ترجمہ اور تفسير سورة فيل
ترتيب: محمد ہاشم قاسمى بستوى
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿1﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ؟
أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ﴿2﴾
کیا اس نے ان لوگوں کی ساری چالیں بیکار نہیں کردی تھیں ؟
وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ﴿3﴾
اور ان پر غول کے غول پرندے چھوڑ دیے تھے۔
تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ ﴿4﴾
جو ان پر پکی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے۔
فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ ﴿5﴾
چنانچہ انھیں ایسا کر ڈالا جیسے کھایا ہوا بھوسا۔
سورة فيل كا تاريخى پس منظر
یہ واقعہ 570 ء يا 571ء میں محرم کے مہینے میں پیش آیاجس سال حضور ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت عین اس واقعہ کے دن ہوئی تھی۔ البتہ کچھ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس واقعہ کے پچاس دن بعد پیدا ہوئے تھے۔
اس واقعہ کا پس منظر یوں ہے کہ یمن کے عیسائی بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کے مقابلے میں ایک عالیشان کلیسا اس غرض سے تعمیر کرایا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ کا حج کرنے کے بجائے اس کلیسا میں حاضری دیا کریں۔ لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانے میں ناکام رہا۔ اسی دوران کسی عرب نے شرارتاً اس کلیسا میں رفع حاجت کر کے غلاظت بکھیر دی۔ ابرہہ تو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا تھا ‘ اس واقعہ کو بہانہ بنا کر اس نے کعبہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے مکہ مکرمہ پر باقاعدہ چڑھائی کردی۔ مکہ پر حملہ آور ہونے والے ابرہہ کے لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار تھی اور ان کے ساتھ بہت سے ہاتھی بھی تھے۔ اسی لیے عربوں نے اس لشکر کو ” اصحاب الفیل “ کا نام دیا اور جس سال یہ لشکر حملہ آور ہوا تھا وہ سال ان کے ہاں ” عام الفیل “ کے نام سے مشہور ہوا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور ابرہہ کے لشکر کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نیست و نابود کردیا۔ (ماخوذ از تفسير قرآن ڈاكٹر اسرار)
قرآن كريم كى بلاغت كا ايك نمونه
يہاں اس بات پر حيرت ہوتى ہے كہ قرآن نے اتنے بڑے واقعہ كو اتنے مختصر لفظوں ميں كيوں بيان كيا؟ صرف اصحاب الفیل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ذکر کردینے پر کیوں اکتفا کیا گیا ؟ تو اس كى وجہ يہ تھى كہ واقعہ کچھ بہت پرانا نہ تھا۔ مکہ کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ عرب کے لوگ عام طور پر اس سے واقف تھے۔ تمام اہل عرب اس بات کے قائل تھے کہ ابرھہ کے اس حملے سے کعبے کی حفاظت کسی دیوی یا دیوتا نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کی۔ اللہ ہی سے قریش کے سرداروں نے مدد کے لیے دعائیں مانگی تھیں اور چند سال تک قریش کے لوگ اس واقعہ سے اس قدر متاثر رہے تھے کہ انھوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی تھی۔ اس لیے سورة فیل میں ان تفصیلات کے ذکر کی حاجت نہ تھی، بلکہ صرف اس واقعے کی یاد دلانا کافی تھا، تاکہ قریش کے لوگ خصوصاً ، اور اہل عرب عموماً ، اپنے دلوں میں اس بات پر غور کریں کہ محمد ﷺ جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ آخر اس کے سوا اور کیا ہے کہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔ نیز وہ یہ بھی سوچ لیں کہ اگر اس دعوت حق کو دبانے کے لیے انھوں نے زور زبردستی سے کام لیا تو جس خدا نے اصحاب الفیل کا تہس نہس کیا تھا اسی کے غضب میں وہ گرفتار ہوں گے ۔ (ماخوذ از تفہيم القرآن مولانا مودودى)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.