surah abasa with urdu translation

Surah Abasa With Urdu Translation, Abasa Meaning In Urdu

Surah Abasa In Arabic سورة عبس مكتوبة

ترجمہ اور تفسير سورہ عبس

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا

شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿1﴾

پیغمبر (علیہ السلام) چیں بجبیں ہوگئےاور متوجہ نہ ہوئے ۔

 أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿2﴾

اس بات سے کہ ان کے پاس اندھا آیا۔

 وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿3﴾

اور آپ کو کیا (خبر) شاید نابینا (آپ کی تعلیم سے پورے طور پر) سنور جاتا۔

 أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَىٰ ﴿4﴾

یا (کسی خاص امر میں نصیحت قبول کرتا سو اسکو نصیحت کرنا (کچھ نہ کچھ) فائدہ پہنچاتا۔

 أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ﴿5﴾

تو جو شخص (دین سے) بے پروائی کرتا ہے۔

 فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ﴿6﴾

آپ اس کی تو فکر میں پڑتے ہیں ۔

 وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ﴿7﴾

حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو آپ پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔

 وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَىٰ ﴿8﴾

اور جو شخص آپ کے پاس (دین کے شوق میں) دوڑتا ہوا آتا ہے۔

 وَهُوَ يَخْشَىٰ ﴿9﴾

اور وہ خدا سے ڈرتا ہے۔

 فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ﴿10﴾

آپ اس سے بےاعتنائی کرتے ہیں ۔

 كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ﴿11﴾

آپ (آئندہ) ہرگز ایسا نہ کیجیے قرآن (محض ایک) نصیحت کی چیز ہے۔

 فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ ﴿12﴾

سو جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔

 فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ ﴿13﴾

وہ (قرآن لوح محفوظ کے) ایسے صحیفوں میں (ثبت) ہے جو (عند الله) مکرم ہیں۔

 مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ ﴿14﴾

رفیع المکان ہیں مقدس ہیں ۔

 بِأَيْدِي سَفَرَةٍ ﴿15﴾

جو ایسے لکھنے والوں (یعنی فرشتوں) کے ہاتھوں میں (رہتے) ہیں ۔

 كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴿16﴾

کہ وہ مکرم (اور) نیک ہیں ۔

 قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ﴿17﴾

غارت ہوجائے انسان وہ کیسا سخت منکر حق ہے۔

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ﴿18﴾

اس اللہ نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا؟

مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ﴿19﴾

نطفہ سے پیدا کیا پھر اس (کی تمام باطنی و ظاہری قوتوں) کے لیے ایک اندازہ ٹھہردیا۔

 ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ﴿20﴾

پھر اس پر (زندگی وعمل کی) راہ آسان کردی۔

 ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ﴿21﴾

پھر (بعد عمر ختم ہونے کے) اس کو موت دی۔

 ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ ﴿22﴾

پھر اس کو قبر میں لے گیا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو دوبارہ زندہ کرے گا۔

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ ﴿23﴾

ہرگز نہیں اس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا تھا۔

 فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿24﴾

انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے (جوشب روز اس کے استعمال میں آتی رہتی ہے۔

 أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ﴿25﴾

ہم پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں۔

ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا ﴿26﴾

پھر اس کی روئیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کرتے ہیں

 فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا ﴿27﴾

اناج کے دانے،

 وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴿28﴾

اور انگور کی بیلیں اور سبزی ترکاری

 وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴿29﴾

اور زیتون کا پھل اور کھجور کے خوشے

 وَحَدَائِقَ غُلْبًا ﴿30﴾

اور درختوں کے جھنڈ

 وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ﴿31﴾

اور قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کا چارہ

 مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿32﴾

اور یہ سب کچھ کس لیے ہے) تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے

 فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ﴿33﴾

آخرکار جب کان بہرے کردینے والی آواز بلند ہوگی

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿34﴾

اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا

 وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿35﴾

اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔

 وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿36﴾

اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے (یعنی کوئی کسی کی ہمدردی نہ کرے گا) ۔

لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴿37﴾

اس دن ہر شخص ایسے حال میں گرفتار ہوگا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔

 وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ﴿38﴾

کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے۔

 ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ ﴿39﴾

ہنستے اور خوش وخرم ہوں گے۔

 وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ ﴿40﴾

اور بہت سے چہرے اس روز گرد آلود ہوں گے۔

 تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ﴿41﴾

ان پر (غم کی) کدورت چھائی ہوگی۔

أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ﴿42﴾

یہی کافر اور بدکار لوگ ہوں گے ۔

شان نزول

 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک موقعہ پر سرداران قریش کو اسلام کی باتیں سمجھا رہے تھے اس دوران ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رض) آگئے اور آپ کو آواز دینا شروع کی علمني مما علمک الله آپ کو جو اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے مجھے بھی اس سے کچھ سکھا دیجئے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بات کی طرف توجہ نہ فرمائی چونکہ آپ (علیہ السلام) کا یہ اجتہاد تھا کہ کفار و مشرکین کیلئے یہ تبلیغ کا سنہری موقع ہے اگر ان کو بات سمجھ آگئی تو اسلام کیلئے زیادہ مفید ہوگا لہٰذا آپ (علیہ السلام) نے اس نابینے شخص کی طرف توجہ نہ فرمائی جس کی وجہ سے یہ سورة نازل ہوئی۔

علامہ آلوسی (رح) لکھتے ہیں کہ یہ نابینا صحابی حضرت خدیجہ (رض) کے ماموں زاد بھائی تھے اور اس کا نام عمرو بن قیس یا عبداللہ بن عمرو تھا یا عبداللہ بن شریع تھا پہلا قول زیادہ راجح ہے قریش مکہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے تھے ان کے نام یہ ہیں ، عتبہ ، شیبہ ، ربیعہ ، ابو جہل ، امیہ بن خلف ، عباس بن عبد المطلب، ولید بن مغیرہ۔ ( روح المعانی : ص ٣٣٨: ج : ٣٠)

﴿بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ﴾ یا تو اس سے مراد ملائکہ ہیں یعنی وہاں فرشتے اس کو لکھتے ہیں اسی کے موافق وحی اترتی ہے اور یہاں دنیا کے نیک اور با خدا لوگ یعنی حضرات صحابہ کرام (رض) جو قرآن کریم کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق لکھا کرتے تھے۔ ( ابن کثیر : ص : ٧٧٧: ج ٨: و : تفسیر کبیر : ص : ٥٤٦: ج، ٣١ طبع بیروت ، و ، مظہری، ص ، ١٩٩، ج، ١٠)

اور یہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نہ اپنی خواہش نفسانی سے کم و زیادہ کرتے تھے نہ کسی غرض سے اس میں ہیر پھیر کرتے تھے خیانت اور خود غرضی ان کے پاس نہ بھٹکتی تھی یہ دو وصف ایسے ہیں کہ جن سے قرآن کریم تمام کتب سابقہ پر فوقیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے آج تک اپنی اصلی چمک و دمک سے باقی ہے اس میں کوئی گرد و غبار پیدا نہیں ہوا، بر خلاف سابقہ کتب کے کہ ناپاک اور ذلیل اور نا خدا ترس لوگوں کے ہاتھ لگے جن کی وجہ سے انھوں تحریف کردی ۔

الحمد للہ قرآن کریم ہر اعتبار سے محفوظ ہے اگرچہ ناپاک لوگوں نے لفظی اور معنوی تحریف کی مگر حق تعالیٰ شانہ نے علماء حق کو اس خدمت کیلئے قبول فرما لیا جنہوں نے بھر پور طریقے سے قرآن کریم کا دفاع کیا اور دفاع کرنے کا حق ادا کردیا۔

کتابت وحی

جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ ان آیات کا مصداق ایک تفسیر کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی ہیں انہی حضرات میں سے ایک علمی شخصیت سیدنا حضرت امیر معاویہ (رض) کی بھی ہے جو مستقل طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں رہتے تھے، حضرت معاویہ (رض) کو صحابہ کرام کی ایک ایسی پاکیزہ مقدس مطہر اور خوش نصیب جماعت میں شمولیت کا احسن موقع میسر آیا جس کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتابت وحی کیلئے مامور فرمایا تھا، چنانچہ جو وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتی تھی اسے رقم فرماتے اور خطوط و مراسلہ جات کی نگرانی کی ترسیل کا کام بھی آپ کے ذمہ تھا، یہی بات حضرت امیر معاویہ (رض) کیلئے سب سے بڑی امانت اور دیانت اور عدالت کیلئے کافی ہے۔

علامہ ابن حزم (رح) فرماتے ہیں: کہ کاتبین وحی میں سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت (رض) اور اس کے بعد حضرت معاویہ (رض) آپ کی خدمت اقدس میں رہتے یہ دونوں حضرات دن رات آپ کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے۔

(ملخص حضرت معاویہ اور تاریخ حقائق ص: ٢٣٠: از مولانا محمد تقی عثمانی)

مفتی حرمین شیخ احمد بن عبداللہ طبری لکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تيرہ کاتب تھے ان میں حضرت معاویہ اور حضرت زید (رض) سب سے زیادہ کام کرتے تھے۔ (خلاصہ ایسر بحوالہ حضرت معاویہ : ص : ١٣)

ایک شیعی مؤرخ الفخری بھی اس کا اقرار کرتا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے معاویہ (رض) ان کا تبان وحی میں سے تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھ کر لکھتے تھے۔ ( آداب السلطانیہ : ص ١٤٥)

بائیس رجب کے کونڈے اور ان کی حقیقت

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک اس دنیا فانی میں حیات رہے حضرت معاويہ(رض) آپ کی خدمت اقدس میں رہے، یہاں تک کہ سفر و حضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے تھے، آپ کی خدمت اور بےلوث محبت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپ کے سپرد فرمادی تھی، چنانچہ علامہ اکبر نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کے قیام و طعام کا انتظام و اہتمام حضرت معاویہ کے سپردکر دیا تھا۔ ( تاریخ الاسلام : ص : ٧: ج ٢)

مگر حقائق پر پردہ ڈالنے کیلئےاور حضرت امیر معاویہ سے بغض وعداوت کے اظہار کیلئے جعفری کو نڈوں کے نام پر ايك رسم  ١٩٠٦ء  ميں رام پور، یو پی، انڈيا سے شروع کی گئى، اس کی ابتدا کرنے والا امیر بینائی کا تبرائی خاندان ہے، جس نے خاص طور پر حضرت امیرمعاویہ (رض) سے بغض و حسد کی بنا پر اس رسم بد کو جاری کیا، یہ رسم قبیح : ٢٢: رجب کو پوری کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ رسم شیعہ کے چھٹے امام سیدنا جعفر صادق (رح) کی نیاز ہے ، حالانکہ : ٢٢: رجب نہ تو حضرت امام جعفر صادق کی ولادت با سعادت کا دن ہے اور نہ ہی یوم وفات ہے۔

 کیونکہ حضرت جعفر صادق (رح) کی ولادت : ٨: رمضان المبارک ٨٠ ھ یا ٨٢ھ میں ہوئی اور وفات : ١٥: شوال المکرم ١٤٨ ھ میں ہوئی اس لحاظ سے حضرت موصوف امت کے امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کے ہم عصر اور تقریباً ہم عمر ہیں۔ ( تذکرہ الحفاظ امام شمس الدین الذہبی (رح) ص : ١٥٠: ج ١)

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ٢٢ رجب حضرت امیر معاویہ (رض) کا یوم وفات نہیں ۔ اس رسم بد کی ایجاد کے بارے میں پیر جماعت علی شاہ علی پوری شاہ صاحب کے مرید خاص مصطفیٰ علی خان بریلوی نے اپنے پیر و مرشد کی سوانح حیات جواہر المناقبل کے حاشیہ پر مذکورہ بالا انکشاف کی تصدیق کی ہے اور اس میں جناب حامد حسن قادری بریلوی کا ایک بیان درج کیا ہے کہ یہ نیاز سب سے پہلے  ١٩٠٦ء رياستِ رام پور میں امیر مینائی لکھنوی کے خاندان سے نکلی، اور وہ اس طرح کہ امیر مینائی کے فرزند خورشید احمد مینائی نے سیدنا امیر معاویہ (رض) کے بغض میں اس رسم کے ذریعے آپ کی وفات پر خوشی منائی ۔ انتہائی حیرت ہے کہ ہمارے سنی مسلمان بھائی بھی بلا تحقیق رافضی سائی پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر ایک جلیل القدر صحابی رسول کی معاذ اللہ سراسر توہین پر مشتمل اس ناپاک رسم میں شامل ہوتے ہیں، یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے، اس کا حضرت جعفر صادق کی ولادت یا وفات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو محض بغض معاویہ کا سبائی تبرا ہے۔

Surah Abasa In Arabic سورة عبس مكتوبة

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply