surah qalam with urdu translation

Surah Qalam With Urdu Translation PDF, Surah Qalam Tafseer

Surah Qalam With Urdu Translation PDF

ترجمہ اور تفسير سورہ قلم

مرتب: محمد ہاشم  قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ﴿1﴾

نون (حروف مقطعات میں سے ایک حرف ہے جس کے معنی کا علم اللہ کو ہے) ۔ قسم ہے قلم کی اور ان (فرشتوں) کی جو لکھتے جاتے ہیں۔

 مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ﴿2﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے دیوانے نہیں ہیں۔

 وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ﴿3﴾

اور بیشک آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو ختم ہونے والا نہیں۔

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿4﴾

اور بیشک آپ اخلاق کے اعلی مرتبہ پر ہیں۔

 فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ ﴿5﴾

عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ لوگ بھی دیکھ لیں گے ،

 بِأَيْيِكُمُ الْمَفْتُونُ ﴿6﴾

کہ تم میں سے کون جنوں (دیوانگی) میں مبتلا ہے؟

 إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿7﴾

بیشک آپ کا پروردگار اچھی طرح جانتا ہے ہر اس شخص کو جو راستہ بھٹک گیا ہے اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر ہیں۔

 فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ ﴿8﴾

آپ ان جھٹلانے والوں کو کہا نہ مانئے۔

 وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴿9﴾

اور آپ ایسے شخص کا بھی کہنا نہ مانئے گا جو بڑاقسمیں کھانے والا ہے ذلیل ہے،

 وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ ﴿10﴾

آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانئے جو بہت (جھوٹی) قسمیں کھانے والا اور ذلیل شخص ہو۔

 هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿11﴾

طنعے دیتا اور چغل خوری کرتا پھرتا ہو،

مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿12﴾

نیک کاموں سے روکنے والا، گناہوں میں سے حد سے بڑھنے والا،

 عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿13﴾

بد مزاج اور برے نسب کا مالک ہو محض اس وجہ سے (وہ ایسی حرکتیں کر رہا ہے)

 أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ﴿14﴾

صرف اس وجہ سے کہ وہ بڑے مال اور اولاد والا ہے۔

 إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿15﴾

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔

 سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ ﴿16﴾

ہم عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگا دیں گے

 إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿17﴾

ہم نے ان (مکہ والوں) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جیسے (ایک) باغ والوں کو اس وقت آزمائش میں ڈالا تھا جب انھوں نے قسم کھائی تھی کہ صبح ہوتے ہی ہم اس باغ کا پھل توڑ لیں گے۔

 وَلَا يَسْتَثْنُونَ ﴿18﴾

اور انھوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا تھا،

فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿19﴾

پھر آپ کے رب کی طرف سے اس باغ پر ایک آفت آئی جب وہ سوئے ہوئے تھے

 فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ ﴿20﴾

ور پھر وہ باغ ایک کٹے ہوئے کھیت کی طرح ہوگیا۔

 فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ ﴿21﴾

پھر صبح سویرے وہ ایک دوسرے کو (بیدار ہونے کے لئے) آوازیں دینے لگے

 أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ ﴿22﴾

کہ اگر تمہیں باغ کے پھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے (کھیت پر) چلو۔

 فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ ﴿23﴾

پھر وہ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے

 أَنْ لَا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِسْكِينٌ ﴿24﴾

کہ (دیکھو) آج کے دن ) (باغ میں) کوئی غریب و مسکین آدمی تم تک پہنچنے نہ پائے۔ ا

 وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ ﴿25﴾

اور ضرورت مندوں کو نہ دینے پر اپنے آپ کو قادر سمجھتے ہوئے صبح سویرے پہنچ گئے۔

فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ ﴿26﴾

تو جب اس (باغ) کو دیکھا تو بول اٹھے کہ یقیناً ہم راستہ بھول گئے۔

 بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿27﴾

(خوب چکر لگانے کے بعد) کہنے لگے:نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ ہماری قسمت ہی پھوٹ گئی۔

 قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ ﴿28﴾

ان میں جو شخص کچھ معقول تھا اس نے کہا، میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم لوگ رب کی تسبیح کیوں نہیں کرتے

 قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴿29﴾

وہ لوگ بولے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بیشک ہم ہی قصور وار ہيں۔

 فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ ﴿30﴾

پھر ایک دوسرے کی طرف مخاطب ہوئے باہم الزام دیتے ہوئے۔

 قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ ﴿31﴾

(پھر سب) بولے (کہ) ہائے ہماری شامت کہ ہم ہی سرکشی کرنے والے تھے،

 عَسَىٰ رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ ﴿32﴾

امید ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس باغ سے بہتر باغ عنایت کردے گا۔ بیشک ہم اپنے اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿33﴾

(لوگو دیکھو) اس طرح عذاب آیا کرتا ہے اور یقینا آخرت کا عذاب تو اس سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ کاش وہ جانتے ہوتے۔

 إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿34﴾

بیشک پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس آسائش کے باغ ہیں۔

 أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ﴿35﴾

کیا ہم فرمان برداروں اور نافرمانوں کو برابر کردیں گے؟

 مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿36﴾

تمہیں کیا ہوگیا ! تم کیسا فیصلہ کرتے ہو۔

 أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ ﴿37﴾

کی تمہارے پاس کوئی (آسمانی) کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو،

 إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ ﴿38﴾

کہ اس میں تمہارے لیے وہ چیز (درج) ہے جسے تم پسند کرتے ہو؟

 أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ ﴿39﴾

کیا ہمارے ذمہ کچھ تمہارے حق میں کھائی ہوئی قسمیں ہیں قیامت تک باقی رہنے والی کہ تم کو وہ چیزیں ملیں گی جن کا تم فیصلہ کررہے ہو؟

 سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَٰلِكَ زَعِيمٌ ﴿40﴾

ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے؟

 أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ ﴿41﴾

کیا انھوں نے اللہ کے ساتھ جنہیں شریک کر رکھا ہے (انہوں نے یہ تجویز کیا ہے) تو پھر تم اپنے شریک معبودوں کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔

 يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿42﴾

وہ دن جب پنڈلی کھول دی جائے گی (اللہ تجلی فرمائیں گے) اور لوگوں کو سجدے کی طرف بلایا جائے گا۔ پھر وہ (کافر) سجدہ نہ کرسکیں گے۔

 خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ ﴿43﴾

ان کی نظریں جھکی ہوئی ہونگی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ جب انھیں (دنیا میں) سجدے کی طرف بلا یا جاتا تھا ( اور نہیں آتے تھے) حالانکہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔

 فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَٰذَا الْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ﴿44﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ میرے اور ان لوگوں کے معاملے کو مجھ پر چھوڑئیے۔ ہم انھیں بہت جلد ایک ایسے عذاب کے قریب لے آئیں گے جس کی انھیں خبر تک نہ ہوگی۔

 وَأُمْلِي لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ ﴿45﴾

(اگرچہ) میں ان کو مہلت (ڈھیل) دے رہا ہوں۔ بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔

 أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ ﴿46﴾

کیا آپ ان سے ( اس تبلیغ دین پر) کوئی اجرت مانگ رہے ہیں کہ جس کے بوجھ تلے یہ دبے جا رہے ہیں۔

 أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴿47﴾

یا ان کے پاس غیب کا کوئی علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں۔

 فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴿48﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ صبر سے اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجئے۔ اور آپ مچھلی والے (حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہوجائیے۔ جب انھوں نے اپنے پروردگار کو اس طرح پکارا تھا کہ وہ غم و غصے سے بھرے ہوئے تھے۔

 لَوْلَا أَنْ تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ ﴿49﴾

اور اگر اس پروردگار کا کرم ان کی دستگیری نہ کرتا تو وہ (مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد) چٹیل میدان میں پھینک دئیے گئے ہوتے اور ان کا برا حال ہوجاتا۔

 فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿50﴾

پھر ان کے پروردگار نے انھیں (اور) برگزیدہ کرلیا اور ان کو (اور زیادہ) صالحین میں کردیا۔

 وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ ﴿51﴾

اور یہ کافر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا کر گرا دیں گے، جب کہ قرآن سنتے ہیں اور اور کہتے ہیں کہ یہ ایک دیوانہ آدمی ہے۔

 وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ ﴿52﴾

حالانکہ وہ قرآن تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

﴿نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ﴾  نون اور قلم کے معانی اور ان کے متعلق احادیث

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ القلم : ١ کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اللہ عزوجل نے جس چیز کو سب سے پہلے پیدا کیا وہ قلم ہے، پھر جو کچھ ہونے والا تھا اس کو قلم نے لکھا، پھر پانی سے بخارا اٹھا تو اس سے آسمان پیدا کیے گئے، پھر مچھلی کو پیدا کیا گیا ( نون کا معنی مچھلی ہے) اور زمین کو مچھلی کی پست پر پھیلایا گیا، زمین ہلنے لگی تو اس کو پہاڑوں سے ٹھہرایا گیا، پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : ” ن والقلم وما یسطرون “ ( جامع البیان رقم الحدیث : ٢٦٧٦٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حافظ سیوطی نے لکھا ہے : اس حدیث کو امام عبد الرزاق، امام فریابی، امام سعید بن منصور، امام عبد بن حمید، امام بن جریر، امام ابن المنذر، امام ابن ابی حاتم، امام ابو الشیخ نے ” العظمۃ “ میں امام حاکم نے تصیح سند کے ساتھ ” المستدرک “ میں امام بیہقی نے ” الاسماء والصفات “ میں اور امام خطیب بغدادی نے اپنی ” تاریخ “ میں اور امام الضیاء نے المتخارہ “ میں روایت کیا ہے۔ ( الدار المنثور ج ٨ ص ٢٢٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیشک اللہ نے سب سے پہلے القلم کو پیدا کیا، پھر اس سے فرمایا : لکھ ” تو اس نے ابد تک جو کچھ ہونے والا تھا وہ لکھ دیا۔ امام ابو داؤد کی روایت میں ہے : قلم نے تمام ”ما کان وما یکون“ لکھ دیا۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣١٩، ٢١٥٥، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٠٠، مسند احمد ج ٥ ص ٣١٧)

امام رازی نے کہا : نون کے متعلق یہ روایت کہ وہ مچھلی ہے اور اس پر زمین ٹھہری ہوئی ہے، ضعیف ہے اور حق یہ ہے کہ نون اس سورت کا اسم ہے یا یہ حرف تہجی ہے اور اس سے یہ بتایا ہے کہ یہ قرآن ان ہی حروف سے مرکب ہے جن سے تم کلام مرکب کرتے ہو اور اگر تمہاری رائے میں یہ کلام کسی انسان کا بنایا ہوا ہے تو تم بھی اس کی مثل کلام بنا کرلے آؤ۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٥٩٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

﴿وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ ”خَلق“ اور ”خُلق“ کا معنی

”خَلق“ ( خ پر زبر) کا معنی ہے : پیدا کرنا، عدم سے وجود میں لانا اور جسم کی ظاہری بناوٹ اور ”خُلق“ ( خ پر بیش) کا معنی ہے : انسان کی وہ جبلی اور طبعی صفات جن کا ادراک بصیرت سے کیا جاتا ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٢١٠، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

حسن اخلاق کی تعلیم، تلقین اور تاکید کے متعلق احادیث

حضرت ابو ذر (رض) بان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور برا کام کرنے کے بعد نیک کام کرو جو اس برے کام کو مٹا دے، اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٨٧ یہ حدیث حدیث صحیح ہے)

حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ بد اخلاق شخص سے بغض رکھتا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠٠٢، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٩٩)

حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز میزان میں نہیں رکھی جائے گی اور اچھے اخلاق والا نمازیوں اور روزہ داروں کے درجہ کو پا لیتا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠٠٣، اس حدیث کی سند صحیح ہے، الترغیب ج ٣ ص ٢٥٦، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧٩٨، مسند احمد ج ٦ ص ١٨٧)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا : وہ کونسا کام ہے جس کی وجہ سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ سے ڈرنا ( تقویٰ ) اور اچھے اخلاق، اور آپ سے سوال کیا گیا : وہ کون سے کام ہیں جن کی وجہ سے زیادہ لوگ دوزخ میں داخل ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : منہ اور شرم گاہ ( منہ اور شرم گاہ میں حرام چیز کو داخل کرنا) (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠٠٤، اس کی سند حسن ہے، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٤٦، المستدرک ج ٤ ص ٣٢٤، مسند احمد ج ٢ ص ٢٩١)

عبداللہ بن المبارک نے خلق حسن کی یہ تعریف کی، لوگوں سے ہنستے مسکراتے ہوئے خندہ پیشانی سے ملنا، نیکی کو پھیلانا اور برے کاموں سے باز رہتا۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠٠٥)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن مجھے تم میں سب سے زیادہ محبوب اور میری مجلس کے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق تم میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے اور قیامت کے دن میرے نزدیک تم میں سے زیادہ مبغوض اور میری مجلس سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہوگا جو متکبر ہوگا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٨، تاریخ بغداد ج ٤ ص ٦٣ )

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے محاسن اور اخلاق کے متعلق احادیث اور آثار

(١) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق عظیم کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : تمام ادیان میں آپ کا دین عظیم ہے اور آپ کے دین سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کوئی دین محبوب اور پسند نہیں ہے۔

(٢) ہشام بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا : اے ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کے متعلق بتائے، حضرت عائشہ نے پوچھا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، حضرت عائشہ نے فرمایا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن تھا۔ ( صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ ١٣٩۔ باب۔ رقم الحدیث : ٧٤٦ )

جن تمام چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، آپ ان پر عمل کرتے تھے اور جن تمام کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ آپ ان سے باز رہتے ہیں تھے اور آپ کی پوری زندگی قرآن مجید کی عملی تصویر تھی، اگر آپ کی سیرت کو جامع مانع عبارت میں بیان کیا جائے تو وہ آیات قرآن ہیں اور اگر قرآن مجید کی آیات کو انسانی پیکر میں ڈھالا جائے تو وہ پیکر مصطفیٰ ہے۔

(٣) حضرت عائشہ (رض) سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ” قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ “ (المؤمنون : ١) سے لے کر دس آیتیں پڑھیں اور کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق سب سے اچھا تھا، آپ کو صحابہ اور اہل بیت میں سے جو بھی بلاتا، آپ فرماتے : لبیک، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم : ٤) بیشک آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں

 جو بھی عمدہ اخلاق تھے، وہ سب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پائے جاتے تھے، نیز آپ کے خلق کو اس لیے عظیم کہا گیا ہے کہ آپ مکارم اخلاق کے جامع تھے۔ امام مالک نے روایت کیا ہے :

بےشک اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارم اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ ( مؤطا امام مالک رقم الحدیث : ١٦٧٧)

(٤) حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے میرے رب نے ادب سکھایا، سو اچھا ادب سکھایا۔ ( الجامع الصغیرہ رقم الحدیث، ١٣٠، حافظ سیوطی نے اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٨٩٥)

(٥) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی، آپ نے کبھی مجھ سے اف نہیں کیا، اور میں نے جو کام کیا تو کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ اور میں نے جس کام کو ترک کیا تو کبھی مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے اس کام کو کیوں ترک کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق سب سے اچھے تھے اور کوئی ریشم آپ کے ہاتھوں سے زیادہ ملائم نہیں تھا، اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پسینہ کی خوشبو سے بڑھ کر کسی مشک اور عطر کی خوشبو نہیں سونگھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٩١١، ٦٠٣٨، ٣٥٦١، ٢٧٦٨، ١٩٧٣ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٣٠، ٢٣١٠، ٢٣٠٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث ٤٧٧٤، ٤٧٧٣، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٠٥، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٧٩٤٦، مسند احمد ٣ ص ١٩٥، ١٧٤، ١٢٤ )

(٦) حضرت عائشہ (رض) بان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ طبعاً فحش گفتار تھے نہ تکلفاً ، اور نہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے، اور نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور در گزر فرماتے تھے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠١٦، مسند احمد ج ٦ ص ٢٤٦، ٢٣٦، ١٧٤، مصنف ابن بی شیبہ ج ٨ ص ٣٣٠)

﴿فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ﴾

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب قیامت کے دن حق، باطل سے متمیز اور ممتاز ہوجائے گا تو اس وقت کفار بھی جان لیں گے کہ دنیا میں کوئی مجنون تھا اور کون فتنہ میں مبتلا تھا، اس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا میں آپ کو علم نہیں تھا، یقینا دنیا میں بھی آپ کو علم تھا، یقینا دنیا میں بھی آپ کو علم تھا لیکن قیامت کے دن جب آپ دیکھیں گے کہ آپ کو مجنون کہنے والوں کو عذاب دیا جارہا ہے تو آپ کو ان کی سزا کا مشاہدہ ہوجائے گا۔

بعض مفسرین نے کہا : یہ آیت دنیا کے احوال پر محمول ہے، یعنی عنقریب آپ بھی دنیا میں دیکھ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپ کو کیسی کامیابی، کامرانی اور سرفرازی عطاء فرماتا ہے اور کس طرح لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت جا گزین ہوتی ہے اور خون بن کر ان کی رگوں میں دوڑنے لگتی ہے اور یہ کافر میں جو آپ کا مجنون کہتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیں گے کہ جنگ بدر میں کس طرح ان کی گردنیں ماری جاتی ہیں اور پورے جزیرہ عرب میں کفر ملیا میٹ ہوجاتا ہے اور اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچ جاتا ہے۔

﴿هَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍۢ بِنَمِيْمٍ﴾

”ھماز“ کا لفظ ہے ”ھماز“ کا مبالغہ کا صیغہ ہے، اس کا معنی ہے: بہ طور طعن آنکھ سے اشارہ کرنے والا، کسی کا عیب بیان کرنے والا، کسی کو طعنہ دینے والا۔

اس آیت میں ”مشاء بنمیم“ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : چلتے پھرتے چغلی کھانے والا۔

چغلی کا معنی ہے : فساد ڈالنے کے لیے ایک فریق کی بات دوسرے فریق تک پہنچانا، چغلی کھانے پر احادیث میں سخت وعید ہے۔

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم کتاب، الایمان : ١٠٥، باب ٤٥، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٥٤٨، دارلفکر)

حضرت اسماء بنت یزید بن السکن بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تم کو یہ نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے اچھے لوگ کون ہیں ؟ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں ! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جب یہ دکھائی دیں تو اللہ عزوجل کی یاد آئے، پھر فرمایا : کیا میں تم کو یہ نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے بدتر لوگ کون ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو چلتے پھرتے چغلی کرتے ہیں، دوستوں کے درمیان پھوٹ ڈالت ہیں اور بےقصور لوگوں پر تہمت لگاتے ہیں۔ ( مسند احمد ج ٦ ص ٤٥٩ قدیم، مسند احمد ج ٤٥ ص ٥٧٥ جدید، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١٩ المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ٤٢٣، شعب الایمان رقم الحدیث : ١١٠٧)

﴿عُتُلٍّۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ﴾

”عتل“ کا لفظ ہے: سخت مزاج، گردن کش، اجڈ، بسیار خوار، درشت، جس کا جسم بہت مضبوط اور اس کے اخلاق بہت خراب ہیں۔

اور اس آیت میں ”زنیم“ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے: بد نام، جو شخص کسی بری شناخت سے معروف ہو اور وہ شخص جو اپنے آپ کو کسی قوم میں شامل کرے اور فی الواقع وہ اس قوم سے نہ ہو۔

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے کہا : ”زنیم“ کے متعلق متعدد اقوال ہیں : فرا نے کہا ہے : یہ وہ شخص ہے جس کے نسب میں تہمت ہو، وہ اپنے آپ کو کسی قوم کے ساتھ ملائے اور وہ ان میں سے نہ ہو ”زنیم“ اس ولد الزنا کو کہتے ہیں جو خود کو کسی قوم کے ساتھ منسوب کرے اور حقیقت میں وہ اس قوم میں سے نہ ہو، ولید بن مغیرہ قریش کے نسب میں متہم تھا اور ان کی اصل سے نہ تھا، اس کے باپ نے اس کی پیدائش کے اٹھارہ سال بعد دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس کا بیٹا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس کی ماں نے بدکاری کی تھی مگر مشہور نہ تھا حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی، شعبی کا قول ہے کہ ”زنیم“ وہ شخص ہے جو اپنی برائی اور ملامت میں اس طرح مشہور ہے جیسے بکری اپنے لٹکے ہوئے کان کے ساتھ پہچانی جاتی ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” زنیم “ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے گلے میں زائد گوشت ہونے کی وجہ سے مشہور ہوا، اور مقاتل نے کہا: ”زنیم“ وہ شخص ہے جس کے کان کی جڑ میں زائد گوشت ہو۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٠٥، ملخصاً ، داراحیاء التراث العربی، بیروت : ١٤١٥ ھ)

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے ”زنیم“ کے متعلق متعدد اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا : ” زنیم “ وہ شخص ہے جو برائی میں اتنا مشہور ہو کہ اسی برائی کے ساتھ لوگوں میں پہچانا جاتا ہو، اور اکثر ایسا شخص نسب میں متہم اور ولد الزنا ہوتا ہے، اور شیطان اس پر مسلط ہوت ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٤٤٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم متوفی ٤٢٧ ھ نے لکھا ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آسمان اس شخص پر روتا ہے جس کا جسم اللہ تعالیٰ نے تندرست بنایا ہوا اور اس کا پیٹ بڑا ہو، اس کا دنیا کا مال دیا ہو اور وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہو، اسی طرح ” العنل الزنیم “ ہے۔ ( الکشف و البیان ج ١٠ ص ١٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں ولد الزنا داخل نہیں ہوگا اور نہ احسان جتانے والا، اور نہ ماں باپ کا نافرمان اور نہ دائمی شراب نوش۔ (سنن داری رقم الحدیث : ٢٠٩٧، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٦٨٨)

یہ حدیث اس دلدا الزنا پر محمول ہے جو اپنے ماں باپ کی طرح زنا کرتا ہو، کیونکہ اس حدیث میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے افعال دخول جنت کے منافی نہیں ہیں، اس لیے اس حدیث محمل یہ ہے کہ یہ لوگ ابتداء جنت میں نہیں داخل ہوں گے اور اپنی سزا پا کر جنت میں جائیں گے اور آپ نے زجراً اس طرح فرمایا ہے تاکہ لوگ ڈریں اور ایسے کام نہ کریں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہنے والے کا مصداق

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں: تمام روایات اس پر محمول ہیں کہ جس شخص نے آپ کو مجنون کہا تھا وہ ولید بن مغیرہ مخرومی تھا، اور وہ اپنے آپ کو قریش کی طرف منسوب کرتا تھا اور واقع میں وہ قریش سے نہیں تھا، اس کے باپ نے اس کی پیدائش کے اٹھارہ سال بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس کا بیٹا ہے، اور ایک قوم یہ ہے کہ وہ شخص الحکم بن العاص تھا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ بدر کردیا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ شخص الا خنس بن شریق تھا، وہ اصل میں ثقیف سے تھا اور اس کا شمار زھرہ میں ہوتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ شخص الاسود بن بغوث تھا یا ابو جہل تھا۔

(روح المعانی جز ٢٩ ص ٤٧، دارلفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

﴿سَنَسِمُهٗ عَلَي الْخُرْطُوْمِ﴾

ہم عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگا دیں گے

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کے کفریہ اور قبیح افعال بیان فرمائے تھے اور اس آیت میں اس کی سزا بیان فرمائی ہے کہ ہم عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگا دیں گے۔

سونڈ سے مراد اس کی ناک ہے، اور اس کو سونڈ اس لیے فرمایا ہے کہ جب کسی انسان کے اعضاء کو حیوانوں کے اعضاء سے تشبیہ دی جائے یا اس پر حیوان کے اعضاء کا اطلاق کیا جائے تو اس سے اس انسان کی توہین اور تذلیل مقصود ہوتی ہے مثلاً کسی انسان کے پیر کو کھرکہا جائے یا سم کہا جائے، نیز اس آیت میں ناک کی تذلیل کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اعضاء میں سب سے اشرف عضو اس کا چہرہ ہوتا ہے اور چہرے میں ناک کی زیادہ اہمیت ہے، وہی چہرے میں بلند ہوتی ہے اور اسی سے چہرے کی خوبصورتی ہے اور ناک کے لفظ سے کسی انسان کی عزت یا بےعزتی کا کنایہ کیا جاتا ہے، مثلاً کہا جاتا ہے : فلاں نے فلاں کی ناک رکھ لی یعنی اس کی عزت رکھ لی اور کہا جاتا ہے : فلاں کی ناک کٹ گئی۔ یعنی اس کی بےعزتی ہوگئی۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس کی ناک پر یہ نشانی دنیا میں لگائی گئی یا آخرت میں لگائی جائے گی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس کی ناک پر تلوار سے نشان لگایا جائے گا اور تا حیات اس میں یہ نشان باقی رہے گا اور یہ بھی روایت ہے کہ جنگ بدر میں اس نے تلوار سے قتال کیا اور اسی جنگ میں اس کی ناک پر نشان لگا اور مقاتل اور ابو العالیہ نے کہا : آخرت میں اس کی ناک پر نشان ہوگا اور اس نشان کی وجہ سے سب اس کو پہچان لیں گے، جس طرح کفار کے چہرے قیامت کے دن سیاہ کیے جائیں گے اور خوف سے ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی، اسی طرح قیامت کے دن اس کی ناک پر نشان ہوگا۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٠٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ٤١٥ ھ)

﴿اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ  ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِيْنَ﴾

 باغ والوں کی نا شکری کا انجام

ان آیات میں کفار مکہ کو باغ والوں کی مثال سے ڈرایا ہے، ایک باغ میں انواع و اقسام کے پھل بہ کثرت تھے، ان لوگوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہونے سے پہلے راتوں رات اس باغ کے سارے پھل اتار لیں گے، تاکہ فقراء، مساکین اور سائلوں کو پتہ نہ چلے اور وہ بھی پھل مانگے چلے آئیں اور ہمیں ان کو بھی پھل دینا پڑیں، وہ اپنے اس منصوبہ پر بہت زیادہ خوش تھے اور اس خوشی میں انھوں نے انشاء اللہ یا سبحان اللہ بھی نہیں کہا، ان کو بھی پھل دینا پڑیں، وہ اپنے اس منصوبہ پر بہت زیادہ خوش تھے اور اس خوشی میں انھوں نے انشاء اللہ یا سبحان بھی نہیں کہا، ان کے زمانہ میں سبحان اللہ کہنا انشاء اللہ کہنے کے قائم مقام تھا، اس لیے ان کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا، ان کے اس باغ میں پہنچنے سے پہلے ایک زبردست آندھی آئی یا گرم ہوا کہ بگولے آئے اور باغ کے تمام پھل جل کر خاکستر ہوگئے، اس وقت رات کو وہ محو خواب تھے، جب وہ پھل دار باغ کاٹی ہوئی فصل کی طرح ہوگیا، جب صبح ہوئی تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر باغ سے پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ کرو، علی الصبح ہی چل پڑو، حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ انگور کا باغ تھا، یہ لوگ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ کوئی سن نہ لے اور فقراء کو ان کے پھل اتا رنے کا پتا نہ ہوجائے، وہ پختہ عزم کے ساتھ باغ کی طرف جا رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے منصوبہ کا پورا کرنے پر ہر طرح قادر ہیں، وہ سمجھتے تھے کہ وہ پھل اتارنے پر پوری طرح قادر ہیں اور ابھی جا کر سب پھل لے آئیں گے، لیکن جب وہاں پہنچے تو ہکا بکا رہ گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ لہلہا تا ہوا سرسبز باغ اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت سب غارت اور برباد ہوچکے ہیں، سارے باغ میں آندھی آچکی ہے اور تمام پھل جل کر خاکستر ہوچکے ہیں، جب انھوں نے یہ منظر دیکھا تو پہلے تو سمجھے کہ شاید ہم راستہ بھول کر کسی اور باغ میں آگئے، لیکن جب بہ غور دیکھنے سے یہ یقین ہوگیا کہ یہ ان ہی کا باغ ہے تو کہنے لگے کہ ہم بدقسمت ہیں، اس باغ کے پھل ہمارے نصیب میں نہ تھے، بیشک ہمارا رب سبحان ہے ( پاک اور بےعیب ہے) ہم ہی ظالم ہیں، پھر وہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے ناحق مسکینوں کا حق مارا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چھوڑدی، ہماری سرکشی حد سے بڑھ کرگئی تھی، اس لیے ہم پر عذاب آیا، شاید ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے، بیشک ہم اپنے رب کی طرف رغبت کرنے والے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کی مراد اس سے دنیا میں بدلہ دینا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے ان کی مراد آخرت میں بدلہ دینا ہو۔

سعید بن جبیر نے کہا: یہ لوگ ضرور اس جگہ کے رہنے والے تھے جو صنعاء سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے، اور بعض مفسرین نے کہا : یہ لوگ اہل حبشہ تھے، یہ اہل کتاب تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر تھے، یہ باغ ان کو اپنے باپ سے ورثہ میں ملا تھا، ان کے باپ کا معمول یہ تھا کہ باغ کی پیداوار سے باغ کا خرچ نکال کر اور اپنے بچوں کا خرچ نکال کر باقی نفع یا باقی مال اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا کرتا تھا، باپ کی وفات کے بعد بچوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارا باپ تو احمق تھا، جو اتنی بڑی آمدنی فقراء کو دے کر ضائع کردیا کرتا تھا، اگر ہم فقراء کو نہ دیں اور سارا نفع اپنے پاس رکھیں تو ہم بہت جلد سرمایہ دار ہوجائیں گے، جب انھوں نے یہ عزم راسخ کرلیا تو ان کے باغ پر وہ آفت آئی کہ ان کے سارے پھل جل کر خاکستر ہوگئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے اور اس کی نعمتوں کا شکرادا نہ کرے، اس پر اسی طرح اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور یہ تو دنیا کا عذاب ہے، آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ شدید ہے۔

﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ﴾

﴿یوم یکشف عن ساق﴾میں ساق کا لغوی معنی

اس آیت میں ” کشف ساق “ (پنڈلی کھولنے) کا ذکر ہے، پنڈلی کھولنے کے لغوی معنی حسب ذیل ہیں :

ٹخنے اور گھٹنے کے درمیان جو جگہ ہے اس کو ” ساق “ کہتے ہیں اور ” کشف ساق “ شدت اور سختی سے کنایہ ہے، جب کسی معاملہ کی شدت اور ہول ناکی کی خبر دینا ہو تو ” ساق “ کا ذکر کرتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :

وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ۔ (القیامہ : ٢٩) اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔

یعنی دنیا کی آخری شدت، روز قیامت کی پہلی شدت سے لپٹ جائے گی۔

جب جنگ شدید ہوجائے تو کہا جاتا ہے : ” قامت الحرب علی ساق “ جنگ اپنی پنڈلی پر کھڑی ہوگئی۔ سو اس سے مراد روز قیامت کی شدت ہے۔ ( المفردات ج ٢ ص ٥٥٨، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

﴿یوم یکشف عن ساق﴾  کی تفسیر میں احادیث، آثار اور اقوال تابعین

حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے

عذاب ہے، آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ شدید ہے۔ ﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ﴾  (القلم : ٤٢) کی تفسیر میں فرمایا : ” ساق “ سے مراد نور عظیم ہے، سب لوگ اس کے سامنے سجدہ میں گرجائیں گے۔

( مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٨٣، حافظ الہیثمی نے کہا: اس کی سند میں روح بن جناح ہے جو قوی نہیں ہے، مجمع الزوائد ج ٧ ص ١٢٧ )

حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس دن ہمارا رب اپنی ” ساق “ ( پنڈلی) کو کھولے گا تو ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ لوگ باقی رہیں گے جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے عبادت کرتے تھے، وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی کمر ٹوٹ کر ایک طباق ( یا تختہ) کی طرح ہوجائے گی۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩١٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٤)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اس مسئلہ میں اہل علم کو دو قول ہیں:

(١) مقتدمین کا مسلک یہ ہے کہ اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے اور اس پر ایمان رکھنا چاہیے اور یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ پنڈلی سے وہ معنی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔

(٢) اس میں اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق تاویل کی جائے گی اور اس میں وہی شخص تاویل کرسکتا ہے جو عربی زبان کا جاننے والا ہو اور اصول اور فروغ کا عارف ہوا، اس بناء پر انھوں نے کہا : اس آیت میں ”ساق“ سے مراد شدت ہے یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سخت اور ہول ناک چیزوں کو کھول دے گا، حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی اسی طرح تفسیر کی ہے، اور قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اس آیت میں ” ساق “ سے مراد نور عظیم ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اس آیت کی تفسیر بیان کی ہے۔ ( مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٧٢٨٣) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : اس سے مراد حجابات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مؤمنین کے لیے کھول دے گا، اور بیع بن انس نے کہا : اللہ تعالیٰ حجاب کھول دے گا، تو جو شخص بھی دنیا میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا ہوگا وہ سجدہ میں گرجائے گا، علامہ ابن جوزی نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مؤمنین سے سختیوں کو کھول دے ( دور کر دے گا) تو وہ سجدہ ٔ شکر بجا لائیں گے اور وہ بھی حضرت ابو موسیٰ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ ( مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٧٢٨٣) اور حضرت ابن مسعود (رض) سے دوسری یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ چالیس سال تک اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے رہیں گے، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی ” ساق “ کو کھولے گا اور ان پر تجلی فرمائے گا۔

اس حدیث میں ہے کہ مؤمنین اللہ تعالیٰ کو سجدہ کریں گے، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قیامت تو دارالجزاء ہے دارالعمل نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مکلف ہونے کی حیثیت سے سجدہ نہیں کریں گے بلکہ حصول لذت کے لیے اور حصول تقریب کے لیے سجدہ کریں گے۔

علامہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ القلم : ٤٢ میں ہے : اور ان کو سجدہ کے لیے بلایا جائے گا تو وہ سجدہ نہ کرسکیں گے، کیونکہ ان کی کمر تختے کی طرح ہوجائے گی اور مڑ نہیں سکے گی، بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ جو کام انسان کی طاقت میں نہ ہو انسان کو اس کا مکلف کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ان کا یہ استدلال باطل ہے کیونکہ آخرت دارتکلف نہیں ہے اور اس سے مراد ان کا امتحان لینا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٩ ص ٣٧٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

قیامت کے دن ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ ہر گروہ اس کی پیروی کرے جس کی وہ دنیا میں عبادت کیا کرتا تھا۔ اس اعلان کے بعد جس قدر لوگ بھی اللہ کے سوا بتوں وغیرہ کی عبادت کرتے تھے سب جہنم میں جا کر گریں گے اور صرف وہ لوگ باقی بچ جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا بد اور کچھ لوگ اہل کتاب میں سے بھی باقی رہیں گے، پھر یہود کو بلا کر ان سے پوچھا جائے گا : تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ ہیں گے : ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بیٹے عزیز کی عبادت کرتے تھے، ان سے کہا جائے گا : تم جھوٹے ہو، اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے نہ کوئی بیٹا ہے، اب تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے : اے رب ! ہم پیاسے ہیں، ہم کو پانی پلا دے، پھر ان سے اشارے سے کہا جائے گا : تم پانی کی طرف کیوں نہیں جاتے ؟ پھر انھیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا، وہ جہنم سراب کی طرح دکھائے دے گی، پھر وہ جہنم میں جا پڑیں گے۔

پھر عیسائیوں کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم دنیا میں کس چیز کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے مسیح کی عبادت کرتے تھے، ان سے کہا جائے گا : تم جھوٹے ہو، اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے، پھر ان سے کہا جائے گا اب تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! ہم بہت پیاسے ہیں ہمیں پلانی پلا دے۔ ان سے اشارے سے کہا جائے گا : تم پانی کی طرف کیوں نہیں جاتے ؟ پھر انھیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا، وہ جہنم سراب کی طرح دکھائے دے گی، پھر وہ جہنم میں جا پڑیں گے۔

یہاں تک کہ صرف وہ لوگ بچ جائیں گے جو دنیا میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا بدکار، پھر ان کے پاس اللہ تعالیٰ ایک ایسی صورت بھیجے گا جس صورت کو وہ دنیا میں کسی نہ کسی وجہ سے جانتے ہوں گے ( کہ یہ ان کا رب نہیں ہے بلکہ مخلوق ہے) پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اب تمہیں کس بات کا انتظار ہے ؟ ہرگز وہ اپنے مبعود کے ساتھ جا چکا۔ مسلمانوں عرض کریں گے ! اے بارالٰہ ! ہم دنیا میں ان لوگوں سے الگ رہے حالانکہ ہم ان کے سب سے زیادہ محتاج تھے اور ہم نے ان لوگوں کو ہم کا کبھی ساتھ نہ دیا، اس صورت سے آواز آئے گی : میں تمہارا رب ہوں، مسلمان کہیں گے : ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں : ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، مسلمان یہ کلمات دو یا تین بار دہرائیں گے، یہ ایسا وقت ہوگا کہ بعض مسلمانوں کے دل ڈگمگانے لگیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تمہارے علم میں کوئی ایسی نشانی ہے جس سے تم اللہ کو پہچان سکتے ہو ؟ مسلمان کہیں گے : ہاں پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی منکشف فرمائے گا، اس منظر کو دیکھ کر جو شخص بھی دنیا میں محض اللہ کے خوف اور اس کی رضا کے لیے سجدہ کرتا ہے اس کو سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی، اور جو شخص کسی دنیاوی خوف یا ریا کاری کے لیے دنیا میں سجدہ کرتا تھا، اس کو سجدہ کی اجازت نہیں ملے گی، اس کی پیٹھ ایک تختہ کی طرح ہوجائے گی اور جب بھی وہ سجدہ کرنا چاہے گا اپنی پیٹھ کے بل گرجائے گا، پھر مسلمان اپنا سر سجدہ سے اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ اسی صورت میں ہوگا جس طورت میں انھوں نے اسے پہلے دیکھا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تمہارا رب ہوں، مسلمان کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے، پھر جہنم کے اوپر پل صراط بچھا دیا جائے گا اور شفاعت کی اجازت دے دی جائے گی۔ ( الحدیث بطولہ) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٣٩۔ ٤٥٨١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٣)

اللہ تعالیٰ کا کسى صورت میں تجلی فرمانے کا بیان

اللہ تعالیٰ پہلے ایک صورت میں ظاہر ہوگا جس کو دیکھ کر مسلمان انکار کریں گے اور کہیں گے کہ تو ہمارا رب نہیں ہے، پھر ایک اور صورت میں ظاہرہو گا تو مسلمان پہچان لیں گے۔

شروع میں منافقین مسلمانوں کے ساتھ شامل رہیں گے اور مسلمانوں کو اپنے لیے ڈھال بنالیں گے، جس طرح دنیا میں یہ معمول تھا، بعد میں حوض کوثر منافقین کی چھانٹی کردی جائے گی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” سحقاً سحقاً “ (دور رہو، دور رہو) فرما کر انھیں مسلمانوں سے الگ کردیں گے، یا اس موقع پر جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ﴿وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یٰس: ٥٩) اے مجرمو ! آج علیحدہ ہو جاؤ۔

اللہ تعالیٰ کا پہلے ایسی صورت میں ظاہر ہونا جس کا مؤمنین کا انکار کریں اور دوبارہ ایسی صورت میں ظاہر ہونا جس صورت کو دیکھ کر مؤمنین اس کو رب مان لیں، اس کی تشریح کے بارے میں سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہے، ہم اس حدیث پر ایمان لاتے ہیں، اس کے منشاء اور مطلب کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مفوض کرتے ہیں اور متأخرین میں سے قاضی عیاض وغیرہ نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کی صورت پیش کرے گا جس صورت سے اس کی حادث اور مخلوق ہونے کے آثار ظاہر ہوں گے ، اس لیے مؤمنین اس صورت کو دیکھ کر کہہ دیں گے : جس صورت سے اس کے حادث اور مخلوق ہونے کے آثار ظاہر ہوں گے ، اس لیے مؤمنین اس صورت کو دیکھ کر کہہ دیں گے : یہ ہمارا رب نہیں ہے، بعد میں اللہ تعالیٰ ان پر اپنی ایک صفت منکشف فرمائے گا ( اس صفت کو حدیث میں صورت سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ شکل اور صورت سے پاک ہے) اور یہ ایسی صفت ہوگی جو مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کے مشابہ نہ ہوگی اور نہ اس پر آثار حدوث ظاہر ہوں گے ، اس لیے اس صفت کی تجلی کو دیکھ کر تمام مسلمان پکار اٹھیں گے کہ یہ ہمارا رب ہے کیونکہ ان کا اعتقاد ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی شے نہیں ہے، لہٰذا جب وہ ایک بےمثل صف کو دیکھیں گے تو پہچان لیں گے کہ یہ ہمارا رب ہے۔

حافظ عسقلانی لکھتے ہیں کہ علامہ ابن جوزی نے اس حدیث کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا : پہلی بار جو صورت نظر آئے گی اس میں قیامت کی ایسی ہول ناکیاں نظر آئیں گی، جیسی دہشت ناک ہول ناکیوں انھوں نے کبھی دنیا میں بھی نہ دیکھیں ہوں گی، اس لیے وہ کہیں گے کہ ہم اس سے خدا کی پناہ میں آتے ہیں، اس کے بعد جو صورت نظر آئے گی اس میں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کی تجلیات ہوں گی جن کو دیکھ کر ان کا خوف اور دہشت دور ہوجائے گی اور یہی وہ صورت ہے جس کو ” کشف ساق “ ( پنڈلی منکشف کرنا ہے) سے تعبیر کیا گیا ہے اور جب مسلمان اللہ تعالیٰ کے بےمثال لطف و کرم کی تجلیات دیکھیں گے تو بےاختیار کہہ اٹھیں گے کہ یہی ہمارا رب ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ پہلی صورت میں مسلمانوں کے دل میں اللہ تعالیٰ یہ بات پیدا کر دے کہ یہ صورت ان کا رب نہیں ہے اور وہ اپنے وجدان سے انکار کردیں اور دوسری صورت جب نظر آئے جو واقعی اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے دل میں یہ بات پیدا کر دے کہ وہ واقعی ان کا رب ہے اور وہ اپنے وجدان کی بناء پر کہیں گے کہ یہ ہمارا رب ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ کا محشر میں دیدار بطور امتحان ہوگا اور جنت میں دیدار بطور انعام ہوگا۔ ( صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١ ص ١٠٠٩۔ ١٠٠٨، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ )

﴿فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ ۘ اِذْ نَادٰى وَهُوَ مَكْظُوْمٌ﴾

مچھلی والے سے مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں یعنی جس طرح وہ اپنی قوم کے ایمان نہ لانے سے جلدی غضب میں گئے تھے اور جلدی میں اللہ تعالیٰ سے اذن مخصوص لیے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے، آپ اس طرح نہ کریں۔

اور فرمایا : جنہوں نے اپنے رب کو حالت غم میں پکارا تھا، یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے رب کو پکارا اور کہا : ﴿لَّآ اِلٰـہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (الأنبیاء : ٨٧)

اس آیت میں ”مکظوم“ کا لفظ ہے اس کا معنی حضرت ابن عباس نے فرمایا : وہ غم سے پر تھے اور عطا اور ابو مالک نے کہا : اس کا معنی ہے : وہ کرب اور بےچینی سے پر تھے اور یا ان کا سانس گھٹ رہا تھا، کہتے ہیں : ” کظم فلان غبطہ “ فلاں شخص نے اپنا غصہ روک لیا۔

﴿لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَاۗءِ وَهُوَ مَذْمُوْمٌ﴾

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمت ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وصف مذمومیت کے ساتھ ان کو چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا لیکن جب کہ ان کو یہ نعمت حاصل تھی تو ان کو وصف مذمویت کے ساتھ چٹیل میدان میں نہیں ڈالا گیا اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اگر اللہ کی نعمت ان کو حاصل نہ ہوتی تو وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے، پھر ان کو وصف مذمومیت کے ساتھ چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا، لیکن چونکہ انھیں اللہ کی رحمت حاصل تھی اس لیے ایسا نہیں ہوا۔

ایک سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مذموم ہونے کا ذکر فرمایا ہے، کیا یہ ان کے گناہ کرنے کی دلیل ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے : بلکہ اس آیت میں ان کے مذموم نہ ہونے کا ذکر ہے کیونکہ فرمایا : اگر ان کو اللہ کی نعمت شامل نہ ہوتی تو وہ مذموم ہوتے، اور چونکہ ان کو اللہ کی نعمت شامل تھی اس لیے وہ مذموم نہ تھے، دوسرا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے مذمومیت سے مراد ترک افضل ہو کیونکہ ابرار کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک گناہ کے حکم میں ہوتی ہیں۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦١٧١، داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤١٥ ھ)

﴿وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ﴾

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شدید عداوت کی خبر دی ہے، انھوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر لگا دیں، پھر قریش کی ایک جماعت نے آپ کو نظر لگائی اور کہنے لگے : ہم نے ان کی مثال کوئی شخص دیکھا ہے نہ ان کے محافظوں کی مثل کوئی شخص دیکھا ہے۔ ایک قول ی ہے کہ بنو اسد والے نظر لگاتے تھے حتیٰ کہ کوئی فربہ گائے یا موٹی نازی اونٹنی ان میں سے کسی ایک کے پاس سے گزرتی تو وہ اس کو نظر لگاتے، پھر اپنی باندی سے کہتے کہ ٹوکری لے کر جاؤ اور درہم لے کر جاؤ اور اس اونٹنی کا گوشت لے آنا، پھر شام ہونے سے پہلے وہ اونٹنی مرجاتی اور ذبح کردی جاتی۔ کلبی نے کہا : عرب کا ایک شخص دو تین دن کھانا نہیں کھاتا تھا پھر اس کے پاس سے کوئی اونٹ یا بکرا گزرتا تو وہ کہتا : میں نے اس سے زیادہ خوب صورت اونٹ یا بکرا اس سے پہلے نہیں دیکھا، پھر تھوڑی ہی دیر گزرتی تھی کہ وہ اونٹ یا بکرا گر کر ہلاک ہوجاتا تھا، کفار نے اس شخص سے کہا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر لگائے، اس نے حامی بھر لی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے شر سے محفوظ رکھا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

عرب جب کسی کی جان یا مال پر نظر لگانا چاہتے تو تین دن بھوکے رہتے، پھر اس کی جان یا مال پر نظر لگا کر کہتے : اللہ کی قسم ! میں نے اس سے زیادہ قوی، بہادر اور اس سے زیادہ مال دار شخص کوئی نہیں دیکھا، پھر وہ شخص ہلاک ہوجاتا اور اس کا مال ہلاک ہوجاتا، اسی وجہ سے فرمایا : جب آپ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو یہ آپ کو مجنوں کہتے ہیں۔

اس آیت میں فرمایا ہے : وہ آپ کی نظر لگاتے ہیں تاکہ آپ کو پھسلا دیں، الھروی نے اس کی تفسیر میں کہا : وہ آپ پر اس لیے نظر لگاتے ہیں تاکہ آپ کو اس مقام سے گرا دیں جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو قائم کیا ہے، سدی اور سعید بن جبیر نے کہا : وہ آپ پر اس لیے نظر لگاتے ہیں تاکہ آپ کی تبلیغ رسالت کے منصب سے ہٹا دیں، حسن بصری اور ابن کیسان نے کہا : وہ اس لیے آپ پر نظر لگاتے ہیں تاکہ آپ کو ہلاک کردیں۔

جس شخص پر نظر لگی ہو اس پر اس آیت کو پڑھ کر دم کردیا جائے تو انشاء اللہ اللہ تعالیٰ اس کو نظر کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

(ماخوذ از تبيان القرآن ، از مولانا غلام رسول سعيدى)

Surah Qalam With Urdu Translation PDF

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply