سورہ لہب كا ترجمہ اور تفيىر
ترتىب: محمد ہاشم قاسمى بستوى
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿1﴾
ہاتھ ابولہب کے برباد ہوں، اور وہ خود برباد ہوچکا ہے۔
مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ﴿2﴾
اس کی دولت اور اس نے جو کمائی کی تھی وہ اس کے کچھ کام نہیں آئی۔
سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ﴿3﴾
وہ بھڑکتے شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا۔
وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ﴿4﴾
اور اس کی بیوی بھی لکڑیاں ڈھوتی ہوئی۔
فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ ﴿5﴾
اپنی گردن میں مونجھ کی رسی لیے ہوئے۔
تعارف سورة اللھب
یہ ترتیب کے لحاظ سے 111 ویں نمبر پر آتی ہے۔ اس میں ایک رکوع اور پانچ آیات ہیں۔ یہ سورة مبارکہ مکی ہے اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جس میں کسی دشمن اسلام کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اور اس کی کچھ وجوہات ہیں ان میں بنیادی اور پہلی وجہ اور شان نزول یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی مرتبہ کوہ صفا پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تھا اور توحید کی دعوت دی تھی اور ابو لہب نے جواباً کہا تھا تجھے ہلاکت اے محمد ! کیا تو نے اس لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا تو اس کے جواب میں یہ سوت مبارکہ نازل ہوئی۔
دوسری : یہ کہ ابولہب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سگا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا۔ یوں یہ آپکا قریبی رشتہ دار تھا اور عربوں کی روایت تھی کہ قطع رحمی کو بڑا ہی برا سمجھا جاتا تھا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رہے تو صلہ رحمی کے جذبہ کے تحت ہی بنی ہاشم اور بنی المطلب آپ کے ساتھ رہے۔ اور ابو لہب بجائے ساتھ جانے کے الٹا ان کو زیادہ سے زیادہ تنگ کرتا رہا۔ بجائے صلح صفائی کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنگ کرتا رہتا اور اس کی بیوی بھی تنگ کرتی رہتی۔
تیسری۔ اس کے دو بیٹوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔ جنہوں نے بعثت کے بعد دونوں کو طلاق دے دی۔
چوتھی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹوں کا انتقال ہوا تو اس نے خوشی منائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” جڑ کٹا ” کہا۔
پانچویں۔ جہاں جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ کے لیے جاتے یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا کہتا۔
چھٹی۔ ذوالمجاز کے بازار میں دعوت و تبلیغ کے وقت اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنے پتھر مارے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایڑیاں خون سے بھر گئیں۔ غرض اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور ہر اخلاقی اصول کو توڑ دیا۔ اور بڑھ چڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی۔ اسی لیے اس کا نام لے کر اس کی بھرپور مذمت کی گئی۔ اس سے لوگوں پر بڑا اچھا اثر پڑا کہ انسانوں میں محترم وہ ہے جو ایمان لے آئے اور ذلیل و خوار وہ ہے جو کفر پر قائم رہے۔
لغات
تبت: تباہ ہوگئی۔ (ہوگئے)۔ یدا: دونوں ہاتھ۔ تب: تباہ ہوا۔ ما أغنی: کام نہ آیا۔ کسب: کمایا۔ سیصلی: بہت جلد جا پڑے گا۔ امراة۔ عورت۔ جید: گردن۔ حبل من مسد: مضبوط پٹی ہوئی رسی۔
شانِ نزول
سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ [ الشعرآ : 214 ] تو رسول ﷺ بطحا کی طرف تشریف لے گئے اور پہاڑی پر چڑھ کر پکارا: (یَا صَبَاحَاہْ !) تو (اس آواز پر) آپ کے پاس قریش جمع ہوگئے، تو آپ نے فرمایا: ”بتاؤ اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم میری بات سچ مانو گے ؟ “ سب نے جواب دیا، جی ہاں ! آپ نے فرمایا : ” سنو ! میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے ہے۔ “ تو ابو لہب نے کہا، تو تباہ ہوجائے ! کیا اسی لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی: ﴿تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ﴾ آخر تک مکمل۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ : ﴿ و تب ما أغنی عنه ماله وما کسب﴾ : 4972]
ابو لہب كى بىوى كا انجام
آىت نمبر4 مىں وَّامْرَاَتُهُ سے مراد ابو لہب كى بىوى ہے، اس کا نام اَروَہ اور کنیت اُمّ جمیل تھی،یہ ابو سفیان کی بہن تھی، اس کے دل میں حضور ﷺ کی عداوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ وہ رات کے وقت آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے دار لکڑیاں بچھا دیا کرتی تھیں، اور آپ کو طرح طرح ستایا کرتی تھی۔
حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت اسماء کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور ام جمیل نے اس کو سنا تو وہ بپھری ہوئی رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلی۔ اس کے ہاتھ میں مٹھی بھر پتھر تھے اور وہ حضور کی ہجو میں اپنے ہی کچھ اشعار پڑھتی جاتی تھی۔ حرم میں پہنچی تو وہاں حضرت ابوبکر کے ساتھ حضور تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ، یہ آرہی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر یہ کوئی بیہودگی کرے گی۔ حضور نے فرمایا یہ مجھ کو نہیں دیکھ سکے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے موجود ہونے کے باوجود وہ آپ کو نہیں دیکھ سکی اور اس نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہارے صاحب نے میری ہجو کی ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا، اس گھر کے رب کی قسم انھوں نے تو تمہاری کوئی ہجو نہیں کی۔ اس پر وہ واپس چلی گئی (ابن ابی حاتم۔ سیرۃ ابن ہشام۔ بزار نے حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اسی سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے) حضرت ابوبکر کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ ہجو تو اللہ تعالیٰ نے کی ہے، رسول اللہ ﷺ نے نہیں کی۔
﴿حَمَّالَةَ الْحَطَبِ﴾ كى تفسىر
حَمَّالَةَ الْحَطَبِ جن کا لفظی ترجمہ ہے “لکڑیاں ڈھونے والی” مفسرین نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس، ابن زید، ضحاک اور ربعی بن انس (رض) کہتے ہیں کہ وہ راتوں کو خاردار درختوں کی ٹہنیاں لاکر رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر ڈال دیتی تھی، اس لیے اس کو لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا ہے۔ قتادہ، عکرمہ، حسن بصری، مجاہد اور سفیان ثوری (رح) کہتے ہیں کہ وہ لوگوں میں فساد ڈلوانے کے لیے چغلیاں کھاتی پھرتی تھی، اس لیے اسے عربی محاورے کے مطابق لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا، کیونکہ عرب ایسے شخص کو جو ادھر کی بات ادھر لگا کر فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہو، لکڑیاں ڈھونے والا کہتے ہیں۔ اس محاورے کے لحاظ سے حَمَّالَةَ الْحَطَبِ معنی ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اردو میں ” بی جمالو ” کے معنی ہیں۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جو شخص گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہا ہو اس کے متعلق عربی زبان میں بطور محاورہ کہا جاتا ہے فلان یحتطب علی ظھرہ۔ ” فلاں شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد رہا ہے “۔ پس حَمَّالَةَ الْحَطَبِ کے معنی ہیں گناہوں کا بوجھ ڈھونے والی۔ ایک اور مطلب مفسرین نے اس کا یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ آخرت میں اس کا حال ہوگا، یعنی وہ لکڑیاں لا لا کر اس آگ میں ڈالے گی جس میں ابو لہب جل رہا ہوگا۔ (ماخوذ از تفہىم القرآن، مولانا مودودى)
﴿فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ﴾ كى تفسىر
اس کی گردن کے لیے جید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسی گردن کے لیے بولا جاتا ہے جس میں زیور پہنا گیا ہو۔ سعید بن المسیب، حسن بصری اور قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ ایک بہت قیمتی ہار گردن میں پہنتی تھی، اور کہا کرتی تھی کہ لات اور عزی کی قسم میں اپنا یہ ہار بیچ کر اس کی قمت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں خرچ کردوں گی۔ اسی بنا پر جید کا لفظ یہاں بطور طنز استعمال کیا گیا ہے کہ اس مزین گلے میں جس کے ہار پر وہ فخر کرتی ہے، دوزخ میں رسی پڑی ہوگی۔ یہ اسی طرح کا طنزیہ انداز کلام ہے جیسے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے ﴿فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو ۔
جو رسی اس کی گردن میں ڈالی جائے گی اس کے لیے ﴿حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ﴾ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی وہ رسی مسد کی قسم سے ہوگی۔ اس کے مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ خوب مضبوط بٹی ہوئی رسی کو مسد کہتے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی رسی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں مونجھ کی رسی یا اونٹ کی کھال یا اس کے صوف سے بنی ہوئی رسی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد لوہے کے تاروں سے بٹی ہوئی رسی ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.