ترحمہ وتفسير سورہ قمر
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ﴿1﴾
قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا
وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ ﴿2﴾
اور اگر وہ (کفار) کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر کر یہ کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو ختم ہوجانے والا ہے
وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ ﴿3﴾
اور انھوں نے اس کو جھٹلایا اور وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں اور ہر بات کو قرار آجانے والا ہے
وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ ﴿4﴾
اور ان لوگوں کے پاس خبریں اتنی پہنچ چکی ہیں کہ جن میں کافی عبرت ہے۔
حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ ۖ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ ﴿5﴾
اعلی درجہ کی دانش مندی ہے، مگر ڈرانے والی چیزیں انھیں کچھ فائدہ نہیں دیتیں،
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ ۘ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلَىٰ شَيْءٍ نُكُرٍ ﴿6﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی طرف سے منہ پھیر لیں وہ دن (آنے والا ہے) جب ایک پکارنے والا (فرشتہ) ان کو ایک ناگوار چیز کی طرف بلائے گا۔
خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ ﴿7﴾
(اس دن) ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ وہ اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح ٹڈی دل (بکھری ہوئی ٹڈیاں) نکلتا ہے۔
مُهْطِعِينَ إِلَى الدَّاعِ ۖ يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ ﴿8﴾
وہ پکارنے والے کی طرف دوڑ رہے ہوں گے۔ کافر کہیں گے کہ یہ تو بڑا ہی سخت دن ہے۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ ﴿9﴾
ان سے پہلے قوم نوح نے بھی جھٹلایا تھا۔ پھر انھوں نے ہمارے بندے (نوح) کو جھٹلاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دیوانہ ہے اور دھمکایا بھی گیا تھا۔
فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ ﴿10﴾
پھر اس نے (نوح نے) اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوچکا ہوں بس آپ ہی ان سے انتقام لے لیجیے۔
فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ ﴿11﴾
سو ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیئے بکثرت برسنے والے پانی سے،
وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ﴿12﴾
اور زمین میں چشمے پھوڑ دیئے سو پورا پانی مل گیا اس کام کے لیے جو تجویز ہوچکا تھا۔
وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴿13﴾
اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو سوار کردیا تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر
تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِمَنْ كَانَ كُفِرَ ﴿14﴾
اور جو چلتی رہی ہماری حفاظت میں۔ یہ ہم نے بدلہ لینے کے لیے کیا اس کا جس کی ناقدری کی گئی۔
وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ﴿15﴾
اور ہم نے اس واقعہ کو نشان (عبرت) کے طور پر رہنے دیا، سو ہے کوئی نصحیت حاصل کرنے والا۔
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿16﴾
پھر (دیکھو) میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہوا۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ﴿17﴾
اور یقیناً ہم نے اس قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیا ہے۔ ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔
كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿18﴾
عاد نے بھی تکذیب کی، سو (دیکھو) میرا عذاب اور میری تنبیہات کیسی رہیں ؟
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ ﴿19﴾
ہم نے ان پر ایک نحوست والے دن میں نہایت تند و تیز ہوا کو بھیجا۔
تَنْزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ ﴿20﴾
لوگوں کو (اس طرح) اکھاڑ پھینکتی تھی کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں۔
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿21﴾
(دیکھو) کیسا میرا عذاب اور یکسا ہوا میرا ڈرانا
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ﴿22﴾
اور قرآن کو ہم نے آسان کردیا ہے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کیلئے سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟
كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ ﴿23﴾
ثمود نے بھی (برے اعمال کے برے انجام سے) ڈرانے والوں کو جھٹلایا
فَقَالُوا أَبَشَرًا مِنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَفِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ ﴿24﴾
اور بولے کہ کیا ہم اپنے ہی ہم جنس ایک انسان کی پیروی کریں اور وہ بھی اکیلا پھر تو ہم نرے بیوقوف اور مجنون ٹھہرے۔
أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ ﴿25﴾
کیا ہم سب میں سے اسی پر وحی نازل ہوئی ہے ؟ بلکہ یہ بڑا جھوٹا ہے، شیخی باز ہے۔
سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ ﴿26﴾
انھیں عنقریب کل ہی معلوم ہوا جاتا ہے کہ بڑا جھوٹا اور شیخی باز کون تھا۔
إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ ﴿27﴾
ہم اونٹنی کو ظاہر کرنے والے ہیں ان کی آزمائش کے لیے سو انھیں دیکھتے بھالتے رہنا اور صبر سے بیٹھے رہنا،
وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ ۖ كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ ﴿28﴾
اور (اپنی قوم کے لوگوں کو) آگاہ کر دو کہ پانی کو ان میں تقسیم کردیا گیا ہے (ایک دن اونٹنی پئے گی اور ایک دن بستی والے) ہر شخص کو اپنی باری میں اس گھاٹ پر جمع ہونا ہے۔
فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَىٰ فَعَقَرَ ﴿29﴾
پھر (اس قوم نے ایک ظالم شخص قدار کو ) پکارا جس نے اس اونٹنی پر زیادتی کی (وار کیا) اور اس کی کونچیں (پاؤں) کاٹ ڈالیں۔
فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿30﴾
سو دیکھو میرا عذاب اور میری تنبیہات کیسی رہیں ؟
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ ﴿31﴾
ہم نے ان پر ایک ہول ناک آواز کو مسلط کیا پھر وہ ایسے ہوگئے جیسے کانٹوں کی باڑہ لگانے والے کی باڑ کا چورا ہے ہوجاتا ہے
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ﴿32﴾
اور ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کیلئے سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ ﴿33﴾
لوط کی قوم نے ڈرانے والوں کی تکذیب کی ،
إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ ۖ نَجَّيْنَاهُمْ بِسَحَرٍ ﴿34﴾
ہم نے ان پر پتھر برسائے، بجز خاندان لوط کے کہ انھیں صبح تڑکے بچا لیا،
نِعْمَةً مِنْ عِنْدِنَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي مَنْ شَكَرَ ﴿35﴾
جو ہماری طرف سے ایک نعمت تھی۔ ہم شکر ادا کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ ﴿36﴾
اور یقینا (لوط نے) ان کو ہماری پکڑ اور گرفت سے آگاہ کردیا تھا مگر وہ آگاہ کرنے والے سے لڑنے جھگڑنے لگے
وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَنْ ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿37﴾
اور وہ (بری نیت سے) اس کے مہمانوں کو طلب کرنے لگے۔ پھر ہم نے ان (ظالموں) کی آنکھیں بےنور کردیں اور کہا کہ میرے ڈرانے کا مزہ چکھو۔
وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُسْتَقِرٌّ ﴿38﴾
اور صبح سویرے ہی ان پر دائمی عذاب مسلط ہو گیا
فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ ﴿39﴾
میرے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو،
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ﴿40﴾
اور ہم نے آسان کردیا ہے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کیلئے سو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟
وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ ﴿41﴾
اور یقینا قوم فرعون کے پاس بھی آگاہ کرنے والی چیزیں آئیں۔
كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ مُقْتَدِرٍ ﴿42﴾
انھوں نے ہماری ساری نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے (انہیں) زبردست صاحب قدرت کی پکڑ پکڑی۔
أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ ﴿43﴾
(اہل قریش سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا) کیا تم میں سے کافر ان سب پہلے کافروں سے بہتر ہیں یا کتابوں میں ان کے لیے معافی کا پروانہ ہے۔
أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنْتَصِرٌ ﴿44﴾
کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مضبوط جماعت ہیں۔
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ﴿45﴾
(سو) عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَىٰ وَأَمَرُّ ﴿46﴾
لیکن ان کا (اصل) وعدہ تو قیامت (کے دن) کا ہے، اور قیامت بڑی سخت اور ناگوار چیز ہے،
إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ ﴿47﴾
(یہ) مجرمین بڑی غلطی اور بےعقلی میں (پڑے ہوئے) ہیں ،
يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ﴿48﴾
بلکہ جب یہ (مجرمین) منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا کہ) تم جہنم کی آگ کی لپٹ کا مزہ چکھو۔
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ﴿49﴾
ہم نے ہر چیز کو (ایک خاص) انداز سے پیدا کیا ہے۔
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ﴿50﴾
اور ہمارا حکم تو اس طرح ہوتا ہے جیسے پلک کا جھپکنا
وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ﴿51﴾
اور بیشک ہم تمہارے بہت سے ہم مذہب لوگوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟
وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ ﴿52﴾
اور انھوں نے جو کچھ کىا وہ سب کا سب کتابوں میں (نامہ اعمال میں) لکھا ہوا ہے
وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُسْتَطَرٌ ﴿53﴾
اور ہر چھوٹی اور بڑی بات (اس میں) لکھی ہوئی ہے۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ ﴿54﴾
بیشک اہل تقویٰ (جنت کے) باغوں اور نہروں میں (عیش و آرام سے) ہوں گے
فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ ﴿55﴾
ان کو عزت کا ایک مقام حاصل ہوگا اور ان کو ایک ایسے بادشاہ کا قرب ہوگا جو بہت قدرت والا ہے۔
سورة القمر کا زمانہ نزول
جمہور کے نزدیک یہ پوری سورت مکی ہے۔ مقاتل نے درج ذیل آیات کے متعلق کہا ہے کہ یہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں: ” یا یہ (مشرکین) کہتے ہیں کہ ہم ایسی جماعت ہیں جو غالب ہوگی۔ عنقریب اس جماعت کو شکست دے دی جائے گی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔ بلکہ ان سے وعدہ کا وقت قیامت ہے اور قیامت بہت سخت اور بہت کڑوی ہے۔ (القمر :44-46)
شق القمر کے متعلق احادیث
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم گواہ ہو جاؤ (صحیح البخاری رقم الحدیث 3636، صحیح مسلم رقم الحدیث 2800، سنن ترمذی رقم الحدیث 2285 ک، سنن نسائی رقم الحدیث 11553، مسند احمد ج 1 ص 377)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کوئی معجزہ دکھائیں تو پھر آپ نے ان کو چاند کا پھٹنا دکھا دیا (صحیح البخاری رقم الحدیث 3637، صحیح مسلم رقم الحدیث 2802)
حضرت جبیر بن معطم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتیٰ کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک اطراف تھا اور دوسرا ٹکڑا پہاڑ کی دوسری طرف تھا، لوگوں نے کہا : (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جادو کردیا، پھر ان میں سے بعض لوگوں نے کہا : اگر انھوں نے ہم پر جادو کیا ہے تو وہ سب لوگوں (یعنی مکہ سے باہر کے لوگوں) پر تو جادو نہیں کرسکتے (سنن الترمذی رقم الحدیث 3289، مسند احمد ج 1 ص 81)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں:
شق القمر کا واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ہجرت سے پانچ سال پہلے ہوا، کیونکہ ” صحیح بخاری“ ” مسلم“ اور ”تفسیر بن جریر“ میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ آپ انھیں کوئی معجزہ دکھائیں تو آپ نے ان کو دکھایا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا، حتیٰ کہ انھوں نے حراء پہاڑ کو ان دو ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔
امام ابو داؤد اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے کہ ہر طرف سے مکہ میں مسافرین آئے اور انھوں نے یہ شہادت دی کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا ہے۔
چاند کے دو ٹکڑے ہوجانے کے متعلق احادیث صحیحہ بہت زیادہ ہیں اور ان احادیث کے متواتر ہونے میں اختلاف ہے۔ ” شرح مواقف “ میں علامہ میر سید شریف نے لکھا ہے کہ یہ احادیث مواتر ہیں، اسی طرح علامہ سبکی نے ” مختصر ابن حاجب “ کی شرح میں لکھا ہے : اور میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ چاند کا شق ہونا متواتر ہے، قرآن مجید میں اس کی تصریح ہے اور احادیث صحیحہ میں اس کا بہ کثرت ذکر ہے۔
چاند کے شق ہونے کا واقعہ چاند کی چودھویں شب میں واقع ہوا، مشہور یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگشت مبارکہ سے اشارہ کیا کہ تو چاند شق ہوگیا لیکن میں نے اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں نہیں دیکھا۔ (روح المعانی جز 17 ص 117-113، ملخصا، دارالفکر، بیروت 1417 ھ)
البتہ امام ابو نعیم الاصبہانی المتوفی 430 ھ نے یہ حدیث ذکر کی ہے:
حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ہے کہ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئے، ان میں ولید بن مغیرہ، ابو جہل بن ہشام، العاص بن وائل، العاص بن ہشام، الاسود بن عبدیغوث، الاسود بن المطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ ، زمعۃ بن الاسود النضر بن الحارث وغیرہ ہم تھے، پس انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائیں، اس کا نصف ابوقبیس (مکہ کا ایک پہاڑ) پر ہو اور اس کا نصف قعیقعان (مکہ کا دوسرا پہاڑ ہو) پر ہو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پوچھا : اگر میں نے ایسا کردیا تو تم اس پر ایمان لے آؤ گے ؟ انھوں نے کہا : ہاں۔ اور وہ چاند کی چودھیں رات تھی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ تو چاند کے اسی طرح دو ٹکڑے ہوگئے، ایک ٹکڑا ابو قبیس پر تھا اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نداء فرما رہے تھے : اے ابو سلمہ بن عبدالاسد اور اے الارقم بن ابی الارقم : گواہ ہو جاؤ۔ (دلائل النبوۃ ج 1 ص 280، رقم الحدیث 209، دارالنفائس، بیروت)
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ میں لکھتے ہیں:
شق القمر کی احادیث ”صحیح بخاری“ میں حضرت انس اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے، حضرت ابن عباس اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے اور حضرت انس اس وقت مکہ میں حاضر نہیں تھے اور مدینہ میں اس وقت ان کی عمر چار یا پانچ سال تھی، سو ان کی احادیث مرسل ہیں اور اس پر محمول ہیں کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کے متعلق سنا تھا، اور ” دلائل النبوۃ “ میں جو حضرت ابن عباس کی حدیث ہے اس کی سند ضعیف ہے۔ (فتح الباری ج 7 ص 577، دارالفکر بیروت 1420 ھ)
اور حضرت ابن عباس اور حضرت انس کے علاوہ جن صحابہ سے شق القمر کی حدیث روایت ہے انھوں نے ممکن ہے اس واقعہ کا مشاہدہ کیا ہو اور حضرت ابن مسعود (رض) نے شق القمر کو دیکھنے کی تصریح بھی کی ہے۔ (فتح الباری ج 7 ص 341)
واقعہ شق القمر پر اعتراضات کے جوابات
اس واقعہ پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر بھی کہ اس سے متعلق دنیا میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ۔ اسی لیے سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے مکتبہ فکر کے لوگوں نے آیت کے متعلقہ الفاظ کی مختلف تاویلات کی ہیں۔ بہرحال جہاں تک تاریخی ثبوت نہ ہونے کا تعلق ہے اس بارے میں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ یہ واقعہ رونما ہونے کے وقت آدھی دنیا میں تو دن کی روشنی ہوگی ۔ لیکن جن علاقوں میں چاند دیکھا جاسکتا تھا ان علاقوں کے لوگ بھی تو ظاہر ہے اس وقت ٹکٹکی باندھے چاند کو نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے اکثر اس واقعے کے عینی شاہد بن جاتے۔ پھر یہ منظر بھی صرف لمحے بھر کا تھا اور اس دوران چاند کی روشنی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا کہ لوگ چونک کر دیکھتے۔ البتہ ایک تاریخی روایت کے مطابق برصغیر میں مالابار کے ساحلی علاقے کے ایک ہندو راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بعد میں جب عرب تاجروں کے ذریعے اس تک اسلام کی دعوت اور قرآنی تعلیمات پہنچیں تو اس نے نہ صرف ایک چشم دید گواہ کے طور پر اس واقعہ کی تصدیق کی بلکہ وہ ایمان بھی لے آیا۔ واللہ اعلم
﴿اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ﴾
قیامت اور علامات قیامت
قیامت کا منظر : قیامت صور اسرافیل کی اس خوفناک چیخ کا نام ہے جس سے پوری کائنات زلزلہ میں آجائے گی ، اس ہمہ گیر زلزلہ کے ابتدائی جھٹکوں ہی سے دہشت زدہ ہو کر دود ھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پلاتے بچوں کو بھول جائیں گی، حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے، اس چیخ اور زلزلہ کی شدت دم بدم بڑھتی جائے گی جس سے تمام انسان اور جانور مرنے شروع ہوجائیں گے یہاں تک کہ زمین و آسمان میں کوئی جاندار زندہ نہ بچے گا، زمین پھٹ پڑے گی پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑتے پھریں گے، ستارے اور سیارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرپڑیں گے، آفتاب کی روشنی فنا اور پورا عالم تیرہ و تار ہوجائے گا ، آسمانوں کے پرخچے اڑجائیں گے اور پوری کائنات موت کی آغوش میں چلی جائے گی۔ اس عظیم دن کی خبر تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) اپنی اپنی امتوں کو دیتے چلے آئے تھے مگر رسول خدا محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آکر یہ بتایا کہ قیامت قریب آپہنچی اور میں اس دنیا میں اللہ کا آخری رسول ہوں، قرآن حکیم نے بھی یہاں یہ اعلان کیا کہ : اقتربت الساعۃ وانشق القمر (القمر : ١) ترجمہ : ” قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہوگیا “۔ اور یہ کہہ کر لوگوں کو چونکا یا : فھل ینظرون الاالساعۃ ان تاتیھم بغتۃ فقد جاء اشراطھا فانی لھم اذا جاء تھم ذکرھم۔ (محمد : ١٨) ترجمہ ” سو کیا یہ لوگ بس قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر دفعہ آپڑے ؟ سو یاد رکھو کہ اس کی (متعدد) علامتیں آچکی ہیں، سو جب قیامت ان کے سامنے آکھڑی ہوگی اس وقت ان کو سمجھنا کہاں میسر ہوگا “۔
قیامت کا وقت
لیکن قیامت کب آئے گی اس کی ٹھیک ٹھیک تاریخ تو کجا، سال اور صدی تک اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ، یہ ایسا راز ہے جو خالق کائنات نے کی فرشتے یا نبی کو بھی نہیں بتایا، جبرائیل امین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو ان کو بھی یہی جواب ملا کہ ما المسؤل عنھا بأعلم من السائل. ترجمہ ” جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا “۔ قرآن حکیم نے بھی بتایا کہ قیامت کے مقررہ وقت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ نفخہ اولی اور نفخہ ثانیہ : حضرت اسرافیل (علیہ السلام) قیامت برپا ہونے کے چالیس سال بعد دوبارہ صور پھونکیں گے۔ اس سے سب زندہ ہوجائیں گے ، قبروں میں پڑے ہوئے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں جمع ہونا شروع ہوجائیں گے، پہلے صور پھونکنے کا نام نفخہ اولیٰ اماتت ہے اور دوسرے صور پھونکنے کا نام نفخہ ثانیہ یا نفخہ احیاء ہے اس سے دوبارہ زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے۔
قیامت کا مقصد
قیامت کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے رہے ہوں گے اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تعلیمات کو انھوں نے اپنایا ہوگا، ان کو انعام سے نوازا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تعلیمات سے انحراف کرنے والوں کو سزا دی جائے گی، ظالم سے انتقام لیا جائے اور مظلوم کی داد رسی کی جائے، دنیا میں جن لوگوں پر ظلم ہوا اور انھیں انصاف نہیں مل سکا انھیں انصاف فراہم کیا جائے، ہر حق والے کو اس کا حق دیا جائے اور ہر ظالم کو ظلم کا بدلہ دیا جائے۔ نفخہ اولیٰ سے لے کر جنت اور جہنم میں داخل ہونے تک کے سارے زمانے کو ” قیامت “ کہا جاتا ہے۔
علامات قیامت کی اہمیت
البتہ قیامت کی علامات انبیاء سابقین (علیہم السلام) نے بھی اپنی اپنی امتوں کو بتلائی تھیں اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہ تھا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی علامات سب سے زیادہ تفصیل سے ارشاد فرمائیں تاکہ لوگ یوم آخرت کی تیاری کریں، اعمال کی اصلاح کرلیں اور نفسانی خواہشات و لذات میں انہماک سے باز آجائیں
علامہ محمد بن عبدالرسول برزنجی (رح) نے اپنی کتاب ”الإشاعة لأشراط الساعة“میں علامات قیامت کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ ١۔ علامات بعیدہ۔ ٢۔ علامات متوسطہ جن کو علامات صغریٰ بھی کہا جاتا ہے۔ ٣۔ علامات قریبہ، جن کو علامات کبریٰ بھی کہا جاتا ہے۔
قسم اول علامات بعیدہ
علامات بعیدہ وہ ہیں جن کا ظہور کافی پہلے ہوچکا ہے ان کو بعیدہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے اور قیامت کے درمیان نسبتاً زیادہ فاصلہ ہے مثلا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت، شق القمر کا واقعہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات، خلافت کا ہونا، حضرت سیدنا عثمان (رض) اور حضرت سیدنا حسین (رض) کا شہید ہونا، جنگ صفین اور حضرت حسن (رض) کے ہاتھ پر مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح ہونا، یہ سب واقعات ازروئے قرآن و حدیث علامات قیامت میں سے ہیں اور ظاہر ہوچکے ہیں۔
فتنہ تاتار
انہی علامات میں سے فتنہ تاتار ہے جس کی پیشگی خبر احادیث صحیحہ میں دی گئی تھی، بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ نے یہ روایات ذکر کی ہیں، بخاری میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ترجمہ : ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ تم ترکوں سے جنگ کرو جن کی آنکھیں چھوٹی، چہرے سرخ اور ناکیں چھوٹی اور چپٹی ہوں گی، ان کے چہرے (گولائی اور موٹائی میں) ایسی ڈھال کی مانند ہوں گے جس پر تہ بہ تہ چمڑا چڑھا دیا گیا ہو، اور قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرلو جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے۔
شارح مسلم علامہ نووی (رح) نے وہ دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کیونکہ ان کی ولادت ٦٣١ ھ میں اور وفات ٧٤٦ ھ میں ہوئی وہ انہی احادیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ : یہ سب پیشن گوئیاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہیں کیونکہ ان ترکوں سے جنگ ہو کر رہی وہ سب صفات ان میں موجود ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی تھیں، آنکھیں چھوٹی، چہرے سرخ ، ناکیں چھوٹی اور چپٹی، چہرے عریض، ان کے چہرے ایسی ڈھال کی طرح ہیں جن پر تہ بہ تہ چمڑا چڑھا دیا گیا ہو، بالوں کے جوتے پہنتے ہیں، غرض یہ ان تمام صفات کے ساتھ ہمارے زمانے میں موجود ہیں، مسلمانوں نے ان سے بارہا جنگ کی ہے اور اب بھی ان سے جنگ جاری ہے ہم خدائے کریم سے دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے حق میں بہرحال انجام بہتر کرے ان کے معاملہ میں بھی اور دوسروں کے معاملہ میں بھی اور مسلمانوں پر اپنا لطف و حمایت ہمیشہ برقراررکھے، اور رحمت نازل فرمائے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو اپنے خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ جو کچھ بولتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔
نار الحجاز (حجاز کی آگ) : قیامت کی انہی علامات میں سے ایک حجاز کی وہ عظیم آگ ہے جس کی پیشگی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی تھی، بخاری اور مسلم نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان الفاظ میں نقل کی ہے قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاتقوم الساعۃ حتی تخرج نار من ارض الحجاز تضی اعناق الابل ببصری۔ ترجمہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ سرزمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی جو بصریٰ میں اونٹوں کی گردنیں روشن کر دے گی۔ اور فتح الباری میں یہ روایت بھی ہے جس میں مزید تفصیل ہے: عن عمر بن الخطاب یرفعه لا تقوم الساعة حتی یسیل وادم ن أودیة الحجاز بالنار تضيئ له أعناق الإبل ببصری. (فتح الباری : ١٣: ٦٨)
ترجمہ: ”حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ حجاز کی وادیوں میں سے ایک وادی ایسی آگ سے بہہ پڑے گی جس سے بصریٰ میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہوجائیں گی۔ بصریٰ مدینہ طیبہ اور دمشق کے درمیان شام کا مشہور شہر ہے جو دمشق سے تین مرحلہ (تقریبا ٤٨ میل) پر واقع ہے۔ یہ عظیم آگ بھی فتنہ تاتار سے تقریباً ایک سال پہلے مدینہ طیبہ کے نواح میں انہی صفات کے ساتھ ظاہر ہوچکی ہے جو ان احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔
یہ آگ جمعہ ٦ جمادی الثانیہ ٦٥٤ ھ کو نکلی اور بحرذخار کی طرح میلوں میں پھیل گئی جو پہاڑ اس کی زد میں آگئے انھیں راکھ کا ڈھیر بنادیا، اتوار ٢٧ رجب (٥٢ دن) تک مسلسل بھڑکتی رہی اور پوری طرح ٹھنڈی ہونے میں تقریباً تین ماہ لگے، اس آگ کی روشنی مکہ مکرمہ ، ینبوع، تیماء حتی کہ حدیث کی پیشن گوئی کے مطابق بصریٰ جیسے دور دراز مقام پر بھی دیکھی گئی اس کی خبر تواتر کے ساتھ پورے عالم اسلام میں پھیل گئی تھی چنانچہ اس زمانہ کے محدثین و مورخین نے اپنی تصانیف میں اور شعراء نے اپنے کلام میں اس کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے صحیح مسلم کے مشہور شارح علامہ نووی (رح) جو اسی زمانہ کے بزرگ ہیں وہ مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : حدیث میں جس آگ کی خبر دی گئی ہے یہ علامات قیامت میں سے ایک مستقل علامت ہے اور ہمارے زمانہ میں مدینہ طیبہ میں ایک آگ ٦٥٤ ھ میں نکلی ہے جو بہت عظیم آگ تھی، مدینہ طیبہ میں مشرقی سمت میں حرۃ کے پیچھے نکلی ہے ، تمام اہل شام اور سب شہروں میں اس کا علم بدرجہ تواتر پہنچ چکا ہے اور خود مجھے مدینہ کے ان لوگوں نے خبر دی ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔
مشہور مفسر علامہ محمد بن احمد قرطبی (رح) اسی زمانہ کے بلند پایہ عالم ہیں انھوں نے اپنی کتاب ”التذکرہ بأمور الآخرۃ“ میں اس آگ کی مزید تفصیلات بیان کی ہیں بخاری او مسلم کی اسی حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں، حجاز میں مدینہ طیبہ میں ایک آگ نکلی ہے اس کی ابتداء زبردست زلزلہ سے ہوئی جو بدھ ٣ جمادی الثانیہ ٦٥٤ ھ کی رات میں عشاء کے بعد آیا اور جمعہ کے دن چاشت کے وقت تک جاری رہ کر ختم ہوگیا، اور آگ قریظہ کے مقام پر حرہ کے پاس نمودار ہوئی جو ایسے عظیم شہر کی صورت میں نظر آرہی تھی جس کے گرد فصیل بنی ہوئی ہو اور اس پر کنکرے برج اور مینارے بنے ہوئے ہوں، کچھ ایسے لوگ بھی دکھائی دیتے تھے جو اسے ہانک رہے تھے، جس پہاڑ پر گزرتی تھی اسے ڈھا دیتی اور پگھلا دیتی تھی، اس مجموعہ میں سے ایک حصہ سرخ اور نیلا نہر کی سی شکل میں نکلتا تھا جس میں بادل کی سی گرج تھی، وہ سامنے کی چٹانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا اور عراقی مسافرین کے اڈے تک پہنچ جاتا تھا، اس کی وجہ یہ راکھ ایک بڑے پہاڑ کی مانند جمع ہوگئی پھر آگ مدینہ کے قریب تک پہنچ گئی مگر اس کے باوجود مدینہ میں ٹھنڈی ہوا آتی رہی اس آگ میں سمندر کے سے جوش و خروش کا مشاہدہ کیا گیا، میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ میں نے اس آگ کو پانچ یوم کی مسافت سے فضا میں بلند ہوتا ہوا دیکھا، اور میں نے سنا ہے کہ وہ مکہ اور بصری کے پہاڑوں سے بھی دیکھی گئی ہے علامہ قرطبی (رح) آگے فرماتے ہیں کہ : یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل میں سے ہے۔
اسی زمانہ کے ایک اور بزرگ علامہ قطب الدین القسطلانی (رح) ہیں جو عین اس وقت کہ جب آگ لگی ہوئی تھی مکہ مکرمہ میں موجود تھے، انھوں نے اس آگ کی تحقیق میں بڑی کاوش سے کام لیا حتی کہ اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا جس میں عینی گواہان کے بیانات قلمبند کئے ہیں انھوں نے یہ عجیب واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ : مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا ہے جس پر میں اعتماد کرتا ہوں کہ اس نے حرہ کے پتھروں میں سے ایک بہت بڑا پتھر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جس کا بعض حصہ حرم مدینہ کی حد سے باہر تھا آگ اس کے صرف اس حصہ میں لگی جو حد حرم سے خارج تھا اور جب پتھر کے اس حصہ پر پہنچی جو حد حرم میں داخل تھی تو بجھ گئی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک اور معجزہ ہے کہ اتنی بڑی آگ حرم مدینہ میں داخل نہ ہوسکی حتی کہ ایک ہی پتھر کا جو حصہ حرم سے باہر تھا اسے آگ نے جلا دیا اور جو حصہ اندر تھا وہاں پہنچ کر آگ خود ٹھنڈی ہوگئی۔ اسی زمانہ کے ایک بزرگ قاضی القضاۃ صدر الدین حنفی ہیں جو دمشق میں حاکم رہے ہیں ان کی ولادت ٦٤٢ ھ میں ہوئی قاضی القضاۃ ہونے سے پہلے یہ بصری میں ایک مدرسہ کے مدرس تھے اور آگ کے واقعہ کے وقت بھی بصریٰ میں تھے انھوں نے مشہور مفسر و مورخ حافظ ابن کثیر (رح) کو خود بتایا کہ جن دنوں یہ آگ نکلی ہوئی تھی میں نے بصریٰ میں ایک دیہاتی کو خود سنا جو میرے والد کو بتارہا تھا کہ ہم لوگوں نے اس آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنیں دیکھی ہیں (بحوالہ علامات قیامت و نزول مسیح)
قسم دوم علامت متوسطہ
قیامت کی علامات متوسطہ وہ ہیں جو ظاہر تو ہوگئی ہیں مگر ابھی انتہاء کو نہیں پہنچیں ان میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور ہوتا جائے گا یہاں تک کہ تیسری قسم کی علامات ظاہر ہونے لگیں گی، علامات متوسطہ کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ مثلا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین پر قائم رہنے والے کی حالت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے انگارے کو اپنی مٹھی میں پکڑ رکھا ہو، دنیاوی اعتبار سے سب سے زیادہ نصیبہ ور وہ شخص ہوگا جو خود بھی کمینہ ہو اور اس کا باپ بھی کمینہ ہو، لیڈر بہت اور امانت دار کم ہوں گے، قبیلوں اور قوموں کے لیڈر منافق، رذیل ترین اور فاسق ہوں گے، بازاروں کے رئیس فاجر ہوں گے، پولیس کی کثرت ہوگی جو ظالموں کی پشت پناہی کرے گی، بڑے عہدے نااہلوں کو ملیں گے، لڑکے حکومت کرنے لگیں گے، تجارت بہت پھیل جائے گی، یہاں تک کہ تجارت میں عورت اپنے شوہر کا ہاتھ بٹائے ی، مگر کساد بازاری ایسی ہوگی کہ نفع حاصل نہ ہوگا، ناپ تول میں کمی کی جائے گی، لکھنے کا رواج بہت بڑھ جائے گا ، مگر تعلیم محض دنیا کے لیے حاصل کی جائے گی، قرآن کریم کو گانے باجے کا آلہ بنا لیا جائے گا، ریاء شہرت اور مالی منفعت کے لیے گاگا کر قرآن کریم پڑھنے والوں کی کثرت ہوگی اور فقہاء کی قلت ہوگی، علماء کو قتل کیا جائے گا، اور ان پر ایسا سخت وقت آئے گا کہ وہ سرخ سونے سے زیادہ اپنی موت کو پسند کریں گے، اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کریں گے۔
امانت دار کو خائن اور خائن کو امانت دار کہا جائے گا جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا ، اچھائی کو برا اور برائی کو اچھا سمجھا جائے گا۔ اجنبی لوگوں سے حسن سلوک کیا جائے گا اور رشتہ داروں کے حقوق پامال کئے جائیں گے، بیوی کی اطاعت اور ماں باپ کی نافرمانی ہوگی، مسجدوں میں شور و شغب اور دنیا کی باتیں ہوں گی، سلام صرف جان پہچان کے لوگوں کو کیا جائے گا (حالانکہ دوسری احادیث میں ہے کہ ہر مسلمان کو سلام کرنا چاہیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو) طلاقوں کی کثرت ہوگی، نیک لوگ چھپتے پھریں گے اور کمینے لوگوں کا دور دورہ ہوگا، لوگ فخر اور ریاء کے طور پر اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے۔ شراب خوری اور زنا کی کثرت ہوگی، بےحیائی اور حرامی اولاد کی کثرت ہوگی، لوگ موٹی موٹی گدیوں پر سواری کر کے مسجد کے دروازوں تک آئیں گے، ان کی عورتیں کپڑے پہنتی ہوں گی مگر (لباس باریک اور چست ہونے کے باعث) وہ ننگی ہوں گی، ان کی سربختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہوں گی، لچک لچک کر چلیں گی اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی۔ یہ لوگ نہ جنت میں داخل ہوں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے ، مومن آدمی ان کے نزدیک باندی سے بھی زیادہ رذیل ہوگا، مومن ان برائیوں کو دیکھے گا مگر انھیں روک نہ سکے گا جس کے باعث اس کا دل اندر ہی اندر گھلتا رہے گا۔ علامات متوسطہ میں اور بھی بہت سی علامات ہی ان سب کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے دور میں دی تھی جب کہ ان کا تصور بھی مشکل تھا مگر آج ہم اپنی آنکھوں سے ان سب کا مشاہدہ کر رہے ہیں، کوئی علامت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور کوئی ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ جب یہ سب علامات اپنی انتہاء کو پہنچیں گی تو قیامت کی بڑی بڑی اور قریبی علامات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اللہ عزوجل ہمیں ہر فتنہ کے شر سے محفوظ رکھے اور سلامتی ایمان کے ساتھ قبر تک پہنچا دے۔ (آمین)
ظہور مہدی علیہ السلام
قیامت کی علامات کبریٰ میں سب سے پہلی علامت حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کا ظہور ہے احادیث مبارکہ میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے کہ حضرت مہدی (علیہ السلام) حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ (رض) کی اولاد سے ہوں گے۔ نام محمد، والد کا نام عبداللہ ہوگا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت مشابہت ہوگی، پیشانی کھلی اور ناک بلند ہوگی، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، پہلے ان کی حکومت عرب میں ہوگی پھر ساری دنیا میں پھیل جائے گی، سات سال تک حکومت کریں گے۔ مہدی عرب زبان میں ہدایت یافتہ کو کہتے ہیں، ہر صحیح الاعتقاد اور باعمل عالم دین کو مہدی کہا جاسکتا ہے بلکہ ہر راسخ العقیدہ نیک مسلمان کو بھی مہدی کہا جاسکتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت امیر معاویہ (رض) کو بھی ہادی اور مہدی ہونے کی دعا دی ہے۔ اس سے بھی یہی لغوی معنی مراد ہیں۔
یہاں مہدی سے مراد وہ خاص شخص ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ امام مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے آخری زمانہ میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہونگی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، عرب میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پرشوکت حکومت نہیں رہے گی، خیبر کے قریب تک عیسائی پہنچ جائیں گے اور اس جگہ تک ان کی حکومت ہوجائے گی، بچے کچے مسلمان مدینہ منورہ پہنچ جائیں گے اس وقت حضرت امام مہدی (علیہ السلام) مدینہ منورہ میں ہوں گے لوگوں کے دلوں میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ اب امام مہدی (علیہ السلام) کو تلاش کرنا چاہیے ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کو امام بنا لینا چاہیے۔ اس زمانے کے نیک لوگ اولیاء اللہ اور ابدال سب ہی امام مہدی (رض) کی تلاش میں ہوں گے۔
بعض جھوٹے مہدی بھی پیدا ہوں گے، امام اس ڈر سے کہ لوگ انھیں حاکم اور امام نہ بنالیں مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آجائیں گے اور بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہوں گے حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ہوں گے کہ پہچان لیے جائیں گے اور لوگ ان کو گھیر کر ان سے حاکم اور امام ہونے کی بیعت کرلیں گے اسی بیعت کے دوران ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو تمام وہ لوگ جو وہاں موجود ہوں گے سنیں گے وہ آواز یہ ہوگی یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور حاکم بنائے ہوئے امام مہدی (رض) ہیں۔ جب آپ کی بیعت کی شہرت ہوگی تو مدینہ منورہ کی فوجیں مکہ مکرمہ میں جمع ہوجائیں گی، شام، عراق، اور یمن کے اہل اللہ اور ابدال سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بیعت کریں گے۔ ایک فوج حضرت امام مہدی (رض) سے لڑنے کے لیے آئے گی، جب وہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے درمیان ایک جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی تو سوائے دو آدمیوں کے سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے۔ امام مہدی (علیہ السلام) مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئیں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ مبارک کی زیارت کریں گے، پھر ملک شام روانہ ہوں گے، دمشق پہنچ کر عیسائیوں سے ایک خونریز جنگ ہوگی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوجائیں گے، بالاخر مسلمانوں کو فتح ہوگی، امام مہدی (رض) ملک کا انتظام سنبھال کر قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے عازم سفر ہوں گے۔
قسطنطنیہ فتح کر کے امام مہدی (رض) کے ملک شام پہنچنے کے کچھ ہی عرصہ بعد دجال نکل پڑے گا، دجال شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور گھومتا گھماتا دمشق کے قریب پہنچ جائے گا۔ عصر کی نماز کے وقت لوگ نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اترتے ہوئے نظر آئیں گے۔ دجال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ کر بھاگے گا بالاخر باب لد (موجود نام نہاد اسرائیل کا ائرپورٹ) پر پہنچ کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کا کام تمام کردیں گے اس وقت روئے زمین پر کوئی کافر نہیں رہے گا سب مسلمان ہوں گے حضرت مہدی (علیہ السلام) کی عمر پینتالیس اڑتالیس یا انچاس برس ہوگی کہ آپ کا انتقال ہوجائے گا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نماز جنازہ پڑھائیں گے بیت المقدس میں انتقال ہوگا اور وہیں دفن ہوں گے۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّازْدُجِرَ
سیّدنا نوح (علیہ السلام) کی تکذیب، قوم کا عنادوانکار، پھر قوم کی ہلاکت اور تعذیب
اہل مکہ کا انکار اور عناد بڑھتا جا رہا تھا انھیں گزشتہ اقوام کی تکذیب اور ہلاکت اور تعذیب کے واقعات بتائے گئے۔ یہاں سیّدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم اور قوم عادو ثمود اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے واقعات ذکر فرمائے ہیں اولاً سیّدنا نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا کہ اہل مکہ سے پہلے ہمارے بندہ نوح (علیہ السلام) کی بھی تکذیب کی گئی ان کی قوم نے انھیں دیوانہ بتایا اور ان کی بےادبی کرتے رہے قوم نے انھیں جھڑکا اور بےادبی کے ساتھ مقابلہ کیا۔
حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے درمیان ساڑھے نو سو سال رہے انھیں توحید کی دعوت دی۔ حق پیش کیا بارہا سمجھایا۔ لیکن انھوں نے نہ مانا بلکہ الٹا انھیں کو گمراہی میں بتانے لگے۔ کما في سورة الأعراف ﴿قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ﴾ ان لوگوں نے ضد پکڑ لی عناد پر اتر آئے اور کہنے لگے ﴿فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ﴾ کہ تم جو کچھ دھمکیاں دے رہے ہو عذاب کی باتیں کر رہے ہو اگر سچے ہو تو عذاب کو لے آؤ، ابھی سامنے کرکے دکھاؤ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کی حرکتوں سے بہت عاجز آچکے تھے بہت کم لوگ ان پر ایمان لائے سورة ہود میں ہے ﴿وَ مَا اٰمَنَ مَعَهٗ اِلَّا قَلِيْلٌ﴾ ان لوگوں نے تو عذاب مانگا ہی تھا حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی ان کے لیے بددعا کردی۔
سورة المومنون میں ہے کہ انھوں نے عرض کیا کہ ﴿رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ﴾ اور یہاں سورة قمر میں ہے کہ﴿فَدَعَا رَبَّهٗ اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ﴾ (سو انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب میں مغلوب ہوں سو میری مدد فرمائیے) اور سورة نوح میں ہے کہ انھوں نے دعا میں عرض کیا ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ﴾ (اے میرے رب کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر چلتا پھرتا مت چھوڑ) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی انھیں حکم دیا کہ کشتی بناؤ اس کشتی کو یہاں سورة القمر میں ﴿ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍ﴾ سے تعبیر فرمایا ہے یعنی تختوں سے بنی ہوئی چیز جس میں میخیں یعنی کیلیں لگی ہوئی تھیں۔ جب یہ کشتی تیار ہوگئی تو ارشاد فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو اور دیگر اہل ایمان کو اس میں سوار کرلو، جب یہ حضرات سوار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے پانی کا طوفان بھیج دیا آسمان سے بھی پانی برسا اور خوب برسا اور زمین سے بھی چشمے جاری ہوئے دونوں پانی آپس میں مل گئے اور جو فیصلہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قضاو قدر میں لکھا ہوا تھا اسی کے مطابق ان لوگوں کی ہلاکت و بربادی ہوگئی، کشتی پانی میں بہتی رہی اللہ تعالیٰ نے اپنی نگرانی میں اسکو جاری رکھا اور جو لوگ ان میں سوار تھے ان کی حفاظت فرمائی اور کافروں کو ڈبو دیا، چونکہ ان لوگوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بہت ستایا تھا اور ان کی ناقدری کی تھی اس لیے فرمایا ﴿جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ﴾ (ان لوگوں کی غرقابی اس شخص کا بدلہ لینے کے لیے تھی جس کی ناقدری کی گئی) ۔
﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ﴾
لفظ للذِّكْرِ میں نصیحت حاصل کرنا عبرت لینا سب کچھ داخل ہے اور معالم التنزیل میں حضرت سعید بن جبیر (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے حفظ اور قرات مراد ہے (قرآن کا پڑھنا اور حفظ کرنا بھی آسان ہے اور اس کے معانی اور مضامین اور احکام کا سمجھنا بھی سہل ہے) ، رہے وجوہ استنباط تو ان کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا، اور قرآن میں یہ ہے بھی نہیں کہ سارے قرآن کو من کل الوجوہ ہر شخص کے لیے آسان کردیا ہے بہت سے وہ لوگ جو آیت شریفہ کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کا مطلب اپنے پاس سے تجویز کرتے ہیں اور سلف صالحین کے خلاف تفسیر کرتے ہیں جبکہ عربی لغات اور قواعد عربیہ کو بھی نہیں جانتے ہیں ایسے لوگ شدید گمراہی میں ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسہیل اور تیسیر ہے کہ اس نے پورے قرآن کو مومن بندں کے سینوں میں بالفاظہ و حروفہ محفوظ فرما دیا، اگر بالفرض خدانخواستہ سارے مصاحف ختم ہوجائیں تو قرآن مجید پھر بھی محفوظ رہے گا ایک نو عمر حافظ بچہ کھڑے ہو کر پورا قرآن مجید لکھوا سکتا ہے، اہل کتاب نے لکھے ہوئے صحیفوں پر بھروسہ کیا اس لیے اپنی کتاب ضائع کردی، اب ان کے پاس ترجمے ہی ترجمے ہیں، کتابیں نہیں ہیں جن سے ترجموں کا میلان کیا جاسکے۔
قرآن کا اعجاز اور لوگوں کا تغافل
قرآن مجید کا ایک یہ معجزہ ہے جو سب کے سامنے ہے کہ اسے عورتیں، بوڑھے بچے، جوان سب ہی حفظ کرلیتے ہیں۔ اتنی بڑی کتاب کوئی بھی شخص اپنی زبان کی لفظ بہ لفظ اور حرف بہ حرف یاد نہیں کرسکتا۔
دنیا اور دنیا کی محبت نے ایسے لوگوں کو قرآن سے اور اس کے حفظ کرنے سے اس کی تجوید اور قرات سے محروم کردیا جو خود بھی آخرت سے بےفکر ہیں اور بچوں کو بھی طالب دنیا بنا کر ان کا ناس کھوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عموماً مسلمانوں میں نسلی مسلمان رہ گئے۔ یعنی ان کے باپ دادا مسلمان تھے یہ بھی ان کے گھروں میں پیدا ہوگئے، اسلام کو اس کے تقاضوں کے ساتھ نہ پڑھا نہ سمجھا، جیسے خود ہیں ویسے ہی اولاد کو بنانا چاہتے ہیں۔ جو لوگ اصلی مسلمان ہیں وہ لوگ قرآن کو سینہ سے لگاتے ہیں، حفظ کرتے ہیں، تجوید سے پڑھتے ہیں، بچوں کو بھی حفظ کرواتے ہیں اس کے معانی بتاتے ہیں، عالم بناتے ہیں، علماء کی صحبتوں میں لے جاتے ہیں۔
مسلمانوں! اپنے بچوں کو حفظ میں لگاؤ یہ بہت آسان کام ہے۔ جاہلوں نے مشہور کردیا ہے کہ قرآن حفظ کرنا لوہے کے چنے چبانے کے برابر ہے، یہ بالکل جاہلانہ بات ہے۔ قرآن حافظہ سے یاد نہیں ہوتا معجزہ ہونے کی وجہ سے یاد ہوتا ہے۔
بہت سے جاہل کہتے ہیں کہ طوطے کی طرح رٹانے سے کیا فائدہ؟ یہ لوگ روپے پیسے کو فائدہ سمجھتے ہیں ہر حرف پر دس نیکیاں ملنا اور آخرت میں ماں باپ کو تاج پہنایا جانا اور قرآن پڑھنے والے کا اپنے گھر کے لوگوں کی سفارش کرکے دوزخ سے بچوا دینا فائدہ میں شمار ہی نہیں کرتے کہتے ہیں کہ حفظ کرکے ملا بنے گا تو کہاں سے کھائے گا، میں کہتا ہوں کہ حفظ کرلینے کے بعد تجارت اور ملازمت سے کون روکتا ہے، ملا بننا تو بہت بڑی سعادت ہے جسے اپنے لیے یہ سعادت مطلوب نہیں وہ اپنے بچے کو تو حفظ قرآن سے محروم نہ کرے جب حفظ کرلے تو اسے دنیا کے کسی بھی حلال مشغلے میں لگایا جاسکتا ہے۔
قرآن کریم کی برکات
ہم نے تجربہ کیا ہے کہ دنیا کے کام کاج کرتے ہوئے اور سکول، کالج میں پڑھتے ہوئے بہت سے بچوں نے قرآن شریف حفظ کرلیا۔ بہت لوگوں نے سفید بال ہونے کے بعد حفظ کرنا شروع کیا اللہ جل شانہ، نے ان کو بھی کامیابی عطا کی، جو بچہ حفظ کرلیتا ہے اس کی قوت حافظہ اور سمجھ میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ آئندہ جو تعلیم بھی حاصل کرے ہمیشہ اپنے ساتھیوں سے آگے رہتا ہے، قرآن کی برکت سے انسان دنیا و آخرت میں ترقی کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگوں نے قرآن کو سمجھا ہی نہیں کوئی قرآن کی طرف بڑھے تو قرآن کی برکات کا پتہ چلے۔
﴿كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ﴾
قوم عاد کی تکذیب اور ہلاکت اور تعذیب
ان آیات میں قوم عاد کی تکذیب اور تعذیب کا ذکر ہے ان کی طرف اللہ تعالیٰ شانہ، نے حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے ان کو تبلیغ کی توحید کی دعوت دی، یہ لوگ بری طرح پیش آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے خیال میں تو تم کم عقل ہو بیوقوف ہو ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔ یہ جو تم نے عذاب عذاب کی رٹ لگا رکھی ہے یہ دھمکی ہم پر کچھ اثر انداز نہیں ہوسکتی اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو چلو عذاب کو بلالو، بالآخر ان پر اللہ تعالیٰ شانہ، نے ہوا کا عذاب بھیج دیا بہت سخت تیز ہوا آئی جو ان پر سات رات اور آٹھ دن مسلط رہی یہ دن ان کے لیے نامبارک اور منحوس تھے۔ ہوا چلتی رہی اور یہ لوگ مرتے رہے تیز ہوا نے انھیں اٹھا اٹھا کر پھینک دیا یہ لوگ بڑی جسامت والے تھے قد آور تھے اپنی قوت اور طاقت پر انھیں بڑا گھمنڈ تھا ان کے سامنے جب دین و ایمان کی بات آئی تو کہنے لگے ﴿مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ (ہم سے بڑھ کر قوت کے اعتبار سے کون زیادہ سخت ہوگا) اللہ تعالیٰ نے ہوا بھیجی تو ساری شیخی دھری رہ گئی ہوا نے انھیں اپنی جگہوں سے ایسا اٹھا اٹھا کر پھینکا کہ ان میں کوئی جان ہی نہ تھی۔ یہاں سورة القمر میں فرمایا ﴿كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ﴾ (گویا کہ وہ کھجور کے درختوں کے تنے تھے جو اکھڑ اکھڑ کر زمین پر گرپڑے) اور سورة الحاقہ میں فرمایا ہے ﴿فَتَرَى الْقَوْمَ فِيْهَا صَرْعٰى كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ﴾ (سو اے مخاطب تو اس قوم کو مذکورہ ایام میں پچھاڑے ہوئے دیکھتا ہے گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں جو اندر سے خالی ہیں) ۔
﴿كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِالنُّذُرِ﴾
قوم ثمود
یہ لوگ قوم عاد کے بعد تھے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر گھر بنا لیتے تھے اللہ تعالیٰ شانہ، نے ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا انھوں نے ان کو توحید کی دعوت دی خیر کا راستہ دکھایا لیکن ان پر تکبر سوار ہوگیا اور کہنے لگے تم بھی تو انسان ہو اور ہم بھی انسان ہیں پھر ہو بھی تم ہمیں میں سے تم میں کون سی خاص بات ہے جس کی وجہ سے تم نبی بنائے گئے ہم اپنے ہی میں سے ایک آدمی کا اتباع کریں تو یہ بڑی گمراہی کی بات ہے ۔
ثمود کی طرف سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی بعثت
ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آپ اس چٹان سے زندہ اونٹنی نکال دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے چٹان سے اونٹنی نکال دی تاکہ وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا معجزہ ہو اور ان کے صدق پر دلیل ہو اور یہ اللہ کی طرف سے ان کی آزمائش تھی کہ وہ اپنا فرمائشی معجزہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے فرمایا : ہم ان کی آزمائش کے لیے ایک اونٹنی بھیجنے والے ہیں، آپ انتظار کیجئے اور صبر سے کام لیجئے “۔
ثمود اور اونٹنی کے درمیان پانی کی تقسیم
حضرت ابن عباس نے فرمایا : جس دن ثمود پانی پیتے تھے اس دن اونٹنی بالکل نہیں پیتی تھی اور ان کو اپنا دودھ پلاتی تھی اور وہ بہت عیش و آرام میں تھے اور جس دن اوٹنینی کی باری ہوتی تھی تو وہ سارا پانی پی جاتی تھی، اور ان کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں بچتا تھا۔
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ہم غزوہ تبوک میں مقام حجر میں پہنچے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو ! معجزات کا سوال نہ کیا کرو، کیونکہ یہ صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی جس نے اپنے نبی سے یہ سوال کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے اونٹنی بھیج دے تو اللہ عزوجل نے ان کی طرف اونٹنی بھیج دی، پس وہ راستہ سے آتی تھی اور اپنی باری پر ان کا تمام پانی پی جاتی تھی اور اس دن وہ اس اونٹنی سے اتنا دودھ لیتے تھے، جتنا وہ اس دن پانی پیتے تھے اور وہ اسی راستے سے واپس چلی جاتی تھی پھر انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں، پھر ان کو ایک ہول ناک چیخ نے پکڑ لیا اور آسمان کے نیچے ان میں کوئی شخص نہیں بچا، سو ایک شخص کے وہ اللہ کے حرم میں تھا، مسلمانوں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ کون شخص تھا ؟ آپ نے فرمایا : وہ ابو رغال تھا، جب وہ حرم سے نکلا تو اس پر بھی وہ عذاب آگیا جو اس کی قوم پر آیا تھا۔ (مسند احمد ج 3 ص 296، طبع قدیم مسند احمد ج 22 ص 66، رقم الحدیث 14160 موسستۃ الرسالۃ، بیروت 1419 ھ، مسند البزار رقم الحدیث :1844، صحیح ابن حبان رقم الحدیث 6197، المستدرک ج 2 ص 340-341، ا لمعجم الاوسط رقم الحدیث :90-95)
ثمود کا اونٹنی کو ذبح کرنا
القمر :29-30 میں فرمایا: سو انھوں نے اپنے صاحب کو پکارا تو (اس نے اونٹنی کو پکڑ کر) اس کی کونچیں کاٹ دیں۔
امام محمد بن اسحاق نے کہا : پس وہ شخص اونٹنی کے آنے کے راستے میں ایک درخت کی جڑ میں گھات لگا کر بیٹھ گیا، پھر تاک کر اس کی پنڈلی کے پٹھوں میں تیر مارا، پھر تلوار سے اس کی ٹانگیں کاٹ دیں اور اس اونٹنی کو ذبح کردیا اور اس اونٹنی کا بچہ پہاڑ کی چوٹیوں کی طرف بھاگ گیا اور وہیں غائب ہوگیا، پھر جب حضرت صالح (علیہ السلام) آئے اور انھوں نے دیکھا کہ اونٹنی کی کو نچی کاٹ دی گئیں ہیں اور اس کو ذبح کردیا گیا ہے تو وہ رونے لگے اور کہا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑا دیا ہے، پس تمہیں اللہ سبحانہ کے عذاب کی بشارت ہو اور اس واقعہ کی پوری تفصیل سورة الاعرف میں بیان کی جا چکی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جس شخص نے اوٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں، اس کا سرخ رنگ تھا اور اس کی نیلی آنکھیں تھیں اور اس کا نام قدار بن سالف تھا : القمر 30 کی تفسیر اس سے پہلی آیتوں میں گزر چکی ہے۔
ثمود پر عذاب کی کیفیت
القمر :31-32 میں فرمایا : بیشک ہم نے ان پر ایک ہول ناک آواز بھیجی تو وہ باڑ بنانے والے کی گھاس کی طرح چورا چورا ہوگئے۔ اور بیشک ہم نے حصول نصیحت کے لیے قرآن کو آسان کردیا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔
یہ حضرت جبرائیل کی چیخ تھی، اس کی تفصیل سورة ھود میں گزر چکی ہے، اس آیت میں ”هشیم المحتضر“ کے الفاظ ہیں، ” حظیرۃ محظورۃ “ کے معنی میں ہے، اس کا لفظی معنی ہے : ممنوعہ چیز، رکاوٹ، یا یہ اس باڑ کو کہتے ہیں جو خشک جھاڑیوں اور لکڑیوں سے جانوروں کی حفاظت کے لیے بنائی جاتی ہے ” ہشیم “ کا معنی ہے : خشک گھاس یا کٹا ہوا خشک کھیت، اس آیت کے معنی کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ایک باڑ بنانے والے کی خشک لکڑیاں اور جھاڑیاں مسلسل روندے جانے کی وجہ سے چورا چورا ہوجاتی ہیں وہ بھی اس باڑ کی مانند ہمارے عذاب سے چورا چورا ریزہ ریزہ ہوگئے۔
﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍۢ بِالنُّذُرِ﴾
سیّدنا لوط (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تبلیغ کرنا، اور قوم کا کفر پر اصررا کرنا، معاصی پرجما رہنا اور آخر میں ہلاک ہونا
ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی نافرمانی اور ہلاکت کا ذکر ہے، حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کے وطن سے ہجرت کرکے آئے تھے دونوں نے ملک شام میں قیام فرمایا حضرت لوط (علیہ السلام) چند بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے ان میں بڑی بستی کا نام سدوم تھا ان بستیوں کے رہنے والے برے لوگ تھے۔ برے اخلاق اور برے اعمال میں مشغول رہتے تھے مرد مردوں سے شہوت پوری کرتے تھے۔
حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا توحید کی دعوت دی برے افعال سے روکا لیکن ان لوگوں نے ایک نہ سنی اور اپنی بدمستی میں مشغول رہے، بالآخر ان پر عذاب آہی گیا۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے جو فرشتے بھیجے وہ اولاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان سے کہا ﴿اِنَّا مُهْلِكُوْا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ﴾ (کہ ہم اس بستی کو ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس میں تو لوط (علیہ السلام) ہیں پوری بستی کیسے ہلاک ہوگی ؟ فرشتوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس میں کون کون ہے، ہم لوط کو اور اس کے گھر والوں کو بچا لیں گے ہاں ان کی بیوی ہلاک ہوجائے گی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں نے بیٹا پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی پھر وہاں سے چل کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے چونکہ یہ فرشتے انسانی صورت میں تھے اور خوبصورت شکل میں آئے تھے اس لیے ان کو دیکھ کر حضرت لوط (علیہ السلام) رنجیدہ ہوئے اور انھیں خیال آیا کہ یہ میرے مہمان ہیں۔ خوبصورت ہیں اندیشہ ہے کہ گاؤں والے ان کے ساتھ بری حرکت کا ارادہ نہ کرلیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ لوگ جلدی جلدی دوڑتے ہوئے آئے اور اپنا مطلب پورا کرنا چاہا جسے ﴿وَ لَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَيْفِهٖ﴾ میں بیان فرمایا ہے۔
حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو۔ یہ میری بیٹیاں ہیں یعنی امت کی لڑکیاں جو گھروں میں موجود ہیں ان سے کام چلاؤ یعنی نکاح کرو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انھیں بہت سمجھایا اور یہ بھی بتایا کہ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ، ورنہ سخت عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے لیکن وہ لوگ نہ مانے، حضرت لوط (علیہ السلام) کی تکذیب کرتے رہے اور عذاب آنے میں بھی شک اور تردد کرتے رہے جب انھوں نے بات نہ مانی تو اولاً یہ عذاب آیا کہ ان کی آنکھوں کو مطموس کردیا گیا یعنی ان کے چہرے بالکل سپاٹ ہوگئے آنکھیں بالکل ہی نہ رہیں۔ اللہ پاک کی طرف سے اعلان ہوگیا ﴿فَذُوْقُوْا عَذَابِيْ وَ نُذُرِ﴾ (سو تم میرا عذاب اور میرے ڈرانے کا نتیجہ چکھ لو) ۔
جب ہلاکت والا عذاب آنے کا وقت قریب ہوا تو فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنی بیوی کے علاوہ رات کے ایک حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جایئے اور برابر چلتے جائیے تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے صبح کے وقت ان لوگوں پر عذاب نازل ہوجائے گا۔ جب صبح ہوئی تو اللہ کا حکم آگیا جو فرشتے عذاب کے لیے بھیجے گئے تھے انھوں نے ان بستیوں کا تختہ اٹھاکر پلٹ دیا نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی زمین نیچے ہوگئی وہ سب لوگ اس میں دب کر مرگئے اور اللہ تعالیٰ نے اوپر سے پتھر بھی برسادیئے جو کنکھر کے پتھر تھے وہ لگاتار برس رہے تھے۔ ان پتھروں پر نشان بھی لگے ہوئے تھے، بعض علمائے تفسیر نے فرمایا ہے ہر پتھر جس شخص پر پڑتا تھا اس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا اس کو سورة ہود میں مسوّمۃ یعنی نشان زدہ فرمایا ہے۔ (کماذ کرہ فی معالم التنزیل وفیہ اقوال اخر) ۔
بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اس علاقہ میں موجود تھے ان پر زمین الٹنے کا عذاب آیا اور جو لوگ ادھر ادھر نکلے ہوئے تھے ان پر پتھر برسائے گئے اور پتھروں کی بارش سے ہلاک ہوگئے۔ حضرت مجاہد تابعی (رض) سے کسی نے پوچھا کیا قوم لوط میں سے کوئی رہ گیا تھا۔ انھوں نے جواب دیا کوئی باقی نہ رہا تھا ہاں ایک شخص زندہ بچ گیا تھا جو مکہ معظمہ میں تجارت کے لیے گیا ہوا تھا وہ چالیس دن کے بعد حرم سے نکلا تو اس کو بھی پتھر لگ گیا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا۔
سورة ھود میں ان لوگوں کی زمین کا تختہ الٹنے کا اور پتھروں کی بارش کا ذکر ہے اور یہاں سورة القمر میں ﴿اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا﴾ فرمایا ہے علامہ قرطبی نے اولاً ابوعبیدہ سے نقل کیا کہ اس سے پتھر مراد ہیں پھر صحاح سے نقل کیا ہے کہ : الحاصب الریح الشدیدہ التی تطیر الحصبا کہ حاصب اس ہوا کو کہا جاتا ہے جو کنکریاں اڑاتی ہوئی چلے اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں پر جو پتھر برسائے گئے تھے۔ ان پتھروں کو تیز ہوا لے کر آئی تھی۔
﴿وَلَقَدْ جَاۗءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ﴾
آل فرعون کی تکذیب اور ہلاکت وتعذیب
ان آیات میں اولاً آل فرعون کا تذکرہ ہے یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ شانہ، کے باغی تھے۔ فرعون کی بڑی طاقت تھی اس کی جمعیت بھی تھی اسے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ کہتا تھا کہ میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی طرف بھیجا انھوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا فرعون کا دبدبہ تو تھا ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کی قوم کے بڑے لوگ دربار کے حاضر باش اور قوم کے سردار (جنہیں کئی جگہ ملاہٴ سے تعبیر فرمایا) لوگ ایمان نہیں لاتے تھے اور عوام الناس بھی ان کا اتباع کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں ڈرایا دنیا کی بربادی اور آخرت کے عذاب میں مبتلا ہونے کی باتیں بتائیں ان کے ہاتھ پر متعدد معجزات بھی ظاہر ہوئے جن کا سورة الاعراف کی آیات ﴿وَ لَقَدْ اَخَذْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ بالسِّنِيْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ﴾ (الایات الثلث) میں تذکرہ فرمایا ہے ان لوگوں نے تمام آیات کو جھٹلا دیا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آل فرعون اور عسا کر فرعون یعنی اس کے لشکروں کو ڈبو دیا ۔
﴿اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰۗىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَاۗءَةٌ فِي الزُّبُرِ﴾
جنگ بدر میں کفار کی شکست کی خبر
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو خطاب فرمایا ہے کہ تمہارے کافر سابقہ امتوں کے کفار سے مال و دولت او جسمانی طاقت میں زیادہ بڑے ہیں یا تم نے سابقہ آسمانی کتابوں میں یا لوح محفوظ میں پڑھ لیا ہے کہ تم کو عذاب نہیں ہوگا، اس لیے تم اپنے کفر پر ڈٹے ہوئے ہو یا تم کو اپنی عددی قوت اور اسلحہ کی زیادتی پر اتنا گھمنڈ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ تم ناقابل تسخیر ہو اور تم کو شکست نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ عنقریب مکہ شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نہیں جانتا تھا کہ کافروں کی کون سی جماعت شکست کھائے گی، پھر میں نے دیکھا کہ جنگ بدر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زرہ پہنے ہوئے دعا کر رہے تھے: اے اللہ ! بیشک قریش بڑے فخر اور تکبر کے ساتھ تیرے خلاف اور تیرے رسول کے خلاف جنگ کرنے آئے ہیں، پس تو ان کو ہلاک کردے، پھر یہ آیت نازل ہوئی : (القمر : 45) (دلائل النبوۃ ج 3 ص 35: مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث 3069، المعجم الاوسط رقم الحدیث 3841 معالم التنزیل ج 4 ص 327)
اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزت میں سے ہے کیونکہ آپ نے غیب کی خبر دی ہے اور اسی طریقہ سے واقع ہوا جس طرح آپ نے خبر دی تھی۔ حضرت عائشہ ام المومنین (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں جس وقت بچی تھی اور کھیلتی تھی اس وقت مکہ میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی بلکہ ان کی وعید قیامت ہے اور قیامت بڑی مصیبت اور تلخ ہی۔ (القمر :46) (صحیح البخاری رقم الحدیث 4876)
جنگ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فتح کی دعا
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ کے بدر کے دن اپنے خیمہ میں تھے اور آپ یہ دعا کر رہے تھے : میں تجھے تیرے عہد اور وعدہ کی قسم دیتا ہوں : اے اللہ ! اگر تو چاہے کہ آج کے بعد تیری کبھی عبادت نہ کی جائے (یعنی اگر مسلمانوں کی جماعت شکست کھاجائے) پھر حضرت ابوبکر (رض) نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور کہا : یا رسول اللہ ! آپ کے لیے اتنی دعا کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت زیادہ دعا کی ہے اس وقت آپ زرہ پہنے ہوئے تھے، پھر آپ یہ آیتیں پڑھتے ہوئے خیمہ سے باہر نکلے : (القمر :45-46) (صحیح البخاری رقم الحدیث :4877، السنن البکری رقم الحدیث 1493، المعجم الکبیر رقم الحدیث 11976 دلائل النبوۃ ج 3 ص 50، کتاب الاسماء والصفات ص 149 شرح السنتہ رقم الحدیث 3775 مصنف ابن ابی شیبہ ج 14 ص 375 مسند احمد ج 1 ص 329 طبع قدیم ج 5 ص 165 رقم الحدیث 3042 موسستۃ الرسالۃ، بیروت 1420 ھ )
علامہ بدرالدین محمد بن بہادر الزر کشتی متوفی 794 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ابو زید کی روایت میں یہ دعا اس طرح ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے وعدے کے پورا کرنے کا اور تیرے عہد کے ایفاء اور اتمام کا سوال کرتا ہوں اور یہ جو فرمایا ہے کہ اے اللہ۔ اگر تو چاہے کہ تیری عبادت نہ کی جائے۔ اس میں اللہ کے حکم اور اس کے فعل کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ (تنقیح الزر کشتی علی الجامع الصحیح ج 4 ص 110، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1424 ھ)
حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور اپنے اصحاب کی طرف دیکھا تو وہ تین سو انیس تھے، تب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ بلند کر کے یہ دعا کی : اے اللہ : تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا کر، اور تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا وہ عطا فرما : اے اللہ ! اگر تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو روئے زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی، آپ مسلسل یہ دعا کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کی چادر آپ کے کندھے سے گرگئی، تب حضرت ابوبکر نے آپ کی چادر درست کی اور آپ سے لپٹ گئے اور کہا : آپ نے کافی دعا کرلی ہے، اللہ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 1763، مسند احمد ج 1 ص 30)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.