سورہ مطففين ترجمہ اور تفسير
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
وَيۡل لِّلۡمُطَفِّفِينَ ﴿1﴾
بڑی خرابی ہے (ناپ تول میں) کمی کرنے والوں کی ،
ٱلَّذِينَ إِذَا ٱكۡتَالُواْ عَلَى ٱلنَّاسِ يَسۡتَوۡفُونَ ﴿2﴾
(ان کا یہ حال ہے کہ) جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پیمانہ بھر کرلیتے ہیں
وَإِذَا كَالُوهُمۡ أَو وَّزَنُوهُمۡ يُخۡسِرُونَ ﴿3﴾
اور جب لوگوں کو پیمانہ سے ماپ کردیتے ہیں تولتے ہیں تو کم کردیتے ہیں
أَلَا يَظُنُّ أُوْلَٰٓئِكَ أَنَّهُم مَّبۡعُوثُونَ ﴿4﴾
کیا انھیں اس کا یقین نہیں کہ وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ،
لِيَوۡمٍ عَظِيم ﴿5﴾
ایک بڑے سخت دن میں ،
يَوۡمَ يَقُومُ ٱلنَّاسُ لِرَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ﴿6﴾
جس دن لوگ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
كَلَّآ إِنَّ كِتَٰبَ ٱلۡفُجَّارِ لَفِي سِجِّين ﴿7﴾
ہرگز (ایسا) نہیں (کہ جزا وسزا نہ ہو) بیشک بدکاروں کا نامہ عمل سجین میں رہے گا ،
وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا سِجِّين ﴿8﴾
اور (اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو کیا معلوم سجین کیا ہے
كِتَٰب مَّرۡقُوم ﴿9﴾
وہ ایک لکھا ہوا دفتر ہے۔
وَيۡل يَوۡمَئِذ لِّلۡمُكَذِّبِينَ ﴿10﴾
اس دن ہلاکت و بربادی ہے جھٹلانے والوں کے لیے
ٱلَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوۡمِ ٱلدِّينِ ﴿11﴾
جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں۔
وَمَا يُكَذِّبُ بِهِۦٓ إِلَّا كُلُّ مُعۡتَدٍ أَثِيمٍ ﴿12﴾
اسے صرف وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے آگے نکل جانے والا (اور) گناہ گار ہوتا ہے۔
إِذَا تُتۡلَىٰ عَلَيۡهِ ءَايَٰتُنَا قَالَ أَسَٰطِيرُ ٱلۡأَوَّلِينَ ﴿13﴾
جب اس کے سامنے ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو گزرے ہوئے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔
كَلَّاۖ بَلۡۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُواْ يَكۡسِبُونَ ﴿14﴾
ہرگز نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔
كَلَّآ إِنَّهُمۡ عَن رَّبِّهِمۡ يَوۡمَئِذ لَّمَحۡجُوبُونَ ﴿15﴾
ہرگز (ایسا) نہیں (کہ جزاوسزا نہ ہو) یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے روک دیئے جائیں گے ،
ثُمَّ إِنَّهُمۡ لَصَالُواْ ٱلۡجَحِيمِ ﴿16﴾
پھر یہ لوگ دوزخ میں داخل ہوں گے۔
ثُمَّ يُقَالُ هَٰذَا ٱلَّذِي كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ ﴿17﴾
پھر (ان سے) کہا جائے گا کہ یہ وہی (دوزخ) ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے
كَلَّآ إِنَّ كِتَٰبَ ٱلۡأَبۡرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ ﴿18﴾
ہرگز ایسا نہیں ہے۔ بیشک جو نیک لوگ ہیں ان کا نامہ اعمال ” علیین “ میں ہوگا
وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا عِلِّيُّونَ ﴿19﴾
اور کیا آپ کو معلوم ہے ” علییون “ کیا ہے ؟
كِتَٰب مَّرۡقُوم ﴿20﴾
وہ ایک کتاب اعمال ہے جو ہمیشہ لکھی جاتی ہے
يَشۡهَدُهُ ٱلۡمُقَرَّبُونَ ﴿21﴾
جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں۔
إِنَّ ٱلۡأَبۡرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ﴿22﴾
بیشک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے ،
عَلَى ٱلۡأَرَآئِكِ يَنظُرُونَ ﴿23﴾
مسہریوں پر بیٹھے نظارہ کررہے ہوں گے۔
تَعۡرِفُ فِي وُجُوهِهِمۡ نَضۡرَةَ ٱلنَّعِيمِ ﴿24﴾
اگر تم انھیں دیکھو تو خوشحالی کی تازگی ان کے چہروں سے نمایاں ہوگی
يُسۡقَوۡنَ مِن رَّحِيق مَّخۡتُومٍ ﴿25﴾
انھیں حیات سرمدی کی وہ شراب پلائی جائے گی
خِتَٰمُهُۥ مِسۡك وَفِي ذَٰلِكَ فَلۡيَتَنَافَسِ ٱلۡمُتَنَٰفِسُونَ ﴿26﴾
جس کی بوتلیں سربہ مہر ہوں گی اور ان پر مشک کی مہریں لگی ہوں گی بس یہ زندگی ہے کہ تقلید کرنے والوں کو اس کی تقلید کرنی چاہیے
وَمِزَاجُهُۥ مِن تَسۡنِيمٍ ﴿27﴾
اس شراب میں تسنیم کے پانی کی آمیزش ہوگی
عَيۡنا يَشۡرَبُ بِهَا ٱلۡمُقَرَّبُونَ ﴿28﴾
یہ ایک چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پئیں گے
إِنَّ ٱلَّذِينَ أَجۡرَمُواْ كَانُواْ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يَضۡحَكُونَ ﴿29﴾
بیشک مجرم لوگ اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے
وَإِذَا مَرُّواْ بِهِمۡ يَتَغَامَزُونَ ﴿30﴾
اور یہ (ایمان والے) جب ان (کافروں) کے سامنے سے ہو کر گزرتے تھے تو آپس میں آنکھوں سے اشارہ کیا کرتے تھے۔
وَإِذَا ٱنقَلَبُوٓاْ إِلَىٰٓ أَهۡلِهِمُ ٱنقَلَبُواْ فَكِهِينَ ﴿31﴾
اور جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاتے تھے، تو دل لگی کرتے ہوئے جاتے تھے۔
وَإِذَا رَأَوۡهُمۡ قَالُوٓاْ إِنَّ هَٰٓؤُلَآءِ لَضَآلُّونَ ﴿32﴾
اور جب مسلمانوں کو دیکھتے تھے تو کہہ اٹھتے تھے یہ لوگ چکمہ کھا گئے ہیں۔
وَمَآ أُرۡسِلُواْ عَلَيۡهِمۡ حَٰفِظِينَ ﴿33﴾
حالانکہ ان کافروں کو مسلمانوں پر کوئی نگراں بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔
فَٱلۡيَوۡمَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنَ ٱلۡكُفَّارِ يَضۡحَكُونَ ﴿34﴾
سو آج کے دن مسلمان کافروں پر ہنسیں گے۔
عَلَى ٱلۡأَرَآئِكِ يَنظُرُونَ ﴿35﴾
مسہریوں پر (بیٹھے ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے ۔
هَلۡ ثُوِّبَ ٱلۡكُفَّارُ مَا كَانُواْ يَفۡعَلُونَ ﴿36﴾
ہاں اب تو وقت آگیا ہے کہ منکروں نے اپنے اعمال کا بدلہ پالیا۔
تعارف سورۃ التطفیف
اس سورت کے دو نام ہیں : التطفیف اور المطففین،
طفف المکیال کے معنی ہیں : پیمانے کو پورا نہ بھرا، کم رکھنا ۔ سورۃ الانفطار قیامت کے تذکرہ پر پوری ہوئی تھی، یہ اسی کے تذکرہ سے شروع ہورہی ہے، وہ لوگ کم ناپتے تولتے ہیں جن کو نہ خدا کا خوف ہے نہ قیامت کا ڈر ! پس اس سورت کا موضع بھی قیامت اور جزا و سزا کا بیان ہے، اور اس سورت میں بنیادی مضامین چار ہیں :
1 ۔ شروع میں کم ناپنے تولنے والوں کے لئے وعید ہے، جب وہ حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونگے تو ان کے لئے بڑی کم بختی ہوگی۔
2 ۔ بدکاروں کا ٹھکانہ جیل خانہ (دوزخ) ہے، پھر جہنمیوں کے بارے میں پانچ باتیں بیان کی ہیں۔
3 ۔ نیکوکاروں کا ٹھکانا بالا خانہ (جنت) ہے، پھر ان کی پانچ نعمتوں کا ذکر ہے۔
4 ۔ دنیا میں جو لوگ مسلمانوں کا ٹھٹھا کرتے ہیں : آخرت میں جب پانسہ پلٹے گا تو مسلمان، کفار پر ہنسیں گے، اور ان کو قرار واقعی سزا ملے گی۔
اسلام نے ہمیشہ ایسی تعلیمات دی ہیں جن سے معاشرہ پر سکون ہوجائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات سے صرف مسلمان ہی مستفید نہیں ہوئے بلکہ ان کے قریب ترین غیر مسلموں پر بھی ان کے بڑے اچھے اثرات ظاہر ہوئے۔ جیسا کہ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں۔ ” اگر ہندوستان کی اقتصادی زندگی میں پیدا شدہ تبدیلیاں قابل توجہ تھیں تو معاشرتی اور سیاسی زندگی میں عظیم تر تھیں۔ معاشرتی زندگی کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر مساوات پسندانہ تھا۔ اسلام نے موروثی اور نسلی امتیازات کو زیادہ قابل قدر نہیں سمجھا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ ہندو مت میں معاشرتی مساوات کا احساس زندہ ہوا۔ اور یہ مذہب سماجی حد بندیوں کو توڑنے کے لیے آمادہ ہوگیا ”۔ (ڈاکٹر تارا چند ‘ تمدن ہند پر اسلامی اثرات ‘ اردو ترجمہ ‘ صفحہ 231)
تطفیف کے معنی ماپ تول میں چوری چھپے کمی کرنا ہے۔ لیکن مطفف ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے حق میں کمی کرتا ہے اللہ کا حق ہو یا بندوں کا۔ ہر طرح کی تطفیف ناجائز ہے۔ بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت و بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ ہر معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت و فرمان برداری کریں نماز، روزہ، زکوۃ ، حج کے آداب، احکامات اور فرائض کو پوری طرح ادا کریں اور اس نے جیسا حکم دیا ہے اس کام کو اسی طرح ادا کریں۔ بندوں کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ معاملات زندگی، لین دین اور تجارت میں احکامات الٰہی کے مطابق عمل کریں اور کسی کو کسی طرح کی کمی کا احساس نہ ہونے دیں کیونکہ جس معاشرہ میں اللہ کے ساتھ شرک اور ماپ تول میں کمی کی جاتی ہے وہ معاشرہ باہمی اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور زندگی کے تمام معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جو اپنی ذاتی مفادات کے لیے پوری قوم کے اخلاق و کرار کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر وشرک جتنا بڑا جرم ہے۔ تجارتی بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ، دھوکہ دہی اور بےایمانی بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جس کی سزا اس قوم کی مکمل تباہی اور بربادی ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.