surah mudassir with urdu translation

Surah Mudassir With Urdu Translation, Surah Mudassir Tafseer

 ترجمہ وتفسير سورہ مدثر

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ، يوپى انڈيا

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿1﴾

اے چادر لپٹ کر (بیٹھنے والے)

 قُمْ فَأَنْذِرْ ﴿2﴾

اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو۔

 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿3﴾

اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے،

وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿4﴾

اور اپنے کپڑوں کو پاک و صاف رکھيئے۔

 وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ﴿5﴾

اور بتوں سے الگ رہئے،

وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ﴿6﴾

کسی پر زیاہ بدلہ چاہنے کے لیے احسان نہ جتائیے۔

وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ﴿7﴾

اور اپنے پروردگار (کی رضا) کے ليے صبر کیجئے۔

 فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ ﴿8﴾

پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا

فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ ﴿9﴾

تو وہ ایک سخت دن ہوگا

 عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ ﴿10﴾

اور کافروں کے لیے تو ذرا بھی آسان نہ ہوگا۔

 ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا ﴿11﴾

چھوڑ دیجئے مجھے اور اس کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔

 وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَمْدُودًا ﴿12﴾

میں نے اس کو بہت زیادہ مال دیا

وَبَنِينَ شُهُودًا ﴿13﴾

اور وہ بیٹے دئیے جو سامنے ہیں

 وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيدًا ﴿14﴾

اور اس کو ہر طرح کا سامان (زندگی) دیا

 ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ ﴿15﴾

پھر بھی وہ اس کی طمع رکھتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں۔

كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا ﴿16﴾

ہرگز نہیں۔ وہ ہماری آیتوں کا دشمن ہے۔

 سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ﴿17﴾

میں اسے عنقریب دوزخ کے پہاڑ پر بجبر چڑھا دوں گا۔

 إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ﴿18﴾

اس شخص نے سوچا، پھر ایک بات تجویز کی

 فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿19﴾

سو وہ غارت ہو کیسی بات تجویز کی،

 ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿20﴾

پھر غارت ہوکیسی بات تجویز کی۔

ثُمَّ نَظَرَ ﴿21﴾

پھر دیکھا

 ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ﴿22﴾

پھر منہ پھیرا، تیوری چڑھائی،

 ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ ﴿23﴾

پھر پیٹھ پھیری اور غرور وتکبر اختیار کیا۔

 فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ﴿24﴾

پھر کہا یہ تو نرا منقول جادو ہے۔

 إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿25﴾

یہ تو نرا آدمی ہی کا کلام ہے۔

 سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ﴿26﴾

میں اس کو جلدی ہی دوزخ میں داخل کروں گا۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ﴿27﴾

اور آپ کو کچھ خبر ہے کہ دوزخ ہے کی چیز؟

 لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ ﴿28﴾

وہ نہ تو باقی رہنے دے گی اور نہ چھوڑے گی۔

 لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ ﴿29﴾

کھال کو جھلس کر کالا کردینے والی ہے۔

 عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ﴿30﴾

جس پر انیس ( فرشتے) مقرر ہیں۔

 وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ ﴿31﴾

اور ہم نے دوزخ کے کارکن صرف فرشتوں ہی کو بنایا ہے اور ہم نے ان کا عدد کافروں کی آزمائش ہی کے لیے رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل کتاب تو یقین کرلیں گے اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے گا اور اہل کتاب اور مومنین شک وشبہ نہ کریں گے۔ اور نتیجہ یہ ہوگا کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور کافرو لوگ کہیں گے کہ آخر خدا کا مقصود اس بیان سے کیا ہے۔ اللہ اس طرح جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ دکھاتا ہے اور آپ کے پروردگار کے لشکروں (کی تعداد) تو بس وہی جانتا ہے اور یہ (دوزخ کا بیان) انسان کی صرف نصیحت کیلئے ہے۔

 كَلَّا وَالْقَمَرِ ﴿32﴾

تحقیقا قسم ہے چاند کی۔

وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ ﴿33﴾

اور رات کی، جب وہ جانے لگے۔

وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ ﴿34﴾

اور صبح کى جب وہ روشن ہوجائے۔

 إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ ﴿35﴾

کہ وہ جہنم (بڑی ہیبت ناک) چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔

 نَذِيرًا لِلْبَشَرِ ﴿36﴾

وہ لوگوں کے لیے ڈرنے کی چیز ہے۔

 لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ ﴿37﴾

تم میں سے جو چاہے آگے بڑھے اور جو چاہے پیچھے رہ جائے۔

 كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ﴿38﴾

ہر شخص اپنے اعمال میں محبوس ہوگا۔

 إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ ﴿39﴾

سوائے داہنی جانب والوں کے۔

 فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿40﴾

کہ وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے،

عَنِ الْمُجْرِمِينَ ﴿41﴾

اور وہ مجرمین (گناہگاروں) سے پوچھ رہے ہوں گے

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿42﴾

کہ تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لائی؟

 قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿43﴾

وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔

 وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ﴿44﴾

اور نہ ہم غریب کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔

 وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ﴿45﴾

اور ہم نکتہ چینی کرنے والوں کے ساتھ نکتہ چینیاں کرتے رہتے تھے۔

 وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿46﴾

اور ہم روز جزا کو جھٹلایا کرتے تھے۔

 حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ ﴿47﴾

یہاں تک کہ ہم کو موت آگئی۔

 فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ ﴿48﴾

اس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش کوئی فائدہ نہ دے گی۔

 فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ ﴿49﴾

انھیں کیا ہوگیا کہ نصیحت سے روگرانی کرتے ہیں۔

 كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ ﴿50﴾

گویا وہ وحشی گدھے ہیں۔

فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ ﴿51﴾

جو شیر سے بھاگ رہے ہیں۔

بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَىٰ صُحُفًا مُنَشَّرَةً ﴿52﴾

بلکہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو کھلے ہوئے آسمانی صحیفے مل جائیں۔

 كَلَّا ۖ بَلْ لَا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ ﴿53﴾

ہرگز نہیں یہ آخرت ہی سے نہیں ڈرتے۔

 كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ ﴿54﴾

ہرگز نہیں۔ یہ (قرآن) سراسر نصیحت ہے۔

 فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ ﴿55﴾

جس کا دل چاہے وہ اس نصیحت سے سبق حاصل کرے۔

 وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَىٰ وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ ﴿56﴾

لیکن یہ لوگ اس وقت تک نصیحت حاصل نہ کریں گے جب تک اللہ ہی نہ چاہیے۔ وہی اس لائق ہے کہ اس کی پکڑ سیڈرا جائے اور وہی مغفرت کرنے والا ہے۔

تشريح

﴿وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ﴾  حضرات کہتے ہیں کہ ” ثیاب “ سے مراد اخلاق ہے۔ ( معالم التنزیل : ص : ٣٨٢: ج : ٤)

اس آیت کریمہ سے نماز میں کپڑوں کا نجاسات سے پاک اور طاہر ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ واضح ہے ، لہٰذا نجس کپڑوں میں نماز جائز نہیں کیونکہ کپڑوں کی طہارت کے حکا مقصد نماز کی ادائیگی ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ نماز کے علاوہ کسی اور موقع کے لیے طہارت ثیاب کا حکم نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسر (رض) کو دیکھا کہ اپنا کپڑا دھو رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کپڑا کیوں دھو رہے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ بلغم لگ گیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کپڑے کو اس وقت دھویا جاتا ہے جب اس پر خون ، پیشاب یا منی لگ جائے “ ۔ ( تھوک یا بلغم نجس نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے کپڑا ناپاک ہوجائے)

نیز حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ اگر کپڑے پر منی لگ جائے تو دھودیا کروں اگر تر ہو ۔ بعض حضرات نے آیت کے الفاظ کو حقیقی معنی سے پھیرتے ہوئے اس سے مجازی معنی مراد لیے ہیں اور کہا ہے کہ وثیابک فطھر سے مراد ہے : عملک اصلحہ ۔ یعنی اپنے عمل کی درستگی اور اصلاح کیجئے ( کمارد عن ابی رزین)

اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے گناہ سے پاک کیجئے۔ یعنی اپنے کپڑوں کو گناہ میں آلودہ ہونے سے بچایئے۔

لیکن یہ مجازی معنی مراد لینادرست نہیں ۔ کیونکہ بغیر کسی ضرورت اور دلیل کے لفظ کو حقیقت سے مجاز کی طرف پھیرنا درست نہیں ۔ (احکام القرآن ۔ جصاص : ج : ٣ : ص : ٦٥٣٠)

 ﴿وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ﴾

اس آیت کی تفسیر میں علماء کے مختلف اقوال ہیں : حسن بصری (رح) اور ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں : اللہ تعالیٰ پر اپنی نیکیاں اور اعمال حسنہ کا احسان مت جتائیں ۔ اعمال میں اضافہ کے لیے اس سے اجر میں کمی واقع ہوسکتی ہے ( یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے) جبکہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں : اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو نبوت اور قرآن کی دولت عطا فرمائی ہے اس کو بیان کرنے پر لوگوں سے اجر اور بدلہ کے طالب مت ہوں۔

اور ابن عباس (رض) ، مجاہد ، ابراہیم ، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ : لا تعط عطیۃ لتعطی اکثر منھا یعنی کسی کو اس نیت سے ہدیہ وغیرہ نہ دیجئے کہ وہ بدلہ میں زیادہ دے۔

(اور ظاہر ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو اس کا تصور بھی بعید ہے ، لہٰذا اس کا ذریعہ درحقیقت یہ امت کو تعلیم دی گئی ہے کہ ہدایا وغیرہ دینے میں یہ جذبہ کار فرما نہ ہو کہ اس سے بڑھ کر ہدیہ دے گا )

امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام معانی کا آیت کے الفاظ احتمال رکھتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام معانی ہی مراد ہوں ( واللہ اعلم) ۔ ( احکام القرآن ۔ جصاص : ج : ٣: ص : ٦٣٠)

﴿ذَرْنِيْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيْدًا﴾ تسلی خاتم الانبیاء و اندار خاص کافر :

 میں نے پیدا کیا اس کو اس حال میں اکیلا تھا ساتھ اور تو کوئی نہیں تھا علامہ بغوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ المخزومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ( معالم التزیل : ص : ٣٨٣: ج : ٤)

فائدہ: ولید بن مغیرہ کو ” وحید “ کہتے ہیں ایک نکتہ کی بھی رعایت ہے وہ قریش میں بوجہ اس کے اس قدر مال اور اولاد کوئی نہ رکھتا تھا ” وحید “ مشہور اللہ تعالیٰ نے دوسرے معنی کے اعتبار سے ” وحید “ فرمایا جو اس کے عجز و در ماندگی پر دال ہے۔ ( بیان القرآن : ص : ٥٩: ج : ١٢)

واقعہ یوں ہے ولید بن مغیرہ مسجد حرام میں تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة غافر ( مومن) کی شروع کی دو آیتیں سنیں اور آیات سن کر متاثر ہوا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس فرمایا کہ یہ متاثر ہو رہا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ آیات کو دہرایا اس کے بعد ولید وہاں سے چلا گیا اور اپنی قوم بنی مخزوم میں جا کر کہا کہ اللہ کی قسم میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ابھی ایسا کلام سنا ہے جو نہ وہ انسان کا کلام ہے اور نہ جنات کا اور اس میں بڑی مٹھاس ہے اور وہ خود بلند ہوتا ہے دوسروں کو بلند کرنے کی ضرورت نہیں اس کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا۔

 جب قریش کو یہ بات معلوم ہوئی تو کہنے لگے ولید نے تو نیا دین قبول کرلیا اب تو سارے قریش اس نئے دین کو قبول کرلیں گے یہ سن کر ابو جہل نے کہا میں تمہاری مشکل دور کرتا ہوں یہ کہہ کر ولید کے پاس چلا گیا اور اس کی بغل میں رنجیدہ بن کر بیٹھ گیا ولید نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے کیا بات ہے تم غمگین نظر آ رہے ہو ابو جہل نے کہا رنجیدہ ہونے کی بات ہی تو ہے قریش نے فیصلہ کیا تھا کہ تیرے لیے مال جمع کریں اور تیرے بڑھاپے میں تیری مدد کریں اب وہ یہ خیال کررہے ہیں تو نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام سنا ہے اور تو اس کے پاس جاتا ہے۔

وہاں ابن ابی قحافہ ( حضرت ابوبکر صدیق (رض)) بھی موجود ہوتا ہے اور تو ان لوگوں کے کھانے میں سے کھا لیتا ہے یہ بات ولید کو بڑی بری لگی اور کہنے لگا قریش نے ایسا خیال کیوں کیا ؟ کیا قریش کو یہ معلوم نہیں ہے کہ میں ان سے بڑھ کر ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کبھی پیٹ بھرا بھی ہے جو اس کے پاس فاضل کھانا ہو جس سے میں بھی کھا لوں اس کے بعد ولید ابو جہل کے ساتھ روانہ ہوا اور اپنی قوم کی مجلس میں پہنچا اور کہنے لگا کہ تم لوگ خیال کرتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ آدمی ہے تو کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ وہ اپنا گلا گھونٹ رہا ہے ؟ کہنے لگے نہیں قوم لوگ کہتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہے تم نے اسے کبھی شاعری کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ کہنے لگے نہیں تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے کیا تم نے اسے کھی کاہنوں والی بات کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ کہنے لگے نہیں تم کہتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھوٹا ہے کیا تم نے اس کی زندگی میں ایسی بات آزمائی ہے جس میں اس نے جھوٹ بولا ہو ؟ سب نے کہا نہیں، کیونکہ خود انھوں نے نبوت سے پہلے امین کا لقب دے رکھا تھا قریش نے ولید سے کہا کہ تو بتا پھر کیا بات ہے ؟ اس نے کہا میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ وہ جادو گر ہے تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس کی باتوں سے میاں بیوی کے اور باپ بیٹوں کے درمیان تفریق ہوجاتی ہے ولید بن مغیرہ مال دار بھی تھا کھیتی باڑی دودھ کے جانور پھلوں کا باغ تجارت غلام اور باندی کا مالک ہونا ان چیزوں کا مفسرین نے ذکر کیا ہے اس کے دس لڑکے تھے جو ہر وقت حاضر باش رہتے تھے جب اس کے سامنے جنت کا ذکر آیا تو کہنے لگا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کی خبر دے رہے ہیں اگر یہ سچی ہے تو سمجھ لو کہ وہ میرے لیے ہی پیدا کی گئی ہے تو اس آیت میں ایک بڑے معاند بڑے کافر یعنی ولید بن مغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ (معالم التنزیل : ص : ٣٨٣، ٣٨٤: ج ٤)

﴿عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ﴾ جہنم کی دروغوں کی تعداد

 حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں چونکہ بسم اللہ کے انیس حروف ہیں لہٰذا اس مناسبت سے جہنم کے فرشتے بھی انیس ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب آیت بالا نازل ہوئی جس میں انیس فرشتوں کا ذکر ہے تو ابو جہل نے قریش سے کہا تمہارا ناس ہو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان ہے دوزخ کے انیس فرشتے ہیں تو کیا تم پہلو ان ہوتے ہوئے ان سے مار کھا جاؤ گے ، کیا تم میں سے ہر دس آدمی ایک فرشتے کے لیے کافی نہیں وہاں ایک شخص اسید بن کلدہ بھی موجود تھا اس نے کہا سترہ فرشتوں سے تو میں نمٹ جاؤں گا اور باقی دو سے تم نمٹ لینا ۔

 اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا کہ میں پل صراط پر تمہارے آگے آگے چلوں گا ،دس فرشتوں کو داہنیں کندھے سے اور نو فرشتوں کو بائیں کندھے سے ڈھکیل دوں گا اور ہم پل صراط سے گذر کر جنت میں داخل ہوجائیں گے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ( معالم التنزیل : ص : ٣٨٥: ج : ٤)

اس بےعقل نے انسان پر قیاس کر کے کہا، حالانکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک فرشتے کی طاقت تمام جنات اور تمام انسانوں کے برابر ہے۔ ( تفسیر در منثور : ص : ٢٨٤: ج : ٤)

﴿كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ﴾

”رھینة“ بمعنی مر ہو نہ ہے اس سے مراد اس کا محبوس اور مقید ہونا ہے جس طرح کوئی شخص قرض کے بدلے میں کوئی چیز رہن رکھ دیتا ہے اس مملوکہ چیز سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا اسی طرح قیامت کے دن ہر نفس اپنے گناہوں کے بدلے میں محبوس اور مقید ہوگا اور اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے جہنم میں محبوس رہے

﴿كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ﴾

گویا وہ وحشی گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے جا رہے ہیں۔ حضرت تھانوی (رح) لکھتے ہیں کہ اس تشبیہ میں کئی امر کی رعایت ہے۔ اول تو گدھا بلادت و حماقت میں مشہو رہے۔ دوسرے اس کو وحشی فرض کیا گورخر کہتے ہیں وہ بعض غیر مخوف چیزوں سے بھی طبعاً بدکتا بھاگتا ہے۔ تیسرے شیر سے ڈرنا فرض کیا کہ اس صورت میں اس کا بھاگنا انتہا درجہ کا ہوگا اور اس کے بھاگنے کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ اس قرآن کو بز عم خود حجیت میں کافی نہیں سمجھتے۔ ( بیان القرآن : ص : ١١٠: ج : ١٢)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply