ترجمہ وتفسير سورہ حاقہ
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
الْحَاقَّةُ ﴿1﴾
وہ ہونے والی چیز
مَا الْحَاقَّةُ ﴿2﴾
کیسی کچھ ہے وہ ہونے والی چیز،
وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ ﴿3﴾
اور آپ کو کیا خبر کہ کیسی کچھ ہے وہ ہونے والی چیز ۔
كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ ﴿4﴾
ثمود اور عاد نے اس کھڑکھڑانے والی چیز یعنی قیامت کی تکذیب کی۔
فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴿5﴾
تو ثمود ایک خوفناک آواز سے تباہ کردیئے گئے۔
وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ﴿6﴾
اور عاد تند و تیز ہوا (زبردست آندھی) کے ذریعہ ہلاک کئے گئے۔
سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴿7﴾
جس کو خدا نے ان پر سات رات اور آٹھ دن برابر لگاتار مسلط کردیا تھا سو اے مخاطب تو لوگوں کو ان رات دنوں میں ایسا پچھڑا ہوا دیکھتا جیسے وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے پڑے ہیں۔
فَهَلْ تَرَىٰ لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ ﴿8﴾
سو کیا اے مخاطب اب تجھ کو ان میں سے کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے؟
وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ﴿9﴾
فرعون اور اس سے پہلے الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والوں (قوم لوط (علیہ السلام)) نے بھی برے بڑے گناہ کئے تھے
فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَابِيَةً ﴿10﴾
چنانچہ ان مذکورہ قوموں نے اپنے رب کے ہر پیغمبر کی جو ان کی طرف بھیجا گیا نافرمانی کی آخرکار اللہ تعالیٰ نے ان کی نہایت سخت گرفت کی۔
إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ﴿11﴾
بیشک جب پانی میں طغیانی آگئی تو ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کردیا
لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ ﴿12﴾
تاکہ ہم اس واقعے کو تمہارے لیے سبق آموز بنادیں اور یاد رکھنے والے کان اسے (سن کر) یاد رکھیں۔
فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ ﴿13﴾
پھر جب صور میں ایک دم پھونک ماری جائے گی
وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً ﴿14﴾
اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جائیں گے اور ایک ہی چوٹ میں وہ ریزہ ریزہ کردئیے جائیں گے
فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ﴿15﴾
تو اس روزوہ ہونے والی چیز یعنی قیامت واقع ہوجائیگی۔
وَانْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ ﴿16﴾
اور آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس دن بالکل بودا اور کمزور ہوگا۔
وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْجَائِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ ﴿17﴾
اور فرشتے اس کے کناروں پر سمٹ آئیں گے اور اس دن آپ کے رب کے عرش کو آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔
يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنْكُمْ خَافِيَةٌ ﴿18﴾
اس دن تم (اپنے رب کے سامنے) پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی بات اس سے چھپی نہ رہے گی۔
فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ ﴿19﴾
جس شخص کا نامہ اعمال داہنے ہات میں دیا جائے گا وہ کہے گا کہ آؤ دیکھو میرا نامہ اعمال پڑھو۔
إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ ﴿20﴾
(وہ خوشی سے کہے گا کہ) مجھے اس بات کا یقین تھا کہ مجھے میرا حساب پیش آنے والا ہے۔
فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ ﴿21﴾
تو وہ شخص خوب مزے کے عیش میں ہوگا،
فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ ﴿22﴾
بہشت بریں میں ہوگا،
قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ ﴿23﴾
جس کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے ،
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ ﴿24﴾
کھاؤ اور پیو مزے کے ساتھ ان اعمال کے بدلے میں جو تم گزشہ ایام میں کرچکے ہو۔
وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ ﴿25﴾
اور رہا وہ جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، تو وہ کہے گا کیا اچھا ہوتا جو مجھے میرا نامہ اعمال ہی نہ ملتا،
وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ ﴿26﴾
اور مجھے خبر ہی نہ ہوتی کہ میرا حساب کیا ہے،
يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ ﴿27﴾
اے کاش کہ وہ پہلی موت ہی آخری فیصلہ کن موت ہوتی۔
مَا أَغْنَىٰ عَنِّي مَالِيَهْ ۜ ﴿28﴾
میرا مال بھی میرے کچھ کام نہ آسکا۔
هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ ﴿29﴾
میراسارا اقتدار تباہ ہوگیا
خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ﴿30﴾
حکم ہوگا) اس کو پکڑ لو اور اس کے گلے میں طوق ڈال دو
ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ﴿31﴾
پھر (لے جاکر) اسے جہنم میں جھونک دو
ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ ﴿32﴾
پھر اسے ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑ دو
إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ ﴿33﴾
کیونکہ یہ خدائے بزرگ و برتر پر ایمان نہ لاتا تھا
وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴿34﴾
اور یہ محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔
فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ ﴿35﴾
پھر آج کے دن اس کی ہمدردی کرنے والا کوئی دوست تک نہیں ہے
وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ ﴿36﴾
اور اس کو سوائے زخموں کے دھو ون کے اور کوئی کھانا بھی میسر نہ ہوگا
لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ ﴿37﴾
جس کو گنہگاروں کے سوا اور کوئی نہیں کھائے گا۔
فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿38﴾
پھر میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی (بھی) جن کو تم دیکھتے ہو۔
وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ﴿39﴾
اور (ان چیزوں کی (بھی) جن کو تم نہیں دیکھتے۔
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿40﴾
کہ یہ (قرآن مجید) بلاشبہ رسول کریم کا گفتار ہے۔
وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ ﴿41﴾
اور نہ یہ کسی شاعری کی (بنائی ہوئی) بات ہے (مگر) تم لوگ کم ہی یقین کرتے ہو
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ﴿42﴾
اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، مگر تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو
تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿43﴾
یہ تو رب العالمین کا اتارا ہواکلام ہے
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿44﴾
اور اگر اس ﴿نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﴾ نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی
لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿45﴾
تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے
ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿46﴾
پھر ان کی شہ رگ کاٹ دیتے ۔
فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿47﴾
پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔
وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ ﴿48﴾
بلاشبہ یہ قرآن اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے ایک نصیحت ہے۔
وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْكُمْ مُكَذِّبِينَ ﴿49﴾
بیشک ہم خوب جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض اس قرآن کو جھٹلانے والے ہیں۔
وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿50﴾
مگر بیشک یہ قرآن کفار کے لیے (سوائے) حسرت و ندامت کے (اور کچھ نہیں)
وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ﴿51﴾
اور بلاشبہ یہ قرآن سراسر حق اور سچ ہے۔
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿52﴾
سو اپنے عظیم الشان پروردگار کے نام کی تسبیح کیجئے۔
تشريح
”الحاقة“ قیامت کے ناموںمیں سے ایک نام ہے۔
امام ابن مردویہ اور امام بیہقی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سورة الحاقہ ملکہ میں نازل ہوئی ہے۔
امام طبرانی نے حضرت ابو ذر (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز میں سورة الحاقہ اور اس کی مثل سورتیں پڑھا کر سے تھے۔ ( الدرالمنثورج ٨ ص ٢٤٥، دار احیاء، التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
امام احمد اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ اسلام لانے سے پہلے ایک دن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاش میں نکلا، آپ مجھ سے پہلے مسجد کی طرف جا چکے تھے، میں آپ کے پیچھے کھڑاہو گیا، آپ نے سورة الحاقہ پڑھنی شروع کردی، مجھے قرآن مجید کی عبارت سے بہت تعجب ہوا، میں نے دل میں کہا : اللہ کی قسم ! یہ ضرور شاعر ہیں جیسا کہ قریش کہتے ہیں، تب آپ نے یہ آیات پڑھیں۔
﴿اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ، وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْـلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ﴾ (الحاقة : 40، 41 )
بےشک یہ قرآن ضرور رسول کریم کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے، تم لوگ بہت کم ایمان لاتے ہو۔
پھر مجھے خیال آیا کہ آپ کاہن ہیں، تب آپ نے یہ آیات پڑھیں۔
﴿وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍط قَلِیْـلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ، تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰـلَمِیْنَ﴾ (42، 43 )
اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے۔ یہ رب العلمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔
آپ نے آخر تک سورة الحاقہ پڑھی اور اس واقعہ سے اسلام کی صداقت میرے دل میں بیٹھ گئی۔
(مسند احمد ج ١ ص ١٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ١ ص ٢٦٢، رقم الحدیث : ١٠٧، مؤسستہ الرسالہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، حافظ ہیثمی نے کہا : اس کی سند کے رجال ثقہ ہیں مگر شریح بن عبید کے حضرت عمر سے ملاقات نہیں ہوئی، مجمع الزوائد ج ٩ ص ٦٢ )
﴿فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِيَةِ﴾ قوم ثمود کی عذاب سے ہلاکت
اس آیت میں ”طاغبة“ کا لفظ ہے ”طاغبة“ کا معنی ہے: جو چیز شدت اور قوت میں حد سے متجاوز ہو، اور ” طاغبة “ کا موصوف محذوف ہے اور وہ ”صبحة“ ہے اس کا معنی ہے : آواز اور چیخ یعنی وہ ایسی چیخ تھی جو تمام چیخوں سے قوت اور شدت میں حد سے زیادہ تھی اور وہ خوفناک چنگھاڑ تھی، اللہ تعالیٰ نے اس چنگھاڑ کی اثر آفرینی کے متعلق فرمایا ہے:
﴿اِنَّـآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَـکَانُوْا کَہَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ﴾ (القمر : 31)
ہم نے ان پر ایک چنگھاڑ بھیجی پھر وہ ایسے ہوگئے جیسے باڑ بنانے والے کی روندگی ہوئی گھاس ہو۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”طاغیة“ سے مراد بجلی کی کڑک ہے یعنی وہ حد سے زیادہ ہول ناک کڑک تھی۔
بعض مفسرین نے کہا کہ ”طاغیة“ طغیان سے بنا ہے اور اس کا معنی ہے: سرکشی، یعنی قوم ثمود کو ان کی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کردیا گیا کیونکہ قوم ثمود نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب کی اور اللہ تعالیٰ کا کفر کیا۔
اس آیت کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ قوم ثمود کو ایک سرکش گروہ کی وجہ سے قتل کردیا گیا، جس نے اس اونٹنی کو کونچیں کاٹ دیں تھیں ( ایڑی کے اوپر کے پٹھوں کو کونچیں کہتے ہیں) جب اونٹنی پانی پی کر لوٹ رہی تھی تو وہ اس کی گھات میں بیٹھے ہوئے تھے، اس کے راستہ میں ایک چٹان تھی جس کے نیچے قدار نامی ایک شخص چھپ کر بیٹھا ہوا تھا، جب وہ اس کے پاس سے گزری تو مصدع نام کے ایک شخص نے اس کی پنڈلی پر تاک کر تیر مارا اور قدار نے تلوار سے اس کی کونچیں کاٹ دیں، اونٹنی کو ہرچند کہ وہ آدمیوں نے مل کر قتل کیا تھا لیکن چونکہ پوری قوم ثمود اس شر کسی، شرارت اور بغاوت میں ان کے ساتھ تھی، اس لیے اس سرکشی کی وجہ سے پوری قوم کو ہلاک کردیا گیا۔
﴿وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ﴾ قوم عاد کی عذاب سے ہلاکت
اس آیت میں ”ریح“ ”صرصر“ اور ”عاتیة“ کے الفاظ ہیں ”ریح“ کے معنی ہیں : آندھی اور ”صرصر“ کے معنی ہیں : بہت تند و تیز آندھی جس کے چلنے سے صر صر کی آواز آرہی ہو، گرم لو اور باوسموم کو بھی ” صرصر “ کہتے ہیں، یہ بھی کا گیا ہے کہ سخت سرد ہوا کے لیے اس کا استعمال عام ہے۔ (لسان العرب ج ٨ ص ٢٢٤، دارصادر، بیروت، ٢٠٠٣ ء)
”عاتیة“ کا معنی ہے: حد سے متجاوز، یہ باد صر صر کی صفت ہے، جو قوم عاد پر ان کی سرکشی کی وجہ سے بھیجی گئی تھی، یہ ہوا اس قدر تیز تھی کہ فرشتوں کے کنٹرول سے باہر تھی، یہ یخ اور زنا ٹے دار ہوا تھی جس نے قوم عاد کو ہلاک کردیا۔
پھر فرمایا : (اللہ نے) اس آندھی کو ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلط رکھا۔
اس آیت میں ”سخرھا“ کا لفظ ہے، مقاتل نے کہا : اس کا معنی ہے : اس آندھی کو ان پر مسلط کردیا، دوسرے مفسرین نے کہا : اس آندھی کو ان کے اوپر بھیج دیا اور یہ سب اللہ کی تقدیر اور اس کی قدرت سے ہوا، اور اس میں ”حسوماً“ کا لفظ ہے، یعنی ان سات دنوں اور آٹھ دنوں میں وہ آندھی مسلسل چلتی ہیں ”حسوم“ کا لفظی معنی ہے : کاٹنے والی، اسی وجہ سے تلوار کو حسام کہتے ہیں اور یہ آندھی بھی ان کی روح اور جسم کا رشتہ کاٹنے والی تھی اس لیے اس کو حسوم فرمایا : دوسری وجہ یہ ہے کہ اس آندھی نے ان کی ہر خیر اور ہر برکت کو جڑ سے کاٹ دیا۔
اس کے بعد فرمایا : پس اے مخاطب ! تم دیکھتے ہو کہ یہ لوگ زمین پر کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح گرگئے۔
اس آیت میں ”صرعی“ کا لفظ ہے، یہ ”صریع“ کی جمع ہے، مقاتل نے کہا : اس کا معنی ہے: وہ مر کر گرگئے اور وہ کھوکھلے تنوں کی طرح کھوکھلے ہیں اور ان کے اندر کچھ نہیں ہے، ایک اور جگہ فرمایا :
﴿تَنْزِعُ النَّاسَ کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ ﴾ (الفجر : ٢٠)
وہ آندھی لوگوں کو اٹھا کر اس طرح پٹختی تھی گویا کہ وہ جڑ سے کئے ہوئے کھجور کے تنے ہیں۔
اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ان کے اجسام کھجور کے تنوں کی طرح بہت لمبے اور قدآور تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آندھی نے ان کے لمبے لمبے جسموں کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا، اور ” الخاریۃ “ کا معنی ہے : کھوکھلے، اس کی توجیہ یہ ہے کہ آندھی ان کے منہ کے راستہ سے ان کے جسم کے اندر داخل ہوئی اور جسم کے اندر کا تمام گوشت پوست اور تمام اعضاء کو کاٹ کر سرین کے راستے باہر نکال دیا ” الخاویۃ “ کا معنی بوسیدہ اور پرانا ہے یعنی وہ لوگ زمین پر کھجور کے بوسیدہ درختوں کی طرح گرگئے۔
﴿وَّالْمَلَكُ عَلٰٓي اَرْجَاۗىِٕهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ﴾ عرش کو اٹھانے والے آٹھ فرشتوں کی تفصیل
اس آیت کی دو تفسیریں ہیں : ایک یہ ہے کہ جو فرشتے اطراف میں ہوں گے ان کے اوپر جو فرشتے ہیں وہ عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ عام فرشتوں اور حاملین عرش کے درمیان امتیاز کردیا جائے، دوسری تفسیر یہ ہے کہ مقاتل نے کہا ہے کہ حاملین عرش اپنے سروں کے اوپر عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔
حسن بصری نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ اس سے صرف آٹھ فرشتے مراد ہیں یا آٹھ ہزار فرشتے ہیں یا فرشتوں کی آٹھ صفیں مراد ہیں۔
امام رازی نے کہا : اس سے آٹھ فرشتوں کو مراد لینا چاہیے اور اس کی دلیل حسب ذیل احادیث ہیں :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اب وہ چار فرشتے ہیں اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ چار مزید فرشتوں سے ان کی تاپید فرمائے گا تو یہ آٹھ فرشتے ہوجائیں گے۔
دوسری حدیث میں ہے : یہ آٹھ فرشتے ہیں جن کے پیر ساتویں زمین تک ہیں اور عرش ان کے سروں کے اوپر ہے اور یہ سر جھکائے ہوئے تسبیح کر رہے ہیں۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٦، الکشف و البیان ج ١٠ ص ٢٦، النکت و العیون ج ٦ ص ٨٢، الجامع الاحکام القرآن جز ١٨ ص ٢٤٦ )
﴿فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَيَقُوْلُ هَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ﴾
اس آیت میں ”ھاءم“ کا لفظ ہے ”ھا“ کا معنی ہے: لو، پکڑ و، اس کی گردان بھی آتی ہے، تثنیہ کے لیے ”ھاؤما“ اور جمع کے لیے ”ھاء موا“ اور میم اس میں اس طرح ہے جیسے ” انتما “ اور ” انتم “ میں ہے۔
”كِتَابِيَهْ“ ( الحاقہ : ١٩) ”حِسَابِيَهْ“ (الحاقہ : ٢٠) ”مَالِيَهْ ۜ “ (الحاقہ : ٢٨) اور ”سُلْطَانِيَهْ“ (الحاقہ : ٢٩) میں”ھاء“ سکتہ کے لیے ان ”ھاء ات“ کا قاعدہ یہ ہے کہ وقف کی حالت میں یہ ثابت رہیں گی اور وصل کی حالت میں ان کو ساقط کردیا جائے گا۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٢٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ﴾
الحاقہ : ٢٠ میں فرمایا : ( دائیں ہاتھ والا کہے گا) مجھے یقین تھا کہ میں نے اپنے حساب سے ملنا ہے۔
لوگوں کا محشر میں تین بار اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جانا
اس یقین سے مراد وہ یقین ہے جو استدلال سے حاصل ہوتا ہے یعنی میں یہ گمان کرتا تھا کہ میرا حساب ہوگا اور اللہ تعالیٰ میرے گناہوں پر گرفت فرمائے گا، پھر اللہ نے اپنے فضل سے مجھے معاف کردیا اور اس نے گناہوں پر مجھے سزا نہیں دی۔
حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائكہ کہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے کو کھڑا کرے گا، پھر اس کو اس کے اعمال نامے میں اس کے گناہ دکھائے گا اور اس سے فرمائے گا : تم نے یہ کام یہ کام کیے تھے ؟ وہ کہے گا : ہاں ! اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم کو ان کاموں سے رسوا نہیں کر رہا، میں نے تم کو بخش دیا ہے اور جب وہ بندہ یہ دیکھے گا کہ وہ قیامت کے دن کی رسوائی سے نجات پا گیا ہے تو اس وقت یہ آیات پڑھے گا : ﴿ہَآؤُمُ اقْرَئُ وْا کِتٰـبِیَہْ ۔ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُـلٰقٍ حِسَابِیَہْ﴾ (الحاقہ : ١٩۔ ٢٠) (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ١٠ ص ٣٣٧١، رقم الحدیث : ١٢٩٧٤، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن مجھے سب سے پہلے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور مجھے سب سے پہلے سجدہ سے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی، پھر میں سامنے کی طرف دیکھوں گا تو امتوں کے درمیان سے اپنی امت کو پہچان لوں گا اور میرے پیچھے بھی اس کی مثل ہوگا اور میرے دائیں بھی اس کی مثل ہوگا اور میرے بائیں بھی اس کی مثل ہوگا، ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت سے لے کر آپ کی امت تک اتنی امتیں ہوں گی، آپ ان میں سے اپنی امت کو کس طرح پہچانیں گے؟ آپ نے فرمایا : میری امت وضو کے اثر سے غرمحجل ہوگی ( یعنی اس کے ہاتھ، پیر اور اس کا چہرہ سفید ہوگا) اور دوسری کوئی امت اس طرح نہیں ہوگی اور میں اس وجہ سے پہچانوں گا کہ ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور میں اس وجہ سے پہچانوں گا کہ ان کی اولاد ان کے آگے دوڑ رہی ہوگی۔ (مسند احمد ج ٥ ص ١٩٩ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٦ ص ٦٥۔ ٦٤۔ رقم الحدیث : ٢١٧٣٧، مؤ سستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ، المستدرک ج ٢ ص ٤٧٨، مسند الزار رقم الحدیث : ١٣٤٥٧، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٢٥٨ )
﴿فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ﴾
اس زندگی کو ”راضیة“ اس لیے فرمایا کہ وہ رضا کی طرف منسوب ہوگی، نیز اصل میں راضی تو وہ شخص ہوگا جو اس زندگی میں ہوگا پس زندگی کی طرف رضا کی نسبت اسناد مجاز عقلی ہے۔
آخرت میں جو اجر وثواب ہوگا وہ اس لیے پسندیدہ ہوگا کہ اس کے ساتھ اس رنج کی آزمائش نہیں ہوگی کہ کبھی یہ عیش ختم ہوجائے گا، اور وہ ثواب دائمی ہوگا اور اس عیش کے ساتھ تعظیم مقرون ہوگی، خلاصہ یہ ہے کہ وہ عیش جمیع جہات سے پسندیدہ ہوگا۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جتنی ہمیشہ زندہ رہیں گے، ان پر موت کبھی نہیں آئے گی اور وہ ہمیشہ صحت مند رہیں گے، کبھی بیمار نہیں ہوں گے اور ہمیشہ نعمت میں رہیں گے، کبھی رنجیدہ نہیں ہوں گے اور وہ ہمیشہ جوان رہیں گے، کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے ۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٣٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٤٦ )
﴿اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِيْمِ، اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِيْمِ﴾
حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تقصیر کا عذاب
پہلی آیت میں کافر کی قوت ِ عاقلہ کے فساد کی طرف اشارہ ہے اور دوسری آیت میں اس کی قوت ِ عاملہ کے فساد کی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی آیت میں اس کے عقائد کی خرابی کی طرف اشارہ ہو اور دوسری آیت میں اس کے اعمال کی خرابی کی طرف اشارہ ہوا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی آیت میں یہ بتایا ہو کہ وہ حقوق اللہ کی ادائیگی نہیں کرتا تھا اور دوسری آیت میں یہ بتایا ہو کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی نہیں کرتا تھا۔
اس آیت میں اس پر قوی دلیل ہے کہ مسکین کو محروم رکھنا بہت بڑا جرم ہے، نیز اس میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسکین کو کھلاتا نہیں تھا، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا اور اس کا معنی یہ ہے کہ مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہ دینا بھی بہت بڑا جرم ہے، تو سوچنے کہ مسکین کو کھانا نہ کھلانا اور اس کی مدد نہ کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا ؟
اس آیت میں یہ دلیل بھی ہے کہ کفار کو احکام شرعیہ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بھی عذاب دیا جائے گا، اس آیت میں دو گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک اللہ پر ایمان نہ لانا اور دوسرا مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہ دینا کیونکہ سب سے بڑا جرم اللہ تعالیٰ کا کفر کرنا ہے اور سب سے زیادہ مذمت والا کام بخل کرنا ہے اور دل کی سختی ہے۔
پہلے جرم کو ذکر کرنے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تعظیم بجا لانے اور عبادت کیے جانے کا مستحق ہے، سو جس نے اللہ تعالیٰ کے غیر کی تعظیم کی یا اس کی عبادت کی وہ عذاب کا مستحق ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند ہے، جس نے ان میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھینا میں اس کو دوزخ میں داخل کردوں گا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٠٣، کتاب البرو الصلۃ باب تحریم الکبر)
روایت ہے کہ حضرت ابو الدرداء (رض) اپنی بیوی کو اس کی ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ سالن میں شوربا زیادہ رکھا کریں تاکہ مسکینوں کو کھانا کھلایا جاسکے۔
امام ابن المنذر نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو الدرداء (رض) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک زنجیر ہے جس کو دوزخ کی دیگچیوں میں مسلسل قامت تک جوش دیا جاتا رہے گا اور اس زنجیر کو لوگوں کی گردنوں میں ڈالا جائے گا، اللہ صاحب عظمت پر ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے نصف عذاب سے نجات دے دی ہے، پس ام الدردا ! تم مسکین کو کھلانے کی ترغیب دیا کرو۔ ( الدرالمنثور ج ٨ ص ٢٥٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ﴾ رکوع اور سجدہ کی تسبیحات کے متعلق احادیث اور ان میں مذاہب
یعنی آپ اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نزول وحی کا اہل بنادیا، اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت کو ثابت فرمایا کہ اگر آپ جھوٹے نبی ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کا دایاں ہاتھ کاٹ دیتا اور چونکہ ایسا نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ آپ جھوٹے نبی نہیں ہیں، سچے نبی ہیں۔
اس آیت میں فرمایا:
﴿فسبح باسم رب العظیم﴾ اور ایک اور آیت میں فرمایا ہے : ﴿سبح اسم ربک الاعلی﴾ ( الاعلیٰ : ١) اور ان کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت نازل ہوئی : ﴿فسبح باسم ربک العظیم﴾ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو اپنے رکوع میں کرلو اور جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿سبح اسم ربک الاعلیٰ﴾ تو آپ نے فرمایا: اس کو اپنے سجدہ میں کرلو۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٨٦٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٨٧)
حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں، انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی، آپ رکوع میں فرماتے: ”سبحان ربی العظیم“ اور سجدہ میں فرماتے ”سبحان ربی الاعلیٰ“ اور جب بھی آپ رحمت کی آیت پڑھتے تو وقف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرتے اور جب آپ عذاب کی آیت پڑھتے تو وقف کرکے اس سے پناہ طلب کرتے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨١١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٢، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٨٧٣، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٠٠٧)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص رکوع کرے اور تین مرتبہ کہے : ” سبحان ربی العظیم “ تو اس کا رکوع پورا ہوگیا اور یہ کم سے کم مرتبہ ہے اور جب سجدہ کرے اور تین مرتبہ کہے : ” سبحان ربی الاعلیٰ “ تو اس کا سجدہ پورا ہوگیا اور یہ کم سے کم مرتبہ ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦١، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٨٨٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٩٠)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں، میزان پر بھاری ہیں، رحمان کو محبوب ہیں، وہ ہیں ”سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم“۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث ٦٤٠٦، صحیح مسم رقم الحدیث : ٢٦٩٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٦٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٠٦، مسند احمد ج ٢ ص ٢٣٢)
امام احمد کے نزردیک رکوع اور سجود میں تسبیحات کا پڑھنا واجب ہے کیونکہ آپ نے فرمایا ہے : اس کو اپنے رکوع میں کرلو اور اس کو اپنے سجدہ میں کرلو اور امر و جوب کے لیے آتا ہے اور جمہور کے نزدیک ان تسبیحات کا پڑھنا مستحب ہے، کیونکہ جب آپ نے اعرابی کو نماز کی تعلیم دی تو طمانیت سے رکوع اور ًسجود کرنے کا حکم دیا لیکن تسبیح پڑھنے کا ذکر نہیں فرمایا۔ (دیکھئے صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٩٣، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٨٥٦، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠٣، سنن نسائی رقم الحدیث : ٨٨٤)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.