Surah Falaq Tarjuma In Urdu

Surah Falaq Tarjuma In Urdu, Surah Al Falaq With Urdu Translation

سورہ فلق ترجمہ اور تفيىر

ترتىب: محمد ہاشم قاسمى بستوى۔

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿1﴾

کہو کہ : میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں۔

 مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿2﴾

ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔

  وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿3﴾

اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ پھیل جائے۔

 وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿4﴾

اور ان جانوں کے شر سے جو (گنڈے کی) گرہوں میں پھونک مارتی ہیں۔

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿5﴾

اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

تعارف سورة الفلق

یہ سورة مبارکہ مکی ہے ترتیب میں 113 نمبر پر آتی ہے اس میں ایک رکوع اور پانچ آیات ہیں۔ یہ بھی علم و حکمت کے خزانہ سے بھری ہوئی سورت ہے۔ اس کی حکمتیں بیان کرنے کے لیے پورا دفتر چاہیے بہرحال مختصراً یہی عرض ہے کہ اس میں شامل ہدایات انسانی زندگی کے معمولات سے بڑی مطابقت رکھتی ہیں۔ اور ساتھ ہی کچھ فزکس اور حیاتیات سے متعلقہ پیغام بھی دیا گیا ہے۔ وہ یوں کہ لفظ ” فلق ” کئی معنی رکھتا ہے جب کہ بنیادی مطلب ہے۔ ” اچانک پھاڑا جانا ”۔ یا ” پھٹ جانا ” سائنس دان کی زبان میں یہ وہ دھماکہ ہے جو اذن الٰہی سے وجود میں آیا اور جس کے نتیجہ میں کائنات وجود میں آئی۔ مفسرین اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ وہ روشنی جو اندھیرے سے پھوٹتی ہو یعنی ” صبح صادق ”۔ یعنی صبح ‘ دن کا آغاز ‘ سورج کا نکلنا۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب اس کی بڑی خوبصورت وضاحت کرتے ہیں ملاحظہ ہو۔

” یہ سورت ہمیں یہ اصل نسخہ عطا کرتی ہے کہ ہم ہر قسم کے شر سے خالق مطلق کی پناہ حاصل کریں۔ اور اسی میں مخلوقات کی ابتداء کو بھی بیان کردیا گیا ہے۔ یقینا یہ ایک ناقابل بیان بصیرت ہے۔ یہ سورت اللہ کی زبان میں یہ کہتے ہوئے معلوم ہورہی ہے کہ ” میری ربوبیت میں ان تمام پیدا کردہ چیزوں سے پناہ حاصل کرو جو میرے حکم پر ایک دھماکے کے ذریعے وجود میں آئیں۔ میں ہی تمہارا رب ہوں اور میں ہی ان کہکشاؤں کا حاکم مطلق ہوں جن کو ایک حیران کن دھماکے کے ذریعے ‘ جو کہ ایک اکائی سے شروع ہوا ‘ پیدا کر کے فضائے بسیط کی لامتناعی دوریوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ جو کوئی بھی مجھ میں پناہ لیتا ہے وہ تمام قسم کی برائیوں اور شر سے محفوظ ہوجاتا ہے ”۔۔ (قرآنی آیات اور سائنسی حقائق)

اب ہم اس کو دینی اور قرآنی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورا قرآن سورة فاتحہ کی دعا کے جواب میں انسان کو دیا گیا اور آخر میں بندہ اپنے رب رحمن و رحیم سے یہی دعا کرتا ہے کہ یہ دنیا جن و انس کی شرارت اور گمراہیوں سے بھری پڑی ہے یا الہ باری تعالیٰ میری مدد فرمانا اور ہر طرح سے اپنی پناہ میں رکھنا۔ اصل میں یہ آیات شدید ترین دشمنی ‘ اذیت اور ہر قسم کے حملے سے اللہ کی پناہ میں آنے کا بہت بڑا ہتھیار ہیں۔ جیسا کہ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا اعلان کیا اور دعوت توحید کو عام کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ بوکھلا اٹھے۔ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روکنے کی پوری کوشش کی اور بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا۔ جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر جسمانی اور ذہنی کمزوری ہونے لگی تھی۔

ہوا یوں کہ صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7 ؁ ھ میں یہودیوں کے ایک وفد نے مدینہ کے جادو گر لبید بن اعصم سے ملاقات کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرنے کو کہا۔ جادو تو کفر ہے کرنے والا کافر ہے۔ لہٰذا اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال اور نر کھجور کے خوشے کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا جس کا اثر ایک سال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہونے لگا۔ جس کی خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی طرف سے کردی گئی۔ اور اس طرح جادو کیے جانے کا طریقہ اور دور یعنی توڑ کرنے کا طریقہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیا گیا کہ زریق کے کنویں میں تہہ میں پتھر کے نیچے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی ہیں ‘ موم کا ایک پتلا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی ہیں۔ اس کی خبر جبرائیل (علیہ السلام) نے دی اور بتایا کہ اس کو نکالیں معوذتین پڑھیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر آیت کے ساتھ ایک گرہ کھولتے اور پتلے سے سوئی نکالتے جاتے۔ سب گرہیں کھلنے اور سوئیاں نکل جانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جادو کے اثر سے آزاد ہوگئے اور معوذتین یعنی سورة الفلق اور سورة الناس کی افادیت اور بھی عیاں ہوگئی۔ ان دونوں سورتوں کے مضمون سے ہی ان کی افادیت اور مقصد ظاہر ہوجاتا ہے۔ یہ ہم مسلمانوں کے لیے بڑی ہی اکثیر دعائیں ہیں۔ ڈاکٹر بھی جب اپنے علاج معالجے سے ناامید ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں ” اب تو صرف دعا ہی کام آسکتی ہے ”۔

جادو کا ذکر سورة البقرہ میں سورة طہٰ میں بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اور ہمیں جادو ‘ نفرت ‘ حسد بغض اور برے عملیات سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دوسورتیں تحفہ دی ہیں۔ تاکہ اس دم کے طریقے سے خود کو اللہ کی پناہ میں دئیے رکھیں۔ دم کا یہ آسان بہترین اور جائز طریقہ ہمیں اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے۔

سیدنا انس (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زہریلے جانوروں کے کاٹے اور ذباب کے مرض اور نظر بد کے جھاڑنے کی اجازت دی ہے۔۔ (مسلم، ابن ماجہ)

قرآن پاک میں شفاء کا ذکر متعدد بار آچکا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تعویذ یا جادو ٹونے ٹوٹکے کا کاروبار ہی شروع کردیں۔ جیسا کہ سورة البقر آیت 102 میں ہاروت و ماروت سے جادو سیکھنے اور لوگوں کو تنگ کرنے کا ذکر ہوچکا ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی گرا ہوا اور قبیح کام ہے اس لیے اس کی اجازت ہرگز نہیں دی گئی۔ ہمارا مذہب امن اور سکون کا مذہب ہے۔ شرو فساد کی اس میں ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ لہٰذا معوذتین کا استعمال بھی سوفیصد خیر اور بھلائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ” سورة فلق سے بہتر کوئی دعا پناہ لینے کے متعلق نہیں ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ معوذتین کے مثل پناہ پکڑنے کے باب میں کوئی سورت میرے اوپر نازل نہیں ہوئی۔ لوگو ! اس حفاظت کے قلعہ کی نگرانی کرو اور اس کی پناہ میں آرام لو ”۔

دیکھا جائے تو یہ کائنات پیار ‘ محبت ‘ سکون ‘ امن ‘ آسائش اور ہر قسم کی راحت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ مگر اس سکون کو برباد کرنے والے جن و انس اور شیاطین ہی ہیں جو پر امن انسانوں کو اپنی شرارت کا شکار بناتے ہیں۔ تو اس کا علاج اللہ نے ان سورتوں کے ذریعے کرنے کو کہا ہے۔ غرض ماضی ‘ حال اور مستقبل کا کوئی ایسا شعبہ نہیں کہ جس کی بہترین رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی طریقہ قرآن پاک میں بندے کو نہ بتایا ہو۔ یہ کتاب باعث ہدایت بھی ہے اور باعث شفا بھی ہے اور باعث نجات بھی ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

گرتومی خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جزبقرآن زیستن

انسان ‘ جن اور شیطان یہ سب بھی ہر وقت نیک انسانوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا۔

” اور شیطان کی ذریت تمہیں وہاں وہاں سے دیکھتی ہے جہاں تمہاری نگاہیں نہیں پہنچ سکتیں ”۔

اسی طرح دنیا میں بیشمار بیماریاں ہیں جن کے علاج اللہ نے پیدا کر رکھے ہیں۔ اور علاج کے ساتھ ساتھ دعا کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ جو بہت مضبوط سہارا بھی ہے۔ اسی طرح نفس ‘ خواہشات اور روحانی بیماریاں ‘ جادو ‘ تعویذ اور ٹونے ٹوٹکے کا علاج ان معوذتین میں موجود ہے۔ ان تمام چیزوں یعنی عملیات کا اثر دور کرنے کے لیے آخری تین سورتوں کو پڑھ کر دم کرنا بڑا اکسیر ہے۔

اور جیسے ” قل ” کے ساتھ یہ نازل ہوئی ہیں ویسے ” قل ” کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہے۔ ان دو کے علاوہ 330 اور آیات ہیں جو ” قل ” سے شروع ہوتی ہیں۔ سب ” قل ” کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ کلام الٰہی ہے اس لیے اس میں کمی بیشی کی اجازت نہیں۔ امید ہے کچھ تفصیلات بیان کرنے میں کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔

لغات

الفلق:  صبح۔  شر: برائی۔ غاسق: سیاہ رات۔ وقب: چھا گیا۔ النفثت: پھونکنے والیاں۔ العقد: گرہیں۔ حاسد: حسد کرنے والا۔ جلنے والا۔

المعوذتین (الفلق اور الناس) کی فضیلت

حضرت عقبہ عامر الجہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آج رات مجھ پر ایسی سورتیں نازل ہوئی ہیں کہ ان کی مثل کبھی نہیں دیکھی گئی ’ دقل اعوذ برب الفلق “ اور ’ دقل اعوذ برب الناس۔ “ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨١٤، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٩٠٢ سنن نسائی رقم الحدیث :954-953 السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٠٣٠ مسند احمد ج ٤ ص ١٤٤ )

حضرت حابس جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے حابس ! کیا میں تمہیں ان کلمات کی خبر نہ دوں جو اللہ تعالیٰ س۔ پناہ طلب کرنے میں سب سے افضل ہیں ؟ انھوں نے کہا : کیوں نہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا : ” قل اعوذ برب الفلق “ اور ” قل اعوذ برب الناس “ اور یہی المعوذتان ہیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٤٣٢)

حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں سورة یوسف اور سورة ھود کو پڑھوں، آپ نے فرمایا : اے عقبہ ! ” قل اعوذ برب الفلق “ کو پڑھو، تم کوئی سورت نہیں پڑھو تم کوئی سورت نہیں پڑھو گے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ بلیغ ہو، اگر تم کرسکتے ہو تو اس کو (پڑھنے سے) فوت نہ ہونے دو ۔ (المستدرک ج ٢ ص 540 قدیم المستدرک رقم الحدیث : ٣٩٨٨، الذہبی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ )

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات کی نظر سے اور انسانوں کی نظر سے پناہ طلب کرتے تھے، حتیٰ کہ المعوذتین نازل ہوئیں تو آپ نے ان کو شروع کردیا اور ان کے سوا ترک کردیا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث :2058 سنن نسائی رقم الحدیث :5509 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3511)

تشريح

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ: اکثر مفسرین نے یہ کہا ہے کہ فلق سے مراد صبح کا وقت ہے، زجاج نے کہا، رات کو پھاڑ کر صبح نمودار ہوتی ہے، اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرنے کی حسب ذیل وجوہ ہیں :
(١) جو ذات رات کے اس شدید اندھیرے کو اس جہان سے زائل کرنے پر قادر ہے، وہ ذات پناہ طلب کرنے والے سے اس چیز کو ضرور زائل کرنے پر قادر ہے جس سے وہ ڈر رہا ہے اور خوف زدہ ہے۔
(٢) صبح کا طلوع ہونا کشادگی کی نوید کی مثل ہے، پس جس طرح انسان رات میں صبح کا منتظر ہوتا ہے، اسی طرح خوف زدہ انسان اپنی مہم میں کامیابی کا منتظر ہوتا ہے۔
(٣) صبح کے وقت کی تخصیص کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ اس وقت مظلوم اور بےقرار لوگ اپنی حاجات میں اپنے رب سے دعائیں کرتے ہیں، گویا وہ یہ کہتا ہے کہ میں اس وقت کے رب کی پناہ طلب کرتا ہوں، جو ہر رنج اور فکر سے کشادگی عطا فرماتا ہے۔

 ومن شر النفثت فی العقد: اور گرہوں میں پھونکنے والیاں یعنی جادو کے منتر پڑھنے والیاں جب وہ اپنے منتر پڑھتی ہیں جس طرح لبید ابن اعصم اور اس کی بہنوں نے منتر پڑھ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر جس کا محافظ اللہ ہو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

اس آیت میں ” نفثت “ کا لفظ ہے ” نفث“ کا معنی ہے : منہ سے ایسی پھونک مارنا جس میں کچھ لعاب کی آمیزش ہو اور بعض نے کہا، اس سے مراد صرف پھونک ہے اور ” العلق ’“” عقدۃ “ کی جمع ہے، اس کا معنی گرہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ جب جادو گر جادو کے الفاظ پڑھنا شروع کرتا ہے تو وہ ایک دھاگا پکڑ لیتا ہے، وہ اس دھاگے میں ایک گرہ لگاتا ہے اور جادو کے الفاظ پڑھ کر اس گروہ میں پھونک مارتا ہے، پھر اس طرح گرہیں لگاتا جاتا ہے اور اس میں پھونکیں مارتا جاتا ہے۔ اس آیت میں پھونک مارنے والے جادو گر کے لیے مونث کا صیغہ استعمال فرمایا ہے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں:
(١) جادو کا عمل زیادہ تر عورتیں کرتی ہیں کیونکہ وہ گرہ لگاتی جاتی ہیں اور پھونک ماتری جاتی ہیں ا رو اس میں اصل چیز یہ ہے کہ یہ عمل دل سے کیا جائے، اور عورتیں یہ کام زیادہ توجہ سے کرتی ہیں، کیونکہ ان کا علم کم ہوتا ہے اور ان میں شہوت زیادہ ہوتی ہے۔
(٢) مونث کا صیغہ اس لیے لایا گیا ہے کہ اس سے مراد جادو گروں کی جماعت ہے کیونکہ جب کئی جادو گر مل کر جادو کریں گے تو اس کا اثر زیادہ ہوگا۔
(٣) ابوعبیدہ نے کہا: ” نفاثات “ (پھونک مارنے والیاں) سے مراد ہے، لبیدبن اعصم یہودی کی بیٹیاں، جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا (تفسیر کبیرج ١١ ص 374)

 ومن شر حاسد اذا حسد: منافقین، کفار و مشرکین، یہود اور نصاری جو آپ کی اور آپ کے صحابہ کی ترقیات اور عظمتوں سے حسد کرتے اور جلتے تھے فرمایا کہ جب آپ اللہ کی پناہ لے لیں گے تو کسی حاسد کا حسد، کسی جلنے والے کی جلن سے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔

حسد کی تعریف، اس کا شرعی حکم اور اس کے متعلق احادیث

حسد کی تعریف یہ ہے کہ انسان کسی شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ خواہش کرے کہ اس کے پاس سے وہ نعمت زائل ہوجائے، خواہ اس کو وہ نعمت نہ ملے، اگر اس کی قدرت میں اس نعمت کو چھیننا ہو تو وہ اس نعمت کو چھین لے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حسد سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہی اور اس سورت میں ہر وہ شر داخل ہے، جس کا انسان کے دین یا اس کی دنیا میں خطرہ ہو۔

اگر انسان کسی شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ اس کے پاس بھی یہ نعمت رہے اور اللہ تعالیٰ مجھے بھی یہ نعمت عطا کر دے تو اس کو رشک کہتے ہیں، رشک کرنا جائز ہے اور حسد کرنا حرام ہے حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تم حسد کرنے سے باز رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث :4903)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی مومن کے پیٹ میں اللہ کی راہ میں غبار اور جہنم کی حرارت جمع نہیں ہوں گی اور نہ کسی بندہ کے دل میں ایمان اور حسد جمع ہوگا۔ (سنن نسائی رقم الحدیث :3106)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply