surah muhammad with urdu translation

Surah Muhammad With Urdu Translation, Surah Muhammad Tafseer in Urdu

ترجمہ اور تفسير سورہ محمد

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے۔

الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿1﴾

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیئے

 وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ﴿2﴾

اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کئے اور ایمان لنائے اس چیز پر جو محمد پر نازل کی گئی اور وہی حق ہے ان کے رب کی جانب سے اللہ نے ان سے ان کی برائیاں دور کردیں اور ان کا حال سنوار دیا۔

 ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَبِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ ﴿3﴾

یہ اس لیے ہے کہ جنہوں نے کفر و انکار کیا (در حقیقت) انھوں نے باطل (جھوٹ) کی پیروی کی ۔ اور بیشک جو لوگ ایمان لائے انھوں نے ایک سچے دین کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔ اس طرح اللہ لوگوں کے سامنے ان کے حالات بیان کرتا ہے ۔

 فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿4﴾

پھر جب تمہارا کفار سے مقابلہ ہوجائے تو ان کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب تم خوب قتل کر چکو تو پھر ان کو مضبوط باندھ لو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان کر کے یا فدیہ لے کر چھوڑ دو یہاں تک کہ لڑنے والے اپنے ہتھیار نہ رکھ دیں ۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو کافروں سے انتقام لے لیتا ۔ لیکن اس نے تمہیں جہاد کا حکم دیا ہے تاکہ وہ تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائے اور جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں تو اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا ۔

 سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ ﴿5﴾

اللہ بہت جلد ان کو راہ ہدایت دکھائے گا اور ان کی حالت کو درست کردے گا ۔

 وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ ﴿6﴾

اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس کی انھیں پہچان کرادی گئی ہے۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ﴿7﴾

اے ایمان والو ! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرور گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

 وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿8﴾

اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے تباہی ہے (اور سب سے بڑی تباہی یہ ہے کہ ) وہ ان کے اعمال کو ضائع کردے گا

 ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ﴿9﴾

یہ اس سبب سے کہ انھوں نے اللہ کے اتارے ہوئے (احکام) کو ناگوار جانا اس نے ان کے اعمال کو اکارت کردیا۔

 أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا ﴿10﴾

کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے گذرے ہیں ( نافرمانیوں کی وجہ سے ) ان کا انجام کیسا ہو ؟ اللہ نے (ان کفرو انکاری کی وجہ سے ) ان پر تباہی و بربادی مسلط کردی ۔ اور یہی حالات ان ( موجودہ) کافروں کے بھی ہونے والے ہیں

 ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ ﴿11﴾

یہ اسی سبب سے کہ اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے، اور کافروں کا کوئی کار ساز نہیں۔

 إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ﴿12﴾

بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح کئے ان کو ایسی جنتوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ اس (دنیا میں خوب) عیش و آرام سے کھار ہے ہیں جس طرح جانور کھاتے ہیں لیکن ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔

 وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِنْ قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ ﴿13﴾

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتنی ہی آبادیاں ایسی گذر چکی ہیں جیسی آپ کی بستی ہے جس سے آپ کو (کافروں نے ) نکالا ہے جو طاقت و قوت میں ان سے بڑھ کر تھیں لیکن جب ان کو ہلاک کیا گیا تو کوئی بھی ان کا مدد گار نہ بن سکا۔

 أَفَمَنْ كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ﴿14﴾

تو کیا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل پر ہیں وہ ان لوگوں کی طرح ہوجائیں گے جن کی بد عملی ان کی نگاہ میں خوش نما کردی گئی ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چل رہے ہیں۔

 مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ ﴿15﴾

جس جنت کا متقیوں سے وعدہ کیا جاتا ہے، اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نہریں متغیر نہ ہونے والے پانی کی ہوں گی، اور نہریں ذائقہ نہ بدلنے والے دودھ کی ہوں گی اور نہریں پینے والوں کے لیے خوش ذائقہ، شراب کی ہوں گی اور نہریں شہد صاف کی ہوں گی اور وہاں ان کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے اور ان کے پروردگار کی طرف سے بخشش ہوگی۔ (تو کیا ایسے لوگ) ان لوگوں جیسے ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور کھولتا ہوا پانی نہیں پہنے کو دی جائے گا، وہ ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے گا،

 وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ﴿16﴾

ان میں سے بعض ایسے لوگ ہیں جو آپ کی طرف کان لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس سے نکلتے ہیں ( تو یہ منافق) ان لوگوں سے جن کو (کبھی توراۃ وغیرہ کا ) علم دیا گیا تھا کہتے ہیں کہ اس شخص نے ابھی ابھی کیا کہا تھا ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہریں لگادی ہیں جو اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔

 وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ ﴿17﴾

لیکن وہ لوگ جنہیں اللہ کی طرف سے ہدایت مل گئی ہے اللہ ان کی ہدایت کو اور بڑھا دیتا ہے اور ان کو تقویٰ کی توفیق دیتا ہے۔

 فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ ﴿18﴾

کیا یہ لوگ اس گھڑی کے (قیامت کے) منتظر ہیں ؟ (یادرکھو) وہ اچانک آئے گی بیشک اس کی علامتیں توآہی چکی ہیں۔ پھر ان کو اس کے آنے کے بعد سمجھنے کا کہاں موقع ملے گا۔

 فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ ﴿19﴾

تو آپ اس کا یقین رکھئے کہ بجز اللہ کے کوئی معبود نہیں اور اپنی خطا کی معافی مانگتے رہئے اور سارے ایمان والوں اور ایمان والیوں کے لیے بھی، اور اللہ خوب خبر رکھتا ہے تم (سب) کے چلنے پھرنے اور رہنے سہنے کی۔

 وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ ﴿20﴾

اور جب وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں کہتے ہیں کہ کوئی (جہاد کے لئے) آیت نازل کیوں نہ کی گئی ؟ لیکنجب ایسی سورت نازل کردی جاتی ہے کہ جس کے معنی بالکل صاف اور واضح ہیں تو آپ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں (منافقت کا) مرض ہے دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہوں گے جیسے ان پر موت کی بےہوشی طاری ہوگئی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔

 طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ ۚ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ﴿21﴾

فرمان برداری کی اور بھلی بات ہی کہنی چاہیے۔ پھر جب (جہاد کا حکم) آجائے اور وہ اللہ کے سامنے سچے ثابت ہوجائیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔

 فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴿22﴾

اگر تم کنارہ کش رہو تو تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم لوگ دنیا میں فساد مچا دوگے اور آپس میں قطع قرابت کر لوگے۔

 أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ ﴿23﴾

یہی لوگ تو ہیں جن پر اللہ کی لعنت کی ہے سو انھیں بہرا کردیا، اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے۔

 أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴿24﴾

کیا وہ لوگ قرآن میں غور و تدبر نہیں کرتے ؟ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑگئے ہیں؟

 إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ ﴿25﴾

بیشک جو لوگ پشت پھیر کر ہٹ گئے بعد اس کے راہ ہدایت ان پر صاف ظاہر ہوچکی تھی انھیں شیطان نے چکمہ دیا، اور انھیں دور دور کی سجھائی۔

 ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ ۖ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ ﴿26﴾

یہ اسی سبب سے ہوا کہ انھوں نے ان لوگوں سے جو اللہ کے اتارے ہوئے احکام کو ناگوار سمجھتے ہیں کہا کہ ہم چند امور میں تمہارا کہنا مان لیں گے، اور اللہ ان کی خفیہ باتیں کرنے کو خوب جانتا ہے۔

 فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ﴿27﴾

سو ان کا کیا حال ہوگا، جب فرشتے ان کی جان قبض کررہے ہوں گے ، اور ان کے چہروں پر اور پشتوں پر مارتے جاتے ہوں گے

 ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ ﴿28﴾

یہ (سب) اس سبب سے ہوگا کہ یہ اس راہ پر چلے جو طریقہ اللہ کی ناخوشی کا تھا اور اس کی رضا سے بیزار رہے سو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیئے۔

 أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ ﴿29﴾

کیا جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ کبھی ان کی دلی عداوتوں کو کھول نہ دے گا؟

 وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيمَاهُمْ ۚ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ ﴿30﴾

اور اگر ہم چاہتے تو ہم آپ کو ان کا پورا پتہ بتا دیتے تو آپ انھیں ان کے حلیہ سے پہچان لیتے، اور آپ انھیں (ان کے) طرز کلام سے ضرور پہچان لیں گے، اور اللہ تمہارے (سب کے) اعمال کو خوب جانتا ہے۔

 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ﴿31﴾

اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے، تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور تم میں سے ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم کرلیں اور تاکہ تمہاری حالتوں کو چانچ کرلیں۔

 إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَىٰ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ ﴿32﴾

بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور انھوں نے اللہ کے راستہ سے روکا (بھی) اور رسول کی مخالفت کی بعد اس کے کہ راہ راست ان پر واضح ہوچکی تھی ہرگز یہ لوگ اللہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور اللہ ان کی کاروائیوں کو اکارت کرکے رہے گا۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿33﴾

اے ایمان والو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اعمال کو رائیگاں مت کردو۔

 إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ﴿34﴾

بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور اللہ کے راستہ سے انھوں نے روکا پھر وہ کافر ہی مر بھی گئے تو اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا۔

 فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ﴿35﴾

اے ایمان والو ! تم ہمت نہ ہارو کہ تم ان کو صلح کی طرف بلانے لگو۔ تم ہی سر بلند رہو گے کیونکہ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہارے اعمال ( کے اجرو ثواب) میں کمی نہ کرے گا۔

 إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ ﴿36﴾

دنیا کی زندگی سوائے کھیل کود کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اگر تم ایمان لے آئے اور تم نے تقویٰ کی روش کو اختیار کیا تو وہ تمہیں اجروثواب عطاکرے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہ کرے گا۔

 إِنْ يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ ﴿37﴾

اور اگر وہ تم سے کل مال طلب کرنے لگے اور طلب کرنے میں انتہائی درجہ تک تم سے طلب کرے تو تم بخل اور کنجوسی کرنے لگو گے ( اس وقت) اللہ تمہارے دلوں کی ناگواریوں کو ظاہر کردے گا۔

 هَا أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ ۖ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ ﴿38﴾

سن لو ! تم لوگ تو ایسے ہو کہ جب تمہیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے بلایاجاتا ہے تو تم میں سے بعض لوگ کنجوسی کرتے ہیں۔ اور جو شخص بخل اور کنجوسی کرے گا تو درحقیقت اپنے آپ سے بخل کرے گا۔ اللہ تو بےنیاز ہے جب کہ تم اس کے محتاج ہو۔ اور اگر تم نے اس سے منہ پھیرا تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ جو تم جیسے (بخیل اور کنجوس) نہ ہوں گے۔

تعارف سورة محمد

 یہ سورت مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں، اور بیشتر مفسرین کی رائے میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی، یہ وہ وقت تھا جب عرب کے کفار مدینہ منورہ کی ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت کو کسی نہ کسی طرح زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، اور اس پر حملے کرنے کی تیاریاں کررہے تھے، اس لیے اس سورت میں بنیادی طور پر جہاد و قتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کا کلمہ بلند رکھنے کے لیے جہاد کرتے ہیں، ان کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، مدینہ منورہ میں ایک بڑی تعداد ان منافقوں کی تھی جو زبان سے تو اسلام لے آئے تھے، لیکن دل سے وہ کافر تھے، ایسے لوگوں کے سامنے جب جہاد اور لڑائی کی بات کی جاتی تو اپنی بزدلی اور دل کے کھوٹ کی وجہ سے لڑائی سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے تھے، اس سورت میں ان کی مذمت کرکے ان کا برا انجام بتایا گیا ہے، جنگ کے دوران جو قیدی گرفتار ہوں ان کے احکام بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، چونکہ اس سورت کی دوسری ہی آیت میں حضور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبارک نام لیا گیا ہے، اس لیے اس کا نام سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، چونکہ اس میں جہاد و قتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں اس لیے اس کو سورة قتال بھی کہا جاتا ہے۔

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ

اللہ کی راہ سے روکنے والے کفار کے مصادیق

حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : ان کافروں سے مراد اہل مکہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیا اور انھوں نے خود اپنے آپ کو بھی دین اسلام میں داخل ہونے سے روکا اور دوسرے ان لوگوں کو بھی دین اسلام میں داخل ہونے سے روکا اور شدت سے منع کیا جو دین اسلام میں داخل ہونا چاہتے تھے اور ضحاک نے کہا : اس سے مراد وہ کفار ہیں جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو عمرہ کے قصد سے بیت اللہ میں داخل ہونے سے حدیبیہ کے مقام پر روک لیا تھا اور آپ کو اور آپ کے اصحاب کو حدود حرم میں داخل ہونے نہیں دیا، یہ چھ ہجری کا واقعہ ہے اور بعد میں ایک صلح نامہ کے ذریعہ یہ طے پایا تھا کہ اس سال تو آپ اور آپ کے اصحاب عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال اس عمرہ کی قضاء کرلیں۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد وہ بارہ کفار ہیں جنہوں نے بدر کے لشکر کفار کی خوراک کا ذمہ لیا تھا وہ یہ تھے : ابو جہل، الحارث بن ہشام، شیبہ، (ربیعہ کے دو بیٹے) ، ابی اور امیہ (خلف کے دو بیٹے) ، منبہ، نبیہ ‘ (حجاج کے دو بیٹے) ، ابو البخری بن ہشام، زمعۃ بن الاسود، حکیم بن حزما، الحارث بن عامر بن نوفل۔ ان کو اس کھانا کھلانے کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٩١)

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ

اس محمد کی تشریح اور تحقیق

حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں، اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں، اللہ تعالیٰ میرے بعد حشر قائم کرے گا اور میں عاقب ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث ؛ ٣٥٣٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٥٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨٤٠، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٥٩٠)

اس حدیث کی شرح میں علامہ محمد بن خلیفہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ لکھتے ہیں :

نام محمد کے فضائل اور خصوصیات

علامہ ابی مالکی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار سماء ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی اتنے ہی اسماء ہیں اور ساٹھ سے زیادہ اسماء کا انھوں نے بالتفصیل ذکر کیا ہے۔

” محمد “ حمد سے ماخوذ ہے اور مفعل کے وزن پر اسم مفعول کا صیغہ ہے، اس کا معنی ہے : بہت زیادہ حمد کیا ہوا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس اس کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی حمد کی ہے جو کسی اور کی نہیں کی اور آپ کو وہ محامد عطا کیے ہیں جو کسی اور کو عطاء نہیں کیے اور قیامت کے دن آپ کو وہ چیزیں الہام کرے گا جو کسی اور کو الہام نہیں کرے گا، جس شخص میں خصال محمودہ کامل ہوں اس کو محمد کہا جاتا ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ باتب، تکثیر کے لیے ہے یعنی جس کی بہت زیادہ حمد کی جائے وہ محمد ہے، ابن قتیبہ نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ آپ سے پہلے کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا، جیسے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا تھا۔ (اکمال اکمال المعلم ٨ ص ٩٣، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

” محمد “ تمحید کا اس مفعول ہے، اس کو وصفیت سے اسمیت کی طرف مبالغتہ نقل کیا گیا ہے، بہ کثرت خصال محمودہ کی بناء پر آپ کا نام محمد رکھا گیا ہے یا اس لیے کہ آپ کی بار بار حمد کی جاتی ہے یا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بہت حمد کرے گا، اسی طرح ملائکہ، انبیاء اور اولیاء آپ کی حمد کریں گے، یا نیک فال کے لیے آپ کا نام محمد رکھا گیا، یا اس لیے کہ اوّلین اور آخرین آپ کی حمد کریں گے اور قیامت کے دن تمام اولین اور آخرین آپ کی حمد کے جھنڈے تلے ہوں گے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھر والوں کے دل میں یہ الہام کیا کہ وہ آپ کا نام ” محمد “ رکھیں۔

نیز ملا علی قاری لکھتے ہیں : احادیث میں آپ کے اسماء کے بیان میں ” محمد “ کو احمد پر مقدم کیا گیا ہے، کیونکہ ” محمد “” احمد “ سے زیادہ ظاہر اور زیادہ مشہور ہے، بلکہ ابو نعیم نے روایت کیا کہ مخلوق کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے آپ کا نام محمد رکھا گیا اور کعب احبار نے روایت کیا ہے کہ عرش کے پائے پر، سات آسمانوں، جنت کے محلات اور بالاخانوں پر، حوروں کے سینوں پر، جنت کے درختوں پر اور درختوں کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان ” محمد “ لکھا ہوا ہے، اس نام کو تمام ناموں پر فضیلت ہے، ابو نعیم نے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! جو شخص تمہارا نام رکھے گا میں اس کو جہنم میں نہیں ڈالوں گا اور یہ بھی روایت ہے کہ جس کا نام محمد یا احمد ہوگا میں اس کو آگ میں نہیں ڈالوں گا اور ویلمی نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس دستر خوان پر محمد یا احمد نام کا شخص ہوگا میں اس گھر کو دن میں دو بار پاک کروں گا۔ ابن قتیبہ نے کہا کہ آپ کی نبوت کی علامت میں سے یہ ہے کہ آپ سے پہلے کسی کا نام ” محمد “ نہیں رکھا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ ان سے پہلے ہم نے یہ نام نہیں رکھا، البتہ جب آپ کی ولادت کا زمانہ قریب آیا اور اہل کتاب نے آپ کی ولات کے زمانہ کے قریب آنے کی بشارت دی تو بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں کا نام محمد رکھا کہ شاید ان میں سے کوئی وہ نبی ہو، لیکن اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے کس کو رسول بنانا ہے، زیادہ مشہور یہ ہے کہ پندرہ بچوں کا نام ” محمد “ رکھا گیا۔ (جمع الوسائل ج ٢ ص ٢٢٧۔ ٢٢٦، نور محمد اصح المطابع، کراچی)

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں: آپ کا نام محمد ہونا آپ کے کمال مطلق ہونے کی دلیل ہے۔

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احمد تھے اور اس کے بعد محمد ہوئے، کیونکہ پہلی کتابوں میں آپ کا نام احمد تھا اور قرآن مجید میں آپ کا نام محمد ہے اور آپ نے لوگوں میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی، اسی طرح آپ آخرت میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گی اور اس کے بعد شفاعت کریں گے اور آپ سے سن کر لوگ اللہ کی حمد کریں گے، آپ سورة الحمد، لواء حمد (حمد کے جھنڈے) اور مقام محمود کے ساتھ مخصوص ہیں، کھانے، پینے، دعا اور سفر سے واپسی کے بعد آپ کے لیے حمد مشروع کی گئی ہے، آپ کی امت کا نام حمادین رکھا گیا ہے اور آپ کے لیے حمد کے تمام معانی اور اقسام جمع کیے گئے ہیں۔ (فتح الباری ج ٦ ص ٥٥٥، لاہور)

اسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصی عظمتیں

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس دو سیاہ فام، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے، وہ کہیں گے : تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ وہ آپ کو دنیا میں جو کچھ کہتا تھا وہی کہے گا، وہ کہے گا : یہ اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، فرشتے کہیں گے : ہم کو معلوم تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر اس کی قبر میں ستر ضرب ستر (٧٠ x ٧٠) وسعت کردی جائے گی، پھر اس کے لیے اس کی قبر منور کردی جائے گی۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٠٧١، السنتہ لابن ابی عاصم رقم الحدیث : ٨٢٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣١١٧، الشریعہ للاجری رقم الحدیث : ٣٢٥، سنن بیہقی رقم الحدیث : ٥٦ )

حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب لوگ میت کو دفن کرکے چلے جاتے ہیں تو اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اسے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے، پھر پوچھتے ہیں : تیرا دن کونسا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلا ہے، پھر پوچھتے ہیں : وہ شخص کون تھا جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، (الی قولہ) پھر آسمان سے نداء کی جائے گی میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لیے جنت سے فرش بچھا دو اور اس کو جنت کا لباس پہنچا دو اور اس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دو ، الحدیث بطولہ۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٧٥٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٦٩ )

فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ

جن کافروں کے متعلق جہاد کا حکم ہے ان کا مصداق

حضرت ابن عباس نے فرمایا : کفار سے مراد وہ شرک ہیں جو بتوں کی عبادت کرتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ کفار سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین اسلام کے مخالف ہیں خواہ وہ مشرک ہوں یا اہل کتاب ہوں، بشرطیکہ ان کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو، نہ وہ ذمی ہیں، الماوردی اور ابن العربی کا بھی یہی مختار ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٩٣، احکام القرآن ج ٤ ص ١٢٩ )

کفار کا خون بہانے کے بعد ان کو گرفتار کرنے کے متعلق مذاہب فقہاء

اس آیت کی تفسیر میں حسب ذیل پانچ اقوال ہیں :

(١) قتادہ، ضحاک، ابن جریج اور العوفی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت بت پرستوں کے متعلق ہے، ان کو فدیہ لے کر چھوڑنا جائز ہے اور نہ ان پر احسان کرکے انھیں بلامعاوضہ چھوڑنا جائز ہے، ان کے نزدیک اس آیت کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اور اس کی ناسخ حسب ذیل آیتیں ہیں :

۔۔۔(التوبہ : ٥) پس مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو۔

۔۔۔(الانفال : ٥٧) پس اگر آپ کا میدان جنگ میں ان سے سامنا ہو تو ان لوگوں کو مار مار کر بھگا دیں جو ان کے پیچھے ہیں۔

۔۔۔(التوبہ : ٣٦) اور تمام مشرکین سے قتال اور جہاد کرو۔

بہ کثرت کوفیوں کو یہی قول ہے، عبد الکریم جوزی نے کہا ہے کہ حضرت ابوبکر کی طرف لکھا گیا کہ چند مشرکین کو قید کرلیا گیا ہے اور یہ لکھا گیا کہا انھوں نے اتنے اتنے فدیہ کی پیش کش کی ہے، حضرت ابوبکر (رض) نے لکھا کہ ان کو قتل کردو، مشرکیں میں سے ایک شخص کو قتل کرنا ان کے نزدیک اتنے اتنے فدیہ سے زیادہ بہتر ہے۔ (تفسیر عبد الرزاق رقم الحدیث : ٢٨٦٤ )

(٢) امام ابوحنیفہ کا مشہور مذہب اور مجاہد اور علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ آیت تمام کفار کے متعلق ہے اور یہ آیت منسوخ ہے، انھوں نے کہا : جب مشرک کو قید کرلیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے کہ اس پر احسان کرکے یا اس سے فدیہ لے کر اس کو رہا کردیا جائے اور مشرکین کی طرف اس کو واپس کردیا جائے، البتہ قیدی عورتوں کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ عورتوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، اور اس آیت کی ناسخ یہ آیت ہے: ۔۔۔(التوبہ : ٥) پس مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو۔

کیونکہ سورة توبہ آخر میں نازل ہوئی ہے، پس ہر مشرک کو قتل کرنا واجب ہے، سو اعورتوں اور بچوں کے کیونکہ حدیث میں ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٣١)

اسی طرح جن اہل کتاب سے جزیہ لیا جائے ان کو بھی قتل نہ کیا جائے، کیونکہ اگر ان مشرکین کو فدیہ لے کر یا بغیر فدیہ کے چھوڑ دیا گیا تو یہ خدشہ ہے کہ وہ پھر مسلمانوں سے جنگ کرنا شروع کردیں گے۔ امام عبد الرزاق نے بھی اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ یہ آیت ”۔۔۔“ الانفال : ٥٧ اور التوبہ : ٥ سے منسوخ ہے۔ (تفسیر عبد الرزاق رقم الحدیث : ٢٨٧٠)

(٣) ضحاک اور ثوری نے بیان یا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ ناسخ ہے، ابن المبارک نے ازابن جریج از عطا روایت کیا ہے کہ قیدیوں کو احسان کرکے چھوڑ دیا جائے یا ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور کسی مشرک قیدی کو قتل نہ کیا جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد : ٤ میں فرمایا ہے۔ اشعت نے کہا کہ حسن بصری قیدی کے قتل کرنے کو مکروہ قرار دیتے تھے اور انھوں نے کہا کہ سربراہ مملکت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جب اس کے پاس قیدی آئیں تو وہ ان کو قتل کردے، لیکن اس کو تین چیزوں میں سے ایک چیز کا اختیار ہے، یا ان کو بلا معاوضہ چھوڑ دے یا فدیہ لے کر چھوڑ دے یا ان کو غلام بنا لے۔

(٤) سعید بن جبیر نے کہا : جب تک مشرکین کو اچھی طرح قتل کرکے ان کا خون نہ بہایا جائے اس وقت تک ان کو قید کرنا جائز نہیں ہے اور جب ان کو قید کرلیا جائے تو پھر سربراہ مملکت جو مناسب سمجھے ان کے متعلق وہ فیصلہ کرے۔

(٥) حضرت ابن عمر (رض) ، حسن، عطاء ‘ امام مالک، امام شافعی، ثوری، اوزاعی، ابو عبید اور بہ کثرت علماء کا یہ مذہب ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے اور سربراہ مملکت کو ہرحال میں اختیار ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء راشدین نے تمام صورتوں پر عمل کیا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو جنگ بدر میں قتل کردیا تھا اور بدر کے باقی قیدیوں سے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا تھا اور ثمامہ بن اثال پر احسان کرکے اس کو بلامعاوضہ چھوڑ دیا تھا جب کہ وہ آپ کی قید میں تھا اور حضرت سلمہ بن اکوع سے ایک قیدی باندی لے کر اس کے بدلہ میں مشرکین کے قبضہ سے مسلمان قیدیوں کو چھڑا لیا تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اہل مکہ سے کچھ لوگ آئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو گرفتار کرلیا اور ان پر احسان کرکے ان کو چھوڑ دیا اور آپ نے ہوازن کے قیدیوں پر احسان کرکے ان کو چھوڑ دیا اور یہ تمام واقعات احادیث صحیح سے ثابت ہیں، سورة الانفال : ٦٧ کی تفسیر میں ہم نے ان تمام چیزوں کو باحوالہ بیان کیا ہے، النحاس نے کہا ہے کہ ان دونوں آیتوں پر عمل کیا گیا ہے اور یہ محکم ہیں منسوخ نہیں ہیں اور یہ بہترین قول ہے کیونکہ نسخ دلیل قطعی سے ثابت ہوتا ہے، پس جب ان دونوں آیتوں (التوبہ : ٥ اور محمد : ٤) پر عمل کرنا ممکن ہے تو پھر ان میں سے کسی ایک کو منسوخ قرار دینے کی کیا ضرروت ہے ؟ اور جب کفار سے مقابلہ ہوگا تو ہم کافروں کو قتل کریں گے اور جب کفار ہماری قید میں ہوں گے تو ہم انھیں قتل بھی کرسکتے ہیں اور فدیہ لے کر یا ان پر احسان کر کے ان کو آزاد بھی کرسکتے ہیں اور جس صورت میں مسلمانوں کا فائدہ ہوگا ہم اس پر عمل کریں گے۔ یہ قول اہل مدینہ، امام شافعی اور ابو عبید سے منقول اور امام طحاوی نے نقل کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے اور مشہور ان کا وہ قول ہے جس کو ہم نے پہلے نقل کیا ہے۔ (الجامع لاحکام القرٓان جز ١٦ ص ٢١١۔ ٢٠٩، ملخصا، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

جہاد کا حکم کب ختم ہوگا ؟

مجاہد اور ابن جبیر نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ تم کفار کے خلاف اسی طرح جہاد کرتے رہو حتیٰ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہو۔ اور حسن بصری نے کہا : حتیٰ کہ ہر یہودی، عیسائی اور ہر دین والا اسلام لے آئے اور بکری بھیڑیے کے شر سے محفوظ ہوجائے۔ الفراء نے کہا : حتیٰ کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں اور کفر چلا جائے۔ کلبی نے کہا : حتیٰ کہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے۔ ایک قول یہ ہے : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تم اس وقت تک ان کو قید میں رکھو حتیٰ کہ کفار سے تمہاری جنگ ختم ہوجائے اور تمہارے دشمن اپنے ہتھیار رکھ دیں یا ان کو کھلی شکست ہوجائے یا تمہارا ان سے صلح کا معاہدہ ہوجائے۔

اس کے بعد فرمایا : اور اگر اللہ چاہتا تو (از خود) ان سے انتقام لیتا ( لیکن وہ یہ چاہتا ہے) کہ وہ تم میں سے ایک فریق کو دوسرے فریق کے ذریعہ آزمائے اور جو لوگ اللہ کے راستہ میں قتل کیے جاتے ہیں، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا

اللہ تعالیٰ ان سے از خود بدلہ لے لیتا، اس کا ایک محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بغیر جنگ کے ہلاک کردیتا اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کا ایک لشکر بھیج کر ان کو ہلاک کردیتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ تم کو آزمائے اور تم میں سے اطاعت گزاروں کو ظاہر کرے کہ کون جنگ کی مصیبتوں پر صبر کرکے اجرو ثواب کی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب کے لیے میدان جہاد میں شرکت کرتا ہے اور کون جنگ کی ہول ناکیوں اور مصائب سے گھبرا کر جہاد میں شرکت سے گزیز کرتا ہے۔

اسیرانِ جنگ کے بارے میں اسلام کی ہدایات

ہر چند کہ اسیران جنگ کو غلام بنانا جائز ہے لیکن اسلام میں جنگی قیدیوں کے بارے میں دو صورتیں اور بھی ہیں، قرآن مجید میں ہے : ”۔۔۔“ (محمد : ٤) ” مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو “ سے منسوخ ہے ‘ لیکن صحیح یہ ہے کہ اما ابوحنیفہ کے نزدیک بھی جنگی قیدیوں کو قیدیوں سے تبادلہ میں یا بلا معاوضہ چھوڑ دینا جائز ہے، اور یہ آیت منسوخ نہیں ہے اور اس طرح یہ مسئلہ اتفاقی ہے۔

علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں : اگر جنگی قیدی اسلام قبول نہ کریں تو امیر چاہے تو ان کو قتل کردے یا ان کو غلام بنا لے یا ان سے فدیہ لے کر ان کو آزاد کردے، یہ حکم مشرکین عرب اور مرتدین کے ماسوا میں ہے اور قیدیوں کو بلا معاوضہ چھوڑ دینا حرام ہے۔ امام شافعی نے اس کو جائز قرار دیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” فاما منا بعد واما فداء “ ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت ” فاقتلوا المشرکین حیث و جدتموھم “ سے منسوخ ہے۔ (شرح مجمع) اسی طرح جنگ کے ختم ہونے کے بعد ان سے فدیہ لے کر انھیں چھوڑنا بھی حرام ہے، البتہ جنگ کے اختتام سے پہلے مال کے بعدبدلہ میں چھوڑنا جائز ہے، لیکن مسلمان قیدیوں سے تبادلہ جائز نہیں ہے۔ (درصدر الشریعۃ) امام محمد اور امام ابو یوسف نے کہا ہے کہ فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنا جائز ہے اور امام ابوحنیفہ سے بھی یہی روایت زیادہ ظاہر ہے۔ (شمنی) (الدررمع الروج ٦ ص ١٧١، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں : علامہ زیلعی نے ذکر کیا ہے کہ ” سیر کبیر “ میں لکھا ہے کہ ظاہر روایت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جنگی قیدیوں کو فدیہ کے بدلے میں چھوڑ دینا جائز ہے اور ان سے منقول دو روایتوں میں یہی زیادہ ظاہر روایت ہے اور ” فتح القدیر “ میں ہے کہ امام محمد اور امام ابو یوسف کا بھی یہی قول ہے اور یہی ائمہ ثلاثہ کا قول ہے اور ” صحیح مسلم “ اور دیگر کتب حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ نے دو مسلمانوں کے بدلہ میں ایک مشرک کو چھوڑ دیا اور مکہ میں قید کیے جانے والے مسلمانوں کے بدلہ میں ایک عورت کو چھوڑ دیا، (علامہ شامی کہتے ہیں ) میں کہتا ہوں کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ فدیہ لے کر قیدی چھوڑنا حرام ہے اس سے مراد مالی فدیہ ہے، جب کہ مال کی ضرورت نہ ہو اور ضرورت کے وقت مالی فدیہ کے عوض بھی جنگی قیدی چھوڑنا جائز ہے اور مسلمان قیدیوں کے تبادلہ میں چھوڑنا بھی جائز ہے۔ (رد المختار ج ٦ ص ٥١، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ: ”فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم“ کا حکم جنگی قیدیوں سے متعلق نہیں ہے کیونکہ ان کو غلام بنانا بالاجماع جائز ہے، اس سے ثابت ہوا کہ یہ آیت ” فاما منا بعد واما فداء “ کے لیے ناسخ نہیں ہے۔ لہٰذا جنگی قیدیوں کو بلا معاوضہ چھوڑ دینا اور قیدیوں سے تبادلہ میں رہا کرنا دونوں صورتیں جائز ہیں۔

جنگی قیدیوں کے غلام بنانے کی مشروعیت کا سبب

غلاموں کے بارے میں اسلام نے جو احکام دئیے ہیں ان کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر شخص پر یہ واضح ہوگا کہ اسلام کی نظر میں انسان کو انسان کا غلام بنانا ایک ناپسندیدہ فعل ہے، چونکہ بعثت سے پہلے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کا ایک عام دستور تھا اور قیدیوں کے تبادلہ میں یا انھیں احساناً رہا کرنے کا رواج نہیں تھا۔ اس لیے اسلام نے قیدیوں کے غلام بنانے کو اباحت کے درجہ میں جائز رکھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ دو اور صورتیں بھی بیان کردیں کہ مال کے بدلہ میں یا مسلمان قیدیوں کے تبادلہ میں جنگی قیدی آزاد کردیے جائیں یا بطور احسان بلامعاوضہ جنگی قیدی چھوڑ دئیے جائیں۔ اس سلسلے میں تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی کافر ملک نے مسلمان قیدیوں کو غلام بنایا ہو تو مسلمانوں کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ کافر ملک کے جنگی قیدیوں کو غلام بنالیں کیونکہ ”۔۔۔“ (الشوریٰ : ٤٠) ” اور برائی کا بدلہ تو اسی کی مثل برائی ہے “ اور اگر کافر ملک نے مسلمان قیدیوں کو غلام نہ بنایا ہو، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کو قید کر رکھا ہو اور ان کی رہائی کے عوض وہ اپنے جنگی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں تو تبادلہ میں جنگی قیدی چھوڑ دینے چاہیں اور اگر کافروں نے ہمارے قیدیوں کو تبرعاً بلا معاوضہ چھوڑ دیا ہو تو ان کی بہ نسبت مکارم اخلاق سے متصف ہونے کے ہم زیادہ لائق ہیں۔ اس لیے ایسے موقع پر ہمیں بھی ان کے قیدیوں کو احساناً اور تبرعاً بلا معاوضہ چھوڑ دینا چاہیے، اس تحقیق سے واضح ہوگیا کہ اسلام میں جنگی قیدیوں کو لوندی غلام بنانے کی عام اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو ایک خاص ضرورت میں بوجہ مجبوری جائز کیا گیا ہے۔ اس کی پوری تفصیل اور تحقیق ” شرح صحیح مسلم “ کتاب الجہاد “ (جلد خامس) میں ملاحظہ فرمائیں۔

جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے فوائد اور ثمرات

پہلی چیز تو یہ ہے کہ جب کوئی جنگی قیدی غلام بن کر کسی مسلمان کے پاس رہے گا تو اس کو مسلمانوں کے مکارم اخلاق کو دیکھنے کو موقع ملے گا اور یہ محسوس کرے گا کہ قید خانہ کی ہول ناک اذیتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا غلام بن کر رہنا کہیں بہتر ہے، کیونکہ اسلام نے غلاموں کے بارے میں جو ہدایت دی ہیں ان پر عمل کرنے کے بعد غلامی کا صرف نام رہ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (النساء : ٣٦) ” ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار ہمسایوں، اجنبی ہمسایوں، رفقاء مجلس، مسافروں اور غلاموں اور باندیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ “۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارا ماتحت کردیا ہے، پس جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو وہ اس کو وہ چیز کھلائے جس کو وہ خود کھائے اور کپڑے پہنائے جن کو وہ خود پہنے اور ان کو ان کی قوت برداشت سے زیادہ مکلف نہ کرے۔ (صحیح البخاری ج ٢ ص ٩، کراچی)

 نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے غلاموں کی اپنی اولاد کی طرح عزت اور توقیر کرو اور ان کو وہ کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، وہ پہناؤ جو خود پہنتے ہو، ان کی قوت برداشت سے زیادہ ان کو مکلف نہ کرو اگر ان کو کوئی مشکل کام سونپو تو اس میں ان کی مدد کرو۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٦٤، کراچی)

 نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ مارے یا پیٹے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس غلام کو آزاد کردے۔ (سنن ابو داؤد ج ٢ س ٣٤٧، کراچی) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا سے جاتے وقت نماز کے بعد اگر کسی کی فکر تھی تو وہ لونڈیوں اور غلاموں کی تھی، رفیق اعلیٰ سے وصال کے وقت جو آخری کلمہ آپ کی زبان پر تھا وہ یہی تھا : ”۔۔۔“ (سنن ابو داؤد ج ٢ س ٣٤٥، کراچی) ” نماز اور لونڈی، غلام “۔ کسی مسلم معاشرہ میں جب کوئی کافر غلام مسلمانوں کو ان احکام پر عمل کرتے ہوئے دیکھے گا تو وہ یقینا اسلام سے متاثر ہوگا۔

دوسری چیز یہ ہے کہ لوگوں کا اسلام سے دور رہنا اور اسلام کو قبول نہ کرنا زیادہ تر اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کے احکام سے ناواقف ہوتے ہیں اور جب کسی کافر شخص کو غلام ہونے کی وجہ سے اسلام کی تعلیمات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا اور وہ مسلمانوں کے مثالی معاشرہ کا مطالعہ کرے گا اور اسلام کی حقانیت کے دلائل سے آگاہ ہوگا تو وہ اپنے کفر پر قائم نہ رہ سکے گا، یہی وجہ ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بہ کثرت کافر غلام مسلمان ہوگئے اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اسلام کی تعلیمات اور ترغیبات کی وجہ سے کوئی سملمان کسی شخص کو ہمیشہ اپنی غلامی میں نہیں رکھتا اور جلد یا بدیر اس کو بالآخر آزاد کردیتا ہے۔

اس بحث کے تمام عنوانات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ اسلام نے لونڈیوں اور غلاموں کو فروغ نہیں دیا، بلکہ اسلام نے ایسی ہدایات دی ہیں جن پر عمل کرنے سے بتدریج غلامی ختم ہوجاتی ہے اور فی الواقع دنیا میں اسی طرح ہوا، رہا جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے جواز کا معاملہ تو وہ اس زمانہ کے حالات کی وجہ سے تھا۔ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا لازم اور واجب نہیں ہے، بلکہ چار مباح صورتوں ( جزیہ لے کر آزاد کرنا، بلا معاوضہ رہا کرنا، معاوضہ لے کر رہا کرنا اور غلام بنانا) میں سے ایک صورت ہے اور اب چونکہ تمام دنیا سے غلامی کی لعنت ختم ہوچکی ہے اور اسلام باقی مذاہب کی بہ نسبت مکارم اخلاق اور حقوق انسانیت کا زیادہ محافظ ہے، اس لیے اب اسلام میں اس کے جواز کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ جن حالات میں اسلام نے غلام بنانے کی اجازت دی تھی اب مہذب دنیا میں وہ حالات نہیں رہے۔

وَيُدْخِلُهُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مؤمنین دوزخ سے نجات پاجائیں گے، جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل ہے، اس پر ان کو روک لیا جائے گا، پھر دنیا میں ان میں سے بعض نے بعض پر جو زیادتی کی ہوگی اس کا ان سے بدلہ لیا جائے گا، حتیٰ کہ جب وہ بالکل پاک اور صاف ہوجائیں گے تو پھر ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، پس اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے، ان میں سے ایک شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کو دنیا میں اپنے ٹھکانے کی بہ نسبت زیادہ پہنچاننے والا ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٣٥، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٩٨، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٠٢٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٠، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٢٠٨٥٧ طبع قدیم، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٧٧، مسند احمد رقم الحدیث : ١١٩٢٠، عالم الکتب، بیروت، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ٨٠٩)

اس آیت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت کی اس طرح پہچان کرادے گا، وہ بغیر غور وفکر اور سوچ بچار کے جنت میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائیں گے۔

حسن بصری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کے جنت کے مقام کی ان کو اس طرح پہچان کرادی کہ جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو ان نشانیوں کی وجہ سے جنت میں اپنے ٹھکانے کو پہچان لیں گے۔

ایک قول یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت کے راستوں اور مقامات کو پہچان کرادے گا۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَاَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ

”تعسا لھم“ کے معانی

 (١) حضرت ابن عباس (رض) اور ابن جریج نے کہا : ان کافروں کے لیے دوری ہو (٢) سدی نے کہا : ان کے لیے غم ہو (٣) ابن زید نے کہا : ان کے لیے بدبختی ہو (٤) حسن بصری نے کہا : اللہ کا ان پر غضب ہو (٥) ثعلب نے کہا : ان کے لیے ہلاکت ہو (٦) ضحاک نے کہا : ان کے لیے ناکامی ہو (٧) نقاش نے کہا : ان کے لیے خرابی ہو (٨) ثعلب کا دوسرا قول ہے : ان کے لیے شر ہو (٩) ضحاک کا دوسرا قلو ہے : ان کی ناک خاک آلود ہو (١٠) ابو العالیہ نے کہا : ان کی بدنصیبی ہو۔

ایک قول یہ ہے کہ ”التعس“ کا معنی ہے: گرنا اور پھسلنا، ابن السکیت نے کہا ”التعس“ کا معنی ہے: منہ کے بل گرنا اور ”النکس“ کا معنی ہے :ـ سر کے بل گرنا اور ”التعس“ کا معنی ہلاکت بھی ہے اور الجوہری نے کہا: ”التعس“ کا معنی ہے: اوندھے منہ گرنا۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ

قتادہ نے کہا : یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کی کسی گھاٹی میں تھے، اس وقت کفار نے چیخ کر کہا : یہ دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا عزیٰ نہیں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کہو : اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے ان کے لیے کوئی مدد نہیں آئے گی، حدیث میں ہے :

حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس دن (غزوہ احد میں) ہمارا مشرکین سے مقابلہ ہوا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرا ندازوں کا ایک لشکر بٹھا دیا تھا اور ان پر حضرت عبداللہ بن جبیر کو امیر مقرر کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم اس جگہ سے نہ ہٹنا، خواہ تم یہ دیکھو کہ ہم ان پر غالب ہوگئے ہیں تب بھی تم یہاں سے نہ ہلنا اور خواہم تم یہ دیکھو کہ وہ (مشرکین) ہم پر غالب ہوگئے ہیں، تب بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اور ہماری مدد کے لیے نہ آنا، جب ہمارا مقابلہ ہوا تو کفار شکست کھا گئے، حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑوں کو گھاٹیوں میں دوڑ رہی تھیں اور انھوں نے اپنی پنڈلیوں سے اپنا کپڑا اٹھایا ہوا تھا اور ان کی پازیب ظاہر ہو رہی تھی، تو جن تیر اندازوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑا کیا تھا وہ کہنے لگے : مال غنیمت ہے، مال غنیمت ہے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے کہا : تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکیداً نصیحت فرمائی تھی کہ تمہیں یہاں سے ہٹنا نہیں، وہ نہیں مانے اور جیسے ہی انھوں نے انکار کیا، ان کے چہرے پھرگئے اور ستر مسلمان قتل کردئیے گئے اور ابو سفیان نے بلند آواز سے کہا : کیا قوم میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس کو جواب نہ دینا، پھر کہا : کیا قوم میں ابن ابو قحافہ (حضرت ابوبکر) ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس کو جواب نہ دینا، پھر کہا : کیا قوم میں خطاب کا بیٹا (حضرت عمر) ہے ؟ پھر کہنے لگا : یہ سب قتل کردیئے گئے، اگر یہ زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے، پھر حضرت عمر ضبط نہ کرسکے، انھوں نے کہا : اے اللہ کے دشمن ! تو جھوٹ بولتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ رکھا ہے جو تجھے غم گین کریں گے، ابو سفیان نے کہا : ہبل بلند ہو ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو جواب دو ، مسلمانوں نے پوچھا : کیا کہیں ؟ فرمایا : تم کہو : اللہ بلند اور برتر ہے، ابو سفیان ہے کہا : ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا عزیٰ نہیں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو جواب دو ، مسلمانوں نے پوچھا : ہم کیا کہیں ؟ فرمایا : تم کہو : اللہ ہمارا مولا (مددگار) ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ (مددگار) نہیں ہے۔ ابو سفیان نے کہا : آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور جنگ ایک ڈول ہے، عنقریب تم ایک مثلہ دیکھو گے نہ میں نے اس کا حکم دیا تھا اور نہ مجھے اس سے رنج ہوا ہے (مثلہ کا معنی ہے : جس کو قتل کرکے اس کے اعضاء کاٹ دیئے جائیں) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٠٤٣، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٦٦٢، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٧٩٤، عالم الکتب)

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۭ فِيْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ

اس آيت ميں اس جنت كا بيان ہے جس کا متقین سے وعدہ فرمایا  گيا ہے۔ اس جنت کی ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ اس کے پانی کی بو متغیر نہیں ہوگی، جیسے دنیا کا پانی پڑے پرے بدبودار ہوجاتا ہے، جنت کا پانی اس طرح نہیں ہوگا اور جنت کی دوسری صفتیہ بیان فرمائی ہے کہ جنت میں دودھ کے دریا ہوں گے اور اس کے دودھ کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوگا جیسے دنیا کے دودھ کا ذائقہ تبدیل ہو کر ترش ہوجاتا ہے اور جنت کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ اس میں صاف ستھرے نتھرے ہوئے شہد کے دریا ہوں گے ، یعنی اس شہد میں موم کے ذرات ہوں گے نہ موم کے اثرات ہوں گے ، اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حکیم بن معاویہ (رض) اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں ایک پانی کا دریا ہے، ایک شہد کا دریا ہے، ایک دودھ کا دریا ہے اور ایک شراب کا دریا ہے پھر اس سے اور دریا نکلتے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٧١، مسند احمد ج ٥ ص ٥)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سیحان اور جیحان، اور فرات اور نیل جنت کے دریاؤں میں سے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٣٩)

علامہ نووی نے کہا ہے کہ سیحان اور جیحان، یہ ارمن کے شہروں میں ہیں اور یہ بہت بڑے دریا ہیں، اور نیل مصر میں ہے اور فرات عراق میں اور ان دریاؤں کے جنت میں ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان کی اصل جنت میں ہے۔

فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً ۚ فَقَدْ جَاۗءَ اَشْرَاطُهَا ۚ فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَاۗءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ

قیامت کی نشانیاں

ضحاک اور حسن بصری نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر الانبیاء ہیں، پس آپ کو دنیا میں مبعوث فرمانا قیامت کی علامتوں اور اس کی نشانیوں میں سے ہے، حدیث صحیح میں ہے :

حضرت انس (رض) سے فرمایا: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: مجھے اور قیامت کو اس طرح (ساتھ ساتھ) بھیجا گیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ؛ ٦٥٠٤، الترغیب و الترہیت ج ١ ص ٨٣، مجمع الزوائد ج ١ ص ٣١١، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ١٤٠٧، تاریخِ بغداد ج ٦ ص ٢٨١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٧٨٥، جامع المسانید والسنن انس رقم الحدیث : ٧٧٠)

قیامت کی نشانیوں میں حسب ذیل امور کو بیان کیا گیا ہے:

(١) باندیوں سے مالکوں کا پیدا ہونا (٢) ننگے پیر، ننگے بدن، فقراء اور بکریوں کے چرانے والوں کا بڑی بڑی عمارتیں بنانا اور بادشاہ بن جانا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥، صحیح مسلم رقم الحدیث: ٩)

(٣) علم کا اٹھ جانا (٤) جہل کا زیادہ ہونا (٥) زنا بہ کثرت ہونا (٦) شراب کا زیادہ پیا جانا (٧) مردوں کا کم ہونا اور عورتوں کا زیادہ ہونا حتیٰ کہ ایک مرد کا پچاس عورتوں کی کفالت کرنا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٥٦ )

(٨) نااہل کو منصب دیا جاتا۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٥٩ )

(٩) کثرتِ مال کی وجہ سے زکوۃ کو قبول نہ کرنا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : (٧١٢٠ )

(١٠) سرزمینِ حجاز سے آگ کا نکلنا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١١٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٠٢)

(١١) مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنا لینا (١٢) امانت کو مال غنیمت بنا لینا (١٣) زکوۃ کو جرمانہ سمجھنا (١٤) دین کے لیے علم حاصل نہ کرنا (١٥) مرد کا اپنی بیوی کی اطاعت کرنا اور اپنی ماں کی نافرمانی کرنا (١٦) دوست کو قریب کرنا اور اپنے باپ کو دور کرنا (١٧) مساجد میں شور مچانا (١٨) سب سے بدکار شخص کو قبیلہ کا سردار بنانا (١٩) کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کرنا (٢٠) گانے والیوں اور آلات موسیقی کا ظہور (٢١) اس امت کے آخری لوگوں کا پہلے لوگوں کو بزا کہنا (٢٢) شرابوں کا پیا جانا (٢٣) سرخ آندھیوں کا زلزلوں کا، زمین میں دھنسنے کا، شکل مسخ ہونے کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا ظہور۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢١١)

(٢٤) امام مہدی کا ظہور اور ان کا دنیا میں عدل قائم کرنا۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٢٨٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٧٩، مسند احمد ج ا ص ٧٧٦)

(٢٥) دھویں کا ظہور (٢٦) دجال کا ظہور (٢٧) دابۃ الارض کا نکلنا (٢٨) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (٢٩) حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول (٣٠) یا جوج ماجوج کا نکلنا (٣١) تین بار زمین کا دھنسنا، مشرق میں، مغرب میں، جزیرۃ العرب میں (٣٢) آگ کا لوگوں کو ہانک کر محشر کی طرف لے جانا (٣٣) آندھی کا لوگوں کو سمندر میں گرا دینا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٠١، سنن ابو داؤرقم الحدیث : ٤٣١١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٨٣)

فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ

توحید پر جمے رہنے اور استغفار کرنے کی تلقین

 اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور آپ کے توسط سے دیگر اہل ایمان کو بھی، خلاف شان نبوت جو کوئی امر آپ سے صادر ہوگیا اسے ﴿لِذَنْبِكَ﴾ سے تعبیر فرمایا جیسا کہ خطاء اجتہادی سے کبھی ایسا واقع ہوا، معصیت حقیقت کا صدور انبیاء کرام علیہم اصلوٰۃ والسلام سے نہیں ہوسکتا۔

 صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں: أمر بالاستغفار مع أنه مغفور له ليستن به أمته (یعنی آپ کو استغفار کا حکم دیا گیا حالانکہ آپ کا سب کچھ بخشا جاچکا ہے تاکہ امت آپ کا اتباع کرے) آپ نے فرمایا ہے کہ بیشک میرے دل پر میل سا آتا ہے اور بیشک میں اللہ سے روزانہ سو دفعہ استغفار کرتا ہوں اور بعض روایت میں ہے کہ آپ ہر مجلس میں سو مرتبہ استغفار فرماتے ہیں۔

 صاحب معالم التنزیل مزید لکھتے ہیں: هذا إکرام من اللّٰه تعالیٰ لهذہ الأمة حيث أمر نبيهم أن يستغفر لذنوبهم وهو الشفيع المجاب فيه (یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کا اکرام ہے کہ ان کے نبی کو حکم فرمایا کہ ان کے گناہوں کے لیے استغفار کریں آپ کی ذات گرامی کو اللہ نے شفاعت کرنے والا بھی بنایا اور شفاعت قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا۔ ) (معالم التنزیل ص ١٨٣، ج ٤)

قارى طبيب صاحب رحمہ الله اپنى تفسير  برہان القرآن ميں لكھتے ہيں:

یہاں وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کا خطاب حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں ہے کہ عصمت انبیاء پر اعتراض آئے بلکہ ہر مومن (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت) سے یہ خطاب ہے۔ کیونکہ اس سے قبل ”فاعلم أنه لا إله إلا الله“ میں بھی امت سے خطاب ہے اس لیے کہ نبی سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ ”لا إله إلا الله“ پر قائم رہے۔ یہ خطاب نبی کے ذریعے امت کے لئے مناسب تر ہے اسی طرح ”واستغفر لذنبک“ کا خطاب بھی امت کے لئے ہے نہ کہ نبی کے لیے۔ چنانچہ امام قرطبی فرماتے ہیں : وقیل الخطاب بہ والمراد بہ الامۃ۔ کہا گیا ہے کہ اس میں خطاب تو آپکو ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ (تفسیر قرطبی جلد 16 صفحہ 242)

امام صاوی (رح) نے بھی اس آیت کے تحت یہی فرمایا ہے کہ یہ خطاب بظاہر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، مگر حقیقت میں یہ دعویٰ ہر مومن سے ہے۔ (تفسیر صاوی جلد 4 صفحہ 90 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

امام خازن (رح) فرماتے ہیں: وقیل: إن الخطاب و إن کان للنبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فالمراد به غیرہ. اور کہا گیا ہے کہ اگر یہ خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، تو مراد دوسرے لوگ ہیں (لباب التاویل جلد 6 صفحہ 179 مطبوعہ دارالفکر بیروت)

اور قرآن کریم میں کئی جگہ بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے، مگر حقیقت میں آپ کی امت مراد ہے۔ آپ سے خطاب مراد نہیں ہوسکتا۔ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا ” اگر تمہارے پاس تمہارے دونوں والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اف مت کہو، انھیں مت جھڑکو اور ان سے نرمی کی بات کرو اور ان کے لیے رحمت کے ساتھ خدمت کے بازو بچھا دو، اور کہو اے میرے رب ! ان پر رحم فرما جیسے انھوں نے مجھے بچپن میں پالا تھا “ (بنی اسرائیل۔ 23) اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین تو آپ کے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے اس لیے یہ خطاب مراد نہیں ہوسکتا بلکہ امت سے خطاب مراد ہے۔ یوں ہی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”فما یکذبک بعد بالدین” پھر اس کے بعد کون سی چیز تجھے روز انصاف کے جھٹلانے پر ابھارتی ہے “۔ (تین۔ 7) اس آیت میں بھی امت سے خطاب مراد ہے۔ اسی طرح ”واستغفر لذنبک“ میں بھی عمر سے خطاب مراد ہے۔

لہذا اس آیت کا حضور سید کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ آپ سے بعض ایسی دعائیں مروی ہیں جن میں آپ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی بخشش کا سوال کرتے ہیں، جیسے آپ فرماتے ہیں اے اللہ ! میرے ظاہری پوشیدہ اور اگلے پچھلے گناہ معاف فرما، اے اللہ ! میرا بھول جانا اور میرا جان بوجھ کر کچھ کرنا، میری ہر خطا، میرا ہر جہل اور میرا ہر اسراف معاف فرما۔ (بخاری کتاب التہجد باب 1 ۔ مسلم کتاب المسافرین حدیث 199)

مگر ان دواؤں کا مقصد تعلیم امت ہے اور آپ امت کو تعلیم دے رہے ہیں کہ وہ گناہوں سے استغفار کیسے کریں؟ ورنہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گناہوں سے کیا تعلق ہے ؟ اس سے استغفار کی فضیلت معلوم ہوئی اور یہ بھی کہ استغفار صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ سب مسلمانوں کے لئے کرنا چاہیے۔

مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ کی تفسیر

 مفسرین کرام نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں، پہلے ترجمہ غور سے پڑھیے (اور اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور رہنے سہنے کی خبر رکھتا ہے) یہ ترجمہ مفسر ابن جریر (رض) کے قول کے مطابق ہے جسے علامہ بغوی نے معالم التنزیل میں نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے فرما دیا کہ ﴿مُتَقَلَّبَكُمْ﴾سے دنیاوی اعمال میں مشغول رہنا اور اس میں چلنا پھرنا مراد ہے اور ﴿وَمَثْوٰىكُمْ﴾ سے ہر ایک کا آخرت کا ٹھکانا مراد ہے اور حضرت عکرمہ (رح) نے فرمایا کہ ﴿مُتَقَلَّبَكُمْ﴾ سے أرحام الأمهات کی طرف منتقل ہونا اور ﴿وَ مَثْوٰىكُمْ﴾ سے زمین میں ٹھہرنا مراد ہے اور ابن کیسان (رض) سے نقل کیا ہے ﴿مُتَقَلَّبَكُمْ﴾سے لیٹتے وقت پلٹیاں کھانا اور ﴿وَ مَثْوٰىكُمْ﴾ سے قبروں میں ٹھہرنا مراد ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَهُمْ

لعنت كسے كہتے ہيں؟

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ اس عبارت کی شرح میں لعنت پر تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

لعنت کی حقیقت اللہ کی رحمت سے دور کرنا ہے اور یہ صرف کافر پر کی جاتی ہے، اس لیے جس معین شخص کی کفر پر موت کا دلیل سے علم نہ ہو اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ مشہور فاسق پر لعنت کرنا جائز ہے اور غیر معین شخص پر بہ طور وصف لعنت کرنا جائز ہے نہیں ہے، اس کے برخلاف ابلیس، ابو لہب اور بو جہل پر لعنت کرنا جائز ہے اور غیر معین شخص پر بہ طور وصف لعنت کرنا جائز ہے جیسے جھوٹوں پر لعنت ہو اور ظالموں پر لعنت ہو، یعنی یہ کافروں کا وصف ہے اس سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہیے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اس وصف پر لعنت کی جائے جو گناہ کبیرہ ہو، کیونکہ گناہ کبیرہ کے علاوہ گناہ صغیرہ اور مکروہ تنزیہی پر بھی لعنت کی گئی ہے، جیسے تصویر بنانے والوں پر اور اس شخص پر جو لوگوں کی کراہت کے باوجود ان کی امامت کرے اور جو شخص راستہ میں قضاء ہے، جیسے تصویر بنانے والوں پر اور اس شخص پر جو لوگوں کی کراہت کے باوجود ان کی امامت کرے اور جو شخص راستہ پر قضاء حاجت کرے اور جو عورت اپنے ہاتھوں پر مہندی نہ لگائے اور جو عورت خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے اور مشت زن پر اور قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر، وغیرھا۔ لیکن جو کہتے ہیں کہ معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، ان پر یہ اشکال وارد ہوگا کہ قرآن مجید میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس اپنے علاوہ اور کوئی گواہ نہ ہو وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ وہ سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہے : ۔۔۔(النور : ٧) اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔

یہ لعنت مشروع کی گئی ہے اور یہ معین شخص پر لعنت ہے، اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ اس کے جھوٹے ہونے کی سورت میں اس پر لعنت ہے، لیکن یہ جواب اس لیے صحیح نہیں ہے کہ بہرحال یہ معین شخص پر لعنت ہے۔

پھر میں نے علامہ قہستانی کی بحث لعان میں دیکھا کہ لعن کا معنی لغت میں دور کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں اس کا معنی ہے : کفار کو اللہ کی رحمت سے دور کرنا اور مؤمنین کے حق میں اس کا معنی ہے : درجہ ابرار سے ان کو ساقط کرنا۔

” البحر الرائق “ کی لعان کی بحث میں مذکور ہے، اگر تم یہ پوچھو کہ آیا کاذب معین پر لعنت کرنا مشروع ہے ؟ تو میں کہوں گا کہ ” غایۃ البیان “ کی عدت کی بحث میں لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : میں جس سے چاہوں مباہلہ کرسکتا ہوں اور مباہلہ کا معنی ہے : ایک دوسرے پر لعنت کرنا اور ان کا جب کسی سے اختلاف ہوتا تھا تو وہ کہتے تھے : ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو اور انھوں نے کہا : یہ ہمارے زمانہ میں بھی جائز ہے اور اس بحث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی صورتوں میں لعنت سے مراد ہے : ابرار یعنی نیک لوگوں کے درجہ سے دور کرنا نہ کہ اللہ عزوجل کی رحمت سے دور کرنا، اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں پر لعنت کی حقیقت مراد نہیں، بلکہ اس سے مقصود حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے کی خساست کو ظاہر کرنا ہے۔ پھر قہستانی نے یہ کہا ہے کہ اس جواب پر یہ اعتراض ہے کہ حلالہ کرنے والے پر لعنت کرنے سے اگر صرف اس کے فعل کی خساست کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا تو پھر اس کے فعل کو مکروہ تحریمی کہنے کی کیا وجہ تھی ؟ (رد المحتار ج ٥ ص ٤٢، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

یزید پر لعنت کرنے کی بحث

علامہ سید محمود آلوسی بغدادی متوفی ١٢٧٠ ھ نے محمد : ٢٢ کی تفسیر میں یزید پر لعنت کرنے کے جواز یا عدم جواز کی بحث کی ہے، ہم پہلے علامہ آلوسی کا کلام نقل کریں گے اور اس کے بعد اس بحث میں دیگر اکابر علماء کی آراء میں نقل کریں گے اور اس کے آخر میں ہم اپنا موقف بیان کریں گے۔

علامہ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں :

اس آیت سے یزید علیہ ما یستحقہ پر لعنت کرنے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے، علامہ برزنجی نے ”الإشاعة“ میں اور علامہ ہیمتی نے ”الصواعق“ میں نقل کیا ہے کہ جب امام احمد بن حنبل سے ان کے بیٹے عبداللہ نے یزید پر لعنت کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا : اس پر لعنت کرنا کیوں کر جائز نہیں ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے ؟ عبداللہ نے کہا : میں نے تو اللہ عزوجل کی کتاب پڑھی ہے، مجھے تو اس میں یزید پر لعنت کرنے کا ذکر کہییں نہیں ملا، امام احمد نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ، اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَهُمْ

تم سے یہ بعید نہیں کہ اگر تم کو زمین میں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد کروں گے اور رشتے توڑ ڈالو گے یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی۔

اور یزید نے جو کچھ آلِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا اس سے بڑھ کر فساد اور رشتوں کو توڑنا اور کیا ہوگا ؟

امام احمد کا یہ قول اس اصول پر مبنی ہے کہ معین پر لعنت کرنا جائز ہے اور اس میں اختلاف ہے، جمہور اس پر متفق ہیں کہ معین فاسق پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا ذمی، زندہ ہو یا مردہ، جس کی کفر پر موت دلیل سے معلوم نہ ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ موت سے پہلے اسلام لے آئے، بہ خلاف اس شخص کے جس کی کفر پر موت معلوم ہو جیسے ابو جہل وغیرہ۔

شیخ الاسلام السراج البلقینی کا مذہب یہ ہے کہ فاسق معین پر لعنت کرنا جائز ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کرے اور اس کا شوہر اس پر غصہ میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٩٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٣٦، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢١٤١، مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٩)

لیکن اس استدلال پر یہ اعتراض ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ملائکہ (علیہم السلام) خصوصیت سے اس عورت پر لعنت نہ کرتے ہوں بلکہ وہ بالعموم لعنت کرتے ہوں کہ جو عورت اپنے شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کرکے رات گزارے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

علامہ ابن حجر مکی نے ”الزواجر“ میں لکھا ہے کہ اگر شخص معین پر لعنت کے جواز میں درج ذیل حدیث سے استدلال کیا جائے تو زیادہ واضح ہے :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گدھے کے پاس سے گزرے جس کے چہرہ پر لوہا گرم کرکے داغ لگایا ہوا تھا، آپ نے فرمایا : اللہ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس پر داغ لگایا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١١٧، الرقم المسلسل : ٥٤٤٨ )

بہ ظاہر یہ ہے کہ آپ نے اس معین شخص پر لعنت کی ہے جس نے اس گدھے پر داغ لگایا تھا، تاہم اس میں یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ آپ کی مراد وہ معین شخص نہیں تھا بلکہ جانوروں کے منہ پر داغ لگانے والے بالعموم لوگ مراد تھے۔

اور اس قول کی بناء پر کہ فاسق معین پر لعنت کرنی جائز ہے، یزید پر لعنت کرنے کے مسئلہ میں زیادہ توقف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس میں بہ کثرت اوصاف خبیثہ تھے اور وہ بہت کبائر کا ارتکاب کرتا تھا اور امام طبرانی نے سند حسن کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے :

اے اللہ ! جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور ان کو دھمکائے تو اس کو دھمکا، اس پر اللہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اس کا فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل۔ (المعجم الطبرانی رقم الحدیث : ٦٦٣٧۔ ٦٦٣٦، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٠٥ ھ)

اور یزید نے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ پر ظلم کیا اور ان کو دھمکایا، اہل مدینہ کو قتل کیا، ان کے اموال لوٹ لیے، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے اور تین دن اذان نہ ہوسکی اور سب سے بڑی قیامت یہ ہے کہ اس نے اہل بیت پر ظلم کیا اور حضرت حسین (علیہ السلام) کے قتل پر راضی ہوا اور ان کے گھر والوں کی اہانت کی اور یہ خبر تواتر سے ثابت ہے، اگرچہ اس کی تفاصیل اخبار احاد سے ثابت ہیں، اس سلسلہ میں ایک اور حدیث یہ ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں چھ شخصوں پر لعنت کرتا ہوں اور ہر نبی نے ان پر لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا مستجاب ہوتی ہے : (١) جو اللہ کی کتاب میں زیادتی کرے (٢) جو اللہ کی تقدیر کا انکار کرے (٣) جو جبر سے لوگوں پر مسلط ہوجائے تاکہ ان کو عزت دے جن کو اللہ نے ذلیل کیا اور ان کو ذلیل کرے جن کو اللہ نے عزت دی (٤) جس کو اللہ نے حرام کیا کو حلال کرے (٥) اور میری اولاد پر ان کاموں کو حلال کرے جن کو اللہ نے حرام کیا (٦) اور میری سنت کو (بہ طور اہانت) ترک کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٥٤، المستدرک ج ا ص ٣٦، الجامع الصغیر، السنۃ لابی العاصم رقم الحدیث : ٤٤، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ١٩) (ان دونوں حدیثوں سے استدلال کرنے پر یہ اعتراض ہے کہ ان کی سندضعیف ہے) ۔

اور یزید کے کفر اور اس پر لعنت کرنے کے جواز کی علماء کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے، ان میں سے حافظ ابن جوزی ہیں اور ان سے پہلے امام ابو یعلیٰ ہیں اور علامہ تفتا زانی نے (شرح عقائد) میں لکھا : ہم یزید کے معاملہ میں کوئی توقف نہیں کرتے نہ اس کے ایمان میں توقف کرتے ہیں، اس پر اور اس کے حامیوں اور مددگاروں پر اللہ کی لعنت ہو، علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی اس پر لعنت کے جواز کی تصریح کی ہے اور ابن الوردی کی ” تاریخ “ میں اور ” کتاب الوافی “ میں بھی یہ تصریح ہے۔

اور جب اہل بیت قید کرکے عراق میں یزید کے پاس لائے گئے تو وہ حضرت علی اور حضرت حسین (رض) کی اولاد اور خواتین سے ملا، اس وقت شہداء کربلا کے مبارک سرنیزوں پر تھے اور وہ اس وقت جیرون کی وادی میں تھے، یزید نے ان کو دیکھ کر یہ اشعار پڑھے :

۔۔ جب اونٹوں کا یہ قافلہ ظاہر ہوا

۔۔ اور جیرون کے کنارے پر ان کے سرنیزوں پر بلند ہوئے

۔۔ کوّا بولنے لگا تو میں نے کہا تو بول یا نہ بول

۔۔ میں نے تو رسول اللہ سے اپنے قرضے وصول کرے لیے

یزید کی مراد یہ تھی کہ جنگ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ناناعتبہ کو اور اس کے ماموں ولید بن عتبہ کو اور اس کے دوسرے رشتہ داروں کو قتل کردیا تھا تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسہ اور نواسے کے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کو قتل کرکے بدلہ لے لیا اور پرانے قرضے وصول کرلیے۔ اور یہ کفر صریح ہے، پس جب یہ اشعار اس سے صحت کے ساتھ ثابت ہوں تو اس کا کفر ثابت ہوجائے گا۔

امام غزالی نے یہ فتویٰ دیا کہ ہزید پر لعنت کرنا حرام ہے اور علامہ سفارینی حنبلی اور ابن جوزی حنبلی نے ان کی مخالفت کی اور ” کتاب الفروع “ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے حجاج کو اسلام سے خارج کردیا، ان پر اعتراض ہوا کہ پھر یزید کو کیا کہا جائے گا اور امام احمد کی تصریح اس کے خلاف ہے اور یہی ہمارے اصحاب کا مذہب ہے۔

 شیخ ابن تیمیہ نے کہا : امام احمد کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یزید پر لعنت کرنا مکروہ ہے۔ (علامہ سفارینی لکھتے ہیں ) میں کہتا ہوں کہ مختار وہ ہے جو علامہ ابن جوزی، ابو حسین قاضی اور ان کے موافقین نے کہا، یعنی یزید پر لعنت کرنی جائز ہے۔ علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ” اسرا لمصون “ میں لکھا ہے کہ عام لوگوں کو اعتقاد یہ ہے کہ یزید کا موقف صحیح تھا اور حضرت حسین (رض) نے اس کے خلاف خروج کرنے میں عطا کی اور اگر وہ تاریخ کی کتابوں کو پڑھتے کہ اس کی بیعت کس طرح لی گئی تھی اور کس طرح لوگوں کو مجبور کیا گیا اور اس نے اس دور میں ہر قسم کے قبیح کام کیے اور اگر ہم فرض کرلیں کہ اس کی بیعت صحیح تھی تو بعد میں اس نے ایسے کام کیے کہ ان میں سے ہر کام اس کی بیعت کے فسخ کو واجب کرتا ہے اور یزید کی طرف وہی مائل ہوگا جو جائل ہوگا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یزید کے متعلق اختلاف ہے، بعض کا قول یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا اور اس نے اہل بیت کرام کے ساتھ جو کچھ کیا اس سے وہ گناہ گار ہوا لیکن اس وجہ سے اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے اور بعض نے کہا : وہ اسی طرح تھا لیکن اس پر لعنت کرنا مکروہ ہے یا بغیر کراہت کے جائز ہے اور بعض نے کہا : وہ کافر ملعون ہے اور بعض نے کہا : اس نے کوئی گناہ نہیں کیا اور اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے اور اس قول کا قائل یزید کے حامیوں کے سلسلہ میں منسلک ہے ۔

 (علامہ آلوسی لکھتے ہیں ) اور میں کہتا ہوں کہ میرا ظن غالب یہ ہے کہ وہ خبیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا مصدق نہیں تھا اور اللہ کے حرم (کعبہ مکرمہ) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم (اہل مدینہ) کے ساتھ اس کے افعال کا مجموعہ اور آپ کی عترت طیبہ طاہرہ کے ساتھ جو اس کا سلوک رہا، اس سے اس کا تنا ایمان بھی ظاہر نہیں ہوتا جتنا اس کا ایمان ہو، جو قرآن مجید کو گندگی میں ڈال دے۔ العیاذ باللہ۔ اور میرا یہ گمان نہیں ہے کہ اس کا حال اکابر مسلمانوں سے مخفی تھا لیکن وہ حضرات مضبور اور مقہور تھے اور صبر کے سوا ان کے لے اور کوئی چارہ کار نہ تھا اور اگر مان لیا جائے کہ وہ خبیث مسلمان تھا تو وہ اتنے زیادہ گناہ ہائے کبیرہ کے ساتھ مسلمان تھا جن کا شمار بیان میں نہیں آسکتا اور میر امذہب یہ ہے کہ اس جیسے شخص پر معین کرکے لعنت کرنا جائز ہے اور یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ فاسقوں میں اس کی کوئی مثال ہوسکتی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اس نے اپنے افعال پر توبہ نہیں کی اور اس کی توبہ کا احتمال اس کے ایمان کے احتمال سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور ابن زیاد، ابن سعد اور ان کے متبعین بھی اسی کے ساتھ لاحق ہیں، اللہ تعالیٰ کی ان سب پر لعنت ہو اور ان کے انصار و اعوان پر اور ان کی جماعت پر اور قیامت تک جو بھی ان کی طرف مائل ہو ان سب پر اللہ کی لعنت ہو اور جو ان پر شخصی لعنت کرنے سے احتیاط کی وجہ سے گریز کرتا ہو، اس کو یوں کہنا چاہیے کہ جو شخص قتل حسین سے راضی ہو اور جس شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عترت طاہرہ کو ناحق اذیت پہنچائی اور جس شخص نے ان کا حق غصب کیا، ان سب پر اللہ عزوجل کی لعنت ہو اور اب وہ یزید اور اس کے موافقین پر صراحت کے ساتھ لعنت کرنے والا نہیں ہوگا اور ان الفاط کے ساتھ لعنت کرنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہوگا، سوا علامہ ابوبکر ابن العربی اور ان کے موافقین کے جیسا کہ ان سے منقول ہے وہ اس پر لعنت کرنے کا جائز نہیں کہتے جو حضرت حسین (رض) کے قتل پر راضی ہو اور یہ ایسی گمراہی ہے جو یزید کی گم راہی سے بھی بڑھ کر ہے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١١١۔ ١٠٨، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

يزيد پر لعنت كے بارے میں علامہ ابن حجر مکی کی رائے

علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ یزید اصل میں مسلمان ہے اور ہم اسی اصل کا قول کرتے ہیں جب تک کہ کسی دلیل قطعی سے اس کا اس اصل سے اخراج ثابت نہ ہو، اسی وجہ سے محققین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ یزید کے معاملہ میں صحیح بات یہ ہے کہ توقف کیا جائے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے، کیونکہ وہ پوشیدہ چیزوں اور دلوں کے بھید کو جاننے والا ہے، اس لیے ہم اس کی تکفیر کے قطعاً درپے نہیں ہیں اور اسی قول میں سلامتی ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان تھا لیکن فاسق، شریر اور ظالم تھا۔

نیز علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ یزید کے فسق پر اتفاق کے بعد اس میں اختلاف ہے کہ اس کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ علامہ ابن جوزی نے اس کو جائز قرار دیا ہے اور اس کو امام احمد وغیرہ سے نقل کیا ہے اور اپنی کتاب ” الردعلی المتعصب العنید المانع من ذم یزید “ میں لکھا ہے کہ مجھ سے ایک سائل نے سوال کیا : کیا یزید پر لعنت کرنا جائز ہے ؟ میں نے کہا : نیک اور متقی علماء نے یزید پر لعنت کی ہے اور ان میں سے امام احمد بن حنبل ہیں۔ انھوں نے یزید کے بارے میں لکھا ہے : اس پر لعنت ہو۔ پھر علامہ ابن جوزی نے کہا کہ قاضی ابو یعلیٰ الفراء نے اپنی کتاب ” المعتمد فی الاصول “ میں اپنی سند کے ساتھ لکھا ہے کہ صالح بن احمد بن حنبل نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد امام احمد سے کہا کہ لوگ ہمیں یزید کی محبت کا طعنہ دیتے ہیں تو میرے والد (امام احمد) نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ یزید سے محبت کرسکتا ہے ؟ اور اس پر کیوں نہ لعنت کی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے۔ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یزید پر کہاں لعنت کی ہے ؟ تو انھوں نے کہا : اس آیت میں : ”۔۔۔“ (محمد : ٢٣۔ ٢٢) ” پھر تم سے بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو (اقتدار کے نشہ میں) تم زمین میں فساد کروں گے اور اپنی قرابتوں کو منقطع کرو گے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ ایک کتاب لکھی ہے جس میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو لعنت کے مستحق ہیں، اور ان میں یزید کا ذکر کیا ہے پھر یہ حدیث ذکر کی ہے : جس نے ظلماً اہل مدینہ کو دھمکایا (ڈرایا) اس کو اللہ تعالیٰ دھمکائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔

اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یزید نے لشکر بھیج کر اہل مدینہ کو ڈرایا دھمکایا۔ قاضی ابو یعلیٰ نے جس حدیث کا کیا، یہ سب چیزیں مشہور ہیں، حتیٰ کہ تین سو کنواری لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی، تقریباً تین سو صحابہ قتل کئے گئے اور سات سو قرآن مجید کے قاری قتل کئے گئے، کئی دن تک مدینہ مباح رہا، مسجد نبوی میں کئی دن تک جماعت معطل رہیی۔ کسی شخص کے لیے مسجد نبوی میں جانا ممکن نہیں تھا، حتیٰ کہ مسجد نبوی میں کتے اور بھیڑیے داخل ہوتے رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر پر پیشاب کرتے رہے (انا اللہ وانا الیہ راجعون) اور اس لشکر کا امیر اس وقت تک راضی نہیں ہوتا تھا جب تک کہ لوگ اس پر بیعت نہ کرلیں کہ وہ یزید کے غلام ہیں وہ چاہے تو ان کو بیچ دے اور چاہے تو ان کو آزاد کردے اور جن مسلمانوں نے یہ کہا کہ ہم کتاب اللہ اور سنت رسول پر بیعت کرتے ہیں تو اس نے ان کی گردن اڑا دی، یہ واقعہ حرہ تھا، پھر یہ لشکر حضرت ابن الزبیر سے جنگ کے لیے گیا اور انھوں نے کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے اور اس میں آگ لگا دی، ان برائیوں سے بڑھ کر کون سی برائی ہوگی ؟

علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ علماء کا دوسرا فریق یہ کہتا ہے یزید پر لعنت جائز نہیں ہے کیونکہ ہمارے نزدیک وہ ثابت نہیں ہوئی جو لعنت کا تقاض کرتی ہے۔ امام غزالی کا اسی پر فتویٰ ہے اور یہی چیز ہمارے ائمہ کے بیان کردہ قواعد کے لائق ہے۔ کیونکہ انھوں نے تصریح کی ہے کہ کسی شخص معین پر اس وقت تک لعنت کرنا جائز نہیں ہیجب تک کہ س کی کفر پر موت کا یقین نہ ہوجائے کیونکہ لعنت کا مظلب ہے کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بالکل دور کردیا جائے، حتیٰ کہ وہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہوجائے اور یہ چیز اسی کے لیے جائز ہے جس کی کفر پر موت کا یقین ہو اور جس کی کفر پر موت کا یقین نہ ہو اس پر لعنت جائز نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کافر پر اس کی زندگی میں لعنت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ممکن ہے وہ مرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے نیز انھوں نے تصریح کی ہے کہ کسی معین مسلمان فاسق پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے اور جب تم نے ان کی یہ تصریحات جان لیں تو یہ حسین کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ اس پر خوش ہوا تھا، پھر بھی وہ کافر نہیں ہے، کیونکہ اس نے قتل کو جائز اور حلال نہیں سمجھا تھا اور اگر جائز سمجھا تھا تو تاویل سے سمجھا تھا خواہ وہ تاویل باطل تھی اور یہ کفر نہیں ہے، علاوہ ازیں اس کا حضرت حسین کو قتل کرنے کا حکم دینا اور اس پر خوش ہونا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ روایت صحیحہ سے اس کے خلاف ثابت ہے اور امام احمد نے قرآن مجید کی جس آیت سے یزید پر لعنت کا استدلال کیا ہے اور حدیث مسلم ” ۔۔۔“ سے جس نے یزید پر لعنت کا استدلال کیا تو ان دونوں سے یزید پر اس کا نام لے کر بخصوصہ لعنت کرنا ثابت نہیں ہوتا۔ اور گفتگو اسی میں ہے۔ البتہ ان دلائل سے ان صفات پر لعنت کا جواز ثابت ہوتا ہے اور یہ بلاشبہ جائز ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ یزید کا نام لیے بغیر یہ کہنا جائز ہے کہ جس شخص نے حضرت حسین کو قتل کیا یا قتل کا حکم دیا یا قتل کو جائز قرار دیا اسی پر راضی ہوا اس پر لعنت ہوم جس طرح بغیر تعین کے یہ کہنا جائز ہے کہ مثلاً شراب پینے والے پر لعنت ہو اور یہی چیز آیت اور حدیث میں ہے، کیونکہ آیت میں کسی کا نام لیے بغیر یہ ہے کہ جو قرابت کو منقطع کرے اور زمین میں فساد کرے اس پر لعنت ہو، اسی طرح حدیث میں نام لیے بغیر ہے جو اہل مدینہ کو ڈرائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، لہٰذا امام احمد وغیرہ کا اس آیت سے شخص معین پر بخصوصہ کا استدلال کس طرح صحیح ہوسکتا ہے ؟ پس واضح ہوگیا کہ بخصوصہ لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ (الصواعق المحرقہ ٢٢٣۔ ٢٢١، مصر)

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا

یعنی یہ لوگ قرآن مجید پڑھتے نہیں اور اس میں برے کاموں پر جو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اس وعید سے ان پر خوف طاری نہیں ہوتا، تاکہ وہ ان کاموں کو نہ کریں جو عذاب اور ہلاکت کا موجب ہیں اور نیک کاموں پر جو ثواب کا وعدہ کیا ہے اور دائمی جنتوں، نعمتوں اور اللہ کے دیدار اور اس کی بشارت دی گئی ہے اس کو پڑھ کر ان کے دلوں میں آخرت کے اجرو ثواب کے حصول کا شوق پیدا نہیں ہوتا تاکہ ان کے دلوں میں نیک کام کرنے کی تحریک ہو یا ان لوگوں کے دلوں پر ان کی ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قفل ڈال دئیے گئے اور ان پر اس طرح مہر لگادی گئی ہے کہ نصیحت اور ہدایت کی کوئی بات ان کے دلوں میں جاہی نہیں سکتی۔

امام رازی نے اس جگہ یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کو اندھا اور بہرا کردیا ہے تو وہ قرآن میں کسی طرح غور کرسکتے ہیں ؟ پھر اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جس کام کی طاقت نہ ہو اس کو مکف کرنا جائز نہیں ہے، ہمارے نزدیک اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ فی نفسہ ان منافقوں کا قرآن مجید میں غور کرنا ممکن ہے، اسی اعتبار سے وہ قرآن مجید میں تدبر کرنے کے مکلف ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو جہل اور ابو لہب وغیر ہم کے متعلق خبر دے دی کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے باوجود وہ ایمان لانے کے مکلف ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں ایمان لانے کی دعوت دیتے رہے۔

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ

اس آیت میں ”أضغان“ کا لفظ ہے یہ ”ضغن“ کی جمع ہے، دل میں جو ناپسندیدہ بات چھاپئی جائے اس کو ”ضغن“ کہتے ہیں، سدی نے کہا : اس کا معنی ہے : دل کا کھوٹ اور زنگ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس کا معنی : ان کا حسد۔ قطرب نے کہا : اس کا معنی ہے : ان کی عداوت۔ جوہری نے کہا: ”ضغن“ اور ”ضغینة“ کا معنى ہے: کینہ۔

اس آیت کا تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا منافقین یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر منافقین کے باطن کو منکشف فرما دے گا اور تمام اہل فہم پر ان کا حال واضح ہوجائے گا اور نہیں فرمائے گا، نہیں نہیں بلکہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے باطن کو منکشف فرما دے گا اور تمام اہل فہم پر ان کا حال واضح ہوجائے گا

وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَيْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰهُمْ ۭ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کا علم تھا یا نہیں؟

امام محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں ابن زید سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب منافقین رسول اللہ و کو دکھا دئیے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ وہ مسجد سے نکل جائیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٣١٧، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کوئی منافق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخفی نہیں رہا، آپ منافقوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیتے تھے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٢١٧، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقوں کو ان کی بات کے لہجہ سے پہچان لیتے تھے اور کوئی دوسرا نہیں پہچان پاتا تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقین کو پہچان لیتے اور ان کے باطن کو آپ نے اس وقت تک ظاہر نہیں فرمایا جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اجازت نہیں دی اور آپ کو ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع نہیں فرمایا اور ان کی قبروں پر کھڑے ہونے سے منع نہیں فرمایا (دیکھئے التوبۃ : ٨٤) ۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٥٩، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ اس آیت کی تفصیل میں لکھتے ہیں :

حضرت عثمان بن عفان (رض) نے فرمایا : جو شخص بھی پوشیدگی میں کوئی کام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے آثار اور اس کی زبان کی لغزشوں سے اس کام کو ظاہر فرما دیتا ہے، حدیث میں ہے :

حضرت جندب بن سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص بھی کسی کام کو پوشیدگی سے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کی چادر پہنا دیتا ہے اگر وہ اچھا کام ہو تو اچھی چادر اور برا کام ہو تو بری چادر۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٧٠٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس کی سند میں ایک راوی کذاب ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٦٧٦)

اس کے بعد حافظ ابن کثیر نے ”مسند احمد“ کے حوالے سے یہ حدیث ذکر کی ہے:

حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کی، پھر فرمایا : تم میں منافقین ہیں سو میں جس کا نام لوں وہ کھڑا ہوجائے، پھر فرمایا : تم میں منافقین ہیں سو تم اللہ سے ڈرو، پھر حضرت عمر کا ان میں سے ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا جن کا آپ نے نام لیا تھا، حضرت عمر اس کو پہنچانتے تھے، انھوں نے پوچھا : تمہارے ساتھ کیا ہوا ؟ اس نے یہ حدیث بیان کی، حضرت عمر نے فرمایا : تمہارے لیے سارا دن دوری ہو۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ٧ ٣ ص ٣٦، رقم الحدیث : ٢٢٣٤٨ طبعی جدید، موسستہ الرسالۃ، بیروت، دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٢٨٦، تاریخ کبیر ج ٧ س ٢٣۔ ٢٢) (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٩٧، دار الفکر، بیروت ١٤١٩ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی منافق مخفی نہیں رہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیتے تھے اور ہم ایک غزوہ میں تھے جس میں نو منافق تھے، لوگ ان کی شکایت کرتے تھے، ایک رات وہ سوگئے، صبح اٹھے تو ہر ایک کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا، یہ منافق ہے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١١٦، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

مولانا شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ اپنے تفسیری حاشیہ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

بعض احادیث سے ثابت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے منافقین کو نام بہ نام پکارا اور اپنی مجلس سے اتھا دیا، ممکن ہے کہ وہ شناخت ”لحن القول“ اور ”سیما“ وغیرہ سے حاصل ہوئی ہو یا آیت ہذا کے بعد حق تعالیٰ نے آپ کو بعض منافقین کے اسماء پر تفصیل اور تعیین کے ساتھ مطلع فرمادیا ہو۔

خضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٢ ھ اس آیت کی تفسیر میں ” ابن کثیر “ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

” مسنداحمد “ کی حدیث میں عقبہ بن عمر کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ میں خاص خاص منافقین کے نام لے کر ان کو مجلس سے اٹھا دیا، اس میں چھتیس آدمیوں کے نام شمار کئے گئے۔ (معارف القرآن ج ٨ ص ٤٤، ادارۃ المعارف، کراچی، ١٤١٤ ھ)

اِنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ

جہاد میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور لہو و لعب کا فرق

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کی مزید ترغیب دی ہے کہ دنیا کا مال و متاع تمہیں جہاد کرنے سے کس طرح مانع ہوسکتا ہے، کیونکہ جہاد کرنے سے تمہارا مال خرچ نہیں ہوتا، کیونکہ زیادہ تر جہاد میں تم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور تم کو مال غنیمت حاصل ہوتا ہے اور اگر مال خرچ بھی ہوجائے تو تمہارے نیک اعمال اور ان کا اجروثواب تو اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہیں، اس لیے اگر بالفرض جہاد کرنے سے تمہارا مال خرچ ہوجائے یا کم ہوجائے تو تم اس کی پروانہ کرو کیونکہ دنیا کا مال اور دنیا کی زندگی بہرحال لہو و لعب ہے۔

لہو اور لعب میں یہ فرق ہے کہ لہو و لعب اس کام کو کہتے ہیں جس سے نہ تمہیں اب کوئی فائدہ ہو نہ مستقبل میں کوئی فائدہ متوقع ہو، پھر اگر اس کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے انسان کے دوسری ضروری کاموں میں یا اس کی عبادات میں غفلت اور حرج نہ ہو تو وہ لعب ہے اور اگر اس میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس کے ضروری کام اور عبادات نہ ہوسکیں تو پھر وہ لہو ہے۔ اس وجہ سے آلات موسیقی کو ملاھی (لہو کے آلات) کہتے ہیں اور شطرنج اور کبوتر بازی کو لعب کہتے ہیں۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٢ )

اِنْ يَّسْـَٔــلْكُمُوْهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا وَيُخْرِجْ اَضْغَانَكُمْ

اس آیت میں ہے: ”فیحفکم“ اس کا مصدر ”إحفاء“ ہے ”إحفاء“ کا معنی ہے : کسی کام میں زیادتی کرنا، بہت زیادہ پوچھ گچھ اور تفتیش کرنا ”أحفی شاربه“ کا معنی ہے : اس نے اپنی مونچھیں بہت زیادہ تراشیں ”أحفی السوال“ کا معنی ہے : اس نے بار بار سوال کیا۔ ” حفی یحفي“ معنی ہے : ننگے پاؤں ہونا۔ (المفردات ج ا ص ١٦٥۔ ١٦٤ ’ ملخصا، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ)

هٰٓاَنْتُمْ هٰٓؤُلَاۗءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ ۚ وَمَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭ وَاللّٰهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ

صحابہ نے پوچھا : اللہ تعالیٰ ہماری جگہ کن لوگوں کو لے آئے گا ؟ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : یہ اور اس کی قوم، یہ اور اس کی قوم۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٦٠ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ کون لوگے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر ہم پھرگئے تو ہماری جگہ ان کو لایا جائے گا پھر وہ ہماری طرح نہیں ہوں گے ؟ اور حضرت سلمان فارسی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان کے زانو پر ہاتھ مارا اور فرمایا : یہ اور اس کے اصحاب ہیں، اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا (ایک ستارہ) پر بھی معلق ہوتا تو فارس کے مردوں میں سے اس کو، کوئی شخص حاصل کرلیتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٩٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٦، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٦١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧١٢٣ )

حسن بصری نے کہا : اس سے مراد عجم ہیں، عکرمہ نے کہا : اس سے مراد فارس اور روم ہیں، محابسی نے کہا : عرب کے بعد عجم میں علماء فارس سے بڑھ کر کسی کا اچھا دین نہیں ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ یمن میں رہنے والے انصار ہیں، حضرت ابن عباس نے بھی کہا کہ یہ انصار ہیں اور یہ بھی روایت ہے کہ اس سے مراد تابعین ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٣٦، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply