Surah Al Kausar Translation In English

Surah Al Kausar Translation In Urdu, Tafseer Surah Kausar In Urdu

ترجمہ اور تفسير سورة كوثر

ترتيب: محمد ہاشم قاسمى بستوى

اللہ کے نام سے جو بےحد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿1﴾

(اے پیغمبر) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔

 فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿2﴾

لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لیے نماز پڑھو، اور قربانی کرو۔

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿3﴾

يقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے۔

تعارف سورة کوثر

یہ سورت مبارکہ ترتیب کے لحاظ سے 108 ویں نمبر پر آتی ہے۔ اس میں ایک رکوع اور تین آیتیں ہیں۔ یہ مکی سورت ہے یہ اس وقت نازل ہوئی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔ دعوت توحید کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اکثر رشتہ دار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدہ ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف ہوگئے تھے۔ کہ ایک اور پریشانی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بیٹے کی وفات کی کھڑی ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو صاحبزادے چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے تھے تو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غم گین ہوئے اور سرداران قریش بڑے خوش ہوئے ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے اور کہنے لگے کہ چلو قصہ پاک ہوا۔ اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی بیٹا بھی نہیں رہا یعنی وہ ” ابتر ” ہوگیا۔ ابتر اس شخص کو کہتے ہیں جس کا کام اور نام چلانے والا کوئی نہ ہو۔ یعنی نسل نہ چلے یعنی اولاد نرینہ سے محروم ہوجائے عرب ایسے شخص کو ” ابتر ”۔ (یعنی دم کاٹ دینا) کہتے ہیں۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور ہمت افزائی کے لیے یہ خوشخبری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے دی۔ اسی طرح کئی سورتوں میں پہلے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختلف خوشخبریاں دی جا چکی ہیں۔

شانِ نزول

حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سب سے بڑے صاحبزادے قاسم تھے۔ ان سے چھوٹی حضرت زینب تھیں، ان سے چھوٹے حضرت عبداللہ تھے پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں ام کلثوم، فاطمہ اور رقیہ تھیں۔ ان میں سے سب سے پہلے حضرت قاسم کا انتقال ہوا۔ پھر حضرت عبداللہ نے وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا : محمد ﷺ ابتر ہیں، ان کا کوئی بیٹا نہیں جو ان کا قائم مقام بنے۔ جب وہ مرجائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور ان سے تمہارا پیچھا چھوٹ جائے گا۔ عطاء کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو حضور کا اپنا چچا ابولہب جس کا گھر بالکل حضور کے گھر سے متصل تھا، مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خوشخبری دی کہ بَتِرَ مُحَمَّدٌ اللَّیْلَۃَ ” آج رات محمد ﷺ لاولد ہوگئے یا ان کی جڑ کٹ گئی۔ “ اولاد کی محبت کس باپ کے دل میں نہیں ہوتی اور لڑکپن میں ان کا چل بسنا سنگدل آدمی کو بھی آبدیدہ کردیتا ہے۔ ایسے موقع پر بداخلاق سے بداخلاق آدمی بھی ہمدردی کا اظہار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریبی عزیز بھی ہمدردی کا اظہار تو کیا کرتے اس پر خوشیاں منا رہے تھے کہ آپ کی نرینہ اولاد موت کی نذر ہوگئی۔ اس طرح سے آپ کی جڑ کٹ گئی ہے۔ اب آپ کے بعد آپ کا کوئی نام لیوا تک نہیں ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی اور آپ کے زخمی اور محزون دل کو حوصلہ دینے کے لیے اپنے ان انعامات کا ذکر فرمایا جس کا آج تک کسی انسان نے تصور تک نہیں کیا تھا۔

انا اعطینک الکوثر كى تفسير

انا اعطینک الکوثر : ”الکوثر“ ”کثرۃ“ سے ”فوعل“ کا وزن ہے جو مبالغے کا معنی دے رہا ہے، بےانتہا کثرت۔ یعنی دشمن تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کے پاس کچھ نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آپ کو بےانتہا دیا ہے۔ ”الکوثر“ میں وہ ساری خیر کثیر شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی، مثلاً اسلام، نبوت، الخاق حسنہ، بہترین تابع دار امت، جنت اور دوسری نعتیں جو شمار نہیں ہوسکتیں۔ لغت کے لحاظ سے ”الكوثر“ کا معنی یہی ہے ، البتہ بہت سی صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے عطا فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محشر میں آپ ﷺ کو جو حوض عطا کرے گا اس کا نام بھی آپ ﷺ نے کوثر بتایا۔ اس لحاظ سے یہ تفسیر مقدم ہے، مگر ترجیح کی ضرورت تب ہے جب دونوں تفسیروں میں تعارض ہو، جو یہاں ہے ہی نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ سعید بن جبیر (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی کہا نہوں نے ” الکوثر “ کے متعلق فرمایا : ” اس سے مراد وہ خیر ہے جو اللہ نے آپ ﷺ کو عطا فرمائی۔ “ راوی کہتا ہے کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے ؟ تو سعید (رح) نے کہا : ” جنت میں جو نہر ہے وہ بھی اس خیر میں شامل ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی“۔  (صحيح البخاري، التفسیر، سورة: ﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾ : ٣٩٦٦)

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ كى تفسير

یعنی اتنے بڑے انعام و احسان کا شکر بھی بہت بڑا ہونا چاہیے۔ تو چاہیے کہ آپ اپنی روح، بدن اور مال سے برابر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں، بدنی و روحی عبادات میں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ اور مالی عبادات میں قربانی ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے کیونکہ قربانی کی اصل حقیقت جان کا قربان کرنا تھا۔ جانور کی قربانی کو بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر اس کے قائم مقام کردیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کے قصہ سے ظاہر ہے اسی لیے قرآن میں دوسری جگہ بھی نماز اور قربانی کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے۔ (قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢لَا شَرِيْكَ لَهُ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ۔ الانعام :163-162)

تنبیہ:  بعض روایات میں ” وانحر ” کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے آئے ہیں۔ مگر ابن کیثر (رح) نے ان روایات میں کلام کیا ہے۔ اور ترجیح اس قول کو دی ہے کہ ” نحر ” کے معنی قربان کرنے کے ہیں گویا اس میں مشرکین پر تعریض ہوئی کہ وہ نماز اور قربانی بتوں کے لیے کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کام خالص خدائے واحد کے لیے کرنے چاہیں۔

اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَالْاَبْتَرُ  كى تفسير

 شَانِیٔ بغض و عداوت رکھنے والے دشمن کو کہتے ہیں۔ اَبْـتَر : بتر سے ہے ‘ یعنی کسی چیز کو کاٹ دینا ‘ منقطع کردینا۔ اہل عرب دم کٹے جانور کو ابتر کہتے ہیں۔ عرف عام میں اس سے ایسا آدمی مراد لیا جاتا ہے جس کی نرینہ اولاد نہ ہو اور جس کی نسل آگے چلنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ یہ لفظ مشرکین مکہ نے (معاذ اللہ) حضور ﷺ کے لیے استعمال کیا تھا ‘ جس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ (رض) کے بطن سے حضور ﷺ کی یہ اولادپیدا ہوئی : قاسم ‘ پھر زینب ‘ پھر عبداللہ ‘ پھر اُم کلثوم ‘ پھر فاطمہ ‘ پھر رقیہ۔ (رض) اجمعین۔ پہلے قاسم کا انتقال ہوا۔ پھر عبداللہ (جن کا لقب طیب و طاہر ہے) داغِ مفارقت دے گئے۔ اس پر مشرکین نے خوشیاں منائیں کہ آپ ﷺکے دونوں فرزند فوت ہوگئے ہیں اور باقی اولاد میں آپ ﷺ کی بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں۔ لہٰذا آپﷺجو کچھ بھی ہیں بس اپنی زندگی تک ہی ہیں ‘ آپ ﷺ کے بعد نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل آگے چلے گی اور نہ ہی کوئی آپ ﷺکا نام لیوا ہوگا۔ اس پس منظر میں یہاں ان لوگوں کو سنانے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ﷺآپ کا نام اور ذکر تو ہم بلند کریں گے ‘ جس کی وجہ سے آپ کے نام لیوا تو اربوں کی تعداد میں ہوں گے ۔ البتہ آپ کے یہ دشمن واقعی ابتر ہوں گے جن کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply