surah qaf with urdu translation

Surah Qaf With Urdu Translation, Surah Qaf Tafseer In Urdu

ترجمہ اور تفسير سورہ ق

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ ﴿1﴾

ق، قرآن مجید کی قسم !

 بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ ﴿2﴾

بلکہ ان کو اس بات پر تعجب ہے کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ڈرانے والا آگیا ہے۔ پھر وہ کافر کہتے ہیں کہ یہ تو عجیب سی بات ہے

 أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ ﴿3﴾

کہ جب ہم مرکر خاک ہوجائیں گے (دوبارہ اٹھائے جائیں گے) یہ تو عقل اور سمجھ سے دور کی بات ہے۔

 قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ ﴿4﴾

(اللہ تعالیٰ فرمائیں گے) حالانکہ ہم ان اجزا کو جنہیں زمین نے کم کردیا ہے ( یا کھالیا ہے) اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمارے پاس کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے۔

 بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ ﴿5﴾

اصل بات یہ ہے کہ جب ان کے پاس سچی بات پہنچ گئی تو انھوں نے اس کو جھٹلادیا۔ اب وہ کشمکش اور الجھن میں مبتلا ہیں۔

 أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ ﴿6﴾

کیا انھوں نے اس آیمان کو نہیں دیکھا جو ان کے سروں پر (چھت کی طرح) ہے کہ ہم نے اس کو کیسا بنایا ہے کیسے آراستہ کیا ہے ؟ اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے؟

 وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ﴿7﴾

اور زمین کو ہم نے پھیلا یا اور اس میں پہاڑوں کو جما دیا اور اس میں ہر قسم کی خوشنماچیزیں اگائیں

 تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ ﴿8﴾

جو ذریعہ ہے بینائی اور دانائی کا، ہر رجوع ہونے والے بندے کیلئے۔

 وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ﴿9﴾

اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی برسایا پھر ہم نے اس سے باغ اور کھیتی کا غلہ

 وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ ﴿10﴾

اس نے کھجوروں کے اونچے اونچے درخت اگائے کہ ان درختوں کا گا بھا خوب گتھا ہوا ہوتا ہے ۔

 رِزْقًا لِلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ الْخُرُوجُ ﴿11﴾

(یہ اللہ نے ) بندوں کے لیے رزق کا ذریعہ بنایا ہے) اور پانی سے ہم نے مردہ زمین کو زندگی بخشی ہے ( جو لوگ مرچکے ہیں ان کا بھی ) نکلنا اسی طرح سے ہوگا۔

 كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ﴿12﴾

ان سے پہلے نوح کی قوم اور اصحاب الرس اور ثمود کے لوگوں نے بھی (اس بات کو) جھٹلایا تھا۔

 وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ ﴿13﴾

نیز قوم عاد اور قوم فرعون اور لوط کے بھائیوں نے بھی۔

 وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ ﴿14﴾

اور اصحاب الایکہ اور تبع قوم نے بھی۔ ان سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا تھا، اس لیے میں نے جس عذاب سے ڈرایا تھا، وہ سچ ہو کر رہا۔

 أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿15﴾

تو کیا ہم پہلی بار کی پیدائش سے تھک چکے ہیں ؟ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ از سر نو پیدائش ہی کی طرف سے شبہ میں پڑے ہیں۔

 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴿16﴾

اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور ہم (خوب) جانتے ہیں ان وسوسوں (تک) کو جو اس کے جی میں آتے رہتے ہیں ہم تو اس کی رگ گردن سے بھی بڑھ کر اس کے قریب ہیں۔

 إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴿17﴾

دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے دو فرشتے اس کے اعمال کو لکھ رہے ہیں۔

 مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ﴿18﴾

اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے اس کے پاس ایک نگراں موجود نہ ہو۔

 وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ ﴿19﴾

اور موت کی وہ سختی آپہنچی جو برحق ہے۔ (جس سے وہ زندگی بھر) بچتا بھرتا تھا۔

 وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ ﴿20﴾

اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو یہی دن عذاب کے وعدے کا دن ہوگا۔

 وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ ﴿21﴾

ہر شخص ( میدان حشر میں) اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ) حشر میں لانے والا اور ایک گواہ ہوگا۔

 لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ ﴿22﴾

(اس سے کہا جائے گا کہ ) تو اس دن سے غفلت میں تھا جس کے پردے کو ہم نے ہٹادیا ہے۔ آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے۔

 وَقَالَ قَرِينُهُ هَٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ ﴿23﴾

اور اس کا وہ ساتھی (فرشتہ) جو گواہ تھا کہے گا کہ اس کا نامہ اعمال میرے پاس تھا جو حاضر ہے۔

 أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ ﴿24﴾

(حکم دیا جائے گا کہ ) تم ہر اس شخص کو جہنم میں جھونک دو جو ناشکرا اور زیادتی کرنے والا،

 مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ ﴿25﴾

نیک کام سے روکنے والا ہو، حد سے نکل جانے والا ہو،

 الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ ﴿26﴾

جس نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو معبود بنایا اس کو بھی شدید عذاب میں جھونک دو ۔

 قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ ﴿27﴾

اس کا وہ ساتھی (جو شیطان تھا) کہے گا کہ اے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود گمراہی میں دوڑا پھرتا تھا۔

 قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ ﴿28﴾

فرمایا جائے گا کہ میرے سامنے نہ جھگڑو کیونکہ میں پہلے ہی تمہارے پاس عذاب کا وعدہ بھیج چکا تھا۔

 مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ﴿29﴾

میرے پاس کوئی بات بدلی نہیں جاتی اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔

 يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ ﴿30﴾

وہ دن (کتنا ہیبت ناک ہوگا) جب ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تو بھرچکی ؟ وہ جہنم کہے گی کہ کیا کچھ اور بھی ہے ؟

 وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ ﴿31﴾

اور جنت متقیوں کے قریب لائی جائے گی کہ کچھ دور نہ رہے گی،

 هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ ﴿32﴾

یہی وہ چیز ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا کہ وہ ہر رجوع ہوجانے والے، پابندی رکھنے والے کے لیے ہے۔

 مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ ﴿33﴾

(غرض) جو کوئی بھی (خدائے) رحمن سے بےدیکھے ڈرتا ہوگا اور رجوع ہونے والا دل لے کر آئے گا ،

 ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ ﴿34﴾

(اس کو حکم ہوگا کہ) داخل ہوجاؤ اس جنت میں سلامتی کے ساتھ، یہ دن ہمیشگی کا ہے۔

 لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ ﴿35﴾

ان لوگوں کو وہاں سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اور بھی زائد ہے

 وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ ﴿36﴾

اور ہم ان قبل بہت سی امتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جو قوت میں ان سے کہیں بڑھ کر تھے اور (تمام) شہروں کو چھانتے پھرتے تھے (سو) انھیں کہیں بھاگنے کی جگہ بھی ملی؟

 إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴿37﴾

بیشک اس میں ہر اس شخص کے لیے عبرت و نصیحت ہے جو دل رکھتا ہے یا جو پوری توجہ سے بات کو سنتا ہے۔

 وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ ﴿38﴾

اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پید کردیا اور ہم کو تکان نے چھوا تک نہیں۔

 فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ﴿39﴾

سو آپ ان کی باتوں پر صبر ہی کیجئے اور اپنے پروردگار کی حمد وتسبیح کرتے رہئے آفتاب نکلنے سے پہلے اور (اس کے) چھپنے سے پہلے بھی۔

 وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ﴿40﴾

اور رات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور نمازوں کے بعد بھی۔

 وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ ﴿41﴾

اور سن رکھ (اے مخاطب) کہ جس دن ایک پکارنے والا پاس ہی سے پکارے گا

 يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ ﴿42﴾

اور اس دن یقینا سب لوگ اس چیخ کو (صور پھونکے جانے کو) سن لیں گے یہ ان کے قبروں سے نکلنے کا دن ہوگا۔

 إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ ﴿43﴾

بیشک ہم ہی جلاتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف باز گشت ہے۔

 يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ ﴿44﴾

اس دن جب زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اس کے اندر سے نکل کر دوڑ رہے ہوں گے ان سب کو جمع کرلینا ہمارے لیے آسان ہے۔

 نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ ﴿45﴾

ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے (بنا کر) نہیں (بھیجے گئے) ہیں، سو آپ قرآن کے ذریعہ سے نصیحت کرتے رہئے اسے جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔

سورہ ق كى فضيلت

حضرت قطبہ بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں ” ق والقرآن المجید “ پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :457، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 816)

حضرت ابو واقدلیثی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید کی نماز میں ”ق“ اور ”اقتربت الساعة“ پڑھا کرتے تھے۔ (مسند احمد رقم الحدیث : 21404، داراحیاء التراث العربی، بیروت، صحیح مسلم رقم الحدیث :891، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1154، سنن ترمذی رقم الحدیث :554، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1282)

حضرت ام ہشام بنت حارثہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے ”ق والقرآن المجید“ کو صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یاد کیا ہے، آپ ہر جمعہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ سورت پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 872، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1102، سنن نسائی رقم الحدیث :1411، مسند احمد رقم الحدیث :26910)

قٓ کے معانی

قٓ حروفِ مقطعات میں سے ہے، جس طرح نٓ اور صٓ حروف مقطعات میں سے ہیں، ان حروف کے معانی قطعی طور پر معلوم نہیں ہیں، ان پر اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ان حروف سے جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے، جس طرح ہمیں بعض احکام شرعیہ کی عقلی توجیہ معلوم نہیں ہوتی، لیکن ہم ان پر عمل کرتے ہیں مثلاً جب پانی نہ ملے تو تیمم کرنے کا حکم ہے،  تاہم صحابہء کرام، فقہاء تابعین اور قدیم مفسرین نے ظنی طور پر ان حروف کے معانی بیان کیے ہیں :

امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی متوفی 427 ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قٓ اللہ عزوجل کے اسماء میں سے ایک اسم ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس اسم کی قسم کھائی ہے۔

قتادہ نے کہا: قٓ قرآن مجید کے اسماء میں ایک اسم ہے۔

قرظی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا افتاح اپنے اسم سے کیا ہے، اور قٓ سے مراد قدیر، قادر، قاہر، قاضی اور قابض ہے۔

عکرمہ اور ضحاک نے کہا: یہ سبز زمرد کا پہاڑ ہے اور لوگوں کو جو زمرد ملتا ہے، وہ اسی پہاڑ سے جھڑنے والے زمرد کے ٹکڑے ہیں۔

فراء نے کہا : قٓ سے مراد ہے: ”قضیٰ ما هو کائن“ یعنی جو کچھ پیدا ہونے وال تھا اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ابوبکر ورّاق نے کہا : اس کا معنی ہے: ”قف عند أمرنا ونھینا ولا تعدھما“ یعنی ہم جو حکم دیں اور جس کام سے منع کریں اس پر توقف کرو اور اس پر عمل کرو اور اس سے تجاوز نہ کرو۔

ابن عطاء نے کہا : اللہ نے اپنے حبیب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب کی قوت کی قسم کھائی جس قلب نے قرآن مجید کے نزول کے ثقل کو برداشت کیا، حالانکہ جب اس کے ثقل کو بڑے بڑے پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے اور اللہ نے قرآن مجید کی قسم کھائی ہے۔ (الکشف والخفاء ج 9 ص 92-93، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1422 ھ)

بَلْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَهُمْ فَهُمْ فِيْٓ اَمْرٍ مَّرِيْجٍ

”أمر مریج“ کا معنی

الجھن کے لیے اس آیت میں ”أمر مریج“ کا لفظ ہے، علامہ مجد الدین محمد یعقوب الفیروز آبادی المتوفی 817 ھ لکھتے ہیں: ”مرج “ کا معنی ہے : فساد، قلق، اختلاط، اضطراب اور ” امر مریج “ کا معنی ہے : مختلط۔ (القاموس المحیط ص 205، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، 1424 ھ)

حضرت ابن عباس نے فرمایا: ”أمر مریج“ کا معنی ہے : نہایت برا کام جو خلاف شرع ہو، حدیث میں یہ لفظ اضطراب اور فساد کے معنی میں ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عبداللہ ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم ایسے لوگوں میں ہو گے جن کے عھود اور ان کی امانتیں فاسد اور مضطرب ہوچکی ہوں گی اور وہ اس طرح اس طرح ہوچکی ہوں گی۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث :4343، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3857، جامع الاصول رقم الحدیث :7456)

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ،  وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ، وَّ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۭ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيْدِ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس سے پہلے نوح کی قوم نے اور اندھے کنویں والوں نے اور ثمود نے جھٹلایا تھا۔ اور عاد اور فرعون اور لوط کے علاقہ والوں نے۔ اور امریکہ (جنگل) والوں نے اور تبع کی قوم نے، ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا سو عذاب کی وعید برحق ہے۔ تو کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ہیں ؟ (نہیں) بلکہ وہ اپنے ازسر نو پیدا ہونے کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ (قٓ:12-15)

”أصحاب الرس“ کے مصادیق

”الرس“ کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں : (١) زمین میں جو بھی گڑھا ہو خواہ وہ قبر کا گڑھا ہو یا کنویں کا گڑھا ہو اس کو ” الرس “ کہتے ہیں (٢) وہ کنواں جس کو کسی چیز سے ڈھکا نہ گیا ہو اور نہ اس کے گرد منڈیر بنائی گئی اور اس میں لوگوں کے گرنے کا خطرہ ہو، اس کو اندھا کنواں بھی کہتے ہیں۔

” اصحاب الرس “ کے متعلق چار قول ہیں :

(١) ضحاک نے کہا : یہ وہ کنواں ہے جس میں صاحب یٰسین کو قتل کرکے ڈال دیا گیا تھا۔

(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : فہ آذربائی جان کے لوگوں کا کنواں ہے۔

(٣) قتادہ اور زہیر نے کہا : اس سے مراد اہل یمامہ ہیں، انھوں نے بہت کنویں بنائے ہوئے تھے۔

(٤) اس سے مراد ” اصحاب الاخدود “ ہیں۔ (النکت والعیون ج 5 ص 344)

نیز اس آیت میں ثمود کا ذکر ہے، حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کو ثمود کہتے ہیں، یہ عرب کے قدیم لوگ تھے۔

عاد کا معنی اور مصداق

عاد ایک شخص کا نام ہے جو عمالیق سے تھا، اس کی اولاد بہت زیادہ تھی اور ان کے کئی قبائل بن گئے، یہ لوگ یمن کے احقاف (ٹیلوں، ریگستان) میں رہتے تھے اور یہ حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم تھی۔

اور اس آیت میں فرعون کا ذکر ہے، اس کی اصل میں اختلاف ہے، مجاہد کا قول ہے کہ یہ فارس کا رہنے والا تھا۔ ابن لہیعہ نے کہا : یہ اہل مصر سے تھ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے، یہ تین سو سال زندہ رہا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کو اسی (80) سال تک دعوت دیتے رہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ چار سو سال زندہ رہا۔

اور اس آیت میں اخوان لوط کا ذکر ہے، یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اور ان کے علاقے کے لوگ جن کی طرف ان کو مبعوث کیا گیا تھا۔

ایکہ والوں کا مصداق

ایکہ اس جگہ کو کہتے ہیں : جہاں بہت زیادہ اور بہت گھنے درخت ہوں، درختوں کا جھنڈ، جنگل۔ بعض لوگوں نے کہا : کسی خاص شہر یا ملک کا نام ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلم اصحاب ایکہ اور اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور دونوں قوموں پر عذاب نازل کیا گیا، اہل مدین ایک ہول ناک چیخ سن کر ہلاک ہوگئے اور اصحاب الایکہ جس جنگل میں تھے ان پر بادل کا عذاب آیا تھا۔ اور اس آیت میں قوم تبع کا ذکر ہے، تبع عرب کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا، اس کو تبع اس لیے کہتے تھے کہ اس کے متبعین بہت زیادہ تھے۔ وہب بن منبہ نے کہا : تبع خود مسلمان تھا اور اس کی قوم کافر تھی، اس لیے اس آیت میں اس کی قوم کا ذکر ہے۔

تبع کا معنی اور مصداق

قتادہ نے کہا : تبع کی قوم سے مراد قوم سبا ہے، سبا میں حمیر قبیلہ تھا، یہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے، جیسے روم کے بادشاہ کو قیصر اور فارس کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے ہیں۔ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ تبابعہ میں سے بعض تبع کو بہت شہرت حاصل ہوئی، بعض مورخین نے کہا کہ وہ ملکوں کو فتح کرتا ہوا سمرقند تک پہنچ گیا، قوم سبا اپنے وقت کی بہت عظیم قوم تھی جو قوت اور خوش حالی میں نمایاں تھی لیکن جب اس قوم نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تو اس کو بھی ملیا میٹ کر کے رکھ دیا گیا۔

حافظ ابن کثیر نے دو تبع کا ذکر کیا ہے، اول تبع وہ تھا جو پہلے کافر تھا پھر مسلمان ہوگیا اور علماء یہود کے ہاتھ پر اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو قبول کرلیا اور یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے، اس نے جرہم کے زمانہ میں بیت اللہ کا حج کیا تھا اور جس تبع کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے، یہ اس تبع سے بہت متاخر تھا، اس کی قوم اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئی تھی، پھر جب یہ فوت ہوگیا تو پھر اس کی قوم آگ اور بتوں کی پرستش کرنے لگی، اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی مذمت فرمائی، اس کا نام اسعد ابوکریب یمانی تھا، اس نے اپنی قوم پر تین سو چھپن سال حکومت کی تھی۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے سات سو سال پہلے فوت ہوگیا تھا اور امام ابن ابی الدین نے ذکر کیا ہے کہ زمانہء اسلام میں صنعاء میں ایک قبر کو کھودا گیا تو اس میں سے دو لڑکیوں کی لاشیں ملیں، ان کی لوح پر لکھا ہوا تھا کہ یہ تبع کی بیٹیاں ہیں، یہ موت کے وقت ” لا الہ الا اللہ “ کی شہادت دیتی تھیں، انھوں نے شرک نہیں اس سے پہلے صالحین بھی اسی عقیدے پر فوت ہوئے تھے۔ کعب احبار نے کہا : اللہ تعالیٰ نے تبع کی قوم کی مذمت کی ہے، تبع کی مذمت نہیں کی۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تبع کو برا نہ کہو وہ مسلمان ہوچکا تھا۔ (مسند احمد ج 5 ص 340) امام عبدالرزاق، امام ابن ابی حاتم اور امام طبرانی نے بھی اپنی سندوں کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 156-157، ملخصا، دارالفکر، بیروت، 1419 ھ)

پھر فرمایا : ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا، سو عذاب کی وعید برحق ہے۔ یعنی ان میں سے ہر قوم نے ان رسولوں کی تکذیب کی جن کی طرف ان کو مبعوث کیا گیا تھا پھر ان تمام قوموں پر اللہ تعالیٰ کی وعید کے موافق عذاب نال ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو ڈرایا ہے کہ اگر تم اپنے کفر پر اصرار کرتے رہے تو تم پر بھی اس عذاب کا خطرہ ہے جو ان قوموں پر آچکا ہے۔

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ

”ورید“ اس رگ کو کہتے ہیں جس کے کٹنے سے موت واقع ہوجاتی ہے، یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے کندھے تک ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ہماری ہر ظاہر اور باطن چیز کا علم ہے، حتیٰ کہ اس کو ہمارے دل میں آنے والے خیالات کا بھی علم ہے۔ حسن بصری نے کہا : شہ رگ سے مراد رگِ جان ہے جو دل کے ساتھ معلق ہے اور اس قرب سے مراد قرب مسافت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ انسان کے دل سے زیادہ اس کے قریب ہے یعنی دل میں کسی خیال کے آنے سے پہلے اسے اس خیال کا علم ہوتا ہے۔ مقاتل نے کہا : اس قرب سے مراد علم اور قدرت ہے، انسان کے بعض اعضاء اس کے علم کے لیے حجاب بن جاتے ہیں اور اللہ کے علم کے لیے کوئی چیز حجاب نہیں بنتی، ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے خون میں کیا کیا کیمیاوی اجزاء ہیں، کیا کیا بیماریاں ہیں، ہمارے معدہ اور جگر میں قوت اور ضعف اور صحت اور سقم کی کیا کیفیات ہیں، ہمارے جسم میں کتنے مسامات اور کتنے بال ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو ہمارے جسم کے ہرحال اور ہر کیفیت کا علم ہوتا ہے۔

اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: نیکیاں لکھنے والا فرشتہ انسان کی دائیں جانب ہوتا ہے پس جب انسان کوئی نیکی کرتا ہے تو دائیں جانب والا فرشتہ اس کو دس گنا کر کے لکھ لیتا ہے اور جب انسان کوئی برائی کرتا ہے تو دائیں جانب والا فرشتہ بائیں جانب والے سے کہتا ہے : اس کو دس گھنٹے تک مہلت دو شاید یہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرے یا توبہ کرلے۔ (حلیۃ الاولیاء ج 6 ص 124، الوسیط ج 4 ص 165، شعب الایمان رقم الحدیث :7051، المعجم الکبیر رقم الحدیث :7765)

حافظ الہیشمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں ایک متروک راوی ہے وہ سعید بن سنان ہے۔ (مجمع الزوائد ج 10 ص 207-208) لیکن اسی کے قریب حدیث صحیح میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا، جب میرا بندہ گناہ کرنا چاہے تو (اس کو) فوراً نہ لکھو، پھر اگر وہ گناہ کرلے تو اس کا ایک گناہ لکھو، اور جب وہ نیکی کرنا چاہے تو اس کی ایک نیکی لکھ دو اور جب وہ نیکی کا عمل کرلے تو دس نیکیاں لکھ دو ، ایک اور روایت میں دس سے سات سو نیکیاں لکھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 128، الرقم المسلسل : 327-328، سنن ترمذی رقم الحدیث :3073)

امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی 516 ھ لکھتے ہیں:

حسن بصری نے کہا : فرشتے دو حالتوں میں انسان سے اجتناب کرتے ہیں جب وہ قضاء حاجت کر رہا ہو اور جب وہ اپنی بیوی سے جماع کر رہا ہو۔ عکرمہ نے کہا : وہ اس کے اسی کام کو لکھتے ہیں جس پر ثواب ہو یا عذاب ہو۔ (معالم التنزیل ج 4 ص 272، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1420 ھ)

علامہ آلوسی حنفی نے بھی یہی لکھا ہے کہ فرشتے قضاء حاجت اور جماع کے وقت انسان سے مجتنب رہتے ہیں۔ (روح المعانی جز 26 ص 273)

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ

اس آیت میں ”رقیب“ اور ”عتید“ کے الفاظ ہیں، ”رقیب“ کا معنی ہے: حکم پر عمل کرنے والا، محافظ اور مشاہدہ کرنے والا اور ”عتید“ کا معنی ہے : وہ شخص جو ہمیشہ حاضر رہے اور کبھی غائب نہ ہو اور وہ شخص جو گواہی دینے کی حفاظت کر رہا ہو۔

حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب دو محافظ اللہ سبحانہٗ کی طرف اپنا لکھا ہوا لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صحیفہ کی ابتداء اور آخر میں نیکی لکھی ہوئی دیکھتا ہے تو فرشتوں سے فرماتا ہے : تم گواہ ہوجاؤ کہ اس صحیفہ کے درمیان میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اس کو میں نے معاف کردیا۔ (الفردوس بماثور الخطاب للدیلمی رقم الحدیث :6170، کامل ابن عدی ج 2 ص 84 طبع جدید، مجمع الزوائد ج 10 ص 208)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے بندہ کے ساتھ دو فرشتے مقرر کردیئے ہیں جو اس کے عمل لکھتیرہتے ہیں، جب وہ بندہ مرجاتا ہے تو فرشتے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! بیشک فلاں بندہ مرگیا اب تو ہمیں اجازت دے کہ ہم آسمان کی طرف چلے جائیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے آسمان تو فرشتوں سے بھرے ہوئے ہیں جو میری تسبیح کررہے ہیں، پھر وہ فرشتے کہیں گے : اے ہمارے رب ! پھر ہم زمین میں قیام کریں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میری زمین تو میری مخلوق سے بھری ہوئی ہے جو میری تسبیح کرتی ہے، پھر وہ فرشتے کہیں گے: اے ہمارے رب ! پھر ہم کہاں رہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ؟ تم میرے اسی بندے کی قبر پر رہو، تم ” اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ “ اور ” سبحان اللہ “ پڑھو اور اس کو میرے بندے کے صحیفہ اعمال میں قیامت تک لکھتے رہو۔ (حافظ سیوطی نے اس حدیث کو ” کتاب العظمۃ “ اور ” شعب الایمان “ کے حوالے سے درج کیا ہے۔ الدرالمنثور ج 7 ٹ 521)

وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ

اللہ تعالیٰ نے زبان رسالت سے جو وعدے کیے تھے اور قیامت، حساب و کتاب اور جنت اور دوزخ کی جو خبریں دی تھیں ان کی صداقت ظاہر ہوجاتی ہے اور اس میں ” تحید “ کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے : تو جس چیز سے اعراض اور انحراف کرتا تھا اور بھاگتا اور بدکتا تھا۔ موت کی سختیوں کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں:

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک برتن تھا جس میں پانی تھا، آپ اس پانی میں ہاتھ ڈالتے پھر اس ہاتھ کو اپنے چہرے پر پھیرتے، پھر فرماتے : ”لا إله إلا الله“ (اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے) ، بیشک موت کے لیے شدتیں اور سختیاں ہیں، پھر آپ نے ہاتھ کھڑا کر کے فرمایا: ”في الرفیق الاعلیٰ“ (مجھے رفیق اعلیٰ یعنی انبیاء اور مرسلین کی معیت میں رکھنا) ، پھر آپ کا ہاتھ گرگیا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6510، صحیح مسلم رقم الحدیث :2443)

حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن جب مرتا ہے تو اس کی پیشانی پر پسینہ آتا ہے۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث :982، المستدرک ج 1 ص 361)

وَجَاۗءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَاۗىِٕقٌ وَّشَهِيْدٌ

آخرت میں چلانے والے اور گواہی دینے والے کا مصداق

چلانے والے کی تفسیر میں دو قول ہیں :

(١) حضرت ابوہریرہ اور ابن زید نے کہا : وہ ایک فرشتہ ہے جو اس کو محشر کی طرف لے جائے گا۔

(٢) ضحاک نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس کو محشر کی طرف لے جائے گا۔

 اور گواہ کی تفسیر میں تین قول ہیں :

(١) حضرت عثمان بن عفان (رض) اور حسن بصری نے کہا : وہ ایک فرشتہ ہے جو اس کے اعمال پر گواہی دے گا۔

(٢) حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : گواہ سے مراد انسان کے ہاتھ اور پیر ہیں جو اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

جمہور کے نزدیک یہ آیت مسلمانوں اور کافروں دونوں کے متعلق ہے اور ضحاک کے نزدیک یہ آیت صرف کفار کے متعلق ہے۔

لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس آیت میں کافر سے خطاب ہے کیونکہ وہ کفر کے نتائج سے غفلت میں تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں مطلقاً انسان سے خطاب ہو کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ ہر انسان کسی نہ کسی وقت اپنے اعمال کے نتائج سے غافل ہوتا ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جب انسان قبر سے نکلے گا تو اس کی نگاہ بہت تیز ہوگی۔ مجاہد نے کہا : میدانِ محشر میں اس کی نگاہ بہت تیز ہوگی اور اس آیت میں ” بصر “ کا لفظ ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بصیرت ہے کیونکہ وہ اپنی بصیرت سے اپنے افکار کے شواہد اور اپنے اعتبار کے نتائج کو دیکھے گا اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سر کی آنکھ ہے۔ قتادہ نے کہا : وہ اس آنکھ سے آخرت کے احوال کا معائنہ کرے گا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : وہ اپنی آنکھ سے جنت یا دوزخ کو دیکھے گا۔ ابن زید نے کہا : وہ اپنی نیکیوں اور گناہوں کو دیکھے گا۔ حسن بصری نے کہا : وہ اپنے دنیا میں کیے ہوئے کاموں کو دیکھے گا۔ (النکت والعیون ج 5 ص 349-350، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ

اللہ تعالیٰ جہنم سے فرمائے گا : کیا تو پر ہوگئی ؟ اور وہ کہے گی : کیا کچھ اور زیادہ لوگ ہیں؟

اللہ تعالیٰ جہنم میں نطق پیدا کر دے گا جس طرح وہ انسان کے اعضاء میں نطق پیدا فرمائے گا، اس لیے وہ جواب دے گی۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہنم میں کفار کو ڈالا جاتا رہے گا، حتیٰ کہ وہ کہے گی : کیا کچھ اور زیادہ (لوگ) ہیں ؟ یہاں تک کہ رب العزت اس میں اپنا قدم رکھ دے گا، پھر دوزخ کے بعض حصے بعض کی طرف سکڑ جائیں گے، اور وہ کہے گی : بس بس تیری عزت اور کرم کی قسم ! ، اور جنت میں گنجائش رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ جنت کی فاضل جگہ کے لیے ایک مخلوق پیدا کرے گا اور ان کو اس جگہ میں رکھے گا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث :6661، صحیح مسلم رقم الحدیث :2848، سنن ترمذی رقم الحدیث :3272)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دوزخ پر نہیں ہوگی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا پیر رکھ دے گا اور وہ کہے گی : بس بس ! اس وقت وہ پر ہوجائے گی اور اس کے بعض حصے بعض کی طرف سکڑ جائیں گے پس اللہ سبحانہٗ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور رہی جنت تو اللہ عزوجل اس کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث :4850، صحیح مسلم رقم الحدیث :2846، سنن ترمذی رقم الحدیث :2861، مسند احمد ج 2 450)

دوزخ میں اللہ کے قدم رکھنے کے محامل

قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ میں اپنا قدم رکھ دے گا، متقدمین کے نزدیک قدم میں کوئی تاویل اور تحریف نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قدم ہے جو اس کی شان کے لائق ہے اور مخلوق میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور کسی چیز پر اپنا قدم رکھنا اس چیز کی اہانت کو مستلزم ہوتا ہے سو جب دوزخ مزید بھراؤ کا مطالبہ کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا جو اس کی شان کے لائق ہے۔ اور متاخرین نے جب دیکھا کہ بظاہر یہ آیت اور یہ احادیث اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے اور اس کے اعضاء کو مستلزم ہیں تو انھوں نے قدم کی مختلف تاویلیں کیں، چنانچہ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

(١) قدم سے مقدم اعمال مراد ہیں۔ یعنی اہل دوزخ جو برے اعمال پہلے کرچکے ہیں ان اعمال کو مجسم کر کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(٢) اس سے مراد بعض مخلوق کے قدم ہیں۔

(٣) ایک مخلوق کا نام قدم ہے، اس مخلوق کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(٤) قدم انسان کے اعضاء کے آخر میں ہوتا ہے، پس جو آخری مخلوق دوزخ کی اہل ہوگی، اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(٥) جن موحدین کو دوزخ سے نکالا جائے گا ان کے بدلہ میں یہود اور نصاریٰ کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور چونکہ وہ موحدین پر مقدم ہیں اس لیے ان کو قدم سے تعبیر فرمایا۔

(٦) ابلیس کفر میں سب پر مقدم ہے اس لیے قدم سے مراد ابلیس ہے۔

(٧) بعض روایات میں قدم کی جگہ ” رجل “ کا لفظ ہے یعنی پیر، اس کی بھی یہی تاویل ہے کہ اس سے مراد بعض مخلوق کا پیر ہے یا کسی مخلوق کا نام ” رِجل “ ہے اس سے وہ مراد ہے۔

(٨) حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مخلوق کو پیدا کر کے اس سے جنت کو بھر دے گا، اور دوزخ کے ذکر میں فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرے گا یعنی کوئی مخلوق پیدا کر کے اس کو بےقصور دوزخ میں نہیں کرے گا، جب کہ بغیر کسی استحقاق کے ایک مخلوق کو جنت میں داخل کر دے گا، اس سے معلوم ہوا کہ ثواب کسی عمل پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جنت عطا فرما دے گا جنہوں نے کوئی عمل نہیں کیا جیسے کم سن بچے اور عذاب دینا کفر اور برے اعمال پر موقوف ہے سو وہ کسی بےقصور کو عذاب نہیں دے گا۔ (فتح الباری ج 9 ص 573-574، دارالفکر، بیروت، 1420 ھ)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :

یہ احادیث مشاہیر احادیث الصفات ہیں اور علماء کے اس میں دو مذہب ہیں : ایک مذہب یہ ہے کہ قدم اور پیر سے اللہ تعالیٰ کی جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے اور قدم اور پیر سے وہی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اور اس کا ظاہر معنی مراد نہیں ہے۔ جمہور متقدمین اور متکلمین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے اور دوسرا مذہب ان علماء اور متکلمین کا ہے جو اس آیت اور ان احادیث میں تاویل کرتے ہیں۔

پھر علامہ عینی نے وہ تاویلات ذکر کی ہیں جن کو ہم اس سے پہلے علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے ذکر کرچکے ہیں۔ (عمدۃ القاری ج 19 ص 269-270، دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1421 ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں :

بعض صوفیاء نے کہا ہے کہ قدم سے یہاں پر اللہ تعالیٰ کی صفت جلال مراد ہے جیسا کہ بعض چیزوں سے صفت جمال مراد ہوتی ہے، ایک قول یہ ہے کہ دوزخ میں قدم رکھنے سے مراد دوزخ کا جوش ٹھنڈا کرنا ہے اور اس سے مراد دوزخ کی اہانت کرنا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : فلاں چیز تو میرے قدم یا پیر کے نیچے ہے، نیز جس چیز کی توہین کرنا مقصود ہو اس کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔ (روح المعانی جز 26 ص 283، دارالفکر، بیروت، 1423 ھ)

دوزخ کو بھرنے کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کر کے بغیر کسی جرم کے اس کو دوزخ میں ڈال دینا

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے اپنے رب کے سامنے مباحثہ کیا، جنت نے کہا : اے میرے رب ! کیا سبب ہے کہ جنت میں صرف کمزور اور ناتواں لوگ داخل ہوں گے ؟ اور دوزخ نے کہا کہ مجھے متکبرین کے ساتھ ترجیح دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ جنت سے فرمائے گا : تم میری رحمت ہو اور دوزخ سے فرمائے گا : تم میرا عذاب ہو، میں جس کو چاہوں گا تم سے عذاب دوں گا اور تم میں سے ہر ایک میں بہت بھرنے کی گنجائش ہے، رہی جنت تو بیشک اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی کے اوپر ظلم نہیں کرے گا اور دوزخ کے لیے جن کو چاہے گا پیدا فرما دے گا اور ان کو دوزخ میں ڈال دے گا، پھر بھی دوزخ کہے گی : کیا کچھ اور بھی زیادہ لوگ ہیں ؟ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا، پھر دوزخ بھر جائے گی اور اس کے بعض حصے بعض کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے اور دوزخ (تین بار) کہے گی : بس ! بس ! بس ! (صحیح البخاری رقم الحدیث :7449)

امام بخاری نے قٓ:30 کی تفسیر میں بھی اس کی مثل حدیث کو روایت کیا ہے (رقم الحدیث :4850) اور اس کے آخر میں یہ مذکور ہے کہ اللہ عزوجل اپنی مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا اور رہی جنت تو اللہ عزوجل اس کے لیے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا۔

اور یہاں حدیث رقم الحدیث :7449 میں اس کے برعکس دوزخ کے متعلق فرمایا ہے کہ دوزخ کے لیے جن کو چاہے گا پیدا فرما دے گا اور ان کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ اور یہ حدیث صرف ” صحیح بخاری “ میں ہے، اس کے برخلاف پہلی حدیث ” صحیح بخاری “ کے علاوہ اور بہت کتب حدیث میں ہے۔ (مثلاً صحیح مسلم رقم الحدیث : 2846، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20893 طبع قدیم، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :21057 طبع جدید، مسند احمد ج 2 ص 314)

”نقبوا“ اور ”لغوب“ کا معنی اور عقل کا محل

اس آیت : (قٓ:36) میں یہ بتایا ہے کہ اے نبی مکرم ! ہم آپ سے پہلے کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو اہل مکہ سے زیادہ طاقتور تھیں، انھوں نے ہمارے ہلاک آفریں عذاب سے بچنے کے لیے بہت شہروں میں پناہ ڈھونڈنا چاہی لیکن ان کو کسی جگہ ہمارے عذاب سے پناہ نہیں مل سکی۔

اس آیت میں ”نقبوا“ کا لفظ ہے، ”نقب“ کا لغوی معنی ہے : سوراخ کرنا، لیکن یہاں اس کا معنی ہے: شہروں میں گھومنا پھرنا، اس کے بعد ہے : ”هل من محیص“ ابن زید نے کہا : اس کا معنی ہے : کیا موت سے نجات کی کوئی جگہ ہے؟ قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے : کیا بھاگنے کی کوئی جگہ ہے ؟ سعید نے کہا : اس کا معنی ہے : کیا اللہ کے عذاب سے روکنے کی کوئی جگہ ہے؟

قٓ:37 میں فرمایا : بیشک یہ (قرآن) اس کے لیے ضرور نصیحت ہے جو صاحب دل ہو یا ذہن حاضر کر کے کان لگائے۔

اس آیت میں قلب سے مراد عقل ہے اور عقل کو قلب سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ عرف اور محاورہ میں عقل کا محل دل ہے ورنہ حقیقت میں عقل کا محل دماغ ہے۔ مجاہد نے کہا : قلب سے مراد ہے : زندہ انسان کا نفس جو اشیاء میں تمیز کرتا ہو اور نفس کو قلب سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ عرف میں قلب ہی نفس اور حیات کا وطن اور معدن ہے۔

یحییٰ بن معاذ نے کہا : انسان میں دو قلب ہیں، ایک وہ قلب ہے جو دنیا کے اشغال میں منہمک رہتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے سامنے آخرت کا کوئی معاملہ آئے تو اس کو پتا نہیں چلتا کہ وہ کیا کرے اور دوسرا قلب وہ ہے جو آخرت کے افکار میں مستغرق رہتا ہے حتیٰ کہ جب اس کے سامنے دنیا کے متعلق کوئی معاملہ پیش کیا جائے تو وہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس کے متعلق کیا کرنا چاہیے۔ (الجامع الاحکام القرآن للقرطبی جز 17 ص 22)

فَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ

فجر اور عصر کی نماز پڑھنے کی خاص اہمیت

حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : عنقریب تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں اس کو دیکھنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی، پس اگر تم طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے میں کسی سے مغلوب نہ ہو تو ایسا کرلو، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : ” وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب. “ (ق :39) یعنی یہ نمازیں تم سے قضا نہ ہونے پائیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :554، صحیح مسلم رقم الحدیث :632، سنن ابو داؤد رقم الحدیث :4729، سنن ترمذی رقم الحدیث :592، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :177، السنن الکبریٰ رقم الحدیث :460)

بالخصوص فجر اور عصر کی نمازوں کی تاکید  احادیث كى روشنى میں

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے پاس رات کے اعمال لکھنے والے اور دن کے اعمال لکھنے والے فرشتے ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور یہ دونوں فرشتے فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہوتے ہیں، پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری تھی وہ اوپر چڑھتے ہیں، پھر ان کا رب جو کہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے ان سے سوال کرتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ کہتے ہیں : ہم نے ان کو چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :555، صحیح مسلم رقم الحدیث :632، سنن الترمذی رقم الحدیث : 186، سنن النسائی رقم الحدیث : 517، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :699)

وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ

(١) ابوالاحوص نے کہا : اس سے مراد ہے : رات کو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنا (٢) مجاہد نے کہا : اس سے مراد ہے : تمام رات نماز پڑھنا (٣) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد ہے : فجر کی دو رکعت سنت پڑھنا (٤) ابن زید نے کہا : اس سے مرد ہے : عشاء کی نماز پڑھنا۔

ابن العربی نے کہا : اس سے مراد وہ تسبیحات ہیں جو رات کو بیدار ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہیں :

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے رات کو بیدار ہو کر یہ کلمات پڑھے :

”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ“ پھر کہا : ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي“ یا کوئی اور دعا کی تو اس کی دعا قبول ہوجائے گی، پھر اگر اس نے وضو کیا تو اس کی نماز مقبول ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث: 1154، سنن ابو داؤد رقم الحدیث: 5060، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3878)

بعض علماء نے کہا : ان تسبیحات سے وہ تسبیحات مراد ہیں جو نمازوں کے بعدپڑھی جاتی ہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ فقراء صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہنے لگے کہ مال دار لوگ بلند درجات اور دائمی نعمتوں کو لے گئے، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور کیونکہ ان کو مال کی فضیلت حاصل ہے تو وہ اس مال کے سبب سے حج کرتے ہیں اور عمرہ کرتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتاؤں کہ اگر تم اس کو کرو گے تو تم اپنے اوپر سبقت کرنے والوں کی عبادتوں کا اجر پالو گے اور تمہارے بعد کوئی اور ان عبادتوں کے اجر کو نہیں پا سکے گا، اور تم اپنے دور کے لوگوں میں سب سے افضل ہوگے، ماسوا اس کے جو اس جیسا عمل کرے (جو میں تم کو بتارہا ہوں) ؟ تم ہر نماز کے بعد تینتیس، تینتیس بار ” سبحان اللہ، الحمد للہ “ پڑھیں گے اور چونتیس بار ” اللہ اکبر “ کہیں گے، پھر ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : تم ” سبحان اللہ، الحمد للہ “ اور ” اللہ اکبر “ میں سے ہر کلمہ کو تینتیس بار پڑھو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :843، صحیح مسلم رقم الحدیث :595، سنن ترمذی رقم الحدیث :410-3412، سنن نسائی رقم الحدیث : 1349)

تسبیح پڑھنے کا اجر و ثواب

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے صبح کی نماز کے بعد سو مرتبہ ”سُبْحَانَ اللَّهِ“ کہا یا سو مرتبہ ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ کہا تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ (سنن نسائی رقم الحدیث :1350)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ سبحان الله وبحمدہ کہا تو اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6405، صحیح مسلم رقم الحدیث :2691، سنن ترمذی رقم الحدیث :3468، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :5091، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3798)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے ایک دن میں سو مرتبہ کہا : لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وہ اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور اس کی ایک سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے ایک سو گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لیے اس دن شام تک شیطان سے پناہ کا باعث رہیں گے اور کوئی شخص ان کلمات کے پڑھنے سے زیادہ افضل ذکر نہیں کرسکے گا، ہاں ! وہ شخص جس نے ان کلمات کو سو مرتبہ سے زیادہ پڑھا ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6403، سنن ترمذی رقم الحدیث : 2468، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3798)

آیا سو مرتبہ ”لا إله إلا الله“ پڑھنے کا اجر وثواب زیادہ ہے یا سو مرتبہ ”سبحان الله“ پڑھنے کا ؟

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

مؤخر الذکر دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”سبحان الله وبحمدہ“ پڑھنا ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ الخ پڑھنے سے زیادہ افضل ہے، کیونکہ اول الذکر کے پڑھنے سے سمندر کے جھاگ برابر گناہ معاف ہوتے ہیں اور ثانی الذکر کے پڑھنے سے سو گناہ معاف ہوتے ہیں، حالانکہ سب سے افضل ذکر ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ پڑھنا ہے۔ حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : افضل الذکر ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ ہے اور افضل الدعاء ”الحمد لله“ ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : 3383، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3800)

اور ” صحیح بخاری “ کی اس حدیث میں بھی ہے کہ ایک دن میں سو مرتبہ ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ الخ پڑھنے سے افضل اور کوئی ذکر نہیں ہے ہاں ! جو شخص ان کلمات کو سو مرتبہ سے زیادہ پڑھے، اس کا جواب یہ ہے کہ ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ پڑھنا اس سے زیادہ افضل ہے کہ اس سے سو گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور سو نیکیاں بھی ملتی ہیں اور اس میں غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر وثواب بھی ہے جب کہ تسبیح پڑھنے کے اجر سے سمندر کے جھاگ کے برابر صرف گناہ معاف ہوتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرنے کا جو اجر وثواب ہے وہ تسبیح پڑھنے کے اجر سے اور گناہوں کو مٹانے کے اجر سے بہت زائد ہے، کیونکہ حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں آزاد کرنے والے کے اعضاء کو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2517، صحیح مسلم رقم الحدیث :1509، سنن ترمذی رقم الحدیث : 1541)

اور چونکہ ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ پڑھنے سے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے، اس سے معلوم ہوا جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ ” لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ “ الخ پڑھتا ہے اس کا اجر وثواب دس بار دوزخ سے آزاد ہونے کو مستلزم ہے، اور یہ تسبیح کے اجر وثواب سے بہت زیادہ ہے کیونکہ ایک دن میں سو بار ”سبحان الله وبحمدہ“ پڑھنے سے سمندر کے جھاگ کے برابر گناہ معاف ہوتے ہیں لیکن یہ جہنم سے آزاد ہونے کو مستلزم نہیں ہے۔ نیز ”سبحان الله وبحمدہ“ کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے منزہ اور پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں اور وہ تمام صفات کمالیہ سے متصف ہے اور یہ ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ“ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے شریک کی نفی ہے اور اس کے لیے وحدانیت اور ملکیت اور صفات کمالیہ اور ہر چیز پر قدرت کا ثبوت ہے، نیز ”سبحان الله“ پڑھنے سے کوئی شخص اسلام میں داخل نہیں ہوتا اور ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ “

پڑھنے سے اسلام میں داخل ہوتا ہے، یہ کلمہء توحید ہے، کلمہء اخلاص ہے اور ایک قول ہے کہ یہی اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔

امام نسائی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابوسعید (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! مجھے وہ کلمات بتا جن میں سے تیرا ذکر کروں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہیے کہ ” لا الہ الا اللہ “ اور اسی میں ہے کہ اگر سات آسمانوں اور سات زمینوں کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ کو دوسرے پلڑے میں رکھا تو ”لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ والا پلڑا بھاری ہوگا۔

علامہ ابن حجر اور علامہ ابن بطال کے نزدیک اذکار ماثورہ کے اجر وثواب کی بشارت صرف۔۔ نیکوکاروں کے لیے ہے بدکاروں کے لیے نہیں ہے

نیز علامہ ابن حجر لکھتے ہیں : علامہ ابن بطال نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ ان اذکار کی فضیلت ان نیک لوگوں کے لیے ہے جو دین دار ہوتے ہیں اور بڑے بڑے گناہوں (مثلاً سود کھانا، قتل کرنا، زنا کرنا، شراب پینا اور لواطت کرنا وغیرہ) سے پاک ہوتے ہیں اور ان اذکار کا اجر وثواب ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو اپنی شہوت کے تقاضوں پر اصرار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی حدود اور اس کی حرمتوں کو ناحق پامال کرتے ہیں۔ (شرح البخاری لابن بطال ج 10 ج 134) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں : اس قول کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے :

{أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ} [الجاثية: 21]

ترجمہ : کیا جو لوگ برے کام کرتے ہیں انھوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی مثل کردیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا مرنا اور جینا برابر ہوجائے وہ لوگ یہ کیسا برا فیصلہ کررہے ہیں۔ (فتح الباری ج 12 ص 505-507، ملخصا و موضحا ومخرجا، دارالفکر، بیروت، 1420 ھ)

اِنَّا نَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَاِلَيْنَا الْمَصِيْرُ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۭ ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيْرٌ

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ روحیں مختلف صورتوں میں ہیں پس جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو ہر روح اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی۔ محمد بن کعب القرظی نے کہا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کا حشر اندھیرے میں کیا جائے گا، آسمان کو لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے جھڑ جائیں گے اور ایک منادی نداء کرے گا اور اس دن لوگ اس منادی کی آواز کے پیچھے ہوجائیں گے،

امام مسلم نے حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کا حشر میدے کی طرح سفید روئی پر کیا جائے گا۔

ابوبکر احمد بن علی الخطیب نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو بھوکا پیاسا جمع کیا جائے گا، اس سے زیادہ وہ کبھی بھوکے پیاسے نہیں ہوں گے اور ان کا بےلباس حشر کیا جائے گا اور وہ بہت زیادہ تھکے ماندے ہوں گے ، پس جس کو اللہ کھلائے گا، وہ کھالے گا اور جس کو اللہ پلائے گا، وہ پی لے گا اور جس کو اللہ پہنائے گا، وہ پہن لے گا اور جس کی اللہ مدد فرمائے گا وہ راحت پائے گا۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے اس آیت کے متعلق بتائیے: یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجاً  (النباء :18) ترجمہ : جس دن (دوسری بار) صور میں پھونکا جائے گا پھر تم فوج در فوج چلے آؤ گے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے معاذ بن جبل ! تم نے بہت عظیم چیز کے متعلق سوال کیا ہے، پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، پھر آپ نے فرمایا : میری امت میں سے دس مختلف قسم کے گروہوں کا حشر کیا جائے گا جن کو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت سے ممتاز اور ممیز کرے گا اور ان کی صورتوں کو تبدیل کر دے گا۔ (١) ان میں سے بعض بندر کی صورتوں میں ہوں گے (٢) اور ان میں سے بعض خنزیروں کی صورت میں ہوں گے (٣) اور ان میں سے بعض اندھے ہوں گے اور ان کی ٹانگیں اوپر ہوں گی اور وہ سر کے بل گھسٹ رہے ہوں گے (٤) اور ان میں سے بعض اندھے ہوں گے اور ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے (٥) اور ان میں سے بعض بہرے اور گونگے ہوں گے ، وہ کچھ سمجھ نہیں رہے ہوں گے (٦) اور ان میں سے بعض لوگوں کی زبانیں منہ سے باہر ان کے سینوں تک لٹکی ہوں گی اور ان کے مونہوں سے پیپ بہہ رہی ہوگی جس سے تمام اہل محشر کو گھن آئے گی (٧) اور ان میں سے بعض کے ہاتھ اور پیر کٹے ہوئے ہوں گے (٨) اور ان میں سے بعض کو آگ کے درختوں کے تنوں پر سولی دی ہوئی ہوگی (٩) اور ان میں سے بعض مردار سے زیادہ بدبودار ہوں گے (١٠) اور ان میں سے بعض تارکول کی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں گے ۔

علامہ قرطبی نے امام ابوحامد کے حوالے سے قیامت کے دن لوگوں کے اٹھائے جانے کے جو احوال بیان کیے ہیں ان کی تائید میں حسب ذیل احادیث ہیں :

بندوں کا جن اعمال پر خاتمہ ہو، ان ہی اعمال پر ان کو اٹھائے جانے کے متعلق احادیث

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب نازل فرماتا ہے تو جو لوگ بھی اس قوم میں ہوں سب پر عذاب نازل فرماتا ہے، پھر لوگوں کو ان کی نیات کے اعتبار سے اٹھایا جائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :7108، صحیح مسلم رقم الحدیث :2879، شرح السنۃ ج 14 ص 402، المستدرک ج 2 ص 490، مسند احمد ج 2 ص 136, 110 تاریخِ بغداد ج 6 ص 88)

حضرت ابوہریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، جو شخص بھی اللہ کے راستہ میں زخمی ہوتا ہے (اور اللہ ہی کو علم ہے کہ کون اس کے راستہ میں زخمی ہوتا ہے) تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا، اس کا رنگ خون کا ہوگا اور اس سے مشک کی خوشبو آرہی ہوگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2803، صحیح مسلم رقم الحدیث :1876، سنن ترمذی رقم الحدیث :1656، سنن نسائی رقم الحدیث :5029، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2753، مسند احمد ج ص 242، سنن بیہقی ج 7 ص 81، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 2502 ض

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں : انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے جہاد اور غزوہ کے متعلق خبر دیجیے ! آپ نے فرمایا : اے عبداللہ ! اگر تم اس حال میں قتل کیے جاؤ کہ تم صبر کرنے والے ہو اور ثواب کی نیت کرنے والے ہو تو قیامت کے دن تم صابر اور طالب ثواب کے طور پر اٹھائے جاؤ گے اور اگر تم ریاکاری اور دکھاوے کے حال میں قتل کیے جاؤ تو تم ریاکار کے طور پر اٹھائے جاؤ گے، تم جس حال میں بھی قتال کرتے ہوئے قتل کیے جاؤ گے اسی حال میں اٹھائے جاؤ گے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث :2502، المستدرک ج 2 ص 112 85-)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص نشہ کی حالت میں مرا وہ ملک الموت کو بھی نشہ میں دیکھے گا اور منکر نکیر کو بھی نشہ میں دیکھے گا اور قیامت کے دن اس کو نشہ میں اٹھایا جائے گا وہ جہنم کی ایک خندق کے وسط میں ہوگا، اس کا نام سکران (نشہ والے) ہوگا، اس میں خون کا دریا بہہ رہا ہوگا، اس کا کھانا اور پانی اسی دریا سے ہوگا۔ (الفردوس بماثور الخطاب للدیلمی رقم الحدیث :5578)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھا اس کو اونٹنی نے گرا دیا وہ جاں بحق ہوگیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو اور اس کو اس کے ان ہی کپڑوں میں کفن دو اور اس کو خوشبو لگاؤ اور نہ اس کا سر ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ (اللہم لبیک اللہم لبیک) پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1265، صحیح مسلم رقم الحدیث :1406، سنن ترمذی رقم الحدیث : 951، سنن نسائی رقم الحدیث :2714، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3084، مسند احمد ج 1 ص 215، سنن بیہقی ج 3 ص 390-391، حلیۃ الاولیاء ج 4 ص 330)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنے والوں پر موت کے وقت وحشت نہیں ہوگی، نہ ان کی قبروں میں اور نہ حشر میں گویا کہ میں ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنے والوں کے ساتھ ہوں وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہوں اور وہ کہہ رہے ہوں گے : اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے ہم سے غم دور کردیا۔ (تاریخ بغداد ج 1 ص 266 ۔ ج 5 ص 305، الجامع الصغیر رقم الحدیث : 7620، مجمع الزوائد ج 10 ص 82، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ہر بندہ کو (قیامت کے دن) اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت میں وہ مرا ہے، مومن کو اس کے ایمان پر اور منافق کو اس کے نفاق پر۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :9072، حافظ الہیشمی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 1 ص 113)

حضرت فضالۃ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ان مراتب میں سے جس مرتبہ پر بھی مرے گا قیامت کے دن اسی مرتبہ پر اٹھایا جائے گا۔ (مسند احمد ج 1 ص 19-20، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :694، المستدرک ج 1 ص 34-35، المعجم الکبیرج 18 ص 305 ۔ رقم الحدیث : 784-785، حافظ الہیشمی نے کہا : اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ )

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply