Surah Muzammil With Tarjuma

Surah Muzammil Tarjuma Ke Sath, Surah Muzammil With Tarjuma



Surah Muzammil With Urdu Translation PDF 318 KB



Surah Muzammil PDF Download Only Arabic 62 KB

ترجمہ اور تفسير سورہ مزمل

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿1﴾

اے کپڑوں میں لپٹنے والے،

قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿2﴾

رات کو (نماز میں) کھڑے رہا کیجئے۔

 نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ﴿3﴾

یعنی آدھی رات یا اس سے کچھ کم

 أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ﴿4﴾

یا اس سے کچھ زیادہ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔

 إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا ﴿5﴾

ہم آپ پر عنقریب ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں۔

 إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا ﴿6﴾

بیشک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔

 إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا ﴿7﴾

دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔

 وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا ﴿8﴾

اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کرکے اسی کی طرف متوجہ رہو۔

 رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا ﴿9﴾

وہ مشرق و مغرب کا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ لہٰذا آپ اپنے ہر کام کے لیے اسی کو اپنا کارساز (وکیل) بنائیے۔

 وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا ﴿10﴾

اور ان باتوں پر صبر کئے رہئے جو یہ لوگ کہتے ہیں، اور ان سے خوبصورتی کے ساتھ الگ ہوجائیے۔

 وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا ﴿11﴾

ان عیش پرست جھٹلانے والوں کے معاملہ کو مجھ پر چھوڑ ئیے ان کو تھوڑی سی دیر اسی حالت پر رہنے دیجئے۔

 إِنَّ لَدَيْنَا أَنْكَالًا وَجَحِيمًا ﴿12﴾

بیشک ہمارے پاس بھاری بھاری بیڑیاں ، جہنم کی آگ،

 وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا ﴿13﴾

حلق میں پھنس جانے والا کھانا اور دردناک عذاب (تیار ) ہے۔

 يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَهِيلًا ﴿14﴾

جس دن پہاڑ لزر اٹھیں گے اور پہاڑ اڑتے ہوئے ریت کے ٹیلے ہوجائیں گے۔

 إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا ﴿15﴾

(اے لوگو ! ) ہم نے تم پر گواہی دینے والا ایک رسول اسی طرح بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کے پاس رسول بھیجا تھا۔

 فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا ﴿16﴾

جب اس نے رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اس کو سختی سے پکڑا۔

 فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا ﴿17﴾

(منکرین سے فرمایا گیا کہ) اگر تم کفر پر قائم رہے تو اس دن کے (عذاب سے) کیسے بچو گے جو دن بچوں کو بھی بوڑھا کردے گا۔

 السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ ۚ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا ﴿18﴾

آسمان پھٹ جائے اور اس کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہے گا۔

إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا ﴿19﴾

بیشک یہ (قرآن حکیم ) ایک نصیحت ہے۔ جو چاہیے اپنے رب تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لے۔

 إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿20﴾

بیشک آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں (صحابہ کرام (رض) میں کچھ لوگ آپ کے ساتھ دو تہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات تک (اللہ کی عبادت و بندگی کے لئے) کھڑے رہتے ہیں۔ اور دن رات کا اندازہ تو اللہ ہی لگا سکتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ تم وقت کا اندازہ کرنے پر قابو نہ پاسکو گے۔ اسی لیے اس نے تم پر توجہ فرمائی۔ اب تم قرآن میں سے جو آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں سے کچھ بیمار ہیں۔ بعض لوگ اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرنے کے لیے ملکوں کا سفر کرتے ہیں اور بعض اللہ کی راہ میں جہاد بھی کرتے ہیں تو جس قدر قرآن کا پڑھنا آسان اور سہل ہو تو پڑھ لیا کرو۔ نماز قائم کرو۔ زکوۃ دیتے رہو اور اللہ کو قرض حسنہ کے طور پر قرض دیتے رہو۔ اور تم جو بھی بھلا کام آگے بھیجو گے تو اس کو اللہ کے پاس بہتر اجر کے طور پر پالوگے۔ اللہ سے معافی مانگتے رہو۔ بیشک اللہ مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔

شان نزول

حدیث شریف میں آتا ہے کہ ابتدائے نبوت میں قریش مکہ دارالندوہ میں جمع ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مشورہ کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت کے مناسب کوئی لقب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تجویز کرنا چاہئے کہ سب اس پر متفق رہیں اور اسی نام کو لیکر مکہ سے باہر نکلیں، اور وہ نام اطراف ملک میں مشہور ہوجائے کسی نے کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہن ہیں، پھر رائے قرار پائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہن نہیں ہیں۔ کسی نے مجنون کہا، پھر اس کو بھی آپس میں غلط قرار دے دیا، پھر ساحر کہا اس کو بھی رد کردیا، اور بعض کہنے لگے کہ ساحر اس لیے درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوست کو دوست سے جدا کردیتے ہیں معاذ اللہ۔

 جب آپ کو یہ خبر پہنچی تو رنج ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنج کی حالت میں کپڑا اوڑھ کر لیٹ گئے جیسا کہ اکثر سوچ و غم میں آدمی ایسا کرلیتا ہے۔ اس پر حق تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو  یایھا المزمل سے خطاب فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار کی باتوں پر رنج نہ کریں۔ ( ملخص من بیان القرآن)

﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ نماز تہجد کی مشروعیت

زرارہ بن اوفی سعد بن ہشام سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رات کے قیام و تہجد کے بارے میں بتلایئے۔ انھوں نے فرمایا کہ: کیا تم یہ سورت مزمل نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ فرمایا کہ: اس سورت کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے رات کا قیام فرض قرار دیا ہے، چنانچہ اس بنا پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) رات کا اکثر حصہ میں التزاماً قیام فرمایا کرتے تھے، اور طویل قیام کی وجہ سے ان کے پاؤں پر ورم آجاتا تھا، اور اس صورت کی اختتامی آیات بارہ ماہ تک نازل نہیں ہوئیں ۔ بعد ازاں آخری آیات میں اس حکم کے بارے میں تخفیف نازل ہوگئی اور پھر اس کے قیام اللیل فرض نہیں رہا بلکہ نفل قرار دیا گیا ۔ (سنن ابى داود: 1342، سنن نسائى: 1601)

نیز حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں: جب سورة المزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو لوگ رمضان المبارک جتنا قیام اللیل کیا کرتے تھے،حتیٰ کہ اس سورت کی آخری آیات نازل ہوئیں اور اس کی ابتدائی اور اختتامی آیات کے نزول کی درمیانی مدت تقریباً ایک سال تھی۔ (سنن ابى داود: 1305، مستدرك على الصحيحين: 3864)

امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس باب میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ قیام اللیل کی فرضیت منسوخ ہوچکی ہے اور اب یہ نفل عبادت ہے۔ جس کی بہت ترغیب دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند ہے۔ اس کے اہتمام ، ترغیب اور فضائل کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت سے روایات و احادیث منقول ہیں۔ (أحكام القرآن للجصاص) (5/ 367)

 حضرت عبد الله بن عمرو (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: أحب الصلاة إلی الله صلاة داود کان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه، وأحب الصيام إلی الله صيام داود کان يصوم بوماً ويفطر يوماً. (أخرجه البخاري في صحيحه: 1131، ومسلم: 1159)

نیز حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے اور جب سپیدہ ٔ سحر ( صبح کا ذب) نمودار ہوتا تو تین رکعات سے وتر ادا فرمایا کرتے تھے، پھر تسبیح و ذکر میں مشغول ہوجاتے اور جب فجر ( صبح صادق) ہوجاتی تو دو رکعت سنت فجر ادا فرماتے تھے، نیز حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ (مسند بزار: 934)

﴿وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا﴾:  تبتل کے لفظی معنی انقطاع اور گوشہ نشینی و خلوت کے ہیں۔ (احکام القرآن ۔ جصاص : ج : ٣ : ص ٦٢٧)

آیت میں “تبتل إلیه تبتلاً کی تفسیر بعض حضرات نے  أخلص إليه إخلاصاً سے کی ہے جبکہ قتادہ سے منقول ہے کہ ” أخلص الیه الدعاء والعبادۃ “ اور بعض حضرات سے ” الا نقطاع الی اللہ “ مراد ہے۔ یعنی تمام تعلقات سے انقطاع ہوجائے اور اللہ کے سو ا کسی سے خیر کی امید نہ ہو۔

بہرحال حاصل یہ ہے کہ پہلے تو یہ حکم دیا گیا کہ حق تعالیٰ کو بلا واسطہ عبادت اور مناجات کے لیے تورات میں تہجد اور قیام کیا جائے لیکن دن میں بھی اگرچہ بظاہر مخلوق سے تعلقات و معاملات رکھنے پڑیں، لیکن دل کی توجہ اور قلبی تعلق رب العالمین سے ہی رہنا چاہئے۔ غیر اللہ کا کوئی تعلق ، اللہ تعالیٰ سے توجہ ہٹنے نہ دے ، بلکہ سب تعلقات کٹ کر باطن میں اسی ایک کا تعلق باقی رہ جائے اور اسی کی یاد ہر عمل میں غالب رہے۔ جسے صوفیا کرام رحمہم اللہ علیہ کے یہاں ” خلوت در انجمن “ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (من افادات شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی (رح)

﴿ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا ﴾

اس آیت میں ”شاھدا“ کا لفظ موجود ہے،اتنی بات یاد رکھیں اگر لفظ ”شاھد“ اور ”شھید“ سے حاضر و ناظر ہے جيسا كہ بعض لوگ كہتے ہيں تو جن سورتوں میں اس صفت کا ذکر ہے ان سب سے بعد میں سورة منافقون نازل ہوئی ہے، جس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاضر و ناظر ہونے کی تردید ہوتی ہے اور یہ محال ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت دوسری آیت کی اور ایک سورة دوسری سورة کی تردید کرے، اور اس کی سورتوں کا اس طرح آپس میں اختلاف اور تعارض واقع ہو ” حاشا کلا “ لہٰذا ” شاھد “ اور ” شھید “ سے حاضر و ناظر کا مراد لینا قرآن کریم کے سراسر خلاف ہے۔ ( تبرید النواظر : ص : ٨٨)

مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم نے تمہارے رسول کو اسی طرح بھیجا ہے جس طرح فرعون کے ہاں رسول موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا تھا فرعون نے انکار کیا اور ہم نے اس پر سخت گرفت کی، اگر قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے تو اس دن کے بچاؤ کی تم نے کونسی تدبیر کر رکھی ہے ؟ یہ قرآن کریم فرائض و حقوق انسانی کے لیے نصیحت ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف اس کے ذریعے سے راہ پائے۔

﴿ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ ﴾ الخ

اس آیت سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ قیام اللیل جو سورت کی ابتدائی آیات کی بنا پر ابتداء ً فرض کیا گیا تھا اس کا نسخ اس آیت سے ہوگیا ۔

آیت مذکورہ سے دوسرا حکم یہ معلوم ہوا کہ نماز میں قرأت کرنا فرض اور لازم ہے ، کیونکہ ارشاد ہے : ﴿فاقرء واما تیسر من القرآن

تیسرا حکم یہ معلوم ہوا کہ نماز تھوڑی قرأت سے بھی جائز ہوجاتی ہے۔

چوتھا حکم یہ معلوم ہوا کہ اگر نماز میں کسی نے سورة الفاتحہ نہیں پڑھی لیکن کوئی دوسری آیت یا سورت پڑھ لی تو اس سے فرض قرأت ادا ہوجاتا ہے۔

 اگر اس پر یہ اشکال جائے کہ مذکورہ تمام احکامات صلوٰۃ اللیل کے ضمن میں بیان کیے گئے ہیں جبکہ خود صلوٰۃ اللیل کی فرضیت منسوخ ہوچکی ہے تو اس آیت سے قرأت کے فرض ہونے وغیرہ امور پر استدلال کیونکر درست ہوگا ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ صلوٰۃ اللیل کی صرف فرضیت منسوخ ہوئی ہے اس کی شرائط اور احکامات تو منسوخ نہیں ہوئے، کیونکہ جب یہ احکام تطوع یعنی نفل ثابت اور لازم ہوگئے تو نماز ہونے کی حیثیت سے نفل اور فرض میں چونکہ کوئی فرق نہیں، اس لیے فرائض کے حق میں بھی ان امور کی فرضیت و اثبات پر استدلال درست ہے۔

نیز آیت میں فاقرءوا ما تیسر من القرآن میں صیغہ امر ہے وجوب کے لیے ہوتا ہے جب کہ نماز کے علاوہ کسی ایک موقع پر قرأت قرآن واجب نہیں ۔ لہٰذا لا محالہ اس نے نماز میں قرأت قرآن کی فرضیت وجوب بیان کیا گیا ہے۔

اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں قرأت سے نفل نماز کی قرأت مراد ہے تو یہ نفل میں فرضیت قرأت کی دلیل ہے، لیکن یہ فرض نماز میں قرأت کی فرضیت کی دلیل کیسے ہوسکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ بلاشبہ نفل نماز کا پڑھنا انسان پر فرض تو نہیں لیکن جب بھی کوئی نفل نماز پڑھے گا تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اسے اس کی تمام شرائط کے ساتھ پڑھے اور انہی شرائط میں سے فرضیت قرأت بھی ہے اور جس طرح نفل پڑھنے والے پر نماز کی دیردیگر شرائط کی پابندی ضروری ہے مثلاً : طہارت ، ستر ، استقبال قبلہ وغیرہ ایسے قرأت بھی فرض ہوگی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انسان پر بیع و شراء خریدو فروخت اور بیع کی دیگر اقسام مرابحہ سلم وغیرہ کوئی فرض نہیں لیکن اگر کوئی یہ معاملات کرے تو پھر ان کی تمام شرائط کی پابندی ضروری ہے۔ ( احکام القرآن ۔ جصاص : ج : ٣: ص ٢٦٨)



Surah Muzammil With Urdu Translation PDF 318 KB



Surah Muzammil PDF Download Only Arabic 62 KB

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply