ترجمہ اور تفسير سورہ معارج
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ﴿1﴾
مانگنے والے نے اس عذاب کو مانگا جو (کافروں پر) واقع ہونے والا ہے۔
لِلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ ﴿2﴾
کافروں سے اس عذاب کو ٹالنے والا کوئی نہیں ہے۔
مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ ﴿3﴾
یہ (عذاب) اس اللہ کی طرف سے ہوگا جو بلند درجات رکھنے والا ہے۔
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ ﴿4﴾
فرشتے اور روحیں اس کے پاس چڑھ کرجائیں گی، ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی۔
فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا ﴿5﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ صبر کیجئے اور صبر جمیل بھی ( جس میں شکوہ نہ ہو) ۔
إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا ﴿6﴾
(بےشک وہ کفار) اس دن کو دور سمجھ رہے ہیں۔
وَنَرَاهُ قَرِيبًا ﴿7﴾
اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔
يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ ﴿8﴾
جس دن کہ آسمان کی تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوجائے گا ،
وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ ﴿9﴾
اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے ،
وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا ﴿10﴾
اور کوئی جگری دوست کسی جگری دوست کو پوچھے گا بھی نہیں۔
يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ ﴿11﴾
حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھا بھی دیے جائیں گے۔ مجرم یہ چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لیے اپنے بیٹے فدیہ میں دیدے۔
وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ ﴿12﴾
اور اپنی بیوی اور اپنا بھائی
وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ ﴿13﴾
اور اپنا وہ خاندان جو اسے پناہ دیتا تھا۔
وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ ﴿14﴾
اور زمین کے سارے کے سارے باشندے۔ پھر (ان سب کو فدیہ میں دے کر) اپنے آپ کو بچا لے۔
كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ ﴿15﴾
ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ بیشک وہ ( جہنم) شعلہ مارتی ہوئی ایسی آگ ہوگی
نَزَّاعَةً لِلشَّوَىٰ ﴿16﴾
کہ کھال (تک) اتار دے گی،
تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ ﴿17﴾
وہ ہر (اس شخص کو اپنی طرف) بلاتی ہوگی جس نے سچائیوں سے منہ اور پیٹھ کو موڑا ہوگا
وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ ﴿18﴾
اور (مال) جمع کیا ہوگا، اور اس کو اٹھا اٹھا رکھا ہوگا۔
إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ﴿19﴾
بیشک انسان بڑا بےصبرا (کم ہمت) بنایا گیا ہے۔
إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا ﴿20﴾
جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا جاتا ہے
وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا ﴿21﴾
اور جب اس کو کوئی خیر اور بھلائی پہنچتی ہے تو وہ بخل اور کنجوسی کرنے لگتا ہے۔
إِلَّا الْمُصَلِّينَ ﴿22﴾
سوائے ان نماز پڑھنے والوں کے
الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ ﴿23﴾
جو اپنی نمازوں کا ہمیشہ اہتمام (پابندی ) کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ ﴿24﴾
اور جن کے مال و دولت میں ایک متعین حق ہے۔
لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ﴿25﴾
سوالی اور بےسوالی کے لیے
وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿26﴾
اور وہ جو انصاف کے دن (قیامت) کی تصدیق کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ ﴿27﴾
اور جو لوگ اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرتے رہنے والے ہیں ،
إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ ﴿28﴾
یقینا ان کے پروردگار کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے بےفکری برتی جائے۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿29﴾
اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں
إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿30﴾
سوائے اپنی بیویوں اور اپنی مملوکہ عورتوں (باندیوں) کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔
فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿31﴾
البتہ جو کوئی اس کے علاوہ (شہوت رانی کا) طلبگار ہوا، تو یہ لو حد (شرعی) سے نکل جانے والے ہیں۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴿32﴾
اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھنے والے ہیں،
وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ ﴿33﴾
اور وہ لوگ جو اپنی گواہیوں کو ٹھیک طور پر ادا کرنے والے ہیں۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿34﴾
اور جو لوگ اپنی نمازوں کی پابندی رکھتے ہیں،
أُولَٰئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ ﴿35﴾
یہی لوگ بہشتوں میں عزت سے داخل ہوگے۔
فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ ﴿36﴾
پھر ان کافروں کو کیا ہوگیا کہ وہ آپ کی طرف دوڑ دوڑ کر آرہے ہیں
عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ ﴿37﴾
داہنے اور بائیں سے ٹولیاں بن بن کر۔
أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ ﴿38﴾
کیا ان میں سے ہر شخص یہ لالچ رکھتا ہے کہ وہ آرام و سکون کی جنتوں میں داخل کر دیا جائے گا۔
كَلَّا ۖ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِمَّا يَعْلَمُونَ ﴿39﴾
ہرگز نہیں، ہم نے انھیں پیدا کیا ہے اس چیز سے جس سے سب واقف ہی ہیں۔
فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ ﴿40﴾
میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں کہ ان پر ہم پوری قدرت و طاقت رکھنے والے ہیں
عَلَىٰ أَنْ نُبَدِّلَ خَيْرًا مِنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ ﴿41﴾
کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور ہم ایسا کرنے سے عاجز اور بےبس نہیں ہیں۔
فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ ﴿42﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو بےہودہ نکتہ چینیوں اور کھیل کود میں مشغول رہنے دیجئے یہاں تک کہ یہ اس دن سے جا ملیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَىٰ نُصُبٍ يُوفِضُونَ ﴿43﴾
یعنی) وہ دن جب کہ یہ قبروں سے نکل کر (اس طرح) دوڑیں گے کہ گویا وہ کسی پرستش گاہ کی طرف دوڑے جاتے ہیں،
خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۚ ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ ﴿44﴾
ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ذلت ان پر چھائی ہوئی ہوگی۔ یہ وہی دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
﴿سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ﴾ کفار کا عذاب قیامت کو طلب کرنا
”سأل“ کی تفسیر میں دو قول ہیں : ایک تفسیر یہ ہے کہ اس کا معنی طلب کرنا ہے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس کا معنی سوال کرنا ہے، راجح پہلا قول ہے۔
المعارج : ٢۔ کی تفسیر میں سعید بن جبیر نے کہا : وہ طلب گار النضربن الحارث بن کلدۃ تھا، اس نے کہا تھا : اگر یہ عذاب برحق ہے تو ہم پر پتھر باسا، قرآن مجید میں ایک اور جگہ اس کا ذکر ہے :
﴿وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ (الانفال : ٣٢)
اور جب کافروں نے کہا : اے اللہ ! اگر اس قرآن کا نزول تیری طرف سے حق ہے ( تو ہمارے انکار پر) ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر درد ناک عذاب لے آ۔
یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن انھوں نے اس کی روایت نہیں کیا، اور علامہ ذہبی نے کہا ہے : یہ حدیث امام بخاری کی شرط کے موافق صحیح ہے۔ (المستدرک ج ٣ ص ٤٩ طبع قدیم، المستدرک رقم الحدیث : ٣٨٥٤، المتکبۃ العصریہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ السنن الکبریٰ ج ١٠ ص ٣١٢، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
حسن اور قتادہ نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور آپ نے مشرکین کو عذاب سے ڈرایا تو مشرکین نے ایک دوسرے سے کہا : ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرو کہ یہ عذاب کس پر واقع ہوگا کہ کب واقع ہوگا ؟ ( جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧٠١٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام رازی نے کہا ہے کہ یہ رسائل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے، آپ نے کفار کے عذاب کو جلد طلب کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ عذاب ان پر واقع ہوگا اور اس عذاب کو ان سے کوئی دور کرنے والا نہیں ہے، اور اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سو آپ صبر جمیل فرمایئے، اس میں یہ دلیل ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا کہ عذاب کب واقع ہوگا، اس کو اللہ تعالیٰ نے صبر جمیل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٣٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ﴾
اس آیت میں ”المعارج“ کا لفظ ہے یہ ”معرج“ کی جمع ہے ”معرج“ کا معنی ہے : اوپر چڑھنے کا آلہ یعنی سیڑھی، اور اوپر چڑھنا، بلندی اور فضلیت کو متضمن ہے، اس لیے اس کا معنی ہے : جو بلند درجات، فضائل اور نعمتوں کا مالک ہے۔ مجاہد نے کہا : اس سے مراد آسمان کی سیڑھیاں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد فرشتوں کی سیڑھیاں ہیں، کیونکہ فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ المعارج سے مراد بالا خانے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جنت میں اپنے اولیاء کے لیے بالا خانے بنائے ہیں، اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ المعارج سے مراد قرب کے درجات ہیں، جن کی کیفیت نامعلوم ہے، ان درجات پر انبیاء، ملائکہ اور اولیاء فائز ہوتے ہیں اور وہ مقبولیت کے درجات ہیں، پاکیزہ کلمات اور اعمال صالحہ ان کی طرف چڑھتے ہیں، یا دو نفوس قدسیہ جنت کے درجات میں پہنچتے ہیں، حدیث میں ہے :
حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں سو درجات ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان زمین اور آسمان جتنا فاصلہ ہے، اور فردوس جنت کا سب سے بلند درجہ ہے اور اسی سے جنت کی چار نہریں نکلتی ہیں اور اس کے اوپر عرش ہے، پس جب تم اللہ سیس وال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٣١، مسند احمد ج ٥ ص ٣١٦)
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بےاہل جنت اپنے اوپر بالا خانے والوں کو دیکھیں گے جیسا کہ وہ اس روشن ستارے کو دیکھتے ہیں جو مشرقی یا مغربی افق میں ہوتا ہے، کیونکہ اہل جنت میں درمیان فضلیت کے درجات ہوتے ہیں، مسلمانوں نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آیا یہ انبیاء (علیہم السلام) کی منازل ہیں، جن میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں جاسکے گا ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ! جس ذات کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ( اس میں وہ لوگ بھی ہوں گے ) جو اللہ پر ایمان لائے اور انھوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٥٦ : صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٣١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٩، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٨٣٣، مسند احمد ج ٥ ص ٣٤٠ )
﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ﴾
”الروح“ کا مصداق
اس آیت میں فرشتوں کے بعد روح کا ذکر ہے، علاوہ الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے کہا : روح کی تفسیر میں تین قول ہیں :
(١) قبیصہ بن ذویب نے کہا : اس سے مراد ( مسلمان) میت کی روح ہے، جب فرشتے اس کو قبض کرتے ہیں تو وہ اس مقام کی طرف چڑھتی ہے جو آسمانوں میں اس کی منزل ہے کیونکہ وہ اس کی عزت اور کرامت کی جگہ ہے اور یہ آیت اس طرح ہے، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا :
﴿اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ﴾ (الصافات : ٩٩) بیشک میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں۔
(٢) ابو صالح نے کہا : اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، جو انسانوں کی شکل میں ہے لیکن انسان نہیں ہے۔
(٣) اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے :
﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ﴾ (الشعراء : ١٩٣) قرآن مجید کو روح امین نے نازل کیا ہے۔ (النکت والعیون ج ٦ ص ٩٠، دارالکتب العربیہ، بیروت)
وہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔
اس آیت سے متبادر یہ ہوتا ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا، اس کی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر وہ شخص جو سونا چاندی رکھتا ہو اور اس کا حق ( زکوۃ ) ادا نہ کرے، قیامت کے دن اس کے لیے اس کے لیے آگ کی چٹانوں کی پرت بنائے جائیں گے اور دوزخ کی آگ سے ان کو تپایا جائے گا اور اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو ان کے ساتھ داغا جائے گا، ایک بار یہ عمل کرنے کے بعد اس کو دوبارہ دہرایا جائے گا، جو دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے، اس دن میں یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا، بالآخر جب تمام لوگوں کے فیصلے ہوجائیں گے تو اسے جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٨٧، سنن ابو داؤدرقم الحدیث : ١٦٥٨، سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٤٣٨، مسند احمد ج ٢ ص ٤٩٠۔ ٤٨٩)
قرآن مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اور فرشتے اور جبرائیل پچاس ہزار سال کے دن میں اس طرف چڑھیں گے، اور ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا دن ایک ہزار سال کا ہوگا اور اس دن میں فرشتے چڑھیں گے، وہ آیت یہ ہے :
﴿یُدَبِّرُ الْاَمْرَمِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ﴾ (السجدہ : 5)
وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر وہ کام اس کی طرف اس دن چڑھتا ہے، جس کی مقدار تمہارے گننے کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کے روز قیامت تک چڑھنے کے دو اعتبار ہیں، ایک اعتبار ساتویں زمین سے ساتویں آسمان تک ہے، اس کی مدت ہمارے دنوں کی گنتی کے اعتبار سے پچاس ہزار سال ہے اور ایک اعتبار سے زمین سے آسمان تک اور آسمان سے زمین تک آنے جانے کا ہے، اس اعتبار سے اس کی مدت ہمارے گننے کے اعتبار سے ایک ہزار سال ہے۔
امام عبد الرحمن محمد بن ادریس رازی ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا : سب سے نچلی زمین کی انتہاء سے لے کر سات آسمانوں کی انتہاء کے اوپر ہمارے اعتبار سے پچاس ہزار ہے اور پہلے آسمان سے زمین تک اور پہلی زمین سے پہلے آسمان تک فرشتے ایک دن میں چڑھتے ہیں اور اس چڑھنے کی مدت ہمارے گننے کے اعتبار سے ایک ہزار سال ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٩٨٧، ج ١٠ ص ٣٣٧٣، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہر زمین کی موٹائی کی مسافت کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت ہے، پس یہ چودہ ہزار سال کی ہیں اور ساتویں آسمان سے عرش تک کی مسافت کا فاصلہ چھتیس ہزار سال ہے، پس یہ تمام فاصلہ اس دن میں طے ہوگا جس دن کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ ( تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٩٨٨۔ ج ١٠ ص ٣٣٧٣)
حضرت ابن عباس (رض) ﴿فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ﴾ (المعارج : 5) کی تفسیر میں فرمایا : قیامت کا دن اتنا طویل ہوگا جو تمہارے شمار کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٩٨٩۔ ج ١٠ ص ٣٣٧٤)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ اس حدیث کی تفصیل میں لکھتے ہیں:
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر زمین کی موٹائی انچ سو سال کی مسافت ہے اور ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے، اور پہلی زمین اور پہلے آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے اور ہر آسمان کی موٹائی بھی پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان بھی پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ساتویں آسمان اور کرسی کی گہرائی کے درمیان بھی پانچ سو سال کی مسافت ہے، اور اس کا مجموعہ چودہ ہزار سال کی مسافت ہے اور کرسی کی گہرائی سے عرش تک چھتیس ہزار سال کی مسافت ہے اور اس کا مجموعہ پچاس ہزار سال کی مسافت ہے، امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے جو حدیث نقل کی ہے، اس میں اسی طرح ہے، اور شاید یہ حدیث صحیح ہے نہ ہو، ہرچند کہ فرشتوں کا اتنی سرعت کے ساتھ مسافت کو منقطع کرنا بعید نہیں ہے، جس طرح روشنی بہت سرعت کے ساتھ سفر کرتی ہے اور ہمیں اس پر یقین ہے کہ اللہ عزوجل ہر چیز پر قادر ہے۔ (روح المعانی جز ٢٩ ص ٩٩۔ ٩٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
مسلمانوں کے لیے قیامت کے دن کی مقدار
امام محم بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ فرماتے ہیں :
قیامت کے دن کی مقدار ہمارے شمار کے اعتبار سے پچاس ہزار سال صرف کفار کے لیے ہوگی جن کی مغفرت نہیں ہوگی اور جن مؤمنین کی مغفرت ہوگی، ان کے اعتبار سے قیامت کے دن کی مقدار اتنی ہوگی جتنا ظہر سے عصر تک کا وقت ہوگا، حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا : قیامت کا دن مؤمنین پر اتنی مقدار کا ہوگا جتنی مقدار ظہر اور عصر کے درمیان ہوتی ہے۔ ( البعث والنثور رقم الحدیث : ١٢٤۔ ص ٧٨، المستدرک ج ١ ص ٨٤)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کا دن مؤمنوں پر اتنی مقدار کا ہوگا جتنی مقدار ظہر اور عصر کے درمیان ہوتی ہے۔ ( البعث والنثور رقم الحدیث : ١٢٥۔ ص ١٧٨، المستدرک ج ١ ص ٨٤)
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کافر کے لیے قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا کیا جائے گا، کیونکہ اس نے دنیا میں کوئی ( نیک) عمل نہیں کیا تھا اور کافر ضرور دوزخ کو دیکھے گا اور یہ گمان کرے گا کہ وہ اس میں چالیس سال کی مسافت تک کرنے والا ہے۔ ( مسند احمد ج ٣ ص ٧٥ طبع قدیم، مسند احمدج ١٨ ص ٢٤٤، مؤسستہ الرسالۃٗ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٣٨٥، المستدرک ج ٤ ص ٥٩٧، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٦، اس حدیث کو حاکم اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے، حافظ الہمیثی نے کہا : اس کی سند میں کچھ ضعیف ہے، یہ حدیث صحیح ابن ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٥٢ میں بھی ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ )
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہے، یہ کس قدر طویل دن ہوگا ؟ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، مومن پر یہ دن خفیف ہوگا حتیٰ کہ جتنے وقت میں وہ دنیا میں عصر کی نماز پڑھتا تھا اس کے لیے قیامت کا دن اس سے بھی خفیف ہوگا۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٧٥ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٨ ص ٢٤٤، مؤسستہ الرسالۃ، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٣٨٥، المستدرک ج ٤ ص ٩٧، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٦، اس حدیث کو حاکم اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے، حافظ الہیثمی نے کہا : اس کی سند میں کچھ ضعیف ہے، یہ حدیث صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٥٢ میں بھی ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ )
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہے، یہ کس قدر طویل دن ہوگا ؟ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں ہزار سال کا ہے، یہ کس قدر طویل دن ہوگا ؟ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، مومن پر یہ دن خفیف ہوگا حتیٰ کہ جتنے وقت میں وہ دنیا میں عصر کی نماز پڑھتا تھا اس کے لیے قیامت کا دن اس سے بھی خفیف ہوگا۔ ( مسند احمد ج ٣ ص ٥ ٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٨ رقم الحدیث : ١١٧١٧، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٨ ھ، اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ اور اس کا شیخ دراج بن سمعان ضعیف راوی ہیں، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٣٩٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٣٤، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٢٧، حافظ عسقلانی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے، کامل ابن عدی ج ٣ ص ٣٩٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٠٨١٤، البعث والنثور رقم الحدیث : ١٢٦ )
﴿وَلَا يَسْـَٔــلُ حَمِيْمٌ حَمِـيْمًا﴾
اور کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا۔ حالانکہ ان کو سب دکھا دیئے جائیں گے، مجرم تمنا کرے گا : کاش ! وہ اس دن کے عذاب کے بدلہ میں اپنے پیٹوں کا فدیہ دے دے۔ اور اپنی بیوی اور بھائی کا۔ اور اپنے اس رشتہ دار کا جو دنیا میں اس کو پناہ دیتا تھا۔ اور روئے زمین کے تمام لوگوں کا، پھر یہ فدیہ اس کو عذاب سے نجات دے دے۔
کیونکہ ہر شخص کو صرف اپنی نجات کی فکر ہوگی تاہم یہ صف کفار کی ہوگی لیکن مؤمنین قیامت کے دن اپنے دوستوں کا حال پوچھیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے، حدیث میں ہے :
حضرت ابو سعید خدری (رض) سے قیامت کے احوال کے متعلق ایک طویل حدیث ہے، اس کے وسط میں ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر پل کو لایا جائے گا، ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! پل کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ پھسلنے اور گرنے کی جگہ ہے، اس پر کانٹے اور آ ٹکڑے ( ہک) ہوں گے اور چوڑے کو گوکھروہوں گے اور ایسے مڑے ہوئے کانٹے ہوں گے جیسے نجد میں ہوتے ہیں، جن کو سعد ان کہا جاتا ہے، مومن اس پر سے چشم زدن میں بجلی کی طرح، وا کی طرح، تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے، ان میں سے بعض تو صحیح سلامت گزر جانے والے ہوں گے اور بعض جہنم کی آگ سے جھلس کر بچ نکلنے والے ہوں گے ، حتیٰ کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گزرے گا، تم آج مجھ سے حق کے معاملہ میں اس قدر جرأ ت مند نہیں ہو، جتنا جرأت مند قیامت کے دن مومن اللہ جبار کے سامنے ہوگا، جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے مسلمان بھائیوں میں سے ان کو نجات مل گئی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے ( کچھ اور) بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور دوسرے ( نیک) اعمال کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ تم جس کے دل میں بھی ایک دینار کے برابر ایمان پاؤ اس کو دوزخ سے نکال لو، اور اللہ ان کی صورتوں کو دوزخ پر حرام کر دے گا، پھر وہ آ کر دیکھیں گے کہ بعض تو اپنے قدموں تک دوزخ میں دھنس چکے ہیں اور بعض آدھی پنڈلیوں تک دوزخ میں ہیں، پس وہ جن کو پہچان لیں گے ان کو دوزخ سے نکال لیں گے، پھر واپس آئیں گے تو اللہ عزوجل فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں نصف دینار کے برابر بھی ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو، پھر وہ جن کو پہچانتے ہوں گے ان کو دوزخ سے نکال لیں گے، پھر وہ واپس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں ذرا برابر بھی ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو، پھر وہ جن کو پہچانتے ہوں گے ان کو دوزخ سے نکال لیں گے۔ الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٣٩، صحیح مسلم الحدیث : ١٨٤)
مرجہ، معتزلہ اور خوارج کا رد
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کافر کے دوست اور رشتہ دار اور اس کی شفاعت کر کے اس کو عذاب سے نہیں چھڑا سکیں گے اور مسلمانوں کے دوست اور احباب اور ان کے واقف کار ان کی شفاعت کرکے ان کو دوزخ کے عذاب سے چھڑا لیں گے، اور اس حدیث میں مرجہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ فاسق مومن کو دوزخ کا عذاب بالکل نہیں ہوگا کیونکہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ کچھ فساق مؤمنین کے قدموں تک دوزخ کی آگ ہوگی اور کچھ آدھی پنڈلیوں تک دوزخ کی آگ ہوگی، اور اس میں خوارج اور معتزلہ کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ فساق مؤمنین ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور ان کو دوزخ سے نکالنے کے لیے شفاعت نہیں ہوگی اور اس حدیث میں پل صراط کا بھی ثبوت ہے، اس کا بھی معتزلہ انکار کرتے ہیں۔
﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا﴾ ”ھلوعاً“ اور ”جزوعاً“ کا معنی
اس آیت میں ”ھلوعا“ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : بہت زیادہ حرص کرنے والا، بہت زیادہ بےصبری اور بہت زیادہ گھبرانے والا اور بہت زیادہ بےحیائی کی باتیں کرنے والا، اس کا معنی ہے : وہ شخص خیر پر صبر کرتا ہے نہ شر پر، اور خیر اور شر میں وہ کام کرتا ہے جو اس کو نہیں کرنے چاہئیں۔ ضحاک نے کہا : وہ شخص جو کبھی سیر نہیں ہوتا اور جب اس کو مال مل جائے تو اللہ کا حق ادا کرنے سے منع کرتا ہے، ابن کیسان نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس صفت پر پیدا کیا ہے کہ انسان ان چیزوں سے محبت کرتا ہے جو اس کو خوش کریں اور ان چیزوں سے ناراض ہوتا ہے جو اس کو ناپسند ہوں، پھر وہ اپنی طبعی صفت کے بر خلاف اپنی پسندیدہ چیزوں کو خرچ کر کے اور ناپسندیدہ چیزوں پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، ابو عبیدہ نے کہا : ” ھلوع “ وہ شخص ہے جس کو خیر مل جائے تو اس پر شکر نہ کرے اور جب اس پر مصیبت آئے تو اس پر صبر نہ کرے اور ثعلب نے کہا : جب اس کو خیر ملے تو وہ اس پر بخل کرے اور لوگوں کو دینے سے منع کرے۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٨ ص ٢٦٦۔ ٢٦٥ )
﴿وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ﴾
” حق معلوم “ کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری اور ابن سیرین نے کہا : اس سے مراد زکوۃ مفروضہ ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا : جو شخص فرض زکوۃ ادا کردیتا ہے اگر وہ نفلی صدقات ادا نہ کرے تو کوئی خرج نہیں ہے، رہایہ کہ اس ” حق معلوم “ سے مراد و زکوۃ مفروضہ ہے تو اس پر کیا دلیل ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ان سے استثناء کیا ہے جن کی مال خرچ نہ کرنے کی وجہ سے مذمت کی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے مال سے ” حق معلوم “ ادا کردیتا ہے وہ مذموم نہیں ہوگا، لہٰذا اس حق کو ادا کرنا واجب ہے اور جس کو خرچ کرنا واجب ہو وہ صرف زکوۃ ہے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ ” حق معلوم “ کا معنی ہے : جس حق کی مقدار معلوم ہو اور صرف زکوۃ کی مقدار معلوم اور معین ہے اور صدقات مالیہ کی مقدار معلوم اور معین نہیں ہے۔
مجاہدنے یہ کہا ہے کہ یہ ” حق معلوم “ زکوۃ کے علاوہ یعنی جس مال کو بہ طور ندب اور استحباب کے خرچ کیا جائے۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٤٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں کہ مجاہد کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” حق معلوم “ سے بہ طور استحباب مال خرچ کرنا مراد ہے کیونکہ اس آیت میں ان لوگوں سے استثناء ہے جو مال خرچ نہیں کرتے تھے اور ان کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے، اس کا معنی ہے : ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جن پر مال خرچ کرنا واجب تھا اور وہ مال کو خرچ نہیں کرتے تھے اور واجب صرف زکوۃ ہے اور مستحب کے ترک پر مذمت نہیں کی جاتی، اس لیے ” حق معلوم “ سے بہ طور استحباب خرچ کرنے کو مراد لینا صحیح نہیں ہے۔
علامہ ابو عبد الہ محمد بن احمدمال کی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں:
زیادہ صحیح یہ ہے کہ ” حق معلوم “ سے مراد زکوۃ مفروضہ ہے، کیونکہ زکوۃ کی مقدار معلوم ہے اور باقی کسی صدقہ کی مقدار معلوم نہیں ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٨ ص ٢٦٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :
جیسے زکوۃ اور وہ صدقات جو سائلین کے لیے مقرر کردیئے جاتے ہیں۔
(بیضاوی مع عنایۃ القاضی ج ٩ ص ٢٧٣، دارالکتب العلمیہ، بیرو ت، ١٤١٧ ھ)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد زکوۃ مفروضہ ہے۔
( جامع البیان رقم الحدیث : ٢٧٠٧٦۔ جز ٢٩ ص ٩٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ﴾ تمام نیک اعمال کرنے اور تمام برے اعمال سے بچنے کے باوجود اللہ کے عذاب کا خوف
اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے رب کے تمام احکام کو بجا لائے اور اس کے منع کیے ہوئے تمام کاموں میں رک جائے، پھر بھی اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتا رہے، اور وہ اپنے نیک اعمال پر مطمئن نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے جلال ذات سے ڈرتا رہے، اسے کیا پتہ ہے کہ اس کے یہ نیک اعمال قبول ہوں گے یا نہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس سے کوئی ایسی تقصیر ہوگئی ہو جس سے اس کی ساری نیکیاں ضائع ہوجائیں اور وہ عذاب کا مستحق ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ جلیل القدر صحابہ کرام بھی باوجود کثرت عبادت و ریاضت کے خوف خدا سے لرزتے رہتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا : کاش ! میں یہ تنکا ہوتا، کاش ! میں پیدا نہ کیا جاتا، کاش ! میری ماں مجھے نہ جنتی، کاش ! میں کچھ بھی نہ ہوتا، کاش ! میں بھولا بسرا ہوتا۔ (صفوۃ المصفوۃ ج ١ ص ١٢٨، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر (رض) نے کہا : کاش ! میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا، مجھے پسند ہے کہ میں پیدا نہ یا جاتا۔ ( مسند احمد ج ٥ ص ١٧٣، حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٢٣٦۔ ٢٣٧، المستدرک ج ٤ ص ٥٧٩، مصنف ابن ابی شبہ ج ٢ ص ٢٥٠ ) ۔
حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر تم ان چیزوں کو جان لو جن کو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کم اور روؤ زیادہ اور تم بستروں پر عورتوں سے لذت حاصل نہ کرو، اور تم اللہ کو پکارتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل جاؤ ( حضرت ابو ذر غفاری (رض) نے کہا 🙂 میں ضرور یہ پسند کرتا ہوں کہ میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣١٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٩٠، مسند احمد ج ٥ ص ١٧٣)
حضرت ابن الزبیر رصی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے کہا : مجھے پسند ہے میں بھولی بسری ہوتی۔ ( مسند احمد ج ١ ص ١٧٦، مصنف عبد الرزاق ج ١١ ص ٣٠٧ قدیم، مصنف ابن بی شیبہ رقم الحدیث : ٣٤٧٢٤، حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٤٥٢، الطبقات الکبریٰ ج ٧ ص ٧٥۔ ٧٤ قدیم)
اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے کہا : مجھے پسند ہے کہ میں درخت ہوتی جس کو کاٹ دیا جاتا، مجھے پسند ہے کہ مجھ کو پیدا نہ کیا جاتا۔ ( الطبقات الکبریٰ ج ٧ ص ٧٥، کتاب الزہد لا حمد رقم الحدیث : ١٦٤، کتاب الزہد لا بن المبارک رقم الحدیث : ٨، کتاب الزہد للوکیع رقم الحدیث : ١٦١، مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٤٧٢٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)
الضحاک بن مزاحم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : کاش ! میں پرندہ ہوتا، میرے بازوؤں میں پر ہوتے۔ (کتاب الزہد لاحمد رقم الحدیث : ١٥٦، کتاب الزہد للوکیع رقم الحدیث : ١٦٢ )
یعقوب بن زید بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا کہ ایک پرندہ درخت پر بیٹھا ہوا ہے تو انھوں نے کہا : کاش ! میں اس پرندہ کی جگہ ہوتا۔ ( مصنف ابن بی شیبہ ج ٢ ص ٢٤٥، کتاب الزہد للوکیع رقم الحدیث : ١٦٥ )
﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ﴾ امانت کی رعایت
یعنی جو لوگ امانت رکھوانے والے کو اس کے مطالبہ کے وقت اس کی امانت لوٹا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے تمام فرائض اور واجبات بھی امانت میں داخل ہیں، حدیث میں ہے:
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٩)
﴿فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ﴾ مشارق اور مغارب کی توجیہہ
المعارج : ٤٠ میں مشارق اور مغارب کا ذکر ہے، قرآن مجید میں مشرق اور مغرب کا واحد کے صیغہ کے ساتھ بھی ذکر ہے اور تثنیہ کے ساتھ بھی ذکر ہے اور جمع کے صیغہ کے ساتھ بھی ذکر ہے۔
واحد کے صیغہ کے ساتھ اس آیت میں ذکر ہے: ﴿وَلِلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ﴾ (البقرہ : ١١٥)
تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ اس آیت میں ذکر ہے: ﴿رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ ﴾ (الرحمن : ١٧)
جمع کے صیغہ کے ساتھ اس آیت میں ذکر ہے: ﴿کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا ﴾ (الاعراف : ١٣٧)
سال میں ٣٦٥ دن ہوتے ہیں اور سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے بھی اتنے ہی مقام ہیں، گویا ہر روز کا ایک الگ مشرق اور ایک الگ مغرب ہوتا ہے، اس اعتبار سے جمع کے صیغہ کے ساتھ مشارق اور مغارب فرمایا، سردی اور گرمی میں نمایاں فرق کے ساتھ دو مشرق اور دو مغرب ہوتے ہیں، ایک انتہائی آخری مشرق اور مغرب اور دوسرا ابتدائی قریب ترین مشرق اور مغرب، اس لحاظ سے مشرقین اور مغربین فرمایا اور ایک مطلقاً طلوع اور غروب کے مقام، جن میں اس تفصیل سے قطع نظر ہو، اس اعتبار سے مشرق اور مغرب فرمایا۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.