ترجمہ اور تفسير سورہ حديد
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ، يوپى انڈيا
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿1﴾
آسمانوں اور زمین میں جو چیز بھی ہے، وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔اور وہی زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿2﴾
اسی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین میں وہی حیات دیتا ہے اور (وہی) موت دیتا ہے، اور وہی ہر چیز پر قاد رہے۔
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿3﴾
وہی اول ہے وہی آخر ہے۔ وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے۔ وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿4﴾
اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے۔ پھر وہ عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ وہ ہر اس چیز کو اچھی طرح جانتا ہے جو زمین کے اندر داخل ہوتی ہے اور جو چیز اس سے باہر آتی ہے۔ اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز ان (آسمانوں) میں چڑھتی ہے۔ اور تم کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے وہ دیکھتا ہے۔
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ﴿5﴾
آسمانوں اور زمین میں اسی کی بادشاہت ہے اور تمام کاموں کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۚ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿6﴾
وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ دلوں کے ( رازوں اور ) حالات کو جاننے والا ہے۔
آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ ﴿7﴾
(اے لوگو ! ( تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اپنا مال خرچ کرو ( اس اللہ کے لئے) جس نے تمہیں دوسروں کا قائم مقام بنایا ہے۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں گے۔ اور اپنا مال (اللہ کی راہ میں) خرچ کریں گے ان کے لیے اجر عظیم ہے۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۙ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴿8﴾
آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے جو تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے ہو، درآنحالیکہ رسول تمہیں بلا رہے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ اور (اللہ خود) تم سے اس کا اقرار لے چکا ہے ۔ ف ١١۔ اگر تم کو ایمان لانا ہو،
هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴿9﴾
وہی تو ہے جس نے اپنے بندے ( حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صاف صاف آیتوں کو نازل کیا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے آئے۔ اور بیشک اللہ (تمہارے حال پر) بڑا شفیق و مہربان ہے۔
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿10﴾
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہو درآنحالیکہ آسمان اور زمین سب آخر میں اللہ ہی کے رہ جائیں گے، ف ١٣۔ تم میں جو لوگ فتح (مکہ) سے قبل ہی خرچ کرچکے اور لڑچکے (وہ ان کے برابر نہیں جو بعد فتح لڑے اور خرچ کیا) وہ لوگ درجہ میں بڑھے ہوئے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے بعد کو خرچ کیا اور لڑے، اور اللہ نے بھلائی کا وعدہ تو سب ہی سے کر رکھا ہے، اور اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ ﴿11﴾
کون ہے جو ” اللہ “ کو قرض حسنہ دے ؟ تاکہ اللہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھائے اور اس کے لیے بہترین اجر ہے
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَىٰ نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿12﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس دن آپ مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھیں گے کہ ( ان کے حسن عمل کا) نور ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا ہوا ہوگا ( اور ان سے کہا جائے گا کہ) آج تمہیں ایسی جنتوں کی خوش خبری دی جاتی ہے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿13﴾
اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے یہ کہتے ہوں گے کہ ذرا ہمارا انتظا کرلو تاکہ ہم بھی تمہاری روشنی سے کچھ فائدہ حاصل کرلیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم پیچھے ہی لوٹ جاؤ پھر وہاں روشنی کی تلاش کرو۔ اتنے میں ان منافق مردوں اور منافق عورتوں ( اور اہل ایمان کے درمیان) ایک ایسی دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اس دیوار کے اندر کی جانب رحمت (برستی) ہوگی اور باہر کی جانب عذاب ہوگا۔
يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ﴿14﴾
منافق ( اہل ایمان لوگوں کو) پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں تم ہمارے ساتھ تھے لیکن تم نے اپنے آپ کو گمراہی میں مبتلا کرلیا تھا اور تم ہمارے اوپر برے حالات کے منتظر رہا کرتے تھے اور تم دین اسلام سے شک میں پڑے ہوئے تھے اور تمہیں تمہاری غلط تمناؤں نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور تمہیں دھوکے باز شیطان نے دھوکے میں ڈالے رکھا
فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿15﴾
غرض آج نہ تم سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کافروں سے، تم سب کا ٹھکانا دوزخ ہی ہے وہی تمہاری رفیق ہے اور وہ کیسا بر اٹھکانا ہے۔
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿16﴾
کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کی نصیحت اور جو سچا دین نازل ہوا ہے اس کے سامنے ان کے دل جھک جائیں ؟ انھیں ان لوگوں کی طرح نہ ہونا چاہیے جنہیں کتاب دی گئی پھر جب ایک لمبی مدت گذر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہت بڑی تعداد فاسقین کی ہے۔
اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿17﴾
یاد رکھو کہ اللہ زندہ کردیتا ہے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد ہم نے تمہارے لیے اپنی آیتیں واضح کر کے بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو۔
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ ﴿18﴾
بلاشبہ صدقہ دینے والے اور صدقہ دینے والیاں (یہ جو) اللہ کو خلوص کے ساتھ (قرضہ دیں) تو وہ صدقہ ان کے لیے بڑہا یا جائے گا اور ان کے لیے اجر پسندیدہ ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴿19﴾
اور وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے سامنے صدیق اور شہداء ہیں ان کے لیے اجر اور نور ہے۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا یہ جہنم والے ہیں۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿20﴾
تم اس بات کو ( اچھی طرح) جان لو کہ دنیا کی زندگی بس ایک کھیل کود، زیب وزینت، آپس میں ایک دوسرے پر فخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ ہے۔ اس کی مثال اس بارش جیسے ہے کہ ( جس کی وجہ سے ) اس کی پیداوار کاشت کار کو خوش کردیتی ہے۔ پھر وہ کھیتی خشک ہوجاتی ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑجاتی ہے پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے۔ اور آخرت کا عذاب شدید ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضا مندی ( کا وعدہ ہے) اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے اور فریب کے اور کیا ہے ؟
سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿21﴾
تم اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس جنت کا پھیلاؤ ایسا ہے جیسے آسمان اور زمین کا پھیلاؤ۔ یہ جنت ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ محض اللہ کے فضل و کرم سے (ملتی ہے) وہ جس کو چاہے گا عطا فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ﴿22﴾
کوئی آفت یا مصیبت جو زمین پر (نازل ہوتی ہے) یا تمہیں پہنچتی ہے وہ سب ہم نے ایک کھلی کتاب میں لکھ رکھی ہے۔ اور ایسا کرنا یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔
لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿23﴾
یہ بات تمہیں اس لیے بتائی جا رہی ہے کہ جو چیز جاتی رہے اس پر غم نہ کرو اور نہ اس چیز پر اتراؤ جو اس نے تمہیں بخشی ہے اور یاد رکھو کہ اللہ اکڑنے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿24﴾
(وہ لوگ ایسے ہیں) جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیتے رہتے ہیں۔ اور جو کوئی روگردانی اختیار کرے گا، تو اللہ تو (سر تا سر) بےنیاز ہے ستودہ صفات ہے۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿25﴾
بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں اور لوہا بھی اتارا جس میں بڑی قوت بھی ہے اور لوگوں کے لیے اس میں دوسرے فوائد بھی ہیں، تاکہ اللہ جان لے کہ بن دیکھے کون اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ زبردست اور قوت و طاقت والا ہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ۖ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿26﴾
اور ہم نے ہی نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا تھا اور ان کی اولاد میں بھی نبوت اور کتاب ( کا سلسلہ جاری) رکھا۔ پھر ان کی اولادوں میں سے بعض تو ہدایت پانے والے بن گئے لیکن ان میں سے اکثر تو نافرمان ہی رہے۔
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿27﴾
پھر ہم نے ان کے بعد لگاتار رسول بھیجے اور ان کے بعد ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور ان کو انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحمت کو ڈال دیا۔ اور ترک دنیا ( رہبانیت) کا طریقہ انھوں نے خود سے گھڑ لیا تھا جسے ہم نے فرض نہیں کیا تھا۔ مگر ہاں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے ایسا کیا تھا لیکن اس کی پابندی کو جو حق تھا انھوں نے ادا نہیں کیا۔ پھر ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہم نے ان کو اس کا بدلہ دیا لیکن ان میں سے اکثر نافرمان تھے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿28﴾
اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ تاکہ تمہیں اللہ دوگنی رحمت عطا فرمائے اور تمہارے لے ایک ایسا نور بنادے جس کو تم لے کرچلو پھرو اور تاکہ وہ اللہ تمہیں معاف کردے۔ اور اللہ مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿29﴾
اور یہ اس لیے ہے کہ اہل کتاب بھی اس بات کو جان لیں کہ اللہ کے فضل و کرم کے کسی حصے پر ان کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اور بیشک سب فضل و کرم اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ (اپنے بندوں پر) بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔
فضائل سورہ حديد
حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے سے پہلے المسبحات (تسبیح کی آیات) کو پڑھتے تھے اور آپ نے فرمایا : ان میں ایک آیت ہزار آیت سے افضل ہے (المسیحات سے مراد : الحدید ‘ الحشر ‘ الصف ‘ الجمعہ اور التغابن ہیں) ۔ (سنن ابودوؤد رقم الحدیث : ٧٥٠٥‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٢٩٢‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٩٤٥٠١)
حضرت عمر بن خطاب (رض) سورة الحدید کی ابتدائی آیات پڑھ کر اسلام سے متاثر ہوئے اور ایمان لے لائے ‘ اس حدیث کی مفصل روایت یہ ہے :
امام بیہقی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
زید بن اسلم اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ہم سے فرمایا : کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ میں کیسے اسلام لایا ؟ ہم نے کہا : جی ہاں ! ‘ حضرت عمر نے کہا : میں سب سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف تھا ‘ ایک دن میں سخت گرمی میں مکہ کے کسی راستہ پر جا رہا تھا ‘ مجھے قریش کا ایک آدمی ملا ‘ اس نے پوچھا : اے ابن الخطاب ! کہاں جا رہے ہو ؟ میں نے کہا : میں فلاں فلاں کام سے جا رہا ہوں ‘ اس نے کہا : تعجب ہے اے ابن الخطاب ! تمہارے گھر میں ایک سنگین حادثہ ہوچکا ہے ‘ میں نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : تمہاری بہن مسلمان ہوچکی ہے ! میں غضب ناک ہو کر لوٹا اور دروازہ کھٹکھٹایا ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ یہ تھا کہ جب ایک یا دو آدمی مسلمان ہوتے جن کے پاس کچھ مال نہ ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ خوش حال آدمی کو ملا دیتے تاکہ وہ اس کا فالتو کھانا کھا لیں ‘ اور آپ نے میرے بہنوئی کے ساتھ دو آدمی ملا دئیے تھے ‘
جب میں نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا : کون ہے ؟ میں نے کہا عمر ‘ وہ جلدی جلدی مجھ سے چھپ گئے ‘ ان کے سامنے ایک صحیفہ تھا جس کو وہ پڑھ رہے تھے ‘ وہ جلدی میں اس کو اٹھانا بھول گئے ‘ میری بہن نے دروازہ کھولا ‘ میں نے کہا : اے اپنی جان کی دشمن ! کیا تو اپنا دین تبديل كر چکی ہے ؟ اور میرے ہاتھ میں جو چیز تھی وہ میں نے اس کے سر پر مار ی ‘ اس کے سر سے خون بہنے لگا ‘ وہ خون دیکھ کر رونے لگی ‘ اس نے کہا : اے عمر ! تو نے جو کرنا ہے سو کر ‘ میں دین بدل چکی ہوں۔ میں تخت پر بیٹھ گیا تو گھر کے درمیان میری نظر صحیفہ پر پڑی ‘ میں نے کہا : یہ کیا ہے ؟ مجھے اٹھا کردو ‘ میری بہن نے کہا : تم اس کو اٹھانے کے اہل نہیں ہو ‘ تم غسل جنابت نہیں کرتے اور پاک لوگوں کے سوا اس کو کوئی چھو نہیں سکتا ‘ میں مسلسل اصرار کرتا رہا حتیٰ کی میری بہن نے مجھے وہ صحیفہ دے دیا اس میں لکھا ہوا تھا : ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ میں جب اللہ عزوجل کے اسماء میں سے کسی اسم پر سے گزریا تو میں ڈر جاتا ‘ میں نے وہ صحیفہ رکھ دیا اور اپنے دل میں سوچنے لاگ ‘ میں اس کو اٹھاکر پڑھنے لگا ‘ اس میں لکھا ہوا تھا : سبح للہ ما فی السموت والارض۔ (الحدید : ١) آسمانوں اور زمینوں کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ اور اس آیت پر پہنچا : امنوا باللہ ورسولہ وانفقو امما جعلکم مستخلفین فیہ ط فالذین امنوا منکم وانفقو الھم اجر کبیر۔ (الحدید : ٧) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ‘ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں پہلوں کا جانشین بنایا ہے ‘ پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اوخیرات کریں ‘ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
تب بےاختیار میں نے کہا : ” أشھد أن لا إلٰه إلا الله وأشھد أن محمداً عبده ورسوله “تب وہ چھپے ہوئے لوگ بھی دوڑ کر آئے اور مجھ سے ملے اور کہا : اے ابن الخطاب ! مبارک ہو ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیر کے دن یہ دعا کی تھی : اے اللہ ! دو آدمیوں میں سے جو تجھ کو زیادہ محبوب ہو ‘ اس کی وجہ سے دین کو غلبہ عطا فرما ‘ ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب اور ہمیں امید ہے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا ہو ‘ پس تم کو بشارت ہو ‘ پھر میں نے کہا : مجھے بتاؤ ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں ہیں ؟ انھوں نے کہا وہ صفا کے نیچے ایک گھر میں ہیں ‘ میں اس گھر پر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا ‘ مسلمانوں کو معلوم تھا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کس قدر مخالف ہوں ‘ اس لیے کوئی دروازہ کھولنے کی جرات نہیں کر رہا تھا ‘ حتیٰ کی آپ نے فرمایا : دروازہ کھول دو ‘ اگر اللہ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ کیا ہے تو اس کو ہدایت دے گا ‘ انھوں نے دروازہ کھول دیا اور دو آدمی مجھے پکڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گئے ‘ آپ نے فرمایا : اے ابن الخطاب ! اللہ تمہیں ہدایت دے ‘ اسلام کو قبول کرلو ! پس میں نے کہا : ”أشھد أن لا إلٰه إلا الله وأشھد أن محمداً عبده ورسوله“۔ پھر مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا جس کی آواز مکی کے راستوں میں سنی گئی ‘ اس سے پہلے وہ چھپے ہوئے تھے۔ (دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٨١٢۔ ٦١٢‘ ملخصاً تاریخِ دمشق الکبیرج ٧٤ ص ٦٥‘ الدرالمثور ج ٨ ص ٧٤)
﴿هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ﴾
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے اوّل ’ آخر ‘ اور باطن ہونے کی یہ تفسیر فرمائی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! تواوّل ہے ‘ تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں ہے اور تو آخر ہے ‘ تیرے بعد کوئی چیز نہیں ہے اور تو ظاہر ہے تیرے اور پر کوئی چیز نہیں ہے اور تو باطن ہے تیرے سوا کوئی چیز نہیں ہے ‘ پس تو ہمارا قرض ادا کر دے اور ہم کو فقر سے بےپردا کر دے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣١٧٢‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٥٠١‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٠٠٤٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٨٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٥٥ )
علامہ محمد بن خلیفہ الوشتانی الابی المالکی المتوفی ٨٢٨ ھ لکھتے ہیں : علامہ خطابی نے فرمايا : احسن قول یہ ہے کہ ”الأوّل“ سے مراد یہ ہے : جس کی ابتداء نہ ہو اور ”الآخر“ سے مراد یہ ہے کہ جس کی انتہاء نہ ہو اور ”الظاھر“ سے مراد ہے: جو بلاحجاب ہو اور ”الباطن“ سے مراد ہے : جو بلا اقتراب ہو ( جو مستور ہو) ‘ دوسرا قول یہ ہے: ”الأوّل“ سے مراد ہے: ابتداء اور آخر سے مراد ہے : انباء (خبر دینا) ‘ ظاہر سے مراد ہے : وہ دلائل سے ظاہر ہے اور باطن سے مراد ہے : وہ ادراکات سے باطن ہے ‘ تیسرا قول یہ ہے کہ اوّل سے مراد ہے : وہ قدیم ہے ‘ آخر سے مراد ہے : وہ باقی ہے ‘ ظاہر سے مراد ہے : وہ غالب ہے اور باطن سے مراد ہے : وہ مخلوق کے لیے لطیف اور رفیق ہے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٩ ص ٨١١‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ٥١٤١ )
امام نووى لکھتے ہیں :
”الظاہر“ اللہ تعالیٰ کے اسماء سے ہے اس کا معنی ہے: وہ غالب ہے اور اس کی قدرت کامل ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ وہ دلائل قطعیہ کے اعتبار سے ظاہر ہے اور باطن کے معنی ہے : وہ اپنے مخلوق سے مستور ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ وہ پوشیدہ چیزوں کا عالم ہے۔
علامہ ابو بکر بن الباقلانی نے کہا : ”الآخر“ کا معنی ہے : وہ اپنے علم اور اپنی قدرت اور اپنی دیگر صفات ازلیہ کے ساتھ باقی ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے فنا ہونے کے بعد باقی رہے گا اور یہ اہل حق کے مذہب کے خلاف ہے ‘ اہل حق یہ کہتے ہیں کہ تمام اجسام کے فنا ہونے سے ان کا عدم مراد نہیں ہے۔ (شرح مسلم للنوودی مع مسلم ج ١١ ص ٣١٨٦‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ٧١٤١ ھ)
﴿وَقَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ﴾
عطاء ‘ مجاہد اور کلبی نے کہا : اس میثاق سے مراد وہ میثاق ہے جب اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کی روحوں کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تھا اور فرمایا :
الست بربکم قالوابلی . (الاعراف ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہو ؟ سب نے کہا : کیوں نہیں
امام رازی نے اس قول پر یہ اعراض کیا ہے کہ اس میثاق کے بعد لوگوں کے لیے یہ عذر ہوسکتا تھا کہ ہم اس میثاق کو بھول چکے تھے ‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیج کر دوبارہ ان کو یاد دہانی کرائی۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی عقلوں میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید پر بکھری ہوئی نشانیوں کو دیکھ کر صاحب نشان تک پہنچ سکیں۔
انبیاء (علیہم السلام) اور ہر دور میں علماء مبلغین نے لوگوں کو پیغام حق سنا یا ‘ اس میثاق سے یہی پیغام مراد ہے۔
﴿لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ﴾
اکثر مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور شعبی اور زہری نے یہ کہا کہ اس سے مراد فتح حديبیہ ہے۔ قتادہ نے کہا : جن مسلمانوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور کفار سے قتال کیا ‘ وہ ان مسلمانوں سے بہت افضل ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور کفار سے قتال کیا ‘ کیونکہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان بہت کمزور تھے اور بہت ضرورت مند تھے اور اس وقت ان کے لیے مال خرچ کرنے میں اور اسلام کی راہ میں جہاد کرنے میں بہت مشقت تھی اور جس عبادت میں جتنی زیادہ مشقت ہو اس کا اجر وثواب اسی قدر زیادہ ہوتا ہے ‘ حدیث میں ہے:
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا : کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا : جس عمل میں سب سے زیادہ مشقت ہو۔ (النہایہ ج ١ ص ٢٢٤‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لیکن عمرہ کا اجر تمہارے خرچ کرنے اور تمہاری مشقت کے اعتبار سے ملے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٨٧١‘ سنن ابوداؤدرقم الحدیث : ١٨٧١‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٤٦٧٢)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! کونسا صدقہ افضل ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو تنگ دست آدمی مشقت برداشت کرکے دے اور دینے کی ابتداء اپنے عیال سے کرو۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٧٧٦١‘ المستدرک ج ١ ص ٤١٤)
﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗٓ اَجْرٌ كَرِيْمٌ﴾
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں یہ فی الواقع قرض نہیں ہے بلکہ کنایہ کی زبان میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اس کا بدلہ ضرور ملے گا، اس بدلے کا اندازہ احادیث کی رو سے دس سے لے کر سات سو اور در منثور کی روایت کے مطابق سات سو سے لے کر بیس لاکھ تک جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے تو جانبین میں طے ہوتا ہے کہ مقروض اتنی ہی رقم واپس لوٹا دے گا مگر یہاں پر اللہ تعالیٰ نے قرض سے اضعافاً مضاعفہ واپس کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا ” واللہ یضعف لمن یشاء “ تجربہ شاہد ہے کہ دنیا کے بادشاہ اپنی شان کے مطابق بہت کچھ دیتے ہیں پس اللہ تعالیٰ کی شان کی نہ حد ہے نہ اندازہ وہ ایک چھوٹے عمل پر اتنا بڑا اجر عطا فرماتا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے نصف کھجور کے عوض پہاڑوں جتنا ثواب۔ (عمدۃ القاری جلد 7)
﴿يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ﴾
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ بعض مومنوں کا نور اس قدر ہوگا کہ اس سے مدینہ سے عدن تک روشن ہوجائے گا اور بعض مومنوں کے نور سے صرف ان کے قدموں کی جگہ روشن ہوگی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٦٠٢٤ )
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : مومنوں کو ان کے نیک اعمال کے حساب سے نور دیا جائے گا ‘ بعض کا نور کھجور کے درخت جتنا ہوگا ‘ بعض کا نور مرد کی قامت کے برابر ہوگا ‘ کم سے کم نور انسان کے انگوٹھے کے برابر ہوگا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٦٠٢٥ )
﴿يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ ۚ﴾
قیامت کے دن منافقین کا جنت کے راستہ سے محروم ہونا
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : قیامت کے دن لوگ اندھیروں میں ہوں گے ‘ پھر اللہ تعالیٰ ایک نور بھیجے گا ‘ جب مومنین اس نور کو دیکھیں گے تو اس نور کی جانب چل پڑیں گے اور وہ نور جنت کی طرف رہنمائی کرے گا۔ پس جب منافقین دیکھیں گے کہ مومنین اس نور کی روشنی میں جنت کی طرف جارہے ہیں تو وہ بھی مومنوں کے پیچھے چل پڑیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ منافقین پر اندھیرا کردے گا۔ اس وقت منافیقن مومنوں سے کہیں گے : تم ہماری طرف دیکھو ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں ‘ کیونکہ ہم دنیا میں تمہارے ساتھ رہے تھے تو مومنین کہیں گے : تم اسی اندھیرے میں لوٹ جاؤ جہاں سے آئے تھے اور وہیں نور تلاش کرو۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٦٠٢٧ )
اس کے بعد فرمایا : پس ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی ‘ جس میں دروازہ ہوگا۔ اس کے اندرونی حصہ میں رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب عذاب ہوگا۔
قتادہ نے کہا : یہ دیوار جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگی۔
﴿يُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْاَمَانِيُّ حَتّٰى جَاۗءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَغَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ﴾
قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کا مکالمہ
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ منافقین ‘ مومنین کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ‘ ان کے ساتھ نکاح کرتے تھے اور ان کے ساتھ معاشرتی زندگی گزارتے تھے اور قیامت کے دن ان سب کو نور دیا جائے گا۔ پھر جب منافقین اس دیوار تک پہنچیں گے تو ان کا نور بجھ جائے گا ‘ اس وقت وہ ظلمت اور عذاب میں ہوں گے اور مومنین جنت میں ہوں گے ۔ اس وقت منافقین مومنوں سے کہیں گے : کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ نہیں رہتے تھے۔ ہم نماز پڑھتے تھے اور روزے رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرتے تھے اور وارث ہوتے تھے ‘ مومنین کہیں گے : ہاں ! تم اسی طرح تھے ‘ لیکن تم نے اپنی جانوں کو فتنہ میں ڈالا ‘ تم نے منافقت کی ‘ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مصائب کا انتظار کرتے رہے اور دین میں شک کرتے رہے اور تمہاری جھوٹی آرزوؤں نے تم کو فریب میں مبتلا رکھا اور تم کو اللہ کے راستہ سے روک لیا اور تم کو گمراہ کردیا ‘ حتیٰ کہ اللہ کا حکم آگیا اور تم کو عذاب میں ڈال دیا۔ (جامع البیان جز ٢٧ ص ٢٩٤‘ ملخصا ‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
﴿فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَّلَا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ ۭ﴾
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی و مشقی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
حضرت شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگوں سے سب سے پہلے جو چیز اٹھائی جائے گی وہ خشوع ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنوں کو اس چیز سے منع فرمایا ہے کہ وہ ان اہل کتاب سے مشابہت اختیار کریں جو یہود اور نصاریٰ تھے۔ جب ان پر زیادہ مدت گزر گئی تو انھوں نے اپنے ہاتھوں سے کتاب کو بدل ڈالا اور اس کے بدلہ میں تھوڑی قیمت خرید لی اور کتاب کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور مختلف نظریات اور مختلف اقوال کے در پے ہوئے اور اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید کی اور اپنے علماء اور پیروں کو اللہ کے بجائے رب مان لیا اور اس وقت ان کے دل سخت ہوگئے۔ وہ کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتے تھے اور نہ جنت کی بشارت اور دوزخ کی وعید سن کر ان کے دل نرم ہوتے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگوں کے عقائد فاسق تھے۔ ان کے دل فاسد ہوچکے تھے اور اللہ کی کتاب میں تحریف کرنا ان کی عادت بن چکی تھی۔ انھوں نے ان کاموں کو ترک کردیا تھا جن کو کرنے کا انھیں حکم دیا گیا تھا اور وہ ایسے کام کرتے تھے جن کو کرنے سے انھیں منع کیا گیا تھا ‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے امور اصلیہ اور امور فرعیہ میں سے کسی ایک چیز میں بھی ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٣٤٢‘ دارالفکر بیروت ١٤١٩ ھ)
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ وَالشُّهَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مومنین اور منافقین کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں مومنوں اور کافروں کا ذکر فرمایا ہے۔
صدیق صادق کا مبالغہ ہے ‘ یعنی جو بہت زیادہ صادق ہو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت قوی تصدیق کرنے والا ہو اور اس کا ثمرہ یہ ہے کہ وہ نہایت خوشی سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل کرے اور سخت سردی اور شدید گرمی میں اس پر نماز پڑھنا اور روزے رکھنا گراں اور دشوار نہ ہو۔ زکوۃ ادا کرنا اس پر سہل ہو اور حج کرنے کا اس کو شوق ہو اور اس کی آرزو جہاں کرنا اور میدان جہاد میں شہید ہونا اس کی تمنا ہو۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت مخصوص صدیقین کے لیے ہے اور وہ یہ ہیں: پچھلی امتوں میں سے صاحب یاسین اور آل فرعون کا مومن اور ہماری امت میں سے یہ ہیں : حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان ‘ حضرت علی ‘ حضرت زید ‘ حضرت طلحہ ‘ حضرت زبیر ‘ حضرت سعد اور حضرت حمزہ (رض) ۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٤٦٢‘ الجامع لاحکام القرآن جز ١٧ ص ٢٢٩ )
مجاہد نے کہا : ہر مومن صدیق اور شہید ہے اور اس آیت کی تلاوت کی۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٦٣٣)
ہر مومن کے شہید ہونے کی وجوہ
بعض علماء نے کہا کہ ہر مومن کے شہید ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کے سامنے گزشتہ انبیاء کے حق میں شہادت دیں گے ‘ قرآن مجید میں ہے :
ترجمہ : (البقرہ : ١٤٣ )۔ اور اسی طرح ہم نے تم کو بہترین امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں کے حق میں شہادت دینے والے ہو جاؤ۔
حسن بصری نے کہا : ہر مومن کو شہید اس لیے فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کے لطف و کرم پر شہید (حاضریا گواہ) ہوگا۔
اصم نے کہا : ہر مومن اس لیے شہید ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرکے اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا کفر کرنا اور اس کی نافرمانی کرنا حرام ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ ” والشھداء عند ربھم “ سے الگ جملہ ہے یعنی جو لوگ اپنے رب کے پاس شہید (حاضر) ہیں ‘ ان کے لیے ان کا اجر ہے اور ان کا نور ہے۔
اس قول کی بناء پر اس آیت میں شہداء سے مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور اس کی دلیل یہ آیت ہے :
ترجمہ : (النساء : ٤١ )۔۔ (اے رسول مکرم ! ) اس وقت آپ کی کیا شان ہوگی ! جب ہم ہر امت سے ایک شہید لائیں گے اور ہم آپ کو ان سب پر شہید بنا کر پیش کریں گے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں شہداء سے مراد وہ مسلمان ہیں جو اللہ کی راہ میں شہید ہوں گے اور اس صورت میں اس آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ہر مومن اللہ کے نزدیک صدیق اور شہید ہے۔
اس قول کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے :
حضرت جابر بن عتیک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا : تم لوگ کس چیز کو شہادت شمار کرتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ عزوجل کی راہ میں قتل کرنے کو ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر تو میری امت میں شہید بہت کم ہوں گے ۔ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا شہید ہے۔ طاعون میں مرنے والا شہید ہے۔ جو شخص اللہ کی راہ میں غرق ہوا وہ شہید ہے اور جو شخص اللہ کی راہ میں گر کر مرا وہ شہید ہے اور جو شخص اللہ کی راہ میں نمونیہ میں مرا وہ شہید ہے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٤٤١‘ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ طبع قدیم)
امام مقاتل بن سلیمان بلخی متوفی ١٥٠ ھ لکھتے ہیں :
یہ آیت حضرت ابو الدحداح انصاری (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا اور صدقہ کرنے کی ترغیب دی تو حضرت ابو الدحداح انصاری نے کہا : یا رسول اللہ ! میں نے اپنا باغ اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے صدقہ کردیا ‘ پھر وہ باغ میں آئے تو حضرت ام الدحداح باغ میں تھیں۔ انھوں نے کہا ؎ اے ام الدحداح ! میں نے اپنا باغ اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے صدقہ کردیا ہے ‘ تم اپنی بچیوں کا ہاتھ پکڑو اور ان کو باغ سے باہر نکالو ‘ پھر جب ان کی بچیوں کو تیز دھوپ لگی تو وہ رونے لگیں ‘ تو ان کی ماں نے کہا : روؤ مت ‘ تمہارے باپ نے اپنا باغ اپنے رب کے ہاتھ فروخت کردیا ہے ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے ابو الدحداح کی کھجوروں کے کتنے ہی خوشوں کو جنت میں دیکھا ہے ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی : ترجمہ (الحدید : ١٨)۔۔ ان کی نیکیوں کو بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے عزت والا اجر ہے۔
یعنی ان کو جنت میں اچھی جزاء ملے گی۔ تب فقراء صحابہ نے کہا : ہمارے پاس تو اتنا مال نہیں ہے جس سے ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں یا صدقہ کریں ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی : ترجمہ (الحدید : ١٩) اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے پاس صدیق ہیں۔
یعین جن لوگوں نے اللہ کی توحید کی تصدیق کی اور اس کے تمام رسولوں کی تصدیق کی وہی اللہ اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں اور انھوں نے ایک لحظہ کے لیے بھی شکایت نہ کی ہو۔ ترجمہ : (الحدید : ١٩) ۔۔ اور جو ان میں سے شہید ہوگئے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر اور نور ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی وہ دوزخ والے ہیں۔ (الحدید : ١٩) (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ٣ ص ٣٢٤‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٤ ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ جن کے پاس صدقہ کرنے اور جہاد کرنے کے وسائل نہ ہوں لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے میں صادق ہوں اور ان کی نیت میں اخلاص ہو اور ان کو صدقہ کرنے کا شوق اور شہادت کی تمنا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔
﴿اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۭ﴾
تفاخر کی مذمت میں حدیث
اور اس آیت میں ایک دوسرے پر فخر کرنے کا ذکر ہے ‘ اس کی ممانعت کے متعلق یہ حدیث ہے :
حضرت عیاض بن عمار (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی کی ہے کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آؤ ‘ حتیٰ کہ کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے اور نہ کوئی شخص دوسرے پر فخر کرے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٨٩٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢١٤)
مال اور اولاد میں کثرت کی طلب مطلقاً مذموم نہیں ہے
اور اس آیت میں مال اور اولاد میں کثرت کو طلب کرنے کا ذکر ہے کیونکہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین زیادہ بیٹوں اور زیادہ مال پر فخر کیا کرتے تھے اور مسلمان ایمان اور عبادت اور اطاعت کی کثرت کو قابل فخر شمار کرتے تھے۔
حضرت علی (رض) نے حضرت عمار (رض) سے فرمایا : دنیا نہ ملنے پر غم نہ کرو کیونکہ دنیا کی خاص چیزیں چھ ہیں : ماکولات ‘ مشروبات ‘ ملبوسات ‘ خوشبویات ‘ سواریاں اور بیویاں۔ سب سے خوش ذائقہ طعام شہد ہے اور وہ شہد کی مکھی کی قے ہے اور انسان سب سے زیادہ پانی پیتا ہے اور اس میں ان اور حیوان برابر ہیں اور ملبوسات میں سب سے افضل ریشم ہے اور وہ ریشم کے کیڑے کے تھوک سے بنتا ہے اور سب سے عمدہ خوشبو مشک ہے اور وہ ہرن کی ناف کا جما ہوا خون ہے اور بیویوں سے لذت جماع میں ہے اور وہ المبال فی المبال ہے یعنی ایک کی پیشاب گاہ کا دوسرے کی پیشاب گاہ میں داخل ہونا اور عورت خوب زینت اور میک اپ کرتی ہے تاکہ اس سے یہ قبیح کام کیا جائے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٧ ص ٢٣٠)
تاہم مطلقاً مال اور اولاد کی کثرت کو طلب کرنا مذموم نہیں ہے۔ اگر اللہ کی راہ میں اور نیک کاموں میں خرچ کرنے کے لیے مال کی کثرت کو طلب کیا جائے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں اضافہ کے لیے اولاد کی کثرت کو طلب کیا جائے تو یہ محمود ہے ‘ کیونکہ حدیث میں ہے :
حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے پوچھا : مجھے ایک ایسی عورت ملی ہے جس کا خاندان بہت اچھا ہے اور وہ خوبصورت بھی ہے لیکن اس کے ہاں بچے نہیں ہوتے۔ کیا میں اس سے نکاح کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ! پھر اس نے دوبارہ پوچھا تو آپ نے منع فرمایا ‘ پھر اس نے سہ بار پوچھا تو آپ نے فرمایا : اس عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جننے والی ہو ‘ کیونکہ میں دوسری امتوں کی بہ نسبت زیادہ امت والا ہوں گا۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٠٥٠‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٢٢٧ )
حضرت سہل بن حنیف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نکاح کیا کرو کیونکہ میں تمہاری وجہ سے دوسری امتوں کی بہ نسبت کثرت حاصل کرنے والا ہوں گا۔ الحدیث (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٥٧٤٢‘ حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ مجمع الزوائد ج ٣ ص ١١)
اسی طرح مال کی فضیلت کے متعلق بھی یہ حدیث ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صرف دو چیزوں پر رشک کرنا مستحسن ہے ‘ٔ ایک شخص کو اللہ نے مال دیا ہو اور اسخ اس مال کو راہ حق میں صرف کرنے پر مسلط کردیا ہو اور ایک شخص کو اللہ نے حکمت دی ہے اور وہ اس حکمت کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کی تعلیم دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨١٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٣٦٥١‘ دارالفکر)
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اولاد اور مال میں کثرت کو طلب کرنا مطلقاً مذموم نہیں ہے۔ یہ اس وقت مذموم ہے جب اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کے لیے ان کو طلب کیا جائے۔
﴿مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ﴾
مصیبت اور راحت کے وقت مسلمانوں کا طریقہ
ابو صالح بیان کرتے ہیں کہ جب سعید بن جبیر مکہ سے کوفہ آئے تاکہ ان کو واسط میں حجاج کے پاس لے جایا جائے تو ہم تین یا چار شخص ان کے پاس گئے۔ ان کو لکڑی کے ایک گھورے (کچرا کنڈی) میں رکھا ہوا تھا۔ ہم ان کے پاس بیٹھ گئے اور ہم میں سے ایک شخص رونے لگا۔ سعید نے پوچھا : تم کیوں رو رہے ہو ! اس نے کہا : میں آپ کو اس مصیبت میں دیکھ کر رو رہا ہوں۔ سعید نے کہا : مت روؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم تھا کہ ایسا ہونا ہے ‘ پھر یہ آیت پڑھی : ” ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نبراھا ان ذلک علی اللہ یسیر۔ “ (الحدید : ٢٢ ) (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٦ ص ١٩٥۔ رقم الحدیث : ٣٠٦١١‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ١٤١٦ ھ)
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان کا ذائقہ محسوس نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کو یہ یقین نہ ہو کہ اس پر جو مصیبت آئی ہے وہ اس سے ٹل نہیں سکتی تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی ہے وہ اس پر آ نہیں سکتی۔ پھر حضرت ابن مسعود نے یہ آیت پڑھی: {لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ} [الحديد: 23] (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٤٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٧‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٧٠٠)
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہر شخص غم گین بھی ہوتا ہے اور خوش بھی ہوتا ہے لیکن مومن اپنی مصیبت پر صبر کرتا ہے اور اپنی نعمت پر شکر کرتا ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٦٠٧١)
﴿الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ﴾
بخل کا حکم دینے والوں کے مصادیق اور بخل اور سخاوت کا معنی
سدی اور کلبی نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہود کے بڑے بڑے علماء ہیں جو سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کے بیان میں بخل کرنے کا حکم دیتے تھے اور ” توراۃ “ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفات لکھی ہوئی تھیں ‘ ان کو چھپاتے تھے اور اپنے دوسرے علماء کو بھی ان صفات کے بتانے سے منع کرتے تھے تاکہ لوگ اس سے متاثر ہو کر اسلام کو نہ قبول کرلیں اور اگر ایسا ہوگیا تو عوام یہودیوں سے ان کو نذرانے ملنے بند ہوجائیں گے۔
سعید بن جبیر نے کہا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو علم کو چھپاتے ہیں اور دوسروں کو بھی تعلیم دینے سے منع کرتے ہیں۔
زید بن اسلم نے کہا : اس سے مراد ہے ‘ جو لوگ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں مال خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں۔
عامر بن عبداللہ اشعری نے کہا : اس سے مراد ہے ‘ جو لوگ صدقہ اور خیرات کرنے سے اور حقوق العبار میں مال خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں۔
﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ﴾
البینات “ کی تفسیر میں دو قول ہیں: (١) مقاتل بن سلیمان نے کہا : اس سے مراد ہے ‘ معجزات ظاہرہ اور دلائل قاہرہ۔ (٢) مقاتل بن حیان نے کہا : ہم نے ان کو ان اعمال کے ساتھ بھیجا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور غیر اللہ سے اعراض کی ترغیب دیتے ہیں۔ امام رازی نے کہا : ان میں سے پہلا قول صحیح ہے کیونکہ رسولوں کی نبوت معجزات سے ثابت ہوتی ہے۔
﴿وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا ۚ﴾
علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ اس کا لغوی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”رھب“ کا معنی ہے ‘ ڈرنا اور خوف ‘ اور ” ترھیب “ کا معنی ہے ‘ عبادت کرنا اور ”رھبانیت“ کا معنی ہے ‘ عبادت کے افعال برداشت کرنے میں غلو اور زیادتی کرنا ‘ ”رھبان“ کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٢٦٩‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام میں ”رھبانیت“ نہیں ہے۔)کشف الخفاء ج ٢ ص ٣٧٧) ” رھبانیت “ کی اصل ” رھبۃ “ ہے ‘ جس کا معنی خوف ہے۔ نصاریٰ کے راہب دنیا کے اشغال اور اس کی لذتوں کو ترک کردیتے تھے اور ان میں رغبت نہیں کرتے تھے اور اپنے گھر والوں سے الگ رہتے تھے اور مشقتوں کو برداشت کرتے تھے ‘ حتیٰ کہ ان میں سے بعض خود کو خصی کرلیتے تھے اور اپنے گلوں میں زنجیریں ڈال لیتے تھے۔ اس کے علاوہ خود کو طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا کرتے تھے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام سے رہبانیت کی نفی کی اور مسلمانوں کو رہبانیت کے اختیار کرنے سے منع فرمایا۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جہاد کو لازم رکھو کیونکہ وہ اسلام کی رہبانیت ہے۔ (مسند احمد ج ٨٢ طبع قدیم ‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٠٠٠‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٩٤٩‘ مسند احمد ج ١٨ ص ٢٩٨‘ طبع جدید)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کے لیے رہبانیت ہوتی ہے اور اس کی امت کی رہبانیت اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٢٦٦ طبع قدیم ‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٤٢٠٤‘ شعب الایمان رقم الحدیث : ٤٢٢٧‘ مسند احمد ج ٢١ ص ٣١٧ طبع جدید)
نصاریٰ کا رہبانیت اختیار کرنا پھر اسے چھوڑ دینا
علامہ بغوی (رض) نے معالم التنزیل میں حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ میں ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا آپ نے فرمایا اے ابن ام عبد (یہ ابن مسعود (رض) کی کنیت ہے) تم جانتے ہو کہ بنی اسرائیل نے رہبانیت کہاں سے اختیار کی ؟ عرض کی اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ظالم بادشاہوں کا غلبہ ہوگیا، گناہوں میں لگ گئے جن پر اہل ایمان ناراض ہوئے، اہل ایمان نے نے ان سے تین بار جنگ کی اور ہر مرتبہ شکست کھائی جب ان میں سے تھوڑے سے رہ گئے تو کہنے لگے کہ اگر اسی طرح مقابلہ کرتے رہے تو یہ لوگ ہمیں فنا کردیں گے اور دین حق کی دعوت دینے والا کوئی نہ رہے گا، لہٰذا ہم زمین میں منتشر ہوجائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس نبی کو بھیج دے جس کی آمد کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ فرمایا ہے لہٰذا وہ پہاڑوں کے غاروں میں منتشر ہوگئے اور رہبانیت اختیار کرلی پھر ان میں بعض دین حق پر جمے رہے بعض کافر ہوگئے اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کریمہ ﴿وَ رَهْبَانِيَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا﴾ تلاوت فرمائی۔ (معالم التنزیل صفحہ ٣٠١: ج ٤)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں جو احکام تھے ان سے آگے بڑھ کر نصاریٰ نے ایسی چیزیں نکال لی تھیں جن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہیں دیا گیا تھا یہ چیزیں نفس کو مشقت میں ڈالنے والی تھیں، یہ لوگ نکاح نہیں کرتے تھے، کھانے پینے میں اور پہننے میں کمی کرتے تھے، تھوڑا بہت کھاتے تھے جس سے صرف زندہ رہ جائیں، پہاڑوں میں گرجے بنا لیتے تھے وہیں پر زندگیاں گزارتے تھے، ان کے اس عمل کو رہبانیت اور ان کو راہب کہا جاتا ہے۔ انہی راہبوں نے حضرت سلمان فارسی (رض) کو سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی خبر دی تھی اور انہی کی نشاندہی سے وہ مدینہ منورہ پہنچے تھے جس کا ذکر سورة الاعراف کی آیت ﴿يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ﴾ کے ذیل میں گزر چکا ہے ان لوگوں نے عوام سے اور ملوک سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کیونکہ اہل دنیا ان کو مجبور کرتے تھے کہ ہماری طرح رہو، یہ رہبانیت کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں دیا گیا تھا انھوں نے خود رہبانیت کو اختیار کرلیا تھا اور یہ سمجھا تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے :
قال البغوي في معالم التنزيل: ورھبانية ن ابتدعوها من قبل أنفسهم ما کتبنا علیھم الا ابتغاء رضوان الله يعني ولکنھم ابتغوا رضوان الله بتلک الرهبانية. 4/300، وفي روح المعاني: منصوب بفعل مضمر يفسرہ الظاهر أي وابتدعوا رهبانية ابتدعوا فهو من باب الاشتغال. تفسير الألوسي = روح المعاني (14/ 189)
راہب لوگ اپنی رہبانیت پر چلتے رہے پھر ان میں بھی دنیا داری گھس گئی ان کے نفوس نے انگڑائی لی اور عوام الناس کی طرح یہ لوگ بھی دنیا داری پر اتر آئے ان لوگوں کو انتظار تھا کہ آخر الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوجائے تو ہم ان پر ایمان لائیں پھر جب آپ کی بعثت ہوگئی اور آپ کو پہچان بھی لیا تو ان پر ضد سوار ہوگئی کہ ہم اپنے ہی دین پر رہیں گے ان میں سے تھوڑے لوگ ایمان لائے جن کے بارے میں فرمایا ﴿فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ﴾ (سو ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ان کا اجر ہم نے ان کو دے دیا) ﴿وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ (اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے یہ لوگ دین بھی بدل چکے تھے انجیل شریف بھی گم کرچکے تھے توحید کو چھوڑ کر تثلیث کا عقیدہ بنا لیا تھا۔ تین خدا ماننے لگے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے بھی قائل ہوگئے تھے جبکہ اس سے پہلے یہ جانتے تھے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر زندہ اٹھا لیا، جب آپ کے قتل کے قائل ہوئے تو یہ عقیدہ رکھ لیا کہ ان کا قتل ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگیا اس عقیدہ کی بنیاد پر ان کے پادری اتوار کے دن اپنے ماننے والوں کو چرچ میں بلا کر گناہوں کی معافی کرنے لگے، پرانے نصاریٰ کو رومن کیتھولک کہا جاتا ہے ان میں سے ایک فرقہ علیحدہ ہوا جسے پروٹسٹنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ منکرات، محرمات اور معاصی کے ارتکاب میں بہت زیادہ آگے بڑھ گئے،
موجودہ نصاریٰ کی بدحالی اور گناہگاری، دنیا کی حرص اور مخلوق خدا پر ان کے مظالم
نصاریٰ نے اپنے رسول سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا اتباع نہ کیا تو ان میں رحمت و شفقت نہ رہی اور نہ وہ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اب یہودیوں کی طرح وہ بھی اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں کافر تو ہیں ہی کفر کے ساتھ ساتھ دوسرے گناہوں میں موجودہ دور کے تمام انسانوں سے بہت آگے ہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو یہی لوگ گناہ والی زندگی سکھاتے ہیں، ننگے پہناوے، زناکاری، شراب خوری، جوا وغیرہ یہ سب نصاریٰ کے کرتوت ہیں چونکہ انھوں نے اپنا یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قتل (جس کے وہ جھوٹے مدعی ہیں) ہمارے گناہوں کا کفارہ بن گیا اس لیے ہر گناہ کرلیتے ہیں ان کے ملکوں میں نکاح ختم ہوتا جا رہا ہے، مردوں اور عورتوں میں دوستی کا رواج ہے، بےحیائی کے کام ہو رہے ہیں۔ بےباپ کے بچوں کی کثرت ہے اور بےنکاح کے مرد اور عورت کے ملاپ کو ان کے ملکوں کی پارلیمنٹ نے قانونی طور پر جائز کر رکھا ہے، بلکہ یورپ کے بعض ملکوں نے اپنے ہم جنسوں سے استلذاذ کو بھی جائز قرار دے دیا ہے۔
راہب اور راہبائیں بظاہر تو مجرد زندگی بسر کرنے کا عہد کرتے لیکن پھر فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر زناکاریوں میں ملوث ہوجاتے۔ ان کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ راہب خانوں کے تہہ خانے حرامی بچوں کے قبرستان بن گئے۔ History of Christian Monasticism پر لکھی گئی کتابوں میں اس بارے میں لرزہ خیز تفصیلات ملتی ہیں۔ دراصل انسان کے جنسی جذبے کو غیر فطری طور پر دبانا ایسا ہی ہے جیسے بہتے دریا پر بند باندھنا۔ دریا کے پانی کو مناسب راستہ دے کر تو اس پر بند باندھا جاسکتا ہے لیکن دریا کے پورے پانی کو روکنا کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔ ظاہر ہے اگر کہیں کوئی ایسی کوشش ہوگی تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ یہ لوگ خود تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کا جنسی جذبہ بہت منہ زور ہے۔
سگمنڈ فرائڈ عیسائیوں کے گھر کا آدمی ہے اور اس کی گواہی گویا ” شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا “ کا درجہ رکھتی ہے۔ انسان کے جنسی جذبے کو وہ تمام جذبات پر غالب اور باقی تمام جذبات کا محرک قرار دیتا ہے۔ اگرچہ میں ذاتی طور پر فرائڈ کے اس تجزیے سے متفق نہیں ہوں اور میری یہ رائے اکیلے فرائڈ یا اس کے اس تجزیے کے بارے میں ہی نہیں ‘ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بیشتر مغربی فلاسفر انسانی زندگی پر فلسفیانہ بحث کے دوران اکثر غلط بینی اور کج روی کا شکار ہوگئے ہیں۔ جیسے فرائڈ کو ہر طرف سیکس ہی سیکس نظر آیا ‘ کارل مارکس کی نظریں انسان کے پیٹ پر مرکوز ہو کر رہ گئیں ‘ جبکہ ایڈلر صاحب کو انسان کے بڑا بننے کا جذبہ (urge to dominate) ہی ہر طرف چھایا ہوا دکھائی دیا۔
بہرحال مذکورہ فلاسفرز نے اپنے اپنے مطالعے اور تجزیے میں انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا ہے اور بہت سے دوسرے اہم پہلوؤں کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے۔ لہٰذا ان کی ایسی آراء جزوی طور پر ہی درست تسلیم کی جاسکتی ہیں۔ بہرحال اگر یہ درست نہ بھی ہو کہ انسان کا جنسی جذبہ اس کے تمام جذبوں پر غالب اور اس کے باقی تمام جذبوں کا محرک ہے تو بھی اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ انسان کا یہ جذبہ بہت منہ زور ہے اور اس کو غیر فطری طریقے سے قابو میں لانا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس جذبے کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے نکاح کا فطری راستہ تجویز کیا ہے۔ رہبانیت کے لیے اختیار کیے گئے طور طریقے زیادہ تر چونکہ غیر فطری تھے اس لیے اسے اختیار کرنے والے لوگ اس کا حق ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
عجیب بات ہے کہ جو بات پارلیمنٹ پاس کر دے پوپ اس کے خلاف ذرا سا بھی لب نہیں ہلا سکتے، کیا حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہ فرمایا تھا کہ زنا کو عام کرلینا اور اسے قانونی جواز دے دینا
یورپ اور امریکہ کے ممالک کے دیکھا دیکھی ایشیا اور افریقہ کے ممالک بھی انھیں کی راہ پر چلنے لگے ہیں پوری دنیا کو گناہگاری کی زندگی سکھانے کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے نام سے اپنی نسبت ظاہر کرتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اس دین سے بری ہیں جو مسیحیت کے دعویداروں نے اپنا رکھا ہے۔
حضرت مسیح (علیہ السلام) نے توحید کی دعوت دی، پاک دامن رہنے کو فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد ایک نبی آئیں گے ان پر ایمان لانا، وہ نبی تشریف لے آئے یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسیحی ان پر ایمان نہیں لاتے۔ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے فرمان کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں مشنریوں کا جال پھیلا رکھا ہے اور مسلمانوں کو اپنے بنائے ہوئے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں جبکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ (متی کی انجیل)
بہت سی تحریفات و تغیرات کے باوجود اب بھی انجیل یوحنا میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بشارتیں موجود ہیں۔ باب نمبر ١٤ میں ہے کہ ” میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔ “
پھر چند سطر کے بعد ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی پیشین گوئی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں ” اور پھر تھوڑی دیر میں مجھے دیکھ لو گے اور یہ اس لیے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں “ ﴿بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ﴾ کی طرف اشارہ ہے جو قرآن مجید میں سورة نساء میں مذکور ہے۔
پھر چند سطر کے بعد دنیا میں تشریف لانے کا ذکر ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ” میں نے تم سے یہ باتیں اس لیے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاؤ، دنیا میں مصیبتیں اٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔ “
اے نصر انیو ! حضرت مسیح (علیہ السلام) نے جو فرمایا کہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا ہوں تم ان کے سوا کسی کے پاس نہ جانا، دنیا بھر میں مشنریاں قائم كركے اس کی خلاف ورزی نہ کرو اور دین اسلام قبول کرو۔
قرآن مجید میں حضرت مسیح کے دنیا سے اٹھائے جانے کا اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیثوں میں ان کے دوبارہ تشریف لانے کا اور طبعی موت سے وفات پانے کا ذکر ہے موجودہ انجیل کی عبارتوں سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے، مسیحیوں پر لازم ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی باتیں مانیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور اپنے بنائے ہوئے دین پر نہ جمے رہیں اور مسلمانوں کو اپنے کفریہ دین کی دعوت نہ دیں، تعصب میں آکر اپنی آخرت برباد نہ کریں۔
یہود و نصاریٰ کا حق سے انحراف اور اسلام کے خلاف متحدہ محاذ
یہود و نصاریٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچان لیا لیکن بہت کم ایمان لائے۔ یہودی مدینہ منورہ ہی میں رہتے تھے بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں اسی لیے آکر آباد ہوئے تھے کہ یہاں آخر الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے ہم ان پر ایمان لائیں گے لیکن آپ کی تشریف آوری کے بعد آپ کو پہچان لینے کے باوجود ایمان نہیں لائے۔ ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖٞ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ﴾ چند ہی یہودیوں نے اسلام قبول کیا جن میں عبداللہ بن سلام (رض) بھی تھے انھوں نے فرمایا: عرفت أن وجھه لیس بوجه کذاب کہ میں نے آپ کا چہرہ انور دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ ١٦٨)
نصاریٰ کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا علم ہے حبشہ کا نصرانی بادشاہ نجاشی اور اس کے علاوہ بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے لیکن عام طور پر نصاریٰ بھی اسلام سے منحرف رہے اور آج تک منحرف ہیں۔ ہندوستان کے مشرکوں نے لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کیا لیکن نصاریٰ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ اکاد کا افراد مسلمان ہوتے رہتے ہیں لیکن عموماً انکار پر ہی تلے ہوئے ہیں، اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں جہاں کہیں مسلمان غریب ہوں وہاں مال تقسیم کر کے مانوس کرتے ہیں اور سکول ہسپتال کھول کر مشنریاں قائم کر کے کفر کی دعوت دیتے ہیں (جس دین کی دعوت مال کا لالچ دے کر ہو اس کے باطل ہونے کے لیے یہی کافی ہے)
سورة آل عمران کی آیت ﴿فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ کی تفسیر میں نصاریٰ نجران کا واقعہ ہے۔ وہ لوگ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے مباہلہ کی گفتگو ہوئی ان کا جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی مرسل ہیں اگر ان سے مباہلہ کرو گے تو تمہارا ناس ہوجائے گا اگر تمہیں اپنا دین چھوڑنا نہیں ہے تو ان سے صلح کرلو اور اپنے شہروں کو واپس چلو۔ یہ لوگ مباہلہ پر راضی نہ ہوئے اور اپنے دین پر قائم رہے، یہ جانتے ہوئے کہ محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں ایمان نہ لائے اور ایمان سے رو گردانی کر بیٹھے اور آج تک ان کا یہی طریقہ رہا ہے، حضرات علماء کرام نے بار ہامناظروں میں ان کو شکست دی ان کی موجودہ انجیل میں تحریف ثابت کی، بار ہا ان کے دین کو مصنوعی خود ساختہ دین ثابت کردیا ہے، لیکن وہ دنیاوی اغراض سیاسیہ اور غیر سیاسیہ کی وجہ سے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اور دنیا بھر میں فساد کر رہے ہیں جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اس وقت سے لے کر آج تک ان کا یہی طریقہ رہا ہے۔
یہودی نصاریٰ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے دین کو غلط جانتے ہیں لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آپس میں گٹھ جوڑ ہے اور اسلام کے مٹانے کے لیے دونوں نے اتحاد کر رکھا ہے لیکن پھونکوں سے یہ چراغ نہیں بجھایا جاسکتا ﴿وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ﴾ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ﴿وَ جَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً﴾ (اور جنہوں نے عیسیٰ بن مریم کا اتباع کیا ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحمت رکھ دی) جن لوگوں نے اتباع کیا تھا ان میں رحمت و شفقت تھی اب تو ان سے جھوٹی نسبت رکھنے والوں نے کئی سو سال سے پورے عالم کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے ملک گیری کے حرص نے ان سے ایشیائی ممالک پر حملے کرائے، ملکوں پر قبضے كئے ١٨٥٧ ء میں ہندوستان کے لوگوں کو کس طرح ظلم کا نشانہ بنایا ؟ تاریخ دان جانتے ہیں اور ہیروشیما پر جنہوں نے بم پھینکا تھا کیا یہ وہی لوگ نہ تھے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف نسبت کرتے ہیں؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد اللہ تعالیٰ رسول بھیجے گا جس کا نام احمد ہوگا کچھ عرصے تک ان کی آمد کے انتظار میں رہے جب وہ تشریف لے آئے تو ان کی رسالت کا انکار کردیا۔ ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ﴾ نصاریٰ اپنی کتاب بھی کھو بیٹھے اس میں تحریف کردی اور بالکل ہی گم کردی۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع بھی نہ کیا ہدایت سے بھی رہ گئے اور رحمت اور شفقت بھی دلوں سے نکل گئی، اب تو تین خداؤں کا عقیدہ ہے اور کفارہ کا سہارا ہے اور ہر گناہ میں لت پت ہیں نہ ان میں رہبان ہیں نہ قسیسین ہیں جو ان کے مذہب کے بڑے ہیں وہ بھی ان کی حکومتوں اور سیاستدانوں کا موڈ دیکھتے ہیں، کوئی حق کلمہ نہیں کہہ سکتے اور گناہوں پر نکیر نہیں کرسکتے، سیدھے لفظوں میں یہ لوگ بھی اپنی حکومتوں کے آلہء کار ہیں۔
فائدہ: رہبانیت کا اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کو حکم نہیں دیا تھا لیکن انھوں نے یہ سمجھ کر اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اپنے طور پر اختیار کرلی تھی پھر اس کو نباہ بھی نہ سکے، رہبانیت کو بھی چھوڑ بیٹھے اور جو شریعت انھیں دی گئی تھی اس کی بھی پاسداری نہ کی، بلکہ اسے بدل دیا اعمال صحیحہ صالحہ پر تو کیا قائم رہتے توحید کے قائل نہ رہے تین خدا مان لئے، پھر ان میں سے ایک خدا کے مقتول ہونے کا عقیدہ بنا لیا اور یہ سمجھ لیا کہ ان کا قتل ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگیا۔
یہ رہبانیت نہ ان کے لیے مشروع تھی نہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والتحیہ کے لیے مشروع ہے۔ شریعت محمدیہ میں آسانی رکھی گئی ہے تنگی نہیں ہے۔ سورة البقرہ میں فرمایا : ﴿يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ (اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اور سختی کا ارادہ نہیں فرماتا) ۔ اور سورة الاعراف میں فرمایا : ﴿وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ وَ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ (رسول نبی امی ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال وخبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر جو بوجھ کے طوق تھے ان کو دور کرتا ہے) ۔
سورة المائدہ میں فرمایا ﴿مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ﴾ (اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے)
سورة الحج میں فرمایا ﴿هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (اللہ نے تمہیں چن لیا اور تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی) ان آیات میں اس بات کی تصریح ہے کہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایسے احکام مشروع نہیں كئے گئے جن میں تنگی ہو، نصاریٰ کی طرح رہبانیت اختیار کرنے کی اجازت یا فضیلت نہیں ہے۔ حضرت عثمان بن مظعون (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہمیں خصی ہونے یعنی قوت مردانہ زائل کرنے کی اجازت دیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں ہیں جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی بنے، بلاشبہ میری امت کا خصی ہونا (یعنی بیوی نہ ہونے کی صورت میں شہوت کو دبانا) یہ ہے کہ روزے رکھا کریں اس کے بعد عرض کیا کہ ہمیں سیاحت (یعنی سیر وسفر) کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا بیشک میری امت کی رہبانیت یہ ہے کہ نماز کے انتظار میں مسجدوں میں بیٹھے رہا کریں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٩)
معلوم ہوا کہ اس امت کو نصاریٰ والی رہبانیت اختیار کرنے کی اجازت نہیں قدرت ہوتے ہوئے نکاح نہ کرنا، معاش کا انتظام نہ کرنا، مخلوق پر نظر رکھنا، مانگ کر کھانا، سردی گرمی سے بچنے کا انتظام نہ کرنا، بیوی بچوں کے حقوق ادانہ کرنا، ان چیزوں کی شریعت محمد یہ میں اجازت نہیں ہے۔ شریعت کے مطابق زندگی گزاریں، حرام مال نہ کمائیں، شریعت کے مطابق لباس پہنیں، اسراف (فضول خرچی) اور ریا کاری خود نمائی نہ ہو، کھانے پینے میں حلال و حرام کا خیال ہو کسی کا حق نہ دبائیں کسی طرح کی خیانت نہ کریں اگر کوئی شخص شریعت کے مطابق اچھا لباس پہن لے تو اس کی گنجائش ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : کلوا و اشرابوا وتصدقوا مالم يخالط إسراف ولا مخيلة. (مشکوۃ المصابیح ص ٣٧٧)
یعنی کھاؤ اور پیو اور صدقہ کرو اور پہنو جب تک کہ اس میں اسراف (فضول خرچی) اور شیخی بگھا رنانہ ہو۔
اگر کوئی شخص سادگی اختیار کرے معمولی لباس پہنے تو یہ بھی درست ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سادگی پسند تھی، عموماً آپ کا یہی عمل تھا۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس نے قدرت ہوتے ہوئے خوبصورتی کا کپڑا تواضع کی وجہ سے پہننا چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ اسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا اور جس نے اللہ کے لیے نکاح کیا اللہ تعالیٰ اسے شاہانہ تاج پہنائے گا۔ (مشکوٰۃ صفحہ ٣٧٧)
واضح رہے کہ سادہ کپڑے لوگوں سے سوال کرنے کے لیے یا بزرگی اور درویشی کا رنگ جمانے کے لیے نہ ہوں اور اس کو طلب دنیا کا ذریعہ بنانا مقصود نہ ہو۔ مومن بندہ فرض اور نفل نماز پڑھے فرض اور نفل روزے رکھے راتوں کو کھڑے ہو کر نفلی نمازیں پڑھے۔ یہ چیزیں رہبانیت میں نہیں آتی ہیں۔
حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی سختی فرمائے گا، ایک جماعت نے اپنی جانوں پر سختی کی اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی فرما دی۔ یہ انھیں لوگوں کے بقایا ہیں جو گرجوں میں موجود ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿رَهْبَانِيَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ﴾ (رواہ ابودود صفحہ ٣١٦: ج ٢)
حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ تین شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اندرون خانہ عبادت کے بارے میں معلومات حاصل کریں جب ان کو آپ کی عبادت کے بارے میں باخبر کردیا گیا تو انھوں نے اسے کم سمجھا ان کے دلوں میں یہ بات آئی کہ ہم کہاں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں آپ کا تو اللہ تعالیٰ نے اگلا پچھلا سب معاف کردیا یہ تھوڑی عبادت آپ کے لیے کافی ہوسکتی ہے ہمیں تو بہت زیادہ ہی عبادت کرنی چاہیے پھر ان میں سے ایک نے کہا میں تو ہمیشہ راتوں رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا بےروزہ نہ ہوں گا تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا کبھی نکاح نہیں کروں گا، یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے آپ نے فرمایا کیا تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے ؟ اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے بڑھ کر متقی ہوں لیکن میں (نفلی) روزے بھی رکھتا ہوں بےروزہ بھی رہتا ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، سو جو شخص میری سنت سے ہٹے وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٧٥٨: ج ٢)
یاد رہے کہ شریعت محمد یہ کے آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے والے اس پر عمل کرسکتے ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ نفس کی خواہش کے مطابق جو چاہو کرلو۔ اگر ایسا ہوتا تو شریعت میں حلال و حرام کی تفصیلات ہی نہ ہوتیں، نہ نماز فرض ہوتی، نہ گرمی کے زمانوں میں رمضان کے روزہ رکھنے کا حکم ہوتا، نہ جہاد کا حکم ہوتا نہ حج کا، خوب سمجھ لیں، شریعت اسلامیہ کے آسان ہونے کا مطلب جو ملحدین نے نکالا ہے کہ جو چاہو کرلو یہ ان کی گمراہی ہے۔
حضرت ابو امامہ (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کی ایک جماعت میں نکلے وہاں راستہ میں ایک غار پر گزر ہوا وہاں پانی تھا اور سبزی تھی ایک شخص کے دل میں یہ بات آئی کہ وہیں ٹھہر جائے اور دنیا سے علیحدہ ہو کر زندگی گزارے، اس نے اس بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی، آپ نے فرمایا بیشک میں یہودیت اور نصرانیت لے کر نہیں بھیجا گیا لیکن میں ایسی شریعت لے کر بھیجا گیا ہوں جو بالکل سیدھی ہے اور آسان ہے قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے ایک صبح یا ایک شام کو اللہ کی راہ میں چلا جانا، دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سب سے افضل ہے اور جہاد کی صف میں تمہارا کھڑا ہوجانا ساٹھ سال کی نماز سے افضل ہے۔ (رواہ احمد کمافی مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٣٣٤)
دیکھو اپنی شریعت کو آسان بھی بتایا اور ساتھ ہی جہاد کی صف میں کھڑا ہونے کی فضیلت بیان فرما دی۔ شریعت اسلامیہ میں اعتدال ہے، نہ دنیا داری ہے، نہ ترک دنیا ہے۔ شریعت کے مطابق حلال چیز سے استفادہ کرنا حلال ہے۔ خبائث اور انجاس سے پرہیز کریں تواضع مامور بہ ہے سادگی مرغوب ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.