سورہ دہر ترجمہ اور تفسير
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
سورة الإنسان
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا ﴿1﴾
انسان پر کبھی ایسا وقت آیا ہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا؟
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿2﴾
ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے اس طرح پیدا کیا (١) کہ اسے آزمائیں۔ پھر اسے ایسا بنایا کہ وہ سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے۔
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ﴿3﴾
ہم نے اسے راستہ دکھایا کہ وہ یا تو شکر گزار ہو، یا ناشکرا بن جائے۔
إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا ﴿4﴾
ہم نے ہی کافروں کے لیے زنجیریں، گلے کے طورق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔
إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿5﴾
بیشک نیک لوگ ایسے جام سے مشروبات پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی۔
عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿6﴾
یہ مشروبات ایک ایسے چشمے کے ہوں گے جو اللہ کے (نیک) بندوں کے پینے کے لیے مخصوص ہے، وہ اسے (جہاں چاہیں گے) آسانی سے بہا کرلے جائیں گے۔
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴿7﴾
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی منتیں پوری کرتے ہیں، اور اس دن کا خوف دل میں رکھتے ہیں جس کے برے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے ہوں گے۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿8﴾
اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیمو اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿9﴾
(اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ۔
إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا ﴿10﴾
ہم اپنے رب کی طرف سے ایک سخت اور تلخ دن کا اندیشہ رکھتے ہیں۔
فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ﴿11﴾
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو اس دن کے برے اثرات سے بچا لے گا، اور ان کو شادابی اور سرور سے نوازے گا۔
وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا ﴿12﴾
وہ ان باغوں میں آرام دہ اونچی نشستوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ، جہاں نہ دھوپ کی تپش دیکھیں گے اور نہ کڑا کے کی سردی۔
مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا ﴿13﴾
اور حالت یہ ہوگی کہ ان باغوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے ، اور ان کے پھل مکمل طور سے ان کے آگے رام کردیے جائیں گے۔
وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا ﴿14﴾
اور درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے میوے ان کے بالکل اختیار میں ہوں گے۔
وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا ﴿15﴾
اور ان کے پاس چاندی کے برتن لائے جائیں گے اور آبخورے جو شیشہ کے ہوں گے ۔
قَوَارِيرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا ﴿16﴾
( اور وہ) شیشے چاندی کے ہوں گے جنہیں بھرنے والوں نے مناسب انداز سے بھرا ہوگا، ف ٨۔
وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا ﴿17﴾
ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائیں جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی،
عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّىٰ سَلْسَبِيلًا ﴿18﴾
یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔
وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا ﴿19﴾
ان کے خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم انھیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔
وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا ﴿20﴾
وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان تمہیں نظر آئے گا۔
عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا ﴿21﴾
ان کے اوپر باریک رشیم کا سبز لباس اور دبیز ریشم کے کپڑے ہوں گے ، اور انھیں چاندی کے کنگنوں سے آراستہ کیا جائے گا، اور ان کا پروردگار انھیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔
إِنَّ هَٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا ﴿22﴾
(اور فرمائے گا کہ) یہ ہے تمہارا انعام اور تم نے ( دنیا میں) جو محنت کی تھی اس کی پوری قدر دانی کی گئی ہے۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلًا ﴿23﴾
(اے پیغمبر) ہم نے ہی تم پر قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے۔
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ﴿24﴾
آپ اپنے پروردگار کے حکم پر ڈٹے رہیے اور ان میں سے کس فاسق و کافر کے بات نہ مانئیے
وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴿25﴾
اور صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح کیجئے۔
وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا ﴿26﴾
اور رات کے کچھ حصے میں نماز پڑھا کیجئے اور رات کے بڑے حصے میں خوب اس کی پاکیزگی بیان کیجئے۔
إِنَّ هَٰؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا ﴿27﴾
(بےشک یہ کافر) جلدی مل جانے والی چیز ( دنیا ) کو پسند کرتے ہیں اور ایک بہت بھاری دن کو پیچھے ڈالے ہوئے ہیں۔
نَحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ۖ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا ﴿28﴾
ہم نے ان کو پیدا کیا۔ اور ہم نے ہی ان کے جوڑوں کے بندھنوں کو خوب مضبوط باندھا ہے۔ اور ہم جب چاہیں گے ان کے بدلے ان ہی جیسے اور لوگوں کو لے آئیں گے۔
إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا ﴿29﴾
بیشک یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب تک پہنچے کا راستہ بنا لے۔
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿30﴾
اور تم اس وقت تک نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ نہ چاہیے۔ بیشک وہ بہت جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔
يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿31﴾
وہ اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے داخل کرتا ہے۔ اور جو ظالم ہیں ان کیلئے دردناک عذاب تیار ہے۔
سورة دہركى فضلیت
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن صبح کی نماز میں سورة دہر اور سورة سجدہ تلاوت فرماتے تھے۔ ( مسلم شریف : ص ٢٨٨: ج ١: ترمذی شریف : ص : ١٠١: بخاری شریف : ص : ١٢٢: ج : ١)
جوشخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع میں عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا اجر وثواب عطا فرمائے گا۔
﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا﴾ ”ھل“ کا معنی
اس آیت کے شروع میں ”ھل“ کا لفظ ہے اور یہ استفہام کے لیے آیا ہے، اس کا معنی ہے: ”کیا ليكن يہاں “ھل“ ” قد “ کے معنی میں ہے، یعنی بیشک یا بالیقین انسان پر زمانہ میں ایک ایسا وقت آچکا ہے، اور اس کی نظیریہ آیت ہے :
﴿ھَلْ اَتٰـکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ﴾ ۔ (الغاشیہ : ١) بیشک آپ کے پاس قیامت کی خبر آچکی ہے۔
اس آیت میں ”انسان“ کے مصداق میں متعدد اقوال
اس آیت میں ” انسان “ کا لفظ ہے، علامہ علی بن محمد المادردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے لکھا ہے : انسان کی تفسیر میں دو قول ہیں :
(1) قتادہ، السدی اور عکرمہ نے کہا : اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو جمعہ کے دن عصر کے بعد پیدا فرمایا، جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اللہ عزوجل نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا فرمایا اور اس میں پہاڑ اتوار کے دن نصب کیے اور پیر کے دن درخت پیدا کیے اور مکروہ چیزیں منگل کے دن پیدا کیں اور نور بدھ کے دن پیدا کیا، اور جعرات کے دن اس میں چوپاؤں کو پھیلا دیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو سب مخلوق کے آخر میں جمعہ کے دن عصر کے بعد پیدا فرمایا، وہ جمعہ کی ساعات میں سے آخری ساعت تھی، عصر سے لے کر رات کے وقت تک۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٨٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٠٩٤٣ )
(2) حضرت ابن عباس (رض) اور ابن جریج کا قول یہ ہے کہ اس آیت میں ” انسان “ سے مراد ہر انسان ہے۔
( النکت والعیون ج ٥ ص ٦٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
دوسرے قول کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ﴾ (الدھر : ٢) بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔
اس دوسری آیت میں ” انسان “ سے مراد عام بنو آدم اور عام انسان ہیں اور دونوں آیتوں میں لفظ ” انسان “ معرفہ ہے اور یہ باقاعدہ ہے کہ جب معرفہ مکرر ہو تو دوسرا معرفہ پہلے معرفہ کا عین ہوتا ہے اور جب دوسری آیت میں انسان سے مراد عام جو آدم ہیں تو پہلی آیت میں ” انسان “ سے مراد عام بنو آدم ہونے چاہئیں، نیز اس لیے بھی تاکہ نظم قرآن میں خلل نہ آئے۔
﴿إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾ ” نطفہ “ اور امشاج “ کا معنی
اس آیت میں ” نطفۃ “ کا لفظ ہے، نطفہ منی کے قطرہ کو کہتے ہیں، قلیل پانی جو کسی جگہ محفوظ ہو اس کو نطفہ کہتے ہیں، اور ” امشاج “ کا معنی اخلاط ہے ” امشاج “ کا واحد ” مشج “ اور ” مشیج “ ہے، یعنی دو چیزوں کا ایک دوسرے سے مل جانا، فراء نے کہا : ” امشاج “ سے مراد ہے : مرد کے پانی اور عورت کے پانی کا مختلط ہونا، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” امشاج “ کا معنی ہے : سفیدی میں سرخی یا سرخی میں سفیدی۔
حضرت ام سلمیٰ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مرد کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پیلا پیلا ہوتا ہے، ان میں سے جس کا پانی بھی غالب یا سابق ہو، بچہ اس کے مشابہ ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣١١، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٩٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٠١)
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : مرد کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے، وہ عورت کے پانی سے مختلط ہوجاتا ہے جو پیلا پیلا ہوتا ہے، ان دونوں پانیوں سے بچہ پیدا ہوتا ہے، بچے کے پٹھے، ہڈی اور اس کی قوت مرد کے پانی سے ہوتی ہے، اور اس کا خون، گوشت اور بال عورت کے پانی سے بنتے ہیں۔
نطفہ کے اختلاط میں متعدد اقوال
حسن بصری نے اس آیت کی تفسیر میں کہا: نطفہ حیض کے خون کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے کیونکہ جب عورت کے رحم میں مرد کا پانی داخل ہوتا ہے اور عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو اس کا حیض آنا بند ہوجاتا ہے، تو پھر مرد کا نطفہ حیض کے خون کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے۔ قتادہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا: ” امشاج “ کا معنی یہ ہے کہ پہلے پانی اور خون مختلط ہوتا ہے، پھر وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے، پھر وہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نطفہ کے اختلاً سے مراد یہ ہے کہ نطفہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف اور ایک صفت سے دوسری صفت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔
﴿يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا﴾ ”نذر“ کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور نذر کے شرعی احکام
” نذر“ کا لغوی معنی ہے : وعدہ کرنا اور اس کا شرعی ہے : بندہ اللہ تعالیٰ سے کسی عبادت کے کرنے کا وعدہ کرے، خواہ مطلقاً ، جیسے کہے : اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مجھ پر اتنا صدقہ کرنا لازم ہے، خواہ معلقاًجیسے کہے : اگر اللہ نے میرے مریض کو شفاء دے دی یا میرے گم شدہ شخص کو مجھ سے ملا دیا تو میں اس کی رضا کے لیے اپنے مال میں سے اتنا صدقہ کروں گا، یا اس کی رضا کے لیے اتنی نفل نمازیں پڑھوں گا۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت غیر مشروط طور پر کرنی چاہیے اور اپنے کسی کام کی شرط لگا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی معصیت میں نذر نہیں ماننی چاہیے اور اس کی عبادت کی جو نذر مانی جائے، اس کا پورا کرنا واجب ہے اور غیر اللہ کی نذر ماننا جائز نہیں ہے۔
عبادت کی نذر ماننے کی کراہت پر دلیل یہ حدیث ہے:
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نذر نہ مانا کرو کیونکہ نذر تقدیر سے مستغنی نہیں کرتی، ( یعنی جو کام نہیں ہونا وہ نہیں ہوگا خواہ تم اس کام کے لیے نذر مانو یا نہ مانو) نذر کے ذریعہ عبادت کا حصول صرف بخیل سے ہوتا ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٥٣٨، مسند احمد ج ٢ ص ٢٣٥، صحیح مسلم رقم الحدیث المسلسل : ٤٢١٧)
معصیت کی نذر کی ممانعت:
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی معصیت میں نذر جائز نہیں اور اس کا کفارہ وہ ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث ٣٢٩٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٥٢٤، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٨٤٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٢٥، مسند احمد ج ٦ ص ٢٤٧ )
عبادت کی نذر کا پورا کرنا واجب ہے:
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی، اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جس نے اللہ کی معصیت کی نذر مانی ہے وہ اللہ کی معصیت نہ کرے۔
( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٩٦، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٢٨٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٥٢٦، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٨١٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٤٦، مسند احمد ج ٦ ص ٣٦)
غیر اللہ کی نذر ماننے کے عدم جواز کی دلیل یہ ہے کہ تمام فقہاء نے یہ تصریح کی ہے کہ نذر عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں ہے، جاہل عوام یوں نذر مانتے ہیں کہ اے اللہ کے ولی ! اگر آپ نے میرے فلاں بیمار کو تندرست کردیا یا میرے فلاں گم شدہ شخص کو مجھ سے ملا دیا تو میں آپ کے مزار پر چادر چڑھاؤں گا یا بریانی کی دیگ پیش کروں گا، یہ طریقہ ناجائز اور حرام ہے
جنت میں ابرار کو ملنے والی نعمتیں
الدھر : ١١ سے الدھر : ٢٢ تک اللہ تعالیٰ نے جنت کی وہ نعمتیں بیان کی ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ابرار کو آخرت میں عطاء فرمائی ہیں۔
اس سے پہلے یہ بتایا تھا کہ ابرار نے محض اللہ کی رضا کے لیے اور قیامت کے خوف سے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلایا تھا اور ان پر صدقہ کیا تھا، اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان دونوں غرضوں کو پورا کردیا، ان کو قیامت کے دن کے ہول سے بھی بچا لیا اور چونکہ ان سے راضی ہوگیا، اس لیے ان کو تروتازگی اور خوشی عطاء فرمائی، اس کی مزید تفصیل اس کے بعد کی آیات میں ہے۔
الدھر ١٣۔ ١٢ میں فرمایا : اور ان کے صبر کی جزاء میں ان کو جنت اور ریشمی لباس عطاء فرمایا۔ وہ جنت میں مسندوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے ، وہ جنت میں نہ گرمی کی دھوپ پائیں گے نہ سردی کی ٹھنڈک۔
صبر کی اقسام
اس آیت میں صبر سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے غرباء اور مساکین پر صدقہ کرنے سے جو مال میں کمی ہوتی ہے، وہ اس پر صبر کرتے ہیں یا نماز روز ہے، حج اور دیگر عبادات میں جو جسمانی مشقت اٹھانی پڑتی ہے، وہ اس پر صبر کرتے ہیں یا نا جائزخواہشوں پر صبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، صبر کی چار قسمیں ہیں : (١) کسی مصیبت پر جب پہلی بار صدمہ پہنچے تو اس پر صبر کرے (٢) فرائض اور واجبات کی ادائیگی کی مشقت پر صبر کرے ( ٣) اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب کرنے پر صبر کرے (٤) دنیاوی مصائب پر اپنے نفس کو رونے پیٹنے اور شکوہ شکایت کرنے سے روکے اور صبر کرے۔
وہ مسہریوں پر یا مسندوں پر ٹیک لگائے ہوئے جنت میں بیٹھے ہوئے ہوں گے ، وہاں کی ہوا معتدل ہوگی، سرد ہوگی، گرم۔ ” زمھریر “ کا معنی بنو طے کی لغت میں چاند ہے، سو اس آیت کا معنی ہے : جنت میں خود بخود روشنی ہوگی، اس لیے وہاں نہ سورج کی ضرورت ہوگی نہ چاند کی۔
سونٹھ کے پانی کی توجیہ
الدھر : ١٧ میں فرمایا : وہاں ان کو ایسے جام بھی پلائے جائیں گے جن میں سونٹھ کے چشمے کی آمیزش ہوگی۔
اس سے پہلی آیتوں میں مشروب کے برتنوں کی تفصیل بیان فرمائی تھی اور مشروب کی مقدار کا بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں مشروب کی کیفیت کا بیان فرمایا ہے کہ اس میں سونٹھ کے چشمے کی آمیزش ہوگی، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب کھانے کے بعد ہاضمے کے لیے سونٹھ کا پانی پیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جنت میں کھانے پینے کے بعد الگ سے سونٹھ کا پانی پینے کی ضرورت نہیں ہوگی، جنت کے مشروبات میں از خود سونٹھ کا پانی ملا ہوا ہوگا۔
سلسبیل کا معنی
الدھر : ١٨ میں فرمایا : اس چشمہ کو جنت میں سلسبیل کہا جاتا ہے۔
ابن الاعرابی نے کہا : ” سلسبیل “ کا لفظ صرف قرآن میں آیا ہے، عربی زبان میں یہ لفظ نہیں ہے، اس لیے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ ” سلسبیل “ کا مادہ کیا ہے اور یہ کس لفظ سے مآخوذ ہے، اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ جو مشروب میٹھا ہو اور آسانی سے حلق سے اتر جائے، اس کو مشروب ” سلسال “ یا ” سلسبیل “ کہا جاتا ہے۔ زجاج نے کہا : لغت میں ” سلسبیل “ اس چیز کی صفت ہے جو انتہائی سلاست میں ہو یعنی جو چیز انتہائی آسان اور رواں ہو، اس چشمہ کا پانی سونٹھ کے چشمہ کی طرف ہوگا اور آسانی اور روانی سے حلق سے اترے گا۔
جنتی لڑکوں کے دائمی ہونے کی توجیہہ
الدھر : ١٩ میں فرمایا : اور دائمی جنتی لڑکے ان کے پاس گردش کریں گے، تم انھیں دیکھ کر یہ گمان کرو گے کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔
بچپن میں انسان کے چہرے پر بھولپن اور معصومیت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا چہرہ پر بہار اور پرکشش ہوتا ہے اور اسے دیکھنے سے طبیعت خوش ہوتی ہے، اور جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے اس کے چہرے پر پکا پن آجاتا ہے، چہرے پر م سے اور والے نکل آتے ہیں، اس کے چہرے کی خوب صورتی، رونق اور کشش جاتی رہتی ہے اور وہ چہرہ جو بچپن میں بھولا بھالا اور معصوم لگتا تھا، جوان ہونے کے بعد خرانٹ لگنے لگتا ہے، اس کے برعکس جنت میں جو اہل جنت کی خدمت پر مامور لڑکے ہوں گے ، ان کے چہروں پر ہمیشہ اسی طرح بھولپن، معصویت، رونق اور رعنائی رہے گی جو دنیا میں بالغ ہونے سے پہلے لڑکوں کے چہروں پر ہوتی ہے۔
اس لیے فرمایا : اور دائمی جنتی لڑکے یعنی ان لڑکوں کی صورتوں میں جو بھولپن اور معصومیت ہوگی اور دائمی ہوگی، اس کے بر خلاف دنیا میں لڑکوں کے چہرے پر یہ کیفیت بالغ ہونے سے پہلے تک رہتی ہے، اس آیت کی دوسری تفسیر یہ کی ہے کہ وہ لڑکے دائمی ہیں یعنی ان کی موت نہیں آئے گی لیکن پہلی تفسیر راجح ہے، اس کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ” مخلدون “ کا معنی ہے: ”محلون“ یعنی وہ زیورات سے آراستہ ہوں گے ۔
الدھر : ٢٠ میں فرمایا : تم وہاں جہاں بھی دیکھو گے تو سراسر نعمتیں اور عظیم سلطنت ہی دیکھو گے۔
جنتیوں کی سلطنت
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : کوئی بیان کرنے والا جنت کی نعمتوں کے حسن اور ان کی پاکیزگی کو کما حقہٗ بیان نہیں کرسکتا، اہل جنت میں سے جو شخص ادنیٰ درجہ کا ہوگا تو وہ دیکھے گا کہ اس کا ملک ایک ہزار سال کی مسافت کو محیط ہے اور دور والے کو اسی طرح دیکھے گا جیسے وہ قریب والے کو دیکھ رہا ہوگا اور جب وہ کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو وہ ان کو فوراً حاصل ہوجائے گی، نیز اس آیت میں فرمایا : ان کی عظیم سلطنت ہوگی، کلبی نے اس کی تفسیر میں کہا کہ اللہ کا ولی اپنے گھر میں آرام کر رہا ہوگا، پھر اللہ کا فرستادہ اس کے پاس عمدہ پوشاک، لذیذ کھانے اور مرغوب مشروبات لے کر آئے گا اور اس کی اجازت سے اس کے گھر میں داخل ہوگا، اور اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مکرم فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں نہیں آسکیں گے، اس سے بڑھ کر ان کی نعمتیں اور ان کی عظیم سلطنت اور کیا ہوگی۔
”سندس“ اور ”استبرق“ کا معنی
اس آیت میں ”سندس“ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : باریک ریشم، باریک دیبا، علامہ سیوطی نے ”الإتقان“ میں لکھا ہے کہ جو الیقی نے کہا ہے کہ فارسی میں اس کا معنی ہے : باریک دیبا اور لیث نے کہا ہے کہ ارباب لغت اور مفسرین میں سے کسی کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ یہ لفظ مغرب ہے، یعنی اصل میں یہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کو عربی لفظ بنایا گیا ہے، شدلہ نے کہا : اصل میں یہ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ ( لغات القرآن ج ٣ ص ٢٣٦، کراچی)
اور ”استبرق“ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : ریشم کا زریں کپڑا۔ ( لغات القرآن ج ١ ص ٧٧، کراچی)
سونے اور چاندی کے کنگن میں تعارض اور اس کے جواب
نیز فرمایا اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔
ایک اور سورت میں ان کو سونے کے کنگن پہنانے کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿اُولٰٓئِکَ لَھُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ﴾ (الکہف : ٣١)
ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے دریا جاری ہیں، وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔
ان آیات میں کوئی تعارض نہیں ہے، اہل جنت کو سونے اور چاندی دونوں کے کنگن بیک وقت پہنائے جائیں گے یا کبھی سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور کبھی چاندی کے، دوسرا جواب یہ ہے کہ انسانوں کی طبیعتیں اور مزاج مختلف ہوتے ہیں، بعض لوگ چاندی پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ سونا پسند کرتے ہیں، جنت میں دونوں قسم کے کنگن ہوں گے جن کو سونا پسند ہوگا وہ سونے کے کنگن پہنیں گے اور جن کو چاندی پسند ہوگی وہ چاندی کے کنگن پہنیں گے، تیسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں جنت کے ’ ولدان “ اور ’ ’ غلمان “ ( نو خیز، بےریش لڑکوں) کا ذکر ہے کہ وہ جنت میں چاندی کے کنگن پہنے ہوئے ہوں گے اور الکہف : ٣١ میں جنت کے مردوں کا ذکر ہے کہ وہ سونے کے کنگن پہنے ہوئے ہوں گے ۔
” شراب طھور “ کا معنی
نیز اس آیت میں فرمایا : اور ان کا رب ان کو شراب طہور پلائے گا۔
”طھور“ ”طاہر“ کا مبالغہ ہے یعنی جنت کی شراب بہت زیادہ پاکیزہ ہوگی، اور وہ دنیا کی خمر ( انگور کی شراب) کی طرح نجس نہیں ہوگی، اور اس کو بنانے میں ناپاک اور نجس ہاتھوں کا استعمال نہیں ہوا ہوگا، اور جسم کے مسامات سے جو پسینہ نکلے گا اس میں بھی نجس شراب کی بو نہیں ہوگی بلکہ مشک کے پسینہ کی خوشبو آرہی ہوگی۔
مقاتل نے کہا : جنت کے دروازے پر ایک چشمہ ہے جو ایک درخت کے تنے سے نکلتا ہے، جو شخص اس مشروب کو پیتا ہے اس کا دل کمینہ اور حسد سے اور اس کے پیٹ میں جو بھی گندگی ہوتی ہے اس سے صاف ہوجاتا ہے اور یہی ” شراب طھور “ کا معنی ہے کیونکہ ” طھور “ کا معنی ہے : پاک کرنے والا۔
ابو قلابہ نے کہا : اہل جنت کو کھانے اور پینے کے بعد شراب طہور پلائی جائے گی، اس سے ان کے جسم کا باطن پاک ہوجائے گا، اور ان کی کھالوں سے پسینہ نکلے گا جس سے مشک کی خوشبو آئے گی اور ان دونوں قولوں کی بناء پر ” طھور “ کا معنی ” مطھر “ ہے اور یہ شراب ان کے باطن سے اخلاق مذمومہ اور اشیاء موذیہ خارج کردے گی۔
﴿اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاۗءً وَّكَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا﴾ ابرار کا جنت میں کلمات تحسین سے استقبال
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے اور جنت کی نعمتوں کا مشاہدہ لیں گے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمام نعمتیں تمہارے لیے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے لیے تمہارے واسطے تیار کیا تھا، باوجود اس کے کہ تمہارے اعمال کم تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو تمہارے اعمال کی جزاء میں تیار فرمایا ہے، اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کی زبان سے یہ کہلوائے گا کہ وہ اہل جنت سے کہیں :
﴿سَـلٰـمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ﴾ ۔ (الرعد : ٢٤ )
تم پر سلام ہو تم نے جو صبر کیا تھا آخرت کا یہ گھر اس کی کیسی اچھی جزا ہے۔
﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِٓیْئًام بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ﴾ (الحاقہ : ٢٤ )
جو اعمال تم نے گزشتہ زمانہ میں کیے تھے ان کے بدلہ میں خوشی سے کھانا پینا تمہیں مبارک ہو۔
اہل جنت سے فرشتوں کے اس کلام سے مقصود یہ تھا کہ اہل جنت کو مزید خوش اور مسرور کیا جائے کیونکہ جب مجرم کی سزا دی جاتی ہے تو اس کو بتایا جاتا ہے : یہ تیری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے تاکہ اس کے غم اور افسوس میں اور اضافہ ہو، اسی طرح ابرار اور نیک لوگوں کو انعامات دے کر یہ بتایا جائے گا کہ یہ تمہاری اطاعت اور عبادات کا صلہ ہے تاکہ ان کی مسرت اور شادمانی میں اور زیادتی ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو یعنی میرے علم میں تمہارے لیے یہ انعامات مقدر تھے، اسی لیے میں نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے لیے یہ انعامات تیار کیے۔
بندوں کی نیکیوں کے مشور ہونے اور اللہ تعالیٰ کے شاکر ہونے کی توجیہ
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : تمہاری سعی ( نیک اعمال) مشکور ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابرار اور نیک بندوں کے نیک اعمال پر ان کا شکر ادا کیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لائق یہ ہے کہ بندے اس کا شکر ادا کریں، نہ کہ اللہ تعالیٰ بندوں کا شکر ادا کرے۔ اس سوال کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) شکر کرنے کا معنی یہ ہے کہ مشکور کی حمد وثناء اور تعریف اور تحسین کی جائے، آخرت میں اللہ تعالیٰ بندوں کے نیک اعمال کی تحسین فرمائے گا اور بتائے گا کہ ان نیک اعمال کی وجہ ہی سے ان کو جنت میں ان بلند مقامات پر رکھا گیا ہے اور ان کو یہ انعامات دیئے گئے اور یہی ان کے نیک اعمال کا مشکور ہونا ہے۔
(٢) اللہ تعالیٰ کے شکر کرنے کا معنی یہ ہے کہ وہ بندوں کے نیک اعمال کو قبول فرماتا ہے، ان کے نیک اعمال کی اچھی جزا عطاء فرماتا ہے اور ان کے نیک اعمال کی قدر دانی اور قدر افزائی فرماتا ہے۔
(٣) جو شخص تھوڑی سی چیز سے راضی ہوجائے اس کو شکور کہا جاتا ہے یعنی وہ بہت زیادہ شکر ادا کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تھوڑی سی عبادت سے راضی ہوجاتا ہے اور ان کی کم عبادت پر ان کو بہت زیادہ اجر عطاء فرماتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللہ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرہ : ١٥٨ )
جس نے خوشی سے کوئی نیکی کی تو بیشک اللہ ( اس کا) قدر دان بہت جاننے والا ہے۔
(٤) بندے کے اللہ سے قرب کا آخری درجہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے راضی بھی ہو اور مرضی بھی ہو یعنی اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿یٰٓـاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً﴾ ۔ (الفجر : ٢٧۔ ٢٨ )
اے مطمئن روح !۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی ہو، وہ تجھ سے راضی ہو۔
﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلاً﴾ تھوڑا تھوڑا قرآن مجید نازل کرنے کی حکمت:
اس آیت سے مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کو مضبوط کرنا ہے اور آپ کو تسلی دینا ہے، کیونکہ قریش مکہ آپ پر تہمت لگاتے تھے کہ آپ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ کہانت اور جادو ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں فرمایا کہ یہ اللہ کا نازل کیا ہوا کلام ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے جو نازل فرمایا ہے، اس میں بھی حکمت بالغہ ہے کہ جس وقت کے لیے جو حکم مقرر ہے اس وقت میں وہ حکم دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ کفار سے قتال کا حکم ہجرت کے بعد دیا گیا اور ہجرت سے پہلے کفار کی ایذاء کے مقابلہ میں آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا گیا۔
الدھر : ٢٤ میں فرمایا : آپ اپنے رب کے فیصلہ پر صبر کیجئے اور آپ ان میں سے کسی کی اطاعت نہ کریں خواہ وہ گناہ گار ہو یا نا شکرا۔
امام مقاتل بن سلیمان بلخی متوفی ١٥٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
آپ صبر کیجئے حتیٰ کہ آپ کے اور اہل مکہ کے درمیان اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماے دے، اور جب یہ آپ کو برا کہیں تو آپ جواب میں ان کو برا نہ کہیں اور جب یہ آپ کو ایذاء پہنچائیں تو آپ جواب میں ان کو ایذاء نہ پہنچائیں۔
اور فرمایا : آپ ان میں سے کسی کی اطاعت نہ کریں، اس سے مراد ولید بن مغیرہ ہے، وہ گناہ گار ہو یا نا شکرا، ناشکرے سے مراد عتبہ بن ربیعہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ کفار دارالندوۃ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں عمروبن عمیر بن مسعود الثقفی بھی تھا، انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے باپ دادا کا دین کیوں چھوڑ دیا ؟ ولید بن مغیرہ نے کہا : اگر تم مال کے طلب گار ہو تو میں تمہیں اپنا آدھا مال دے دیتا ہوں۔ شرطی کہ تم اپنے دین کا پیغام سنانا چھوڑ دو ، اور ابو النجتری بن ہشام نے کہا : لات اور غزیٰ کی قسم ! اگر یہ اپنے دین سے پھرگئے تو میں اپنی بیٹی کی ان کے ساتھ شادی کردوں گا۔ وہ عرب کی تمام عورتوں سے زیادہ حسین و جمیل ہے اور وہ گفتگو میں بھی سب سے زیادہ فصیح وبلیغ ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی یہ باتیں سن کر خاموش رہے اور آپ نے ان کو کوئی جواب نہیں ڈیا، پھر ابن مسعود ثقفی نے کہا : کیا بات ہے تم ہمیں جواب کیوں نہیں دیتے ؟ ، اگر تمہیں اپنے رب کے عذاب کا خوف ہے تو میں تم کو اس عذاب سے پناہ میں رکھوں گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سن کر ہنسی آگئی، پھر آپ نے اپنے کپڑے سمیٹے اور وہاں سے اٹھ کر چل دیئے اور تب یہ آیت نازل ہوئی : آپ ان میں سے کسی کی اطاعت نہ کریں خواہ وہ گناہ گار ہو یا نا شکرا، یعنی ولید بن مغیرہ اور ابو البختری کی اطاعت نہ کریں۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ٣ ص ٤٣٣۔ ٤٣٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٤ ھ)
امام عبد الرزاق بن ھمام صنعانی متوفی ٢١١ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قتادہ کہتے ہیں : ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ابو جہل نے یہ کہا تھا : اگر میں نے ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان کی گردن کو اپنے پیروں سے روندوں گا۔ ( تفسیر القرآن العزیزرقم الحدیث : ٣٤٤٢، دارالمعرفہ، بیروت، ١٤١١، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧٧٩٧)
آپ کو کفار کی اطاعت سے منع کرنے کے متعلق امام رازی کی توجیہ
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت پر یہ سوال ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں میں سے کسی کی اطاعت نہیں کرتے تھے، پھر اس ممانعت کا کیا فائدہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ ہدایت، ارشاد اور متنبہ ہونے کے محتاج ہیں کیونکہ لوگوں کی طبیعتوں میں شہوات اور ناجائز خواہشیں ہیں جو ان کو فتنہ اور فساد پر ابھارتی ہیں، اور اگر لوگوں میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس کی توفیق سے مستغنی ہوتا تو لوگوں میں اس کے سب سے زیادہ مستحق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے جو معصوم ہیں اور جب آپ بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس کی توفیق سے مستغنی نہیں ہیں تو ہر مسلمان پر یہ منکشف ہوجائے گا کہ وہ ناجائز خواہشوں اور شہات باطلہ اور تمام معاصی سے بچنے اور باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور اس کی توفیق کا محتاج ہے، سو وہ اسی کی طرف راغب ہو اور اسی سے گڑ گڑا کر دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے برے کاموں سے بچائے اور نیک کاموں پر لگائے رکھے۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٧٥٨، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
امام رازی کے علاوہ اور کوئی قابل ذکر مفسر اس آیت کی تفسیر میں اس سوال کی طرف متوجہ ہوا اور نہ اس کا جواب ذکر کیا، البتہ علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣١ ھ نے امام رازی ہی کی مذکور الصدر تفسیر کو اپنی عبارت میں نقل کردیا ہے۔ (روح البیان ج ١٠ ص ٣٢٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
﴿وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا﴾ ذکر الله کی فضیلت :
حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! اسلام کے احکام مجھ پر بہت زیادہ ہیں، پس آپ مجھے ایسی چیز بتایئے جس کو میں پلے باندھ لوں، آپ نے فرمایا : تمہاری زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہر وقت تر رہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٨٣)
حضرت ابو سعید الخدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا : قیامت کے دن کس بندہ کا درجہ سب سے افضل ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والے مردوں کا اور زیادہ ذکر کرنے والی عورتوں کا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس کا درجہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے سے بھی افضل ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : اگر کوئی شخص کفار اور مشرکین سے جہاد کرے حتیٰ کہ اس کی تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون سے رنگین ہوجائے پھر بھی اللہ کا ذکر کرنے والوں کا درجہ اس سے زیادہ ہوگا۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٦)
حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں تم کو تمہارے اس عمل کے متعلق نہ بتاؤں جو تمہارے رب کے نزدیک سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ پاکیزہ اور سب سے زیادہ بلند درجے والا ہے اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کو خرچ کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور وہ تمہارے لیے اس سے بھی زیادہ بہتر ہے کہ تمہارا اپنے دشمنوں سے مقابلہ ہو، تم ان کی گردنوں پر وار کرو، وہ تمہاری گردنوں پر وار کریں، صحابہ نے کہا : کیوں نہیں ! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے فرمایا : وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے، حضرت معاذ بن جبل (رض) نے کہا : اللہ کے ذکر سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٧٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٦٠، مسند احمد ج ٥ ص ١٩٥)
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) دونوں گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ بھی اللہ کا ذکر کرتے ہیں فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں، رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر طمانیت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنے پاس والوں میں ذکر فرماتا ہے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٩١)
حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے پاس گئے اور ان سے پوچھا تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو ؟ انھوں نے کہا : ہم بیٹھے ہوئے اللہ کا ذکر کررہے ہیں اور اس نعمت پر اس کی حمد کر رہے ہیں کہ اس نے ہم کو اسلام کی ہدایت دی اور ہم پر اسلام کا احسان فرمایا، آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! تم صرف اس لیے بیٹھے ہو، انھوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم صرف اس لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا میں نے تم پر کسی جھوٹ کی تہمت کی بناء پر تم سے حلف نہیں لیا تھا لیکن ابھی میرے پاس حضرت جبرائیل آئے ہیں اور انھوں نے مجھے یہ خبر دی کہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہا ہے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٤٤١ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لو کسی مجلس میں بیٹھیں اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کریں اور نہ اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ پڑھیں تو وہ مجلس ان کے لیے ہلاکت ہوگی، اگر اللہ چاہے گا تو ان کو عذاب دے گا اور اگر وہ چاہے گا تو ان کو بخش دے گا، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٩، مسند احمد ج ٢ ص ٤٤٠ )
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.