Surah Hujurat Tafseer In Urdu pdf
سورہ حجرات ترجمہ اور تفسير
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا
﷽
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بےحد رحم کرنے والا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿1﴾
اے ایمان والو ! تم اللہ اور اس کے رسول سے پہلے (کسی کام میں) سبقت مت کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ خوب سننے والا ہے، خوب جاننے والا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿2﴾
اے ایمان والو ! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ تم ان سے اس طرح پکار کر بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو (کہیں ایسا نہ ہو کی) تمہارے اعمال برباد ہو کر وہ جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿3﴾
بیشک جو لوگ اپنی آواز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ نے تقوی کے لیے خالص کردیا ہے ان لوگوں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿4﴾
بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿5﴾
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس باہر آجاتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، اور اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا رحم والا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿6﴾
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ کہیں تم نادانی سے کسی قوم کو ضرر پہنچا دو (اور) پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿7﴾
اور جانے رہو کہ تم میں رسول اللہ (موجود) ہیں بہت سی باتیں ہیں کہ ان میں اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو تم کو تکلیف پہنچے۔ لیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اسے تمہارے دلوں میں مرغوب کردیا، اور کفر اور فسق اور عصیان سے تمہیں نفرت دے دی ایسے ہی لوگ تو راہ راست پر ہیں
فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿8﴾
یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کا انعام ہے۔ اللہ بہت جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿9﴾
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگیں، تو ان کے درمیان اصلاح کردو، ف ١ ١۔ پھر اگر ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس سے لڑو جو زیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ رجوع کرلے اللہ کے حکم کی طرف۔ پھر اگر وہ رجوع کرلے تو ان کے درمیان اصلاح کردو عدل کے ساتھ اور انصاف کا خیال رکھو بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿10﴾
بیشک مسلمان (آپس میں) بھائی ہی بھائی ہیں۔ سو اپنے دوبھائیوں کے درمیان اصلاح کردیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿11﴾
اے ایمان والو ! نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر (ہنسنا چاہیے) کیا عجب کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ایمان کے بعد گناہ کا نام ہی برا ہے۔ اور جو (اب بھی) توبہ نہ کریں وہی ظالم ٹھہریں گے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ ﴿12﴾
اے ایمان والو! بہت سے گمان کرنے سے بچو۔ کیونکہ بلاشبہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حالات کی کھوج میں نہ لگو۔ نہ آپس میں ایک دوسرے کی غیبت کیا کرو۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کے گوشت کو کھائے یقینا تم اس کو گوارانہ کرو گے۔ اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿13﴾
اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف خاندان اور قبیلے بنا دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو لیکن اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ قابل احترام وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا اور خبر رکھنے والا ہے۔
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿14﴾
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے فرمان برداری قبول کرلی ہے۔ اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو تمہارے اعمال کے اجرو ثواب میں ذرا بھی کمی نہ کی جائے گی۔ بیشک اللہ مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿15﴾
(درحقیقت) ایمان والے تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے۔ پھر انھوں نے کبھی شک نہیں کیا اور جنہوں نے اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا یہی سچے لوگ ہیں۔
قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿16﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو اپنے ایمان کی اطلاع دے رہے ہو ؟ حالانکہ اللہ تو ان سب باتوں کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا ۖ قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ ۖ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿17﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ اپنے ایمان لانے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ تم مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ دھرو بلکہ اللہ کا تم پر یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی طرف رہنمائی عطا فرمائی اگر تم واقعی ایمان کے دعوے میں سچے ہو۔
إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿18﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ اپنے ایمان لانے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ تم مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ دھرو بلکہ اللہ کا تم پر یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی طرف رہنمائی عطا فرمائی اگر تم واقعی ایمان کے دعوے میں سچے ہو۔
تعارف سورة الحجرات
اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں کو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تعظیم کا کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لیے کن اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے، اس سلسلے میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں اختلاف پیدا ہوجائے تو دوسرے مسلمانوں پر کیا فریضہ عائد ہوتا ہے، اور اس کے بعد وہ اسباب بیان فرمائے گئے ہیں جو عام طور سے رہن سہن کے دوران آپس کے لڑائی جھگڑے پیدا کرتے ہیں، مثلاً ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، غیبت کرنا، دوسروں کے معاملات میں ناحق مداخلت کرنا، بدگمانی کرنا وغیرہ، نیز یہ حقیقت پوری وضاحت اور تاکید کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے کہ خاندان قبیلے زبان اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی بڑائی جتانے کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے، تمام انسان برابر ہیں، اور اگر کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت ہوسکتی ہے تو وہ صرف اپنے کردار اور تقوی کی بنیاد پر ہوسکتی ہے، سورت کے آخر میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف زبان سے اسلام کا اقرار کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام احکام کو دل سے ماننا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر اسلام کا دعوی معتبر نہیں ہے۔
حجرات عربی میں حجرۃ کی جمع ہے جو کمرے کو کہتے ہیں، اس سورت کی چوتھی آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رہائشی حجروں کے پیچھے سے آپ کو آواز دینے سے منع فرمایا گیا ہے اس وجہ سے اس سورت کا نام سورة حجرات رکھا گیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول اور فعل پر اپنے قول اور فعل کو مقدم کرنے کی ممانعت
علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے اس آیت کے متعلق پانچ قول ذکر کیے ہیں :
(١) قتادہ نے کہا : بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ کاش ! میرے متعلق یہ نازل ہوتا، کاش ! میرے متعلق وہ نازل ہوتا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کلام کرنے سے منع فرمایا۔
(٣) مجاہد نے کہا : اللہ اور رسول کے متعلق کوئی بات نہ کرو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان سے بتائے۔
(٤) حسن بصری نے کہا : کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نماز پڑھانے سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ وہ دوبارہ قربانی کریں۔
(٥) زجاج نے کہا : جن عبادات کے اوقات مقرر ہیں ان کے وقت آنے سے پہلے ان عبادات کو ادا نہ کرو۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٢٦۔ ٣٢٥، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بلند آواز کے ساتھ بولنے کی ممانعت
حضرت اقرع بن حابس (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ان کو ان کی قوم پر عامل بنا دیجئے۔ حضرت عمر نے کہا : یا رسول اللہ ! ان کو عامل نہ بنائیں، پھر ان دونوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بحث کی، حتیٰ کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں، حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہا : تم صرف میری مخالفت کا ارادہ کرتے ہو، حضرت عمر نے کہا : تم صرف میری مخالفت کا ارادہ کرتے ہو، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی : اے ایمان والو ! اپنی آوازوں کو اپنے بی کی آواز پر بلند نہ کرو۔ اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بات کرتے تو ان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھیں، حتیٰ کہ ان سے سوال کیا جاتا کہ آپ نے کیا کہا ؟ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٣٠٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٦٦، مسند احمد ج ٤ ص ٤)
بلند آواز سے بولنے کو دو مرتبہ منع کرنے کے الگ الگ محمل
اس آیت میں دو مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بلند آواز سے گفتگو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا : اپنی آوازوں کو (اپنے نبی) کی آواز پر بلند نہ کر، اور دوسری مرتبہ فرمایا : اور نہ ان کے سامنے بلند آواز سے بولو، جیسے کہ تم ایک دوسرے بلند آواز سے بات کرتے ہو۔
مفسرین نے کہا : دونوں مرتبہ بلند آواز کے ساتھ بات کرنے کی ممانعت کے الگ الگ محمل ہیں، پہلے جو فرمایا ہے کہ اپنی آوازوں کو (اپنے نبی) آواز پر بلند نہ کرو اس کا محمل یہ ہے کہ جب تم نبی و سے بات کر رہے ہو تو اپنی آواز کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے پست رکھو اور اپنی آواز کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر اونچی نہ ہونے دو ، اور دوسری بار جو فرمایا ہے کہ ان کے سامنے بلند آواز سے نہ بولو، اس کا محمل یہ ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوں اور تم ان کو کوئی خبر سنا رہے ہو تو اونچی آواز سے نہ بولو، یا اس کا محمل یہ ہے کہ جب تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرو تو عامیانہ انداز میں بات نہ کرو جیسے کہ تم ایک دوسرے بات کرتے ہو اور جب آپ کو مخاطب کرو تو آپ کے نام اور کنیت سے آپ کو مخاطب نہ کرو، مثلاً یوں مخاطب نہ کرو : ”۔۔۔“ بلکہ ” یا رسول اللہ “ یا ” با۔۔۔کہو واضح رہے کہ اس میں ندائے یا محمد کی نفی نہیں ہے کیونکہ نداء اور چیز ہے اور خطاب اور چیز ہے (نداء میں ” یا محمد “ کہہ کر آپ کو اپنے حال کی طرف متوجہ کرنا ہے اور خطاب میں یا محمد کہہ کر آپ سے کلام کرنا ہے) ۔
مفسرین نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جو بلند آواز سے بولنا منع ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اتنے زور سے نہ بولو جو آپ کے استخفاف اور آپ کی اہانت کا مظہر ہو، کیونکہ اس طرح بلند آواز سے بولنا کفر ہے اور اس آیت میں مؤمنین سے خطاب ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ تعظیم اور تکریم کے ساتھ معتدل آواز کی یہ بہ نست پست آواز میں آپ کے سامنے بولو یا آپ سے باتیں کرو۔
اپنی ضرورت اور آپ کی نعمت کے کلمات کو آپ کے سامنے بلند آواز پڑھنے کا جواز
مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ جن مواقع پر بلند آواز سے بولنا مطلوب ہوتا ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے مثلا میدان جہاد میں دشمن کو للکارتے ہوئے، یا کسی معاند اور مخالف کو جواب دیتے ہوئے یا دشمن کو ڈراتے ہوئے ان تمام صورتوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بھی بلند آواز سے بولنا جائز ہے، کیونکہ ان صورتوں میں یہ متصور نہیں ہے کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب اور احترام کے خلاف ہے، کیونکہ حدیث میں حضرت عباس (رض) سے روایت ہے :
جب جنگ حنین میں مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے، حضرت عباس نے کہا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر کی لگام تھام کر اس کو تیز بھاگنے سے روک رہا تھا اور حضرت ابو سفیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عباس ! اصحابِ سمرہ (کیکر کے درخت والوں) کو آواز دو ، حضرت عباس بلند آواز شخص تھے، وہ کہتے ہیں : میں نے بہ آواز بلند پکارا : اصحابِ سمرہ کہاں ہیں ؟ حضرت عبا سنے کہا : بہ خدا وہ یہ آواز سنتے ہی اس طرح پلتے جس طرح گائے اپنے بچوں کی طرف پلٹتی ہے، وہ ”۔۔۔“ کہتے ہوئے دوڑتے ہوئے آئے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٧٥)
اسی طرح حدیث میں حضرت عثمان بن عمر کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو مدینہ کے تمام مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خادم راستوں میں بکھر گئے اور وہ زور زور سے پکار رہے تھے : یا محمد ! یا رسول اللہ ! یا محمد ! یا رسول اللہ !۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٠١٤)
اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بلند آواز سے اذان کہی جاتی تھی اور حضرت حسان بن ثابت (رض) آپ کی مدافعت میں بلند آواز سے اشعار پڑھتے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آپ سے گفتگو کرتے وقت آپ کی آواز سے آواز بند نہ کی جائے اور جب کوئی شخص آپ کو بات سنائے اور آپ خاموشی سے سن رہے ہوں تو آواز بلند نہ کی جائے یا آپ سے اس طرح بلند آواز سے بات نہ کی جائے، جیسے لوگ ایک دوسرے سے عامیانہ انداز میں باتیں کرتے ہیں۔ تقریباً یہ تمام امور حسب ذیل مفسرین نے اپنی اپنی تصانیف میں بیان فرمائے ہیں۔
علامہ محمود بن عمر زمخشری متوفی ٥٣٨ ھ (الکشاف ج ٤ ص ٣٥٥۔ ٣٥٣ ) ، علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٧٩۔ ٢٧٦) ، علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ (روح المعانی جز ٢٦ ص ٢٠٦۔ ٢٠٤)
اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آواز پست رکھنے والے صحابہ
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ثابت بن قیس (رض) کو گم پایا، تو ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! میں آپ کو اس کی خبر لا کر دوں گا، پس وہ شخص ان کے پاس گیا تو وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے تھے، اس شخص نے پوچھا : تمہیں کیا ہوا ؟ حضرت ثابت بن قیس نے کہا : بہت برا ہوگیا، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بلند آواز سے بولتا تھا اس کے اعمال تو ضائع ہوگئے اور وہ تو اہل دوزخ میں سے ہے، پھر اس شخص نے جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ حضرت ثابت بن قیس اس طرح کہہ رہے تھے، پھر وہ شخص دوبارہ حضرت ثابت بن قیس کے پاس عظیم بشارت لے کر گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ تم اہل دوزخ سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت سے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٤٦۔ ٣٦١٣)
”صحیح مسلم“ میں یہ روایت اس طرح ہے :
حضرت سعد، حضرت ثابت کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں کیوں حاضر نہیں ہوتے ؟ انھوں نے کہا : یہ آیت (الحجرات : ٣) نازل ہوچکی ہے اور تم کو معلوم ہے کہ میری آواز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تم سب سے بلند ہے، سو میں تو اہل دوزخ سے ہوا۔ حضرت سعد نے جا کر یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا تو رسول الہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ وہ اہل جنت سے ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٩)
حضرت ثابت بن قیس انصاری تھے ان کا تعلق خزرج سے تھا، اس حدیث میں ان کے لیے عظیم بشارت ہے کہ وہ جنتی ہیں اور وہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے، نیز اس حدیث میں بھی یہ دلیل ہے کہ مطلقاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنے پر وعید نہیں ہے
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی اس آيت کے شان نزول میں روایت کرتے ہیں :
حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ ! بیشک میری تعریف کرنا نیک عمل ہے اور میری مذمت کرنا برا عمل ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ صرف اللہ عزوجل کی شان ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٦٧ )
علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے اس کے شان نزول میں حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں :
(١) قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور حجرہ کے باہر سے آپ کو نداء کی : یا محمد ! میری تعریف کرنا نیک عمل ہے اور میری مذمت کرنا برا عمل ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے سے باہر آئے اور فرمایا : تم پر افسوس ہے یہ تو صرف اللہ سبحانہ کی شان ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٥٣٤، مسند احمد ج ٣ ص ٣٨٨)
(٢) حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ لوگ آئے، انھوں نے کہا تھا کہ اس شخص کے پاس چلو، اگر یہ واقعی نبی ہیں تو ان کی اتباع کرکے ہم لوگوں میں سب سے زیادہ خوش قسمت ہوں گے اور اگر وہ فرشتے ہیں تو ہم ان کے پروں کے سائے میں زندہ رہیں گے، پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور آپ کو نداء کی : یا محمد ! اس وقت آپ اپنے حجرہ میں تھے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٥٣١)
(٣) ایک قول یہ ہے کہ وہ بنو تمیم کا وفد تھا، مقاتل نے کہا : وہ نو افراد تھے۔
ان کے متعلق فرمایا : ان میں سے اکثر بےعقل ہیں۔ اس پر یہ اعتراض ہے کہ انسان ہونے کی وجہ سے ان میں عقل تو تھی پھر ان کو بےعقل کیوں فرمایا ؟
ابن ابحر نے کہا : اس کا معنی ہے : وہ بےعلم ہیں اور علم کو عقل سے تعبیر کیا کیونکہ علم عقل کا ثمرہ ہے اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ فعل عقل والوں کے فعل کے خلاف تھا۔
وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو العنبر کے کچھ لوگوں کو قید کرلیا تھا اور وہ لوگ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ دینے آئے تھے، پس اگر وہ آپ کے حجرہ سے باہر نکلنے کا انتظار کرلیتے تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ ہوسکتا تھا کہ آپ فدیہ لیے بغیر ان کے قیدیوں کو چھوڑ دیتے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٢٨۔ ٣٢٧، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اس آیت میں بھی سابقہ آیات کی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب اور احترام کی تلقین کی گئی ہے اور سورة الحجرات کی پہلی پانچویں آیتیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب اور احترام کی تعلیم کے لیے نازل ہوئیں ہیں۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا
ولید بن عقبہ کا جھوٹی خبر دینا
حضرت الحارث بن ابی ضرار (رض) بیان کرتے ہیں : یہ آیت ولید بن عقبہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو المصطلق کی طرف زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا اور ولید کے درمیان اور بنو المصلطق کے درمیان زمانہ جاہلیت میں عداوت تھی، جب بنو المصطلق نے اس کی آمد سے متعلق سنا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے اس کی تعظیم کی، شیطان نے اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ یہ لوگ اس کو قتل کرنا چاہتے ہیں وہ خوف ذدہ ہو کر راستہ سے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹ گیا اور آپ سے کہا کہ بنو مصطلق ان کو زکوۃ دینے سے انکار کردیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا، یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضب میں آگئے اور ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا، ادھر بنو مصطلق کو یہ خبر پہنچی کہ ولید بن عقبہ واپس چلے گئے تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کے نمائندہ کی آمد کے متعلق سنا تو ہم اس سے ملاقات کرنے اور اس کی تکریم کرنے کے لیے نکلے اور تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں مال دیا ہے ہم اس مال میں اللہ کا حق ادا کریں، تب ہم کو معلوم ہوا کہ وہ نمائندہ واپس چلا گیا۔
ہمیں خطرہ ہوا کہ کہیں آپ کی طرف سے اس کو یہ حکم تو نہیں پہنچا کہ تم واپس آجاؤ اور آپ کسی وجہ سے ہم پر ناراض ہوگئے ہوں، اور ہم اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر یقین نہیں کیا اور خفیہ طور پر حضرت خالد بن ولید (رض) کو ایک لشکر کے ساتھ ان کی طرف روانہ کیا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ چپکے سے وہاں پہنچیں اور وہیں تفتیش کریں، اگر وہاں ایسے آثار ہوں جو ان کے ایمان پر دلالت کرتے ہوں تو ان سے ان کے اموال کی زکوۃ وصول کرلیں اور اگر وہاں کے ایسے آثار ہوں جو ان کے ایمان پر دلالت کرتے ہوں تو ان سے ان کے اموال کی زکوۃ وصول کرلیں اور اگر وہاں ان کے ایمان کے آثار نہ ہوں تو پھر ان کے ساتھ وہ معاملہ کریں جو کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے، حضرت خالد وہاں پہنچ گئے اور انھوں نے وہاں پر مغرب اور عشاء کی اذانوں کو سنا، انھوں نے ان سے صدقات وصول کیے اور سوائے اطاعت اور نیکی کے ان کے پاس اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔
وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس پہنچے اور آپ کو تمام حالات بتائے اور تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس فاسق (یعنی ولید بن عقبہ) کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو، کہیں تم ناواقفیت سے کچھ لوگوں کو تکلیف پہنچا دو پھر اپنے کیے پشمان رہو۔ (ولید بن عقبہ حضرت عثمان (رض) کا ماں شریک بھائی تھا) ۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٢٨٧۔ ٢٥٧، مسند احمد ج ٤ س ٢٧٩، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٣٩٥، اسباب النزول للواحدی ص ٧٦٠، حافظ الہیثمی نے کہا : امام احمد کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١١٣٥٢، حافظ ابن کثیر نے کہا : اس قصہ کے متعلق امام احمد کی روایت سب سے عمدہ ہے، امام طبرانی نے اس قصہ کو حضرت جابر (رض) سے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٨٠٠٩، امام جریر نے اس واقعہ کو حضرت ام سلمہ (رض) ، حضرت ابن عباس، قتادہ اور ابن اسحاق وغیر ہم سے روایت کیا ہے، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٥٤٣۔ ٢٤٥٤١۔ ٢٤٥٣٩۔ ٢٤٥٣٧)
فاسق کی شہادت اور روایت کا شرعی حکم
علامہ سید محمود آلوسی متعدد حوالہ جات سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ فاسق شہادت دینے کا اہل ہے کیونکہ اگر اس کی شہادت ادائیگی کے لائق نہ ہوتی تو پھر اس کی خبر کی تحقیق کرنے کے حکم دینے کا کوئی معنی نہ تھا اور یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خبر واحد کو قبول کرنا جائز ہے۔
فقہاء احناف نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ جس شخص کا عادل اور نیک ہونا معلوم نہ ہو اس کی خبر کو بھی قبول کرنا جائز ہے اور اس کے نیک ہونے کی تفتیش کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ یہ تفتیش اس وقت واجب ہوگی جب اس کا فسق ثابت ہو اور جس شخص کا نیک ہونا ہمیں معلوم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا فاسق ہونا معلوم ہے تو ہم ظاہر حال کے اعتبار سے اس کو نیک قرار دیں گے اور اس کی تفتیش کرنا ہم پر واجب نہیں ہے، واضح رہے کہ فاسق وہ شخص ہے جس نے کوئی علی الاعلان گناہ کبیرہ کیا ہو۔
نیز علامہ آلوسی لکھتے ہیں : فاسق کی دو قسمیں ہیں : ایک فاسق غیر متاول ہے (جو بگیر تاویل کے کوئی گناہ کبیرہ کرے) اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس کی خبر قبول نہیں کی جائے گی اور دوسری قسم فاسق متاول ( جو تاویل سے کوئی گناہ کبیرہ کرے) جیسے جبری اور قدری اور اس کو بدعت واضحہ کا مرتکب کہا جاتا ہے۔
بعض اصولیین اس کی شہادت اور روایت کو مسترد کرتے ہیں، جیسے امام شافعی وغیرہ اور بعض اس کی شہادت کو قبول کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شہادت کو کذب کی تہمت کی وجہ سے رد کیا جاتا ہے اور اس شخص کے عقائد میں فسق ہے اور کذب تمام مذاہب میں حرام ہے، ماسوا خطابیہ کے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ہم ظاہر پر حکم لگاتے ہیں اور اس کی روایت کو قبول کرنا اس لیے جائز ہے کہ جو شخص غیر رسول پر کذب کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کذب کو بہ طریق اولیٰ جائز نہیں سمجھے گا اور ہمارے اصحاب احناف اس کی شہادت کو قبول کرتے ہیں اور اس کی روایت کو قبول نہیں کرتے خصوصاً جب وہ اپنے عقیدہ کے پر چار کے لیے حدیث روایت کرے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ٢٢١۔ ٢٢٠، ملخصا، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ
مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرانے کے متعلق احادیث
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں اور بعد میں بھی مسلمانوں کے دو فریقوں میں جنگ ہوئی اور ظاہر ہے کہ ان متحارب فریقوں میں سے ایک حق پر تھا اور دوسرا باطل پر تھا اس کے باوجود ان دونوں فریقوں کو مسلمان ہی قرار دیا گیا ہے اور ان کے درمیان صلح کرائی گئی یا صلح کرانے کی کوشش کی گئی۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا (جب آپ ابتداء مدینہ منورہ آئے تھے) : اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جائیں (تو اچھا ہو) ، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دراز گوش پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے، مسلمان بھی آپ کے ہم راہ گئے، وہ بنجر زمیں تھی، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا : مجھ سے دور ہٹو، تمہاری سواری کی بدبو مجھے ایذاء پہنچا رہی ہے، آپ کے ساتھ جو انصاری مسلمان تھے، ان میں سے ایک نے کہا : اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی بو تم سے بہت اچھی ہے، عبداللہ بن ابی کی قوم کا ایک شخص یہ سن کر غصہ میں آگیا اور اس انصاری کو گالی دی، پھر دونوں طرف سے فریق غضب میں آگئے اور وہ ایک دوسرے کو ڈنڈوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارنے لگے، پھر ہم کو یہ خبر پہنچی کہ ان ہی دو جماعتوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی : اور اگر مؤمنوں کے دو گروہ باہم جنگ کریں تو ان میں صلح کرادو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٩٩)
حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل قباء آپس میں لڑ پڑے حتی کہ انھوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایاـ: چلو ہم ان کے درمیان صلح کرادیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢١، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٩٤٠، سنن نسائی رقم الحدیث : ٧٨٤)
جب اہل شام اور اہل عراق میں جنگ تیار تھی، ایک طرف حضرت معاویہ (رض) کی افواج تھیں، دوسری طرف حضرت حسن بن علی (رض) کی افواج تھیں، اس وقت حضرت حسن بن علی (رض) نے خلافت سے دست بردار ہو کر حضرت امیر معاویہ (رض) سے صلح کرلی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے ہی اس صلح کی پیش گوئی کردی تھی۔
حضرت حسن (رض) کا حضرت معاویہ (رض) سے صلح کرنا
حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! جب حضرت حسن بن علی (رض) (حضرت معاویہ (رض) کے مقابلہ میں) پہاڑوں کی مانند لشکر لے کر پہنچے تو حضرت عمرو بن العاص (رض) نے حضرت معاویہ (رض) سے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو پسپا کیے بگیر واپس نہیں جائے گا، حضرت معاویہ نے کہا : ( اور وہ ان دونوں میں زیادہ بہتر تھے) کہ اگر اس لشکر نے اس لشکر کا صفایا کردیا تو میری کس پر حکومت ہوگی، عورتوں کی کفالت کون کرے گا، لوگوں کی زمینوں اور ان کے بچوں کی حفاظت کون کرے گا ؟ پھر حضرت معاویہ نے حضرت حسن (رض) کے پاس دو سفیر بھیجے جن کا تعلق قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے ساتھ تھا۔ عبد الرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر، حضرت معاویہ نے ان دونوں سے کہا کہ تم حضرت حسن بن علی (رض) عنما کے پاس جاؤ اور ان کے سامنے صلح کی پیش کش کرو اور ان سے اس معاملہ میں گفتگو کرو، سو وہ دونوں گئے اور آپ سے گفتگو کر، حضرت حسن بن علی (رض) نے فرمایا : ہم بنو عبد المطلب سے ہیں اور ہم نے (اپنے دور خلافت میں) اس مال کو حاصل کیا ہے اور یہ قوم اپنے خون میں لتھڑی ہوئی ہے، ان دونوں نے کہا : حضرت معاویہ آپ کی خدمت میں اتنا اتنا مال پیش کرتے ہیں اور صلح کا مطالبہ اور اس کا سوال کرتے ہیں، حضرت حسن نے فرمایا : اس مال کی ادائیگی کا کون ضامن ہے ؟ ان دونوں نے عرض کیا کہ ہم ضامن ہیں، حضرت حسن نے ان سے جس چیز کا بھی سوال کیا، ان دونوں نے کہا : ہم اس کے ضامن ہیں، پھر حضرت حسن نے حضرت معاویہ سے صلح کرلی، حضرت حسن نے کہا : میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے سنا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور حضرت حسن بن علی (رض) آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حضرت حسن کی طرف اور آپ فرماتے : میرا یہ بیٹا، سید ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٠٤، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٦٦٢۔ ٣٧٧٣)
حضرت معاویہ اور ان کے لشکر کا حضرت علی سے جنگ صفین کے باوجود اسلام سے خارج نہ ہونا
اس آیت سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں جنگ کر رہی ہوں اور ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسری باطل پر ہو تو جو جماعت باطل پر ہو، اس سے اس وقت تک جنگ کی جائے جب تک وہ حق کی طرف رجوع نہ کرلے، اس بناء پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اس آیت کی روشنی میں جنگ جمل اور جنگ صفین کا کیا حکم ہے ؟ ان میں سے کونسا فریق حق پر تھا اور کونسا فریق باطل پر تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی فریق صریح باطل پر نہیں تھا، دونوں فریقوں کا مؤقف تاویل اور اجتہاد پر مبنی تھا، لیکن حضرت علی (رض) کی تاویل صحیح تھی اور حضرت معاویہ کی تاویل مبنی برخطا اور اس کا فیصلہ اس حدیث سے ہوگیا جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسر (رض) سے فرمایا : افسوس ہے ! عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا، عمار ان کو جنت کی طرف بلائے گا اور وہ گروہ اس کو دوزخ کی طرف بلائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٧) اور حضرت عمار بن یاسر کو حضرت امیر معاویہ کے لشکر نے قتل کیا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) کا مؤقف صحیح اور حق تھا اور حضرت معاویہ (رض) کی تاویل مبنی برخطا تھی، اور ان کا مؤقف باطل محض نہیں تھا، ورنہ حضرت حسن بن علی (رض) ان سیصلح نہ کرتے اور اگر وہ باغی ہوتے تو حضرت علی (رض) ان سے جنگ موقوف نہ کرتے اور جنگ موقوف کرکے تحکیم کو اختیار نہ کرتے اور تادم مرگ جنگ جاری رکھتے،
اگر حضرت علی (رض) کے نزدیک حضرت معاویہ کی جماعت صراحتہً باغی ہوتی تو وہ ان سے کبھی جنگ موقوف نہ کرتے اور کبھی تحکیم کو قبول نہ کرتے۔
حافظ اسماعیل بن عمرو بن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ روایت کرتے ہیں :
سفیان بن اللیل بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت حسن بن علی (رض) کوفہ سے مدینہ آئے تو میں نے ان سے کہا : اے مؤمنین کو ذلیل کرنے والے ! ، حضرت حسن نے فرمایا : اس طرح مت کہو کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : دن اور رات کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا حتیٰ کہ معاویہ (رض) حکمران بن جائیں گے، پس میں نے جان لیا کہ اللہ کا حکم نافذ ہونے والا ہے۔ پس میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ میرے اور ان کے درمیان مسلمانوں کو خون بہایا جائے۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٦٢ ص ٧١۔ رقم الحدیث : ١٣٥٠٢، البدایہ النہایہ ج ص ٦٣٤، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٨)
حارث اعور بیان کرتے ہیں کہ حضر علی (رض) نے صفین سے لوٹ کر فرمایا : اے لوگو ! معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو گم کردیا تو تم دیکھو گے کہ تمہارے سرتمہارے کندھوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گیں گے جس طرح حنظل کے پھل درخت سے گرتے ہیں۔ (کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧١٢) (البدایہ والنہایہ ج ص ٦٣٤، دار الفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ)
حافظ ابن کثیر امام بیہقی کے حوالے سے لکھتے ہیں :
صفوان بن عمرو نے بیان کیا ہے کہ اہل شام کا لشکر ساتھ ہزار تھا ان میں سے بیس ہزار قتل کیے گئے اور اہل عراق کا لشکر ایک لاکھ بیس ہزار ھا ان میں سے چالیس ہزار شہید کئے گئے اور امام بیہقی نے اس واقعہ کو ” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم ’“ کی اس حدیث پر منطق کیا ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دو عظیم جماعتیں باہم عظیم جنگ نہیں کریں گے، حالانکہ ان دونوں جماعتوں کا دین واحد ہوگا۔ (الحدیث) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١٢١، صحیح مسل رقم الحدیث : ١٥٧ )
امام بیہقی نے کہا ہے کہ وہ جماعتیں اسلام کا دعویٰ کریں گی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پیشین گوئی جنگ صفین پر منطبق ہوتی ہے۔ (دلائل النبوۃ ج ص ٤١٩۔ ٤١٨، البدایہ النہایہ ٥ س ٣٧٧۔ ٣٧٦)
نیز حافط ابن کثیر لکھتے ہیں :
امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں گے، ایک گروہ ان دونوں سے خارج ہوجائے گا (یعنی خوارج) اور دونوں گروہوں میں سے جو گروہ حق کے زیادہ قریب ہوگا وہ ان خوارج کو قتل کرے گا۔ (مسند احمد ج ص ٧٩، سنن سعید ابن منصور رقم الحدیث : ٢٩٧٢)
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہے، کیونکہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے اسی طرح واقع ہوا، اور اس حدیث میں آپ نے اہل شام اور اہل عراق کے دونوں گروہوں کے اوپر اسلام کا حکم لگایا ہے۔ اس طرح نہیں جس طرح رافضی فرقہ کا زعم باطل ہے اور وہ اہل شام کو کافر قرار دیتے ہیں اور اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ حضرت علی (رض) کے اصحاب حق کے زیادہ قریب تھے اور یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے کہ حضرت علی (رض) حق پر تھے اور حضرت معاویہ مجتہد تھے اور ان کو اجتہاد میں خطا لاحق ہوئی اور ان کو بھی انشاء اللہ اجر ملے گا اور حضرت علی امام برحق ہیں اور ان کو دو اجر ملیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے :
حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب حاکم اجتہاد کرے اور اس کی رائے درست ہو تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور جب اس کے اجتہاد میں خطاء ہو تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣٥٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١٦، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٥٧٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣١٤) (البدایہ النہایہ ج ٥ س ٣٨٢۔ ٣٨١، دار الفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ)
حضرت عمار (رض) نے کہا : یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر کیا بلکہ یہ کہو انھوں نے فسق اور ظلم کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧، رقم الحدیث : ٣٧٨٣١، بیروت)
حضرت علی کے حضرت معاویہ کے متعلق دعائیہ کلمات اور اس سلسلے میں دیگر احادیث
حارث بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) صفین سے واپس آئے تو آپ نے ایسی باتیں فرمائیں جو اس سے پہلے نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے فرمایا : اے لوگو ! حضرت معاویہ کی امارت کو ناپسند مت کرو، اللہ کی قسم ! اگر تم نے ان کو گم کردیا تو تمہارے کندھوں سے تمہارے سر حنظل کی طرح گرنے لگیں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٧٨٤٣، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٤، تاریخِ دمشق ج ٢٦ ص ١٠٦۔ ١٠٥)
عبداللہ بن عروہ نے کہا : مجھے اس شخص نے خبر دی جو جنگ صفین میں حاضر تھا کہ حضرت علی (رض) کسی رات باہر نکلے، آپ نے اہل شام کی طرف دیکھ کر یہ دعا کی : اے اللہ ! میرے مغفرت فرما اور ان کی مغفرت فرمایا، پھر حضرت عمار لائے گئے تو آپ نے ان کے لیے بھی یہی دعا کی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٧٨٥٤ )
یزید بن اصم بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے جنگ صفین کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ہمارے مقتول اور ان کے مقتول جنت میں ہیں اور یہ معاملہ میرے اور معاویہ کی طرف سونب دیا جائے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٧٨٦٩، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٠، تاریخِ دمشق الکبیر ج ٢٦ ص ٩٧، بیروت)
نعیم بن ابی ہند اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، میں صفین میں حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا تو نماز کا وقت آگیا تو ہم نے بھی اذان دی اور اہل شام نے بھی اذان دی، ہم نے بھی اقامت کہی اور انھوں نے بھی اقامت کہی، پھر ہم نے نماز پڑھی اور انھوں نے بھی نماز پڑھی۔ پھر حضرت علی (رض) عہن نے مڑ کر دیکھتا تو ہمار درمیان بھی مقتولین تھے اور ان کے درمیان بھی مقتولین تھے۔ جب حضرت علی نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا : آپ ہمارے مقتولین اور ان کے مقتولین کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جو ہم میں سے اور ان میں سے اللہ کی رضا اور آخرت کے لیے لڑتا ہوا قتل کیا گیا وہ جنت میں ہے۔ (سنن سعید بن منصور ج ٢ ص ٣٤٥۔ ٣٤٤، رقم الحدیث : ٢٩٦٨، دار الکتب العلمیہ، بیروت، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٧)
حافط ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ اور حضرت اسماء، حضرت ابوبکر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر، اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ہاتھ بلند کرکے دعا کر رہے تھے : اے اللہ ! معاویہ کے بدن کو دو خ کیا آگ پر حرام کردے، اسے اللہ ! دوزخ کی آگ کو معاویہ پر حرام کردے۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٢٦ ص ٦٦۔ ٦٥۔ رقم الحدیث : ١٣٤٨٤، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابھی تمہارے سامنے اہل سنت سے ایک شخص آئے گا پھر حضرت معاویہ آئے۔ (تاریخِ دمشق ج ٦٢ ص ٧٠۔ رقم الحدیث : ١٣٤٩٩)
حضرت ابو مسعود (رض) نے کہا : حضرت معاویہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی اور برادر نسبتی ہیں اور وحی کے کاتب اور اس پر امین ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : میرے لیے میرے اصحاب اور میرے سسرال والوں کو چھوڑ دو (ان کو برا نہ کہو) پس جس نے ان کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ہو اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٦٢ ص ١٤٣، رقم الحدیث : ١٣٥٣٧)
حضرت رویم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! مجھ سے کشتی لڑئیے، حضرت معاویہ نے کھڑے ہو کر کہا : میں تم سے کشتی لڑوں گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : معاویہ ہرگز کبھی مغلوب نہیں ہوگا، پھر حضرت معاویہ نے اس اعرابی کو پچھاڑ دیا، جنگ صفین کے دن حضرت علی (رض) نے کہا : اگر مجھ سے اس حدیث کا پہلے ذکر کیا جاتا تو میں معاویہ سے جنگ نہ کرتا۔ (تاریخِ دمشق ج ٦٢ ص ٦١۔ رقم الحدیث : ١٣٤٦٥ )
حضرت رویم (رض) بیان کرت ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! مجھ سے کشتی لڑئیے، حضرت معاویہ نے کھڑ ہو کر کہا : میں تم سے کشتی لڑوں گا، نبی نے فرمایا : معاویہ ہرگز کبھی مغلوب نہیں ہوگا، پھر حضرت معاویہ نے اس اعرابی کو پچھاڑ دیا، جنگ صفین کے دن حضرت علی (رض) نے کہا : اگر مجھ سے اس حدیث کا پہلے ذکر کیا جاتا تو میں معاویہ سے جنگ نہ کرتا۔ (تاریخِ دمشق ج ٢٦ ص ٦١۔ رقم الحدیث : ١٣٤٦٥ )
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو رسوا کرے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے، اللہ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ قیامت کے دن اس کے مصائب میں سے کوئی مصیبت دور فرمادے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ اس کا پردہ رکھے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٠)
حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے اس کے اجزاء ایک دوسرے سے مضبوط ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٢٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٥)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔
حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم مؤمنوں کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستی نبھانے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح ہیں جب جسم کے ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد اور بخار سے کراہتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠١١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٦، مسند احمد ج ٤ س ٢٩٨)
نیز حضرت نعمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمام مؤمنین ایک شخص کی طرح ہیں جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سر میں درد ہو تو سارے جسم میں درد ہوگا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٦، مسند احمد ج ٤ س ٢٧٦)
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ
مذاق اڑانے کی ممانعت
اس آیت میں ”لا یسخر“ کا لفظ ہے، اس کا مصدر ہے : ”سخریہ“ اس کا معنی ہے: مذاق اڑانا اور کسی شخص کی تحقیر کرن اور اس کا استخفاف کرنا اور اس کو درجہ اعتبار سے ساقط قرار دینا، قوم کا معنی ہے : مردوں کی جماعت اور ان کا گروہ اور بعض اوقات اس سے مطلقاً گروہ مراد ہوتا ہے، خواہ اس میں مردہوں یا عورتیں۔
ضحاک نے بیان کیا کہ یہ آیت بنو تمیم کے متعلق نازل ہوئی ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فقراء صحابہ کا مذاق اڑانے تھے جب وہ حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت بلال، حضرت صہیب اور حضرت سلمان پر افلاس کے آثار دیکھتے تو ان کا مذاق اڑاتے تھے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
جب حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) فتح مکہ کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آئے، تو وہ انصار کی جس مجلس سے بھی گزرتے تو لوگ کہتے کہ یہ ابوجہل کا بیٹا ہے، تب حضرت عکرمہ (رض) نے رسول اللہ سے اس کی شکایت کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو اذیت نہ پہنچاؤ۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٤٣ ص ١٨٥۔ رقم الحدیث : ٨٨٣٨)
علامہ قرطبی نے اس حدیث کا بھی اس آیت کے شان نزول میں ذکر کیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ کسی آدمی میں فقر کے آثار دیکھ کر اس مذاق نہ اڑایا جائے۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کتنے ہی لوگوں کے بال بکھرے ہوئے، غبار آلود ہوتے ہیں ان کے پاس دو چادریں ہوتی ہیں اور ان کو کوئی پناہ نہیں دیتا، وہ اگر قسم کھا لیں کہ اللہ فلاں کام کرے گا تو اللہ وہ کام کرکے ان کو قسم میں سچا کردیتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٤، مسند احمد ج ٣ ص ١٤٥ )
عورتوں کا خصوصیت کے ساتھ علیحدہ ذکر فرمایا کیونکہ عورتوں میں دوسری عورتوں کا مذاق اڑانے کی خصلت بہت زیادہ ہوتی ہے :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے متعلق نازل ہوئے ہے کیونکہ حضرت عائشہ نے حضرت ام سلمہ (رض) کے چھوٹے قد ہونے کی وجہ سے ان کو شرمندہ کیا، ایک قول یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا کہ حضرت ام سلمہ کا قد چھوٹا ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت صفیہ بنت جی ابن اخطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور کہا : ازواج مجھے شرمندہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں : اے یہودیہ ! دو یہودیوں کی بیٹی ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا : آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہا کہ میرے باپ حضرت ہاروں (علیہ السلام) اور میرے عم زاد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور میرے خاوند حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ (الکشف والبیان ج ٩ ص ٨١)
حضرت حسن (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ دنیا میں لوگوں کا مذاق اڑاتے تھے، آخرت میں ان کے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا : آؤ ! آؤ ! وہ اپنے غم اور پریشانی کے باوجود وہاں جائیں گے اور جب وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا : آؤ ! آؤ ! وہ اپنے غم اور پریشانی کے باوجود وہاں جائیں گے اور جب وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بھی بند کردیا جائے گا اور یونہی ہوتا رہے گا حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا : ا اؤ ! اور وہ مایوس ہو کر نہیں جائے گا۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٦٣٣٣)
وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ
ایک دوسرے کو طعنہ دینے اور عیب سے متصف کرنے کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے، صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! یہ کسی کے باپ کو گالی دے گا تو وہ اس کے باپ کو گالی دے گا، یہ کسی کی ماں کو گالی دے گا تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٢، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥١٤٢، مسند احمد ج ٢ ص ١٦٣ )
فاسق معلن کا فسق بیان کرنے کا جواز
کسی شخص کو عیب سے متصف کرنا اس وقت جائز نہیں ہے جس اس کو عیب لگانے سے س کی تحقیر کرنا اور لوگوں کی نظروں میں اس کو ذلیل اور رسوا کرنا مقصود ہو اور جب فاسق کے ضرر سے لوگوں کو بچانا مقصود ہو تو پھر اس کے فسق کو بیان کرنا جائز ہے، مثلاً ایک شخص خائن ہو اور لوگ اس کو امانت دار سمجھ کر اس کے پاس بری رقم امانت رکھوانا چاہتے ہوں اور ان کو اس کے خائن ہونے کا علم نہ ہو تو پھر اس کی خیانت کو بیان کرنا جائز ہے، تاکہ لوگ اس کے ضرر سے بچیں یا کوئی متقی اور پرہیز گار شخص کسی شخص کو نیک اور نمازی سمجھ کر اسے اپنی بیٹی اس کے ضرر سے بچ سکیں، حدیب میں ہے :
بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم فاسق (کے فسق) کو بیان کرنے سے ڈرے ہو ؟ اس کے فسق کو بیان کرو تاکہ لوگ اس کو پہچان لیں، نیز اسی سند سے مروی ہے، فاسق کے فسق کا ذکر کرنا غیبت نہیں ہے ( اس سے مراد فاسق معلن ہے) ۔ (المعج الکبیر ج ١٩۔ رقم الحدیث : ١٠١١۔ ١٠١٠، الکامل لابن عدی ج ٢ س ٤٣٠، تاریخِ بغداد ج ا ص ٣٨٢، سنن بیہقی ج ١٠ ص ٢١٠ )
امام غزالی نے اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے :
کیا تم فاسق کے ذکر سے اعراض کرتے ہو، پھر لوگ اس کو کیسے پہنچانیں گے ؟ اس میں جو فسق ہے اس کو بیان کرو تاکہ لوگ اس کو پہچان کر اس (کے ضرر) سے بچیں۔ ٠ احیاء علوم الدین ج ٣ س ١٣٦، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام محمد بن محمد سید محمد بن محمد حسینی زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
یعنی فاسق کا پردہ چاک کرو اور اس کے مذموم اوصاف کو کھول کر بیان کرو تاکہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں اور فاسق معلن کے مذموم اوصاف کو بیان کیے بغیر اس کا ذکر کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے صرف لوگوں کی خیر خواہی مقصود ہو، ہاں ! جس شخص نے اپنے غصہ کو تھنڈا کرنے کے لیے اور اپنے نفس کا انتقام لینے کے لیے فاسق معلن کی مذموم صفات کو بیان کیا وہ گناہ گار ہوگا۔ (اتھاف السادۃ المتقین ج ٧ ص ٥٥٦۔ ٥٥٥، دار احیاء التراث العربی، ١٤١٤ ھ)
وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ
ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنے کی ممانعت
اس آیت میں ”تنابزوا“ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے: کسی شخص کو کوئی لقب دینا عام زیں کہ وہ لقب اچھا ہو یا برا، لیکن عرب میں یہ لفظ برے لقب دینے کے ساتھ مخصوص ہوگیا۔
عکرمہ نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان کو کہے یا فاسق، یا کہے یا کافر، تو یہ ممنوع ہے۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی برے کام کو چھوڑ کر اس سے توبہ کرچکا ہو اور حق کی طرف رجوع کرچکا ہوتا اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پچھلے کاموں پر عار دلانے سے منع فرمایا۔ (جامع البیان ج ٢٦ ص ١٧٢، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو اس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا (امام احمد نے کہا : اس سے مراد ایسا گناہ ہے جس سے وہ توبہ کرچکا ہو) تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٠٥)
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۡ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ
مسلمان کے متعلق بدگمانی کے حرام ہونے پر دلائل
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم گمان کرنے سے بچو کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے اور تجسس نہ کرو اور (کسی کے حالات جاننے کے لئے) تفتیش نہ کرو اور کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ کسی بعغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔ ایک روایت میں ہے : اور کسی مسلما کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی کو چھوڑ رکھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٦٥۔ ٦٠٦٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٩١٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٨٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٤٨٤٥، عالم الکتب)
ظن اور گمان کے جواز اور عدم جواز کے محمل
امام محمد ابن محمد غزالی متوفی ٥٠٥ ھ لکھتے ہیں :
شیطان آدمی کے دل میں بدگمانی ڈالتا ہے تو مسلمان کو چاہیے کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اور اس کو خوش نہ کرے حتیٰ کہ اگر کسی کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو پھر بھی اس حد لگانا جائز نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس نے شراب کا ایک گھونٹ پی کر گلی کردی ہو یا کسی نے اس کوب جبراً شراب پلا دی ہو اور اس کا احتمال ہے، تو وہ دل کے خون کو، اس کے مال کو اور اس کے متعلق بدگمانی کا حرام کردیا ہے، اس لیے جب تک وہ خود کسی چیز کا مشاہدہ نہ کرے یا اس پر دو نیک گواہ قائم نہ ہوجائیں اس وقت تک مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا جائز نہیں ہے اور جب اس طرح نہ ہو اور شیطان تمہارے دل میں کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی کا وسوسہ ڈالے تو تم اس وسوسہ کو دور کرو اور اس پر جمے رہو کہ اس کا حال تم سے مستور ہے اور اس شخص کے حق میں نیک پر قائم رہنے اور گناہ سے باز رہنے کی دعا کرو اور شیطان کو ناکام اور نامراد کرکے اس کو غضب میں لاؤ۔ (احیاء العلوم ج ٣ ص ١٣٥، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
اگر کوئی شخص نیکی میں مشہور ہو تو اس کے متعلق بدگمانی جائز نہیں اور جو علانیہ گناہ کبیرہ کو مرتکب ہو اور فسق میں مشہور ہو اس کے متعلق بدگمانی کرنا جائز ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٣٠٠، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٦٦ ھ لکھتے ہیں :
جو گمان ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور نیک مسلمانوں کے متعلق برا گمان کیا جائے اور جس گمان کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جس حکم کے حصول کی دلیل قطعی میسر نہ ہو اور کسی معاملہ میں اس پر حکم نافذ کرنا مقصود ہو تو اس معاملہ میں طن غالب پر عمل کرکے حکم نافذ کرنا واجب ہے، جس طرح ہم پر واجب ہے کہ ہم نیک مسلمانوں کی شہادت قبول کریں (اور ان کا نیک ہونا ظن غالب سے معلوم ہوگا) اور جنگل میں غور و فکر کرکے ظن غالب سے سمت قبلہ معلوم کرنا، اسی طرح اگر محرم نے کسی جانور کا شکار کرکے اس کو ہلاک کردیا اور شریعت میں اس جانور کی مقدار اور قیمت متعین نہیں ہے تو اس کا تاوان ادا کرنے کے لیے ظن غالب سے اس کی قیمت کو تعین کرنا۔ اس قسم کی مثالوں میں ہمیں ظن گا لب کے تقاضے پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور جو ظن مباح ہے وہ یہ ہے کہ جب امام کو رکعات کی تعداد میں شک پڑجائے تو وہ غور و فکر کرے اور جتنی تعداد پر ظن غالب ہو اس پر عمل کرے، اگرچہ دوبارہ نماز پڑھنا افضل ہے اور جو ظن مستحب ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے متعلق نیک گمان کرے، خواہ لوگ اس کو بلا دلیل برا کہہ رہے ہوں۔ (عمدۃ القاری ج ٢٢ ص ٢١٥، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا
مسلمانوں کے عیوب تلاش کرنے کی ممانعت
نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اور تجسس نہ کرو یعنی کسی مسلمان کے عیوب اور اس کی کوتاہیوں کو تلاش نہ کرو۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کے ظاہر حال پر عمل کرو اور اس کے عیوب کو تلاش نہ کرو اور اللہ تعالیٰ نے جس مسلمان کے عیوب پر پردہ رکھا ہوا ہے اس کے پردہ کو چاک نہ کرو۔ حدیث میں ہے :
حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کروگے تو تم ان کو خراب کردو گے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٨٨٨)
زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس ایک شخص لایا گیا جس کی ڈاڑھی سے شراب چمک رہی تھی، حضرت ابن مسعود نے فرمایا : ہم کو تجسس کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن اگر ہمارے سامنے کوئی چیز ظاہر ہوگی تو اہم کے تقاضے پر عمل کریں گے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٨٩٠)
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کے عیب پردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٩٥١، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٨٩٣، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٣٢٦ )
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے فرمایا : کسی شخص کے گمراہ ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ لوگوں میں وہ چیزیں دیکھے جو اس کو اپنے اندر نظر نہیں آتیں اور جو کام وہ خود کرتا ہے ان کاموں پر دوسروں کی مذمت کرے، اور لا یعنی باتوں سے اپنے ہم نشین کو ایذاء پہنچائے۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٦٣٣٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کو بھول جاتا ہے۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٦٣٣٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٧٣١، حلیۃ الاولیاء ج ٤ ص ٩٩)
اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ
بہتان اور تہمت ایک ہی چیز ہیں اس کی مثال وہ ہے جو حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی گئی تھی، غیبت کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے، اس کے متعلق یہ حدیث ہے :
حضرت ماعزاسلمی (رض) (جن کو زنا کا اعتراف کرنے کے بعد رجم کردیا گیا تھا) کے اصحاب میں سے دو شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور ان میں سے ایک شخص نے کہا : دیکھو ! اس شخص (حضرت ماعز) پر اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا تھا، اور اس شخص نے خود اپنی جان نہیں چھوڑی حتیٰ کہ اسے کتے کی طرح سنگسار کردیا گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، پھر آپ روانہ ہوئے حتیٰ کہ آپ ایک مردہ گودھے کے پاس سے گزر، آپ نے فرمایا : وہ فلاں، فلاں کہاں ہیں ؟ انھوں نے کہا : ہم یہاں ہیں، یا رسول الہ ! آپ نے فرمایا : آؤ اور اس مردہ گدھے کو کھاؤ، انھوں نے کہا : یا نبی اللہ ! اس کو، کون کھائے گا ؟ آپ نے فرمایا : تم نے جو ابھی اپنے بھائی کی عزت پامال کی ہے وہ اس مردہ کو کھانے سے زیادہ سخت تھی اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! وہ تو اب جنت کے دریاؤں میں غوطے لگا رہا ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث :4428)
غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دینے کی وجوہ
اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کی مثال مردار کھانے سے دی ہے، کیونکہ جس طرح جس مردار کا گوشت کھایا جائے اس کو علم نہیں ہوتا کہ اس کا گوشت کھایا جا رہا ہے، اسی طرح جس شخص کا پسِ پشت عیب بیان کیا جائے اس کو بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کا پسِ پشت عیب بیان کیا جا رہا ہے، نیز جس طرح مردار کا گوشت کھانا حرام ہے اور گھناؤنا فعل ہے۔ اسی طرح کسی مسلمان کی غیبت کرنا بھی حرام ہے اور گھناؤنا فعل ہے نیز کسی مسلمان کی جب غیبت کی جائے تو وہ اپنے واقف لوگوں کی نظروں میں ذلیل اور رسوا ہوجاتا ہے اور کسی مسلمان کو بےعزت کرنا اس کو قتل کردینے کے مترادف ہے اسی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں پر جس طرح ایک دوسرے کی جان اور مال کو حرام کیا ہے، اسی طرح اس کی عزت کو بھی حرام کیا ہے، حدیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے تمہاری جانوں کو اور تمہارے مالوں کو اور تمہاری عزتوں کو ایک دوسرے پر اس طرح حرام کردیا ہے جیسے آج کے دن، اس مہینہ میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1742، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :4686، سنن نسائی رقم الحدیث : 4125، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3943)
غیبت کرنے پر عذاب کی وعیدیں
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیتل کے ناخن تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا : اے جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انھوں نے کہا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث، 4878)
حضرت مستورد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی مسلمان شخص کا گوشت کھایا، اللہ تعالیٰ اس کو اتنی ہی دوزخ کی آگ کھلائے گا، اور جس شخص نے کسی مسلمان شخص کا (حرام) کپڑا پہنا، اللہ تعالیٰ اس کو اتناہی دوزخ کا کپڑا پہنائے گا، اور جس نے کسی شخص کو دکھاوے اور ستانے کے لیے کھڑا کیا، اللہ سبحانہٗ اس کو قیامت کے دن دکھاوے اور ستانے کے لیے کھڑا کرے گا۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : 488)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی موومن یا مومنہ پر بہتان باندھا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن خبال (دوزخ کے ایک طبقہ کی کیچڑ) میں بند رکھے گا حتیٰ کہ وہ اپنے بہتان سے نکل آئے اور وہ اس سے نہیں نکل سکے گا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : 13435، تاریخ بغداد ج 8 ص 201، مسند الشامیین رقم الحدیث : 2460، حافظ الہیشمی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 10 ص 91)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا اس کے پاس اس کے بھائی کا گوشت لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا : تم جس طرح دنیا میں اپنے زندہ بھائی کا گوشت کھاتے تھے اب مردہ گوشت کھاؤ، وہ اس کو چیخ مارتا ہوں اور منہ بگاڑتا ہوا کھائے گا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : 1677، اس حدیث کی روایت میں مجہول رواوی بھی ہیں۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : 13129)
حضرت ابو سعید اور حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! غیبت کرنا زنا سے زیادہ سخت گناہ کیسے ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ایک آدمی زنا کرتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور غیبت کرنے والے کو اس وقت تک مغفرت نہیں ہوتی حتیٰ کہ جس کی غیبت کی ہے وہ اس کو معاف نہ کر دے۔ (شعب الایمان ج 5 ص 306، الترغیب والترہیب ج 3 ص 511، مشکوٰۃ رقم الحدیث : 4874)
یحییٰ بن جابر بیان کرتے ہیں کہ جس نے کسی شخص کا عیب بیان کیا اللہ تعالیٰ اس کو بھی اسی عیب میں مبتلا کردیتا ہے۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : 6354)
مالک بن دینار کہتے تھے کہ کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ خود نیک نہ ہو اور نیک لوگوں کی برائی کرتا ہو۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : 6359)
غیبت کا کفارہ
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لیے استغفار کرو جس کی غیبت کی ہے۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : 6368، اللآلی المصنوعۃ ج 2 ص 303)
عبداللہ بن مبارک نے کہا : جب کوئی شخص کسی کی غیبت کرے تو اس کو نہ بتائے لیکن اللہ سے استغفار کرے۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : 6366)
امام احمد (رح) نے کہا : غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم نے جس کی غیبت کی ہے اس کے لیے استغفار کرو۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : 6367)
جن صورتوں میں پس پشت عیب بیان کرنا جائز ہے
شعبہ نے کہا : شکایت کرنے کے لیے اور لوگوں کو ضرر سے بچانے کے لیے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث :6372)
ابن عیینہ نے کہا : تین آدمیوں کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے، (1) ظالم حکمران (2) جو شخص لوگوں کے سامنے اللہ کی نافرمانی کرتا ہو (3) وہ بدعتی جو لوگوں کو اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہو۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث :6374)
علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں :
جس سبب صحیح اور غرض شرعی کو کسی کا پس پشت عیب بیان کیے بغیر پورا نہ کیا جاسکے اس غرض کو پورا کرنے کے لیے غیبت کرنا مباح ہے اور اس کے چھ اسباب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ مظلوم اپنی دادرسی کے لیے سلطان، قاضی یا اس کے قائم مقام شخص کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کرے کہ فلاں شخص نے مجھ پر یہ ظلم کیا ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ کسی برائی کو ختم کرنے اور بدکار کو نیکی کی طرف راجع کرنے کے لیے کسی صاحب اقتدار کے سامنے اس کی غیبت کی جائے کہ فلاں شخص یہ برا کام کرتا ہے اس کو اس برائی سے روکو اور اس سے مقصود صرف برائی کا ازالہ ہو، اگر یہ مقصد نہ ہو تو غیبت حرام ہے۔ تیسرا سبب ہے استفسار، کوئی شخص مفتی سے پوچھے : فلاں شخص نے میرے ساتھ یہ ظلم یا یہ برائی کی ہے کیا یہ جائز ہے ؟ میں اس ظلم سے کیسے نجات پاؤں ؟ یا اپنا حق کس طرح حاصل کروں ؟ اس میں بھی افضل یہ ہے کہ اس شخص کی تعیین کیے بغیر سوال کرے کہ ایسے شخص کا کیا شرعی حکم ہے ؟ تاہم تعیین بھی جائز ہے۔
چوتھا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کی خیرخواہی کرنا اور اس کو کسی شخص کے ضرر سے بچانا اور اس کی متعدد صورتیں ہیں (ا) مجروح راویوں پر جرح کرنا اور فاسق گواہوں کے عیوب نکالنا، یہ اجماع مسلمین سے جائز ہے بلکہ ضرورت کی وجہ سے واجب ہے (ب) کوئی شخص کسی جگہ شادی کرنے کے لیے مشورہ کر، یا کسی شخص سے شراکت کے لیے مشورہ کرے یا کسی بھی قسم کا معاملہ کرنے کے لیے مشورہ کرے اور اس شخص میں کوئی عیب ہو تو مشورہ دینے والے پر واجب ہے کہ وہ اس عیب کو ظاہر کر دے (ج) جب انسان یہ دیکھے کہ ایک طالب علم کسی بدعتی یا فاسق سے علم حاصل کر رہا ہے اور اس سے علم حاصل کرنے میں اس کے ضرر کا اندیشہ ہے تو وہ اس کی خیرخواہی کے لیے اس بدعتی یا فاسق کی بدعت اور فسق پر اسے متنبہ کرے۔ (د) کسی ایسے شخص کو علاقہ کا حاکم بنایا ہوا جو اس منصب کا ہل نہ ہو، اس کو صحیح طریقہ پر انجام نہ دے سکتا ہو یا غافل ہو یا اور کوئی عیب ہو تو ضروری ہے کہ حاکم اعلیٰ کے سامنے اس کے عیوب بیان کیے جائیں، تاکہ اہل اور کارآمد شخص کو حاکم بنایا جاسکے۔
پانچواں سبب یہ ہے کہ کوئی شخص علی الاعلان فسق و فجور اور بدعات کا ارتکاب کرتا ہو، مثلاً شراب نوشی، جواء کھیلنا، لوگوں کے اموال لوٹنا وغیرہ تو ایسے شخص کے ان عیوب کو پس پشت بیان کرنا جائز ہے، جن کو وہ علی الاعلان کرتا ہو، ان کے علاوہ اس کے دوسرے عیوب کو بیان کرنا جائز نہیں ہے اور چھٹا سبب ہے تعریف اور تعیین مثلاً کوئی شخص اعرج (لنگڑے) ، اصم (بہرے) ، اعمی (اندھے) احول (بھینگے) کے لقب سے مشہور ہو تو اس کی تعریف اور تعیین کے لیے اس کا ذکر ان اوصاف کے ساتھ کرنا جائز ہے اور اس کی تنقیص کے ارادے سے ان اوصاف کے ساتھ اس کا ذکر جائز نہیں ہے اور اگر اس کی تعریف اور تعیین کسی اور طریقہ سے ہو سکے پھر بھی اس عیب کا ذکر جائز نہیں ہے۔ (ریاض الصالحین ص 579-581، کراچی)
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا
علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
امام ابو داؤد نے اپنی ” مراسیل “ میں امام ابن مردویہ اور امام بیہقی نے اپنی ” سنن “ میں زہری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو بیاضہ کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی عورت کا ابوہند سے نکاح کردیں، انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنی بیٹیوں کا اپنے آزاد شدہ غلاموں سے نکاح کردیں ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی : اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، الایۃ۔
زہری نے کہا : یہ آیت بالخصوص ابوہند کے متعلق نازل ہوئی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فصد لگاتا تھا (الیٰ قولہ) ، یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نسب پر فخر نہیں کرنا چاہیے، احادیث میں بھی اس کی صراحت ہے۔
علامہ آلوسی اس بحث میں مزید لکھتے ہیں :
امام بیہقی نے حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے باپ دادا کی وجہ سے جاہلیت کی نخوت اور تکبر کو دور کردیا ہے، تم سب آدم اور حوا کی اولاد ہو جس طرح دو صاع برابر برابر ہوتے ہیں اور بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو پس تمہارے پاس جو بھی ایسا شخص آئے جس کے دین اور امانت پر تم راضی ہو اس سے (اپنی لڑکیوں کا) نکاح کردو۔ اس حدیث کو امام احمد اور محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے، لیکن امام احمد کی روایت میں ” تمہارے پاس جو بھی آئے “ یہ الفاظ نہیں ہیں۔ (شعب الایمان ج 4 ص 288-289، طبع بیروت)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنوبیاضہ ! ابو ہند سے نکاح کردو، انھوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنی لڑکیوں کا اپنے (آزاد شدہ) غلاموں سے نکاح کردیں ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی : ” یایھا الناس انا خلقنکم من ذکرٍ وانثی “ (الحجرات :13) ۔ (عمدۃ القاری ج 20 ص 163-164، مصر)
علامہ قرطبی مالکی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
حدیث صحیح میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ (یہ بدری صحابی تھے) نے سالم کو اپنا بیٹا بنایا اور ان کے ساتھ اپنے بھائی ولید بن عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی (ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ قرشیہ) کا نکاح کردیا، حالانکہ سالم انصار کی ایک عورت کے آزاد شدہ غلام تھے اور حضرت ضباعہ بنت الزبیر (یہ ہاشمی خاتون تھیں) حضرت مقداد بن اسود کے نکاح میں تھیں (یہ غیر قرشی تھے) ۔ (صحیح البخاری ج 2 ص 762، طبع کراچی، صحیح البخاری رقم الحدیث :5088، بیروت)
علامہ ابن قدامہ حنبلی نے بھی اس آیت کا یہی شان نزول بیان کیا ہے۔ (المغنی ج 7 ص 226، اسی طرح علامہ سیوطی شافعی نے ” الدرالمنثور “ ج 7 ص 503-508 میں اور انھوں نے ذات پات کا امتیاز نہ کرنے پر وہ تمام احادیث بیان کی ہیں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ )
استدلال مذکور پر ایک اعتراض کا جواب
بعض اہل علم لکھتے ہیں: مذکورہ آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے پر طعن کریں، نام بگاڑیں، ایک دوسرے کے نسب پر چوٹیں کریں اور ایک دوسرے کو برے القاب و اوصاف سے ایذاء پہنچائیں یا تمسخر اڑائیں، ان سب خرابیوں کے ازالہ کے لیے آیت میں ارشاد ہوا کہ خدا کے نزدیک تمہارے کام آنے والی اصل چیز تقویٰ اور ایمان ہیں جن کا ظہور مکمل طور پر دار آخرت میں ہوگا۔
اس کلام کی متنانت سے ہمیں انکار نہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ اس آیت کا نزول ابوہند کے بارے میں ہوا، جب بنو بیاضہ نے اس کے غلام ہونے کی وجہ سے اس کو رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو بیاضہ کو حکم دیا کہ وہ اس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کردیں حالانکہ وہ ایک فصد لگانے والا غلام تھا اور اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی، جیسا کہ علامہ آلوسی حنفی، علامہ عینی حنفی، علامہ قرطبی مالکی، علامہ سیوطی شافعی اور علامہ ابن قدامہ حنبلی نے لکھا ہے۔ لہٰذا اس آیت کے شان نزول سے بھی یہ ثابت ہوا کہ غیر کفو میں نکاح جائز ہے۔
عہدِ رسالت میں غیر کفو میں نکاح کے بہ کثرت واقعات ہوئے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی نکاح کے موقع پر یہ نہیں فرمایا کہ صرف تمہارے لیے یہ نکاح جائز ہے اور کسی کے لیے یہ نکاح جائز نہیں ہے، اگر نکاح کے یہ واقعات استثنائی ہوتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی موقع پر تو اس استثناء کو بیان فرماتے۔
غیر کفو میں کیے گئے رشتوں کو استثناء پر محمول کرنا اس وقت صحیح ہوتا جب قرآن مجید کی کسی صریح آیت یا خبر متواتر یا کسی حدیث صحیح سے غیر کفو میں نکاح کرنے کی ممانعت ہوتی اور جب اس سلسلہ میں کوئی سند صحیح سے خبر واحد بھی مروی نہیں ہے تو اس استثناء کا دعویٰ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے ؟ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
ولم یثبت في اعتبار الکفاءۃ بالنسب (حدیث۔ فتح الباری 9 ص 133، لاہور) ترجمہ: کفو میں نسب کا اعتبار کرنے کے سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔
بلکہ اس کے برعکس بہ کثرت احادیث سے یہ ثابت ہے کہ کفو کی برتری پر گھمنڈ نہ کیا جائے اور کسی مسلمان کو کفو کی وجہ سے حقیر نہ گردانا جائے اور کسی مسلمان کے رشتہ کے پیغام کو کفو کی وجہ سے مسترد نہ کیا جائے، اب ہم اعلاء کلمۃ الحق کے لیے ان احادیث کا بیان کرتے ہیں : فنقول وباللّٰہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔
اسلام میں ذات پات کا امتیاز نہ کرنے پر احادیث سے دلائل
امام احمد بن حنبل متوفی 241 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
عن أبي ذر أن النبي صلی الله عليه وسلم) قال له: انظر فإنک ليس بخير من أحمر ولا أسود إلا أن تفضله بالتقوی. (مسند احمد ج 5 ص 158، طبع قدیم)
ترجمہ: حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دیکھو تم کسی گورے یا کالے سے افضل نہیں ہو، البتہ تم اس پر تقویٰ سے فضیلت حاصل کرو گے۔
عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ خُطْبَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ فَقَالَ: ” يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى أَبَلَّغْتُ “، قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللهِ. (مسند أحمد ج 5 ص 411)
ترجمہ: ابونضرہ بیان کرتے ہیں کہ ایام تشریق کے وسط میں جس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطبہ سنا، اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا : اے لوگو ! تمہارے رب ایک ہے، سنو ! کسی عربی کی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ عجمی کی عربی پر کوئی فضیلت ہے، کسی گورے کی کالے پر کوئی فضیلت ہے نہ کسی کالے کی گورے پر کوئی فضیلت ہے، فضیلت صرف تقویٰ کی ہے، کیا میں نے تبلیغ کردی ہے ؟ صحابہ نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبلیغ کردی ہے۔
ابوبکر احمد بن حسن بیہقی متوفی 458 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ خُطْبَةَ الْوَدَاعِ، فَقَالَ: ” يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى، إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ “، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: ” فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ “ (شعب الایمان ج 4 ص 289، الدر المنثورج 7 ص 504)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایام تشریق کے وسط میں خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا : اے لوگو ! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، سنو کسی عربی کی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ عجمی کی عربی پر کوئی فضیلت ہے، کسی گورے کی کالے پر کوئی فضیلت ہے نہ کسی کالے کی گورے پر کوئی فضیلت ہے مگر تقویٰ سے، بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ سنو ! کیا میں نے تبلیغ کردی ہے ؟ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں ! یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا : پھر حاضر غائب کو تبلیغ کر دے۔
اس حدیث کو امام بزار کی مکمل سند کے ساتھ بھی حافظ الہیشمی نے بیان کیا ہے۔ (کشف الاستارج 4 ص 435)
امام بیہقی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ اللهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عَيْبَةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ، النَّاسُ بَنُو آدَمَ، وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ، مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْخَرُونَ بِرِجَالٍ، إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللهِ مِنَ الْجِعْلَانِ الَّتِي تُدْفَعُ”. (شعب الایمان ج 4 ص 286)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم سے زمانہء جاہلیت کی عیب جوئی اور باپ دادا پر فخر کرنے (کی خصلت) کو دور کردیا ہے، سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، مومن متقی ہے اور فاجر درشت خو ہے، لوگ (اپنے) آدمیوں پر فخر کرنے سے باز آجائیں، یہ لوگ جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں، ورنہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر ہیں۔
اس حدیث کو امام بیہقی نے متعدد اسانید سے روایت کیا ہے اور امام بزار نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (کشف الاستارج 3 ص 435)
اسلام اور اچھے اخلاق کی بناء پر رشتہ دینے کا حکم، عام ازیں کہ کفو ہو یا غیر کفو
یہاں تک کہ ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ اسلام میں ذات پات کا امتیاز نہیں ہے اور عہد رسالت میں غیر کفو میں نکاح کرنے کا عام معمول تھا، ہرچند کہ زمانہء جاہلیت کے اثرات کی وجہ سے بعض لوگ اپنے آپ کو نسبی اعتبار سے برتر اور دوسروں کو نسبی اعتبار سے فروتر گردانتے تھے، لیکن جیسے جیسے اسلام کی روشنی پھیل رہی تھی اور ایمان کی اقدار دلوں میں راسخ ہو رہی تھیں، نسب پر فخر کرنے کے جذبات مٹتے جا رہے تھے اور اس کے بجائے زہد وتقویٰ کو معیار فضیلت قرار دیا جانے لگا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی تعلیم تھی کہ نام و نسب پر فخر کرنے کے بجائے اسلام اور تقویٰ کو اہمیت دی جائے اور جب بھی کوئی موزوں رشتہ مل جائے تو حسب و نسب کا لحاظ کیے بغیر اس سے نکاح کردیا جائے۔
امام ترمذی متوفی 279 ھ روایت کرتے ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ. (سنن ترمذی رقم الحدیث : 1084، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1967، سنن ترمذی ص 175، طبع کراچی)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم کو ایسا شخص نکاح کا پیغام دے، جس کا دین اور خلق تم کو پسند ہو تو اس سے نکاح کردو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد ہوگا۔ اس باب میں حضرت ابو حاتم مزنی اور حضرت عائشہ (رض) سے بھی احادیث مروی ہیں۔
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا
علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
اس آیت کے شان نزول میں حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) سدی نے کہا : ان دیہاتیوں سے مراد وہ دیہاتی ہیں جن کا ذکر سورة الفتح میں آچکا ہے، یہ مدینہ کے گرد رہنے والے قبائل تھے : مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار، الدیل اور اشجع، انھوں نے اس لیے ایمان کا اظہار کیا تھا تاکہ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرسکیں اور انھوں نے دل سے تصدیق نہیں کی تھی، لیکن اس آیت سے مرادض اعراب ہیں، تمام اعراب مراد نہیں ہیں کیونکہ بعض اعراب ایمان لے آئے تھے۔
(٢) حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ آیت ان اعراب کے متعلق نازل ہوئی ہے جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو مہاجر کہا جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ ان کا لقب اعراب ہے اور ان کا لقب مہاجرین نہیں ہے۔
(٣) ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنو اسد بن خزیمہ کے اعراب ہیں، انھوں نے مدینہ کے راستوں میں سے دیجئے، کیونکہ دوسرے لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے تو آپ کو ان سے جنگ کرنا پڑی اور ہم بغیر کسی جنگ کے از خود آپ پر ایمان لائے ہیں، اس لیے ہم مالی امداد اور صدقات کے زیادہ مستحق ہیں، یہ اپنے ایمان لانے کا آپ پر احسان جتاتے تھے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز 16 ص 315، دارالفکر، بیروت، 1415 ھ)
نفس ایمان دل سے اس کی تصدیق کرتا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے جو پغیام اور جو دین لے کر آئے وہ برحق ہیں، اس کو ماننا اور قبول کرنا ہے اور ایمان کامل، اس کی تصدیق اور کلمہء شہادت کا اقرار اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے اور ایمان اور اسلام دونوں مترادف ہیں اور اس آیت سے بظاہر دونوں میں تغایر معلوم ہوتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اسلام کا لغوی معنی مراد ہے یعنی ظاہراً اطاعت کرنا، یعنی تم نے اپنی جان اور مال کے تحفظ کے لیے ظاہراً اطاعت کی ہے اور تم درحقیقت مومن نہیں ہو۔
Surah Hujurat Tafseer In Urdu pdf
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.