surah asr with urdu translation

Surah Asr With Urdu Translation, Surah Asr Tafseer In Urdu

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى

ترجمہ سورہ عصر

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

وَالْعَصْرِ ﴿1﴾

زمانے کی قسم۔

إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿2﴾

انسان درحقیقت میں بڑے خسارے میں ہے۔

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿3﴾

سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

تشريح

زمانہ نزول

اگرچہ مجاہد، قتادہ اور مقاتل نے اسے مدنی کہا ہے، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اسے مکی قرار دیتی ہے اور اس کا مضمون یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی جب اسلام کی تعلیم کو مختصر اور انتہائی دل نشین فقروں میں بیان کیا جاتا تھا، تاکہ سننے والے ایک دفعہ ان کو سن کر بھولنا بھی چاہیں تو نہ بھول سکیں، اور وہ اپنے آپ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جائیں۔

شان نزول

 اس سورة کے شان نزول کے سلسلہ میں ایک روایت یہ ہے کہ ابو الاسد ایک کافر تھا اور زمانہ جاہلیت میں وہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا دوست تھا۔ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) ایمان لے آئے تو یہ ابو الاسد کا فران سے کہنے لگا کہ اے ابوبکر تمہاری عقل پر کیا پتھر پڑگئے۔ تم نے تو اپنی ہوشیاری اور ذکاوت سے تجارت میں بہتیرا مال پیدا کیا اور کبھی تم نے نقصان نہیں اٹھایا۔ اب یکلخت ایسے گھاٹے میں پڑے کہ آبائی دین چھوڑ کر لات و عزیٰ کی عبادت سے محروم اور ان کی شفاعت سے مایوس ہوگئے۔ حضرت صدیق (رض) نے فرمایا کہ اے بیوقوف جو اللہ اور اللہ کے رسول کا تابعدار بنتا ہے اور دین حق کو قبول کرتا ہے وہ کبھی نقصان میں نہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں حضرت صدیق (رض) کے کلام کا حسن ظاہر فرمایا اور اس کافر کے خیال باطل کی بد لائل و شواہد تردید فرمائی اور قسمیہ کلام کے ساتھ اس سورة میں فرمایا گیا کہ انسان آخر میں ٹوٹا اور خسارہ اٹھائے گا سوائے ان لوگوں کے کہ جو زندگی میں ایمان لائے اور عمل صالح کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی پابندی کی فہمائش کرتے رہے۔

سورة العصر کا مقام و مرتبہ:

یہ سورت جامع اور مختصر کلام کا بےنظیر نمونہ ہے۔ اس کے اندر چند جچے تلے الفاظ میں معنی کی ایک دنیا بھر دی گئی ہے جس کو بیان کرنے کا حق ایک پوری کتاب میں بھی مشکل سے ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس میں بالکل دو ٹوک طریقے سے بتادیا گیا ہے کہ انسان کی فلاح کا راستہ کونسا ہے اور اس کی تباہی و بربادی کا راستہ کون سا۔ امام شافعی نے بہت صحیح کہا ہے کہ اگر لوگ اس سورت پر غور کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔ صحابہ کرام کی نگاہ میں اس کی اہمیت کیا تھی، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن حصن الدارمی ابو مدینہ کی روایت کے مطابق اصحاب رسول میں سے جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ایک دوسرے کو سورة عصر نہ سنا لیتے حوالہ طبرانی۔

عصر سے كيا مراد ہے؟

قسم: اس سورة کی ابتداء بھی قسمیہ کلام سے فرمائی گئی ہے اور حق تعالیٰ شانہ نے عصر کی قسم کھائی ۔ والعصر عصر زمانہ کو کہتے ہیں یعنی قسم ہے زمانہ کی کہ جس میں انسان کی عمر بھی داخل ہے۔

دوسرے معنی مفسرین نے والعصر سے مراد یہ لیے ہیں کہ قسم ہے نماز عصر کے وقت کی کہ جو کاروباری دنیا میں خاص مشغولیت اور شرعی نقطہ نظر سے نہایت فضلیت کا وقت ہے۔ حتیٰ کہ ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا اس کا سب گھر بارلٹ گیا ۔

 تیسری مراد یہاں والعصر سے بعض مفسرین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک کو لیا ہے یعنی قسم ہے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک کی جس میں رسالت عظمیٰ اور خلافت کبریٰ کا نور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا۔ لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے یعنی حق تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھائی کہ جس میں رنج و خسران واقع ہوتا ہے۔

ان الانسان لفی خسر كى تفسير

حقیقت یہ ہے کہ انسان کا خسارے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ خسارہ رأس المال ضائع کرنے کا نام ہے اور انسان کا راس المال عمر ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آدیم اپنی عمر ضائع نہ کر رہا ہ، کیونکہ آدمی پر جو گھڑی گزرتی ہے اگر اللہ کی نافرمانی میں گزرى تو خسارے میں کوئی شک ہی نہیں، اگر مباح اور جائز کاموں میں گزری پھر بھی خسارہ ہے، کیونکہ اس گھڑی سے آدمی آخرت کے لیے کچھ حاصل نہ کرسکا اور اگر اطاعت اور نیکی میں گزری تو یہی نیکی اس سے بہتر طریقے پر یا اس سے بہتر کوئی اور نیکی بھی کرسکتا تھا، کیونکہ نیکی کے درجات کی کوئی انتہا نہیں اور اللہ کے جلال و قہر کے مرتاب کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ اب جس قدر کسی شخص کو ان درجات کا علم ہوگا، ان پر عمل کرے گا اور دوسروں کو ان کی تعلیم دے گا اور خود صبر اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرے گا، تو اسی قدر خسارہ کم ہوتا جائے گا، ورنہ اعلیٰ درجے کو چھوڑ کر ادنیٰ درجے پر اکتفا تو ایک قسم کا خسارہ ہی ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان کسی نہ کسی قسم کے خسارے سے ضرور دو چار رہتا ہے۔ (خلاصہ از رازی)

خسارے سے بچنے كے لئے 4 چيزوں كا اہتمام ضرورى ہے

یعنی انسان کو خسارہ اور نقصان سے بچنے کے لیے چار باتوں کی ضرورت ہے اگر یہ چار باتیں دنیا میں اختیار نہ کیں تو  ہرگز ہرگز خسارہ سے نہیں بچ سکتا اور اگر یہ چار اوصاف اختیار کر لیء تو پھر خسارہ نام کو بھی نہیں اور وہ چار باتیں یہ ہیں۔ ایک امنوا دوسرے وعملوالصلحت تیسرے وتواصوا بالحق چوتھے وتواصوا بالصبر یعنی اول خدا اور رسول پر ایمان لائے۔

1 – عقيدے كى درستگى

یعنی اس کے تمام عقیدے درست ہوں ۔ خدا تعالیٰ کے بارے میں اس کی ذات وصفات کے بارے میں ۔ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق کے بارے میں ۔ اللہ کی کتاب کے بارے میں ۔ آخرت ، ملائکہ ، تقدیر ، قبر ، حشر ، نشر ، جنت ، دوزخ وغیرہ وغیرہ کے بارے میں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات اور وعدوں پر خواہ دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے ان پر پورا یقین اور اعتماد رکھے۔

2 – نيك عمل

دوسری بات یہ کہ ایمان و یقین کا اثر محض ان کے قلب و دماغ تک محدود نہ رہے بلکہ جوارح میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی اس کے ایمان قلبی کا آئینہ ہو اور اللہ و رسول کے احکام اور اوامر پر عمل پیرا ہو اور منہیات سے مجتنب ہو ۔ ہر وہ کام جو شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہو اس پر عامل ہو اور اس عمل سے مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور خوشنودی کے سوا کچھ اور نہ ہو ۔ یہی وعملو الصلحت ہے۔

3 – اجتماعی صلاح و فلاح کا درد

تیسرے تواصي بالحق کی صفت یعنی محض اپنی انفرادی صلاح و فلاح پر قناعت نہ کرے اور اسے کافی نہ سمجھے کہ وہ خود سیدھے راستہ پر آگیا ہے بلکہ قوم و ملت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھے اور اپنے کو اس بات کا ذمہ دار سمجھے کہ اسے دوسرے لوگوں کو بھی حق کی تلقین کرنا ہے اور انھیں سیدھے راستہ پر لانے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔ گویا ایک مسلمان کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو اپنے قول و فعل سے سچے دین اور ہر معاملہ میں سچائی اختیار کرنے کی تاکید کرتے رہیں ۔ تواصی بالحق یعنی حق پر قائم رہنے کی تاکید وسیع المعنی الفاظ ہیں۔ تواصی بالحق دین پر قائم رہنے کو بھی شامل ہے۔ راست بازی اور نفع خلائق کی ہدایت کو بھی شامل ہے۔ پھر دین میں عبادات سے لے کر اعتقادت صحیحہ اور اخلاق کریمانہ اور خیرات و صدقات کی تعلیمات کو بھی شامل ہے۔ بنائے مساجد و مدارس اور اسلام کے قیام و استحکام تبلیغ و اشاعت اور اعلائے کلمۃ الحق کی بابت تدابیر اور عمدہ تصانیف اور تعلیم علوم وغیرہ سب تو اصی بالحق میں شامل ہیں۔

صبر و استقامت

چوتھے تواصي بالصبر کی صفت ہے یعنی حق کی راہ چلنے میں چاہے جتنی مشکلات پیش آئیں انھیں خود بھی برداشت کرے اور دوسروں کو بھی تاکید و نصیحت کرتا رہے کہ دیکھو سچائی اور دین حق کی راہ میں اگرچہ کیسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے لیکن تمہیں کسی حال میں سچائی اور دین حق کا دامن نہ چھوڑنا چاہیے پوری ہمت کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتے رہو اور حق پر قائم رہو ۔ تواصی بالبصر کا لفظ بھی بڑا وسیع المعنی ہے اس میں مخالفوں کی ایذا اور بد گوئی کی برداشت بھی صبر ہے۔ نفس بد کا مقابلہ اور پھر مقابلہ میں ثابت قدمی بھی صبر ہے۔ ان میں مشقتوں کی برداشت بھی صبر ہے مصائب ارض وسماوی پر بھى صبر ہے۔ خلاف طبع امورکا تحمل کرنا بھی صبر ہے۔ نیکی کے راست پر جمے رہنا اور راہ حق سے قدم نہ ہٹانا بھی صبر ہے اسی طرح جملہ اخلاق میں نفسانی خواہش روکنے كى قدمی بھی صبر ہے۔ اسی طرح صف جنگ میں دشمنان دین کا مقابلہ میں استقلال و ثابت قدمی بھی صبر ہے۔

الغرض اس سورة مبارکہ میں چار چیزوں کی تعلیم ہے۔

١۔ ایمان ۔ ٢۔ عمل صالح ۔ ٣۔ تواصی بالحق ۔ ٤ تواصی بالصبر

یہ چار خوبیاں جن کا ذکر چھوٹے چھوٹے لفوں میں اس سورة میں کیا گیا ہے اپنی معنی اور تفصیل کے لحاظ سے اتنی بڑی خوبیاں ہیں کہ اس کے بعد کسی اور خوبی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

سورة العصر کے خواص:

 ١۔ جسے بخار ہو اس پر سورة العصر پڑھ کردم کیا جائے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تندرست ہوجائے گا ۔

٢۔ چار ٹکڑوں میں سے ہر ایک پر سورة العصر لکھ کر جس مکان کے چاروں کونوں میں لٹکا دیا جائے تو وہ مکان چاروں طرف سے آنے والی آفتوں سے محفوظ رہے گا ۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply