب تیار ہوکر اور بے پردہ ہوکر پارکوں میں، ریسٹورینٹ میں،پارٹیوں میں، اور شادی بیاہ میں جاتی ہیں تو کہ اللہ ربّ العزّت انسے ناراض ہوتے ہیں اور اللہ ربّ العزّت کے فرشتے ان پر لعنت بھیجتے ہیں، اور بھیڑیے نما انسان انکے ساتھ چھيڑخانی کرتے ہیں اور بعض اوقات تو انکی عزّت تک سے کھیل جاتے ہیں۔ خواتین کے اس طرح بے پردہ ہوکر آوارہ گردی کرنے سے پورے معاشرے کی عزّت نیلام ہوتی ہے اور ساتھ میں ان بے غیرت خواتین کو دیکھ کر غیر مسلم اسلام پر بھی اعتراض کرتے اور طعنہ دیتے ہیں۔ خواتین کے اس طرح آوارہ گردی کرنے سے زنا،بدنظری،بے حیاٸ اور بہت سے گناہ وجود میں آتے ہیں جنکی ذمہدار صرف اور صرف یہ بے حیا بے پردہ خواتین ہوتی ہیں۔

خلاصہ

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات بلکل واضح ہو چکی ہے کہ خواتین کی بھلائى اور انکی عزت و عصمت کی حفاظت پردے میں ہے، بے پردگی ان کے ليے وبالِ جان ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن ہماری ماؤں بہنوں کی عقلیں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہو چکی ہیں۔ انکی عقلیں یہ کہتی ہیں کہ با پردہ رہوگی تو دنیا کیا کہے گی اور اگر  اس  سادہ سے برقعہ میں باہر نکلوگی گی تو  کوئى کیسے دیکھے گا اور جب دیکھے گا نہیں تو رشتے کیسے آئیں گے؟ یہ بات یاد رکھئےکہ اگر با پردہ رہوگی تو باپردہ رشتے آئیں گے اور اگر بے پردہ رہوگی تو بے پردہ رشتے آئیں گے، كيونكہ الله تعالى نے يہ اصول بنا دبا كہ:

﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ﴾ [النور: 26]

ىعنى برى عورتىں برے مردوں كے ليے بنى ہىں، اسى طرح برے مرد برى عورتوں كے ليے بنے ہىں، اور اچھى اور نيك عورتىں اچھے مردوں كے ليے، اور اچھے مرد اچھى عورتوں كے ليے بنے ہىں

 اور  ساتھ ہى ساتھ یہ بات اچھے سے ذہن میں بىٹھاليں  کہ ہر مرد غیرت مند ہوتا ہے چاہے پھر وہ باپ کی شکل میں ہو یا بھائى کی شکل میں، یا پھر شوہر کی شکل میں، ہو کوئى یہ نہیں چاہتا کہ ہماری بہن بیٹی یا بیوی بے پردہ ہوکر بازاروں کی زینت بنے، کسی کی غیرت اس بات کے ليے گوارہ نہیں کرتی۔ لیکن ہماری مائیں  بہنیں اس بات کو بلکل نہیں سمجھتی اور اب تو ماحول اتنا خراب کر دیا ہے خواتین نے کہ ہر طرف ماڈرن لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ آج ہر طرف عورت باریک لباس پہن کر برہنہ گھومتی نظر آتی ہے۔پردے کے نام پر جو برقعہ پہنا جاتا تھا آج ہماری خواتین نے اسکو بھی اتنا مزّین کر لیا کہ وہ پردے کے ليے پہنا گیا برقعہ نہیں بلکہ کسی دلہن کا جوڑا لگتا ہے، انھوں نے پردہ كا معنى مطلب تبديل كر  ليا ہے، اب پردہ پردہ نہىں رہافيشن ہو گيا ہے، اب با حيا مرد خود ہى ان سے كترا كر گذر جاتے ہىں:

بے پردہ نظر آئىں كل چند  بيوىاں

اكبر زمىں مىں غيرتِ قومى سے گڑ گيا

پوچھا جو ان سے بيويو! پردہ وہ كيا ہوا؟

كہنے لگيں كہ عقل كى مردوں پہ پڑ گيا

میری بہنو!  پردے کو لازم پکڑو اسی میں تمھاری عزت ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائى ہے۔ بے پردہ رہنے میں کوئى عزت نہیں ہے۔ بہنو! اسلام نے حیا و پاکدامنی کے احکامات نافذ  کرکے ہمیں معاشرے میں قابل احترام و عزت ہستی قرار دیکر حجاب کو ہمارے لۓ ڈھال اور معاشرے کی پاکیزگی کا ضامن بنایا ہے، تو  ہمیں چاہئے کہ اس انمول نعمت کی قدر کریں اور خود کو حجاب کے زیورات سے مزین کریں۔

محمد كے طريقے سے قدم جو بھى ہٹائے گا

كبھى رستہ نہ پائے گا كبھى منزل نہ پائے گا

◊◊◊◊◊◊

آخر ميں مسلم بہنوں كے ليے  كچھ نصيحيں

بہنو!

 آپ بہت انمول ہیں۔

آپ والدین کے ليے باعثِ فخر ہیں۔

آپ بھائیوں کے ليے باعثِ عزت ہیں۔

آپ شوہر کے ليے دنیا کا بہت انمول اور قیمتی سرمایہ ہیں۔

آپ اولاد کے ليے عمدہ نمونہ اور انکی پوری کائنات ہیں۔

آپ وہ آسمانی نور ہیں جسکی وجہ سے پورى کائنات روشن ہے۔

آپ وہ مبارک ہستی ہیں جسکے دم سے برکتیں ہیں۔

آپ اپنی قدر کو سمجھیں اور ایک ایسی خاتون بنیں

کہ آپ کو دیکھنے کے لۓ ایک خاص قوّت درکار ہو۔

آپ حیا کی ایسی تاب دار ہو کہ جب شیطان نما انسان آپ کو دیکھنے کے ليے نگاہ اٹھائے تو اسکی آنکھیں چندھیا جائیں۔

نگاہیں ہزار بار جھکیں۔

آپ بولیں تو لہجہ کی تپش برداشت نہ ہو۔

آپ گرجیں تو مضبوط حویلیاں دہل جائیں۔

آپ برسیں تو سارا ملبہ بہا لے جائیں۔

آپکی نگاہ تابشِ آفتاب کی طرح ہو جسکی بھیڑئے نما انسان تاب نہ لا سکے۔

آپ ایسی خاتون بنیں جسے پانے کے ليے ابنِ آدم کو اپنا تعلق اللہ ربّ العزت سے جوڑنا پڑے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply