Shaikh Zakarya Ke Dars e Bukhari Ki Khususiyaat

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کے درس بخاری کی خصوصیات

بقلم: حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری معتمد تعلیمات دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنوَ، بانی وسرپرست جامعہ اسلامیہ مظفرپور اعظم گڑھ

نوٹ: یہ تحریر اس ناچیز نے حضرت رحمۃ اللہ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی، اس وقت حاضرین میں مولانا محمد یونس رح، مولانا محمد عاقل صاحب، اور مولانا سلمان صاحب وغیرہ موجود تھے، یہ تحریر پڑھی جارہی تھی اس وقت حضرت شیخ پر ایک خاص کیفیت طاری تھی، معلوم ہوتا تھا کہ ہم لوگ تھوڑی دیر کے لیے بارگاہِ نبوی میں پہنچ چکے ہیں ، حضرت شیخ کے درس کی خصوصیات کی افادیت کے پیشِ نظر اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کو شاءع کیا جائے تاکہ طلبہ اور مدرس دونوں کے لیے نفع بخش ثابت ہو ۔

علم حدیث کریم ﷺکی مبارک زندگی کی مستند تاریخ ہے

علم حدیث در حقیقت نبی کریم ﷺکی مبارک زندگی کی نہایت مستند ومعتمد تاریخ ہے، مسلمانوں کو اپنے پیغمبر علیہ السلام کی ذات گرامی سے جو عشق ومحبت کا تعلق ہے، دیگر امتوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی، اسی لیے انہوں نے آپﷺ کی زندگی کے ہر گوشہ اور ہر خدوخال کو کمال دیانت واحتیاط سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے، آج اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تصویر اور کامل زندگی کا نقشہ دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے احادیث کی کتابیں کافی ہیں ، اپنے اس غیر معمولی تعلق کی بناء پر مسلمانوں نے الہامی طور پر علم حدیث کی حفاظت وصیانت کے لیے جو محیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں وہ تاریخ کے اوراق میں ثبت ہیں ، انہوں نے اس علم کی حفاظت وتدوین نقل واشاعت اور جمع وترتیب ، ضبط واتقان اور ان تمام علوم پر خصوصی توجہ صرف کی جس کا اس علم سے کوئی تعلق یا رشتہ تھا ۔

اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور اس کی عنایت خاصہ جو اس علم کی حفاظت وصیانت کے ساتھ رہی ہے، اس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب ایک غیبی نظام کے تحت چل رہا ہے، امت میں ایسے غیر معمولی ذکی وذہین افراد کا ایک سیلاب نظر آتا ہے، جو اس علم کی خدمت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، اس کی طلب میں بر اعظموں وسمندروں کو پار کرلینا، مصائب کو برداشت کرلینا اور دشوار راستوں کو طے کرلینا ان کے نزدیک ایک معمولی بات بن گئی، انہوں نے علم کی خدمت واشاعت کا ایسا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا کہ گذشتہ امتوں اور سابق تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی، وہ اپنے شغف اور عشق وبلند ہمتی اور خدمت علم اور اپنے ایثار وقربانی میں بے نظیر تھے ۔

یہ محض امر اتفاقی نہیں بلکہ قدرت الٰہی کا ایک بڑا معجزہ اور ظاہر میں مادہ پرست انسانوں کے لیے ایک بڑا سبق اور انسانی تاریخ کی پیشانی پر ایک روشن علامتِ استفہام ہے کہ ایسا کیونکر ہوا؟در حقیقت اسرار الٰہی میں سے ایک سرّ اور ایک روشن دلیل ہے کہ یہ رسالت آخری ہے، اور اس شریعت کے تا قیامت بقاء ودوام کا فیصلہ ہے ۔

یہی غیبی انتظام اس اُمت کے لیے علم حدیث کی حفاظت اور مسائل کے استنباط واستخراج اور تمام علوم اسلامیہ اور اس کے متعلقات کی تدوین اور تالیف وتصنیف اور قیامِ مدارس کا سبب بنا، تمام بلاد اسلامیہ جہاں جہاں مسلمان فاتحین ومجاہدین ، صوفیاء ومبلغین، اساتذہ ومدرسین، فقہاء ومحدثین کے قدم پہنچے وہ اپنے ساتھ اپنے قرآن اور علم حدیث اور دیگر علوم کے لے گئے اور اُن کی نشر واشاعت کی ۔

ہندوستان ميں علم حديث

اسلام کی کرنیں سرزمین ہند میں قرن اول میں پہنچ چکی تھیں ، ان میں صحابہ کرام تابعین وتبع تابعین بھی تھے، تاریخ میں خصوصیت سے ربیع بن صبیح سعدی بصری کا اسم گرامی ملتا ہے جو تبع تابعی بھی ہیں ، جو اس ملک میں تشریف لائے، جن کے بارے میں علامہ چلپی کشف الظنون میں لکھتے ہیں : هو أول من صنف في الإسلام:  اسلام کے پہلے مصنفین میں ان کا شمار ہے، گجرات کے ضلع بھروچ کے مقام بھاڑ بھوت میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے ۔

اگرچہ پہلی صدیوں میں اس ملک میں علم حدیث کا چرچا نہیں ہوا تھا، جو بتدریج بعد کی صدیوں میں ترقی کر کے آگے بڑھتا رہا، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ ملک محدثین کرام کے وجود اور ان کے حلقہائے درس سے خالی تھا، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ، راقم کا سلسلہ مضامین “ہندوستان میں علم حدیث” ۔

خصوصیت کے ساتھ نویں ودسویں صدی میں خاصی تعداد اس ملک میں محدثین کرام کی وارد ہوئی، اور شاہان گجرات کی علم کی قدر دانی کی بناء پر اکثر کا قیام احمد آباد میں رہا اور وہیں مدفون ہوئے، اللہ کی توفیق سے بہت سے علماء حرمین شریفین اس کے مرکز میں سفر کر کے حاضر ہوئے، اور علم حدیث کو حاصل کیا، ان میں سب سے زیادہ مشہور شیخ حسام الدین علی متقی صاحب “کنزالعمال” (م  975ھ)  اور ان کے نامور شاگرد علامہ محمد بن طاہر پٹنی صاحب “مجمع بحار الانوار” (م 986 ھ) ہیں ، ان حضرات کے بعد شیخ عبد الحق محدث دہلوی (م 1052ھ)  کا دور آیا، انہوں نے علماء حجاز سے اس علم کو حاصل کیا، اور ہندوستان میں دلی کو اس کی نشر واشاعت کا مرکز بنایا، انہوں نے اور ان کے تلامذہ اور اولاد واحفاد نے تعلیم وتدریس شرع وتعلیق کے ذریعہ ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا کہ اس ملک میں اس علم کا عام چرچا ہوگیا ۔

ان کے بعد مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب  (م 1176ھ) کا دور آیا، انہوں نے یہاں سے حجاز مقدس کا سفر کیا اور وہاں کے شیوخ بالخصوص شیخ ابو طاہر مدنی کی خدمت میں چودہ مہینے قیام کر کے اس علم کو حاصل کیا واپسی پر ہمہ تن علم حدیث کی نشر واشاعت میں مشغول ہوگئے، اور ان کے بعد اس علم میں ہندوستان کو وہ مقام حاصل ہوا کہ کوئی دوسرا اسلامی ملک اس کی ہمسری نہیں کرسکتا اور اس ملک میں صحاح ستہ کی تدریس اور دورہَ حدیث کا رواج ہوا، حضرت شاہ صاحبکے تلامذہ میں آپ کے فرزند اکبر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (م 1293ھ)  کے درس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ ایک بڑی جماعت ان سے فیضیاب ہوئی ۔

ان میں سے سب سے زیادہ مشہور وممتاز حضرت شاہ محمد اسحاق مہاجر  مدني(م 1262ھ) کی ذات بابرکات ہے جو آپ کے نواسے بھی ہیں ، جن کی ذات گرامی اپنے دور میں علم حدیث کا سب سے بڑا مرکز تھی، روئے زمین کے اطراف واکناف سے تشنگان ِعلم ان کے در پر حاضر ہوتے اور فیضیاب ہوتے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مقبولیت عطا فرمائی تھی کہ نہ وہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام میں بھی ان کی نظیر اس دور میں شاید نہ مل سکے ۔

ان کے ممتاز تلامذہ میں جن کے اسماء گرامی سر فہرست لکھے جاسکتے ہیں ، حضرت شاہ عبد الغنی صاحب مجددی رحمه الله (م 1296ھ) مہاجرمدنی ہیں ، ان کے درس حدیث سے ہندوستان اور حرمین شریف کے علماء کی ایک بڑی جماعت تیار ہوئی، ان میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو اس کی خدمت کے لیے وقف کردیا، ان مخلصین کے درس وتدریس تصنیف وتالیف کی برکت سے ہندوستان اس علم کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ۔

ان کے ارشد تلامذہ میں حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمه الله  (م 1297)  اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمه الله (م 1323ھ) کی ذات گرامی ہے، حضرت گنگوہی نور اللہ مرقدہ نے اپنے وطن گنگوہ کو تربیت واصلاح اور درس وتدریس وافتاء کا مرکز بنایا، حضرت قطب الارشاد کے محبوب شاگر وحضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب رحمه الله (م 1334ھ) ہیں ، جن کے سبب سے حضرت کے آخری دور کے دورہَ حدیث کی بہار دنیا نے دیکھی، حضرت اقدس تن تنہا صحاح ستہ کا درس دیتے تھے، اور اپنے درس میں ضبط واتقان اور نادر تحقیقات کے موتی بکھیرتے تھے، حضرت مولانا محمدیحییٰ صاحب نے حضرت کے درس کے افادات کو عربی زبان میں قلمبند فرمایا تھا، جو در حقیقت حضرت کے عمیق ووسیع مطالعہ اور طویل عرصہ کے درس کا خلاصہ اور نچوڑ ہیں ۔

حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب مرشد نا واستادنا حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مد فیوضہم العالیہ کے والد بزرگوار ہیں ، حضرت شیخ نے مشکوٰۃ شریف اور صحاح ستہ (سوائے ابن ماجہ کے) ان سب کتابوں کو اپنے والد صاحب سے بحث وتحقیق سے پڑھیں ۔

نیز حضرت والد صاحب کے علاوہ حضرت شیخ نے اپنے استاد ومرشد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نور اللہ مرقدہ  (م 1346ھ) سے دو بارہ ان سب کتابوں کو سوائے ابن ماجہ کے کہ اس کا ابتدائی حصہ پڑھ کر اجازت لی تھی، پورے انہماک اور غیر معمولی دلچسپی سے پڑھیں ، اس کے علاوہ حضرت سہارنپوری کی معرکۃ الآراء شرح  بذل المجهود في حل سنن أبي داود  میں شریک رہے اور حضرت کے دست راست کی حیثیت سے کام کیا ۔

حضرت سہارنپوری کو اپنے لائق وسعید شاگرد پر غیر معمولی اعتماد تھا، مقدمہ بذل المجہود میں حضرت سہارنپوری نے قرۃ عینی وقلبی کے لقب سے سر فراز فرمایا ہے، بلکہ حضرت نے مسودہ میں یہ بھی حریر فرمایا تھا: هو جدیر باَن ینسب هذا التعلیق  إليه کہ مناسب یہ ہے کہ اس تعلیق کی نسبت ان ہی کی جانب  کی جائے………، مگر حضرت شیخ فرماتے تھے کہ اس عبارت کو ادباً میں نے حذف کردیا ۔

حضرت شیخ اسی طرح اپنے والد بزرگوار اور حضرت اقدس سہارنپوری ان دونوں بزرگوں کے علوم وکمالات اور روحانیت کے سچے وارث وجانشین ہیں ، حضرت شیخ کی جس نورانی ودینی ماحول میں تعلیم وتربیت ہوئی اور جس روحانی وعلمی فضا میں شعور کی آنکھیں کھولیں اور اس کے بعد آپ نے درس وتدریس اورتصنیف وتالیف کا آغاز فرمایا، جس کی تفصیل خود نوشت سوانح آپ بیتی سے معلوم ہوسکتی ہے، حضرت کے حالات زندگی شہادت دیتے ہیں کہ آپ کو حق تعالیٰ شانہ نے اس دور میں امت اسلامیہ کی رہنمائی اصلاح وتربیت اور علوم دینیہ بالخصوص علم حدیث کی عظیم الشان خدمت واشاعت کے لیے پیدا فرمایا ہے ۔

حق تعالیٰ کی توفیق وعنایت خاصہ جو آپ کے ساتھ ہے، اس کی بنا پر جو علمی کارنامے آپ نے انجام دیئے اور تاہنوز اس کا سلسلہ روز افزوں ہے، بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ قرون متاخرہ میں اس کی بہت ہی شاذونادر مثالیں ملیں گی، بالخصوص علم حدیث کی جو بیش بہا محدثانہ ومحققانہ خدمت انجام دیں ،وہ اہل علم اہل نظر کے سامنے ہے، جس کا شمار اس دور کے نوادر میں سے ہے، قطع نظر ان مخطوطات کے جو ابھی تک منصہ مشہورد پر نہیں آسکے، کتب فضائل کے علاوہ جوکتابیں مطبوع ہوچکی ہیں ان میں موطا مالک کی ضخیم شرح اوجز المسالک اور مقدمہ لامع الدراری اور لامع اور الکوکب الدری[1]کے حواشی اور جزء حجۃ الوداع الابواب والتراجم اور حاشیہ

بذل المجہود، یہ وہ کتابیں ہیں جو اسلامی کتب خانہ کی زینت اور اہل علم ومدرسین کے لیے زادِ راہ ہیں ۔

ہمارے اس ملک کے تقریباً تمام اعلیٰ مدارس میں دورہَ حدیث کے پڑھانے کا رواج ہے، جب کہ مقصر وشام کے بڑے بڑے جامعات میں حدیث کے صرف منتخبات پڑھائے جاتے ہیں ، حضرت اقدس مدفیوضہم العالیہ نے تقریباً پینتیس سال تک مدرسہ مظاہر علوم میں ابو داود شریف کا درس دیا ہے، اور بخاری شریف تقریباً نصف صدی تک حضرت والا کے زیر درس رہی، ان تمام خصوصیات کی بناء حضرت اقدس کا درس اس دور کا ممتاز ترین درس تھا ۔

افسوس آنکھوں میں نزول ماء کی شکایت کی بناء پر  1388ھ سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا، مگر تصنیف وتالیف کا سلسلہ بدستور جاری ہے، بہت سے وہ حضرات جنہیں حضرت اقدس کے درس حدیث میں شرکت کا موقع نہیں ملا وہ کفِ افسوس ملتے ہیں ، اور آرزو مند ہیں کہ کاش حضرت کے درس بخاری کی تقریر طبع ہوجاتی تو شاید اس سے تسکین کا موقع ملتا، بہت سے علماء وفضلاء اور اہل ِتعلق کا شدید اصرار وتقاضہ اس کی طباعت پر تھا، عزیز گرامی مولوی محمد شاہد سلمہ علمی حلقے کی طرف سے شکرئیے کے مستحق ہیں ، جنہیں حضرت اقدس کی کتابوں کی نشر واشاعت سے عشق ہے، انہوں نے اس پر مستقل محنت شروع کر رکھی ہے، اور بخاری شریف کی متعدد تقاریر بالخصوص برادر محترم مولانا محمد یونس صاحب مدفیوضہم اور عزیز گرامی مولانا سلمان صاحب سلمہ مدرس مدرسہ مظاہر علوم اور برادر محترم مولانا احسان الحق لاہوری مد فیوضہم ان تینوں حضرات نے حضرت کی تقاریر کو مبسوط قلم بند کیا تھا، اس لیے ان سب کو سامنے رکھ کر وہ ترتیب دے رہے ہیں ، اور مسودہ پر محترم مولانا محمد یونس صاحب نظر ثانی فرمارہے ہیں ، اس طرح یہ مجموعہ تقاریر ہر طرح قابل اعتماد ہوگیا، حضرت اقدس جس انہماک، دلسوزی نشاط وسرگرمی تیاری وپابندی سے درس دیتے تھے، اب اس کی صحیح تصویر کشی مشکل ہے ایک مرتبہ موسلادھار بارش ہورہی تھی، ساری سڑک پر گھٹنوں گھٹنوں پانی بھر رہا تھا، یہ نا کارہ مدرسہ قدیم میں کتاب لیے ہوئے منتظر تھاکہ بارش کم ہوت وسبق میں حاضر ہوں ، مگر بارش اسی زور وشور سے ہورہی تھی، حضرت مولانا اسعد اللہ مدظلہ (ناظم مدرسہ مظاہر علوم) اس وقت مدرسہ قدیم میں تشریف رکھتے تھے، میں نے ان سے دریافت کیاکہ حضرت اقدس آج بھی درس میں تشریف لے گئے ہوں گے؟انہوں نے فرمایا کہ بظاہر تو مشکل ہی معلوم ہوتا ہے، باہر معلوم کرلو میں مدرسہ کے دروازہ پر آیا، وہاں فروٹ بیچنے والے سائبان میں بیٹھے ہوئے تھے، ان سے جب میں نے دریافت کیا تو ان لوگوں نے بتایا کہ حضرت تو دیر ہوئی تشریف لے گئے یہ بے بضاعت جلدی جلدی درالحدیث میں حاضر ہوا، وہاں بجلی بھی غائب تھی دارالحدیث میں اندھیرا چھایا ہوا تھا، مگر درس شروع ہوچکا تھا، یہ ناکارہ چپکے سے جاکر بیٹھ گیا کہ مبادا نظر نہ پڑے مگر حضرت نے دیکھ لیا فرمایا جانتے ہو کیسے آیا ہوں اپنے مکان سے چلا تو ایک ہاتھ میں بخاری شریف کا پارہ اور دوسرے ہاتھ میں چھتری تھی، جوتے ہاتھ میں نہیں لے سکتا تھا، نصف راستہ تک آیا تو ایک رکشہ والا مل گیا، اس نے اصرار سے اس پر مجھے بٹھایا اور یہاں لاکر میرے پیروں کو اور پاءجامہ کے نیچے کا حصہ دھویا اور دارالحدیث پہنچا گیا، یہ ناکارہ یہ سنکر پانی پانی ہوگیا، حضرت اقدس کا درس گرمی، سردی صحت بیماری ان تمام حالات میں اسی نشاط وتازگی سرگرمی وپابندی سے ہوتا تھا، حضرت کے دار الحدیث میں قدم رکھتے ہی پورا دارالحدیث عطر کی خوشبو سے معطر ہوجاتا، ادب ووقار سکنیت کی ایسی کیفیت پیدا ہوتی کہ ایسا معلوم ہوتا ہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف رکھتے ہیں جو بھی تھوڑی دیر کے لیے مجلس میں بیٹھ جاتا وہ محسوس کرتا

بادِ نسیم آج بہت مشکبار ہے    ٭٭٭    شاید ہوا کے رخ پر کھلی زلفِ یار ہے

اب میں حضرت اقدس کے درس بخاری کی چند خصوصیات کی طرف مختصراً اشارہ کرتا ہوں ، ناظرین کرام اس تقریر کے مطالعہ کرنے سے پیشتر ان باتوں کو پیش نظر رکھیں ۔

شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے درس بخاری کی خصوصیات

 (1) حضرت اقدس کا درس عشق نبوی  وحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہوتا تھا، جس کیف وسوز وگداز سے پڑھاتے تھے وہ نا قابل بیان ہے ۔

زباں پہ بارِ خدا یا یہ کس کا نام آیا

  کہ میرے نطق نے بوسے میری زبان کے لیے

اس کا اثر پورے مجمع پر غیر معمولی ہوتا تھا، کبھی آہ وبکاہ کی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی جیسا کہ کسی نے اس طرح تصویر کشی کی ہے :

پھر پرسش جراحتِ دل کو چلا ہے عشق

 سامان صد ہزار نمکداں کئے ہوئے

خصوصاً مرض الوفات کی حدیث جس وقت پڑھتے تھے، تو تھوڑی دیر کے لیے ایسا محسوس ہوتا کہ آج ہی سانحہَ ارتحال پیش آیا ہے، حضرت اقدس پر بے اختیار گریہ طاری ہوجاتا، عبارت پڑھنی مشکل ہوجاتی اور طلبہ وسامعین پر آہ وبکا کا عالم ہوتا:

الٰہی درد وغم کی سرزمین کا حال کیا ہوتا

  محبت گر ہماری چشم تر سے مینہ نہ برساتی

(2) حضرت اقدس کے درس میں جملہ ائمہ سلف اور ائمہ مجتہدین ومحدثین کرام کے ساتھ انتہائی ادب وعظمت کا معاملہ رہتا تھا، شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی سے بہت سے مواقع پر اختلاف فرماتے اور حافظ صاحب کے بارے میں یہ بھی فرماتے کہ انہوں حنفیہ کو نظر انداز کردیا ہے، اور حنفیہ کی دلیل سے آنکھ بچاکر اس طرح نکل جاتے ہیں گویا انھیں اس کی کچھ خبر ہی نہیں حالانکہ کتاب میں بسا اوقات اسی راوی یا روایت کو اپنے مذہب کی تائید میں دوسری جگہ ذکر فرمایا ہے، مگر اس کے باوجود حافظ صاحب کا ہم حدیث کے پڑھنے پڑھانے والوں پر جتنا احسان ہے اور کسی کا نہیں ، امام بخاری رح کا جہاں حنفیہ سے اختلاف ہوا ہے وہاں حد اعتدال کو قائم رکھنا بہت سے اہل علم سے دشوار ہوجاتا ہے مگر حضرت اقدس اس موقعہ پر عام طور سے امام بخاری کے اعتراض کا مدلل جواب دینے کے بعد ان کے اسم گرامی کے ساتھ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ان کی عظمت شان وجلالت قدر میں کسی طرح کمی واقع نہ ہو، خصوصاً کتاب الحیل وکتاب الاکراہ میں حضرت اقدس کے درس کامنظر آنکھوں کے سامنے ہے ۔

(3) بعض عربی الفاظ کا اردو، میں ترجمہ دشوار ہے اردو زبان کا دامن عربی کے مقابلے میں تنگ ہے اس لیے ترجمہ میں دشواری ہوتی ہے، حضرت اقدس ان الفاظ کا خصوصیت سے اردو میں ایسا ترجمہ فرماتے کہ اس سے بہتر اردو زبان میں تعبیر ممکن نہیں ۔

(4) نفسِ حدیث میں اگر کہیں مطلب میں دشواری ہوئی ہے، اور شراح بخاری نے بھی اس کو واضح نہیں فرمایا ہے بلکہ ان کی تو جیہ وتشریح کے بعد بھی الجھن باقی ہے تو اس کو خصوصیت سے دور فرماتے تھے، ان تمام تحقیقات کو اگر جمع کیا جائے تو مستقل ایک کتاب بن جائے گی، مثال کے طور پر باب القسامۃ بخاری جلد ثانی صفحہ 1081 میں فقرنت یده بیده میں ضمیر کے مرجع اور اس کلام کے مطلب میں تمام شراح بلکہ حافظ ابن حجر عسقلانی تک سے وہم واقع ہوا ہے حضرت اقدس اپنے درس میں ان اوہام کو تفصیل سے بیان فرماتے اور ضمیر کا مرجع وعبارت کا مطلب ایسا بیان فرماتے کہ ہر طرح تشفی ہوجاتی ہے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’لامع الدراری‘‘ (3/193)

(5) اگر کتاب میں موَلف سے یا کسی راوی سے کوئی وہم واقع ہوا ہے یا کسی راوی پر کسی نوع کا کلام ہے تو اس پر ضرور متنبہ فرماتے تھے، اور اس راوی وروایت کی اصل حیثیت کو واضح فرماتے تھے، حافظ ابن حجر عسقلانی کی معرکۃ الآراء کتاب“تهذيب التهذيب پر حضرت اقدس کا مبسوط ذیل ہے کاش وہ طبع ہوجاتا تو علمی دنیا بالخصوص احناف پر احسان عظیم ہوتا ۔

(6) ائمہ کے مذاہب کی تحقیق اور ان کے دلائل خصوصا احناف کے مسلک کے دلائل کو تفصیل سے بیان فرماتے اگر روایت حنفیہ کے مسلک کے بظاہر خلاف نظر آتی تو اس کی توجیہات اس طرح نقل فرماتے کہ مسلک حنفیہ حدیث سے اقرب نظر آنے لگتا ۔

(7) اکثر اہم مسائل میں بطور خلاصہ کے بیان فرمادیتے کہ اس میں5، 7، يا 10 ابحاث ہیں اور ان کی قدرے تفصیل فرماتے ان میں سے جن سے امام بخاری تعرض فرماتے ان کی مزید تشریح فرماتے تھے، رفع یدین آمین بالجہر کسوف وغیرہ میں اس کو دیکھا جاسکتا ہے ۔

(8) شراح حدیث اور محدثین کرام کے کلام کو بطور خلاصہ کے نہایت دلنشین انداز میں بیان فرماتے، پوری تقریر مغز ہی مغز ہوتی تھی، اگر کوئی شخص اصل کتاب سے حضرت کی تقریر کو ملا کر دیکھے گا، تووہ محسوس کر ے گا، کہ ایک صفحہ کی بحث ایک سطر میں آگئی ہے اور بعض مواقع میں وہ اس کو بھی جانے گا کہ دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے ۔

(9) درمیان سبق میں خصوصا سہ ماہی امتحان تک ابنے اکابر کے واقعات کبھی کبھی موقع کی مناسبت سے سناتے تھے، یہ واقعات اصلاح وتربیت کے لیے بہت موثر ہوتے تاکہ طالب اپنے مقام کو پہچان کر اس کتاب عظیم کو پڑھے:

کہاں ہم اور کہاں یہ نکہتِ گل

نسیمِ صبح تیری مہربانی

(10) حضرت امام بخاری کے تراجمِ ابواب ہر دور میں مشکل تر سمجھے گئے ہیں ، علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ بخاری شریف کی شرح اس امت پر قرض ہے لیکن حافظ سخاوی نے الضوء اللامع میں لکھا ہے کہ میرے شیخ ، شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری لکھ کر امت سے اس قرض کو ادا فرمادیا، مگر حضرت شیخ الہند نور اللہ مرقدہ فرماتے تھے کہ ابھی بخاری کے تراجم ابواب کی شرح کا قرض امت کے ذمہ باقی ہے، چنانچہ حضرت نے تراجم ابواب پر ایک مختصر سار سالہ لکھنا شروع فرمایا تھا، مگر افسوس مکمل نہ ہوسکا، اس رسالہ میں حضرت نے پندرہ اصول تراجم بیان فرمائے ہیں ، اسی طرح مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کا بھی اس موضوع پر ایک مختصر رسالہ ہے جس میں حضرت شاہ صاحب نے چودہ اصول تراجم بیان فرمائے ہیں ، حضرت اقدس مدفیوضہم نے ان دونوں رسالوں کو اور شراح بخاری کی آراء اور حضرت گنگوہی نور اللہ مرقدہ کی تراجم کے سلسلے کی تحقیقات ان سب کو یکجا جمع فرمایا ہے، غور وفکر کر کے اپنی ذاتی تحقیق وتنقیح کے بعد ان اصول کی تعدادالابواب والتراجم للبخاری میں ستر تک بیان فرمائی، اور ان اصول کی روشنی میں پوری کتاب کے تراجم ابواب کی باہم مناسبت اور ابواب وکتب کے مابین مناسبت ……کو تفصیل سے تحریر فرمایا ہے اس طرح تراجم ابواب کی شرح کا قرض اس امت سے ادا فرمادیا ۔

حضرت اقدس اپنے درس بخاری میں بھی خصوصیت سے تراجم کی شرح اور بخاری کی غرض کو تفصیل سے بیان فرماتے تھے، بعض تراجم پر سارے شراح خاموش ہیں ، مگر حضرت اقدس فرماتے تھے کہ امام موصوف کا کوئی ترجمہ دقتِ نظر وباریک بینی سے خالی نہیں ، مثلاً امام موصوف کا ترجمہ ہے،  باب الصلاة إلى الحربة یہاں سارے شراح ساکت ہیں ، مگر حضرت اقدس کی نگاہ دور رس نے یہاں بھی بخاری کی شایان شان ایک دقیق بات نکال لی اور اس لطیف توجیہ کو حضرت گنگوہی کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے، جس کی تفصیل وتحقیق لامع اور اس کے حاشیہ میں موجود ہے وہ یہ کہ چونکہ زمانہ جاہلیت میں ہتھیاروں واوزاروں کی پرستش ہوتی تھی، اس لیے اس ترجمہ سے امام موصوف دفع وہم فرمارہے ہیں کہ نیزہ کو سترہ بنانا جائز ہے ۔

(11) حل تراجم کے سلسلے میں اگرکوئی مسئلہ ایسا پیش آیا جس میں امام بخاری نے کسی امام کے مسلک کو ترجیح دی ہے یا ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی امام کی رائے کو پسند فرمایا، یا اپنی رائے میں منفرد ہیں تو اس کو مع امام بخاری کے استدلال کے بیان فرماتے اور اس کے بعد جمہور کی طرف سے روایت کا مطلب بیان فرماتے اور امام موصوف کے اعتراض کا مدلل جواب دیتے تھے ۔

(12)  بخاری کے بعض تراجم بظاہر مکرر معلوم ہوتے ہیں ، اگرچہ اتنی بڑی کتاب میں یہ عین ممکن ہے مگر امام موصوف کی دقت نظر اس کی متقاضی ہے کہ یہ تکرار کسی دقیق اور باریک نکتہ کے پیش نظر ہے، چنانچہ حضرت اقدس اس پر طلبہ کو خصوصیت سے تنبیہ فرماتے اور ایسی دلنشین تقریر کرتے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ضروری معلوم ہوتے اور تکرار مرتفع ہوجاتی مثلاً صفحہ 65 جلد اول پر دو باب: باب من لم يتم السجود وباب  يبدي ضبعيه ويجافي جنبيه یہ دونوں ترجمے دوبارہ صفحہ گیارہ سوتیرہ پر انھیں الفاظ کے ساتھ آرہے ہیں ، مگر ان کی تکرار کو اس طرح دفع فرمایا ہے کہ دونوں جگہوں پر یہ تراجم ضروری معلوم ہوتے ہیں ، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو’’ لامع الدراری‘‘ ۔

(13) حضرت امام بخاری رح کو حدیث نبوی سے غیر معمولی عشق ہے اور عاشق صادق جب محبوب کے جمال پر باربار نگاہ ڈالتا ہے تو ہر مرتبہ اس کو ایک نئی کیفیت محسوس ہوتی ہے، امام موصوف کا بھی یہی حال ہے، بسا اوقات ایک ہی حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط فرماتے ہیں ، مثلاً حضرت بریرہ رض کی حدیث کو مختلف مقاصد کے لیے بیس مرتبہ سے زائد اور حضرت موسیٰ علیہ السلام وحضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ کو دس مرتبہ سے زائد اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے اور ہر مرتبہ اس سے کوئی نئی بات مستنبط فرمائی ہے، اس پر حضرت خصوصیت سے طلبہ کو متوجہ فرماتے تھے ۔

(14) حدیث پاک کے بعض الفاظ اور بعض جملے ایسے ہیں کہ ان کا مطلب لب ولہجہ اور صورت واقعہ کی مثالی صورت بنائے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتا، اس لیے بھی اس فن کو کسی ماہر فن استاد سے پڑھنا ضروری ہے حضرت ان الفاظ وجمل کو اسی طرح پڑھ کر سناتے اور جہاں مثالی صورت کو بتانے کی ضرورت ہوتی وہاں اس کی عملی صورت بھی عمل کر کے دکھاتے مثلاً بخاری جلد اول صفحہ 69( انہتر) پر”ووضع خدہ الاَیمن علیٰ ظهر کفه الیسریٰ وشبک بین اَصابعه” بغیر صورت مثالی بتائے ہوئے محض الفاظ سے مطلب ذہن میں نہیں آسکتا، اس کو خصوصیت سے عمل کر کے طلبہ کو دکھاتے تھے ۔

(15) تاریخی واقعات کے سلسلہ میں بعض جگہوں پر روایات کے اختلاف واضطراب کی بناء پر تطبیق میں بہت دشواری معلوم ہوتی ہے، حضرت اقدس اس اختلاف واضطراب کو اس طرح دفعہ فرماتے تھے کہ ہر طرح تشفی ہوجاتی، ملاحظہ ہو لامع (2/68)

یہ میں نے حضرت اقدس کے درس بخاری کی چند خصوصیات بیان کی ہیں ، اس کی تفصیل لامع الدراری اور الابواب والتراجم للبخاری اور زیر طبع اردو ، تقریر بخاری میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

تقی الدین ندوی مظاہری، مقیم حال مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور

(يوم جمعه 13 ذي قعده 1391ھ)

     شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کے درس بخاری کی خصوصیات Download in PDF


حواشي

     [1]  حضرت اقدس نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : مجھے مولانا مناظر احسن گیلانی  کی زیارت کبھی نہیں ہوئی تھی، مگر ان کا اسم گرامی کثرت سے سنتا رہا اور ان کے علمی وتالیفی حالات بھی مجھے معلوم ہوتے رہے، وہ دارالعلوم دیوبند کے ممبر تھے، اور مجلس شوریٰ میں ہمیشہ تشریف لاتے تھے، ایک مرتبہ حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب (سابق ناظم مدرسہ مظاہر علوم) کا میرے پاس آدمی پہنچا کہ مولانا مناظر احسن گیلانی  تشریف لائے ہوئے ہیں ، اور وہ تجھ سے ملنا چاہتے ہیں ، میں ان کا نام سن کر بہت مرعوب ہوا، ملاقات کو بالکل جی نہیں چاہتا تھا، اس لیے کہ میں بڑے آدمیوں سے ملاقات کرتے ہوئیے ہمیشہ گھبراتا رہا، لیکن چونکہ پیام تھاکہ تجھ سے ملنے آئے ہیں ، اس لیے فوراً حاضر ہوا، مولانا مرحوم نے بڑے تپاک سے اٹھ کر مصافحہ ومعانقہ کیا اور فرمایا کہ آپ سے ملنے کا کئی سال سے بہت ہی اشتیاق تھا، اس لیے میری جسمانی ملاقات اگرچہ نہیں ہوئی مگر روحانی ملاقات روزانہ ایک گھنٹہ ہمیشہ رہتی ہے، جب سے الکوکب الدری طبع ہوئی ہے ترمذی پڑھانے کے لیے ایک گھنٹہ اس کا مطالعہ بہت اہتمام سے کرتا ہوں ، گویا آپ کی مجلس میں رہتا ہوں ، یہ کتاب طالب علموں سے زیادہ مدرسین کے لیے مفید ہے، ترمذی پڑھانے کے لیے اس کے بغیر چارہ نہیں ، انتہی بلفظہ، جہاں تک یاد ہے ایک دو گھنٹہ بعد چائے وغیرہ سے فارغ ہوکر   30: 01 بجے آئے تھے بجے دیوبند تشریف لے گئے ۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

This Post Has One Comment

  1. ArbazPasha

    Mashallah

Leave a Reply