Surah Rehman With Urdu Translation PDF
Surah Rahman Arabic Text
ترجمہ اور تفسير سورہ رحمن
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2)
رحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔
خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)
اسی نے انسان کو پیدا کیااور اسے بولنا سکھا یا ۔
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (5)
سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں
وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ (6)
اور تارے درخت سب سجدہ ریز ہیں ۔
وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ (7)
آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔
أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ (8)
اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو،
وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ (9)
انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تو لو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔
وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ (10)
زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لیۓ بنایا
فِيهَا فَاكِهَةٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَكْمَامِ (11)
اس میں ہر طرح کے بکثرت لذیذ پھل ہیں ۔ کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوۓ ہیں ۔
وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ (12)
طرح طرح کے غلے ہیں جن میں بھوسا بھی ہوتا ہے اور دانہ بھی۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (13)
پس اے جن و انس ، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوںکو جھٹلاؤ گے؟
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (14)
انسان کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوۓ گارے سے بنایا۔
وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ (15)
اور جن کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (16)
پس اے جن و انس ، تم اپنے رب کی کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے؟
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (17)
دونوں مشرق اور دونوں مغرب ، سب کا مالک پروردگار ہی ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (18)
پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ (19)
دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ با ہم مل جائیں ۔
بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ (20)
پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (21)
پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے؟
يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ (22)
ان سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (23)
پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے؟
وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ (24)
اور یہ جہاز اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (25)
پس اے جن و انس، تم اپنے رب کی کن کن احسانات کو جھٹلاؤگے ؟
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26)
ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے ۔
وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (27)
اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (28)
پس اے جن و انس ، تم اپنے رب کے کن کن کما لات کو جھٹلاؤ گے؟
يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (29)
زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں سب اپنی حاجتیں اسی سے مانگ رہے ہیں ۔ ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (30)
پس اے جن و انس ، تم اپنے رب کی کن کن صفات حمید ہ کو جھٹلاؤ گے؟
سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلَانِ (31)
اے زمین کے بوجھو، عنقریب ہم تم سے باز پرس کرنے کے لیۓ فارغ ہو ئے جاتے ہیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (32)
(پھر دیکھ لیں گے کہ ) تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلاؤ تے ہو۔
يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ (33)
اے گرہ جن و انس اگر تم زمین اور آسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو ۔ نہیں بھاگ سکتے ۔ اس کے لئے بڑا زور چاہیے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (34)
اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو تم جھٹلاؤ گے ؟
يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرَانِ (35)
(بھاگنے کی کوشش کرو گے تو ) تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا جس کا تم مقابلہ نہ کر سکو گے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (36)
اے جن و انس! تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کا انکار کرو گے ؟
فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ (37)
پھر (کیا بنے گی اس وقت ) جب آسمان پھٹے گا اور لال چمڑے کی طرح سرخ ہو جائے گا؟
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (38)
اے جن و انس (اس وقت ) تم اپنے کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟
فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ (39)
اس روز کسی انسان اور کسی جن سے اس کا گنا ہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہو گی ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (40)
پھر (دیکھ لیا جاۓ گا کہ ) تم دونوں گروہ رب کے کن کن احسانات کا انکار کرتے ہو۔
يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ (41)
مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پاؤں پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (42)
اس وقت تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ (43)
(اس وقت کہا جائے گا ) یہ وہی جہنم ہے جس کو مجرمین جھوٹ قرار دیا کرتے تھے۔
يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ (44)
اسی جہنم اور کھولتے ہوۓ پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (45)
پھر اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو تم جھٹلاؤ گے؟
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (46)
اور ہر اس شخص کے لیۓ جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتاہو، دو باغ ہیں ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (47)
پھر اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو تم جھٹلاؤ گے؟
ذَوَاتَا أَفْنَانٍ (48)
ہری بھری ڈالیوں سے بھر پور ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (49)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟
فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ (50)
دونوں باغوں میں دو چشمے رواں ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (51)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ (52)
دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (53)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
مُتَّكِئِينَ عَلَى فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ (54)
جنتی لوگ ایسے فرشتوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استر و بیز ریشم کے ہوں گے ، اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑی ہوں گی ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (55)
اپنے رب کی کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟
فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ (56)
ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کسی انسان یا جن نے چھوا نہ ہو گا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (57)
ا پنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟
كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (58)
ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (59)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (60)
نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (61)
پھر اے جن و انس ، اپنے رب کے کن کن اوصاف حمیدہ کا تم انکار کرو گے؟
وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ (62)
اور ان باغوں کے علاوہ دو باغ اور ہوں گے ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (63)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
مُدْهَامَّتَانِ (64)
گھنے سر سبز و شاداب باغ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (65)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟
فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ (66)
دونوں باغوں میں دو چشمے فواروں کی طرح ابلتے ہوئے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (67)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ (68)
ان میں بکثرت پھل اور کھجوریں اور انار ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (69)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ (70)
ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (71)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ (72)
خیموں میں ٹھیرائی ہوئی حوریں۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (73)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ (74)
ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھو ہو گا ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (75)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟
مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ (76)
وہ جنتی سبز قالینوں اور نفیس و نادر فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (77)
اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟
تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (78)
بڑی برکت والا ہے تیرے رب جلیل و کریم کا نام ۔
تعارف سورة الرّحمٰن
یہ سورت وہ واحد سورت ہے جس میں بیک وقت انسانوں اور جنات دونوں کو صراحت کے ساتھ مخاطب فرمایا گیا ہے، دونوں کو اللہ تعالیٰ کی وہ بیشمار نعمتیں یاد دلائی گئی ہیں جو اس کائنات میں پھیلی پڑی ہیں، اور بار بار یہ فقرہ دہرایا گیا ہے کہ اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے ؟ اپنے اسلوب اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی یہ ایک منفرد سورت ہے، جس کی تأ ثیر کو کسی اور زبان میں ترجمہ کرکے منتقل نہیں کیا جاسکتا، اس بارے میں روایات مختلف ہیں کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی، عام طور سے قرآن کریم کے نسخوں میں اس کو مدنی قرار دیا گیا ہے، لیکن علامہ قرطبی نے کئی روایتوں کی بناء پر یہ رجحان ظاہر کیا ہے کہ یہ مکی سورت ہے، واللہ اعلم۔
سورة الرحمن کے متعلق احادیث
عروۃ ابن الزبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جس نے مکہ میں سب سے پہلے بہ آواز بلند قرآن مجید پڑھا، وہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں، کیونکہ ایک دن صحابہ نے کہا کہ قریش نے آج تک کسی سے بہ آواز بلند قرآن مجید نہیں سنا، پس کون شخص ہے جو ان کو بلند آواز سے قرآن سنائے ؟ حضرت ابن مسعود نے کہا : میں سناؤں گا۔ صحابہ نے کہا : ہمیں تمہارے متعلق خطرہ ہے، ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص ان کو قرآن سنائے، جس کے پاس ان کے شر سے بچنے کے لیے مضبوط جتھا ہو، حضرت ابن مسعود نہیں مانے اور انھوں نے مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر پڑھا : (الرحمن :1-2) پر انھوں نے اپنی آواز بلند بہت بلند کی، اس وقت قریش اپنی مجالس میں بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے کہا : ام عبد کے بیٹے ! کیا کہہ رہے ہیں ؟ یہ وہی کلام پڑھ رہے ہیں، جس کے متعلق (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ یہ کلام ان پر نازل کیا گیا ہے، پھر انھوں نے حضرت ابن مسعود (رض) کو مارا پیٹا، حتیٰ کہ ان کا چہرہ سوج گیا۔ (الکشف و البیان ج 9 ص 176 الاجامع الاحکام القرآن جز 17 ص 138، المعجم الکبیرج 24 ص 76-87، م جمع الزوائدج 7 ص 11386)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے پاس گئے اور ان کے سامنے شروع سے آخر تک سورة الرحمن پڑھی، صحابہ خاموش رہے، آپ نے فرمایا : میں نے جنات سے ملاقات کی، تب یہ سورت جنات پر پڑھی تھی، انھوں نے تم سے اچھا جواب دیا تھا، جب بھی میں پڑھتا : (پس اے جنات اور انسانوں کے گروہ ! ) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
تو وہ کہتے: اے ہمارے رب ! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو نہیں جھٹلائیں گے، پس تیرے لیے حمد ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث 3291، المستدرک ج 2 ص 474، دلائل النبیوۃ ج 2 ص 232 )
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر چیز کی ایک دلہن ہوتی ہے اور قرآن کی دلہن (سورة الرحمن) ہے۔ شعب الایمان ج 2 ص 490، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
تفسير سوره رحمن
عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ
(1) علامہ الماوردی المتوفی 450 ھ علامہ ابن جوزی المتوفی 597 ھ، امام رازی متوفی 606 ھ، علامہ قرطبی متوفی 668 ھ، علامہ ابو الحیان اندلسی المتوفی 754 ھ اور علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ نے لکھا ہے : اس سے مراد ہے : رحمن نے سید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کی تعلیم دی اور آپ نے اپنی تمام امت کو اس کی تبلیغ کی۔
(2) دوسرا محمل یہ ہے کہ رحمن نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے تمام مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دی۔
(النکت و العیون ج 5 ص 423، زاد المسیرج 8 ص 106 تفسیر کبیرج 10 ص 337، الجامع الاحکام القرآن جز 17 ص 140 البحرالمحیط ج 10 ص 54، روح المعانی جز 27 ص 150)
نیز علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں: یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین نے کہا : رحمن کیا چیز ہے ؟ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب اہل مکہ نے کہا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بشر تعلیم دیتا ہے اور وہ یمامہ کا رحمان ہے، اس سے ان کی مراد مسلیمہ کذاب تھی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں :۔
زجاج نے کہا : اس آیت کا معنی ہے، رحمن نے یاد کرنے کے لیے اور پڑھنے کے لیے قرآن کو آسان کردیا ہے، جیسا کہ فرمایا ہے : (القمر :17)
خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ
حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ اور حسن نے بیان کیا : یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کو ہر چیز کے اسماء کی تعلیم دی، اور ایک قول ہے : ان کو تمام لغات سکھا دیں، نیز حضرت ابن عباس اور ابن کیسان سے روایت ہے کہ انسان سے مراد یہاں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور بیان سے مراد : حلال اور حرام کا بیان اور ہدایت کا گم راہی سے بیان، ضحاک نے کہا : اس سے مراد ہے : خیر اور شر کا بیان، ربیع بن انس نے کہا : نفع دینے والی اور نقصان دینے والی چیزوں کا بیان۔ (الکشف و البیان ج 9 ص 177، الجامع الاحکام القرآن جز 17 ص 141، فتح القدیر للشوکانی ج 5 ص 174 فتح البیان ج 6 ص 494-493)
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ
شمس وقمر کی بناوٹ ان کی حرکت اور ہم آہنگی کو دیکھ کر انسان حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عظیم نظام ہے اور منظم کی عظمت پر دال ہے اور اس نظام کے اندر گہرے حقائق پوشیدہ ہیں اور اس سے نکلنے والے نتائج دور رس ہیں۔
سورج اجرام فلکی میں سے کوئی بہت بڑا کرہ نہیں ہے۔ اس فضا نے کائنات کے اندر جس کے حدود کا تعین انسان نہیں کرسکا ، کئی ملین ستارے ہیں جن میں سے بہت سے سورج سے بڑے ہیں اور زیادہ حرارت والے ہیں۔ زیادہ تیز روشنی والے ہیں۔ بعض تو بیس گناہ بڑے اور زیادہ گرم ہیں اور جن کی روشنی سورج کی روشنی سے پچاس گنا تیز ہے۔
شعری یمانی سورج سے بیس گناہ بھاری اور اس کی روشنی سورج کی روشنی سے پچاس گنا زیادہ ہے۔ سماک رائح سورج کے حجم سے اسی گنا بڑا حجم رکھتا ہے اور اس کی روشنی آٹھ ہزار گنا زیادہ تیز ہے۔ سہیل کا حجم سورج سے دو ہزار پانچ صد مرتبہ بڑا ہے۔ اسی طرح اور ستارے اور سیارے۔
لیکن ہمارے لیے سورج ہی زیادہ اہم ہے یعنی ہم زمین کے باشندوں کے لیے کیونکہ یہ زمین اور اس کی یہ حالت اور انسان کی زندگی سورج کی حرارت کی مرہون منت ہے اور اس میں سورج کی جاذبیت کو بھی بڑا دخل ہے۔
اس طرح چاند جو اس زمین کا ایک چھوٹا سا سیارچہ ہے لیکن اسے بھی اس زمین کی زندگی میں اہمیت حاصل ہے۔ سمندروں کے اندر مددجزر اسی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
سورج کا حجم ، اس کا درجہ حرارت ، ہم سے اس کا بعد ، اس کا اپنے مدار میں چکر لگانا ، اس طرح چاند کا حجم ، اس کی ہم سے دوری اور اپنے مدار میں گردش یہ سب امور نہایت ہی باریک حساب اور پیمانوں سے بنائے ہوئے ہیں اور زمین کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بمقابلہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کے۔ شمس وقمر کے بعض حسابات ہم یہاں درج کرتے ہیں کہ زمین کے حوالے سے ان کے ان حسابات میں ذرا بھی فرق آئے تو دوررس نتائج نکلیں۔
سورج زمین سے 5 لاکھ ٢٩ میل دور ہے۔ اگر یہ اس سے قریب تر ہوتا تو زمین جل جاتی اور تمام پانی بخارات میں بدل جاتا اور بخارات فضا میں بلند ہوجاتے اور اگر یہ ذرا اور دور ہوتا تو تمام چیزیں منجمد ہوجائیں۔ ہم تک سورج کی جو حرارت پہنچتی ہے ، وہ اس کی حرارت کے دو ملین حصوں میں سے ایک حصہ پہنچتی ہے اور ہماری موجودہ زندگی کے لیے یہی معمولی حرارت کافی ہے۔ اگر شعری اپنی موجودہ ضخامت اور حرارت کے ساتھ سورج کی جگہ ہوتا تو پورا کرہ ارض جل کر راکھ ہوجاتا اور پانی بخارات بن کر فضا آسمانی میں بکھر جاتا۔
اسی طرح چاند کا حجم اور ہم سے بعد ایک حساب سے رکھا گیا ہے۔ اگر یہ اس سے ذرا بھی بڑا ہوتا تو سمندر کے اندر اس قدر طوفان آتے کہ زمین بار بار ڈوبتی رہتی۔ اسی طرح اگر یہ ہم سے قریب ہوجاتا یعنی جہاں ہے تو بھی زمین پر طوفان مچا دیتا لیکن جہاں اللہ نے اسے رکھ چھوڑا ہے اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتا۔
سورج اور چاند کی جاذبیت زمین کے لیے ایک مقدار کے ساتھ متعین ہے اور ان کی رفتار کو بھی ایک نہایت ہی مضبوط حساب سے رکھا گیا ہے اور ہمارا یہ پورا کہکشاں اور مجموعہ شمسی بحساب بیس ہزار میل فی گھنٹہ ایک ہی سمت میں چل رہا ہے اور اس راہ میں وہ کسی دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرایا اور اس رفتار کے کئی ملین سال ہوگئے ہیں اور فضائے کائنات ختم نہیں ہوئی۔
اس وسیع فضائے آسمانی کے اندر کوئی ستارہ اپنے مدار سے ایک بال برابر بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا اور ان کے درمیان جو توازن اور ہم آہنگی رکھی گئی ہے ، اپنے حجم کے لحاظ سے یا حرکت کے لحاظ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ
حضرت ابن عباس نے فرمایا : نجم ان نباتات کو کہتے ہیں جن کا تنا نہ ہو، جیسے انگور، خربوزے اور تربوز کی بیلیں۔
”نجم ینجم“ کا معنی ظاہر ہونا اور طلوع ہونا ہے اور ان کے سجدہ کرنے سے مراد ان کے سایوں کا سجدہ کرنا ہے۔ فّراء نے کہا : جب سورج طلوع ہوتا ہے تو درختوں اور بیلوں کا منہ سورج کی طرف ہوتا ہے، پھر ان کے سائے ان کے ساتھ ساتھ گھومتے رہتے ہیں۔
حسن اور مجاہد نے کہا : اس آیت میں نجم سے مراد آسمان کے ستارے ہیں اور ستاروں کے سجدوں سے مراد ان کا غروب ہونا ہے،
امام قشیری نے کہا : سجود سے مراد خضوع اور عاجزی کا اظہار ہے اور یہ حادث ہونے کی علامت ہے۔
الخاس نے کہا : سجود کا اصل معنی اطاعت ہے اور فرمان برداری ہے اور اس کے حکم کے سامنے سراطاعت خم کرنا ہے اور تمام جمادات اور نباتات اس کے احکام کی تعمیل کر رہے ہیں، اسی طرح حیوانات بھی غیر اختیاری طور پر اس کی اطاعت کر رہے ہیں۔
وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ
یہاں میزان سے مراد کائناتی نظام کے اندر پایا جانے والا مربوط اور خوبصورت توازن (cosmic balance) ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات قائم ہے۔ یہ توازن تمام اجرام سماویہ کے اندر موجود کشش ثقل (gravitational force) کی وجہ سے قائم ہے۔ تمام اجرام فلکی اس کشش کی وجہ سے آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ قدرت کی طرف سے ہر ُ کرے ّکا دوسرے کرے سے فاصلہ ‘ اس کی کشش کی طاقت کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ اگر کہیں یہ فاصلہ ایک طرف سے معمولی سا کم ہوجائے اور دوسری طرف سے معمولی سا بڑھ جائے تو یہ سارا نظام تلپٹ ہوجائے اور تمام کرے آپس میں ٹکرا جائیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تمام چیزوں میں ایک توازن قائم کر رکھا ہے۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ
امام ابو الحسن مقاتل بن سلیمان البلخی المتوفی 150 ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں ”الإنسان“ سے مراد حضرت آدم ہیں ”صلصال“ کا معنی ہے، وہ ریت جس کے ساتھ مٹی ملی ہوئی ہو،
حضرت ابن عباس نے فرمایا : ”صلصال“ کا معنی ہے: عمدہ قسم کی گیلی مٹی جب اس کا پانی سوکھ جائے اور وہ پھٹنے لگے اور جب اس کو ہلایا جائے تو وہ بجنے لگے ” الفخار “ کا معنی ہے : ٹھیکرا پکائے جانے سے پہلے، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت آدم روح پھونکے جانے سے پہلے کھوکھلے ٹھیکرے کی طرح تھے۔
اس کے بعد ”الجان“ کی تخلیق کا ذکر فرمایا : ”الجان“ سے مراد ابلیس ہے اور وہ جنات کا باپ ہے جیسے آدم انسانوں کے باپ ہیں ایک قول یہ ہے کہ ” السجان “” جن “ کا واحد ہے اور ” مارج “ کا معنی ہے : شعلہ، یعنی بالکل صاف آگ جس میں دھویں کی آمیزش نہ ہو اور اس کا نام ” جان ‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کے اس قبیلہ سے ہے جن کو ” جن “ کہا جاتا ہے، پس ” جن ‘ جمع ہے اور ” جان ‘ واحد ہے “ اور اس کا پیدا کرنا بھی نعمتوں میں سے ہے۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج 3 ص 304، دارالکتب العلمیہ بیروت 1424 ھ)
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ
یہاں پر رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ اور رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ تثنیہ کے اس صیغہ کی مناسبت سے آیا ہے جو پوری سورت میں بار بار آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں {رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ} (المُزمل : ٩) اور {رَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ} (المعارج : ٤٠) کی تراکیب بھی آئی ہیں۔ بہرحال واحد ‘ تثنیہ اور جمع کے یہ تینوں صیغے اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ واحد کے صیغے میں مشرق اور مغرب تو معروف عام ہیں۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے تصور کو یوں سمجھیں کہ ایک وقت میں سورج جہاں سے طلوع ہو رہا ہے گلوب کی دوسری طرف وہیں پر وہ غروب ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ اسی طرح جس نقطے پر سورج غروب ہوتا نظر آتا ہے دوسری طرف اسی جگہ سے طلوع ہوتابھی دکھائی دیتا ہے۔ گویا سورج طلوع ہونے کا ہر نقطہ مقام غروب بھی ہے اور اسی طرح ہر مقام غروب گویا مقام طلوع بھی ہے۔ اس لحاظ سے گویا مشرق بھی دو ہیں اور مغرب بھی دو ۔ پھر کسی ایک مقام سے بظاہر نظر آنے والے مشرق و مغرب کے درمیان زمین پر ہر ہر نقطہ گلوب میں کسی کے لیے مقام طلوع ہے اور کسی کے لیے مقام غروب ۔ اس طرح گویا بہت سے مشرق ہیں اور بہت سے مغرب۔
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ
ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب نے ان آیات کی تشریح بےحد خوبصورت الفاظ میں کی ہے ملاحظہ ہو لکھتے ہیں۔ آیات میں دو اہم نکات کو بیان کی گیا ہے۔
1 دو سمندروں کا strait کے ذریعے آپس میں ملنا بہرحال یہ ایک معمول کی حالت ہے۔
2 ۔ یہ حقیقت کہ دو سمندران کے درمیان ایک خاص قسم کی رکاوٹ کی وجہ سے مکمل طور پر آپس میں نہیں مل سکتے۔
آئیے اس سلسلے میں سب سے پہلے سائنسی نکات کا مطالعہ کریں۔ فرانسیسی سائنسدان جیکوی کو سٹو نے جو سمندر کے اندر پانی کی تحقیقات کے لیے مشہور ہے، یہ دریافت کیا کہ بحرہ روم اور بحرہ اوقیانوس کیمیاوی اور حیاتیات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ موصوف نے اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے ” آبنائے جبرالٹر “ کے نزدیک زیر سمندر تحقیقات کر کے یہ بتایا کہ جبل الطارق کے جنوبی ساحلوں (مراکش) اور شمالی ساحلوں (اسپین) پر بالکل غیر متوقع طور پر میٹھے تازہ پانی کے چشمے ابلتے ہیں۔ یہ سمندری پانیوں میں ہوتے ہیں یہ بہت بڑے چشمے ایک دوسرے کی طرف 45 ڈگری کے زاویہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک ڈیم کی طرح کنگھی کے دندانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے بحیرہ روم اور بحرہ اوقیانوس اندر سے ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے۔ درحقیقت، اس تحقیق کے بعد جب کو سٹو Corsteau کو یہ آیات دکھائی گئیں تو بےحد حیران ہوا اور قرآن کی عظمت کی تعریف کرتے ہوئے مسلمان ہوگیا۔ اس حیران کن آیت کریمہ میں جبل الطارق (جبرالٹر) کی باڑ کو بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق)
يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ
”لو لو“ اور ”مرجان“ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ” لو لو “ چھوٹے موتی ہیں اور ” مرجان “ بڑے موتی ہیں اور اس کے برعکس بھی روایت ہے حضرت ابن مسعود نے فرمایا : ” مرجان “ سرخ سیپی کو کہتے ہیں۔ (روح المعانی جز 27، ص 164)
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ
اس آیت میں ” ثقلان “ کا لفظ ہے اس سے مراد جن و انس ہیں، ان کو ” ثقلین “ اس لیے فرمایا ہے کہ روئے زمین پر یہی سب سے عظیم مخلوق ہیں کیونکہ تمام مخلوقات میں صرف یہی مکلف ہیں یعنی صرف یہی تکلیف کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ ثقل، خفت کا مقابل ہے، بوجھ، وزنی چیز ( المفردات ج 1 ص 103) امام جعفر صادق نے کہا : ان کو ” ثقلین “ اس لیے فرمایا کہ یہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں (اللکشف و البیان ج 9 ص 186) امام مقاتل بن سلیمان متوفی 150 ھ نے کہا : یعنی ہم عنقریب انسانوں اور جنات کا حساب لینے کا قصد کریں گے اور اس سے شیاطین کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ انھوں نے انسانوں اور جنات کو گمراہ کیا ہے عرب دھمکی دینے کے لیے کہتے ہیں۔ میں عنقریب تمہارے لیے فارغ ہوں گا۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج 3 ص 306) دارالکتب العلمیۃ بیروت 1424 ھ )
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ
ضحاک نے کہا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کو حکم دے گا تو وہ اپنی چیزوں سمیٹ پھٹ جائے گا اور فرشتے اس کے کنارے پر کھڑے ہوں گے ، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ زمین پر آئیں گے، پھر وہ زمین والوں کا احاطہ کریں گے پھر پھر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کے ساتھ والے آسمان کے فرشتوں کو حکم دے گا تو وہ صف بہ صف کھڑے ہوجائیں گے، اسی طرح تیسرے، چوتھے، پانچویں، چٹھے اور ساتویں آسمان کے فرشتوں کو حکم دے گا پھر سب سے اونچے آسمان کا فرشتہ اتر کر جہنم کی طرف آئے گا اور اس کی پرجوش اور چنگھاڑ کو سنے گا، پھر ہر آسمان کے کنارے پر فرشتوں کی صفوں کو دیکھے گا اور یہ اس آیت کا مصداق ہے کہ اے نات اور انسانوں کے گروہو ! اگر تم یہ طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمینوں کے کنارے سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، تم جہاں بھی جاؤ گے، اسی کی سلطنت ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 27 ص 155)
علامہ عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی 597 ھ نے لکھا ہے : اس آیت کے تین محمل ہیں : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا :
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اگر تم آسمانوں اور زمینوں کا علم حاصل کرسکتے ہو تو کرلو۔
مقاتل بن سلیمان نے کہا : اگر تم آسمانوں اور زمینوں کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ، تم جہاں بھی جاؤ گے تو موت تم کو پالے گی۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج 3 ص 306)
امام ابن جریر نے کہا : اگر تم آسمانوں اور زمینوں کے کناروں سے نکل کر اپنے رب کو عاجز کرسکتے کہ وہ تم پر قدرت نہ پائے تو نکل جاؤ تم جہاں بھی جاؤ گے، اسی کا ملک، اسی کی سلطنت اور اسی کی قدرت میں ہو گے۔ (جامع البیان، جز 27، ص 177) (زادالمسیر جز 8، ص 166، مکتب اسلامی بیروت 1407 ھ)
يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ڏ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَــصِرٰنِ
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ”شواظ“ کا معنی ہے ایسی آگ جس میں دھواں نہ ہو اور ”نحاس“ اس دھوئیں کو کہتے ہیں : جس میں آگ نہ ہو اور ”نِحاس“ (زیر کے ساتھ) ”نحس“ کی جمع ہے اور ”نحاس“ اس پگھلے ہوئے پیتل کو کہتے ہیں جو ان کے سروں پر ڈالا جائے گا اور ” فلاتنصران “ کا معنی ہے : جن اور ان ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے۔
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ
ضحاک نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے متعلق نازل ہوئی ہے، ایک دن انھوں نے سخت پیاس میں دودھ پیا، جو ان کو بہت اچھا لگا، انھوں نے اس کے متعلق سوال کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دودھ حلال نہیں تھا، تو پھر انھوں نے اس دودھ کی قے کردی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو دیکھ رہے تھے، آپ نے فرمایا : اللہ تم پر رحم فرمائے، تمہارے متعلق یہ آیت نازل ہوئی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (النکت و العیون ج 5 ص 437، دارالکتب العلمیہ، بیروت، الجامع الاحکام القرآن جز 27 ص 161 دارالفکر، بیروت)
حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر فرمایا : (الرحمن :46) میں نے کہا : یا رسول اللہ ! خواہ اس نے زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ہو ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ولمن خاف مقام ربہ جنتان “ (جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتیں ہیں) میں نے کہا : یا رسول اللہ خواہ اس نے زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری بار فرمایا : ولمن خاف مقام ربہ جنتان “ میں نے کہا : یا رسول اللہ خواہ اس نے زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ہو ؟ آپ نے فرمایا : ہاں : ابوالدرداء کی ناک کو خاک آلودہ کرتے ہوئے (اس حدیث کی سند صحیح ہے، شعیب الا رؤط، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث 8683) مسند احمد ج 2 ص 375، طبع قدیم، مسند احمد ج 14 ص 311-312، رقم الحدیث 8683، موسستہ الرسالۃ بیروت 1417 ھ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث 11560، شرح السنۃ رقم الحدیث 4189 النستہ لابن ابی عاصم رقم الحدیث 975 مشکل الاآثار رقم الحدیث 4000 مجمع الزوائد ج 7 ص 117 جامع البیان رقم الحدیث 25613، الکشف و البیان ج 9 ص 189، الدرا المعغورج 7 ص 623، روح المعانی جز 27 ص 178، تفسیر امام ابن ابنی حاتم رقم الحدیث 18742، تفسیر ابن کثیرج 4 ص 304)
دوجنتوں کے مصداق میں احادیث اور آثار
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو جنتیں چاندی کی ہیں، ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے چاندی کا ہے اور دو جنتیں سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سونے کا ہے ان کے اور ان کے رب کے دکھنے کے درمیان جنت عدن میں صرف اس کے چہرے پر کبریا کی چادر حائل ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث :4878، صحیح مسلم رقم الحدیث 180 سنن ترمذی رقم الحدیث 2528، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 186 سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث 7765، سنن دارمی رقم الحدیث 2525)
امام مقاتل بن سلیمان بلخی متوفی 150 ھ لکھتے ہیں۔
ان دو جنتوں سے مراد جنت عدن اور جنت نعیم ہے اور یہ صدیقین، شہداء، مقربین، سابقین کے لیے ہیں اور اس شخص کے لیے ہیں جس نے گناہ کا ارادہ کیا پھر اس نے اللہ عزوجل کے سامنے پیش ہونے کو یاد کیا پھر اللہ سے ڈرا اور گناہ کو ترک کردیا۔ سو اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ دو جنتیں کیا ہیں ؟ صحابہ کہا : اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں کہ دو دو جنتیں کیا ہیں، آپ نے فرمایا، وہ جنت کے وسط میں دو باغ ہیں، ہر باغ نور کے گھروں میں سے ایک گھر میں ہے، ان میں سے ہر باغ نعمت سے معمور ہے اس کے درخت اگے ہوئے ہیں، اس کے پتے سرسبز ہیں۔ ( تفسیر مقاتل بن سلیمان ج 3 ص 308، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1424 ھ)
علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں۔ ان دو جنتوں کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں۔
1 مجاہد نے کہا : ایک جنت انسانی کی ہے اور ایک جنت جنات کی ہے۔
2 مقاتل نے کہا : ایک جنت عدن ہے اور ایک جنت نعیم ہے۔
3 عیاض بن تمیم نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، وہ جنت کے باغات میں سے دو باغ ہیں۔
4 ایک جنت میں اس کا گھر ہے اور دوسری جنت میں اس کی ازدواج اور اس کے خدام کا گھر ہے۔
5 ایک جنت اس کا مسکن ہے اور دوسری جنت اس کا باغ ہے۔ (الکنت و العیون ج 5 ص 438 دارالکتب العلمیہ، بیروت)
ان دو جنتوں کے مصداق میں صحیح وہ قول ہے جس کو ہم نے ” صحیح بخاری “ اور صحیح مسلم “ کے حوالے سے ارشاد رسالت بیان کیا ہے۔
زیر تفسیر آیت کے شان نزول میں ایک ضعیف روایت
علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں
امام ابن ابی حاتم اور امام ابو الشیخ نے عطاء سے روایت کی کیا ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قیامت، میزان، جنت، دوزخ، صفوف ملائکہ، آسمانوں کے لپیٹے جانے، روئی کے گالوں کی طرح پہاڑوں کے اڑنے، سورج کے لپیٹے جانے اور ستاروں کے بنے نور ہونے کے متعلق غور و فکر کیا تو کہا : کاش : میں سرسبز چارہ ہوتا اور کوئی جانور مجھے کھا لیتا اور میں پیدا نہ کیا جاتا تو یہ آیت نازل ہوگئی : (روح المعانی جز 27 ص 179، دارالفکر بیروت 1417 ھ الدرالمعثور ج 7 ص 622)
مطبوعہ ” تفسیر امام ابن ابی حاتم “ میں یہ حدیث مذکور نہیں ہے، البتہ امام ابو الشیخ الاصبہانی المتوفی 396 ھ نے اس کو روایت کیا ہے۔
کتاب العظمۃ ص 35 رقم الحدیث 54، دارالکتب العلمیہ بیروت 1414 ھ لیکن اس حدیث کی سند بہت ضعیف ہے، اس کا ایک راوی ہے : کنانہ بن جبلہ، ابن معین نے کہا : وہ کاذب ہے : السعدی نے کہا : شدید ضعیف ہے، (میزان الاعتدال ج 3 ص 415) دراصل علامہ آلوسی نے ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ کے حوالے ” الدرالمثور “ سے اٹھائے اور اپنی عادت کے مطابق حافظ سیوطی کا نام لیے بغیر ان کو نقل کردیا اور اصل کتابوں کی طرف مراجعت نہیں کی اور ہمارے زمانے کے علماء ان کو خاتم المحققین کے لقب سے ذکر کرتے ہیں۔
ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ
حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر مفسرین نے کہا : اس کا معنی ہے رنگ برنگ پھلوں والی دو جنتیں۔
مجاہد نے کہا : ”أفنان“ کا معنی ہے : شاخیں ‘ یہ ”فنن“ کی جمع ہے۔ عکرمہ نے کہا : ”أفنان“ کا معنی ہے، شاخوں کا دیواروں پر سایہ
فِيْهِمَا عَيْنٰنِ تَجْرِيٰنِ
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ان دونوں جنتوں میں سے ہر ایک میں چشمے بہہ رہے ہیں۔ نیز حضرت ابن عباس نے فرمایا : ان میں صاف شفاف پانی بہہ رہا ہے، ان میں ایک چشمہ تسنیم ہے اور دوسرا چشمہ سلسبیل ہے، اور حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ چشمے دنیا کے چشمے سے دوگنے چوگنے بڑے ہیں، اس کی کنکریاں سرخ یاقوت اور سبز زمرد ہیں، اس کی مٹی کافور ہے، اس کی کیچڑ مشک ہے اور اس کے دو کنارے زعفران ہیں۔ عطیہ نے کہا : ان میں سے ایک پانی کا چشمہ ہے اور دوسرا شراب طہور کا ہے، وہ پینے والوں کی لذت کے لیے ہے۔ ابوبکر ورّاق نے کہا : جنت کے یہ دو چشمے ان لوگوں کے لیے بہہ رہے ہیں جن کی آنکھوں سے دنیا میں خوف خدا سے آنسو بہتے رہتے تھے، (الکشف و البیان ج 9 ص 190 الجامع الاحکام القرآن جز 27 ص 162)
فِيْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ ۙ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ
ان میں ایسی عورتیں ہوں گی جن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔
عورت کی جھکی ہوئی نگاہیں شرم و حیا کی علامت ہیں اور شرم و حیا نسوانیت کا خاص زیور بھی ہے اور اس کے اخلاق کا سب سے بڑا محافظ بھی ۔ جنتی عورتوں کی جھکی ہوئی نظروں کا ذکر گویا ان کے حسن ظاہری و باطنی کا بیان ہے۔
{لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ } ان کو چھوا نہیں ہوگا ان سے پہلے نہ کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے۔
علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ جن بھی عورتوں کے ساتھ انسانوں کی طرح جماع کرتا ہے اور جن بھی جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی جنیات بھی ہوں گی ضمرہ نے کہا : مومنین کے لیے ان میں سے بڑی آنکھوں والی حوریں ہوگی، پس انسیات انسانوں کے لیے ہوں گی اور جنیات جنات کے لیے ہوں گی۔
علامہ قشیری شافعى نے کہا ہے کہ مومن جنات کی جو حوریں ہوں گی ان کو اس سے پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ اور مومن انسانوں کی جو حوریں ہوں گی ان کو اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا ہوگا کیونکہ دنیا میں بھی جن آدم کی بیٹیوں سے جماع نہیں کرتے۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ جائز ہے کہ جنات بنات آدم سے جماع کریں اور مجاہد نے کہا ہے کہ جب کوئی مرد ” بسم اللہ “ پڑھے بغیر جماع کرے تو اس کے آلہ کے ساتھ جن چمٹ جاتا ہے اور وہ بھی انسان کے ساتھ جماع کرتا ہے اور اس کی دلیل یہ آیت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : بڑی آنکھوں والی حور کے ساتھ اس سے پہلے کسی انسان نے جماع کیا ہوگا نہ جن نے، اس سے تمہیں یہ معلوم ہوگا کہ آدم زاد عورتوں کے ساتھ کبھی جن بھی جماع کرتے ہیں اور بڑی آنکھوں والی حوریں اس عیب سے بری ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تنزیہہ کی ہے اور طمث کا معنی جماع کرنا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 17 ص 164-165، دارالفکر بیروت 1415 ھ)
علامہ عبدالرحمن علی بن محمد الجوزی الحنبلی المتوفی 597 ھ لکھتے ہیں :
مقاتل نے کہا : ان کو اس سے پہلے کسی نے نہیں چھوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو جنت میں پیدا کیا گیا ہے اور اس بناء پر یہ حور کی صفت ہے اور شعبی نے کہا : متقین کی یہ بیویاں دنیا کی وہ عورتیں ہوں گی جن کے پیدا ہونے کے بعد ان کو کسی انسان نے چھوا نہ کسی جن نے اور اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ جن عورت کے ساتھ انسان کی طرح جماع کرتا ہے : (زادالمسیرج 8 ص 134، مکتب اسلامی بیروت 1407 ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس آیت میں جن کے ذکر کی کیا ضرورت ہے کیونکہ جن تو جماع نہیں کرتے ؟ ہم اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جن جماع کرتے ہیں، اسی وجہ سے ان کی اولاد اور ذریات ہیں بلکہ اختلاف اس میں ہے کہ وہ انسان عورتوں سے جماع کرتے ہیں یا نہیں اور مشہور یہ ہے کہ وہ انسان عورتوں سے جماع کرتے ہیں ورنہ جنات میں حسب اور نسب نہ ہوتا۔ اور اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ (تفسیر کبیرج 10 ص 376، داراحیاء التراث العربی بیروت 1415 ھ )
جنات کے جنت میں داخل ہونے کے متعلق مذاہب فقہاء
قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی 685 ھ لکھتے ہیں :
انسان عورتوں کو اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا اور مونث جن کو اس سے پہلے کسی مذکر جن نہیں نے چھوا اور اس میں یہ دلیل ہے کہ جن بھی جنت میں جماع کریں گے۔
اس عبارت کی شرح میں علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی حنفی متوفی 1069 ھ لکھتے ہیں :
” طمث “ کا معنی جماع کرنا ہے اور مس کرنے سے بھی یہی مراد ہے اور اصل میں ” طمٹ “ خون نکلنے کو کہتے ہیں، اسی وجہ سے حیض کو بھی ” طمٹ “ کہا جاتا ہے او کنواری عورتوں کے ساتھ جماع کرنے کو بھی ” طمٹ “ کہتے ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ جماع کرنے سے بھی خون نکلتا ہے اور اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جنت کی حوروں کے ساتھ جب بھی جماع کیا جائے گا وہ کنواری ہوں گی اور اس آیت میں یہ دلیل بھی ہے کہ جنات بھی جنت میں داخل ہوں گے اور وہ جماع بھی کریں گے کیونکہ وہ جنت میں نعمتوں کے ساتھ باقی رہیں گے جیسا کہ کافر جن دوزخ میں عذاب کے ساتھ باقی رہیں گے اور یہی صحیح قول ہے اور اس میں اس قول کا رد ہے کہ مومنین جنات کو ثواب نہیں ملے گا، ان کی جزا صرف یہ ہے کہ ان کو عذاب نہ دیا جائے اور ان کو حساب کے بعد مٹی بنادیا جائے جیسا کہ حیوانات کو مٹی بنادیا جائے گا۔ (عنایۃ القاضی ج 9 ص 59، دارالکتب العلمیہ بیروت 1417 ھ)
علامہ مصلح الدین مصطفیٰ بن ابراہیم رومی حنفی متوفی 880 ھ ” بیضاوی “ کی شرح میں لکھتے ہیں۔
قاضی بیضاوی نے جو یہ کہا ہے کہ جن بھی جنت میں جماع کریں گے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر جن جنت میں جماع نہ کریں تو پھر جنات پر کوئی احسان نہیں ہوگا حالانکہ اس آیت کے بعد فرمایا ہے : (الرحمن 57) کہ انسانوں اور جنات دونوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں ایسی حوریں عطا فرمائے گا جو صرف اپنے شوہر کو دیکھنے والی ہوں گی ان کو (الرحمن 56) اور (الرحمن 72) سے تعبیر فرمایا ہے۔ (حاثیۃ ابن التمجید علی البیضاوی ج 18 ص 378، دارالکتب العلمیہ بیروت 1422 ھ)
علامہ عصام الدین اسماعیل بن محمد الحنفی القونوی متوفی 1195 ھ لکھتے ہیں :
ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مذہب یہ ہے کہ مومنین جن کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ان کی جزاء صرف یہ ہے کہ ان کو عذاب نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے اپنی قوم سے کہا :
اے ہماری قوم اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ تو اللہ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ میں رکھے گا۔ (الاحقاف :31)
اور جنات کے متعلق اس آیت میں یہ نہیں آیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دائمی اجر وثواب دے گا، اس لیے ہمارے امام نے جنات کے جنت میں داخل ہونے ہونے کے قول کو اختیار نہیں فرمایا : (حاشیۃ القونوی علی البیضاوی ج 18 ص 378، دارالکتب العلمیہ بیروت 1422 ھ )
وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ
مقاتل بن سلیمان بلخی متوفی 150 ھ لکھتے ہیں:
وہ دو جنتیں جو مقربین، صدیقین اور شہداء کے لیے ہیں : یعنی جنت عدن اور جنت نعیم، ان کے علاوہ اور دو فضلیت والی جنتیں ہیں، یعنی جنت الفردوس اور جنت الماوی (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج 3 ص 310 دارالکتب العلمیہ بیروت 1424 ھ)
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِي الْخِيَامِ
”مقصورات“ اور خیموں کے معانی
علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں۔ اس آیت میں ” مقصورات “ کا لفظ ہے اور اس کے حسب ذیل معانی ہیں۔
1 مجاہد نے کہا : وہ اپنی نظریں صرف اپنے شوہروں پر مرکوز اور ان ہی پر منحصر رکھیں گی اور اپنے شوہروں کے علاوہ کسی اور مرد کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی۔
2 حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : وہ اپنے گھروں میں محصور رہیں گی، راستوں میں نہیں گھومیں گی۔
3 زید بن الحارث اور ابو عبیدہ نے کہا : وہ پردہ دار اور محفوظ ہوں گی، شوقین مزاج نہیں ہوں گی۔
4 حسن بصری نے کہا : وہ قصور یعنی محلات میں رہنے والی ہوں گی۔
اور خیموں کے متعلق تین قول ہیں :
1 ابن بحر نے کہا : خیموں سے مراد گھر ہیں
2 سعید بن جبیر نے کہا : جنت سے باہر ان کے خیمے لگائے جائیں گے جیسے خانہ بدوشوں کے خیمے ہوتے ہیں
3 حضرت ابن مسعود (رض) نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کے خیمے کھوکھلے موتی ہیں : (تفسیر امام ابن ابی رقم الحدیث 18762) (النکت و العیون ج 5 ص 442-443، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ہر مسلمان کو ایک نیک سیرت حور ملے گی اور ہر نیک سیرت حور کے لیے ایک خیمہ ہوگا، اور ہر خیمہ کے چار دروازے ہوں گے جن سے ہر روز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدیے اور تحفے آئیں گے اور جو اس سے پہلے آئے تھے اور وہ نیک سیرت والی بیویاں نہ اترانے والی ہوں گی نہ شوہر کی نافرمانی کرنے والی ہوں گی اور نہ ان کے منہ اور ان کے جسم سے بدبو آئے گی وہ بڑی آنکھوں والی حوریں ہیں گویا کہ وہ پوشیدہ انڈے ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث 18763 ج 10 ص 3328 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1417 ھ)
مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ
”زفرف“ اور ”عبقری“ کے معانی
علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
”زفرف“ کا معنی بستر یا پردہ ہے، معراج کی شب جو آپ نے ”زفرف“ دیکھا وہ سبز رنگ کا قالین تھا، زمحشری نے کہا ہے کہ ریشم وغیرہ کے خوبصورت اور باریک کپڑے کو ” رفرف “ کہا جاتا ہے۔ (النہایۃ ج 2 ص 221، الفائق ج 2 ص 50)
علامہ راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں:
”زفرف“ بکھرے ہوئے پتوں کو کہتے ہیں، قرآن مجید میں ہے: ”علی رفرف خضر “ اس سے مراد خاص قسم کا سبز کپڑا (قالین) ہے جس کو سبز رنگ کی وجہ سے قالین کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، ایک قول یہ ہے کہ خیمہ کی ایک جانب جو کپڑا لٹکا ہوا ہوتا ہے اس کو ” رفرف “ کہتے ہیں۔ (المفرداتج 1 ص 263، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1418 ھ)
علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں:
حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ بستر کے اوپر سونے کے لیے جو کپڑا بچھایا جاتا ہے اس کو محابس کہتے ہیں۔ جوہری نے کہا : سبز کپڑوں کو ” رفرف “ کہتے ہیں۔ حسن بصری نے کہا : اس سے مراد بچھونا ہے : جبائی نے کہا : اس کے معنی بلند بستر ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : اس سے مراد جنت کے باغات ہیں، لمبے چوڑے کپڑے کو بھی ” رفرف “ کہتے ہیں۔ (روح المعانی جز 27 ص 190 دارالفکر بیروت 1417 ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ عمدہ قسم کے کپڑے کو ” رفرف “ کہتے ہیں خواہ وہ قالین ہو یا چاندنی ہو یا غالیچہ ہو۔
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ ”عبقری حسان“ یہ جنات کی جگہ ہے، ہر وہ چیز جو غیر معمولی ہو انسان ہو یا حیوان ہو یا کپڑا ہو اس کو غیر معمولی ہونے کی وجہ سے عبقر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس وجہ سے حضرت عمر (رض) کے متعلق آپ نے فرمایا : میں نے عمر کی طرح ” عبقری “ کوئی نہیں دیکھا، جس نے ان کی طرح حیرت انگیز کام کیا ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 3682 صحیح مسلم رقم الحدیث 2393)
”عبقری حسان“ کا معنی ہے، جنت کے بچھونے غیر معمولی خوبصورت تھے۔ (المفردات ج 2 ص 416، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1418 ھ)
علامہ ابن اثیر الجزری المتوفی 606 لکھتے ہیں۔
”عبقری“ کی اصل یہ ہے کہ عربوں کا گھمان تھا کہ عبقر ایک بستی ہے، جس میں جن رہتے تھے پس جب عرب کوئی غیر معمولی چیز دیکھتے یا کوئی ایسا کام دیکھتے جس کا کرنا بہت مشکل اور دشوار ہو یا بہت دقیق ہو تو وہ کہتے تھے کہ یہ کسی ” عبقری “ کا کام ہے، پھر وہ قوم کے سردار کو ” عبقری “ کہنے لگے۔ (النہایہ ج 3 ص 158-157، دارالکتب العلمیہ بیروت 1418 ھ)
علامہ محمد بن ابوبکر رازی متوفی 660 لکھتے ہیں:
عبقر عنبر کے وزن پر ہے، یہ وہ جگہ ہے جس کے متعلق عربوں کا گمان تھا کہ یہ جنات کی سرزمین ہے پھر وہ عبقر کی طرف ہر اس چیز کو منسوب کرتے تھے جو بہت قوت والا بہت مہارت والا اور بہت حیرت انگیز کام کرے اور اوہ اس شخص کو عبقری کہتے تھے۔
علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی 817 ھ لکھتے ہیں
ہر وہ چیز جو سب سے کامل ہو اس کو ”عبقری“ کہتے ہیں اور سردار کو اور ہر اس چیز کو جس سے اوپر اور برتر کوئی چیز نہ ہو اور بہت طاقتور کو اور بچھونے کو ایک قسم کو (القاموس المحیط ص 435، موسسۃ الرسالۃ بیروت 1424 ھ)
Surah Rahman In English
Surah Rahman With Urdu Translation PDF
Surah Rahman Arabic Text
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.