ترجمہ اور تفسير سورہ فاطر
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿1﴾
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسی نے فرشتوں کو پیغام پہنچانے والا بنایا ہے جو دو دو تین تین اور چار چار بازو ( پر ) رکھتے ہیں ۔ وہ اللہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ کردیتا ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿2﴾
اگر وہ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے تو ان کو بند کرنے والا کوئی نہیں اور جس کو بند کر دے تو اس کے بعد کوئی اس کو کھولنے والا نہیں ہے۔ وہی غالب حکمت والا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿3﴾
اے لوگو، اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو۔
وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ﴿4﴾
اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر وہ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو ( ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے) آپ سے پہلے بھی وہ رسولوں کو اسی طرح جھٹلاتے رہے ہیں ۔ لیکن سارے معاملات آخر کار اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ﴿5﴾
اے لوگو ! بیشک اللہ کا وعدہ سچا وعدہ ہے۔ دنیا کی زندگی کہیں تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور ( کہیں ایسا نہ ہو) کہ دھوکے باز شیطان تمہیں کسی فریب میں مبتلا کر دے۔
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿6﴾
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم اس کو دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنی پارٹی کو صرف جہنم کا ایندھن بنانے کے لیے بلاتا ہے۔
الَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ ﴿7﴾
( یاد رکھو ) جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے شدید ترین عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کئے تو ان کے لیے سامان مغفرت اور بہت بڑا اجر وثواب ہے۔
أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿8﴾
( اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا) جس کے ( برے اور بد ترین) اعمال اس کی اپنی نظروں میں خوبصورت بنا دیئے گئے ہوں اور وہ خود بھی ان کو اچھا سمجھتا ہو ؟ بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ حسرت و افسوس میں اپنی جان نہ گھلایئے۔ اللہ ان کی حرکتوں سے واقف ہے۔
وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ﴿9﴾
اللہ تو وہ ہے جو ان ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں (اللہ نے فرمایا کہ) پھر ہم ان بادلوں کو ایک خشک اور بنجر شہر کی طرف لے جاتے ہیں ۔ پھر ان کے ذریعہ مردہ زمین کو دوبارہ زندگی دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم (قیامت کے دن) کے مردوں کو دوبارہ اٹھا کر کھڑا کریں گے۔
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ ﴿10﴾
جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے تو تمام ترعزت اللہ ہی کے لیے ہے۔ اسی تک اچھا کلام بلند ہوتا ہے اور عمل صالح اس کو بلند کرتا ہے اور جو لوگ بڑی بڑی تدبیریں کرتے ہیں، ف ١٩۔ انھیں سخت عذاب ہوگا اور ان کا مکر (سب) نیست ونابود ہو کر رہے گا۔
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴿11﴾
اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنا دیا۔ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ کوئی عورت کسی بچے کو جنم دیتی ہے مگر یہ کہ وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی بڑی عمر پاتا ہے یا کسی کی عمر میں کمی کی جاتی ہے وہ سب کچھ کتاب ( لوح محفوظ) میں لکھا ہوا ہے۔ بیشک یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے ۔
وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ ۖ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا ۖ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿12﴾
اور دونوں دریا برابر نہیں ہیں ایک شیریں پیاس بجھانے والا ہے اس کا پینا بھی آسان اور ایک شور تلخ ہے اور ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو۔ اور زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتے دیکھتا ہے، تاکہ اس کی (دی ہوئی) روزی تلاش کرو اور تاکہ تم شکرگذار ہو۔
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ ﴿13﴾
وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے۔ اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے۔ (مسخر کردیا ہے) جو ایک مقرر مدت تک چلتے رہیں گے۔ یہی تو اللہ ہے جو تمہارا رب ہے اور یہ ساری سلطنت اسی کی ملکیت ہے اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں تم پکارتے ہو وہ گٹھلی کے چھلکے کو پیدا کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔
إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ﴿14﴾
اگر تم ان کو پکارو گے تو وہ تمہاری فریاد نہیں سنیں گے اور اگر سنیں گے بھی تو تمہاری فریاد رسی نہیں کریں گے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ اور ایک باخبر کی طرح کوئی دوسرا تمہیں آگاہ نہیں کرسکتا۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿15﴾
اے لوگو! تمہی اللہ کے محتاج ہو، اللہ تو بےنیاز و ستودہ صفات ہے۔
إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿16﴾
اگر وہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور ایک نئی مخلوق لاکھڑی کرے
وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ ﴿17﴾
اور ایسا کرنا اللہ کے لیے ذرا بھی مشکل نہیں ہے
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَنْ تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ﴿18﴾
اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور اگر کوئی بوجھ لدا ہوا کسی کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے بلائے گا جب بھی اس میں سے کچھ بھی بوجھ نہ اٹھایا جائے گا، اگرچہ وہ شخص قرابت دار ہی ہو۔ آپ تو صرف ان ہی لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں ۔ جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں جو شخص بھی پاکیزگی حاصل کرے گا وہ اس کے اپنے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف (سب کو ) لوٹ کر جانا ہے۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ﴿19﴾
نابینا اور بینا دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ ﴿20﴾
اور نہ تاریکی اور روشنی
وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ﴿21﴾
اور نہ سایہ اور دھوپ یکساں ہیں
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ ﴿22﴾
اور نہ زندہ اور مردے یکساں ہو سکتے ہیں۔ اللہ ہی جن کو چاہتا ہے سناتا ہے اور تم ان کو سنانے والے نہیں بن سکتے جو قبروں کے اندر ہیں۔
إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِيرٌ ﴿23﴾
آپ تو صرف ڈرانے ( برے انجام سے آگاہ کرنے والے) ہیں۔
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۚ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ﴿24﴾
ہم ہی نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے خوش خبری سنانے والے اور ڈرانے والے کی حیثیت سے، اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی ہے جس میں ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔
وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ ﴿25﴾
اور اگر یہ لوگ تم کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے جو لوگ ہوئے ہیں انھوں نے بھی جھٹلایا۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل، صحیفوں اور روشن کتاب کے ساتھ آئے تھے۔
ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ﴿26﴾
پھر میں نے میں نے (ان) کافروں کو پکڑ لیا تو دیکھو کیسی ہوئی ان کے اوپر میری پھٹکارا۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ ﴿27﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان ( بلندی) سے پانی برسایا ۔ پھر ہم نے اس سے مختلف پھل پھول نکالے جن کے رنگ جدا جدا ہیں ۔ اسی طرح پہاڑوں میں سرخ وسفید اور گہری سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں جن کے رنگ الگ الگ ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ ﴿28﴾
اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشوں کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں ( حقیقت یہ ہے کہ) اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو علم وفکر رکھنے والے ہیں ۔ بیشک اللہ زبردست مغفرت کرنے والا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ ﴿29﴾
بیشک جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے پوشیدہ وعلانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں وہ ایسی تجارت کی آس لگائے ہوئے ہیں جو کبھی ماند نہ پڑے گی۔
لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴿30﴾
تاکہ ان کو ان کے (اعمال کے) صلے (اللہ) پورے دے اور اپنے فضل سے ان میں (کچھ) بڑھا بھی دے، بیشک وہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا قدرت والا ہے۔
وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴿31﴾
اور جو کتاب ہم نے آپ کے پاس بطور وحی بھیجی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی تصدیق کردیتی ہے بیشک اللہ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴿32﴾
پھر ہم نے یہ کتاب ان لوگوں کے ہاتھ میں بھی پہنچائی جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا، ف ٤٤۔ پھر ان میں سے بعض تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض ان میں سے ميانہ رو ہیں اور بعض ان میں سے اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کئے چلے جاتے ہیں، یہ بہت ہی بڑا فضل ہے۔
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ ﴿33﴾
ان کے لیے ہمیشگی کے باغ ہوں گے جن میں وہ داخل ہوں گے ، ان میں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے، اور ان کی پوشاک ریشم کی ہوگی۔
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ ﴿34﴾
اور یہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کیا بیشک ہمارا پروردگار بڑا مغفرت والا ہے، بڑا قدر دان ہے
الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ ﴿35﴾
جس نے اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے کے مقام میں لا اتارا ہے جہاں ہمیں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہمیں تھکن ہی محسوس ہوگی۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ ﴿36﴾
اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مرہی جائیں اور نہ ان سے دوزخ کا عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا ایسی ہی سزا ہم ہر کافر کو دیتے ہیں
وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ ﴿37﴾
اور وہ اس میں واویلا کریں گے۔ اے ہمارے رب ! ہم کو اس سے نکال، اب ہم نیک عمل کریں گے، ان اعمال سے مختلف جو ہم اب تک کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہ دی تھی کہ اگر تم نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے جب کہ تمہیں خبردار کرنے والا بھی آگیا تھا ۔ اب تم عذاب کا مزہ چکھو۔ ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہے۔
إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿38﴾
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ وہ تو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں سے بھی واقف ہے۔
هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِلَّا مَقْتًا ۖ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَارًا ﴿39﴾
وہی ہے جس نے تم کو زمین میں جانشین بنایا تو جو کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر آئے گا اور کافروں کے لیے ان کا کفر، ان کے رب کے نزدیک، اس کے غضب کی زیادتی ہی کا موجب ہوگا اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے خسارے ہی میں اضافہ کرے گا۔
قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِنْهُ ۚ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا ﴿40﴾
( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہو مجھے دکھاؤ کہ انھوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ؟ یا ان کی آسمانوں میں کیا حصہ داری ( ساجھا ہے) یا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے جس کی وجہ سے وہ ( اپنے ہر شرک پر) کوئی سندر رکھتے ہیں بلکہ ( حقیقت یہ ہے کہ ) یہ ظالم ایک دوسرے کو وعدوں کے جال میں پھنسا رہے ہیں ۔
إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا ۚ وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ﴿41﴾
بیشک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں۔ اور اگر وہ ٹلنے لگیں بھی تو پھر اللہ کے سوا کوئی بھی انھیں تھام نہیں سکتا۔ بیشک وہ بڑا حلم والا ہے، بڑا مغفرت والا ہے۔
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا ﴿42﴾
اور ان (کفار) نے اللہ کی بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا آیا تو ہم ہر امت سے بڑھ کر ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے ، لیکن جب ان کے پاس (وہ) ڈرانے والا آہی گیا تو بس ان کی نفرت ہی کو ترقی ہوئی
اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا ﴿43﴾
دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اور (ان کی) بری چالوں کو (بھی ترقی ہوئی) اور بری چالوں کا وبال انھیں چال والوں پر پڑتا ہے۔ سو کیا یہ اسی آگے والوں کے دستور کے منتطر ہیں۔ آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور کو منتقل ہوتا ہوا دیکھیں گے
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا ﴿44﴾
کیا یہ لوگ زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگ جو قوت و طاقت میں بہت آگے تھے ان کا انجام کتنا بھیانک ہوا ۔ (یاد رکھو) زمین اور آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کو ( بےبس اور) عاجز کر دے۔ بیشک وہ بہت علم والا اور بہت قدرت والا ہے۔
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا ﴿45﴾
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑتا تو زمین کی پشت پر ایک جاندار کو بھی نہ چھوڑتا لیکن وہ ان کو ایک معین مدت تک مہلت دیتا ہے۔ پس جب ان کی مدت پوری ہوجائے گی تو اللہ اپنے بندوں کو خود دیکھنے والا ہے۔
سورة فاطر كاتعارف
یہ سورت مکی ہے اور تقریباً درمیانہ زمانہ تھا ہجرت سے پہلے اور نبوت کے بعد۔ یہ قرآن پاک کی پینتسویں سورت ہے اس میں 45 آیات اور 5 رکوع ہیں۔
اس سورت میں بنیادی طور پر مشرکین کو توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی جو نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اول تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس قادر مطلق نے یہ کائنات پیدا فرمائی ہے اسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی شریک یا مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور دوسرے یہ کہ وہ یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر فضول پیدا نہیں کرسکتا، یقیناً اس کا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جو لوگ یہاں اس کے احکام کے مطابق نیک زندگی گزاریں، انھیں انعامات سے نوازا جائے، اور جو نافرمانی کریں ان کو سزا دی جائے، جس کے لیے آخرت کی زندگی ضروری ہے، تیسرے یہ کہ جو ذات کائنات کے اس عظیم الشان کارخانے کو عدم سے وجود میں لے کر آئی ہے، اس کے لیے اس کو ختم کرکے نئے سرے سے آخرت کا عالم پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جسے ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کیا جائے، اور جب یہ حقیقتیں مان لی جائیں تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اس دنیا میں انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، تو ظاہر ہے کہ اپنی مرضی لوگوں کو بتانے کے لیے اس نے رہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور جاری فرمایا ہوگا، اسی سلسلے کا نام رسالت نبوت یا پیغمبری ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی سلسلے کے آخری نمائندے ہیں، اس سورت میں آپ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کافر لوگ آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؛ بلکہ آپ کا فریضہ صرف اتنا ہے کہ لوگوں تک حق کا پیغام واضح طریقے سے پہنچادیں، آگے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے اور وہی اس کے لیے جواب دہ ہیں۔
سورت کا نام فاطر بالکل پہلی آیت سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ اسی سورت کا دوسرا نام سورة ملائکہ بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں فرشتوں کا بھی ذکر ہے۔
برصغیر ہند وپاک ميں سورت صرف فاطر کے نام سے معروف ہے، البتہ مصر، بیروت اور حرمین طیبین کے قرآن مجید کے نسخوں میں اس کا نام فاطر بھی لکھا ہوا ہوتا ہے اور ملائکہ بھی۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۭ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
فاطر السموت الخ: ”فاطر“ اور ”بدیع“ کا قریب قریب ایک ہی مفہوم ہے۔ قرآن کریم میں کہیں فاطر کا لفظ آیا ہے۔ اور کہیں بدیع کا لفظ بھی استعمال ہے۔ جیسے ”بدیع السموت والأرض“ (بقرہ : ١٧) فطور کا لغوی معنی مصباح اللغات میں ہے کسی چیز کو پھاڑنا اس میں شگاف ڈالنا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس لفظ کے صحیح مفہوم کے متعلق تردد تھا لہٰذا میں اس کی کوشش میں تھا کہ کسی طرح اس لفظ کا صحیح صحیح مطلب سمجھ میں آجائے۔ اس زمانے میں دیہاتی عربی کو معیاری زبان سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے رو سائے عرب اپنے بچوں کی ابتدائی پرورش دیہات میں کرنا پسند کرتے تھے۔ تو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دو عرب بدویوں کو آپ میں جھگڑا کرتے ہوئے پایا، ان کے درمیان کنوئیں کی ملکیت کا جھگڑا تھا ایک شخص دوسرے سے کہنے لگا کہ تم اس کنوئیں کی ملکیت کا دعویٰ کیسے کرتے ہو۔ حالانکہ ” أنا فطرتها “ اس کو تو میں نے کھودا تھا یعنی زمین میں شگاف ڈال کر میں نے ہی تو یہ کنواں تیار کیا تھا اب تم میرے مقابلے میں کس طرح دعویدار بنتے ہو۔
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بدویوں کی اس گفتگو سے مجھے ” فاطر “ کا معنی سمجھ آگیا کہ اس سے مراد کسی چیز کی ابتدا کرنا ہے جبکہ اس سے پہلے اس چیز کا وجود نہ ہو۔ (قرطبی : ص : ٢٨٠، ج : ١٤، ابن کثیر : ص : ٩٠١، ج : ٦)
آسمان وزمين كى تخليق
جیسے جیسے ہم اوپر نیچے دیکھتے ہیں اللہ کی کاریگری کے بیشمار عجوبے نظر آتے ہیں۔ آسمان کو دیکھیں تو بہترین اور عجیب، زمین کو دیکھیں تو وہ بھی بہترین اور عجیب۔ یہ کب پیدا ہوئے ؟ کیسے بنے ؟ اور کس نے بنائے ؟ قرآن پاک ان تمام سوالوں کا جواب مختصراً دیتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ نے اپنی قدرت سے انسان کے لیے اور باقی تمام مخلوقات کے لیے بنائے ہیں کیونکہ وہ ہر چیز، ہر بات، ہر وقت اور ہر زمانے پر پوری قدرت رکھتا ہے اس لیے یہ سب بنانے کے لیے اس نے بغیر کسی کی مدد بغیر نقشے اور بغیر مادے کے صرف یہ فرمایا ” کن “ ” ہوجا “۔ ” فیکون “” اور وہ ہوگیا “۔ اب سائنس دان اور cosmology کے ماہر اس جستجو میں اٹھ کھڑے ہوئے کہ یہ کیسے ہوا ؟ بہت محنت کے بعد جدید دور میں پہلی مرتبہ یہ کہا گیا کہ ” آج سے تقریباً دس سے بیس ارب سال قبل ایک خاص قسم کے دھماکے سے وجود میں آئی جسے big Bang کہا جاتا ہے “۔ یہ اعداد و شمار ڈاکٹر دلدار احمد قادری کی کتاب سے لیے گئے ہیں۔ لکھتے ہیں:
” Big Bang کے بعدسکینڈ (ایک سکینڈ کا ہزارواں حصہ) سے قبل کائنات بلند توانائی کی روشنی میں مشتمل تھی۔ اس کا درجہ حرارت 1012 کیلون سے زیادہ اور کثافت (Density) 5×1013 گرام فی مکعب سینٹی میٹر تھی۔ یہ روشنی بہت چھوٹی طول موج کی گا ما شعاعوں پر مبنی خیال کی جاتی ہے۔ جس کی توانائی بہت زیادہ خیال کی جاتی ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم کائنات کی تاریخ صفر وقت سے یعنی جب کائنات کا آغاز ہوا شروع نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے سائنسی قوانین اس صورت حال کو جو اس وقت تھی بیان نہیں کرسکتے “۔ (از کائنات قرآن اور سائنس صفحہ :43)
”اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ“ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پر والے بازو عطا فرمائے جن سے وہ اڑ سکتے ہیں۔ حکمت اس کی ظاہر ہے کہ وہ آسمان سے زمین تک مسافت باربار طے کرتے ہیں یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ان کو سرعت سپر قوت عطا کی جائے۔ اور وہ اڑنے کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے۔ اور لفظ ” مثنی وثلث وربع “ ظاہر یہ ہے کہ ” اجنحۃ “ کی صفت ہے کہ فرشتوں کے پر مختلف تعداد پر مشتمل ہیں۔ بعض کے صرف دو دو پر ہیں بعض کے تین تین بعض کے چار چار اور اس میں کوئی حصر نہیں جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے چھ سو پر ہونا ثابت ہوتے ہیں۔ بطور تمثیل کے چار تک ذکر کردیا ہے۔ (قرطبی : ص : ٢٨٠، ج : ١٤، ابن کثیر : ص : ٩٠١، ج : ٦)
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ ”مثنی وثلث“ ”رسلاً “ کی صفت ہو۔ یعنی یہ فرشتہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامات دنیا میں پہنچاتے ہیں کبھی دو آتے ہیں کبھی تین تین یا چار چار اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی چار کا عدد حصر کے لیے نہیں۔ محض تمثیل کے طور پر ہے۔ (بحر محیط : ص : ٢٩٩، ج : ٧)
یزید في الخلق ما یشاء : یہ الفاظ توجہ طلب ہیں اس کا بظاہر معنی تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے پروں میں حسب منشاء اضافہ بھی کرتا ہے۔ تاہم مفسرین میں اس کے عمومی معنی بھی لیتے ہیں فرماتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی تخلیق میں اضافہ بھی مراد ہوسکتا ہے مثلاً انسان کو اللہ تعالیٰ نے تمام اعضاء عطا فرمائے جو عام طور پر عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مگر بعض لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ اضافہ بھی فرما دیتا ہے۔ کسی کو حسن عطا کیا۔ اس کی آنکھوں، کانوں اور ناک کو موزوں انداز میں بنادیا کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ حسین نظر آتا ہے کسی کو حسن صوت دی کسی کو اضافی عقل و ذہانت عطا کردی وغیرہ ۔ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دال اور انعامات ہیں۔ (مثلاً کشاف : ص : ٢٩٦،ج : ٣، خازن : ص : ٢٩٧، مظہری : ص: ٤١، ج : ٨، تفسیر بحر محیط : ص : ٢٩٩،ج : ٧)
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا ۭ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ڮ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ
امام عبدالرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ لکھتے ہیں :
ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے اس آیت کے متعلق سوال کیا گیا کہ اس آیت میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے آیا وہ ہم میں سے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو معلوم ہوتا تھا کہ فلاں کام حرام ہے اس کے باوجود وہ اس کام کو کرتے تھے، ان کو معلوم تھا کہ زنا حرام ہے اور بےقصور شخص کو قتل کرنا حرام ہے پھر بھی وہ ان کاموں کو کرتے تھے، یہ لوگ یہود، نصاریٰ اور مجسوس ہیں اور میرا گمان ہے کہ خوارج بھی ان ہی میں سے ہیں، کیونکہ خارجیوں نے تمام اہل بصرہ کے خلاف اپنی تلوار سے خروج کیا اور وہ مسلمانوں کے قتل کرنے کو جائز سمجھتے تھے اور اگر ان کے دین میں یہ مطولب نہ ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :17931)
(١) ابوقلابہ نے کہا اس سے مراد یہود، نصاریٰ اور مجسوس ہیں، اور برے اعمال سیم راد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عناد رکھنا ہے۔
(٢) عمر بن القاسم نے کہا اس سے مراد خوارج ہیں اور برے عمل سے مراد باطل تاویل اور تحریف ہے۔
(٣) حسن بصری نے کہا اس سے مراد شیطان ہے اور برے اعمال سے مراد اس کا بہکانا اور گم راہ کرنا ہے۔
(٤) کلبی نے کہا اس سے مراد کفار قریش ہیں اور برے عمل سے مراد ان کا شرک کرنا ہے، اس نے کہا یہ آیت العاص بن وائل السہمی اور الاسود بن المطلب کے متعلق نازل ہوئی ہے، اور دوسروں نے کہا یہ آیت ابوجہل بن ہشام کے متعلق نازل ہوئی ہے۔
علامہ قرطی فرماتے ہیں زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ اس سے مراد کفار قریش ہیں کیونکہ اس مضمون کی زیادہ تر آیات کفار قریش کے متعلق نازل ہوئی ہیں جیسا کہ حسب ذیل آیات سے ظاہر ہے۔
(البقرہ :272) ان کو ہدایت یافتہ بنانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے ہدایت پیدا فرما دیتا ہے۔
(آل عمران :176) کفر میں جلدی کرنے والے لوگ آپ کو غم گین نہ کریں، یہ اللہ کو بالکل ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ان کے لیے اجر آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
(الکہف : ٦) اگر یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہ لائے تو لگتا ہے کہ آپ ان کے پیچھے غم سے اپنی جان دے دیں گے۔ اور اسی مضمون کی آیت یہاں ہے، لہٰذا آپ کا دل ان پر حسرت زدہ نہ ہو۔
بنجر زمین کی زرخیزی سے حشر و نشر پر استدلال
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمایا : اور اللہ ہواؤں کو بھیجتا ہے سو وہ بادل کو اٹھا لاتی ہیں، پھر ہم اس بادل کو مردہ شہر کی طرف لے جاتے ہیں سو زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو اس بادل سے زندہ کردیتے ہیں۔ (فاطر : ٩)
قرآن مجید میں حشر و نشر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر اس سے بہت استدلال فرمایا ہے کہ زمین مردہ اور بنجر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بارش نازل فرما کر اس مردہ اور بنجر زمین کو زندہ اور سرسبز بنا دیتا ہے۔ فرمایا :
(الحج : ٥) تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے، پھر جب ہم اس پر بارش نازل فرماتے ہیں تو وہ پھلتی پھولتی ہے اور ہر قسم کا خوش نما سبزہ اگاتی ہے۔
یعنی زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے اور بارش کے بعد کس طرح زرخیز اور شاداب ہوجاتی ہے اور طرح طرح کے غلے اور سبزیاں اگانے لگتی ہے، باغات میں ہرقسم کے پھل اور میوے پیدا ہوتے ہیں اور طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں، تو جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اسی طرح قیامت کے دن بھی وہ مردہ انسانوں کو زندہ کر دے گا۔
ابو زرین اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ مردوں کو سک طرح زندہ کرے گا، آپ نے فرمایا : کیا کبھی تم ایسیو ادی کے پاس سے نہیں گزرے جو پہلے بنجر اور خشک ہو اور دوبارہ اس کے پاس سے گزرے تو وہ سرسبز اور لہلہا رہی ہو۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١ طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :16137 دارالحدیث قاہرہ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عجب الذنب کے سوا انسان کا پورا جسم بوسیدہ ہوجاتا ہے اسی سے اس کا جسم (دوبارہ) بنایا جائے گا (پورے جسم کے بوسیدہ ہونے سے انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام مستثنیٰ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر ان کے اجسام حرام کردیئے ہیں۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث :4814)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان کی ایک ہڈی ایسی ہے جس کو زمین کبھی نہیں کھاتی قیامت کے دن انسان اسی میں بنایا جائے گا، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کون سی ہے ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ عجب الذنب ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث بلاتکرار :2955 الرقم المسلسل :7280)
عجب الذنب کی تحقیق
عجب الذنب میں عجب کی عین پر زبر اور ج پر جزم ہے اور ذنب میں ذ اور ن پر زبر ہے، عجب کے معنی ہے ہر چیز کا پچھلا حصہ، دم کی جڑ، ذنب کا معنی بھی دم ہے۔ (المنجد)
علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں :
کمر کے نچلے حصے میں جو باریک ہڈی ہوتی ہے اس کو العسعس اور عجب الذنب کہتے ہیں، انسان میں سبے سے پہلے اسی ہڈی کو پیدا کیا جاتا ہے، اور اسی ہڈی کو باقی رکھا جاتا ہے تاکہ اسی سے انسان کا دوبارہ جسم بنایا جائے۔ (شرح نواوی مع صحیح مسلم ج ١١ ص 7226 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1417 ھ)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :
عجب الذنب وہ لطیف ہڈی جو دم کے سب سے نچلے حصے میں ہوتی ہے، امام ابن ابی الدنیا نے کتاب البعث میں حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے، آپ سے پوچھا گیا، یا رسول اللہ عجب کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ رائی کے دانہ کی مثل ہے، آدمی کے جس جز کی سب سے پہلے تخلیق کی جاتی ہے وہ یہی جز ہے، اور اسی جز کو باقی رکھا جاتا ہے تاکہ اسی سے انسان کا دوبارہ جسم بنایا جائے، اس جز کو باقی رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ فرشتے پہچان سکیں کہ اس جز میں فلاں انسان کی روح داخل کرنی ہے، جس طرح حضرت عزیز (علیہ السلام) کے گدھے کی ہڈیوں کو باقی رکھا گیا تھا، اگر فرشتوں کے لیے اس جز کو باقی نہ رکھا جاتا تو پھر بعینہ اسی جسم میں روح داخل نہ ہوتی بلکہ اس کی مثل میں داخل ہوتی۔ اسی جزکو باقی رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اسی جز کی تخلیق ہوئی تھی، اور وہ جو بعض روایات میں ہے کہ حضرت آدم کے سر کی سب سے پہلے تخلیق کی گئی تھی اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حضرت آدم کی خصوصیت ہے ان کی اولاد کے اسی جز کی سب سے پہلے تخلیق کی گئی تھی۔ (عمد ١ القاری ج ١٩ ص 209، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1422 ھ)
وَاللّٰهُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ
اللہ کی قدرتیں اور اس کا نظام
ان آیات میں اللہ کی بڑائی، طاقت اور عظمت کو دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے سب سے پہلے ہواؤں کا ذکر ہے۔ ہوا ہر قسم کی مخلوقات کے لیے بےحد ضروری ہے۔ کیا حیوانات، نباتات یا جمادات ہوں سب کی بقاء (زندگی) کے لیے ہوا اتنی ہی ضروری ہے جنتی کہ پانی، خوراک اور روشنی ہے۔ ہوا کے ذریعے پانی کا بندوسبت ہوتا ہے جو مردہ اور خشک زمین کو دوبارہ زندہ کردیتا ہے۔ زمین سر سبز ہوجاتی ہے اور انسان و حیوان کے لیے چارہ اور خوراک اگنے لگتا ہے۔
اب ہواؤں کے عمل کو ذرا وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ سورج کی کرنیں ہر اس جگہ سے پانی بھاپ بنا کر اوپر اڑانے لگتی ہیں۔ یہ بھاپ اتنی بلندی پر چلی جاتی ہے جہاں وہ بادلوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے اب ہواؤں کا کام شروع ہوتا ہے۔ وہ ان بادلوں کو اڑا کر دور دراز علاقوں میں لے جاتے ہیں جہاں بادل اللہ کے حکم سے اپنا کام مکمل ہونے پر برس پڑتے ہیں اور یوں دنیا کے مختلف حصوں کو سیراب کردیتے ہیں۔
یہ پانی دوبارہ بھاپ کے عمل کے لیے یا تو زمین میں جذب ہوجاتا ہے یا ندی نالے اور چشموں کو بھر دیتا ہے یا پھر سمندر میں جا گرتا ہے۔ سطح زمین کا 70 فیصد حصہ سمندروں سے ڈھکا ہوا ہے۔ لہٰذا بھاپ، ہوا اور بادل کا عمل پھر سے شروع ہوجاتا ہے اور وقفہ وقفہ سے ضرورت کے مطابق انسان کو پانی کی سپلائی مستقل ہوتی رہتی ہے۔ یہ پانی کی سپلائی خالصتاً اللہ جل شانہ، کے ہی ہاتھ میں ہے۔ موجودہ دور میں جو انسان مصنوعی بارش کی کوشش کر رہا ہے تو اس کے بارے میں فرانسیسی دفتر موسمیات کے ایک ماہر ایم اے فارسی نے بارش کے عنوان کے تحت انسائیکلوپیڈیا اونی ور سالیس میں حسب ذیل بیان دیا ہے جس کو مورس بوکائے صاحب نے یوں لکھا ہے۔ ” یہ بات کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکے گی کہ کسی ایسے بادل سے جس نے ابرمیر (برسنے والے بادل) کی مناسب خصوصیات حاصل نہ کرلی ہوں یا ابھی ارتقاء کے مناسب مرحلہ پر نہ پہنچ گئے ہوں بارش برسائیـ جاسکے۔ “ (از بائبل قرآن اور سائنس)
لہٰذا اللہ کے اس طے شدہ پروگرام میں دخل اندازی مشکل کام ہے مہنگا اور پھر کچھ تکلیف دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ دنیا کے اتنے دور دراز علاقوں میں جہاں دریا، ندی نالے یا پانی پہنچانے کا کوئی اور وسیلہ نہیں وہاں سوائے اللہ کے بنائے ہوئے نظام، بادل اور ہواؤں کے اور کیا ذریعہ ہوسکتا ہے ؟ بیشمار زمین بارانی ہے جہاں صرف بارش کے پانی سے ہی ذراعت کا کام چلتا ہے۔ سبحان اللہ واقعی اللہ کی شان اور قدرتیں لاجواب ہیں۔
اب یہاں سے ایک نکتہ اور بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہوجانے پر شک و شبہ کرتے ہیں ان کو زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوجانے کو دیکھ کر سمجھ لینا چاہیے کہ اسی طرح انسان بھی اللہ کے حکم سے دوبارہ ضرور زندہ ہوگا۔
ہلوک نور باقی صاحب اپنی کتاب میں اسی کی وضاحت سائنسی نکتہ نظر سے یوں کرتے ہیں : ” ہمارا دوبارہ زندہ ہونا اللہ کے حکم کے مطابق ہمارے زندگی کے قوانین code کی مثل ہے۔ جو زمین میں باقی رہتے ہیں۔ یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ جس طرح بارش ایک مردہ زمین سے نامیاتی کوڈ کو بروئے کار لاتی ہے (زمین کے اندر چھپے ہوئے مردہ اجسام) اور فوراً زندگی جلا پاتی ہے (مردہ اجسام زندہ ہوجاتے ہیں) جو زمین کے اندر پڑے ہوتے ہیں، بارش سے زندہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے حکم یا مرضی سے انسانی کوڈ بھی ایک کمپیوٹر کی رفتار سے دوبارہ زندہ ہوجائے گا کہ ” زندہ ہوجاؤ اٹھو “۔ جس طرح اللہ بارش کی معرفت زیر زمین زندگی کو جلا (زندگی) دیتا ہے اسی طرح وہ جب چاہے گا ہمیں دوبارہ زندگی دے دے گا۔ سیدناآدم (علیہ السلام) کے وقت سے تقریباً دس ارب انسان دنیا میں رہ چکے ہیں ہر انسان کا کوڈ ایک مائیکرون (سائز میں ایک میٹر کا دس لاکھواں حصہ) کے برابر ہے۔ اگر ان تمام کوڈ کو اکٹھا کیا جائے تو یہ ایک گلاس کو بھی نہ بھر سکیں اگر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے تولیدی کوڈ Genetic code زمین میں بکھیر کر حکم دیں ” بن جاؤ “ تو تمام انسان آنکھ چھپکتے ہی پیدا ہوجائیں۔ “ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق)
یہ مضمون گزشتہ اسباق میں بھی دیا جا چکا ہے۔ دوبارہ اس لیے دیا جا رہا ہے کیونکہ کفار ملحد اور غیر مسلم اس بات کو ہرگز ماننے کے لیے تیار نہیں تو ان کے لیے دہرایا جا رہا ہے۔ اور زمین کی تشبیہ سائنسی قانون کے تحت دی جا رہی ہے کہ جس طرح پانی سے مردہ اور خشک زمین میں ہرا بھرا ہونے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ کے لیے انسان کے حیاتیاتی تولیدی کوڈ (Biological Genetic Code) کو دوبارہ زندہ کردینا کوئی مشکل بات نہیں۔ کیا یہ اللہ کی عظمت کا ایک بہترین نمونہ نہیں ہے ؟ پھر انسان کو عزت و قار اور کامیابیاں حاصل کرنے کا بہترین راستہ بتایا گیا ہے کہ تمام عزت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی سے مانگو، نیک عمل کرو، اللہ کے بندوں کی مدد کرتے رہو، اچھی باتیں، نیک نیت اور خلوص کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لو تو یہ سب راستے تمہیں اللہ کے ہاں مقبول بنانے والے ہیں اور یوں اللہ تبارک تعالیٰ تمہیں نہ صرف دنیا میں ہی بلکہ آخرت میں بھی شاندار عزت بہترین مقام اور کامیابیاں عطاء کرے گا۔ شیطان اور دشمن کی چالیں اللہ کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ اللہ اس قدر رحیم و کریم ہے قدرت، والا ہے کہ اس نے پہلے تو تمہیں مٹی سے بنایا جیسا کہ سورة البقرہ میں اور کئی سورتوں میں بتایا جا چکا ہے پھر نطفہ سے بنایا۔ اس تولیدی نظام کے لیے جوڑے بنائے مثلاً عورت مرد اسی طرح تمام حیوانات اور نباتات میں تولیدی نظام یعنی پیدائش کا نظام جوڑوں کے ذریعے ہی مکمل کیا گیا ہے۔ اللہ کی وحدانیت کا یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ وہ واحد ہے اور دنیا و آسمان میں کوئی چیز اس لحاظ سے اس کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی۔ ہر چیز جوڑوں کی صورت میں وجود رکھتی ہے یعنی گو کہ ہر چیز بنیادی طور پر آپس میں مشابہت رکھتی ہے مگر اکیلی نہیں بلکہ اس کی بقاء دو میں ہے۔ مثلاً مرد عورت، نرمی سختی، گرمی سردی، یعنی دو چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہونے کے باوجود اپنی خاصیت اور اثر کے لحاظ سے ایک دوسرے کی مخالف ہوسکتی ہیں۔ یہ جوڑوں کا تصور طبیعیات میں بنیادی اصول ہے کیونکہ کائنات میں ہر ذرے کا ایک برقی بار (charge) اور چکر (Spin) ہوتا ہے۔ جب ایک جو ہر بنتا ہے تو اس کا مخالف جڑواں (Opposite Twin) بھی بن جاتا ہے۔ جو ثابت کرتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں میں بنتی ہے۔ یہ بحث کافی طویل ہے انشاء اللہ آئندہ اس پر مفصل بات کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بیان کرنا پوری طرح سے بہت مشکل کام ہے۔ مگر اس علی ّالعظیم نے ہر بندے بشر کے بارے میں اپنے پاس لکھ رکھا ہے۔ یہ بات بڑی مشکل ہے کیونکہ انسان تو اپنے آباو اجداد کو بھی پچھلی نسلوں تک نہیں جانتا مگر اللہ علیم و حکیم کے لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں کہ ہر پیدا ہونے والے، ہر زندگی بسر کرنے والے اور ہر مرجانے والے کا علیحدہ علیحدہ حساب اس نے اپنے پاس لکھ کر رکھا ہے جس میں کسی غلطی کا امکان نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ ہی پیدا کرتی ہے مگر اس (اللہ) کے علم میں ہے۔ اور نہ کسی بڑی عمر والے کو زیادہ عمر دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے، مگر سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ بیشک یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔ اللہ اکبر، اللہ الصمد مذکورہ آیات میں اللہ کی کبریائی، وحدانیت اور عظمت کے ثبوت میں یہ سب بیان کیا گیا ہے یعنی :
١۔ ہواؤں کا چلنا۔ ٢۔ بادلوں کا بننا۔ ٣۔ زمین کا دوبارہ زندہ ہوجانا۔
٤۔ اسی طرح انسان کا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوجانا۔
٥۔ انسان کی پیدائش مٹی سے کی اور پھر نطفہ سے۔
٦۔ ہر چیز جوڑوں میں پیدا کی گئیـ کیونکہ واحد صرف اللہ کی ذات ہے۔
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا ۭاِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ ۭ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّـيِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۭ وَمَكْرُ اُولٰۗىِٕكَ هُوَ يَبُوْرُ
الکلم الطیب کی تفسیر میں متعدد اقوال
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوری المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں :
الکلم الطیب کی تفسیر میں دو قول ہیں، یحییٰ بن سلام نے کہا اس سے مراد کلمہ توحید ہے یعنی لا الہ الا اللہ، اور نقاش نے کہا اس سے مراد نیک مومنوں کی، کی ہوئی اللہ تعالیٰ کی ثناء ہے جس کو لے کر ملائکہ مقربین چڑھتے ہیں۔ (النکت و الیعون ج ٤ ص 426، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
مخارق بن سلیم نے کہا، ہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو اس کی تصدیق میں تمہارے سامنے کتاب اللہ کو پیش کرتے ہیں، جب مسلمان بندہ یہ کہتا ہے : سبحان اللہ وبحمدہ، الحمد للہ لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، تبارک اللہ تو فرشتہ ان کلمات کو لے کر اپنے پروں کے نیچے رکھ لیتا ہے، پھر ان کلمات کو لے کر آسمان کی طرف چڑھتا ہے، وہ ان کلمات کو لے کر فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ فرشتے ان کلمات کے پھڑنے والے کے لیے استغفار کرتے ہیں، حتیٰ کہ اللہ کے سامنے ان کلمات کو پیش کرتے ہیں، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کو پڑھا :
الیہ یصعد الکلم الطیب (فاطر : ١٠) پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث :22123)
علامہ زمخشری نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا الکلم الطیب سے مراد ہے لا الہ الا اللہ۔ (الکشاف ج ٣ ص ٦١١)
لا الہ الا اللہ کو طیب فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ قعل سلیم اس کلمہ کو پاکیزہ قرار دیتی ہے اور اس سے محظوظ ہوتی ہے، کیونکہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرتا ہے اور توحید کے ماننے پر ہی نجات کا مدار ہے اور توحید پر ایمان لانا ہی جنت کی دائمی نعمتوں کے لیے وسیلہ ہے، یا اس کلمہ کو طیب فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ شریعت میں یہ پسندیدہ کلمہ ہے اور ملائکہ (علیہم السلام) اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ الکلم الطیب سے مراد قرآن مجید ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ الکلم الطیب سے مراد نیک مسلمانوں کی تعریف اور تحسین ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ایسی دعا ہے جس میں شرعی حدود سے تجاوز نہ ہو، اور مختار قول یہ ہے کہ الکلم الطیب سے مراد ہر وہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل ہو یا ہر وہ کلام ہے جس میں اللہ کے لیے وعظ اور نصیحت ہو۔
ايك قول يہ ہے كہ پاکیزہ کلمات میں ذکر اللہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور تلاوت قرآن مجید اور تسبیح و تہلیل اور تحمید و تمجید داخل ہیں۔ اور اچھے اعمال کیا ہیں ؟ اس میں سب سے پہلے فرائض آتے ہیں یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج پھر واجبات، سنن اور مستحبات ، جہاد قربانی صدقات وغیرہ سب اچھے اعمال ہیں ” یرفعہ “ کی ” ہ “ ضمیر کے بارے میں دو قول ہیں۔ (١) :۔ کلمہ کی طرف لوٹتی ہے یعنی نیک عمل کلمہ طیبہ کو بلندی پر لے جانا ہے۔ (ابن کثیر : ص : ٩٠٦، ج : ٦)
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ کہ ”ہ“ ضمیر عمل صالح کی طرف لوٹتی ہے اور معنی یہ بنتا ہے کہ کلمہ طیبہ نیک عمل کو مزید بلندی تک پہنچاتا ہے۔ (مظہری : ص : ٤٧، ج : ٨)
والذین یمکرون۔۔ الخ جیسے قریش نے ” دارالندوہ “ میں بیٹھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید کرنے یا قتل کرنے یا وطن سے نکالنے کے لیے مشورہ کر رہے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ” جنگ بدر “ کے موقع پر خود ہی وطن سے نکل کر مسلمانوں کے ہاتھوں کلیب بدر میں ہمیشہ کے لیے قید ہوگئے۔
وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا ۭ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْـثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ ۭ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖٓ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ
وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الا فی کتب: اس آیت کا مفہوم جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو عمر طویل عطا فرماتے ہیں وہ پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح جس کی عمر کم رکھی جاتی ہے وہ بھی سب لوح محفوظ میں پہلے ہی درج ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہاں عمر کے طول اور نقص کا ذکر فرد واحد کے متعلق نہیں بلکہ تمام انسانوں کے متعلق ہے کہ کسی کو لمبی عمر دی جاتی ہے اور کسی کو کم۔ (ابن کثیر : ص : ٩٠٧ ، ج : ٦، از ابن عباس (رض)
تمام تفاسیر میں اس کو جمہور کا قول قرار دیا ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ عمر کی کمی زیادتی کو ایک ہی شخص کے متعلق کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی عمر جو اللہ نے لکھ دی وہ یقینی ہے۔ اور جو دن گزرتا ہے اس مقررہ مدت عمر میں سے ایک دن کی کمی کردیتا ہے۔ دو دن گزرتے ہیں تو دو دن کم ہوجاتے ہیں اسی طرح ہر دن بلکہ ہر سانس اس کی عمر کو کم کرتا رہتا ہے۔ (روح المعانی : ص : ٤٧٩،ج : ٢٢)
سوال: ایک حدیث کا مفہوم ہے جو شخص چاہے کہ اس کے رزق اور عمر میں وسعت اور زیادتی ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے، بظاہر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صلہ رحمہ سے عمر بڑھ جاتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن ابی حاتم نے حضرت ابو درداء (رض) سے روایت کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عمر تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ہی مقرر اور مقدار ہے جب مدت پوری ہوجاتی ہے تو کسی شخص کو ذرا بھی مہلت نہیں دی جاتی، اور زیادہ عمر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اولاد صالح عطا فرما دیتا ہے، وہ اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں اس کو قبر میں اس کا فائدہ پہنچتا رہتا ہے اسی طرح گویا کہ اس کی عمر بڑھ گئی یہ دونوں روایات ابن کثیر نے نقل کی ہیں خلاصہ یہ ہے کہ جن احادیث میں بعض اعمال کے متعلق یہ آیا ہے کہ ان سے عمر بڑھ جاتی ہے۔ اس سے مراد عمر کی برکت کا بڑھ جاتا ہے۔ (معارف القرآن)
وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرٰنِ ڰ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَاۗىِٕــغٌ شَرَابُهٗ وَھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۭ وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحـْـمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
غور کرو کہ پانی کے دو طرح کے ذخائر پائے جاتے ہیں ایک وہ ذخیرہ ہے جو ٹھنڈا اور میٹھا ہے اور ایک وہ ہے جو کھاری اور کڑوا ہے اور دونوں ذخائر کا ملاحظہ زمین کے اندر بھی کیا جاسکتا ہے او سمندر کے اندر بھی۔ زمین کے اندر کی مثال ہمارے ان ہینڈ پمپز Hend Pumps سے دی جاسکتی ہے کہ ایک جگہ نل لگایا تو پانی کھاری اور کڑوا نکل آیا اور قریب ہی دوسری جگہ لگایا تو پانی میٹھا اور ٹھنڈا دستیاب ہوگیا حالانکہ دونوں کی گہرائی ایک ہی ہے اس میں بھی کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی اور سمندر میں دونوں طرح کے پانی مشاہدہ کیے جاچکے ہیں جو دور تک ساتھ ساتھ چلنے کے باوجود ایک دوسرے میں نہیں ملتے حالانکہ ان دونوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے بلکہ ان کے اندر کی خاصیت ان کو آپس میں ملنے نہیں دیتی۔ اور یہ بات تو عام ہے کہ آدمی اس پانی کو پی سکتا ہے جو ٹھنڈا ہونے کے ساتھ میٹھا بھی ہے اور کڑوا اور کھاری حلق سے کب اترتا ہے ۔
اسى طرح دو سمندر ہیں اور دونوں اپنی ظاہری خصوصیات وصفات میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک کا پانی شیریں، پیاس بجھانے والا اور خوشگوار ہے، دوسرے کا کھاری، کڑوا۔ یہ دونوں آپس میں ٹکراتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ کھاری سمندر میٹھے سمندر پر غالب ہو کر اس کو کھاری بنادے یا شیریں سمندر کھاری کے مزاج کو بدل دے بلکہ ایک بالاتر قوت نے ان دونوں کو ٹکرانے کے باوجود ان کے حدود کا پابند کر رکھا ہے۔ سورة رحمان میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ مرج البحرین یلتقیان بینھما برزخ لا یبغیان (الرحمن : ١٩۔ ٢٠) (اس نے چھوڑے دو دریا، دونوں باہم دگر ٹکراتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان ایک اوٹ ہوتی ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے) ۔
پھر یہ دیکھو کہ کس طرح یہ اپنے تضاد و اختلاف کے باوجود اپنے سے بالاتر مقصد کی خدمت بجا لاتے ہیں کہ تم دونوں ہی سے اپنے لمبے لمبے بحری سفروں میں جہاں تازہ گوشت حاصل کرنا ناممکن ہوتا، ان سے تازہ گوشت حاصل کرلیتے ہو اور غذا کے ساتھ اپنی زینت کے لیے ان سے قیمتی موتی بھی نکالتے ہو۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ ہی تمہارے لیے اس طرح مسخر ہیں کہ تمہارے جہازات ان کے سینے پر سے موجوں کو پھاڑتے ہوئے چلتے ہیں تاکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرکے تم اللہ کے رزق و فضل کے طالب بنو اور اس کے شکر گزار رہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کے ظاہری تضاد میں گم ہو کے نہ رہ جائے بلکہ ان ضداد کے باہمی تو افق پر بھی نگاہ ڈالو تو یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ ایک ہی خدائے قادر وقیوم نے اس دنیا کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اپنی قدرت و حکمت سے اس کے تمام اجزائے مختلفہ کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے تاکہ انسان اپنے پروردگار کا شکر گزار رہے۔
يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ
من قطمیر محاورہ عرب میں اس کے وہی معنی ہیں۔ جو ہماری زبان میں ”ذرہ بھر“ ”رتی برابر“۔ کے ہوتے ہیں۔ (آیت) ”یولج ۔۔ القمر“ یہ روز روشن اور یہ شب تار، یہ گرم آفتاب اور یہ خنک ماہتاب قدرت کے اتنے بڑے بڑے عظیم الشان مظاہر، ان میں سے کون اپنی جگہ پر آزاد وخود مختار ہے ؟ سب کے سب اللہ ہی کی مشیت تکوینی کی زنجیروں میں جکرے ہوئے ہیں۔ مشرک جاہلی قوموں نے سورج اور چاند اور رات اور دن، سب کو معبود سمجھا ہے۔ ابتدائی پاروں میں اس پر بار بار حاشیے گزر چکے۔ قرآن مجید اس مصلحت و ضرورت سے بار بار ان چیزوں کے نام لے لے کر انھیں قدرت الہی کا مطیع ومسخر بتانا ہے۔ (آیت) ” کل ۔۔ مسمی “۔ ان میں سے کوئی بھی اس کے مقرر کیے ہوئے قاصدوں کی گرفت سے آزاد نہیں۔ آیت میں نظام شمسی کے حسن تنظیم سے استدلال ہے صانع کی توحید و حکمت پر۔ (آیت) ” ذلکم ۔۔ لہ الملک “۔ حکومت وقدرت تو اسی ایک کی ہے۔ جس کے یہ شواہد اور نمونے تم ہر وقت دیکھتے رہتے ہو۔ (آیت) ” والذین ۔۔ قطمیر “۔ پھر کیسی حماقت ہے کہ ایسوں کو پکارتے ہوج نہیں قدرت ایک شمہ بھر بھی حاصل نہیں۔ آیت میں دیوی دیوتاؤں کی بےبسی اور بےاختیاری دکھائی ہے۔ (آیت) ” یوم ۔۔ بشرککم “۔ مشرکوں سے خطاب ہے کہ اس کشف حقائق کے دن یہ تمہارے معبود خود ہی تمہاری ” عبادت “ سے تبری و انکار کرنے لگیں گے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد آیتوں میں آیا ہے۔ مثلا (آیت) ’ ’ کلا، سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضدا یا وکانوا بعبادتھم کفرین۔ یا ماکنتم ایانا تعبدون “۔
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۭ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭ وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ
وازرۃ: صفت ہے اس کا موصوف نفس محذوف ہے۔ اس کا مطلب ہے : لا تحمل نفس أثمة إثم نفس أخری (روح المعانی) یعنی کوئی گناہ گار جو پہلے ہی اپنے بار گناہ کے نیچے دبا چلا رہا ہے وہ کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ کیونکر اٹھا سکتا ہے۔ سورة عنکبوت کی آیت ہے : ولیحملن اثقالہم واثقالا مع اثقالہم کہ وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے علاوہ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ دو آیتیں متضاد ہیں۔ کیونکہ سورة عنکبوت میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفر اور باطل کے سرغنہ تھے۔ خود بھی گمراہ، بدکار اور مشرک تھے اور دوسروں کو بھی راہ حق سے بھٹکانا، انھیں گناہوں اور شرک میں مبتلا کرنا ان کا معمول تھا۔ ایسے لوگوں پر دوہرا بوجھ ہوگا، ایک اپنی بدکاریوں کا اور دوسرا ان سیہ کاریوں کا جن میں ان کے ورغلانے سے دوسرے لوگ مبتلا ہوئے۔ یعنی خود گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے دو بوجھ ان کی گردن پر ہوں گے ۔ گمراہ ہونا جس طرح ان کا فعل ہے اسی طرح لوگوں کو گمراہ کرنا بھی انھیں کا فعل ہے۔
مثقلة: بوجھ سے لدا ہوا یا لدی ہوئی۔ یہ لفظ مذکر مونث دونوں کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ (قرطبی) ألم یکن بطني لک وعاء؟ ألم یکن ثدي لک سقاء؟ ألم یکن حجري لک وطاء؟ فیقول: بلی یا أماہ: اے میرے بیٹے ! کیا میرا پیٹ تیرے لیے قرار گاہ نہ تھا، کیا میری چھاتیاں تیرے لیے مشکیزہ نہ تھیں، کیا میری گود تیرے لیے آرام کی جگہ نہ تھی ؟ وہ کہے گا ہاں میری اماں جان !
فتقول یا بني قد أثقلتني ذنوبي فاحمل عني منھا ذنبا واحدا. فیقول: إلیک عني یا أماہ فإني بذنبي عنک مشغول. (قرطبی) پھر وہ کہے گی میرے بیٹے، میرے گناہوں نے میری کمر توڑ دی ہے پس اس انبار سے ایک گناہ تو اٹھالو۔ وہ کہے گا ماں ! دور ہٹ جا، میں اپنے گناہوں میں مشغول ہوں، میں تیری طرف توجہ نہیں کرسکتا۔اس آیت یا اس روایت سے مطلق شفاعت کا انکار کم فہمی یا تعصب کے سوا کچھ نہیں۔ شہید، حافظ قرآن بیٹا اپنے والدین کو بخشوائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام محمود پر فائز ہوں گے اور اپنی امت کے گنہگاروں کی بخشش کے لیے التجا کریں گے جو قبول ہوگی۔ اسی طرح دیگر انبیاء واولیاء اور علماء ربانیین اپنے اپنے درجہ کے مطابق شفاعت کریں گے۔
آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ ایسے لوگ جو خود گناہوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں گے ۔ جنہوں نے اپنی ساری عمر نافرمانی میں بسر کی ہوگی، جنہوں نے اس دنیا میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کا انکار کر کے اپنے آپ کو شفاعت محمدی سے محروم کردیا ہوگا یہاں ایسے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ نیز انبیاء واولیاء کی شفاعت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ گناہ گاروں کے گناہ اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیں گے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان کی بخشش کے لیے دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کی برکت سے ان کے گناہ معاف کر دے گا۔ اور گناہوں کا بوجھ سرے سے باقی ہی نہیں رہے گا۔
حضور نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ سب کو آنے والے عذاب سے ڈراتے تھے، سب غافلوں کو بروقت متنبہ فرماتے تھے، لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تنبیہہ سے فائدہ اٹھانے والے فقط یہی خوش نصیب تھے جن کا ذکر اس آیت میں کیا جا رہا ہے۔
جو شخص اپنے دامن کو گناہوں سے پاک رکھتا ہے۔ تقویٰ اور پارسائی کو اپنا شعار بناتا ہے کسی پر کوئی احسان نہیں کر رہا بلکہ اس میں سراسر اس کا اپنا بھلا ہے۔ اسی کے مراتب بلند ہوں گے اور اسی کو بارگاہ رب العزت میں شان رفیع بخشی جائے گی۔
وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع (رح) تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس آیت کے شروع میں کفار کی مثال مردوں سے اور مومنین کی زندوں سے دی گئی اسی مناسبت سے یہاں ”من فی القبور“ سے مراد کفار ہیں مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ان زندہ کافروں کو بھی نہیں سنا سکتے۔ اس آیت نے خود یہ بات واضح کردی کہ یہاں سنانے سے مراد وہ سنانا ہے جو مفید اور موثر اور نافع ہو۔ ورنہ مطلق سنانا تو کفار کو ہمیشہ ہوتا رہا۔ اور مشاہدہ میں بھی آتارہا کہ ان کو تبلیغ کرتے اور وہ سنتے تھے اس لیے مراد اس آیت کی یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو کلام حق سنا کر راہ حق پر نہیں لاسکتے۔ کیونکہ وہ دنیا کے دارالعمل سے آخرت کے دار الجزاء میں منتقل ہوچکے ہیں۔ وہاں اگر وہ ایمان کا اقرار بھی کرلیں تو معتبر نہیں اسی طرح کفار کا حال ہے اسی سے ثابت ہوا کہ مردوں کو سنانے کی جو نفی اس آیت میں کی گئی ہے اس سے مراد خاص اسماع نافع ہے جس کی وجہ سے سننے والا باطل کو چھوڑ کر حق پر آجائے اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ سماع موتی سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں۔
حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب فرماتے ہیں : وما یستوی الأحیاء المومنون ولا الأموات الکفار، إن الله یسمع من یشاء یھدي من یشاء، وما أنت بمسمع من في القبور أي الکفار. (انوار النبیان : ص : ٤٤٥)
ترجمہ : زندہ (مومن) اور مردے (کفار ) برابر نہیں بیشک اللہ تعالیٰ سناتے ہیں (ہدایت دیتے ہیں) جسے چاہیں اور آپ جو قبروں میں ہیں انھیں سنانے والے نہیں ہیں (کفار کو) ۔ اس میں صاف طور پر حضرت قاضی صاحب ” الاحیاء “ سے مراد مومنین اور مردوں سے کفار اور ” یسمع “ سے مراد ہدایت اور ” من فی القبور “ سے کفار مراد لے رہے ہیں۔ گویا کہ اس آیت کا سماع موتی یا عدم سماع موتی سے کوئی تعلق ہی نہیں اور یہ آیت ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء “۔ (بےشک آپ جس سے محبت رکھیں ہدایت نہیں دے سکتے اور لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے) کی طرح ہے۔ (بحوالہ ضرب المہند علی القول المسند : ص : ٣٨٣)
علامہ بغوی رحمۃ اللہ نے اس آیت کی تفسیر لکھی ہے قارئین کی خدمت میں انھیں کے الفاظ میں درج ہے:
{وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ} [فاطر: 22] يَعْنِي الْمُؤْمِنِينَ وَالْكُفَّارَ. وَقِيلَ: الْعُلَمَاءُ وَالْجُهَّالُ. {إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ} [فاطر: 22] حَتَّى يَتَّعِظَ وَيُجِيبَ، {وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ} [فاطر: 22] يَعْنِي الْكَفَّارَ شَبَّهَهُمْ بِالْأَمْوَاتِ فِي الْقُبُورِ حِينَ لَمَّ يُجِيبُوا. مختصر تفسير البغوي المسمى بمعالم التنزيل (5/ 777)
اس مقام پر مزید تسلی کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کریں انشاء اللہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کو بصیرت حاصل ہوگی : مولانا حسین علی کی تفسیر بلغۃ الحیران : ص : ٢٧٩:۔ تفسیر حقانی۔ ابن کثیر۔ قرطبی ۔ جواہر القرآن : ص : ٩٧٣: ج : ٣۔ ابن جریر طبری۔ حافظ ابن قیم کی کتاب الروح ۔ جلالین محلی۔ علامہ داؤد بن سلیمان الحنفی البغدادی کی المنحۃ الوحبیہ۔ المختصر الفتاویٰ ۔ تفسیر درمنثور۔ مظہری۔
نواب صدیق حسن خان صاحب کی تفسیر ترجمان القرآن وغیرہ۔ الغرض حضرات مفسرین کرام (رح) کی کوئی تفسیر بھی لے لیں، قدر مشترک سب اس پر متفق ہیں اس مضمون کی تمام آیات سے عدم سماع موتی ہرگز نہیں ہے جس کے درپے مولف شفاء الصدور وندائے حق اور ان کے حواری ہیں اور اس پر بضد ہیں۔ نفس سماع موتی فی الجملہ ثابت ہے صحیح احادیث اور جمہور امت کا بیان اس کی واضح دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تعصب اور غلو فی الدین سے بچائے اور اپنے اکابر کے دامن کے ساتھ وابستہ رکھے۔ (آمین)
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا ۭوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ
مشکل الفاظ کے معانی
”جدد“ بمعنی راہیں اور گھاٹیاں اس کا واحد ”جدۃ“ ہے ”غرابیت“ کا لے سیاہ ہیں۔ اس کا واحد ”غربیب“ ہے اور اس کے معنی کوے کی طرف بہت زیادہ سیاہ کے ہیں۔ (مفردات القرآن : ص : ٧٥١: ج : ٢)
سود کے معنی بھی سیاہ ہیں اور یہ غرابیب کی تاکیدی صفت ہے۔ جو چیز بہت سیاہ ہو عرب کہتے ہیں اس کا رنگ غراب (کوے) کی طرح ہے، حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ شیخ غربیب سے بغض فرماتا ہے، یعنی اس بوڑھے شخص سے جو بالوں کو سیاہ خضاب سے رنگتا ہو۔ (الکامل لابن عدی ج ٣ ص 1016، دارالفکر، الفردودس بما ثور الخطاب رقم الحدیث :560 جمع الجوامع رقم الحدیث :5548 الجامع الصغیر رقم الحدیث :1851 کنز العمال رقم الحدیث 7335 اس حدیث کی سند ضعیف ہے)
اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ
علامہ قرطبی (رح) فرماتے ہیں بندوں کے مختلف احوال ہیں خشیت الٰہی میں کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور کوئی نہیں ڈرتا۔ (تفسیر قرطبی : ص : ٢٩٩: ج : ١٤)
جن میں علم اور سمجھ کی کمی ہوتی ہے ان میں خوف خدا کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کو پیش نظر رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید اور صفات کو سمجھتے ہیں۔ اور آخرت کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں۔
مالک بن مغول روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبی سے پوچھا مجھے بتائیے کہ عالم کون ہے ؟ انھوں نے کہا عالم وہ جو اللہ کا خوف رکھتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :263، دارالمعرفہ بیروت، 1421 ھ)
حسن بیان کرتے ہیں کہ فقیہ (عالم) وہ ہے جو دنیا سے بےرغبتی کرے، آخرت میں رغبت کرے، اس کو اپنے دین پر بصیرت ہو اور اپنے رب کی عبادت پر دوام اور ہمیشگی کرتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :299)
سعد بن ابراہیم سے پوچھا گیا کہ اہل مدینہ میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :300)
مجاہد نے کہا فقیہ وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث :301)
حضرت ابن عباس (رض) نے یہ آیت پڑھی المایخشی اللہ من عبادہ العملاء پھر فرمایا عالم وہ شخص ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو۔
حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ علم کثرت روایات کا نام نہیں بلکہ علم ایک نور ہے جس کو اللہ تعالیٰ بندہ کے قلب پر ڈال دیتا ہے، امام مالک (رح) کی نور سے مراد نور فہم اور نور معرفت ہے، معلوم ہوا عالم وہ ہے جو عاقل ہو بغیر عقل اور فہم کے محض الفاظ قرآنی اور الفاظ نبوی کو یاد کرلینے کا نام علم نہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت شان اور جلالت قدر کو جانتا ہو، اور اس سے ڈرتا ہو اور اس کے احکام پر چلتا ہو، باقی جو شخص رسمی طور پر عالم اور فاضل کہلاتا ہو مگر خوف خدا نہیں رکھتا وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں، آیت میں خشیت سے خوف تعظیم مراد ہے۔ یعنی دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا خوف اس قدر غالب ہو کہ ہر وقت اس بات سے ڈرتا ہو کہ حقوق ربوبیت میں کوئی تقصیر نہ ہوجائے کہ بات خلاف ادب نہ سرزد ہوجائے۔ اور حدود و فرائض سے قدم باہر نہ ہوجائے۔ ” إنما یخشی الله من عبادہ العلمٰؤا “ میں حصر کی وجہ یہ ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور انبیاء سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں پس جس عالم میں خوف خداوندی نہ ہو وہ انبیاء کا وارث نہیں۔ اور آیت میں علماء سے وہی علماء مراد ہیں جو علم و عمل دونوں میں انبیاء کے وارث ہوں محض رسمی عالم مراد نہیں۔ (معارف القرآنحضرت کاندھلوی) ۔
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَ ابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ
یعنی پیغمبر کے بعد اس کتاب کا وارث اس امت کو بنایا جو بہمیت مجموعی تمام امتوں سے بہتر و برتر ہے۔ ہاں امت کے سب افراد یکساں نہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو باوجود ایمان صحیح کے گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں (یہ ” ظالم لنفسہ ” ہوئے) اور وہ بھی ہیں جو میانہ روی سے رہتے ہیں۔ نہ گناہوں میں منہمک، نہ بڑے بزرگ اور ولی۔ (انکو ” مقتصدا ” فرمایا) اور ایک وہ کامل بندے جو اللہ کے فضل و توفیق سے آگے بڑھ بڑھ کر نیکیاں سمیٹتے اور تحصیل کمال میں مقتصدین سے آگے نکل جاتے ہیں۔ وہ مستحب چیزوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اور گناہ کے خوف سے مکروہ تنزیہی بلکہ بعض مباحات تک سے پرہیز کرتے ہیں۔ اعلیٰ درجہ کی بزرگی اور فضیلت تو ان کو ہے۔ ویسے چنے ہوئے بندوں میں ایک حیثیت سے سب کو شمار کیا۔ کیونکہ درجہ بدرجہ بہشتی سب ہیں۔ گناہ گار بھی اگر مومن ہے تو بہرحال کسی نہ کسی وقت ضرور جنت میں جائے گا۔ حدیث میں فرمایا کہ ہمارا گناہ گار معاف ہے یعنی آخرکار معافی ملے گی۔ اور میانہ سلامت ہے اور آگے بڑھے۔ سو سب سے آگے بڑھے اللہ کریم ہے اس کے یہاں بخل نہیں۔ (تفسير عثمانى)
جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُــؤْلُــؤًا ۚ وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ
تینوں قسم کے مومنوں کا جنت میں داخل ہونا
تفسیر قرطی میں ہے: حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) اور ابودردا (رض) اور ابن مسعود (رض) اور عقبہ بن عمرو (رض) اور حضرت عائشہ (رض) سے یہی مروی ہے کہ ” یدخلونھا “ کی ضمیر انہی اقسام ثلاثہ کی طرف راجح ہے۔ یعنی ظالم، متقصد اور سابق بالخیرات کی طرف یہ تینوں گروہ بالاخر جنت میں داخل ہوں گے۔ (قرطبی : ص : ٣٠١، ج : ١٤)
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل جنت کے زیورات کا ذکر فرمایا : اور فرمایا ان کو سونے اور چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے جن میں موتی اور یاقوت جڑے ہوئے ہوں گے اور ان پر بادشاہوں کی طرح تاج ہوں گے ، ان کے چہرے بےریش ہوں گے اور ان کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی۔
اور وہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا اور جس عذاب کا ہمیں خوف تھا اس کو ہم سے دور رکھا، ہمیں دنیا کا غم اور آخرت کا خوف تھا۔
امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں پر نہ ان کی قبروں میں وحشت ہوگی اور نہ محشر میں اور گویا کہ میں لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کے ساتھ ہوں، وہ اپنے سروں سے گرد جھاڑتے ہوئے اٹھ رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔
امام طبرانی متوفی 360 ھ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لا الا الا اللہ پڑھنے والوں کو نہ موت کے وقت گھبراہٹ ہوگی، نہق ربوں میں نہ محشر میں، گویا کہ میں ان کو صور پھونکے جاتے وقت دیکھ رہا ہوں، وہ اپنے سروں سے گرد جھاڑتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن۔ (المعجم الاوسط ج ١٠ ص 216، رقم الحدیث :9474، مکتبہ المعارف ریاض، 1415 ھ) أذھب عنا الحزن. (المعجم الاوسط ج ١٠ ص 215، رقم الحدیث :9447، مکتبہ المعارف ریاض، 1415 ھ)
الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا نَصَبٌ وَّلَا يَمَسُّنَا فِيْهَا لُغُوْبٌ 35
”نصب“ کے معنی مشکل کام کرتے وقت جو مشقت انسان کو ہوتی ہے اور ”لغوب“ کہتے ہیں تھکاوٹ کو وہ کام کرنے کے بعد جب انسان فارغ ہوتا ہے محسوس ہوتی ہے جنت میں تو کوئی کام نہیں۔ اس آیت میں جنت کی چند خصوصیات کا بیان ہے جیسا کہ ابھی اوپر گذرا ہے۔ اول یہ ہے کہ وہ دارالمقامہ ہے اس کے ختم ہونے یا وہاں سے نکل جانے کا کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ وہاں کسی کو کوئی غم پیش نہیں آئے گا۔ تیسرا یہ ہے کہ وہاں کسی کو کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوگی۔ جیسے دنیا میں تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کی ضرورت محسوس کرتا ہے جنت اس سے پاک ہے
رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ
یعنی جب دوزخی جہنم میں یہ فریاد کریں گے کہ اے اللہ ہمیں عذاب سے نکال دے۔ ہم نیک عمل کریں گے اور پچھلی بداعمالیوں کو چھوڑ دیں گے۔ تو اس وقت یہ جواب دیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر مہلت نہیں دی تھی جس میں غور فکر کرنے والا غور و فکر کر کے صحیح راستہ پر آجاتا، حضرت علی (رض) نے فرمایا : جس عمر پر اللہ تعالیٰ نے گناہ گار بندوں کو عار دلائی ہے وہ ساٹھ سال ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت میں ساٹھ سال اور دوسری چالیس سال مروی ہے۔ (قرطبی : ص : ٣٠٧: ج ١٤)
یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت تام ہوجاتی پھر انسان کو کسی قسم کے عذر کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی مذکورہ تمام اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیونکہ انسان اس عمر میں غور و فکر کر کے حق وباطل میں تمیز کرسکتا ہے۔
نذير كى تفسير
ايك قول يہ ہے كہ نذیر سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یہ قول اکثر مفسرین کے نزدیک ہے۔ (٢) نذير سے مراد قرآن۔ (٣)عقل (٤)بڑھاپے کے سفید بال مراد ہیں یہ موت کا پیغام ہے۔ (قرطبی : ص : ٣٠٧،ج : ١٤)
یہ سب تفسیریں اپنی جگہ درست ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کو بالغ ہونے کے بعد جتنے حالات پیش آتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نذیر اور انسان کو خبردار کرنے کے لیے ہیں۔
جہنم کے عذاب كى كيفيت
جہنم میں مختلف قسم کا عذاب ہوگا، جو عذاب قرآن کریم یا حدیث متواتر سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا فرض ہے مثلاً جہنم میں آگ کا عذاب ہوگا، آگ کا لباس ہوگا، جہنمیوں کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا، جس سے ان کے پیٹ اور کھالیں جھلس جائیں گی۔ وہ سخت عذاب کی وجہ سے جہنم سے نکلنا چاہیں گے ، مگر نہیں نکل سکیں گے، مرنا چاہیں گے ،مر بھی نہیں سکیں گے، پینے کے لیے پیپ اور سینڈھ ہوگی، جہنمی جسے گھونٹ گھونٹ کر کے پئے گا ، مگر پی نہیں سکے گا، ہر طرف موت کا سامان ہوگا ، مگر موت نہیں آئے گی۔ گلے میں طوق پہنا کر زنجیروں میں جکڑا جائے گا، کھانے کے لیے زخموں کا دھودن ہوگا، جہنمیوں کے چہروں کو آگ میں الٹا پلٹا جائے گا، جہنم میں کافرو منافق سب جمع ہوں گے، جہنمیوں کے مال و متاع کو جہنم کی آگ میں پگھلا کر ان کی پیشانیوں ، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا، جہنم میں گرمی کا عذاب الگ ہوگا اور سردی کا عذاب الگ ہوگا، جنوں اور انسانوں سے جہنم کو بھرا جائے گا، جہنم ایک برا اور بدترین ٹھکانا ہوگا، جہنمیوں کو جہنم میں ذلیل و خوار کر کے داخل کیا جائے گا، جہنم کے دروازے بند ہوں گے، جہنمیوں کے آنے پر ہی کھولے جائیں گے، جیسے جیل کا دروازہ قیدیوں کے آنے پر کھلتا ہے، جہنم کے سات دروازے ہیں، جہنم کی آگ جب کبھی ہلکی ہوگی اسے اور بھڑکا دیا جائے گا، جہنمی جہنم میں نہ تو زندہ جیسا ہوگا اور نہ ہی مردوں جیسا، جہنم میں مشرکوں کے ساتھ ان کے معبوادن باطلہ کو بھی ڈالا جائے گا، کافر لوگ جہنم کی آگ کے لیے بطور ایندھن بھی ہوں گے، منافقین جہنم کے نچلے درجے میں ہوں گے ، جہنم میں عذاب کی وجہ سے کافروں کی خوب چیخ و پکار ہوگی، جہنمیوں کے جسم پر گندھک کا لباس ہوگا، جہنمیوں کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جائے گا اور ان کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہوگی، جہنمیوں کے اوپر بھی آگ کے سائباں ہوں گے اور نیچے بھی آگ کے سائبان ہوں گے۔ ایسا کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا جس سے ہونٹ جھلس جائیں گے اور آنتیں کٹ جائیں گی، جہنم کی آگ اس قدر شدید ہوگی کہ دل پر براہ راست اثر کرے گی۔
جہنم کے یہ عذاب قرآن کریم میں مختلف مقامات پر بیان کئے گئے ہیں، ان پر اور ان کے علاوہ دیگر ان عذابوں پر ایمان لانا یقین کرنا فرض ہے، جو بطریق تواتر ثابت ہیں، ان میں سے کسی ایک عذاب کے انکار سے یا اس میں شک کرنے سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ اس آیت میں موجود ہے : ” والذین کفروا لھم نار جھنم ، لا یقطی علیھم، فیموتوا ولا یخفف عنھم من عذابھا، کذلک نجزی کل کفور “ ترجمہ : اور وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہوگی، ان پر موت طاری نہیں کی جائے گی کہ وہ مرجائیں ، اور نہ ہی ان سے عذاب کو ہلکا کیا جائے گا، ہر کفر کرنے والے کو ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں۔
{هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (19) يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ (20) وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ (21) كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (22)} [الحج: 19 – 22]
ترجمہ : یہ دو گروہ کہ جھگڑا کیا انھوں نے اپنے رب کے بارے میں، پس کافروں کے لیے آگ کے کپڑوں سے لباس بنایا جائے گا، ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا، جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور کھالیں گل جائیں گے، اور ان کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے، جب کبھی اس آگ سے تنگ آکر نکلنا چاہیں گے تو انھیں پھر اسی میں لوٹا دیا جائے گا کہ چکھو آگ کا عذاب۔ واذا القوا منھا مکاناً ضیقاً مقرنین دعوا ھنالک ثبوراً (١٣) ، لا تدعوا الیوم ثبوراً واحداً وادعو اثبوراً کثیراً (الفرقان : ١٣۔ ١٤)
ترجمہ : اور جب ڈال دئیے جائیں گے وہ جہنم کی ایک تنگ جگہ میں اچھی طرح باندھ کر تو پکاریں گے وہاں موت کو، آج ایک موت کو موت پکارو کئی موتوں کو پکارو۔ من وراہ جھنم ویسقی من مآء صدید (١٦) ، یتجرعہ ولا یکاد یسیغہ ویاتیہ الموت من کل مکان وما ھو بمیت ، ومن ورآہ عذاب غلیظ (ابراھیم : ١٦۔ ١٧)
ترجمہ : اس کے آگے جہنم ہے اور اسے پیپ کے پانی سے پلایا جائے گا، وہ اسے گھونٹ گھونٹ کر پیئے گا اور اسے ایسا محسوس ہوگا کہ وہ اسے حلق سے اتار نہیں سکے گا اور اس کے پاس ہر طرف سے موت آئے گی لیکن وہ مرے گا نہیں اور اس کے آگے ایک اور سخت عذاب ہے۔ وقل الحق من ربکم، فمن شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر، انا اعتدنا للظلمین ناراً ، احاط بھم سرادقھا، وان یستغیثوا یغاثوا بماء لالمھل یشوی الوجوہ، بئس الشراب، وساءت مرتفقاً (الکھف : ٢٩) ترجمہ : اور کہہ دیجئے : حق تمہارے پروردگار کی جانب سے ہے، لہٰذا جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کرے ، بیشک ظالموں کے لیے ہم نے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی ان کو گھیرے میں لے لیں گی، اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے پلایا جائے گا جو تلچھٹ کی طرح ہوگا چہروں کو بھون ڈالے گا، کتنا برا پینا ہے اور کیسا برا ٹھکانا ہے۔
ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ﴿31﴾ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ ﴿32﴾ إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ ﴿33﴾ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴿34﴾ فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ ﴿35﴾ وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ ﴿36﴾ لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ ﴿37﴾ سوره حاقة (31-37)
ترجمہ: ان کو پکڑلو اور جکڑ دو پھر جہنم میں ڈال دو ، پھر اسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ کے برابر ہو، بیشک یہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان نہیں لاتا تھا اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا، پس اس دن وہاں اس کا کوئی مددگار نہیں ہوگا، اور نہ کھانا ہوگا مگر غسلین سے جس کو صرف خطا کار ہی کھاتے ہیں۔
{يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (35)} [التوبة: 35]
ترجمہ: اس دن خزانے کو گرم کیا جائے گا جہنم کی آگ میں اور اس کے ساتھ ان کے چہروں، پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا، یہ ہے وہ جس کو تم اپنے لیے جمع کرتے تھے اب چکھو اس کو جو تم کو جمع کرتے تھے۔ حق تعالیٰ شانہ ہم سب کی بھی جہنم سے حفاظت فرمائے۔ (آمین)
اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ڬ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۭاِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا
یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے جو اتنے بڑے بڑے کر ات عظام کو اپنے مرکز سے ہٹنے اور اپنے مقام و نظام سے ادھر ادھر سرکنے نہیں دیتا اور اگر بالفرض یہ چیزیں اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت ہے کہ ان کو قابو میں رکھ سکے چنانچہ قیامت میں جب یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ درہم برہم کرے گا تو کوئی قوت اس کو روک نہیں سکے گی۔ (تفسیر عثمانی : ص : ٥٧٦) ۔
زمین و آسمان کی یہ کائنات جس میں انسان رہتا بستا ہے اس کے اندر اس کے لیے بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، بشرطیکہ یہ لوگ اس میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیں، اور اس میں صحیح طور پر غور و فکر سے ان کیلئے حق و ہدایت کی راہ بھی روشن ہوجائے گی، اور ان سے غفلت و لاپرواہی کے پردے بھی ہٹ اور چھٹ جائیں گے۔ سو انسان سوچے اور دیکھے کہ یہ کرہ ارضی جس پر یہ رہتا بستا ہے، اور جو آج کی سائنس کے مطابق ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے محو گردش ہے۔ اور اس کے اوپر تنی ہوئی آسمان کی یہ عظیم الشان چھت جو اس قدر استحکام اور مضبوطی سے اس کے سر پر قائم ہے آخر یہ سب کچھ کس کی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کا نتیجہ ہے ؟ سو وہی ہے اللہ خالق کل، مالک کل، اور قادر مطلق، جس کی قدرت بےپایاں اس کی حکمت بےنہایت اور اس کی رحمت و عنایت بےغایت سے یہ سب کچھ قائم اور محو حرکت و گردش ہے، ورنہ اگر لمحہ بھر کیلئے بھی اس کی توجہ اس سے ہٹ جائے تو یہ سب کچھ تہ وبالا اور نیست ونابود ہوجائے۔ اس وحدہ لاشریک کے سوا کسی کے بس میں نہیں کہ وہ پھر اس کو روک اور باقی رکھ سکے۔ نیز یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ وہ اگر باغیوں اور مجرموں کو نہیں پکڑتا تو صرف اس لیے کہ وہ بڑا ہی حلیم و بردبار اور غفور و بخشنہار ہے۔ پس اس کے حلم و کرم سے کسی کو کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہىے۔
وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ لَّيَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَۨا
گزشتہ آیات میں یہ بتلایا کہ یہ مشرکین کفر وشرک کی وجہ سے بھی قہر الٰہی کے مستحق ہیں لیکن اللہ کے حلم سے بچے ہوئے ہیں۔ اب آگے اللہ تعالیٰ مشرکین کی بدعہدی اور ان کے مکرو فریب بیان کرتے ہیں کہ یہ مشرکین عرب آپ کی بعث سے پہلے پختہ قسمیں کھایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا آتا تو ہم ہدایت اختیار کرتے پہلے امتوں سے بڑھ کر ہوتے یعنی یہود و نصاری کی طرح تکذیب نہ کرتے بلکہ ان سے بہتر ہوتے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ایک کتاب ہدایت بھی ساتھ لے کر آیا تو یہ لوگ اس کی دشمنی پر کمر بستہ ہوگئے۔ (معالم التنزیل : ص : ٤٩٦،ج : ٣)
اسى طرح طرح کی مکرو تدبیریں اور داؤ گھات شروع کردیے مگر یاد رہے کہ برا داؤ خود داؤ کرنے والوں پر الٹے گا۔ گو چند روز عارضی طور پر اپنے دل میں خوش ہو لیں کہ ہم نے تدبیریں کر کے یوں نقصان پہنچا دیا، لیکن انجام کار دیکھ لیں گے کہ واقع میں نقصان عظیم کس کو اٹھانا پڑا۔ فرض کرو دنیا میں ٹل بھی گیا تو آخرت میں تو یقینا یہ مشاہدہ ہو کر رہے گا۔
یہ اسی کے منتظر ہیں کہ جو گزشتہ مجرموں کے ساتھ معاملہ ہوا ان کے ساتھ بھی ہو۔ سو باز نہ آئے تو وہی ہو کر رہے گا۔ اللہ کا جو دستور مجرموں کی نسبت سزا دینے کا رہا نہ وہ بدلنے والا ہے کہ بجائے سزا کے ایسے مجرموں پر انعام و اکرام ہونے لگے اور نہ ٹلنے والا کہ مجرم سے سزا ٹل کر غیر مجرم کو دے دی جائے۔
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا
یعنی لوگ جو گناہ کماتے ہیں اگر ان میں سے ہر ہر جزئی پر گرفت شروع کر دے تو کوئی جاندار زمین میں باقی نہ رہے، نافرمان تو اپنی نافرمانی کی وجہ سے تباہ کردیے جائیں۔ اور کامل فرمان بردار جو عادۃ بہت تھوڑے ہوتے ہیں قلت کی وجہ سے اٹھا لیے جائیں۔ کیونکہ نظام عالم کچھ ایسے انداز پر قائم کیا گیا ہے کہ محض معدودے چند انسانوں کا یہاں بستے رہنا خلاف حکمت ہے۔ پھر جب انسان آباد نہ رہے تو حیوانات کا ہے کے لیے رکھے جائیں گے۔ ان کا وجود بلکہ تمام عالم ہستی تو اس حضرت انسان کے لیے ہے۔
یعنی ایک مقرر میعاد اور حد معین تک اللہ نے ڈھیل دے رکھی ہے کہ ہر ایک جرم پر فورا گرفت نہیں کرتا۔ جب وقت موعود آجائے گا تو یاد رکھو سب بندے اس کی نگاہ میں ہیں۔ کسی کا ایک ذرہ بھر برا یا بھلا عمل اس کے علم سے باہر نہیں۔ پس ہر ایک کا اپنے علم محیط کے موافق ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرما دے گا۔ نہ مجرم کہیں چھپ سکے نہ مطیع کا حق مارا جائے۔ ” اللہم اجعلنا ممن یطیعک واغفرلنا ذنوبنا انک انت الغفور الرحیم۔
جارى…………..
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.