surah naba urdu translation

Surah Naba Urdu Translation, Surah Naba PDF

Surah Naba pdf

Surah Naba With Urdu Translation pdf

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ ﴿1﴾

یہ (کافر) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟

 عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ ﴿2﴾

اس زبردست واقعے کے بارے میں

الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ ﴿3﴾

جس میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں۔

 كَلَّا سَيَعْلَمُونَ ﴿4﴾

خبردار! انھیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔

 ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ ﴿5﴾

دوبارہ خبردار ! انھیں بہت جل پتہ لگ جائے گا۔

 أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا ﴿6﴾

کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا ؟

 وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا ﴿7﴾

اور پہاڑوں کو (زمین میں گڑی ہوئی) میخیں ؟

وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا ﴿8﴾

اور تمہیں (مرد و عورت کے) جوڑوں کی شکل میں ہم نے پیدا کیا۔

 وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا ﴿9﴾

اور تمہاری نیند کو تھکن دور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا۔

 وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا ﴿10﴾

اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا۔

 وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا ﴿11﴾

اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔

 وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ﴿12﴾

اور ہم نے ہی تمہارے اوپر سات مضبوط وجود ( آسمان) تعمیر کیے۔

 وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا ﴿13﴾

اور ہم نے ہی ایک دہکتا ہوا چراغ (سورج) پیدا کیا۔

 وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاءً ثَجَّاجًا ﴿14﴾

اور ہم نے ہی بھرے ہوئے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔

 لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا ﴿15﴾

تاکہ اس سے غلہ اور دوسری سبزیاں بھی اگائیں۔

 وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا ﴿16﴾

اور گھنے باغات بھی۔

 إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا ﴿17﴾

یقین جانو فیصلے کا دن ایک متعین وقت ہے۔

يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا ﴿18﴾

وہ دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب فوج در فوج چلے آؤ گے۔

 وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا ﴿19﴾

اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس کے دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔

 وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا ﴿20﴾

اور پہاڑوں کو چلایا جائے گا تو وہ ریت کے سراب کی شکل اختیار کرلیں گے۔

 إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا ﴿21﴾

یقین جانو جہنم گھات لگائے بیٹھی ہے۔

 لِلطَّاغِينَ مَآبًا ﴿22﴾

وہ سرکشوں کا ٹھکانا ہے۔

 لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا ﴿23﴾

جس میں وہ مدتوں اس طرح رہیں گے۔

 لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا ﴿24﴾

کہ اس میں نہ وہ کسی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے، اور نہ کسی پینے کے قابل چیز کا ہے۔

 إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا ﴿25﴾

سوائے گرم پانی اور پیپ لہو کے۔

 جَزَاءً وِفَاقًا ﴿26﴾

یہ پورا پورا بدلہ ہے

 إِنَّهُمْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ حِسَابًا ﴿27﴾

وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے

 وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا ﴿28﴾

اور انھوں نے ہماری آیتوں کو بڑھ چڑھ کر جھٹلایا تھا۔

 وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا ﴿29﴾

اور ہم نے ہر ہر چیز کو لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے۔

 فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا ﴿30﴾

اب مزہ چکھو کہ ہم تم پر عذاب ہی بڑھاتے جائٰں گے

إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا ﴿31﴾

بیشک پرہیزگاروں کے لیے کامیابی ہے

حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا ﴿32﴾

یعنی باغ ہیں اور انگور

 وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا ﴿33﴾

اور نوجوان ہم عمر عورتیں ہیں

 وَكَأْسًا دِهَاقًا ﴿34﴾

اور چھلکتے ہوئے جام ہیں

 لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا ﴿35﴾

وہاں یہ لوگ کوئی لغو اور جھوٹی بات نہیں سنیں گے

 جَزَاءً مِنْ رَبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا ﴿36﴾

یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے سلہ ہوگا۔ (اللہ کی) ایسی دین ہوگی جو لوگوں کے اعمال کے حساب سے دی جائے گی۔

 رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَٰنِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا ﴿37﴾

اسی پروردگار کی طرف سے جو سارے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کا مالک، بہت مہربان ہے ! کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے سامنے بول سکے۔

 يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ﴿38﴾

جس دن ساری روحیں اور فرشتے قطاریں بنا کر کھڑے ہوں گے ، اس دن سوائے اس کے کوئی نہیں بول سکے گا۔ جسے خدائے رحمن نے اجازت دی ہو، اور وہ بات بھی ٹھیک کہے۔

 ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ مَآبًا ﴿39﴾

وہ دن ہے جو برحق ہے۔ اب جو چاہے وہ اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانا بنا رکھے۔

 إِنَّا أَنْذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا ﴿40﴾

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسے عذاب سے خبردار کردیا ہے جو قریب آنے والا ہے جس دن ہر شخص وہ اعمال آنکھوں سے دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھے ہیں، اور کافر یہ کہے گا کہ کاش ! میں مٹی ہوجاتا۔

”عم یستاء لون“ کی لفظی تحقیق

”عم“ یہ لفظ اصل میں ”عن ما“ تھا ”ن“ اور ”م“ قریب المخرج ہیں، اس لیے ”ن“ کا ”م“ میں ادغام کردیا گیا تو یہ ”عما“ ہوگیا، پھر کثرت استعمال کی وجہ سے اس میں تخفیف میں کی گئی اور اس کے آخر میں الف کو حذف کردیا گیا تو یہ ” عم “ ہوگیا جیسے ” لم، بم “ اور ” فیم “ میں تخفیف کی وجہ سے ان الفاظ کے اخیر میں الف کو حذف کیا گیا ہے، کیونکہ الفاظ بھی اصل میں ” لما، بما “ اور ” فیما “ تھے۔

کلام عرب میں لفظ ”ما “ کسی مجہول چیز کی ماہیت اور حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے ذکر کیا جاتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے: ”ما الروح “ روح کی حقیقت کیا ہے؟ اور ”ما الجن“ جن کی حقیقت کیا ہے ؟ پھر جس عظیم چیز کی ماہیت اور حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے کفار ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے، اس کی حقیقت اور اس کی صفات کا ادراک کرنے سے ان کی عقل عاجز تھی، اس لیے اس عظیم چیز کی ذات اور صفات ان کے نزدیک مجہول تھیں، اس لیے انھوں نے لفظ ” ما “ سے سوال کیا کہ وہ کیا چیز ہے ؟ اور اس کی کیا صفات ہیں ؟ اور اس پر لفظ ” ما “ کا دخول اس چیز کے مرتبہ کے بلند ہونے اور اس چیز کے عظیم ہونے کی دلیل ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے : وَمَآ اَدْرٰ کَ مَا سِجِّیْنٌ۔ (المطففین : ٨) آپ کو کیا معلوم کہ سجین کیا ہے ؟۔

جس عظیم خبر کے متعلق کفار سوال کرتے تھے وہ کس چیز کی خبر تھی ؟

 آیا قرآن کی یا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی یا قیامت کی، ان تینوں احتمالات کی طرف مفسرین گئے ہیں، پہلا قول یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کی خبر ہے۔

(١) امام ابو جعفر محمد بن جریری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: مجاہد نے کہا : ” النبا العظیم “ سے مراد قرآن مجید ہے۔ ( جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧٨٩٠)

اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔ ( النبا : ٣)

اور قرآن مجید کے متعلق کفار مکہ اختلاف کر رہے تھے، بعض کہتے تھے کہ قرآن مجید جادو ہے، اور بعض کہتے تھے کہ وہ شعر ہے اور بعض کہتے تھے کہ وہ ” اساطیر الاولین “ ہے یعنی پچھلی قوموں کے افسانے ہیں اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قیامت کے انکار پر وہ متفق تھے، نیز النبا : ٢ میں فرمایا : وہ عظیم خبر کے متعلق سوال کرتے تھے، اور خبر کا مصداق صرف قرآن مجید ہے، اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت خبر نہیں ہے بلکہ آپ کی نبوت کی خبر دی گئی ہے، اسی طرح قیامت بھی خبر نہیں ہے بلکہ قیامت کے آنے کی خبر دی گئی ہے۔

 (٢) دوسراقول یہ ہے کہ اس سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی خبر ہے۔

علامہ عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی الحنبلی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :

زجاج نے کہا ہے : اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ اور آپ کا دعویٰ نبوت مراد ہے۔ ( زاد المسیرج ٩ ص ٤، مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا گیا تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے : یہ کیا نیا پیغام لائے ہیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : یہ کس چیز کے متعلق سوال کر رہے ہیں ؟ کیونکہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجنے پر وہ بہت تعجب کر رہے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  ۔ ۔۔ (ق : ٢) بلکہ ان کو اس پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا، پس کافروں نے کہا : یہ تو بہت عجیب بات ہے۔

نیز جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو توحید کا پیغام سنایا تو ان کو اس پر بھی بہت تعجب ہوا، قرآن مجید نے ان کا قول نقل فرمایا ہے : اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًاج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ۔ (ص : ٥)

کیا اس نے اتنے بہت معبودوں کو ایک مستحق عبادت بنادیا ہے ؟ بیشک یہ بہت تعجب کی بات ہے۔

پس مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے متعلق تعجب کا اظہار کرتے تھے اور اس کے متعلق ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ لوگ کس چیز کے متعلق ایک دوسرے سے سوال کررہے ہیں ؟۔ عظیم خبر کے متعلق۔ جس میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ان کا اختلاف یہ تھا کہ بعض آپ کو شاعر کہتے تھے، بعض مجنون کہتے تھے اور بعض ساحر کہتے تھے۔

(٣) اس کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ وہ قیامت اور لوگوں کو دوبارہ زندہ ہونے کے متعلق سوال کرتے تھے۔

امام محمد بن جعفر محمد بن جریری طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : قتادہ نے ” النبا العظیم کی تفسیر میں کہا : اسے مراد مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧٨٩١)

ابن زید نے اس آیت کی تفسیر میں کہا: اس خبر سے مراد قیامت کا دن ہے، کفار نے کہا: اس دن کے متعلق تم يہ زعم کرتے ہو کہ ہم اور ہمارے آباء کو اس دن میں زندہ کیا جائے گا اور ان کا اس میں اختلاف تھا اور وہ اس پر ایمان نہیں لاتے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے بتایا : بلکہ وہ عظیم خبر ہے جس سے تم اعراض کرتے ہو، وہ قیامت کا دن ہے جس پر تم ایمان نہیں لاتے۔

قتادہ نے کہا: موت کے بعد زندہ کیے جانے میں ان کے دو فرقے تھے : بعض تصدیق کرتے تھے، اور بعض تکذیب کرتے تھے۔ ( جامع البیان جز ٢٩ ص ٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

”کلا“ کا لفظی اور مرادی معنی

”کلا“ کے الفاظ کو اس لیے وضع کیا گیا ہے کہ جو چیز پہلے مذکور ہے اس کا نہ کیا جائے، یعنی واقع اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ کفار اور مشرکین کہتے ہیں کہ یہ خبر عظیم باطل ہے، وہ حیات بعد الموت کو باطل کہتے ہیں، ہرگز نہیں ! حیات بعد الموت باطل نہیں ہے، ان کو جب عنقریب ان کی موت کے بعددوبارہ زندہ کیا جائے گا تو وہ اس کو عین الیقین کے ساتھ جان لیں گے، پھر ہرگز نہیں ! ان کو جب دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو وہ اس کو حق الیقین کے ساتھ جان لیں گے۔

عین الیقین کا معنی ہے : کسی چیز کا مشاہدہ سے علم ہونا، اور حق الیقین کا معنی ہے : کسی چیز کا تجربہ سے یقین ہونا، جب مشرکین قبروں سے نکلیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ لوگ قبروں سے زندہ ہو کر نکل رہے ہیں تو ان کو حیات بعد الموت پر علم الیقین ہوگا، پھر جب وہ اس پر توجہ کریں گے کہ وہ خود بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں تو ان کو حیات بعد الموت پر حق الیقین ہوجائے گا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”کلا“ کا لفظ ” حقا “ کے معنی میں ہے یعنی یقینا یہ عنقریب جان لیں گے۔ پھر یقینا یہ عنقریب جان لیں گے۔ اور یہ جو فرمایا ہے : یہ عنقریب جان لیں گے، اس میں ان کے لیے وعید اور عذاب کی دھمکی ہے کہ یہ جس چیز کے متعلق ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں اور جس چیز کا مذاق اڑا رہے ہیں، وہ برحق ہے، اس کو کوئی ٹالنے والا یا مسترد کرنے والا نہیں ہے اور لاریب وہ چیز ضرور واقع ہوگی اور دوبارہ جو اس جملہ کا ذکر کیا ہے، اس میں یہ بتایا ہے کہ دوسری دھمکی پہلی دھمکی سے زیادہ شدید ہے۔

”کلا سیعلمون“ کو دوبارذکر کرنے کے فوائد

اس جملہ کو جو دو بار ذکر فرمایا ہے، اس کی مفسرین نے حسب ذیل توجیہات کی ہیں :

(١) پہلی آیت کا تعلق کفار سے ہے اور دوسری آیت کا تعلق مؤمنین سے ہے، یعنی عنقریب کفار کو اس عظیم خبر کی تکذیب کا نتیجہ ملعوم ہوجائے گا اور عنقریب مؤمنین کو اس عظیم خبر کی تصدیق کا انجام اور اس کی جزاء کا علم ہوجائے گا۔

(٢) پہلے جملہ کا معنی یہ ہے کہ عنقریب کفار میدان حشر کا مشاہدہ کرلیں گے اور دوسرے جملہ کا معنی ہے : عنقریب کفار اس تکذیب کے عذاب کا مشاہدہ کرلیں گے۔

(٣) پہلے جملہ کا معنی ہے : عنقریب کفار کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کرنے والا ہے اور دوسرے جملہ کا معنی ہے : عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کا یہ گمان اور وہم صحیح نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ انھیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔

(٤) پہلے جملہ میں جو وعید ہے، اس کا تعلق دنیا کی وعید سے ہے جیسے کفار مکہ کو جنگ بدر میں شکست اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدمی قید ہوئے اور دوسرے جملہ میں جو وعید ہے اس کا تعلق آخرت کی سزا سے ہے۔

(٥) پہلے جملہ میں جو وعید ہے، اس کا تعلق کافروں کی موت، نزع کی سختی اور سکرات الموت سے ہے اور دوسرے جملہ میں وعید کا تعلق دوزخ کی سزا سے ہے۔

(٦) پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی تصدیق نہ کرنے پر عذاب کی وعید ہے اور دوسرے جملہ میں احکام شرعیہ فرعیہ پر عمل نہ کرنے کی بناء پر وعید ہے۔

(٧) پہلے جملہ میں جسمانی عذاب کی وعید ہے جو عذاب ان کو دوزخ میں دیا جائے گا اور دو سرے جملہ میں روحانی عذاب کی وعید ہے جو مؤمنوں پر انعام و اکرام اور ان کی تعظیم و تکریم کو دیکھ کر انھیں ہوگا اور دنیا میں جن کو وہ حقیر سمجھتے تھے، آخرت میں ان کی توقیر دیکھ کر ان کے دل جلیں گے۔

اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا……. وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا (النبا: 7-16)

حیات بعد الموت پر اجمالی شواہد اور دلائل

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا تھا کہ کفار حیات بعد الموت کا اور حشر اجساد کا انکار کرتے ہیں، ان کے انکار کی بنیاد یہ تھی کہ جب انسان مر کر مٹی ہوجائے گا، اور ایک مردہ کی مٹی دوسرے مردے کی مٹی میں مل جائے گی اور تیز ہواؤں اور آندھیوں سے ان کے ذرات دور دراز علاقوں میں پہنچ جائیں گے تو کیسے معلوم ہوگا کہ کونسا ذرہ کس انسان کا ہے اور کونسا ذرہ دوسرے انسان کا ہے ؟ ان کے اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ جس کا علم ناقص ہو وہ ان مختلط ذرات کو باہم ممتاز نہیں کرسکتا اور جس کی قدرت ناقص ہو وہ ان بکھرے ہوئے ذرات کو جوڑ کر پھر ویسا ہی انسان بنا کر کھڑا نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ کا علم بھی کامل ہے اور اس کی قدرت بھی کامل، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور اپنی قدرت کے کمال پر النبا : ١٦۔ ٦ تک شواہد پیش کیے کہ اس نے زمین کو فرش بنایا، اس میں پہاڑوں کی میخیں لگائیں، انسانوں کو پیدا کیا، دن اور رات کا نظام بنایا، سات مضبوط آسمان بنائے، سورج اور بادلوں کو پیدا کیا، زمین سے غلہ اور سبزہ اور گھنے باغات لگائے، کیا جس نے یہ ساری کائنات تخلیق کی ہے وہ تم کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا اور آخرت میں تمہارا محاسبہ نہیں کرسکتا اور نیکو کاروں کو ثواب اور گناہ گاروں کو عذاب نہیں دے سکتا ؟۔

صوفیاء کی اصطلاح میں ”اوتاد“ کا معنی

”اوتاد“ یہ ”وتد“ کی جمع ہے ”وتد“ کا معنی ہے : میخ اور کیل، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنا کر اس میں پہاڑوں کی میخیں لگا دیں تاکہ زمین اپنی جگہ قائم رہے، اس آیت میں پہاڑوں کو میخوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح میخ کو جب کسی چیز میں گاڑ دیا جائے تو وہ اس چیز کو قائم رکھتی ہے، اسی طرح جب پہاڑوں کو زمین میں نصب کردیا گیا تو پہاڑ زمین کو اپنے محور پر قائم رکھتے ہیں اور زمین کو محور سے متجاوز نہیں ہونے دیتے۔

بعض علماء نے کہا ہے کہ ”اوتاد“ حقیقت میں اکابر اولیاء اور اللہ تعالیٰ کے مخصوص اہل صفا ہیں، وہ ان پہاڑوں کی طرح ہیں جن کو زمین میں نصب کیا ہوا ہے، ابو سعید خراز سے یہ سوال کیا گیا کہ اوتاد اور ابدال میں کون افضل ہیں ؟ انھوں نے کہا : اوتاد افضل ہیں، سائل نے سوال کیا : کیسے ؟ ابو سعید خراز نے کہا : کیونکہ ابدال ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹتے رہتے ہیں اور ایک مقام سے دوسرے مقام میں ان کا بدل چھوڑ دیا جاتا ہے اور اوتاو انتہائی بڑے مرتبہ پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، وہ اپنے مقام سے نہیں بنتے اور اپنے مقام پر اس طرح قائم رہتے ہیں جیسے کسی جگہ میخ کو گاڑ دیا گیا ہو اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے مخلوق کا نظام اور اقوام قائم رہتا ہے، ابن عطاء نے کہا : او تادہی اہل استقامت اور اہل صدق ہیں، ان کے احوال متغیر نہیں ہوتے اور وہ مقام تمکین پر فائز ہیں۔ ( روح البیان ج ١٠ ص ٣٤٧، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

”زوج“ کے معنی سے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر استدلال

النبا : ٨ میں فرمایا : اور ہم نے تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا۔

اس آیت میں ”زوج“ کا لفظ ہے، علامہ محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ ”زوج“ کے معنی میں لکھتے ہیں: ”زوج“ شوہر، بیوی، طاق (فرد کے خلاف) یعنی جفت کو کہا جاتا ہے، دو چیزوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ” زوج “ ہیں۔ (القاموس المحیط ص ١٩٢، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)

اس آیت میں ”زوج“ سے یہی آخری معنی مراد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس حال میں پیدا کیا ہے کہ تمہاری دو صفتیں ہیں اور تم دونوں کی وجہ سے نسل انسانی کا فروغ ہو رہا ہے اور زوج کا اطلاق ہر اس چیز پر کیا جاتا ہے جس کی دو مشقیں ہوں، عام ازیں کہ وہ جان دار چیزیں ہوں یا بےجان چیزیں ہوں، جیسے میاں بیوی، جرابیں، موزے اور جوتے وغیرہ، اسی طرح وہ متقابل چیزوں پر بھی زوج کا اطلاق کیا جاتا ہے، جیسے فقر اور غنا، صحت اور مرض، علم اور جہل اور قوت اور ضعف وغیرہ، اسی طرح قبیح اور حسین، طویل القامت اور قصیر القامت وغیرہ اضداد پر بھی زوج کا اطلاق کیا جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور انتہائی حکمت پر واضح دلیل ہے کہ اس نے غنی اور فقیر، صحت مند اور بیمار اور توانا اور کمزورمتضاد صفات کے حامل انسان پیدا کیے تاکہ ان کا امتحان اور آزمائش ہو سکے اور یہ دیکھا جائے کہ غنی اور صحت مند، صحت اور خوش حالی پر شکر کرتا ہے يا نہیں، اور فقیر اور بیمار اپنے فقر اور مرض پر صبر کرتا ہے یا نہیں، کیونکہ انسان بیماری کی حالت میں صحت کی قدر کرتا ہے اور فقر کی حالت میں خوش حالی کی قدر کرتا ہے۔

”نوم“ اور ”سبات“ کے معانی اور نیند کو ”سبات“ فرمانے کی وجوہ

النبا : ٩ میں فرمایا : اور ہم نے تمہاری نیند کو راحت بنایا۔

اس آیت میں دو لفظ ہیں : ”نوم“ اور ”سبات“ علامہ اور راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ ”نوم“ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” نوم “ کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں اور وہ سب صحیح ہیں :

(١) رطب ( تر) بخارات کے دماغ کی طرف چڑھنے کی وجہ سے دماغ کے پٹھوں کا ڈھیلا پڑجانا۔

(٢) اللہ تعالیٰ نفس کو بغیر موت کے وفات دے دے، قرآن مجید میں ہے :

اَ للہ ُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا (الزمر : ٤٣ )

اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض فرماتا ہے اور جن کو موت نہیں آئی ان کی روحوں کو نیند کے وقت قبض فرماتا ہے۔

(٣) نیند خفیف موت ہے اور موت ثقیل نیند ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٦٠، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیند کو ”سبات“ فرمایا یعنی قطع کا ذریعہ اور سبب، سو اس کی علماء نے حسب ذیل توجیہات کی ہیں

(١) زجاج نے کہا : نیند انسان کے اعمال اور اس کی حرکات کے منقطع ہونے کا سبب ہے، اس لیے اس کو ” سبات “ فرمایا۔

(٢) قرآن مجید میں نیند کو موت فرمایا ہے (الزمر : ٤٢) اس لیے بیداری کو حیات اور معاش یعنی روزی کمانے کا ذریعہ فرمایا ہے :

(٣) لیث نے کہا : ” السبات “ ایسی نیند ہے جو بےہوشی کے مشابہ ہے، اگرچہ ہر نیند ایسی نہیں ہوتی لیکن وجہ تسمیہ کے لیے جامع ہونا ضروری نہیں ہے، جیسے پاجامہ کو پاجامہ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ پیروں کا لباس ہے حالانکہ پیروں کا ہر لباس پاجامہ نہیں ہوتا، شلوار، تہ بند اور پتلون بھی پیروں کا لباس ہے، اس لیے اس سے امام رازی کا یہ اعتراض ساقط ہوگیا کہ اگرچہ ” سبات “ بےہوشی کو کہتے ہیں لیکن اس وجہ سے نیند ” کو سبات “ کہنا درست نہیں کیونکہ ہر نیند اتنی گہری نہیں ہوتی کہ وہ بےہوشی کے مشابہ ہو۔

(٤) انسان جب کام کرنے سے تھک جاتا ہے تو کام منقطع کر کے سو جاتا ہے اور یہ نیند اس کی تھکاوٹ کو زائل کردیتی ہے، پس اس تھکاوٹ کے ازالہ کو ” سبات “ اور قطع فرمایا یعنی تھکاوٹ کو قطع کرنا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نیند کو راحت بنادیا۔

(٥) مبرد نے کہا : جب انسان پر نیند کا غلبہ ہو اور انسان اس نیند کو دور کرنے اور منقطع کرنے کی کوشش کرے تو عرب اس کو بھی ” سبات “ کہتے ہیں، اس صورت میں اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمہاری نیند کو خفیف اور ہلکی بنایا ہے تاکہ تمہارے لیے اس نیند کو منقطع کرنا آسان ہو، گویا کہ یوں کہا گیا کہ ہم نے تمہاری نیند کو لطیف نیند بنایا ہے اور اس کو ایسی گہری اور ثقیل نہیں بنایا کیونکہ وہ بیماری ہے، صحت نہیں ہے۔

لباس کا معنی اور رات کو لباس فرمانے اور اس کے نعمت ہونے کی وجوہ

النبا : ١٠ میں فرمایا : اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا۔

اس آیت میں ”لباس“ کا لفظ ہے، علامہ محمد بن ابوبکر رازی حنفی متوفی ٦٦٠ ھ لکھتے ہیں :

”لباس“ کا ایک معنی ہے : اشتباہ، یعنی کسی شخص پر کوئی معاملہ خلط ملط کردینا، قرآن مجید میں ہے : وَلَوْجَعَلْنٰـہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰـہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ۔ ( الانعام : ٩)

اور اگر ہم فرشتہ کو رسول بناتے تو ہم اس کو انسان ہی بناتے اور ہم ان پر اسی چیز کا التباس اور اشتباہ ڈال دیتے جس کا التباس اور اشتباہ انھیں اب ہو رہا ہے۔

اور لباس اس چیز کو کہتے ہیں جس کو پہنا جائے، مرد عورت کا لباس ہے اور عورت مرد کا لباس ہے، قرآن مجید میں ہے :

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُن (البقرہ : ١٨٧) وہ ( بیویاں) تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔

وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ (الاعراف : ٢٦) اور تقویٰ کا لباس یہی زیادہ بہتر ہے۔

تقویٰ کے لباس سے مراد حیا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف سے یا عذاب کے ڈر سے فحش کاموں اور دیگر برائیوں کو ترک کردینا) ۔ (مختار الصحاح ص ٣٤٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

ہر وہ چیز جو انسان کی قبیح چیزوں کو ڈھانپ لے، اس کو لباس کہتے ہیں، شوہر بیوی کا لباس ہے کیونکہ بیوی کی ضروریات اور اس کی خواہش کو پورا کرنے کی وجہ سے وہ بیوی کو فحش اور غلط کاموں کے ارتکاب سے روکتا ہے، اسی طرح بیوی شوہر کا لباس ہے کیونکہ اس کی خدمت اور اس کی خواہش پوری کرنے کی وجہ سے وہ شوہر کو غلط راہوں پر جانے سے روکتی ہے۔

قفال نے کہا : اصل میں لباس ڈھانپنے کی چیز کو کہتے ہیں اور چونکہ رات اپنی ظلمت اور اندھیرے کی وجہ سے لوگوں کو ڈھانپ لیتی ہے، اس لیے رات کو لباس فرمایا ہے، اور رات انسان کے حق میں اس لیے نعمت ہے کہ جب انسان اپنے دشمن سے چھپنا چاہے تو رات اس کے لیے ساتر ہوتی ہے اور جس طرح لباس کی وجہ سے انسان کا جمال زیاد اور کامل ہوتا ہے اور لباس کی وجہ سے وہ سردی اور گرمی کے ضرر کو دور کرتا ہے، اسی طرح رات کی نیند کی وجہ سے انسان کا حسن و جمال زیادہ ہوجاتا ہے، اس کی تھکاوٹ کے زائل ہونے کی وجہ سے اس کے چہرے سے اضمحلال دور ہوجاتا ہے اور وہ تر و تازہ اور شاداب ہوجاتا ہے اور اس کے دماغ سے تفکرات کا ہجوم نکل جاتا ہے اور وہ پر سکون ہوجاتا ہے۔

”معاش“ کا معنی اور اس کے نعمت ہونے کی توجیہ

النبا ١٩ میں فرمایا : اور ہم نے دن کو روزی کمانے کا وقت بنایا۔

اس آیت میں ” معانی “ کا لفظ ہے ” معاش “ ” عیش “ سے بنا ہے ” عیش کے معنی ہے : وہ حیات جو جان داروں کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ مطلقاً حیات کا لفظ تو حیوان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اسی لفظ سے معیشت بنا ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٥٨ )

دن کو معاش فرمایا یعنی زندگی گزارنے کا وقت ہے، اس وقت میں تم کو نیند سے بیدار کیا جاتا ہے اور نیند موت کی بہن ہے گویا اس وقت میں ہاتھ سر نوزرہ کیا جاتا ہے، اس وجہ سے دن کا معاش ہونا بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔

علامہ علاؤ الدولہ محمد بن احمد سمنانی متوفی ٦٥٩ ھ ان آیتوں کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

کیا ہم نے بشریت کی زمین کو تمہاری استراحت کا پالنا نہیں بنایا، اور بشریت کے منافع کی انواع کے پھیلنے کا ذریعہ نہیں بنایا اور تمہارے نفوس کی شقاوت اور دلوں کی سختیوں کے پہاڑوں کو بشریت کی سر زمین کے قیام کے ستون اور پائے نہیں بنایا اور تم کو جوڑے جوڑے بنایا، روح کا جوڑا اور نفس کا جوڑا یا دل کو مذکر اور نفس کو مونث بنایا اور تمہاری نیند کی غفلت کو راحت بنایا تاکہ تم لذتوں اور شہوتوں کو پوری پوری حاصل کر کے استراحت کرسکو اور تمہاری طبیعتوں کی رات کو تمہاری دن کی روحانیت کے لیے پردہ بنایا اور تمہارے دن کی روحانیت کو معاش بنایا، جس میں تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرسکو۔ (مخطوطہ تکملہ التاویلات النجمیہ بہ حوالہ روح البیان ج ١٠ ص ٢٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

لفظ ”بنینا “ لانے کی حکمت

النبا : ١٢ میں فرمایا : اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے۔

” شداد “ کا لفظ ” شدیدۃ “ کی جمع ہے یعنی جس کی تخلیق مضبوط اور محکم ہو اور وقت کے گزرنے سے اس میں کوئی تغیر نہ ہو سکے اور اس میں نہ کوئی ٹوٹ پھوٹ ہو سکے اور نہ اس میں کوئی شکایت پڑ سکے، اس کی نظریہ آیت ہے : وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا (الانبیاء : ٣٢) اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنادیا ہے۔

اس آیت میں ” بنینا “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : ہم نے بنیاد رکھی اور بنیاد مکان کے نیچے ہوتی ہے اور چھت اوپر ہوتی ہے تو چھت بنانے کے لیے لفظ ” بنینا “ کو لانے کی کیا حکمت ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بنیاد ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہوتی ہے، جب کہ چھت میں ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ ہوتا ہے، تو ” بنینا “ کا لفظ لا کر یہ ظاہر فرمایا ہے کہ یہ چھت کی بنیاد کی طرح مضبوط ہے اور ٹوٹ پھوٹ کے خطرہ سے محفوظ ہے۔

بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ جس طرح آسمان سات ہیں، اسی طرح قلب کے بھی سات طبقات ہیں : (١) طبقۃ الصدور اور یہ جوہر اسلام کا معدن ہے (٢) طبقۃ القلب اور یہ جوہر ایمان کا محل ہے (٣) الشفاف، یہ عشق، محبت اور شفقت کا معدن ہے (٤) الفواد، یہ مکاشفہ اور مشاہدہ کا معدن ہے (٥) حبۃ القلب، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ مخصوص ہے، اس طبقہ میں دونوں جہان میں سے کسی کی محبت نہیں ہوتی (٦) السویدا، یہ علم لدنی کا معدن ہے اور بیت الحکمۃ ہے (٧) بت المعزۃ، یہ اکملین کا قلب ہے، اس بیت میں اسرار الٰہیہ ہیں، یہ باطن سے ظاہر کی طرف بالکل نہیں نکلتے اور نہ کبھی ان کا کوئی اثر ظاہرہوتا ہے۔ ( روح البیان ج ١٠ ص ٣٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

”وھاج“  کے معانی

النبا : ١٣ میں فرمایا : اور ہم نے سورج کو چمکتا ہوا چراغ بنایا۔

اس آیت میں ”وھاج“ کا لفظ ہے، یہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ ”وھج“ سے بنا ہے ”وھج“ کا معنی ہے : روشن ہونا، چمکنا اور بھڑکنا، سو اس کا معنی ہے : بہت زیادہ روشن۔

بعض علماء نے کہا : الوھج “ کا معنی ہے : ” مجمع النور والحرارۃ “ گویا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ سورج انتہائی درجہ کا روشن اور انتہائی درجہ کا گرم ہے، کلبی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ” الوھاج “ صرف نور کا مبالغہ ہے، اور الخلیل کی کتاب میں لکھا ہے کہ ” الوھج “ آگ اور سورج کی گرمی ہے۔

اس کا تقاضا ہے کہ ”الوھاج“ حرارت کا مبالغہ ہو یعنی انتہائی گرم اور روشن۔

النبا : ١٤ میں فرمایا : اور ہم نے برسنے والے بادلوں سے زور در بارش نازل کی۔

اس آیت میں ” المعصرات “ کا لفظ ہے، اس کا واحد ” المعصرۃ “ ہے، اس کا لغوی معنی ہے : نچوڑنے والی، یعنی بادلوں کو نچوڑنے والی ہوائیں۔

” المعصرات “ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے دو روایتیں ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو چیر دیتی ہیں، اور دوسری روایت یہ ہے کہ اس سے مراد بادل ہیں۔

مجاہد، مقاتل، کلبی اور قتادہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت کیا ہے کہ ” المعصرات “ سے مراد وہ تند و تیز ہوائیں ہیں جو بادلوں کو چیر دیتی ہیں، قرآن مجید میں ہے :

 اللہ ُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰـحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا (الروم : ٤٨) اللہ ہوائیں چلاتا ہے جو بادل کو اٹھاتی ہیں۔

ابو العالیہ، الربیع اور الضحاک نے کہا : ”المعصرات“ سے مراد بادل ہیں اور انھوں نے بادلوں کو ” المعصرات “ کہنے کی حسب ذیل وجوہ بیان کی ہیں :

(١) المؤرج نے کہا : لغت قریش میں ” المعصرات “ کا معنی بادل ہے۔

(٢) المازنی نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ ” المعصرات “ ہی بادل ہوں، جو نچڑتے ہیں کیونکہ جب نچوڑنے والی چیزیں بادلوں کو نچوڑتی ہیں تو ان سے پانی برستا ہے اور بارش ہوتی ہے۔

(٣) ” المعصرات “ سے مراد وہ بادل ہیں جو نچڑنے کے قریب ہوتے ہیں کیونکہ جب ہوائیں ان بادلوں کو نچوڑتی ہیں تو وہ برسنے لگتے ہیں، جس طرح جب فصل کٹنے کے قریب ہو تو کہا جاتا ہے فصل کٹ گئی، اس طرح جب لڑکی کے حیض آنے کا وقت قریب ہو تو کہا جاتا ہے : لڑکی نچڑ گئی۔

نیز اس آیت میں مذکور ہے : ” ماء ً ثجاجاً “۔ ” ثجاج“ کا معنی ہے : زور و شور کے ساتھ برسنے والا، اس کا منی ہے : پانی برسنا اور بہنا ” ثج “ کا مصدر لازم بھی ہوتا ہے اور متعدی بھی ہوتا ہے، گویا اس کا معنی بہنا بھی ہے اور بہانا بھی ہے، حدیث میں بھی ” الثج “ کا لفظ ہے :

جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کونسا حج افضل ہے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” أفضل الحج العج والثج “ یعنی سب سے افضل حج وہ ہے جس میں بلند آواز سے تلبیہ کہا جائے اور قربانی کے جانوروں کا خون بہایا جائے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٨٢٧، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٧٩٧)

حیات بعد الموت پر دلائل اور شواہد کا خلاصہ ہے

النبا : ١٧ میں فرمایا : بیشک فیصلہ کا دن مقرر شدہ وقت ہے۔

اس سورت کے شروع میں عظیم خبر کا ذکر فرمایا تھا اور اس سے مراد حیات بعد الموت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے النبا : ٦ سے النبا : ٦ ١ تک حیات بعد الموت پر دس آیتوں میں دس دلائل پیش فرمائے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو میخیں بنایا اور لوگوں کو جوڑا جوڑا پیدا کیا، نیند کو راحت، رات کو پردہ پوش اور دن کو معاش بنایا۔ الخ۔

اور ان دس چیزوں کو پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو اس ساری کائنات کا علم ہے اور وہ ان کی تخلیق پر قاد رہے، پس وہ عالم اور قادر ہے اور واجب ہے کیونکہ ممکن تو خود اپنی تخلیق میں مختاج ہے اور جب وہ واجب ہے تو ضروری ہے کہ وہ واحد ہو، کیونکہ تعدد و جبا محال ہے اور جب وہ اس تمام کائنات کو ابتداء ً پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ اس کائنات کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔

اس آیت میں جو فرمایا ہے : بیشک فیصلہ کا دن مقرر شدہ وقت ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ دن اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ہے، اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ایک دن مقرر فرمایا ہے جس میں قیامت قائم ہوگی، اس دن تمام لوگ ختم ہوجائیں گے اور ان کے اعمال بھی منقطع ہوجائیں گے، پھر ایک اور دن مقرر فرما دیا ہے جس میں صور پھونکا جائے گا تو تمام مردہ لوگ زندہ ہوجائیں گے اور جو بےہوش تھے وہ ہوش میں آجائیں گے، پھر سب لوگوں کو جمع کر کے ان کا حساب لیا جائے گا، نیکوں کو ثواب دیا جائے گا اور بدکاروں کو عذاب دیا جائے گا۔

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا

حشر کے دن لوگوں کے فوج در فوج آنے کے متعلق ایک روایت کی تحقیق

صور سے مراد سینگھ کی شکل کی ایک چیز ہے جس کو بگل کہتے ہیں، اس میں پھونک مارنے سے بہت ہیبت ناک آواز نکلے گی، صور کی پوری تفصیل ( الزمر : ٦٨) میں بیان کی جا چکی ہے۔

جس جگہ میدان حشر قائم کیا جائے گا، تمام مردے اپنی اپنی قبروں سے نکل کر وہاں فوج در فوج پہنچیں گے، عطاء نے کہا : ہر نبی اپنی امت کے ساتھ آئے گا، جیسا کہ اس آیت میں ہے :

یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍم بِاِمَامِہِمْ (بنی اسرائیل : ٧١) جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے بغیر سند کے ایک حدیث ذکر کی ہے اور وہ یہ ہے :

حضرت معاذ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے متعلق سوال کیا، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے معاذ ! تم نے بہت بڑی چیز کے متعلق سوال کیا ہے، پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، پھر فرمایا : میری امت سے دس قسم کے لوگوں کا حشر کیا جائے گا، بعض بندروں کی صورتوں میں ہوں گے ، بعض خزیروں کی صورتوں میں ہوں گے ، بعض منہ کے بل اوندھے گھسٹ گھسٹ کر آ رہے ہوں گے ، بعض اندھے ہوں گے ، بعض بہرے اور گونگے ہوں گے ، بعض لوگوں کی زبانیں ان کے سینوں تک لٹکی ہوئی گی، ان کے مونہوں سے قے بہ رہی ہوگی، جس سے تمام اہل محشر کو گھن آرہی ہوگی، بعض لوگوں کے ہاتھ اور پیر کٹے ہوئے ہوں گے ، بعض لوگ آگ کے درختوں کے تنوں پر سولی پر چڑھے ہوئے ہوں گے ، بعض لوگوں سے مردار سے زیادہ بری بد بوآ رہی ہوگی، بعض لوگ تیل کے جبے پہنے ہوئے ہوں گے جو ان کے بدن سے چپکے ہوئے ہوں گے ۔

رہے وہ لوگ جو بندروں کی صورتوں پر ہوں گے وہ چغل خور ہوں گے ، اور جو لوگ خزیروں کی صورتوں پر ہوں گے وہ حرام کھانے والے ہوں گے ، اور جو لوگ منہ کے بل چل رہے ہوں گے وہ سود کھانے والے ہوں گے ، اور جو لوگ اندھے ہوں گے وہ ظالمانہ فیصلے کرنے والے ہوں گے ، اور جو بہرے اور گونگے ہوں گے وہ اپنے اعمال پر اترانے والے ہوں گے ، اور جن کی زبانیں لٹکی ہوئی ہوں گی یہ وہ علماء اور واعظین ہیں جو اپنے قول کے خلاف عمل کریں گے، اور جن لوگوں کے ہاتھ اور پیر کٹے ہوئے ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کو ستاتے ہیں اور جن کو آگ کے درختوں پر سولی دی ہوئی ہوگی یہ وہ سپاہی ہیں جو لوگوں کو ( ظلماً ) حاکم کے پاس لے جائیں گے، اور جن سے مردار سے زیادہ سخت بدبو آرہی ہوگی یہ وہ ہیں جو اپنی لذتوں اور شہوتوں کی اتباع کریں گے اور اپنے مالوں میں سے اللہ کے حقوق ادا نہیں کریں گے اور جو لوگ تیل کے جبے پہنے ہوئے ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو فخر اور تکبر کرنے والے ہیں۔ ( الکشف والبیان ج ٠ ١ ص ١١٥، الکشاف ج ٤ ص ٦٨٧، تفسیر کبیر ج ١١ ص ٣١۔ ١٢، الجامع الاحکام القرآن جز ١٩ ص ١٥٣۔ ١٥٢، الدرا المنثور ج ٨ ص ٣٦١، روح البیان ج ١٠ ص، ٣٥٣، روح المعانی جز ٢٩ ص ٢٠۔ ١٩)

حافظ ابن حجرعسقلانی نے کہا : اس حدیث کو امام ابن مردویہ اور امام ثعلبی نے بیان کیا ہے، اس کو محمد بن زہیر از محمد بن ہندی از حنظلہ سدوسی از والد خوداز براء بن عازب روایت کیا ہے، اس کی سند میں حنظلہ سدوسی بہت ضعیف ہے، امام احمد نے کہا : وہ منکر الحدیث ہے اور بہت عجیب چیز روایت کرتا ہے، امام ذہبی نے اس کا میزان میں ذکر کیا ہے اور اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہے۔ ( تخریج الکشاف ج ٤ ص ٦٨٧)

 وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا

آسمان کے دروازوں کا ثبوت

اس آیت کا معنی ہے : فرشتوں کے نزول کے لیے آسمان میں دروازے بن جائیں گے، قرآن مجید میں ہے :

وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآئُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَنْزِیْلًا۔ (الفرقان : ٢٥ ) جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتوں کو لگا تار اتار جائے گا۔

ایک قول یہ ہے کہ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور دروازوں کی مثل ہوجائے گا، ایک قول یہ ہے کہ دروازوں سے مراد آسمان کے راستے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ آسمان بکھر جائے گا اور اس میں درازے بن جائیں گے، ایک قول یہ ہے کہ ہر شخص کے لیے آسمان میں دو دروازے ہیں، ایک دروازے سے اس کے نیک اعمال اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور دوسرے دروازے سے اس کا رزق آسمان سے اترتا ہے، اور جب قیامت قائم ہوگی تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، آسمان کے دروازوں کا اس حدیث میں ذکر ہے :

شب معراج کی حدیث میں ہے : پھر ہم کو آسمان کی طرف لے جایا گیا، حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا : تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا : میں جبرائیل ہوں، کہا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھا گیا : کہا ان کو بلایا گیا ہے ؟ کیا ہاں ! ان کو بلایا گیا ہے، پھر ہمارے لیے دروا زہ کھول دیا گیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٣، السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ٣١٤)

قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں آسمان کے دروازوں کا صراحتہً ذکر ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ (الاعراف : ٤٠ ) جن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان پر ایمان لانے سے تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے درازے نہیں کھولے جائیں گے۔

وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا

قیامت کے دن پہاڑوں کے چھ احوال

اس آیت میں ” سراب “ کا لفظ ہے، شدید گرمی میں دوپہر کے وقت دھوپ کی تیزی سے ریگستان میں جو ریت پانی کی طرح چمکتی ہوئی نظر آتی ہے اور دور سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پانی بہ رہا ہے اور درختوں کا عکس اس میں دکھائی دے رہا ہے اس کو سراب کہتے ہیں کیونکہ اس چمکتی ہوئی ریت پر نظر پڑنے سے پانی کا دھوکا ہوجاتا ہے، اس لیے دھوکے اور فریب کے لیے سراب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

اور اس آیت میں ” سیرت “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینا یا کسی چیز کو اپنی جگہ سے ہٹا دینا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پہاڑوں کے حسب ذیل احوال ذکر فرمائے ہیں :

(١) پہلا حال یہ ہے کہ پہاڑوں پر ایک ضرب لگا کر ان کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا اور اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے گا :

وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً ۔ (الحاقہ : ١٤) اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا لیا جائے گا اور ان کو ایک ضرب سے توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔

(٢) دوسرا حال یہ ہے کہ پہاڑ دھنی ہوئی رنگین اون کی طرح اڑ رہے ہوں گے : وَ تَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ ۔ (القارعہ : ٥) اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے۔

(٣) تیسرا حال یہ ہے کہ پہاڑ بکھرے ہوئے ذرات کے غبار کی طرح ہوجائیں گے : وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۔ فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا۔ (الواقعہ : ٥۔ ٦)

اور پہاڑ ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے۔ پھر وہ بکھرے ہوئے غبار کی طرح ہوجائیں گے۔

(٤) چوتھاحال یہ ہے کہ پہاڑوں کو دھنک دیا جائے گا کیونکہ پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے اور ریزہ ریزہ ہو کر زمین کے مختلف حصوں میں پڑے ہوں گے ، پھر اللہ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعہ ان کو دھنک ڈالے گا : وَ یَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَـنْسِفُھَا رَبِّی نَسْفًا۔ (طہٰ : ١٠٥)

وہ آپ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں، سو آپ کہیے کہ میرا رب ان کو دھنک ڈالے گا ( یعنی ریزہ ریزہ کرے کے اڑا دے گا) ۔

(٥) پانچواں حال یہ ہے کہ جس طرح کسی سوراخ یا روشن دان سے سورج کی شعاعیں نکلتی ہیں اور ان میں روشنی کے باریک ذرات کے غبار دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجے گا تو وہ پہاڑوں کے ذرات کو اڑائیں گی اور وہ شعاعوں میں باریک ذرات کے منتشر غبار کی طرح دکھائی دیں گے : وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً (الکہف : ٤٧ ) اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی حالت میں دیکھو گے۔

وتری الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمر مرا السحاب (النمل : ٨٨)

اور آپ پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتے ہیں کہ یہ اپنی جگہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بھی بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے ۔

(٦) پہاڑوں کا چھٹا حال یہ ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہو کر سراب اور فریب نظر ہوجائیں گے اور حقیقت میں لاشی اور معدوم ہوجائیں گے اور جو شخص پہاڑوں کی جگہ دیکھے گا اس کو کوئی چیز نظر نہیں آئے گی جیسے کسی شخص کو دور سے ریگستان میں چمکتا ہوا پانی نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہاں پانی کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا اور اس حال کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا : وَّ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَکَانَتْ سَرَابًا۔ (النبا : ٢٠) اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب بن جائیں گے۔

قیامت کے دہشت ناک مناظر بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ دوزخ کے ہول ناک احوال بیان فرما رہا ہے۔

اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا

”مرصاد“ کا معنی اور مصداق

دوزخ گھات میں ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ دوزخ منتظر ہے یعنی جب سے دوزخ بنائی گئی ہے، وہ مجرموں کا انتظار کر رہی ہے کہ ان کو کب دوزخ میں ڈالا جائے گا۔

”مرصاد“ کے متعلق دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ ”مرصاد“ اسم ظرف ہے اور یہ اس جگہ کا نام ہے جہاں سے گھات لگائی جاتی ہے، جیسے ” اضمار “ کہا جاتا ہے، اور ” اضمار “اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں گھوڑوں کو  کچھ دن خوب کھلاتے پلاتے ہیں اور بعد میں انھیں کچھ دن بھوکا رکھتے ہیں تاکہ ان کا جسم مضبوط ہوجائے اور مشقت برداشت کرنے کا عادی ہوجائے۔ اس اعتبار سے اس میں دو افعال ہیں، ایک یہ کہ اس سے مرادوہ جگہ ہے جہاں دوزخ کے محافظ مجرموں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں، دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہ جگہ ہے جہاں سے مؤمنین دوزخ کے اوپر سے گزریں گے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے :

وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَا ( مریم : ٧١) تم میں سے ہر شخص دوزخ میں سے گزرے گا۔

پس جنت کے محافظین دوزخ کے پاس مؤمنین کے استقبال کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہوں گے ۔

” مرصاد “ کے متعلق دوسرا قول یہ ہے کہ ” وصد “ کا مبالغہ ہے، ” وصد “ کا معنی ہے : انتظار کرنا اور ” مرصاد “ کا معنی ہے : بہت شدید انتظار کرنا، گویا کہ دوزخ اللہ کے دشمنوں کا بہت شدید انتظار کررہی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظ (الملک : ٨) قریب ہے کہ دوزخ مارے غیظ وغضب کے پھٹ جائے۔

لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا

”أحقاب“ کا معنی دوزخ میں کفار کے خلود اور دوام کے منافی نہیں ہے

اس آیت میں ”احقاباً“ کا لفظ ہے یہ ”حقب“ کی جمع ہے ”حقب“ کا معنی ہے : زمانہ کی ایک مقرر مدت، اس مدت کے تعین میں اہل لغت کا اختلاف ہے، بعض نے کہا : یہ مدت اسی برس ہے، بعض نے کہا : تین سو برس اور بعض نے کہا : تین ہزار برس، قتادہ نے کہا : ” احقاب “ سے مراد ہے : غیر متناہی زمانہ۔

امام رازی نے لکھا ہے کہ ”احقاب“ کی تفسیر میں مفسرین سے حسب ذیل وجوہ منقول ہیں : (١) کلبی اور مقاتل نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ” احقاب “ کا واحد ” حقب “ ہے اور اس کا معنی ہے : اسی اور کچھ سال اور سال تین سو ساٹھ دنوں کا ہوتا ہے اور ایک دن دنیا کے ہزار سالوں کے برابر ہے، حضرت ابن عمر (رض) نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کی روایت کی ہے۔

(٢) ہلال ہجری نے حضرت علی (رض) سے ” احقاب “ کے متعلق سوال کیا تو حضرت علی نے فرمایا : ” احقاب “ کا واحد ” حقب “ ہے، اور اس کا معنی سو سال ہیں، اور ایک سال میں بارہ مہینے ہیں اور ایک مہینہ میں تیس دن ہیں اور ایک دن ایک ہزار سال کا ہے۔

(٣) حسن بصری نے کہا : ” احقاب “ کے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ اس سے کتنی مدت مراد ہے لیکن اس کا واحد ” حقب “ ہے اور اس کی مدت ستر سال ہے اور ہر دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔

اب اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ” احقاب “ خواہ کتنا طویل ہو مگر اس کی مدت ہے تو متناہی اور اہل دوزخ کے عذاب کی مدت غیر متناہی ہے ؟ اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) ” احقاب “ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اہل دوزخ کو کئی ” حقب “ تک عذاب دیا جائے گا، ایک ” حقب “ ختم ہونے کے بعد دوسرا ” حقب “ شروع ہوجائے گا اور یوں ان کو غیر متناہی ” حقب “ تک عذاب ہوتا رہے گا۔ ( تفسیر مجاہد ص ٣١٨، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

(٢) زجاج نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ ” احقاب “ یعنی مدت طویل تک عذاب میں مبتلا رہیں گے، ان کو ٹھنڈک حاصل ہوگی نہ کوئی مشروب، پس ” احقاب “ کی مدت میں انھیں ایک خاص قسم کا عذاب ہوتا رہے گا اور اس مدت میں ان کو پینے کے لیے صرف گرم پانی اور دوزخیوں کی پیپ دی جائے گی، پھر جب اس ” احقاب “ کی مدت گزر جائے گی تو ان کو دوسری قسم کا عذاب دیا جائے گا اور یوں ہر ” احقاب “ کے بعد عذاب کی جنس بدلتی رہے گی اور ان کو غیر متناہی زمانہ تک عذاب ہوتا رہے گا اور کبھی ختم نہیں ہوگا۔

(٣) اگرچہ اس آیت میں مفہوم مخالف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ” احقاب “ کی مدت گزرنے کے بعد اہل دوزخ کا عذاب منقطع ہوجائے گا لیکن اس کے مقابلہ میں صریح قرآن میں یہ مذکور ہے کہ اہل دوزخ کو غیر متناہی زمانہ تک عذاب ہوگا اور صریح دلیل مفہوم مخالف والی دلیل پر مقدم ہوتی ہے اور عذاب ختم نہ ہونے کا صریح ذکر اس آیت میں ہے : یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَاز وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ۔ (المائدہ : ٣٧)  کفار دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کریں گے حالانکہ وہ اس سے نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لیے دوزخ میں دائمی عذاب ہوگا۔

(٤) علامہ زمخشری صاحب کشاف نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ ”حقب“ کے معنی ہیں : بارش کا نہ ہونا اور خیر سے منقطع ہونا، یعنی کفار دوزخ میں اس حال میں رہیں گے کہ وہ خير سے منقطع رہیں گے۔ ( تفسیر کبیر ج ١١ ص ١٦۔ ١٥، داراحیامء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس آیت میں یہ دلیل نہیں ہے کہ کس وقت کفار دوزخ سے نکل جائیں گے اور وہ دوزخ میں خلود اور دوام کے ساتھ نہیں رہیں گے، کیونکہ ہرچند کہ ” احقاب “ کا معنی متناہی زمانہ ہے لیکن دوزخ میں کفار کے لیے ایک ” احقاب “ نہیں ہوگا بلکہ احقاب کثیرہ غیر متناہیہ ہوں گے ، اور اگر بالفرض یہ آیت مفہوم مخالف کے اعتبار سے دوزخ میں کفار کے عدم خلود پر دلالت کرتی ہے تو قرآن مجید کی بہت آیتیں دوزخ میں کفار کے خلود اور دوام پر مفہوم صریح سے دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً یہ آیت ہے : وَمَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَاز وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ۔ (المائدہ : ٣٧) اور کفار دوزخ سے نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لیے اس میں دائمی عذاب ہوگا۔ (روح المعانی جز ٣٠ ص ٢٥۔ ٢٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

بعض علماء کے نزدیک کفار کا عذاب دائمی نہیں ہے

شیخ ابن قیم اور بعض دوسرے فقہاء اسلام نے زیر تفسیر آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار محدود اور متناہی زمانہ تک دوزخ میں رہیں گے، پھر ان کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔ ( شفاء العلیل ص ٢٦٤۔ ٢٥٢، مصر، حاوی الارواح، ج ٢ ص ٢٣٥۔ ١٦٧ )

لیکن ان کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے اور جمہورفقہاء اسلام کے خلاف ہے، ان کے استدلال کا جواب ہم امام رازی اور علامہ آلوسی کی عبارات سے واضح کرچکے ہیں،

لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا  اِلَّا حَمِيْمًا وَّغَسَّاقًا

برد  کی تفسیر

یعنی کفار اور مشرکین بار بار مدتوں تک جس عذاب میں مبتلا رہیں گے، اس میں وہ نہ ٹھنڈک پائیں گے نہ کوئی مشروب، شدید گرمی اور تپش میں رہنے کے باوجود انھیں ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نصیب نہیں ہوگا، اور نہ کوئی سایہ ملے گا جو انھیں دوزخ کی گرمی سے بچا سکے، اور نہ انھیں کوئی مشروب ملے گا جس سے انھیں پیاس میں تسکین حاصل ہو، اور ان کے باطن کی گرمی کو زائل کر دے۔

غساق کا معنی

نیز اس آیت میں ”غساق“ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : ٹھنڈا یخ بدبو دار پانی۔ ( غریب القرآن) دوزخیوں سے بہنے والا لہو۔ ( جلالین، المفردات) حدیث میں ہے کہ اگر ” غساق “ کا ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو تمام دنیا والوں کے دماغ سڑ جائیں۔ ( مجمع بحار الانوار)

علامہ پٹنی نے لکھا ہے: ”غساق“ کا معنی ہے : دوزخیوں کا بہنے والا لہو یا ان کا دھو ون یا آنسو یا زمہر یر کی انتہائی ٹھنڈک۔ ” قاموس “ اور ” تاج العروس“ میں بھی اس کا معنی زمہر یر کی انتہائی ٹھنڈک لکھا ہے۔

امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے ”غساق“ کے حسب ذیل معانی لکھے ہیں :

(١) ابو معاذ نے کہا : ” غساق “ فارسی کا لفظ ہے جس کو عربی بنا لیا ہے، فارس کے لوگ جب کسی چیز سے گھن کھاتے تھے تو اس کو خاشاک کہتے تھے۔

(٢) جس چیز کی ٹھنڈک ناقابل برداشت ہو، اس کو غساق “ کہتے ہیں، زمہر یر بھی اسی کو کہتے ہیں۔

(٣) دوزخیوں کی آنکھوں سے جو آنسو بہیں گے اور ان کی کھالوں سے جو خون اور پیپ بہے گا اور ان کی رگوں سے جو گھناؤنی رطوبات نکلیں گی، اس کو ” غساق “ کہتے ہیں۔

(٤) ” غساق “ کا معنی ہے : سخت بدبو دار چیز، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر ” غساق “ کا ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو تمام بدبو دار ہوجائے۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٨٥٢، مسند احمد ج ٣ ص ٣٨، الترغیب والترہیب ج ٤ ص ٨٧٤، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٨٦٥ )

(٥) ” غاسق “ کا معنی ہے : اندھیری رات کی تاریکی، قرآن مجید میں ہے :

وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۔ (الفلق : ٣) (میں پناہ میں آتا ہوں) اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب وہ پھیل جائے۔

اس اعتبار سے ” غساق “ ایسا مشروب ہے جو سخت سیاہ اور مکروہ ہوگا اور آدمی اس کو دیکھ کر اس طرح گھبرائے گا جس طرح اندھیری رات کی تاریکی کو دیکھ کر گھبراتا ہے۔

ان معانی کے اعتبار سے اس آیت کا معنی ہے کہ دوزخی سخت کھولتے ہوئے پانی کو پئے گا یا بدبو دارپیپ کو پئے گا۔

جَزَاۗءً وِّفَاقًا

اس اعتراض کا جواب کہ ان کی سزا جرم کے کیسے موافق ہوگی جب کہ متناہی زمانہ کے جرم کی سزا غیر متناہی زمانہ تک دی جائے گی

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دوزخیوں کی سزاؤں کی انواع اور اقسام کو بیان فرمایا اور اب یہ بتایا ہے کہ یہ ان کے جرائم کی مکمل سزا ہے، کیونکہ ان کا جرم بہت بڑا تھا، اس لیے ان کو سزا بھی بہت بڑی دی ہے اور یہ سزا ان کے اعمال کے موافق ہے، ہرچند کہ ان کا جرم متناہی زمانہ میں تھا لیکن چونکہ ان کی نیت ہمیشہ کفر اور شرک پر قائم رہنے کی تھی، اس لیے ان کو اتناشدید عذاب غیر متناہی زمانہ تک دیا گیا، اس لیے اب یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ یہ سزا ان کے جرم کے موافق کیسے ہوگی جب کہ ان کا جرم متناہی زمانہ میں تھا اور ان کو سزا غیر متناہی زمانہ میں دی جا رہی ہے، امام رازی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے اور جو چاہے وہ فیصلہ کرتا ہے۔ ( تفسیر کبیر ج ١١ ص ٨١)

اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا

اس سے پہلی آیتوں میں کفار اور مشرکین کے عذاب کی انواع اور اقسام بیان فرمائی تھیں اور ان آیتوں میں متقین کے اجر وثواب کی انواع اور اقسام بیان فرمائی ہیں اور یہی قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ وہ ایک ضد کے بعد اس کی دوسری ضد کا ذکر فرماتا ہے اور کفار اور ان کے عذاب کے بعد مؤمنین اور ان کے ثواب کا ذکر فرما رہا ہے۔

اس آیت میں فرمایا ہے : متقین کے لیے کامیابی کی جگہ ہے، متقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو شرک اور کفر اور تمام کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں اور اگر ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً توبہ کرلیتے ہیں، ان کے لیے کامیابی کی جگہ ہے، اس جگہ سے مراد جنت ہے۔

النبا : ٣٢میں فرمایا : باغات اور انگوروں کی بیلیں ہیں۔

اس آیت میں ”حدائق“ کا لفظ ہے، یہ ”حدیقة“ کی جمع ہے ”حدیقة “ اس باغ کو کہتے ہیں جس کے گرد چار دیواری ہو اور ”أعنابا“ سے مراد ہے : انگوروں کی بیلیں۔

النبا : ٣٣ میں فرمایا : اور نوجوان ہم عمر بیویاں۔

”کو اعب“ ان دو شیزاؤں کو کہتے ہیں جن کے سینے خوب ابھرے ہوئے ہوں اور أتراب “ کا معنی ہے : ہم عمر اور ہم سن۔

النبا : ٣٤ میں فرمایا : اور چھلکتے ہوئے جام ہیں۔

اس آیت میں ” کأسا دھاقا “ کے الفاظ ہیں ”کأسا “ کا معنی ہے : جام اور ”دھاقا “ کا معنی ہے: چھلکتا ہوا، اس سے مراد ہے : شراب کے چھلکتے ہوئے جام لیکن جنت کی شراب نشہ آور نہیں ہوگی۔

يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا    ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا

” روح “ کے مصداق میں اقوال مفسرین

ابو الحجاج مجاہدین حبر القرش المخزومی المتوفی ٤٠١ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : روح اللہ کے امر میں سے ایک امر ہے اور اللہ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بنو آدم کی صورتوں پر بنایا ہے اور آسمان سے جو بھی فرشتہ نازل ہوتا ہے، اس کے ساتھ ایک روح ہوتی ہے۔ ( تفسیر مجاہد ص ٩١٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ٦٢٤١ ھ)

ابو الحسن مقاتل بن سلیمان البلخی المتوفی ٠٥١ ھ روایت کرتے ہیں :

اس روح کا چہرہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے، اس کا نصف آگ ہے اور اس کا نصف برف ہے، وہ یہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب ! جس طرح تو نے اس آگ اور اس برف میں الفت ڈال دی ہے، یہ آگ اس برف کو نہیں پگھلاتی اور نہ یہ برف اس آگ کو بجھاتی ہے، اسی طرح اپنے ایمان والے بندوں کے درمیان الفت ڈال دے تو اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے اس روح کو اختیار کرلیا اور فرمایا : جس دن روح اور اس کے تمام فرشتے کھڑے ہوں گے ۔ ( تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ٣ ص ٤٤٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ٤٢٤١ ھ)

امام ابو منصور محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی حنفی متوفی ٣٣٣ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

روح کی تفسیر میں اختلاف ہے، بعض نے کہا : اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور بعض نے کہا : اس سے مراد مسلمانوں کی روح ہے اور بعض نے کہا : اس سے مراد فرشتوں کے محافظ ہیں، وہ فرشتوں کو دیکھتے ہیں اور لوگ ان کو نہیں دیکھتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روح سے مراد وہ کتابیں ہوں جو آسمان سے نازل کی گئی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ (النحل : ٢) وہ فرشتوں کو اپنے حکم کی وحی ( آسمانی کتاب) دے کر جس پر چاہتا ہے نازل فرماتا ہے۔

پھر یہ آسمانی کتابیں اس شخص سے مناقشہ کریں گی جس نے ان کے حق کو ضائع کردیا، یا جس نے ان کتابوں کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس شخص کے حق میں شفاعت کریں گی جس نے ان کا حق ادا کیا اور ان کے احکام پر عمل کیا اور بعض نے کہا : اس سے مراد وہ مخفی چیز ہے جس کی تفسیر نہیں کی جاسکتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل : ٥٨ ) یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ کہیے : روح میرے رب کے امر سے ہے۔

علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٠٥٤ ھ نے لکھا ہے : اس آیت میں روح کی تفسیر میں آٹھ قول ہیں :

(١) ابو صالح نے کہا : روح انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے اور انسان نہیں ہے اور وہ اللہ سبحانہ کا لشکر ہے۔

(٢) مقاتل بن حیان نے کہا : وہ ملائکہ میں سب سے اشرف ہے۔

(٣) ابن ابی نجیح نے کہا : وہ ملائکہ کے محافظ ہیں۔

(٤) حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : وہ تخلیق کے لحاظ سے سب سے عظیم فرشتہ ہے۔

(٥) سعید بن جبیر نے کہا کہ : وہ حضرت جبر یل (علیہ السلام) ہیں۔

(٦) حسن بصری نے کہا : وہ بنو آدم کی ارواح ہیں، وہ صف باندھے کھڑی ہوں گی اور فرشتے بھی صف باندھے کھڑے ہوں گے ۔

(٧) قتادہ نے کہا : وہ بنو آدم ہیں۔

(٨) زید بن اسلم نے کہا : اس سے مراد قرآن مجید ہے ( النکت والعیون ج ٦ ص ٠٩١، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا

روز قیامت کے حق ہونے کی توجیہ

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس دن سوا حق کے اور کوئی بات نہیں کہی جائے گی اور اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ قیامت کا دن برحق ہے، وہ ضرور واقع ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا : سو اب جو چاہے اپنے رب کی طرف ٹھکانا بنا لے، یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لیے گم راہی اور ہدایت کے دونوں راستے وضاحت سے دکھا دیئے ہیں اور کسی کو ہدایت یا گمراہی اختیار کرنے سے نہیں روکا اور جس نے رشد اور ہدایت کے راستہ کو اختیار کیا اس کا ٹھکانا جنت کی طرف ہے اور یہی راستہ اس کے رب کی طرف ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کا معنی ہے: جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ کرے گا، اس کو ہدایت دے گا حتیٰ کہ وہ اپنے رب کی طرف ٹھکانا بنا لے گا۔ ( تفسیر کبیر ج ١١ ص ٦٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ٥٦٤١ ھ)

عطاء نے کہا : اپنے رب کی اطاعت کر کے اور اس کا قرب حاصل کر کے اپنے رب کی طرف ٹھکانا بناؤ۔ ( جامع البیان رقم الحدیث : ٢١٠٨٢)

وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا

کافر کے قول ” کاش ! میں مٹی ہوجاتا “ کے متعلق روایات

کافر قیامت کے دن زندہ کیے جاناے سے پہلے مٹی تھا، اب جب وہ اپنا انجام دیکھ لے گا تو کہے گا : کاش ! وہ اسی طرح مٹی ہوجاتا اور اب اس کو عذاب نہ دیا جاتا، جیسا کہ ان آیات میں ہے : قیامت کے دن کافر کہے گا :

یٰـلَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ ۔ (الحاقہ : ٧٢) کاش کہ موت ہی میرا کام تمام کردیتی۔

یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُط وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللہ حَدِیْثًا۔ (النساء : ٢٤ ) جس دن کفار اور رسول کی نافرمانی کرنے والے یہ تمنا کریں گے کہ کاش ! انھیں زمین کے ساتھ ہموار کردیا جاتا اور وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے۔

امام ثعلبی متوفی ٧٢٤ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں اور اس کو امام الحسن بن مسعود الفراء البغوی المتوفی ٦١٥ ھ اور علامہ قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ نے بھی ان سے نقل کیا ہے :۔

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں : قیامت کے دن روئے زمین کو پھیلا دیا جائے گا اور تمام جانوروں، حیوانوں اور حشرات الارض کو اکٹھا کیا جائے گا، پھر جانوروں سے قصاص لیا جائے گا، حتیٰ کہ اگر سینگھ والی بکری نے بغیر سینگھ والی بکری کے سینگھ مارا تو اس سے قصاص لیا جائے گا، پھر جب ان کے قصاص سے فراغت ہوجائے گی تو پھر ان سے کہا جائے گا : اب تم مٹی ہو جاؤ، یہ منظر دیکھ کر کافر کہے گا : کاش ! میں بھی مٹی ہوجاتا۔

مقاتل نے کہا : اللہ تعالیٰ و حشی جانوروں کو، حشرات الارض کو اور پرندوں کو جمع فرمائے گا اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا، حتیٰ کہ بغیر سینگھ کی بکری کا سینگھ والی بکری سے قصاص لیا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا : میں نے تم کو پیدا کیا اور تم کو بنو آدم کے لیے مسخر کیا اور تم اپنی پوری زندگی ان کی اطاعت کرتے رہے، اب تم اپنے پہلے حال کی طرف لوٹ جاؤ اور مٹی ہو جاؤ، پس جب کافر ان کی طرف دیکھے گا جو مٹی ہوگئے تو تمنا کرے گا اور یہ کہے گا : کاش ! میں دنیا میں خنزیر کی صورت میں ہوتا اور آج مٹی ہوجاتا۔

ابو الزناد عبداللہ بن ذکوان بیان کرتے ہیں : جب اللہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ فرمادے گا اور اہل جنت کو جنت میں جانے کا حکم دے گا اور اہل دوزخ کو دوزخ میں جانے کا حکم دے گا تو اس وقت سب جانوروں سے اور مؤمنین جنات سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جاؤ، پھر وہ سب مٹی ہوجائیں گے، اس وقت کافر کہے گا : کاش ! میں مٹی ہوجاتا۔

ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں کافر سے مراد ابلیس ہے کیونکہ اس نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی مذمت کی تھی کہ ان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس پر فخر کیا تھا کہ اس کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے، پس جب وہ قیامت کے دن یہ دیکھے گا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں سے مؤمنوں کو کس قدر ثواب عطاء کیا جا رہا ہے اور وہ کس قدر سختی اور عذاب میں ہے تو ابلیس کہے گا : کاش ! میں مٹی ہوتا۔ ( الکشف والبیان ج ٠١ ص ١٢١۔ ٠٢١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ٢٢٤١ ھ، معالم التنزیل ج ٥ ص ٣٠٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ٠٢٤١ ھ الجامع الاحکام القرآن جز ٩١ ص ٤٦١۔ ٣٦١ )

جنات جنت ميں جائيں گے يا جہنم ميں؟

کافر جنات کے جہنم جانے کے بارے میں اہلِ علم کا اتفاق ہے، کیوں کہ قرآنِ پاک کی کئی آیات میں کافر و مشرک جنات کے جہنم میں جانے اور عذاب دیے جانے کا ذکر موجود ہے، البتہ نیک جنات جنت میں جائیں گے یا نہیں؟ اس بارے میں محققین علماء کے چار اقوال ہیں:

(1) جمہور کا قول یہ ہے کہ جنت میں جائیں گے۔ (2) جنت میں نہیں جائیں گے، البتہ جنت کے مضافات میں ہوں گے، اہلِ جنت تو ان کو دیکھ سکیں گے، لیکن وہ اہلِ جنت کو نہیں دیکھ سکیں گے۔(3) جنت اور جہنم کے درمیان مقامِ اعراف میں ہوں گے۔ (4) اس بارے میں توقف کیا جائے۔

آكام المرجان في أحكام الجان (ص: 91):

“اتّفق الْعلمَاء على أَن كَافِر الْجِنّ معذب فِي الْآخِرَة كَمَا ذكر الله تَعَالَى فِي كِتَابه الْعَزِيز كَقَوْلِه تَعَالَى: {فَالنَّار مثوى لَهُم} وَقَوله تَعَالَى: {وَأما القاسطون فَكَانُوا لِجَهَنَّم حطبًا} وَالله أعلم …

الْبَاب الرَّابِع وَالْعشْرُونَ فِي دُخُول مؤمنيهم الْجنَّة: اخْتلف الْعلمَاء فِي مؤمني الْجِنّ هَل يدْخلُونَ الْجنَّة على أَرْبَعَة أَقْوَال:

أحدها: أَنهم يدْخلُونَ الْجنَّة وَعَلِيهِ جُمْهُور الْعلمَاء، وَحَكَاهُ ابْن حزم فِي الْملَل عَن أبن أبي ليلى وَأبي يُوسُف وَجُمْهُور النَّاس، قَالَ: وَبِه نقُول …

القَوْل الثَّانِي: أَنهم لَايدْخلُونَهَا بل يكونُونَ فِي ربضها، يراهم الْإِنْس من حَيْثُ لَايرونهم، وَهَذَا القَوْل مأثور عَن مَالك وَالشَّافِعِيّ وَأحمد وَأبي يُوسُف وَمُحَمّد، حَكَاهُ ابْن تَيْمِية فِي جَوَاب ابْن مري، وَهُوَ خلاف مَا حَكَاهُ ابْن حزم عَن أبي يُوسُف …

القَوْل الثَّالِث: أَنهم على الْأَعْرَاف، وَفِيه حَدِيث مُسْند سَيَأْتِي ذكره إِن شَاءَ الله تَعَالَى.

القَوْل الرَّابِع: الْوَقْف”.

ان چار اقوال میں سے پہلا قول یعنی جمہور کا قول راجح ہے کہ مؤمنین جنات جنت میں جائیں گے، نصوصِ قرآنیہ سے اشارۃً یہ بات ثابت ہے، سورہ رحمٰن کی مندرذیل آیات میں انسان اور جنات دونوں سے خطاب ہے اور اس خطاب کے دوران اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (46) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (47)} [الرحمن: 46، 47] یعنی جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا تو اس کے لیے دو جنتیں ہیں، تو تم دونوں (یعنی انسان اور جن ) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟

اسی طرح سورۂ رحمٰن کی تمام آیات میں بار بار انسانوں اور جنات کو مخاطب کر کے جنت کی نعمتیں بیان کی گئی ہیں اور بار بار دونوں پر احسان جتلایا گیا ہے، اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان والے نیک انسان کی طرح ایمان والے نیک جنات بھی جنت میں جائیں گے۔

{ سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ (31) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (32) يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ (33) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (34) يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ (35) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (36) فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ (37) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (38) فَيَوْمَئِذٍ لَايُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ (39) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (40) يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ (41)} {فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (42) هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ (43) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ (44) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (45) وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (46) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (47) ذَوَاتَا أَفْنَانٍ (48) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (49) }

ترجمہ: اے جن و انس ! ہم ابھی تمہارے کام سے فارغ ہوئے جاتے ہیں، پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جائو۔ (کچھ ایسا ہی) زور ہو تو نکل سکتے ہو (لیکن وہ ہے نہیں) پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔ پھر اس دن نہ کسی آدمی کے گناہ کی پرسش ہوگی اور نہ جن کی ۔۔۔ اور جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا تھا اس کے لیے دو باغ ہوں گے پھر تم (دونوں) اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے! وہ دونوں باغ بڑے پھلے پھولے ہوں گے، پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔ الخ

تفسير ابن كثير ط العلمية (7/ 463):

“وهذه الآية عامة في الإنس والجن، فهي من أدلّ دليل على أن الجنّ يدخلون الجنة إذا آمنوا واتقوا، ولهذا امتنّ الله تعالى على الثقلين بهذا الجزاء فقال: {ولمن خاف مقام ربه جنتان فبأي آلاء ربكما تكذبان}”.

تفسير ابن كثير ط العلمية (7/ 465):

“{لم يطمثهن إنس قبلهم ولا جان} أي بل هنّ أبكار عرب أتراب لم يطأهنّ أحد قبل أزواجهنّ من الإنس والجن، وهذه أيضًا من الأدلة على دخول مؤمني الجن الجنة، وقال أرطاة بن المنذر: سئل ضمرة بن حبيب هل يدخل الجنّ الجنة؟ قال: نعم وينكحون، للجن جنيات، وللإنس إنسيات»، وذلك قوله: {لم يطمثهن إنس قبلهم ولا جان فبأي آلاء ربكما تكذبان}”.

Surah Naba pdf

Surah Naba With Urdu Translation pdf

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply