ترجمہ اور تفسير سورہ فتح
مرتب: محمد ہاشم بستوى قاسمى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا
﷽
اللہ کے نام سے جو بےحد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا ﴿1﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلی فتح عنایت کی ہے
لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ﴿2﴾
تاکہ اللہ آپ کی (سب) اگلی پچھلی خطائیں معاف کردے اور آپ پر احسانات کی (اور زیادہ) تکمیل کردے، اور آپ کو سیدھے راستہ پر لے چلے
وَيَنْصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا ﴿3﴾
اور اللہ آپ کو باعزت غلبہ دے۔
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿4﴾
وہی تو ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکون ( ضبط اور اطمینان) پیدا کیا تاکہ وہ ایمان یقین جو انھیں پہلے سے حاصل تھا ان کا ایمان و یقین اور بڑھ جائے۔ آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اللہ کے ہیں۔ اور اللہ بہت جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِنْدَ اللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿5﴾
(اور یہ اس لئے) تاکہ وہ ایمان والوں اور ایمان والیوں کو ایسے باغوں میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں ان میں یہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان کے گناہ ان سے دور کردے اور یہ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔
وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿6﴾
اور تاکہ وہ نفاق کرنے والوں اور نفاق والیوں اور شرک والوں اور شرک والیوں کو عذاب دے جو اللہ کے ساتھ برے برے گمان رکھتے ہیں، ف ٤۔ ان پر برا وقت آنے والا ہے اور اللہ ان پر غضبناک ہوگا، اور انھیں رحمت سے دور کردے گا، اور ان کے لیے اس نے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿7﴾
اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿8﴾
بیشک ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴿9﴾
(اس لئے) تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو، اور صبح وشام اس کی تسبیح میں لگے رہو۔
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿10﴾
بیشک جو لوگ آپ ( کے ہاتھ پر) بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔ ان بیعت کرنے والوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جو شخص (بیعت یعنی) وعدہ توڑتا ہے تو اس کی عہد شکنی کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اور جو شخص اس کو پورا کرتا ہے جس پر اس نے اللہ سے عہد کیا ہے تو اللہ اس کو بہت جلد اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿11﴾
جو دیہاتی (اس سفر میں) پیچھے رہ گئے وہ عنقریب آپ سے (آکر) کہیں گے کہ ہم کو ہمارے مال اور ہمارے عیال نے فرصت نہ لینے دی تو آپ ہمارے حق میں معافی کی دعا کردیجئے، ف ١٢۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، آپ پوچھئے کہ وہ کون ہے جو اللہ کے سامنے تمہارے لیے کسی چیز کا بھی اختیار رکھتا ہے، اگر (اللہ) تمہیں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانا چاہے، نہیں بلکہ اللہ ہی تمہارے سب اعمال سے (خوب) باخبر ہے۔
بَلْ ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَنْقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنْتُمْ قَوْمًا بُورًا ﴿12﴾
اصل یہ ہے کہ تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں لوٹ کر کبھی نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں کو خوش نما بھی معلوم ہوئی تھی، اور تم نے برے برے گمان قائم کئے اور تم برباد ہونے والے لوگ ہوگئے۔
وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا ﴿13﴾
(یاد رکھو) جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے گا تو ہم نے ایسے کافروں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔
وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴿14﴾
اور اللہ ہی کی مک ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ تو بڑا بخشنے والا ہے، بڑا رحمت کرنے والا۔
سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انْطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِنْ قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿15﴾
پیچھے وہ جانے والے عنقریب یہ بات کہیں گے کہ جب تم (خیبر کے) مال غنیمت کو لینے جاؤ گے تو ہمیں بھی اجازت دے دو تاکہ ہم تمہارے ساتھ چلیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل ڈالیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ تم (اس موقع پر) ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اللہ نے پہلے سے یہ بات کہہ دی ہے۔ پھر وہ کہیں گے کہ (بات یہ ہے) تم ہمارے بھلے سے جلتے ہو۔ بلکہ وہ بات کو بہت کم سمجھتے ہیں۔
قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِنْ تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿16﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پیچھے وہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ تمہیں بہت جلد ایک ایسی قوم سے مقابلے کی دعوت دی جائے گی جو سخت جنگ جو ہوں گے۔ تم ان سے جنگ کرتے رہو گے یا وہ اطاعت قبول کرلیں گے۔ پھر اگر تم حکم مانو گے تو اللہ تمہیں بہترین درجہ عطا فرمائے گا اور اگر تم نے سرکشی کی (اطاعت نہ کی) جس طرح تم اس سے پہلے (حدیبیہ کے موقع پر) سرکشی و نافرمانی کے چکے ہو تو وہ تمہیں دردناک سزا دے گا۔
لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَنْ يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿17﴾
کوئی گناہ نہ اندھے پر ہے اور نہ کوئی گناہ لنگڑے پر ہے اور نہ کوئی گناہ بیمار پر اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانے گا، اسے وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے ندیاں بہ رہی ہوں گی اور جو کوئی روگردانی کرے گا اسے وہ عذاب درد ناک کی سزا دے گا۔
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿18﴾
بیشک اللہ خوش ہوا ان مسلمانوں سے جب کہ وہ آپ سے بیعت کررہے تھے درخت کے نیچے، اور اللہ کو معلوم تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا، سو اللہ نے ان میں اطمینان پیدا کردیا اور ان کو ایک لگتے ہاتھ فتح بھی دے دی۔
وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿19﴾
اور ان کو بہت سا مال غنیمت بھی دیا جس کو وہ حاصل کر رہے تھے۔ اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ﴿20﴾
اللہ تم سے اور بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کرچکا ہے جنہیں تم (بہت جلد) حاصل کرو گے اس لیے اس نے فوری طور پر یہ مال غنیمت عطا کردیا ہے۔ اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا ہے تاکہ یہ بات مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور وہ تمہیں صراط مستقیم کی ہدایت دیدے۔
وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ﴿21﴾
اور ایک اور (فتح) بھی ہے جو (ابھی) تمہارے قابو میں نہیں آئی ہے اللہ اسے احاطہ (قدرت) میں لیے ہوئے ہے اور اللہ تو ہر شئی پر قادر ہے۔
وَلَوْ قَاتَلَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوَلَّوُا الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا ﴿22﴾
اور اگر تم سے یہ کافر لڑتے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگتے اور پھر انھیں نہ کوئی یارملتا نہ مددگار۔
سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ﴿23﴾
اللہ نے یہی دستور کر رکھا ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے، اور آپ اللہ کے دستور میں کوئی ردوبدل نہ پائیں گے۔
وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا ﴿24﴾
وہی تو ہے جس نے تمہیں مکہ کی سرحد میں ان کافروں پر قابوپا جانے کے باوجود ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکے رکھا ۔ تم جو کچھ کرتے ہوا سے وہ دیکھ رہا ہے۔
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَنْ يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُؤْمِنَاتٌ لَمْ تَعْلَمُوهُمْ أَنْ تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُمْ مِنْهُمْ مَعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿25﴾
یہ وہی تو ہیں جنہوں نے کفر کیا۔ تمہیں مسجد حرام سے اور قربانی کے جانوروں کو جو ( حدیبیہ کے مقام پر رکے ہوئے تھے) ان کے ٹھکانے (قربان گاہ) پر پہنچنے سے روک دیا تھا۔ اور اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم ان مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو جنہیں تم پہچانتے نہ تھے ان کو بے خبری میں تم روند ڈالتے اور پھر تمہیں ان بےگناہوں کی وجہ سے نقصان پہنچتا۔ یہ جنگ روکی نہ جاتی۔ وہ اس لیے روکی گئی کہ وہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کر دے۔ البتہ اگر (یہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں) الگ ہوگئے ہوتے تو ہم (ان میں سے جو) کافر تھے ان کو سخت اور دردناک عذاب دیتے۔
إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿26﴾
اور جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں غیرت وحمیت کو جگہ دی جو جہالت کی غیرت و حمیت تھی تو اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول اور ایمان والوں پر سکینہ (سکون قلب) نازل کیا اور اس نے ان (اہل ایمان کو) پرہیزگاری پر جمائے رکھا۔ اور مسلمان ہی اس تقویٰ کی بات کے زیادہ حق دار اور اس کلمہ حق کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿27﴾
بیشک اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا جو بر حق تھا۔ کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم ضرور مسجد حرام میں امن وامان کے ساتھ داخل ہو گے۔ سر منڈ وا تے یا اپنے سروں کے بال کترواتے ہوئے اس طرح داخل ہو گے کہ تمہیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا۔ پھر اللہ ان باتوں سے خوب اچھی طرح واقف ہے جسے تم نہیں جانتے۔ پھر اللہ نے (مسجد حرام میں داخلے سے پہلے) ایک ایسی فتح عنایت کردی جو بہت قریب تھی۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا ﴿28﴾
وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے۔
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿29﴾
کہ (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور وہ (صحابہ کرام (رض) جو ان کے ساتھ ہیں (ان کی خصوصیت یہ ہے کہ) کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحم و کرم کا پیکر ہیں۔ تم انھیں کبھی رکوع اور کبھی سجدوں میں دیکھو گے۔ وہ اللہ کا فضل و کر اور اس کی رضا مندی (حاصل کرنے میں) لگے رہتے ہیں۔ ان کی (سچائی اور صدقت) کی علامت سجدوں کی کثرت سے ان کے چہروں پر نمایاں ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی (عظمتوں کی) مثالیں تو ریت اور انجیل میں موجود ہیں۔ (ان کی مثال ایسی ہے) جیسے ایک کھیتی کہ اس نے کو نپل نکالی پھر اس کو سہارا دیا اور وہ بڑھ کو موٹی ہوئی پھر وہ کھیتی اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی جو کاشت کرنے والوں کو خوش منظر دکھائی دینے لگی۔ (اسی طرح صحابہ رسول بھی مضبوط ہوں گے) تاکہ اللہ ان کافروں کو غیض و غضب میں مبتلا کر دے۔ اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کئے تو اللہ نے ان سے بہت بڑی مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔
تعارف سورة الفتح
یہ سورت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، جس کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا فرمائیں، آپ نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں اپنے صحابہ کے ساتھ داخل ہورہے ہیں، چنانچہ آپ چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ قریش کے مشرکین نے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکے، اس خبر کے ملنے پر آپ نے اپنی پیش قدمی روک دی، اور مکہ مکرمہ سے کچھ دور حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، (یہ جگہ آج کل شمیسی کہلاتی ہے) وہاں سے آپ نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا ایلچی بناکر مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ وہاں کے سرداروں کو بتائیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں، وہ صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں اور عمرہ کرکے پر امن طور پر واپس چلے جائیں گے، حضرت عثمان (رض) مکہ مکرمہ گئے تو ان کے جانے کے کچھ ہی بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ مکرمہ کے کافروں نے انھیں قتل کردیا ہے، اس موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو جمع کرکے ان سے یہ بیعت لی، (یعنی ہاتھ میں ہاتھ لے کر یہ عہد لیا) کہ اگر کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تو وہ ان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں گے، اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خزاعہ کے ایک سردار کے ذریعے قریش کے سرداروں کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ ایک مدت تک جنگ بندی کا معاہدہ کرنا چاہیں تو آپ اس کے لیے تیار ہیں، جواب میں مکہ مکرمہ سے کئی ایلچی آئے، اور آخر کار ایک معاہدہ لکھا گیا، جس میں محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق یہ طے ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش آئندہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگ نہیں کریں گے، (سیرت ابن ہشام ٢: ٣١٧ وفتح الباری ٨۔ ٢٨٣)
اسی معاہدے کو صلح حدیبیہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اس موقع پر کافروں کے طرز عمل سے بہت غم وغصے کی حالت میں تھے، اور کافروں نے صلح کی یہ شرط رکھی تھی کہ اس وقت مسلمان واپس مدینہ منورہ چلے جائیں اور اگلے سال آکر عمرہ کریں، تمام صحابہ احرام باندھ کر آئے تھے، اور کافروں کی ضد کی وجہ سے احرام کھولنا ان کو بہت بھاری معلوم ہورہا تھا، اس کے علاوہ کافروں نے ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمانوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اسے واپس مکہ مکرمہ بھیجیں، اور اگر کوئی شخص مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آئے گا تو قریش کے ذمے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اسے واپس مدینہ منورہ بھیجیں،
یہ شرط بھی مسلمانوں کے لیے بہت تکلیف دہ تھی، اور اس کی وجہ سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان شرائط کو قبول کرنے کے بجائے ان کافروں سے ابھی ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اسی صلح کے نتیجے میں آخر کار قریش کا اقتدار ختم ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرائط منظور کرلیں، صحابہ کرام اس وقت جہاد کے جوش سے سرشار تھے اور موت پر بیعت کرچکے تھے ؛ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے آگے انھوں نے سر جھکادیا اور صلح پر راضی ہو کر واپس مدینہ منورہ چلے گئے، اور اگلے سال عمرہ کیا، اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک واقعہ تو یہ ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام ابوبصیر (رض) تھا، مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کے مطابق انھیں واپس بھیج دیا، انھوں نے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے ایک درمیانی جگہ پڑاؤ ڈال کر قریش کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی، کیونکہ وہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے پابند نہیں تھے، اس چھاپہ مار جنگ سے قریش اتنے پریشان ہوئے کہ خود انھوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی کہ اب ہم وہ شرط واپس لیتے ہیں جس کی رو سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو واپس بھیجنا ضروری قرار دیا گیا تھا، قریش نے کہا کہ اب جو کوئی مسلمان ہو کر آئے تو آپ اسے مدینہ منورہ ہی میں رکھیں، اور ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنے پاس بلالیں، چنانچہ آپ نے انھیں مدینہ منورہ بلالیا، دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ قریش کے کافروں نے دو سال کے اندر اندر حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں پیغام بھیجا کہ یا تو وہ اس کی تلافی کریں یا معاہدہ ختم کریں، قریش نے اس وقت غرور میں آکر کوئی بات نہ مانی، جس کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پیغام بھیج دیا کہ اب ہمارا آپ کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد آپ نے ہجرت کے آٹھویں سال دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی فرمائی، اس وقت قریش کا غرور ٹوٹ چکا تھا، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی خاص خونریزی کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے، اور قریش کے لوگوں نے شہر آپ کے حوالے کردیا۔
سورة فتح میں صلح حدیبیہ کے مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے اور صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے کہ انھوں نے اس واقعے کے ہر مرحلے پر بڑی بہادری سرفروشی اور اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا، دوسری طرف منافقین کی بد اعمالیوں اور ان کے برے انجام کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔
فضیلت
حضور سرور کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورة کو دوران نماز میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابوبرزہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بار نماز فجر میں ساری سورة فتح تلاوت فرمائی۔ (تفسیر درمنثور جلد 7 صفحہ 507)
حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور سید کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة فتح تلاوت فرمائی اور اسے بار بار دہرایا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة فتح حدیث 4835)
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آج رات مجھ پر ایک سورت نازل کی گئی ہے جو مجھے دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے محبوب تر ہے وہ یہ ہے اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة فتح حدیث 4833
لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا
آیت کریمہ میں جو ﴿لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ﴾ فرمایا ہے بہ اجماع امت اس سے گناہ حقیقی واقعی مراد نہیں ہے کیونکہ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) سے گناہوں کا صدور نہیں ہوسکتا بلکہ بعض وہ امور مراد ہیں جن میں خطاء اجتہادی ہوگئی اور اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو متنبہ فرمایا جیسا کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے میں آپ نے فدیہ لینے والوں کی رائے سے موافقت فرمائی اور جیسا کہ بعض منافقین نے جہاد میں نہ جانے کی اجازت مانگی تو آپ نے اجازت فرما دی جسے ﴿عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ﴾ میں بیان فرمایا اور جیسا کہ حضرت ابن ام مکتوم (رض) نابینا صحابی کے آنے پر آپ کو خیال ہوا کہ اس وقت نہ آتے تو اچھا تھا اور اس کا اثر آپ کے چہرہ انور پر ظاہر ہوگیا کیونکہ آپ اس وقت کافروں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے اس پر ﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰى﴾ نازل ہوئی اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آپ کا سب کچھ معاف فرمایا پھر بھی آپ بہت زیادہ عبادت کرتے تھے آپ رات کو نماز تہجد میں لمبا قیام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے قدموں مبارک پر ورم آگیا تھا اور ایک روایت میں ہے کہ پاؤں پھٹنے لگے تھے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ یہ کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کا سب کچھ معاف فرما دیا ؟ آپ نے فرمایا کہ تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ (صحیح البخاری ص ١٥٠ ج ١ ص ٧١٦ جلد دوم)
مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنا بڑا کرم فرمایا تو اس کا تقاضا یہ تو نہیں ہے کہ عبادت کم کردوں احسان مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ اور زیادہ عبادت میں لگ جاؤں۔
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاہد اور مبشر اور نذیر ہیں
ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تین بڑی صفات بیان فرمائیں اول شاہد ہونا دوسرے مبشر ہونا تیسرے نذیر ہونا عربی میں شاہد گواہ کو کہتے ہیں، قیامت کے دن آپ اپنی امت کے عادل ہونے کی گواہی دیں گے جیسا کہ سورة بقرہ ﴿وَ يَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا﴾ اور سورة الحج ﴿لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ﴾ میں بیان فرمایا ہے دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ آپ مبشر ہیں جس کا معنی ہے بشارت دینے والا اور تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ آپ نذیر ہیں یعنی ڈرانے والے ہیں تبشیر یعنی ایمان اور اعمال صالحہ پر اللہ کی رضا اور اللہ کے انعامات کی بشارت دینا اور تنذیر یعنی کفر پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے ڈرانا یہ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کا کام تھا، خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسے پورے اہتمام کے ساتھ انجام دیا احادیث شریفہ میں آپ کے انذار اور تبشیر کی سینکڑوں روایات موجود ہیں اور الترغیب والترہیب کے عنوان سے علماء امت نے بڑی بڑی کتابیں تالیف کی ہیں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفات توراۃ شریف میں بھی مذکور ہیں آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مذکورہ صفات بیان فرمانے کے بعد اہل ایمان سے خطاب فرمایا ﴿لِّتُؤْمِنُوْا باللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ ؕ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا﴾ کہ ہم نے ان کو اس لیے رسول بنا کر بھیجا کہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے دین کی مدد کرو اس کی تعظیم کرو اس کے موصوف بالکمالات ہونے کا عقیدہ رکھو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کرو، عقیدہ تعظیم کے ساتھ عیوب اور نقائص سے اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگے رہو۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنا اللہ ہی سے بیعت کرنا ہے
جس وقت مقام حدیبیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام تھا اور حضرات صحابہ (رض) آپ کے ساتھ تھے اس وقت مکہ والوں کے آڑے آجانے کی وجہ سے حضرت عثمان (رض) کی وفات کی خبر سے کچھ ایسی فضاء بن گئی تھی کہ جیسے جنگ کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر حضرات صحابہ (رض) سے بیعت لی جس میں یہ تھا کہ جم کر جہاد کریں گے پشت پھیر کر نہ بھاگیں گے بیعت کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ سے جو بیعت کر رہے ہیں ان کی یہ بیعت اللہ تعالیٰ ہی سے ہے آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور دعوت قبول کرنے والوں کو خود بھی اللہ کے دین پر چلاتے ہیں جو آپ کی فرمان برداری کرتا ہے وہ اللہ کی فرمان برداری کرتا ہے۔
اس بیعت میں اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کا اقرار بھی آجاتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمان برداری کا بھی، قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا بھی ذکر ہے سورة النساء میں واضح طور پر فرمایا ﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰهَ﴾
بیعت کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہی ہو زبانی اقرار عہد و پیمان بھی بیعت ہے لیکن چونکہ حدیبیہ کے موقع پر آپ نے ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت فرمائی اور بیعت اسی طرح مروج تھی (اور اب بھی اسی طرح مروج ہے) اس لیے ارشاد فرمایا ﴿يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ﴾ کہ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ اعضاء اور جوارح سے تو پاک ہے لیکن بیعت کی ذمہ داری کو واضح فرمانے کے لیے اور اس بات کو مؤكد کرنے کے لیے جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرتے ہیں۔ وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں اس لیے ﴿يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ﴾ فرمایا۔
چونکہ بیعت کرنے والے کی اندرونی حالت کو وہ شخص نہیں جانتا جس سے بیعت کی جا رہی ہو اس لیے بیعت کرنے والے کی ذمہ داری بتانے کے لیے فرمایا ﴿فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ﴾ (کہ جو شخص بیعت کو توڑ دے اس کے توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا) معاہدہ کرکے توڑ دینا تو ویسے بھی گناہ کبیرہ ہے پھر جبکہ معاہدہ کو بیعت کی صورت میں مضبوط اور موکد کردے تو اور زیادہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جب اللہ کے رسول سے بیعت کرلی تو اس کو پورا کرنا ہی کرنا ہے۔
﴿وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (اور جو شخص اس عہد کو پورے کردے جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا)
فائدہ : اصحاب طریقت کے یہاں جو سلسلہ جاری ہے یہ مبارک و متبرک ہے اگر کسی متبع سنت شیخ سے مرید ہوجائے تو برابر تعلق باقی رکھے لیکن اگر شیخ خلاف شریعت کسی کام کا حکم دے تو اس پر عمل کرنا گناہ ہے، اگر کسی فاسق یا بدعتی پیر سے بیعت ہوجائے تو اس بیعت کو توڑنا واجب ہے۔
سَيَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَهْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں نہ جانے والے دیہاتیوں کی بدگمانی اور حیلہ بازی کا تذکرہ
معالم التنزیل ١٩١ ج ٤ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جس سال صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ کے آس پاس دیہاتوں میں یہ منادی کرا دی کہ ہم عمرہ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں، مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ بھی عمرہ کرلیں اور قریش مکہ کی طرف سے کوئی جنگ کی صورت پیدا ہوجائے یا وہ بیت اللہ سے روکنے لگیں تو ان سے نمنٹ لیا جائے آپ نے عمرہ کا احرام باندھا اور ھدی بھی ساتھ لی تاکہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ آپ جنگ کے ارادہ سے روانہ نہیں ہو رہے اس وقت تک بڑی جماعت آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی (جن کی تعداد چودہ سو یا اس سے کچھ زیادہ تھی) اس موقع پر دیہات میں رہنے والوں میں بہت سے لوگ پیچھے رہ گئے اور آپ کے ساتھ سفر میں نہ گئے ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ واپس نہیں پہنچے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں پہلے سے آپ کو خبر دے دی اور فرمایا ﴿سَيَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَا اَمْوَالُنَا وَ اَهْلُوْنَا﴾ کہ دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے ڈال دئیے گئے (جن کی شرکت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی) وہ شرکت نہ کرنے کا عذر بیان کرتے ہوئے یوں کہیں گے کہ ہمارے مالوں اور ہمارے اہل و عیال نے ہمیں مشغول رکھا ہم ان کی ضروریات میں لگے رہے پیچھے گھروں میں چھوڑنے کے لیے بھی کوئی نہ تھا لہٰذا آپ ہمارے لیے اللہ سے درخواست کردیجیے کہ وہ ہماری مغفرت فرما دے، جب آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں واپس تشریف لے آئے تو یہ لوگ حاضر خدمت ہوگئے اور انھوں نے ساتھ نہ جانے کا وہی عذر بیان کردیا کہ ہمیں بال بچوں سے متعلق کام کاج کی مشغولیتوں نے آپ کے ساتھ جانے نہ دیا اب آپ ہمارے لیے استغفار کردیں، اللہ جل شانہٗ نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہہ رہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہمارا شریک ہونے کا ارادہ تو تھا لیکن گھر کی مشغولیت کی جہ سے نہ جاسکے اور یہ کہنا کہ آپ ہمارے لیے استغفار کردیں یہ ان کی زبانی باتیں ہیں جو ان کے قلبی جذبات اور اعتقادات کے خلاف ہیں نہ ان کا شریک ہونے کا ارادہ تھا اور نہ استغفار کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت ہے، یہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لائے پھر گناہ اور ثواب اور استغفار کی باتوں کا کیا موقع ہے؟
وَكُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
﴿وَ كُنْتُمْ قَوْمًا بُوْرًا﴾ اور تم اپنے اس گمان کی وجہ سے اور ساتھ نہ جانے کی وجہ سے بالکل تباہ و برباد ہوگئے۔ (معالم التنزیل)
صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ﴿ قَوْمًا بُوْرًا ﴾ کا مطلب ہے تم ہلاک ہونے والے تھے اپنے عقیدے کے فاسد ہونے اور اپنی نیتوں کے بد ہونے کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عتاب کے مستحق تھے بعض نے کہا تم اپنے نفسوں اور دلوں میں فاسد تھے، کہا جاتا ہے ” قوم بور “ یعنی ہلاک شدہ بور جمع ہے بائر کی جیسے حائل کی جمع حول ہے بار فُلانٌ کا معنی ہے ہلاک ہوگیا اور ابارہ اللہ کا معنی ہے اللہ اسے ہلاک کرے اور اسی سے ہے اللہ تعالیٰ کا قول ﴿تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ﴾ اور ﴿وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ﴾
سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْــطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ
جو لوگ حدیبیہ والے سفر میں ساتھ نہ گئے تھے ان کی مزید بدحالی کا بیان
صلح حدیبیہ کے بعد تھوڑی ہی سی مدت کے بعد خیبر فتح ہوگیا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ عنقریب شرکاء حدیبیہ کو اموال غنیمت ملیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے اموال غنیمت شرکاء حدیبیہ کے لیے مخصوص فرما دئیے تھے تاکہ اموال کی محرومی کی تلافی ہوجائے جو انھیں اہل مکہ سے جنگ کرکے بطور غنیمت حاصل ہوسکتے تھے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے پہلے سے خبر دی کہ جب تم لوگ مغانم خیبر کے لیے چلو گے یعنی جنگ خیبر کے لیے روانہ ہونے لگو گے جس کا نتیجہ فتح اور اموال غنیمت حاصل ہونے کی صورت میں کچھ قتال ظاہر ہوگا تو یہ لوگ جو صلح حدیبیہ کی شرکت سے قصداً رہ گئے تھے یوں کہیں گے کہ ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے کچھ قتال میں حصہ لے لیں گے اور اموال غنیمت میں بھی شریک ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ان سے فرما دیں تم ہرگز ہمارے ساتھ نہ جاؤ گے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ حکم فرما دیا ہے درمیان میں یہ بھی فرمایا ﴿يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ﴾ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے کہ متخلفین کو ساتھ نہ لیں اس کو بدلنا چاہتے ہیں اور بعض حضرات نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ مغانم خیبر جو صرف اہل حدیبیہ کے لیے مخصوص کردئیے گئے تھے اس حکم کو بدلنا چاہتے ہیں۔
چونکہ ان لوگوں کا مقصد مال حاصل کرنا تھا اور یہ سمجھ رہے تھے کہ ذرا سی محنت سے اموال غنیمت حاصل ہوجائیں گے اس لیے سفر خیبر میں ساتھ لگنے کی خواہش ظاہر کر رہے تھے۔
﴿قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا﴾ یہ خبر بمعنی النھی ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم لوگ سفر خیبر میں ہرگز ہمارے ساتھ نہ جاؤ گے یعنی ہم تمہیں ساتھ نہ لیں گے۔ ( )
پھر فرمایا ﴿فَسَيَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا﴾ کہ جب تم ان سے یوں کہو گے کہ تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے تو یوں کہیں گے کہ اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ہے بلکہ تم یہ نہیں چاہتے کہ ہمیں اموال غنیمت میں شریک کرو تمہارا یہ جذبہ اور قول و فعل حسد پر مبنی ہے تم ہم سے حسد کرتے ہو اسی لیے یہ بات کر رہے ہو۔
﴿بَلْ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (اے مسلمانو بات یہ نہیں ہے کہ تم حسد کر رہے ہو بلکہ بات یہ ہے کہ وہ بس تھوڑی سی سمجھ رکھتے ہیں صرف دنیاوی امور کو سمجھتے ہیں نصرت دین اور فکر آخرت سے ان کے قلوب خالی ہیں۔ )
یہاں یہ جو اشکال پید ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے اموال غنیمت میں سے بعض مہاجرین حبشہ کو بھی اموال عطاء فرمائے تھے پھر اہل حدیبیہ کے استحقاق اور اختصاص کہاں رہا ؟ حضرات مفسرین کرام نے اس کے دو جواب دئیے ہیں اول یہ کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں خمس یعنی ٥؍١ میں سے دیا تھا جس میں مجاہدین غانمین کا حق نہیں ہوتا وہ ٥/٤ کے مستحق ہوتے ہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غانمین سے اجازت لے کر ان حضرات کو اپنی صوابدید کے مطابق کچھ مال عطاء فرما دیا۔ (راجع معالم التنزیل ١٩٢ ج ٤ و روح المعانی ص ١٠١ ج ٢٦)
قُلْ لِّـلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ
حدیبیہ کی شرکت سے بچھڑ جانے والے دیہاتیوں سے مزید خطاب
اس آیت میں اللہ جل شانہٗ نے بطور پیشین گوئی ان دیہاتیوں کو بتایا ہے جو حدیبیہ کی شرکت سے پیچھے رہ گئے تھے کہ عنقریب ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لیے تمہیں بلایا جائے گا جو بڑی قوت والے ہوں گے سخت جنگجو ہوں گے (خیبر کی جنگ میں تمہیں نہ لے جایا گیا جو حدیبیہ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے تمہارے لیے ایک قسم کی سزا ہے) جنگ لڑنے کے اور بھی مواقع آئیں گے آنے والی قوموں سے تم لڑتے رہو گے یا وہ فرمان بردار ہوجائیں گے جب تمہیں ان سے مقابلہ اور مقاتلہ کے لیے بلایا جائے گا تو اس اطاعت کرو گے (یعنی دعوت دینے والے امیر کی فرمان برداری کرو گے) اللہ تعالیٰ تمہیں اجر حسن یعنی نیک عوض عطاء فرما دے گا اور اگر تم نے اس وقت رو گردانی کی جہاد سے پشت پھیری جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر پیچھے رہ چکے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔
جن مواقع میں اعراب مذکورین کو قتال کے لیے دعوت دی گئی یہ مواقع کب پیش آئے اور جس قوم سے جنگ کرنے کے لیے حکم دیا گیا وہ کون سی قوم تھی ؟ اس بارے میں حضرت رافع بن خدیج (رض) نے فرمایا کہ ہم اس آیت کو پڑھتے تو تھے لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں جب قبیلہ بنوحنیفہ سے جنگ کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے دعوت دی تو سمجھ میں آگیا کہ آیت کا مصداق یہی بنو حنیفہ سے جنگ کرنا ہے بنو حنیفہ یمامہ کے رہنے والے تھے اور مسیلمہ بن کذاب کے ساتھی تھی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس قوم سے فارس اور روم مراد ہیں جن سے جنگ کرنے کے لیے حضرت عمر (رض) نے دعوت دی تھی اور لشکر بھیجے تھے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ بنی ہوازن مراد ہیں جن سے غزوہ حنین میں جہاد ہوا اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے رومی کفار مراد ہیں جن کے حملہ کرنے کی خبر سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک تشریف لے گئے تھے۔ صاحب روح المعانی نے یہ اقوال لکھے ہیں ان میں سے حضرت ابوبکر (رض) کی دعوت مراد ہونا اقرب ہے کیونکہ انھوں نے جو قتال بنو حنیفہ کے لیے دعوت دی تھی وہ امیر المومنین ہونے کی حیثیت سے تھی اور امیر المومنین کی اطاعت نہ کرنے پر عذاب کی وعید دی گئی ہے اور ساتھ ہی ﴿تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ﴾ بھی اس پر صادق آتا ہے کیونکہ مسیلمہ بن کذاب کے ساتھیوں سے جنگ ہوئی تو اس کے ساتھیوں میں سے بہت سوں نے اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔ وھذا علی ان تکون لفظة او للتنویع والحصر کما ھو الظاھر (اور یہ اس وقت ہے جبکہ لفظ اَوْ تنویع کے لیے ہو اور حصر کے لیے ہو جیسا کہ ظاہر ہے)
قبیلہ بنی ہوازن سے جنگ کرنے کے لیے مدینہ منورہ میں دعوت نہیں دی گئی فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین تشریف لے گئے تھے جہاں بنی ہوازن مقابلہ کے لیے جمع ہوئے تھے اور غزوہ تبوک کی شرکت بھی مراد نہیں لی جاسکتی کیونکہ وہاں قتال نہیں ہوا اور نہ رومی مسلمان ہوئے۔ کیونکہ وہ سامنے ہی نہیں آئے اور حضرت عمر (رض) نے جو فارس اور روم کے جہادوں کے لیے دعوت دی تھی چونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ وہ جہاد فرض عین تھا۔ اس لیے اس کو ترک وعید کا مصداق نہیں بنایا جاسکتا امیر کا جو حکم جہاد فرض کفایہ کے لیے ہو وہ ایجابی نہیں ہوتا یاد رہے کہ ﴿اَوْ يُسْلِمُوْنَ﴾ کا ایک ترجمہ تو یہ کیا گیا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں گے اور ایک ترجمہ یہ ہے کہ وہ فرمان بردار ہوجائیں گے۔ یعنی جزیہ دے کر جھک جائیں گے اگر قتال بنی حنیفہ مراد لیا جائے تو پہلا معنی اقرب الی السیاق ہے کیونکہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بنی حنیفہ کے قتال کے تذکرے کے بعد لکھا ہے کہ بنی حنیفہ میں سے دس گیارہ ہزار آدمی مارے گئے اور بہت سوں نے حضرت خالد بن ولید (رض) کے دعوت دینے پر اسلام قبول کرلیا اور یہ لوگ حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں بھی حاضر ہوگئے۔ (البدایہ والنھایہ ص ٣٦٥ ج ٦)
لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ
تفسیر قرطبی میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب آیت کریمہ ﴿وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا﴾ نازل ہوئی جس میں حکم جہاد سن کر رو گردانی کرنے والوں کے لیے عذاب کی وعید ہے تو جو لوگ اپاہج قسم کے تھے انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارا کیا بنے گا ہم تو جہاد میں شرکت نہیں کرسکتے اس پر آیت کریمہ ﴿لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى﴾ (آخر تک) نازل ہوئی جس میں یہ بتادیا کہ جو لوگ مجبوری کی وجہ سے جہاد میں نہ جاسکے مثلاً نابینا ہوں یا لنگڑے ہوں یا بیمار ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے یہ مضمون سورة التوبہ میں بھی گزرا ہے وہاں فرمایا ﴿لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ﴾
لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا
بیعت رضوان والوں کی فضیلت، ان سے فتح و نصرت اور اموال غنیمت کا وعدہ
ان آیات میں بیعت رضوان کا ذکر ہے حضرات صحابہ کرام (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات پر بیعت لی تھی کہ جنگ ہونے کی صورت میں ہم ہر طرح سے آپ کا ساتھ دیں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے جم کر لڑیں گے اللہ جل شانہٗ نے اعلان فرما دیا کہ جن مومنین نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ ان حضرات کے لیے اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا تمغہ مل گیا رہتی دنیا تک کے لیے قرآن پڑھنے والے تمام اشخاص و افراد کے سامنے بار بار اعلان سامنے آتا رہے گا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام بیعت کرنے والوں سے راضی ہے حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ دوزخ میں ان لوگوں میں سے کوئی بھی داخل نہ ہوگا جنہوں نے حدیبیہ میں بیعت کی۔
رضا مندی کا اعلان فرماتے ہوئے ﴿فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ﴾ بھی فرمایا کہ اللہ نے ان کے اخلاص کی حالت کو جان لیا جس سے ان کے قلوب معمور تھے پھر اپنی مزید نعمت کا اظہار فرمایا ﴿فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ﴾ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر سکینت نازل فرما دی ان کے قلوب کو پوری طرح اطمینان ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ مصالحت کی ہے اور قریش مکہ سے جو معاہدہ فرمایا ہے یہ بالکل صحیح ہے درست ہے اہل ایمان کے لیے باعث خیر ہے اور مبارک ہے پھر فتح قریب کی بشارت دی، مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ اس سے خیبر کی فتح مراد ہے۔ ٦ ھ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا اور اس کے دو ماہ بعد خیبر فتح ہوگیا جہاں یہود بنی نضیر مدینہ منورہ سے جلاوطن کیے جانے کے بعد آباد ہوگئے تھے وہاں بھی انھوں نے شرارتیں جاری رکھیں لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کو لے کر تشریف لے گئے خیبر فتح ہوگیا اور یہود کے اموال بھی غنیمت کی صورت میں حضرات صحابہ (رض) کو مل گئے۔
اس مضمون کے ختم پر ﴿وَ كَان اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا﴾ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غلبہ والا ہے وہ سب پر غالب ہے وہ جس کو چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے اور حکمت والا بھی ہے (اس کا ہر فیصلہ جلدی ہو یا دیر سے ہو سب کچھ حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ )
اس کے بعد فرمایا ﴿وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا﴾ (اللہ نے تم سے بہت سے اموال غنیمت کا وعدہ فرمایا ہے) ﴿فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ﴾ (سو یہ اموال غنیمت جو تمہیں خیبر سے ملے ان کو جلدی عطا فرما دیا۔ اور ان کے علاوہ اور بہت سے مال غنیمت ملیں گے)
﴿وَ كَفَّ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ﴾ (اور لوگوں کے ہاتھوں کو تمہاری جانب سے روک دیا یعنی جن لوگوں نے تم پر حملہ کا ارادہ کیا تھا ان کی دست درازی سے تمہیں محفوظ فرما دیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر تشریف لے گئے اور وہاں اہل خیبر کا محاصرہ فرمایا تو یہاں قبیلہ بنی اسد اور قبیلہ بنی غطفان کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ اس وقت مدینہ منورہ میں مسلمان تھوڑے سے ہیں اکثر غزوہ خیبر کے لیے گئے ہیں لہٰذا مدینہ منورہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کے اہل و عیال اور بال بچوں کو لوٹ لیا جائے اللہ تعالیٰ نے ان کے ارادہ کو ارادہ تک ہی رکھا ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے مدینہ پر چڑھائی کرنے کیلئے نہ آسکے۔ (معالم التنزیل)
روح المعانی ١٠٩ ج ٢٦ میں یوں لکھا ہے کہ یہودی لوگ مسلمانوں کے پیچھے ان کے اہل و عیال پر حملہ کرنے والے تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں باز رکھا اور ارادہ کے باوجود حملہ نہ کرسکے ایک قول یہ بھی ہے کہ بنی اسد اور بنی غطفان اہل خیبر کی مدد کے لیے نکلے تھے پھر واپس ہوگئے اور حضرت مجاہد تابعی (رح) نے ﴿وَ كَفَّ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ﴾ کا مطلب یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے صلح کی صورت پیدا فرما کر اہل مکہ کے ہاتھوں کو روک لیا جو اہل ایمان سے جنگ کرنے کے لیے تیار تھے۔
﴿وَ لِتَكُوْنَ اٰيَةً لِّلْمُؤْمِنِيْنَ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اموال غنیمت عطاء فرما دئیے کہ تم اس سے نفع حاصل کرو اور تاکہ یہ اموال مومنین کی اس بات کی نشانی بن جائیں کہ واقعی اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہے اور اس سے ایمان مزید موکد ہوجائے۔
﴿وَ يَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا﴾ اور تاکہ تمہیں صراط مستقیم پر چلائے یعنی ہمیشہ اللہ پر بھروسہ رکھنے والا بنا دے روح المعانی میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ جلدی دیدی اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک لیا تاکہ تم اس صورت حال سے نفع حاصل کرو اور یہ نشانی بنے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ آیۃ کہتے ہیں اَمَارۃ کو یعنی یہ مومنین کے لیے نشانی ہے اس سے انھیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک مقام پر فائز ہیں اور اس سے معلوم ہوا ہے کہ فتح خیبر غنیمت اور فتح مکہ اور مسجد حرام میں داخلہ کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سے وعدہ سچا تھا۔ )
﴿وَ يَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا﴾ (یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح راہنما ہے اور ہر کام کے کرنے یا چھوڑنے میں اسی پر ہی اعتماد ہے۔ )
وَّاُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے وہ فتوحات مراد ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مسلمانوں کو نصیب ہوئیں مثلاً فارس اور روم فتح ہوئے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے علاقے اور ممالک ان کے قبضے میں آئے۔ حضرت حسن (رح) نے فرمایا کہ اس سے فتح مکہ مراد ہے اور حضرت عکرمہ (رح) کا قول ہے کہ اس سے فتح حنین مراد ہے اور حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا کہ قیامت تک مسلمانوں کو جو بھی فتوحات نصیب ہوں گے وہ سب مراد ہیں یہ اقوال مفسر قرطبی (رح) نے لکھے ہیں۔
﴿لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا﴾ ظاہری معنی تو یہ ہے کہ اس وقت تو تم کو ان پر قدرت حاصل نہیں ہوئی اور بعض حضرات نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ لن تکونو ترجونھا کہ تمہیں ان کے فتح ہونے کی امید نہ تھی بعض حضرات نے اسی کا اردو ترجمہ یوں کیا ہے کہ وہ فتوحات تمہارے خواب و خیال میں بھی نہ تھیں۔
﴿قَدْ اَحَاط اللّٰهُ بِهَا﴾ (اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ تم انھیں فتح کرو گے اس نے مقدر فرما دیا ہے کہ ان پر تمہارا قبضہ ہوگا۔ )
﴿وَ كَان اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرًا﴾ (اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ جب چاہے جسے چاہے جو ملک اور مملکت نصیب فرمائے۔ )
وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا
اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور کافروں کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے باز رکھا
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں آیت بالا کا سبب نزول بتاتے ہوئے متعدد اقوال لکھے ہیں صحیح مسلم میں ایک واقعہ حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے اور دوسرا حضرت انس (رض) سے مروی ہے اور دونوں کو آیت بالا کا سبب نزول بتایا ہے حضرت سلمہ بن اکوع (رض) نے بیان کیا کہ جب ہمارے اور اہل مکہ کے درمیان صلح ہوگئی تو میں ایک درخت کے نیچے کانٹے ہٹا کر لیٹ گیا اس وقت اہل مکہ میں سے چار مشرکین وہاں پہنچ گئے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ناشائستہ کلمہ کہنے لگے مجھے برا لگا اور میں جگہ چھوڑ کر دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا ان لوگوں نے اپنے ہتھیار لٹکا دئیے اور لیٹ گئے میں نے اپنی تلوار لی اور ان چاروں آدمیوں کے ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا اور ان سے کہا کہ دیکھو قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عزت بخشی ہے اگر تم میں سے کوئی شخص سر اٹھائے گا اس کا سر تن سے جدا کردوں گا اس کے بعد میں انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آیا اور میرے چچا ستر آدمی قید کرکے لائے جن کا نام عامر تھا اس کے گرفتار کردہ لوگوں میں مکرز نامی بھی ایک شخص تھا اس کے ساتھ اور افراد بھی تھے جو مشرکین میں سے تھے جن کی تعداد ستر افراد تھی آپ نے ان کو معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ﴾ (الآیۃ) نازل فرمائی۔ (صحیح مسلم)
اور حضرت انس (رض) سے یوں روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے اسی ٨٠ آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آگئے یہ لوگ ہتھیار پہنے ہوئے تھے ان کا ارادہ یہ تھا کہ غفلت کا موقع پاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ پر حملہ کردیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو پکڑ لیا وہ لوگ قابو میں آگئے تو اپنی جانوں کو سپرد کردیا آپ نے ان کو زندہ چھوڑ دیا اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت مذکوہ بالا نازل فرمائی (صحیح مسلم ١١٦ ج ٢) مفسر ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنے مومن بندوں پر احسان جتایا ہے کہ اس نے مشرکین کے ہاتھوں سے تمہیں محفوظ رکھا اور ان کی طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی اور مومنین کے ہاتھوں کو بھی مشرکین تک نہ پہنچنے دیا۔
اس کے بعد آیت کا ترجمہ دوبارہ پڑھ لیجیے اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں کہ کس کی کس طرح حفاظت فرمائے اور مخالف کے قبضہ ہونے کے بعد اس کے حملہ سے کس طرح بچائے اور قلوب کو جس طرح چاہے پلٹ دے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن لوگوں سے نرمی کا معاملہ فرمایا اور معاف کردیا عموماً وہ لوگ بعد میں مسلمان ہوگئے۔
لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور حق کے ساتھ بھیجا
مفسرین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حدیبیہ والے سفر میں روانہ ہونے سے پہلے ہی مدینہ منورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خواب دکھا دیا گیا تھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ امن وامان سے مسجد حرام میں داخل ہوں گے اور وہاں کچھ لوگ سر مونڈیں گے اور کچھ لوگ بال کتروائیں گے آپ نے یہ خواب صحابہ کو بتادیا تھا خواب سن کر سب بہت خوش ہوئے اور اس امید پر روانہ ہوگئے کہ اس سال مکہ معظمہ میں داخل ہوں گے اور عمرہ نصیب ہوگا جب حدیبیہ میں پہنچے اور مشرکین مکہ آڑے آگئے جس کی وجہ سے صلح کرلی گئی اور مکہ معظمہ میں داخل ہوئے بغیر واپس آگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صلح کرنے کو حق جانتے اور مانتے ہوئے طبعی طور پر اس بات سے صحابہ کو رنج ہو رہا تھا کہ ہم مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہوسکے بلکہ صلح کے وقت ہی حضرت عمر (رض) نے سوال کرلیا تھا کہ آپ نے تو یہ خبر دی تھی کہ مکہ معظمہ میں داخل ہوں گے یہ تو اس کے خلاف ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وقت اس کا جواب دے دیا تھا اس جواب سے حضرت عمر (رض) مطمئن ہوگئے تھے۔
اطمینان عقلی کے ہوتے ہوئے طبعی طور پر جو رنج تھا اس کو دور فرمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی جس میں یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو خواب دکھایا تھا تم انشاء اللہ مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوگے وہاں کوئی بال منڈوائے گا اور کوئی بال کتروائے گا اور کسی کو کسی کا ڈر نہیں ہوگا یہ خواب اللہ تعالیٰ نے صحیح دکھایا تھا۔ واقعہ کے مطابق تھا جس کا آئندہ سال مظاہرہ ہوا اور چونکہ خواب میں اسی سال داخل ہونے کی خبر نہیں دی گئی تھی اس لیے خواب کے سچا ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑا اس میں جو لفظ انشاء اللہ فرمایا ہے یہ شک کے لیے نہیں ہے بلکہ تحقیق اور تاکید کے لیے ہے۔ اور ابو عبیدہ کا قول ہے کہ ان یہاں اذ کے معنی میں ہے جس کا معنی یہ ہے کہ جب اللہ چاہے داخل ہوجاؤ گے۔
اور یہ جو فرمایا ﴿فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا﴾ (سو اللہ نے جان لیا جو تم نے نہیں جانا) اس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ مکہ معظمہ کے داخل ہونے میں جو تاخیر کی گئی اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی جس کا تمہیں علم نہ تھا۔ بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر اسی سال عمرہ کرنے کی ضد کرتے اور مشرکین مکہ سے قتل و قتال کیا جاتا اور صلح نہ ہوتی تو دو ڈھائی مہینے بعد جو خیبر فتح ہوا اس کے لیے سفر کرنا مشکل ہوجاتا اور اگر سفر میں چلے جاتے تو یہ خطرہ رہتا کہ اہل مکہ کہیں پیچھے سے حملہ نہ کردیں پس صلح کرنے میں اور دخول مکہ کی تاخیر میں جو فائدہ پہنچا اس کا تمہیں علم نہیں تھا ﴿فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا﴾ (سو اللہ نے مکہ معظمہ کے داخل ہونے سے پہلے عنقریب ہی ایک فتح دے دی) یعنی خیبر کو فتح فرما دیا اور وہاں کے اموال غنیمت شرکاء حدیبیہ کو مل گئے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ
حضرات صحابہ کرام (رض) کی فضیلت اور منقبت
اس سورت میں جگہ جگہ صحابہ کرام (رض) کی تعریف بیان فرمائی ہے پھر یہاں سورت کے ختم پر ان کی مزید توصیف و تعریف فرمائی ہے اولاً ارشاد فرمایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہیں، اس مضمون کو سورة مائدہ میں ﴿اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ﴾ میں بھی بیان کیا ہے، اہل ایمان کی یہ شان ہے کہ کافروں کے مقابلہ میں سخت رہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر رحم کریں یہ صفت حضرات صحابہ کرام (رض) میں بہت زیادہ نمایاں تھی آج کل دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان دشمنان اسلام کے آگے پیچھے جاتے ہیں اور ان سے ڈرتے ہیں ان سے نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ سختی کرتے ہیں ان پر رحم نہیں کرتے دنیاوی محبت نے اس پر آمادہ کر رکھا ہے۔
حضرات صحابہ کرام (رض) کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی ﴿تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا﴾ اے مخاطب تو ان کو اس حال میں دیکھے گا کہ کبھی رکوع کیے ہوئے کبھی سجدہ کیے ہوئے اس میں کثرت سے نماز پڑھنا اور نمازوں پر مداومت کرنا نوافل کا اہتمام کرنا راتوں کو نمازوں میں کھڑا ہونا سب داخل ہے۔
تیسری صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا﴾ (یہ حضرات اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں) جو اعمال اختیار کرتے ہیں ان کے ذریعہ کوئی دنیاوی مقصد سامنے نہیں ہے ان کے اعمال اللہ کا فضل تلاش کرنے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہیں۔
چوتھی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ﴾ اس کا مطلب بتاتے ہوئے صاحب معالم التنزیل نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے جو ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آ رہا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر کچھ مٹی لگ جاتی ہے اور بعض حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے ان کے ذریعہ پہچانے جائیں گے کہ یہ لوگ نماز پڑھنے میں زیادہ مشغول رہتے تھے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے اچھی عادت اور خصلت اور خشوع و تواضع مراد ہے جو لوگ کثرت سے نماز پڑھتے ہیں انھیں جو نماز کی برکات حاصل ہوتی ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی صفت خوش خلقی اور تواضع بھی ہے ان کے چہروں سے ان کی یہ صفت واضح ہوجاتی ہے۔
پھر فرمایا ﴿ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ﴾ (ان کی مذکورہ صفت توراۃ میں بھی بیان کی گئی ہے) پھر انجیل میں جو ان کی صفت بیان کی گئی اس کو بیان فرمایا ارشاد ہے ﴿وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۫ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ﴾ (الیٰ اٰخرہ) کہ انجیل میں ان لوگوں کی مثال یہ ہے کہ جیسے کسان نے نرم زمین میں بیج ڈالا اس زمین سے کھیتی کی سوئی نکلی یعنی ہلکا بہت پتلا تنا ظاہر ہوا، پھر یہ آگے بڑھا تو اس میں قوت آگئی پھر اور آگے بڑھا تو موٹا ہوگیا ان حالتوں سے گزر کر اب وہ ٹھیک طریقے سے اپنی پنڈلی پر اچھی طرح کھڑا ہوگیا اب یہ ہرا بھرا بھی ہے اندر سے نکل کر بڑھ بھی چکا ہے اور اس کا تنا اپنی جڑ پر کھڑا ہے کسان لوگ اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اس مثال میں یہ بتادیا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اولاً تھوڑے سے ہوں گے پھر بڑھتے رہیں گے اور کثیر ہوجائیں گے اور مجموعی حیثیت سے وہ ایک بڑی قوت بن جائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرات صحابہ کرام (رض) پہلے تھوڑے سے تھے پھر بڑھتے رہے بڑھتے بڑھتے ہزاروں ہوگئے زمانہ نبوت ہی میں ایک لاکھ سے زیادہ ان کی تعداد ہوگئی پھر انھوں نے دین اسلام کو خوب پھیلایا قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دئیے ان کے مقابلہ میں کوئی جماعت جم نہیں سکتی تھی۔
﴿لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو بڑھایا قوت و طاقت سے نوازا تاکہ ان کے ذریعہ کافروں کے دلوں کو جلا دے کافروں کو یہ گوارا نہیں تھا اور نہ اب گوارا ہے کہ اسلام اور مسلمان پھیلیں پھولیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کو بھی بڑھا دیا اور مسلمانوں کو بھی قوت دے دی جیسا کہ سورة الصف میں فرمایا ﴿يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ يَاْبَى اللّٰهُ اِلَّا اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ، هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ﴾ (یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو ناگوار ہو اللہ وہی ہے جس نے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب پر غالب فرما دے اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہو) یہ دوسری آیت ﴿ هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ ﴾ سورة توبہ اور سورة فتح میں بھی ہے جس کا ترجمہ گزر چکا ہے۔
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا﴾ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کی مغفرت ہوگی اور انھیں اجر عظیم دیا جائے گا) یہ بات بطور قاعدہ کلیہ بیان فرمائی ہے لفظوں کا عموم حضرات صحابہ کو بھی شامل ہے اور ان کے بعد آنے والے اعمال صالحہ والے مومنین کو بھی۔
فائدہ: سورة الفتح میں حضرات صحابہ (رض) کی کئی جگہ تعریف فرمائی ہے اول فرمایا ﴿هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ﴾ پھر فرمایا ﴿ لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَ يُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا﴾ پھر فرمایا ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ﴾ پھر فرمایا ﴿لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا﴾ پھر فرمایا ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَا﴾پھر فرمایا ﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ﴾ (الآیۃ) پھر فرمایا لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ پھر فرمایا ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا﴾ اور سورة توبہ میں فرمایا ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ﴾ (الآیۃ)
قرآن مجید کی ان تصریحات کو دیکھ لو اور روافض کی دشمنی کو دیکھ لو جو دو تین صحابہ کے علاوہ باقی سب کو کافر کہتے ہیں اس فرقہ کی بنیاد ہی بغض صحابہ (رض) پر ہے جو لوگ حضرات صحابہ کو کافر کہتے ہیں وہ قرآنی تصریحات کے منکر ہونے کی وجہ سے خود کافر ہیں قرآن کے جھٹلانے کی وجہ سے جب ان لوگوں پر کفر عائد ہوگیا تو کہنے لگے یہ قرآن ہی وہ نہیں ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا تھا وہ قرآن امام مہدی کے پاس ہے یہ کہنا خود کفر ہے اور قرآن نے بھی ان لوگوں کو کافر بتادیا جن کے دل میں صحابہ کی طرف سے بغض ہوگا ﴿لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ کو بار بار پڑھ لیا جائے حضرت امام مالک (رح) کے سامنے کسی نے حضرات صحابہ کی شان میں کچھ کہہ دیا اس پر ارشاد فرمایا کہ جس کسی کے دل میں کسی بھی صحابہ کی طرف سے بغض ہوگا آیت کریمہ کا عموم اس کو شامل ہوگا یعنی وہ آیت کا مصداق ہوگا (یعنی اس پر کفر عائد ہوگا۔ ) (تفسیر قرطبی)
بعض شیعوں نے نکتہ نکالا ہے کہ ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾ کے ساتھ جو ﴿مِنْھُمْ﴾ کا اضافہ فرمایا ہے اس میں مِنْ تبعیضیہ ہے یہ ان لوگوں کی جہالت ہے حضرات صحابہ کے بغض میں یہ بات کہہ رہے ہیں اور مزید کفر کی چادر میں لپیٹ رہے ہیں سیاق کلام سے واضح ہو رہا ہے کہ من بیانیہ ہے۔ اگر بالفرض مِنْ تبعیضیہ ہو تو کیا آیات قرآنیہ سے دو تین صحابہ کا ایمان ثابت ہوتا ہے جن کے ایمان کے روافض قائل ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو ﴿لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾ فرمایا ہے کیا اس سے ان چودہ پندرہ سو صحابہ کا ایمان اور وعدہ رضوان ثابت نہیں ہوتا جنہوں نے حدیبیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جن میں حضرت ابوبکر (رض) اور عمر (رض) بھی تھے جن کے بغض میں شیعہ جل کر خاک ہوئے جا رہے ہیں سورة توبہ میں جو مہاجرین اور انصار اور ان کے متبعین (اہل السنۃ والجماعۃ) کی رضا مندی کا اعلان فرمایا ہے اس میں تو کہیں بھی منھم نہیں ہے یاد رہے کہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) بھی سابقین اولین میں سے تھے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور شیعہ اللہ تعالیٰ سے راضی نہیں جو حضرات انصار اور مہاجرین سے راضی ہے جو شخص قصداً قرآن کو جھٹلائے ایمان سے منہ موڑے اس سے کیا بات کی جاسکتی ہے شیعوں کا عقیدہ ہے حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) مومن نہیں تھے شیعوں کو خود اپنے ایمان کی فکر نہیں ہے کہ بغض صحابہ انھیں کچھ سوچنے نہیں دیتا عامۃ المسلمین سے ہمارا خطاب ہے ان آیات میں غور کریں تاکہ شیعوں کے کفر میں کوئی شخص شک نہ کرے۔
حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ (رض) کے بارے میں اللہ سے ڈرو (دو بار فرمایا) میرے بعد تم انھیں نشانہ نہیں بنالینا، سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، اور جس نے انھیں اذیت دی اس مجھے اذیت دی، اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی، اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ وہ اسے پکڑ لے گا۔ (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ ٥٥٤)
حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا کہہ رہے ہیں تو کہہ دو کہ تم پر اللہ کی لعنت ہے تمہارے شر کی وجہ سے۔ (ایضاً )
حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ (ان کا مرتبہ اتنا بڑا ہے کہ) تم میں سے کوئی شخص اگر احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کردے تو یہ (ثواب کے اعتبار سے) ان میں سے کسی کے ایک مد یا نصف مد کو بھی نہیں پہنچے گا۔ (كذا فی المشکوٰۃ ٥٥٣ عن البخاری و مسلم)
اس زمانہ میں غلہ ناپنے کا ایک برتن ہوتا تھا اسے مد کہتے تھے (نئے اوزان سے ایک مد کا وزن سات سو گرام کے لگ بھگ بنتا ہے۔)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.