ترجمہ اور تفسير سورہ سبا
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ﴿1﴾
(ساری) حمد اللہ ہی کے لیے ہے کہ اسی کی ملک ہے جو کچھ آسمانون میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اسی کی حمد ہے آخرت میں اور وہی بڑا حکمت والا ہے، بڑا خبر رکھنے والا ہے۔
يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ ﴿2﴾
وہ (سب) جانتا ہے جو کچھ زمین کے اندر داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، اور بڑا رحم والا ہے، بڑا مغفرت والا ہے
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ﴿3﴾
کافر کہتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی ۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ ہاں میرے رب کی قسم جو عالم الغیب ہے کہ تم پر قیامت ضرور آئے گی ۔ اس سے آسمانوں اور زمین میں ایک ذرہ بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اس سے کوئی چھوٹی بڑی چیز پوشیدہ نہیں ہے کیونکہ وہ ایک کھلی ہوئی کتاب (لوح محفوظ) میں موجود ہے ۔
لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴿4﴾
(قیامت اس لیے آئے گی) تاکہ وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور انھوں نے عمل صالح کئے ان کو بخشش اور عزت کا رزق دیا جائے۔
وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ ﴿5﴾
اور جو لوگ ہماری آیتوں کے باب میں کوشش کرتے رہتے ہیں ہرانے کے لئے، ایسے لوگوں کیلئے سختی کا دردناک عذاب ہوگا۔
وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ﴿6﴾
اور جن کو علم عطا ہوا ہے وہ، اس چیز کو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے، سجھتے ہیں کہ یہی حق ہے اور وہ خدائے عزیز حمید کے راستہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿7﴾
اور جنہوں نے کفر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تم کو ایک ایسا آدمی دکھائیں جو تم کو یہ خبر دے رہا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو ازسرنو ایک نئی خلقت میں اٹھائے جاؤ گے،
أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَمْ بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ ﴿8﴾
نہیں معلوم کہ اس نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے یا اسے جنون ہے۔ ( اللہ نے فرمایا بات یہ ہے کہ ) جو آخرت پر ایمان نہیں لائے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے اور گمراہی میں دور جا پڑے ہیں۔
أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنْ نَشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ ﴿9﴾
کیا انھوں نے زمین و آسمان کی تخليق کی طرف دھیان نہیں دیا جو و ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دیں۔ اس میں ہر اس شخص کے لیے نشانی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کنے والا بندہ ہے۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ ﴿10﴾
اور ہم نے داؤد کو اپنے خاص فضل سے نوازا۔ اے پہاڑو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو بھی دیا۔ اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کردیا۔
أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ ۖ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿11﴾
(اور کہہ دیا تھا کہ ) کشادہ زر ہیں بناؤ اور زر ہوں کی کڑیاں جوڑنے میں اندازہ قائم رکھو عمل صالح کرتے رہو جو کچھ کرتے ہو اسے میں دیکھنے والا ہوں۔
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ﴿12﴾
اور ہم نے ہی سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہو (کون ان کو تابع کردیا تھا) اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی ہوتی اور شام منزل بھی ایک مہینے کی ہوتی ۔ اور ہم نے ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا تھا اور جناب میں سے بعض اپنے رب کے حکم سے ان کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم کی خلاف ورزی کرتا تو ہم اس کو سخت سزا کا مزہ چکھاتے تھے۔
يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴿13﴾
سلیمان کے لیے وہ، وہ چیزیں بنادیتے جو انھیں (بنوانا) منظور ہوتیں (مثلا) بڑی عمارتیں اور مجسمے اور لگن جیسے حوض اور (بڑی بڑی) جمی ہوئی دیگیں۔ اے داؤد کے خاندان والو۔ تم شکریہ میں (نیک) کام کرو اور میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿14﴾
اور پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کیا تو (جنات کو) ان کی موت کا پتہ نہ دیا مگر ایک گھن کی طرح کیڑا جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا (اس نے ان کے عصا کو کھالیا) جب وہ گر پڑے تو جنوں پر حقیقت حال کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔
لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ ﴿15﴾
البتہ قوم سبا کے لیے ان کی آبادی میں ہی ایک نشانی موجود تھی۔ دو باغ دائیں اور بائیں ( اور ان سے کہا گیا تھا کہ ہم) اپنے پروردگار کے (رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، عمدہ اور پاکیزہ شہزادہ اور بخشنے والا پروردگار ہے۔
فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ ﴿16﴾
تو انھوں نے سرتابی کی تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان کے باغوں کو دو ایسے باغوں سے بدل دیا جن میں بدمزہ پھل والے درخت اور جھاؤ اور ہری کی کچھ جھاڑیاں رہ گئیں
ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِمَا كَفَرُوا ۖ وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ ﴿17﴾
یہ ہم نے ان کی ناشکری کا بدلہ اور ہم برا بدلہ ناسپاسوں ہی کو دیا کرتے ہیں
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ ﴿18﴾
اور ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان، جن میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں، سرراہ بستیاں بھی آباد کیں اور ان کے درمیان سفر کی منزلیں ٹھہرا دیں۔ ان میں رات دن بےخوف و خطر سفر کرو
فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴿19﴾
پھر وہ کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار سفروں میں درازی کردے۔ اور انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انھیں افسانہ بنادیا اور ان کو بالکل تتر بتر کردیا۔ بیشک اس (واقعہ) میں ہر صابر شاکر کیلئے نشانیاں ہیں۔
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿20﴾
اور واقعی ابلیس نے اپنا گمان ان لوگوں کے بارے میں صحیح پایا۔ چنانچہ یہ لوگ اسی کی راہ پر ہولئے بجز ایمان والوں کے گروہ کے۔
وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ۗ وَرَبُّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ ﴿21﴾
اور شيطان کا جو تسلط ان لوگوں پر ہے وہ تو بس اسی لیے ہی ہے کہ ہم معلوم کرلیں ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان لوگوں سے الگ جو اس کی طرف سے شک میں ہیں اور آپ کا پروردگار ہر چیز کا نگراں ہے۔
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ ﴿22﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کے سوا جن کو اپنا معبود سمجھتے ہو ان کو پکارو۔ وہ تو ایک ذرہ برابر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں ۔ نہ تو آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ نہ ان دونوں میں ان کا کوئی ساجھا (شرکت ) ہے۔۔ نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار ہے۔
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ﴿23﴾
نہ اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کسی کے کام آسکتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جائے گی تو وہ پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جو اب دیا ہے ؟ تو (فرشتے) کہیں گے کہ سچ بات کا حکم دیا ہے ۔ وہی بلندو برتر ہے۔
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴿24﴾
اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین سے تمہیں کون رزق دیتا ہے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ بیشک ہم یا تم دونوں میں سے کوئی ایک ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔
قُلْ لَا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿25﴾
آپ کہہ دیجیے کہ نہ تم سے ہمارے جرائم کی بابت سوال ہوگا اور نہ ہم سے تمہارے اعمال کا سوال ہوگا۔
قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ ﴿26﴾
آپ کہہ دیجیے کہ ہمارا پروردگار ہم سب کو جمع کرے گا، پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا ہے بڑا علم والا ہے۔
قُلْ أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُمْ بِهِ شُرَكَاءَ ۖ كَلَّا ۚ بَلْ هُوَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿27﴾
کہو، ذرا مجھے ان کو دکھاؤ تو جن کو تم نے شریک بنا کر اس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے ! ہرگز نہیں ! بلکہ وہ اللہ عزیز و حکیم ہے
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿28﴾
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسانی (کی ہدایت کے لئے) خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ مگر اکثر لوگ (اس بات ) کو نہیں جانتے۔
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿29﴾
وہ پوچھتے ہیں کہ وہ (قیامت کا ) وعدہ کب پورا ہوگا۔ اگر تم سچے ہو؟
قُلْ لَكُمْ مِيعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ ﴿30﴾
ان کو بتا دو کہ تمہارے لیے ایک خاص دن کی میعاد مقرر ہے جس سے نہ ذرا پیچھے ہٹو گے اور نہ آگے بڑھو گے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ ﴿31﴾
اور کافر کہتے ہیں کہ ہم نہ اس قرآن کو مانیں گے اور نہ اس سے پہلی کتابوں کو اور آپ کاش وہ وقت دیکھیں جب یہ ظالم اپنے پروردگار کے رو برو کھڑے ہوں گے ایک دوسرے پر بات ڈال رہا ہوگا، ف ٤٨۔ ادنی درجہ کے لوگ بڑے لوگوں سے کہہ رہے ہوں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آئے ہوتے
قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَىٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَكُمْ ۖ بَلْ كُنْتُمْ مُجْرِمِينَ ﴿32﴾
(اس پر) بڑے لوگ ادنی درجہ کے لوگوں سے کہیں گے کیا کہیں ہم نے تمہیں ہدایت سے روک دیا تھا بعد اس کے کہ وہ تم تک پہنچ چکی تھی؟ نہیں بلکہ تم ہی قصور وار رہے ہو۔
وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَنْ نَكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَنْدَادًا ۚ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿33﴾
اور وہ کم درجہ کے لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ نہیں بلکہ تمہاری ہی رات دن کی تدبیروں نے (روکا تھا) جب کہ تم ہمیں آمادہ کرتے رہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر اختیار کریں، اور اس کے لیے شریک قرار دیں۔ اور وہ لوگ (اپنی) پیشمانی کو مخفی رکھیں گے جب کہ عذاب دیکھ لیں گے۔ اور ہم کافروں کی گردن میں طوق ڈالیں گے جیسا کرتے تھے ویسا ہی تو بھر پایا
وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ ﴿34﴾
اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں کسی ڈرانے والے کو بھیجا تو وہاں کے خوش حال لوگوں نے کہا کہ تم جو کچھ (ہدایت ) دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے۔
وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴿35﴾
اور انھوں نے کہا کہ ہم تو تم سے مال واولاد میں بڑھ کر ہیں، اور ہم کبھی مبتلائے عذاب ہونے والے نہیں ہیں۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿36﴾
ان سے کہہ دو ۔ میرا رب ہی ہے جو رزق کشادہ کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے، لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں مانتے۔
وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ ﴿37﴾
تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کوئی بھی) ایسی چیز نہیں جو تم کو کسی درجہ میں ہمارا مقرب بنادے مگر ہاں جو کوئی ایمان لائے اور نیک عمل کرے سو ایسے لوگوں کے لیے ان کے عمل کا کہیں بڑھا ہوا صلہ ہے اور وہ بالاخانوں میں چین سے بیٹھے ہوں گے۔
وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ﴿38﴾
اور جو زک دینے کے لیے ہماری آیات کے ابطال کی راہ میں سرگرم ہیں وہ لوگ عذاب میں داخل کئے جائیں گے۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿39﴾
آپ کہہ دیجیے کہ میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور (جس کو چاہے) تنگی سے دیتا ہے، ف ٥٥۔ اور جو چیز بھی تم خرچ کرو گے سو وہ اس کا عوض دے گا اور وہی بہترین روزی دینے والا ہے۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ ﴿40﴾
اور جس دن اللہ ان سب کو (قیامت کے دن) جمع کرے گا تو فرشتوں سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے۔
قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ ﴿41﴾
وہ کہیں گے آپ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے ۔ ہمارا تعلق تو صرف آپ سے ہے، نہ کہ ان سے، اصل یہ ہے کہ یہ لوگ جنات کو پوجا کرتے تھے ان میں سے اکثر اعتقاد بھی انھیں پر رکھتے تھے۔
فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴿42﴾
سو آج تم میں سے کوئی کسی کو نہ نفع پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ نقصان پہنچانے کا اور ہم ظالموں سے کہیں گے کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھٹلایا کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرًى ۚ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ ﴿43﴾
اور جب انھیں ہماری صاف صاف آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں، تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص کى تو بس منشا اتنى ہے کہ تم کو ان چیزوں سے باز رکھے جن کی پرستش تمہارے بڑے کرتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) ایک تراشا ہوا جھوٹ ہے، اور کافر (اس) امر حق کی نسبت کہتے ہیں جب وہ ان کے پاس پہنچا کہ یہ تو بس ایک کھلا ہوا جادو ہے۔
وَمَا آتَيْنَاهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَهَا ۖ وَمَا أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِنْ نَذِيرٍ ﴿44﴾
اور ہم نے ان (مشرکین عرب) کو ایسی کتابیں نہیں دی تھیں کہ وہ انھیں پڑھتے ہوں اور نہ آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا تھا۔
وَكَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَيْنَاهُمْ فَكَذَّبُوا رُسُلِي ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ﴿45﴾
اور ان سے پہلے جو لوگ ہوئے ہیں انھوں نے بھی تکذیب کی تھی۔ اور یہ تو اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچے جو ہم نے ان کو دیا۔ غرض انھوں نے میرے پیغمبروں کی تکذیب کی سو میرا کیسا عذاب ہوا۔
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۖ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴿46﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر تم غور کرو کیا تمہارے ان صاحب میں کوئی جنون کی بات ہے؟ حالانکہ وہ صرف سخت عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں اس سے آگاہ کرنے والے ہیں۔
قُلْ مَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿47﴾
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں نے اس (فریضہ تبلیغ) پر تم سے کوئی اجر تو نہیں مانگا۔ اگر مانگا ہوتا تو وہ تمہارا ہے ۔ میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ اور وہ ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿48﴾
آپ کہہ دیجیے میرا رب تو حق بات کو غالب کرکے رہے گا، اور وہ ہر طرح کے غیب جاننے والا ہے۔
قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ ﴿49﴾
کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نہ آغاز کرتا ہے اور نہ اعادہ۔
قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ ﴿50﴾
آپ کہہ دیجیے کہ اگر میں گمراہ ہوگیا تو میری گمراہی کا وبال مجھ ہی پر رہے گا اور اگر میں ہدایت پر رہوں تو یہ اس وحی کی بدولت ہے جو میرا پروردگار مجھے کرتا رہتا ہے بیشک وہ بڑا سننے والا ہے بہت قریب ہے۔
وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ ﴿51﴾
اور کاش آپ وہ وقت دیکھتے جب یہ (یہ کافر) گھبراتے پھریں گے، پھر بھاگ نہ سکیں گے اور پاس کے پاس ہی پکڑلئے جائیں گے۔
وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّىٰ لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ ﴿52﴾
اور وہ کہیں گے کہ اب ہم (اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے ہیں ۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ) اور یہ کہاں ممکن ہے کہ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے وہ دوبارہ ہاتھ میں آجائے ۔
وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ ۖ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ ﴿53﴾
درآنحالیکہ پہلے سے یہ لوگ اس (حق) کا انکار کرتے رہے، اور بےتحقیق باریں دور ہی سے ہانکا کرتے تھے۔
وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِمْ مِنْ قَبْلُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُرِيبٍ ﴿54﴾
جو وہ جانتے تھے اس چیز کے اور ان لوگوں کی خواہشوں کے درمیان ایک آڑ کردی جائے گی جیسا کہ ان جیسے لوگوں کے ساتھ پہلے سے کیا گیا تھا یہ (سب) بڑے شک میں تھے تذبذب میں پڑے ہوئے۔
تعارف سورة سبا
یہ سورت مکی ہے اس میں چھ رکوع 54 آیات ہیں۔ یہ مکی زندگی کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کا بنیادی موضوع اہل مکہ اور دوسرے مشرکین کو اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت دینا ہے، اس سلسلے میں ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے، اور ان کو نافرمانی کے برے انجام سے بھی ڈرایا گیا ہے، اسی مناسبت سے ایک طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کی اور دوسری طرف قوم سبا کی عظیم الشان حکومتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو ایسی زبردست سلطنت سے نوازا گیا جس کی کوئی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن ان برگزیدہ پیغمبروں کو کبھی اس سلطنت پر ذرہ برابر غرور نہیں ہوا، اور وہ اس سلطنت کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے رہے، اور اپنی حکومت کو نیکی کی ترویج اور بندوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں استعمال کیا، چنانچہ وہ دنیا میں بھی سرخرو رہے، اور آخرت میں بھی اونچا مقام پایا، دوسری طرف قوم سبا کو جو یمن میں آباد تھی، اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی خوشحالی سے نوازا ؛ لیکن انھوں نے ناشکری کی روش اختیار کی، اور کفر وشرک کو فروغ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، اور ان کی خوشحالی ایک قصہ ٔ پارینہ بن کر رہ گئی، ان دونوں واقعات کا ذکر فرما کر سبق یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اقتدار حاصل ہو یا دنیوی خوشحالی نصیب ہو تو اس میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھنا تباہی کو دعوت دینا ہے، اس سے مشرکین کے ان سرداروں کو متنبہ کیا گیا ہے جو اپنے اقتدار کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر دین حق کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے۔
يَعْلَمُ مَا يَـلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاۗءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَا ۭ وَهُوَ الرَّحِيْمُ الْغَفُوْرُ
شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب تفسیر (رح) تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں : آسمان اور زمین کی کوئی چھوٹی بڑی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں جو چیزیں زمین کے اندر چلی جاتی ہیں مثلاً جانور کیڑے مکوڑے نباتات کا بیج، بارش کا پانی، مردہ کی لاش اور جو اس کے اندر سے نکلتی ہیں مثلاً کھیتی ، سبزہ، معدنیات وغیرہ اور جو آسمان کی طرف سے اترتی ہیں۔ مثلاً بارش ، وحی، تقدیر ، فرشتے وغیرہ اور جو اوپر چڑھتی ہیں۔ مثلاً روح، دعا، عمل اور ملائکہ وغیرہ ان سب انواع و جزئیات پر اللہ تعالیٰ کا علم محیط ہے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ اِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ
کافروں کی طرف سے وقوع قیامت کا انکار اور ان کے لیے عذاب کی وعید
جو لوگ قیامت کے منکر تھے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آپس میں کہتے تھے کہ کیا ہم تمہیں ایسا آدمی نہ بتادیں جو تمہیں یہ بتاتا ہے کہ جب تم بالکل ہی چورہ چورہ ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو پھر نئے طریقے سے پیدا ہوں گے ، انھیں نئے طور پر پیدا ہونے سے جو تعجب ہوتا تھا اپنے اس تعجب کو اس طرح ظاہر کیا اور اس میں کچھ استہزاء اور تمسخر کا بھی پہلو ہے۔ چونکہ یہ لوگ رسالت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اس لیے انھوں نے وقوع قیامت کی خبر کو دو باتوں میں منحصر کردیا اور کہنے لگے کہ یہ شخص اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یعنی وہ بات کہتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بتائی گئی، اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ شخص دیوانگی میں مبتلا ہے، خبر کے سچا ہونے کا ان کے نزدیک احتمال ہی نہیں تھا اس لیے انھوں نے تیسری بات کا تذکرہ ہی نہیں کیا یعنی یوں نہیں کہا کہ ممکن ہے اس کی بات سچی ہو بلکہ دو ہی باتوں میں منحصر کردیا حالانکہ ان کی دونوں باتیں غلط ہیں، نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور نہ آپ کو دیوانگی ہے۔ ان کے جواب میں فرمایا (بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ فِی الْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِیْدِ ) (مطلب یہ ہے کہ ہمارا نبی نہ افتراء کرنے والا ہے نہ دیوانہ ہے بلکہ بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ عذاب اور دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں، گمراہی میں اتنے زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر انھیں جھوٹی معلوم ہوتی ہے اور انھیں دیوانگی کی طرف منسوب کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ
حضرت داؤد علیہ السلام كا قصہ
”فضلاً“ فضل کے لفظی معنی زیادتی کے ہیں مراد خاص صفات ہیں جو دوسروں سے ان کو زائد عطا کئے گئے تھے مثلاً نبوت و رسالت کے ساتھ کتاب اور پوری دنیا کی سلطنت و حکومت حسن صوت اور لوہے کا نرم ہونا۔ (معالم التنزیل : ص : ٤٧٤، ج : ٣)
یجبال الخ :معجزات داؤد (علیہ السلام) : جب آپ اللہ کے ذکر یا زبور کی تلاوت میں مشغول ہوتے تو پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے سننے کے لیے جمع ہوجاتے تھے۔ ”یا جبال أوبي“ أوبي تاویب سے مشتق ہے جس کے معنی دہرانے اور لوٹانے کے آتے ہیں۔ (ابن کثیر : ص : ٨٦٩، ج : ٦)
مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو حکم دیا تھا کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) اللہ کا ذکر و تسبیح کریں تو یہ بھی وہی کلمات پڑھ کر لوٹائیں۔ اسی طرح حضرت ابن عباس (رض) نے ”أوبي“ کی تفسیر ”سبحي“ سے فرمائی ہے۔ (ابن کثیر ٨٦٩،ج : ٦، معالم التنزیل : ص : ٤٧٤، ج : ٣)
والطیر: یہ لفظ نحوی ترکیب میں ”سخرنا“ فعل محذوف کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ (التفسیر المنیر : ص : ١٤٧، ج : ٢٢)
معنی یہ ہے کہ ہم نے پرندوں کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا تھا۔ والنالہ الحدید : (٣) اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ کے لوہے کو ان کے لیے موم کی طرح نرم بنادیا تھا کہ اس سے کوئی چیز بنانے میں نہ ان کو آگ کی ضرورت پڑتی اور نہ کسی ہتھوڑے یا دوسرے آلات کی تاکہ آپ لوہے کی زرہ آسانی سے بنا سکیں۔
اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ
حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لیے تجویز زرہ
لوہا کار آمد دھات ہے اس سے حضرت ادریس (علیہ السلام) نے سوئی تیار کی جس سے آپ نے کپڑے سینے کا آغاز کیا۔ لفظ ”قدر“ تقدیر سے مشتق ہے جس کے معنی ایک اندازے پر بنانے کے ہیں ”سرد“ کے لفظی معنی بننے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ زرہ کے بنانے میں اس کی کڑیاں کو متواز اور متناسب بنائیں کوئی چھوٹی کوئی بڑی نہ ہو، تاکہ وہ مضبوط بھی بنے اور دیکھنے میں اچھی معلوم ہو یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے (ابن کثیر : ص : ٨٧٠، ج ٦)
اور امام سيوطى درمنثور( ص : ٢٢٦، ج : ٥) میں ہے كہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی تیار کردہ زرہ اتنی عمدہ ہوتی تھی کہ چھ چھ ہزار درہم قیمت پاتی آپ اس میں سے چار ہزار درہم صدقہ کردیتے اور دو ہزار درہم گھر میں استعمال کرتے۔ (ابن کثیر : ص : ٨٧٠، ج : ٦)
معجزہ اور استدراج میں فرق
معجزہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے من جانب اللہ ، اور کرامت اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے من جانب اللہ ۔ اور استدراج خرق عادت کسی کافر مشرک یا نافرمان کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو وہ استدراج ہے ایسے شخص کو مہلت دی جاتی ہے۔ پھر جب مہلت پوری ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت آجاتی ہے، قرب قیامت کے واقعات میں دجال کا ذکر بھی آتا ہے۔ پرویز اور سرسید قسم کے گمراہ لوگوں نے معجزات کا انکار کیا ہے مثلاً ، طیور کے متعلق کہ اس سے مراد جنگلی آدمی ہیں نہ کہ پرندے۔ پرویز نے اللہ کا معنی قانون کیا ہے۔
حضرت داؤد (علیہ السلام) کو صنعت زرہ سکھانے کی حکمت : تفسیر ابن کثیر میں امام حدیث حافظ ابن عساکر (رح) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی خلافت و سلطنت کے زمانہ میں بھیس بدل کر بازاروں وغیرہ میں جاتے اور لوگوں سے پوچھتے داؤد (علیہ السلام) کیسا آدمی ہے ؟ کیونکہ آپ کی حکومت میں عدل وانصاف کا نظام اچھا تھا لوگ آرام کی زندگی گذار رہے تھے۔ کسی کو شکایت نہ تھی جس سے آپ پوچھتے وہی مدح وثناء کرتا اور عدل و انصاف پر اظہار تشکر کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ان کے امتحان کے لیے ایک فرشتہ بشکل انسانی بھیج دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلان نے حسب عادت پوچھا ؟ تو انھوں نے جواب دیا آدمی تو بہت اچھے ہیں لیکن بیت المال سے تنخواۃ لیتے ہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے تقویٰ کے خلاف سمجھا، اور اللہ تعالیٰ کے حضور الحاح وزاری سے دست بدعا ہوئے، اللہ تعالیٰ نے دعا کو قبول فرمایا اور ان کو زرہ سازی کی صنعت سکھا دی۔ (ابن کثیر : ص : ٨٧٠، ج : ٦)
وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌ ۚ وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ ۭ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۭ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے معجزات
حضرت داؤد (علیہ السلام) کے فضائل و معجزات کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے فضائل و معجزات بیان کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لیے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا، اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر کردیا تھا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹوں میں سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سب سے چھوٹے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر وہ صلاحیت اور استعداد رکھی تھی جو دوسروں میں نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ”وورث سلیمن داود “۔ (النمل : ١٦)
تسخیر ہوا کا معجزہ ملنے کی وجہ
حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ معجزہ اس عمل کے صلہ میں ملا تھا کہ ایک دن اپنے گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول تھے عصر کی نماز کا وقت فوت ہوگیا اور عصر کی نماز قضاء ہوگئی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان گھوڑوں کو ذبح کر کے قربان کردیا کہ یہ غفلت کا سبب بنے ہیں، ان کی شریعت میں گائے بیل کی طرح گھوڑے کی قربانی بھی جائز تھی، اور وہ گھوڑے ان کی ملکیت میں تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر سواری عطا فرما دی۔ (قرطبی : ص : ٢٣٨، ج : ١٤)
غدوھا شھرورواحھا شھر: ”غدو“ کے معنی صبح کو چلنے اور ”رواح“ کے معنی شام کو چلنے کے ہیں، مطلب آیت کا یہ ہوا کہ صبح سے دوپہر تک یہ تخت سلیمانی ہوا کے کاندھوں پر ایک ماہ کی مسافت طے کرلیتا تھا، اور پھر شام سے رات تک ایک ماہ کی اسی طرح دو ماہ کی مسافت ایک دن اور رات میں کرتا تھا، حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) صبح کو بیت المقدس سے روانہ ہوتے تو دوپہر کو اصفخر میں جا کر قیام فرماتے، اور دوپہر کا کھانا کھاتے پھر یہاں سے بعد نماز ظہر واپس چلتے تو کابل میں جا کر رات ہوتی۔ (ابن کثیر : ص : ٨٧١، ج : ٦: معالم التنزیل : ص : ٤٧٥، ج : ٣)
وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ: اللہ تعالیٰ نے تانبے کے چشمہ کو پانی کی طرح بہنے والا بنادیا تھا، اور گرم بھی نہ تھا تاکہ آسانی سے برتن اور دوسری ضروریات بنا سکیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ! یہ چشمہ اتنی دور تک جاری ہوا جس کی مسافت تین دن تین رات میں طے ہو سکے، اور یہ ارض یمن میں تھا۔ مجاہد فرماتے ہیں صنعاء یمن سے شروع ہوا تین دن تین رات کی مسافت تک پانی کے چشمہ کی طرح جاری رہا۔ (قرطبی : ص : ٢٣٩، ج : ١٤)
وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ اتباع جنات وکارنامے : یہ جملہ بھی ”سخرنا“ محذوف کے متعلق ہے۔ معنی یہ ہے کہ مسخر کردیا ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جنات میں ایسے لوگوں کو جو ان کے سامنے ان کے کام انجام دیں اپنے رب کے حکم کے موافق۔ ”بین یدیه “ کے الفاظ سے مقصود جنات کی تسخیر اس طرح کی نہیں جس طرح چاند سورج وغیرہ کو انسان کے لیے مسخر کرنے کا ارشاد قرآن مجید میں آیا ہے بلکہ یہ تسخیر ایسی تھی کہ جنات نوکروں چاکروں کی طرح ان کے سامنے خدمات میں لگے رہتے تھے۔
تسخیر جنات کا مسئلہ
اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسخر ہوں تو کوئی سوال نہیں اور بعض صحابہ کرام (رض) کے جنات مسخر تھے اور یہ تسخیر من جانب اللہ تھی جو ان کی کرامت تھی، اس میں کسی وظیفہ کا دخل نہیں تھا، باقی جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفر یہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہ کبیرہ ہے۔ اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء الہٰیہ یا آیات قرآنیہ کے ذریعہ ہو اس میں نجاست وغیرہ کا استعمال بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود جنات کے ایذا سے بچنا ہو یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو تو جائز ہے اور اگر کسب مال کا پیشہ بنایا گیا ہو تو ناجائز ہے کیونکہ اس میں ”استرقاق حر“ یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حق شرعی اس سے مدد لینا حرام ہے۔
وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ الخ : اکثر مفسرین نے اس سے آخرت کا عذاب جہنم مراد لیا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے دنیا کا عذاب مراد ہے کہ ایک فرشتہ مقرر تھا جب حکم کی کوتاہی کرتے تو ان کو آگ کا کوڑا مارنے اور کام کرنے پر مجبور کرتا۔ (قرطبی : ص : ٢٣٩، ج : ١٤، معالم التنزیل : ص : ٤٧٥، ج : ٣)
سوال: جنات تو آگ سے پیدا ہوئے کیا ان پر آگ اثر کرے گی ؟ جواب : جس طرح انسان کو مٹی سے بنایا گیا اگر اس کو مٹی کے ڈھیلے سے مارا جائے تو اس کو تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح جنات کا۔۔ غالب آگ ہے مگر تیز آگ سے وہ بھی جل جاتے ہیں۔
يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ ۭ اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا ۭ وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ
جنات کی خدمات
جنات کے مسخر کرنے سے عام طور پر جو تأثر ابھرتا ہے وہ پیشہ ور عاملوں یا کاہنوں کا ہے۔ اور ان خرافات کی طرف ذہن جاتا ہے جنھیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان سے جو کام لیے وہ سب تعمیری اور تمدنی کام تھے۔ ان کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فاسد اغراض کے لیے استعمال نہیں کیا۔ چنانچہ جن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے محرابیں بناتے تھے۔ محراب سے مراد بڑی عمارت بھی ہوسکتی ہے اور عمارت کا سب سے نمایاں حصہ جسے عام طور پر محراب سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ آپ نے جنات سے تعمیری آرٹ کا کام بھی لیا۔ اور اس کا اظہار محراب پر ہی ہوسکتا ہے۔ اور آپ نے ہیکل کی طرح بڑی بڑی ایسی عمارتیں بھی بنوائیں جن کی تعمیر بظاہر انسانوں سے بہت مشکل تھی۔ اس لیے میرا ناقص گمان یہ ہے کہ محاریب سے محرابیں بھی مراد لی جاسکتی ہیں اور بڑی بڑی عمارتیں بھی۔ جبکہ لغوی اعتبار سے اس لفظ کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے۔
تماثیل کے مفہوم کی وضاحت
آپ نے جنات سے تماثیل بھی بنوائیں، یہ تمثال کی جمع ہے۔ تمثال کسی چیز کی مصور یا کندہ کی ہوئی چیز کی شبیہہ یا اس کے پیکر یا مجسمہ کو کہتے ہیں۔ یہ صورت بےجان چیزوں کی بھی ہوسکتی ہے اور جاندار چیزوں کی بھی۔ توراۃ کی کتاب سلاطین سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان دونوں ہی قسموں کی تماثیل بنوائیں۔ لیکن یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر بنی اسرائیل کے اس گروہ کا اتہام ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے عداوت رکھتا تھا۔ اس لیے ان کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے بھی یہود نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ایک پیغمبر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک بالکل دنیادار بادشاہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ان کی سیرت ہر پہلو سے انھوں نے داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو شخص بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بطور ایک پیغمبر کے دیکھے گا اس کے لیے یہ بات باور کرنا ناممکن ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کوئی ایسا کام کرسکتے تھے جسے توراۃ نے حرام قرار دیا ہو جبکہ آپ توراۃ ہی کے پیروکار تھے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں، وہ سب توراۃ ہی کے پیرو تھے۔ اور توراۃ میں صراحت کے ساتھ ہمیں یہ حکم ملتا ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں اور مجسمے قطعاً حرام ہیں۔ (خروج، ٢٠: ٢۔ ٥ میں ہے)
” خداوند تیرا خدا جو تجھے زمین مصر سے، غلامی کے گھر سے، نکال لایا، میں ہوں۔ میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہ ہو وے، تو اپنے لیے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت یا اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں، زمین کے نیچے سے مت بنا۔ تو ان کے آگے اپنے تئیں مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر، کیونکہ میں تیرا خدا غیور خدا ہوں۔ “
خروج باب ٢ آیت ٤ میں ہے ” تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا، نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ “
دیکھ لیجیے، اس میں نہایت واضح الفاظ میں صورت یا مورت بنانے کی ممانعت ہے۔ اس وجہ سے یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ پچھلی شریعتوں میں یہ چیزیں جائز تھیں، صرف اسلام میں حرام قرار دی گئی ہیں۔ یہ چیزیں پہلے بھی ناجائز تھیں۔ جن مفسرین نے بنی اسرائیل کی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ تصویر بنانے کی ممانعت ہماری شریعت میں وارد ہوئی ہے، سابقہ شریعتوں میں اس کی اجازت تھی، انھوں نے توراۃ سے بے خبری کا ثبوت دیا ہے۔ اور دشمنوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر جو الزام لگایا تھا اور جسے توراۃ کا حصہ بنادیا گیا ہے، بے خبری میں اس کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ توراۃ نے ہر صورت اور مورت بنانے کی ممانعت کی تھی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ظاہر ہے کہ توراۃ کے حکم کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن حیرت ان جدید اور نام نہاد اہل علم پر ہے جو اہل مغرب کی تقلید میں مصوری اور بت تراشی کو حلال کرنا چاہتے ہیں، وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے طرزعمل سے بھی دلیل پکڑتے ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت کے لفظ تماثیل کو اپنے لیے دلیل بناتے ہیں۔ جبکہ تماثیل کا لفظ انسانی اور حیوانی تصاویر کے معنی میں صریح نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق غیرجاندار اشیاء کی تصویروں پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے محض اس لفظ کے سہارے اس حکم کو توڑا نہیں جاسکتا جس کا ثبوت نہایت کثیرالتعداد، قوی الاسناد اور متواتر المعنی احادیث میں ملتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔ ہم ان بیسیوں روایات میں سے چند ایک کا ذکر کرنا چاہتے ہیں تاکہ صحیح بات کو سمجھنا آسان ہوجائے۔
عن أبي جحيفة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن المصور. (صحيح البخاري: 5962)
” ابوجحیفہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصور پر لعنت فرمائی ہے۔ “
عَنْ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ المُصَوِّرُونَ». (صحيح البخاري: 5950، صحيح مسلم: 2109)
” عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین سزا پانے والے مصور ہوں گے ۔ “
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُتَسَتِّرَةٌ بِقِرَامٍ فِيهِ صُورَةٌ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ، ثُمَّ تَنَاوَلَ السِّتْرَ فَهَتَكَهُ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الَّذِينَ يُشَبِّهُونَ بِخَلْقِ اللهِ» (صحيح البخاري: 5954، صحيح مسلم: 2107)
” حضرت عائشہ ( رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک پردہ لٹکا رکھا تھا جس میں تصویر تھی، آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پردے کو لے کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا قیامت کے روز سخت ترین عذاب جن لوگوں کو دیا جائے گا ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مانند، تخلیق کی کوشش کرتے ہیں۔ “
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصُّورَةِ فِي البَيْتِ، وَنَهَى عَنْ أَنْ يُصْنَعَ ذَلِكَ» وَفِي البَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي طَلْحَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ.: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. (سنن الترمذي: 1749)
” حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا کہ گھر میں تصویر رکھی جائے اور اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شخص تصویر بنائے۔ “
چنانچہ ان ہی احادیث کی وجہ سے ہمارے فقہاء نے اسے قانون اسلامی کی ایک دفعہ قرار دیا ہے۔ علامہ بدرالدین عینی توضیح کے حوالہ سے لکھتے ہیں (ہمارے اصحاب یعنی فقہاء احناف اور دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ کسی جاندار چیز کی تصویر بنانا حرام ہی نہیں، سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے خواہ بنانے والے نے اسے کسی ایسے استعمال کے لیے بنایا ہو جس میں اس کی تذلیل ہو یا کسی دوسری غرض کے لیے، ہر حالت میں تصویرکشی حرام ہے کیونکہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔ اسی طرح تصویر خواہ کپڑے میں ہو یا فرش میں یا دینار یا درہم یا پیسے میں یا کسی برتن میں یا دیوار میں، بہرحال اس کا بنانا حرام ہے۔ البتہ جاندار کے سوا کسی چیز مثلاً درخت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے۔ ان تمام امور میں تصویر کے سایہ دار ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ )
اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریح ارشادات، صحابہ کرام کے عمل اور فقہاء اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رو سے ایک مسلم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متأثر لوگوں کی موشگافیاں بدل نہیں سکتیں۔
اسلام ميں تصوير كى حرمت اور اعتراضات کا جواب
بعض لوگ فوٹو اور ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ شریعت بجائے خود تصویر کو حرام کرتی ہے نہ کہ تصویر سازی کے کسی خاص طریقے کو۔ فوٹو اور دستی تصویر میں تصویر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے درمیان جو کچھ بھی فرق ہے وہ طریق تصویرسازی کے لحاظ سے ہے اور اس لحاظ سے شریعت نے احکام میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔
بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں تصویر کی حرمت کا حکم محض شرک و بت پرستی کو روکنے کی خاطر دیا گیا تھا، اور اب اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا یہ حکم باقی نہ رہنا چاہیے لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ اول تو احادیث میں کہیں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ تصاویر صرف شرک و بت پرستی کے خطرے سے بچانے کے لیے حرام کی گئی ہیں۔ دوسرے، یہ دعویٰ بھی بالکل بےبنیاد ہے کہ اب دنیا میں شرک و بت پرستی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ آج خود برعظیم ہند و پاکستان میں کروڑوں بت پرست مشرکین موجود ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں طرح طرح سے شرک ہورہا ہے، عیسائی اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم اور اپنے متعدد اولیاء کی تصاویر اور مجسموں کو پوج رہے ہیں، حتیٰ کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مخلوق پرستی کی آفتوں سے محفوظ نہیں ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ تصویریں ممنوع ہونی چاہئیں جو مشرکانہ نوعیت کی ہیں، یعنی ایسے اشخاص کی تصاویر اور مجسمے جن کو معبود بنا لیا گیا ہو، باقی دوسری تصویروں اور مجسموں کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کی باتیں کرنے والے دراصل شارع کے احکام و ارشادات سے قانون اخذ کرنے کی بجائے آپ ہی اپنے شارع بن بیٹھتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تصویر صرف ایک شرک و بت پرستی ہی کی موجب نہیں بنتی بلکہ دنیا میں دوسرے بہت سے فتنوں کی موجب بھی بنی ہے اور بن رہی ہے۔ تصویر ان بڑے ذرائع میں سے ایک ہے جن سے بادشاہوں، ڈکٹیٹروں اور سیاسی لیڈروں کی عظمت کا سکہ عوام الناس کے دماغوں پر بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تصویر کو دنیا میں شہوانیت پھیلانے کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور آج یہ فتنہ ہر زمانے سے زیادہ عروج پر ہے۔ تصاویر قوموں میں نفرت اور عداوت کے بیج بونے، فساد ڈلوانے اور عام لوگوں کو طرح طرح سے گمراہ کرنے کے لیے بھی بکثرت استعمال کی جاتی رہی ہیں اور آج سب سے زیادہ استعمال کی جارہی ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ شارع نے تصویر کی حرمت کا حکم صرف بت پرستی کے استیصال کی خاطر دیا ہے، اصلاً غلط ہے۔ شارع نے مطلقاً جاندار اشیاء کی تصویر کو روکا ہے۔ ہم اگر خود شارع نہیں بلکہ شارع کے متبع ہیں تو ہمیں علی الاطلاق اس سے رک جانا چاہیے۔ ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی علت حکم خود تجویز کرکے اس کے لحاظ سے بعض تصویروں کو حرام اور بعض کو حلال قرار دینے لگیں۔
بعض لوگ چند بظاہر بالکل ” بےضرر “ قسم کی تصاویر کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ آخر ان میں کیا خطرہ ہے، یہ تو شرک اور شہوانیت اور فساد انگیزی اور سیاسی پروپیگنڈے اور ایسے ہی دوسرے مفسدات سے قطعی پاک ہیں، پھر ان کے ممنوع ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟ اس معاملہ میں لوگ پھر وہی غلطی کرتے ہیں کہ پہلے علت حکم خود تجویز کرلیتے ہیں اور اس کے بعد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب فلاں چیز میں یہ علت نہیں پائی جاتی تو وہ کیوں ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ اسلامی شریعت کے اس قاعدے کو بھی نہیں سمجھتے کہ وہ حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کرسکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے بلکہ ایسا واضح خطِ امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو۔ تصاویر کے درمیان یہ حدبندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بےجان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں۔ اس خطِ امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز۔ لیکن اگر جانداروں کی تصاویر میں سے بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز ٹھہرایا جاتا تو دونوں قسم کی تصاویر کی کوئی بڑی سے بڑی فہرست بیان کردینے کے بعد بھی جواز و عدم جواز کی سرحد کبھی واضح نہ ہوسکتی اور بیشمار تصویروں کے بارے میں یہ اشتباہ باقی رہ جاتا کہ انھیں حدجواز کے اندر سمجھا جائے یا باہر۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شراب کے بارے میں اسلام کا یہ حکم کہ اس سے قطعی اجتناب کیا جائے ایک صرف حد قائم کردیتا ہے لیکن اگر یہ کہا جاتا کہ اس کی اتنی مقدار استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے جس سے نشہ پیدا ہو تو حلال اور حرام کے درمیان کسی جگہ بھی حد فاصل قائم نہ کی جاسکتی اور کوئی شخص بھی فیصلہ نہ کرسکتا کہ کس حد تک وہ شراب پی سکتا ہے اور کہاں جا کر اسے رک جانا چاہیے۔
جِفَانٍ وَقُدُوْرٍ کا مفہوم
وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ ۔۔ جِفَانٍ: جَفْنَة کی جمع ہے، جس کے معنی لگن کے ہیں۔ اور جواب، جابیۃ کی جمع ہے، اس کے معنی حوض کے ہیں۔ قدور، قِدر کی جمع ہے، بڑی دیگوں کو کہتے ہیں۔ اور ہنڈیوں پر بھی بول دیتے ہیں۔ رٰسِیٰتٍویسے تو یہ لفظ پہاڑوں کی صفت کے لیے آتا ہے اور یہاں یہ بڑی بڑی دیگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو اتنی بھاری بھرکم ہوتیں کہ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کی جاسکتی تھیں، ایک ہی جگہ چولہوں پر نصب رہتیں، اور بیک وقت منوں کے حساب سے ان میں کھانا پکتا۔
محاریب اور تماثیل سے تو یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی ہونے کے ساتھ ساتھ شان و شکوہ اور ہیبت و جبروت کے حامل بادشاہ بھی تھے۔ انھوں نے تمدن کو بلند وبالا عمارتوں اور فنِ تعمیر سے آراستہ کیا تھا۔ لیکن ان میں سے ہر چیز کسی نہ کسی مقصد کو واضح کرنے والی تھی۔ بالخصوص اس بات کو کہ جس سرزمین پر اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہوتا اور سر اس کے سامنے جھکتے ہیں وہ صرف جھونپڑوں کی بستی نہیں ہوتی بلکہ اس میں ہیبت کے اظہار کا سامان بھی ہوتا ہے۔
اور پھر بڑے بڑے لگن اور دیگوں کے ذکر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جہاں اس مملکت میں ہیبت و فرماں روائی کی کارفرمائی دکھائی دیتی تھی وہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا جودوکرم اور دادودہش بھی نمایاں نظر آتا تھا، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ آپ کا خوان کرم اس قدر وسیع تھا کہ کوئی غریب بھوکا نہیں رہ سکتا اور کسی مہمان کو یہ خیال نہیں ستا سکتا کہ مجھے کھانا کہاں سے ملے گا۔ یہ آپ کی فیاضی اور سخاوت کی ایسی تعبیر تھی جس کی اس دور کی تاریخ قدم قدم پر گواہی دیتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے دور کو صرف سائنس، آرٹ اور دیگر علوم ہی نہیں دیے تھے بلکہ ملک میں ایسا ماحول پیدا کردیا تھا جس میں غرباء پروری کا نہایت وسیع اور فیاضانہ اہتمام بھی تھا۔
نعمتوں پر شکر لازم ہے
سائنس کی حکمرانی، دولت کی فراوانی اور آرٹ کا ذوق جہاں بےحد تعریف و تحسین کے مستحق ہیں وہیں اس کی حیثیت دودھاری تلوار کی بھی ہے۔ اگر اس کے استعمال میں احتیاط نہ کی جائے اور اسے غلط ہاتھوں میں پہنچنے دیا جائے تو یہی چیزیں تمدن صالح کی دشمن ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ اے آل داؤد شکر کے انداز میں زندگی گزارو اور عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے جو بیشمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہیں بہک نہ جانا بلکہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ہر نعمت کو صحیح محل میں برتنا اور ہر قدم صحیح سمت میں اٹھانا۔ اور آل داؤد کے لفظ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ، ان کی آل اولاد اور ان کے اتباع کو توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اس طرح کرنا جیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) کیا کرتے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) انھیں کے نقش قدم پر چلے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ ہیبت اور عزت عطا فرمائی کہ جو ایک مثال بن گئی۔ آئندہ بھی اگر تم اس عظمت و حشمت کو باقی رکھنا چاہتے ہو تو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں کوتاہی نہ کرنا۔ اور آیت کے آخری جملے میں تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ شکر کی راہ کوئی آسان راہ نہیں۔ اس لیے اس راہ کو آسان نہ لینا بلکہ نہایت فکرمندی کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اثرات کو راسخ کرنے کی کوشش کرنا۔ (ماخوذ از تفسير روح القرآن ڈاكر محمد اسلم صديقى)
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِهٖٓ اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت سے غلط عقائد کی تردید
مشرکینِ مکہ میں عقیدے کی جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ان میں ایک خرابی یہ بھی تھی کہ وہ جنات کو غیب دان سمجھتے تھے اور اسی حوالے سے ان سے استمداد کرتے تھے۔ اسی طرح انبیاء و اولیاء کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور جب ان کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے تو وہ مدد کو پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پیش نظر آیت کریمہ میں ان دونوں باتوں کی تردید فرمائی ہے۔ اور اس کے لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسے اللہ تعالیٰ کے نبی اور صاحب جبروت شخصیت کی موت سے استشہاد کیا ہے۔ ایک طرف ان کا یہ مرتبہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہَوائیں ان کے قبضے میں دے رکھی تھیں اور جنات کو ان کا چاکر بنادیا تھا۔ وہ جیسے چاہتے ہوا سے کام لیتے اور جیسے چاہتے جنوں سے خدمت لیتے تھے۔ اور ایسے جنات جنھیں شیاطین کہنا چاہیے اور جو آپ پر ایمان بھی نہیں رکھتے تھے وہ بھی نہایت ذلت کے ساتھ آپ کے ہر فرمان کی اطاعت پر مجبور تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتنے قریبی تعلق اور غیرمعمولی وجاہت و عظمت کے باوجود آپ کو موت کا مزہ چکھنا پڑا۔ اور موت بھی آپ کو اس طرح آئی کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوسکی۔ اور رہا اہل عرب کا دوسرا عقیدہ کہ جنات غیب کے جاننے والے ہوتے ہیں، اس کے لیے بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت ہی سے استدلال کیا گیا ہے۔ اور موت کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے
حضرت سليمان عليه السلام كى وفات كے واقعہ كى تفصيل
بیت المقدس کی تعمیر کا آغاز تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کیا تھا مگر وہ آخری وقت میں بقیہ کام حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سپرد کر کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، پھر انھوں نے اپنی خلافت کے چوتھے سال میں جنات سے کام شروع کروایا۔ (مدارک : ص : ٣٢١، ج : ٣) ۔
ابھی سال بھر کا کام باقی تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا آخری وقت آگیا۔ آپ کا معمول تھا باوجود حکومتی مصروفیت کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقت نکال کر تنہائی میں کئی کئی ماہ کا توشہ لے کر عبادت خانہ میں اللہ اللہ کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنی اسی عادت کو بیت المقدس کی تکمیل کے لیے بطور بنیاد استعمال کیا۔
شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) تفسیر عثمانی کے حاشیہ پر تحریر کرتے ہیں کہ جب سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا وقت آپہنچا تو آپ نے تعمیر کے باقی ماندہ کام کا نقشہ بنا کر جنوں کو دے دیا اور خود شیشے کے کمرہ میں بند ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوگئے، جنات دیکھ رہے تھے کہ آپ عبادت میں مصروف ہیں اور وہ اپنا کام کرتے رہے، مگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر عبادت کر رہے ہیں اس حالت میں روح پرواز کرگئی، لیکن جنات کو اندر آنے کی اجازت نہ تھی سلیمان (علیہ السلام) اسی حالت میں اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ یاد رہے انبیاء کرام کا یہ خاصا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو وفات سے قبل اطلاع دیتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ آپ کا کیا ارادہ ہے اس کے بعد جب ان کی طرف سے ہاں ہوجاتی ہے تو روح قبض کرلی جاتی ہے اور جب تعمیر بیت المقدس کا کام پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے گھن کے کیڑے جس کو فارسی میں ” دیوک “ اور اردو میں ” دیمک “ کہا جاتا ہے اور قرآن کریم نے اس کو ”دابة الأرض“ کے نام سے موسوم کیا ہے عصائے سلیمانی پر مسلط کردیا دیمک نے لکڑی کو اندر سے کھا کر کمزور کردیا سہارا ختم ہوا تو سلیمان (علیہ السلام) گرگئے اس وقت جنات کو ان کی موت کی خبر ہوئی، جنات کو اللہ تعالیٰ نے دور دراز کی مسافت چند لمحات میں قطع کرلینے کی قوت عطا فرمائی ہے، وہ بہت سے ایسے حالات و واقعات سے واقف ہوتے تھے جن کو انسان نہیں جانتے، جب وہ انسانوں کو ان واقعات کی خبر دیتے تو انسان یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیب کی خبر ہے اور جنات کو علم غیب حاصل ہے خود جنات کو بھی علم غیب کا دعوی ہو تو بعید نہیں، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت سے اس کی بھی حقیقت کھل گئی کہ خود جنات کو بھی پتہ چل گیا اور انسانوں کو بھی کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں ورنہ یہ جنات سال بھر کی محنت مشقت نہ اٹھاتے۔ (معارف القرآن)
جو شخص بھی اس واقعہ کو تدبر کی نگاہ سے دیکھے گا، اسے یہ سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ جنات کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں۔ اور یہ غلط فہمی انسانوں کو بھی جنات کے بارے میں تھی اور خود جنات میں بھی بعض جنات کے حوالے سے ایسا ہی تصورپایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس کی تردید کے لیے اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ بعض لوگ جنوں سے وہ سرحدی قبائل مراد لیتے ہیں جنھیں طاقت کے زور سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنا مطیع بنا رکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مشرکین ان قبائل کو عالم الغیب سمجھتے تھے یا خود ان قبائل میں سے کسی نے غیب دان ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ جب ایسی کوئی بات نہ تھی تو پھر قرآن کریم کے الفاظ سے اپنے مطلب کی بات نکالنے کے سوا اور اس کا کیا مفہوم ہوسکتا ہے۔
علامہ بغوی (رح) نے علماء تاریخ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر کل ترپن سال کی ہوئی اور ان کی سلطنت و حکومت چالیس سال رہی تیرہ سال کی عمر میں سلطنت کا کام سنبھال لیا تھا اور بیت المقدس کی تعمیر اپنی سلطنت کے چوتھے سال میں شروع کی تھی۔ (معالم التنزیل : ص : ٤٧٧، ج : ٣، مظہری : ص : ١٨، ج : ٨، قرطبی : ص : ٣٤٩، ج : ١٤)
حیات انبیاء (علیہم السلام) پر اہل حق کا استدلال
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید (رح) لکھتے ہیں اس آیت سے بھی بطریق دلالت النص حیات الانبیاء کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے اس لیے کہ جب کیڑوں نے مضبوط ترین اور سخت عصا سلیمانی کو کھالیا تو جسم عنصری کا کھانا اس سے کہیں سہل اور آسان تھا مگر اس کے باوجود جسم کا ٹکا رہنا بلکہ محفوظ ہونا حیات کی صریح دلیل ہے اسی طرح اس آیت میں ذکر شدہ (خرور سلیمان) سے بھی حضرات انبیاء کی حیات مبارکہ پر استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت سلیمان کے جسد اطہر کے زمین پر آجانے کو ” خر “ کے لفظ سے تعبیر فرمایا مگر اس کو ” سقط “ سے تعبیر نہیں فرمایا کیونکہ ” خر “ کا لفظ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں جہاں کہیں بھی مذکور ہے وہ انسان کے جھک جانے اور گرجانے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے۔
(الف)۔۔ ” وخروا له سجداً “ (یوسف : ١٠٠) ترجمہ : سجدہ میں گرپڑے اور رجوع ہوئے۔
(ب)۔۔” فلما تجلیٰ ربہ للجبل جعله دکاً وخر موسیٰ صعیقاً “۔ (اعراف : ١٤٣) ترجمہ : پس ان کے رب نے جو اس پر تجلی فرمائی تجلی نے ان کے پرخچے اڑا دئیے اور موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہو کر گرپڑے۔ لہٰذا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جسد اطہر کے سلامت زمین پر آنے سے حیات بعد الوفات کا جو بھی انکار کرتا ہے وہ قرآن کے معارف اور علوم سے ناواقف ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ص : ٤٦٨، ٤٦٩، ج : ١٠)
لَقَدْ كَانَ لِسَـبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ ڛ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَهٗ ۭ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ
کفرانِ نعمت کا انجام تاریخ سبا کے حوالے سے
سبا ایک شہر کا نام بھی ہے اور اس میں بسنے والی قوم بھی اسی نام سے معروف تھی۔ ان ہی میں ایک وہ ملکہ سبا تھی جس کو بلقیس کہتے ہیں جس کو تخت سمیت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بارگاہ میں حاضر ہونا پڑا تھا یہ قوم جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارالحکومت مآرب موجودہ یمن کے دارالسلطنت صنعا سے پچپن میل بجانب شمال واقع تھا۔ ایک ہزار سال تک یہ قوم عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی۔ عرب میں یمن اور حضرموت اور افریقہ میں حبش کے علاقے پر اس کا قبضہ تھا۔ یونانی مؤرخین اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں۔ تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظام آبپاشی قائم کر رکھا تھا۔ اس کی اصل شاہراہ کے دونوں جانب نہایت شاداب باغوں کا سلسلہ تھا جو پورے علاقے پر پھیلا ہوا تھا۔ اسی کو اس آیت کریمہ میں دائیں بائیں دو باغوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی شاہراہ کے دائیں بائیں باغوں کے سلسلے تھے۔
علامہ قزوینی نے آثارالبلاد میں سبا کو ایک شہر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ شہر سبا بن یشحب بن قحطان نے آباد کیا تھا۔ یہ شہر دفاعی لحاظ سے بہت مستحکم اور گنجان آباد تھا۔ اس کی ہوا بڑی پاکیزہ اور پانی بڑا میٹھا تھا۔ اردگرد پہاڑوں کا سلسلہ تھا۔ بارش ہوتی تو پانی بہہ کر ریگستان میں ضائع ہوجاتا۔ ملکہ بلقیس کے عہد حکومت میں دو پہاڑوں کے درمیان ایک زبردست بند تعمیر کیا گیا اور پانی کے اس طرح کے ذخائر اس ملک کی زرعی ترقی کا بہت بڑا سبب تھے۔ اس کی سرسبزی و شادابی اور خوشحالی اور فارغ البالی وہ چیز ہے جسے یہاں آیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان تھا۔
ایک عرصہ تک یہ قوم اللہ تعالیٰ کی توحید اور احکام خداوندی کو بجالاتی رہی، پھر عیش و عشرت کی وجہ سے غفلت بلکہ انکار تک پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تنیبہ کے لیے تیرہ نبی اس قوم کو سمجھانے کے لیے بھیجے مگر یہ لوگ اپنی غفلت سے بےہوشی سے باز نہ آئے تو ان پر سیلاب کا عذاب بھیجا گیا جس نے ان کے شہر اور باغات سب کو ویران کردیا۔ (ابن کثیر : ص : ٨٧٩: ج : ٦)
فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَىْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ
سیل عرم اور سد مآرب
کتب لغت میں عرم کے معنی سد یعنی بند کے ہیں جو پانی روکنے کے لیے بنایا جاتا ہے جو آج کل ڈیم کے نام سے معروف ہے یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے۔ (قرطبی : ص : ٢٥٢، ج : ١٤)
مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) ارض القرآن کے حوالے سے لکھتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے: ”سبا“ کی عمارات میں ایک چیز بند آب ہے جس کو عرب حجاز ”سد“ اور عرب یمن اس کو ”عرم“ کہتے ہیں۔ عرب میں کوئی دائمی دریا نہیں، پانی پہاڑوں سے بہہ کر ریگستانوں میں خشک اور ضائع ہوجاتا تھا اور زراعت کے مصرف میں نہیں آتا تھا۔ سبا مختلف مناسب جگہوں پر پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان بڑے بڑے بند باندھ دیتے تھے۔ پانی رک جاتا اور بقدر ضرورت زراعت کے کام لاتے۔ حکومت سبا نے سینکڑوں بند بنائے ان میں سے سب سے زیادہ مشہور ” سد مآرب “ ہے جو ان کے دارالحکومت ” مآرب “ میں تھا شہر ” مآرب “ کے جنوب میں دائیں بائیں دو پہاڑ ہیں جن کا نام ” ابلق “ سے سبا نے ان پہاڑوں کے درمیان ” سدمآرب “ کی تعمیر کی تھی یہ تقریباً ایک سو پچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی ایک دیوار ہے جس کا اکثر حصہ اب افتادہ ہے اور ایک ثلث دیوار اب بھی باقی ہے۔ ” سد “ کے دائیں بائیں مشرق ومغرب میں دو بڑے بڑے دروازے تھے جن سے پانی تقسیم ہو کر زمینوں کو سیراب کرتا تھا اس پانی کی وجہ سے تین سو میل مربع میں سینکڑوں کوس تک زمین آباد ہوگئی جس میں مختلف قسم کے میوے اور خوشبودار درخت تھے۔
قرآن کریم نے ”جنتين عن یمن وشمال“ کہہ کر ان باغوں کی طرف اشارہ کردیا۔ سبا عرب میں سرسبز اور آباد حصہ میں رہتے، جہاں اچھے اچھے درخت ، دار چینی اور چھوارے کے نہایت گنجان جنگل ہیں ، جو اشخاص زمین سے دور ساحل سے گذرتے جب ساحل کی طرف سے ہوا چلتی تو وہ اس خوشبو سے محفوظ ہوتے جو ”بلدۃً طیبةً“ کے مصداق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اشارہ کردیا کہ اپنی طرف سے شکرگزار بنو اگر بمقتضائے بشریت کوتاہی ہوجائے تو چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو معاف کردوں گا۔
فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَىْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ
مشکل الفاظ کی تشریح
عَرِم کے معنی اہل لغت نے زوردار بارش کے بھی لکھے ہیں اور تہ بہ تہ اکٹھے کیے ہوئے پتھروں کے بھی۔ لیکن بند کے معنی میں اس کا استعمال عام ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک یہ جنوبی عرب کی زبان کے لفظ عرمن سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی بند کے ہیں۔ یمن کے حبشی گورنر ابرہہ نے ایک کتبہ سدمآرب کی مرمت کرانے کے بعد نصب کرایا، اس میں وہ اس لفظ کو بار بار بند کے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ اس لحاظ سے سیل العرم سے مراد وہ سیلاب ہے جو کسی بند کے ٹوٹنے سے آئے۔
خَمْطِ بدمزہ اور کڑوے کسیلے پھلوں کو کہتے ہیں۔
اَثْلٍ جھاؤ۔ سِدْرٍجھاڑیوں کو کہتے ہیں۔
ناشکری کا انجام
اہل سبا اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمتوں کی قدر کرنے کی بجائے جب کفران نعمت کرنے لگے اور طغیان و فساد میں بھی مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب بھیج دیا۔ ایسا عظیم سیلاب آیا کہ اس نے سدمآرب کو توڑ دیا۔ بند سے جو نہریں نکالی گئی تھیں، بند کے ٹوٹنے سے وہ سب ختم ہوگئیں اور آبپاشی کا پورا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اور اس کے نتیجے میں وہی ملک جو کبھی جنت نظیر بنا ہوا تھا تاراج ہو کر رہ گیا۔ باغات تباہ ہوگئے اور سارا علاقہ خودرو جنگلی درختوں سے بھر گیا۔ شاداب باغوں کی جگہ کڑوے کسیلے پھلوں کے کچھ درخت اور کچھ جھاؤ اور بیری کی جھاڑیاں رہ گئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیلاب نے پورے علاقے کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ زرخیز مٹی تباہ ہوگئی اور اس پر ایسی مٹی یا ریت کی تہ جم گئی جس نے بچے کھچے درختوں کے مزاج بھی بدل دیے۔ اور آخر میں فرمایا کہ یہ سب کچھ ہم نے ان کے ساتھ اس لیے کیا کہ یہ ان کے کفران نعمت اور ناشکری کا بدلہ تھا۔ ایسی تباہ کن سزا ہم صرف ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں۔
ائمہ سلف قتادہ (رح) وغیرہ کے بیان کے مطابق ان باغوں میں ایک عورت اپنے سر پر خالی ٹوکری لے کر چلتی تو درختوں سے ٹوٹ کر گرنے والے پھلوں سے وہ خود بخود بھر جاتی تھی ان کو ہاتھ نہ لگانا پڑتا تھا۔ پھر ان اعلیٰ درجہ کے نفیس میوؤں کی جگہ نکمے درخت بدمزہ پھل والے درختوں کے سوا کچھ نہ رہا تھا، یہ واقعہ حضرت مسیح اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیانی عہد کا ہے۔ محققین آثار قدیمہ کو ابریت الاشرم کے زمانہ کا ایک بہت بڑا کتبہ سد عرم کی بقیہ دیوار ملا ہے اس میں بھی اس بند کے ٹوٹنے کا ذکر ہے مگر یہ غالباً اس واقعہ کے بعد ہوا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ واللہ اعلم۔
حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب اللہ نے چاہا عذاب بھیجا تو چوہے پیدا ہوئے انھوں نے اس بند کی جڑیں کرید ڈالی جس کی وجہ سے یہ ٹوٹ گیا زمین ناکارہ ہوگئی لوگ وطن چھوڑ کر ادھر ادھر چلے گئے جو باقی رہے۔ انھیں ان باغوں کے بدلے یہ نکمی کسیلی چیزیں ملیں۔ واللہ اعلم (تفسیر عثمانی)
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّقَدَّرْنَا فِيْهَا السَّيْرَ سِيْرُوْا فِيْهَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ
القری التی برکنا “ سے مراد بظاہر ملک شام و فلسطین کی بستیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی برکات سے نوازا ہے۔ یہ سرسبز و شاداب علاقہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کا مرکز رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ میں بہت سے نبیوں کو مبعوث فرمایا۔ جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی اولاد شامل ہے اور وہیں ان کی قبریں بھی ہیں۔
آیت زیر مطالعہ میں دراصل اس زمانے کی ایک اہم شاہراہ کا ذکر ہوا ہے جس پر یورپ اور ایشیا کے مابین ہونے والی تجارت کے حوالے سے قوم سبا کی اجارہ داری تھی۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ یہ اپنے زمانے کی ایک بہت خوشحال اور طاقتور قوم تھی۔ ان کا علاقہ بہت سرسبز و شاداب تھا اور وہاں مختلف اقسام کی خوشبوئیں کثرت سے پیدا ہوتی تھیں۔ پرانے زمانے کے سیاحوں کے حوالے سے قوم سبا کے بارے میں ایسی بہت سی معلومات تاریخ میں دستیاب ہیں۔ چنانچہ اپنے دور کی ایک طاقتور اور خوشحال قوم کی حیثیت سے مشرق و مغرب کے درمیان ہونے والی تجارت پر ان کی اجارہ داری تھی (بعد میں ایک مدت تک اس تجارت پر قریش مکہ ّکی اجارہ داری رہی جس کا ذکر سورة القریش میں آیا ہے) ۔ ہندوستان ‘ چین اور دیگر مشرقی ممالک سے آنے والا تجارتی سامان یمن کی بندرگاہ پر اترتا تھا ‘ جبکہ یورپ سے آنے والا سامان بحیرہ روم (Mediterranean Sea) کے راستے فلسطین کی بندرگاہ پر پہنچتا تھا۔ چنانچہ یمن اور فلسطین کے درمیان قوم سبا کے تجارتی قافلے اس سامان کی نقل و حمل کے سلسلے میں مذکورہ شاہراہ پر سارا سال رواں دواں رہتے تھے۔
یہ تجارتی شاہراہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی سے بہت ُ پر سکون ‘ پر امن اور ہر لحاظ سے مثالی تھی۔ اس کی کیفیت یوں تھی کہ تقریباً سو میل کے فاصلے تک اس شاہراہ کے دونوں طرف ان کے باغات پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے بعد عین شاہراہ کے اوپر جگہ جگہ بستیاں اس طرح آباد تھیں کہ ایک بستی کی حدود ختم ہوتے ہی دوسری بستی کے آثار شروع ہوجاتے تھے۔ اس طرح تجارتی قافلے نہ صرف رہزنی وغیرہ کے خطرات سے محفوظ رہتے تھے بلکہ انھیں سفر و قیام کے دوران اشیائ ضرورت اور مطلوبہ سہولیات بھی ہر جگہ ہر وقت دستیاب رہتی تھیں۔
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ۭ حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ
مجازین شفاعت اور فرشتوں کا باہمی مکالمہ
بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس حکم کا ذکر ہے وہ آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دنیا کے ساتھ بھی متعلق ہے، جیسا کہ احادیث کثیرہ سے سمجھا جاتا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے مقصود اللہ تعالیٰ کے مقام عظمت ورفعت کا بیان کرنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کوئی حکم دیتا ہے اور ان سے کلام کرتا ہے تو فرشتے اللہ کا کلام سن کر ہیبت کے مارے تھر تھر اٹھتے ہیں اور ان پر ایک غشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے پھر جب وہ گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے تو بعض سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ عاملان عرش اور ملاء اعلیٰ کے فرشتے سے نیچے والے فرشتوں کو خبر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ برحق ہے اور ” حتی اذا فزع عن قلوبھم “ کی ضمیر فرشتوں کی طرف راجح ہے اور ” فزع “ سے اس خوف اور ہیت کا دور ہونا مراد ہے جو فرشتوں کو کلام اور حکم خداوندی کے سننے کے وقت لاحق ہوتی ہے۔ (حاشیہ صاوی علیٰ تفسیر جلالین : ص : ٢٩٩، ج : ٣)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی (رح) لکھتے ہیں میرے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ یہ آیت آخرت سے متعلق ہے کیونکہ آیت کا سیاق وسباق اس کے زیادہ مناسب ہے اور یہ سیاق وسباق مشرکین کے اس قول کی تکذیب و تردید ہے جو یہ کہتے تھے۔ ”ویقولون ھؤلاء شفعاؤنا عندالله“ اور اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا ” لا تنفع الشفاعة الخ “
خلاصہ کلام :۔۔ اس آیت میں اصل مقصود آخرت کا واقعہ بیان کرنا ہے۔ مگر اپنے ظاہری الفاظ اور ظاہری مدلول کے اعتبار سے دنیا و آخرت دونوں کو شامل ہے لہٰذا اس میں دونوں معنی کی گنجائش ہے۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ
عمومی بعثت رسالت خاتم الانبیاء و فرائض خاتم الانبیاء
اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور رزاقیت کا ذکر تھا۔ اب آگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت عمومی اور منکرین قیامت کا رد ہے۔ (شیخ زادہ : ص : ٩٣، ج : ٤)
نحوی تركيب
”کافة“ یہ ترکیب میں کیا ہے؟ تو اکثر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ حال ہے اور ”للناس“ ذوالحال معنی یہ ہے کہ ہم نے بھیجا تجھے مگر اس حال میں کہ یہ سب لوگوں کے لئے، یعنی آپ کی عمومی بعثت کا ذکر ہے۔ اس پر اشکال ہوتا ہے ”کافةً للناس“ میں کافةًحال ہے اور ”للناس“ ذوالحال ہے جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ حال ذوالحال پر مقدم نہیں ہوسکتا جبکہ یہاں حال ذوالحال پر مقدم ہے۔
جواب : علامہ رضی نے شرع کافیہ : ص : ٦٧،ج : ٢) پر تشریح کی ہے اگر ذوالحال مجرور بالاضافت ہو تو حال ذوالحال پر بالاتفاق مقدم نہیں ہوسکتا ہاں اگر ذوالحال مجرور باحرف جر ہو تو ابن کسان اور ابی علی کے نزدیک ذوالحال پر حال مقدم ہوسکتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ” کافةً للناس “ پر مقدم ہے لہٰذا اس پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا جبکہ دوسرے حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ حال ہے کاف ضمیر سے اور ” کافۃً “ میں تا مبالغہ کے لیے ہے، تانیث کی نہیں، معنی یہ کرتے ہیں کہ ہم نے نہیں بھیجا تجھے ” إلا کافه أي کافاً “ مگر اس حال میں کہ تو جمع کرنے والا ہے لوگوں کو یعنی سب لوگوں کو اپنی نبوت میں جمع کرنے والا ہے
امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق عقائد
انبیاء کرام (علیہم السلام) میں باہمی مراتب کا فرق ہے۔ بعض انبیاء کرام (علیہم السلام) کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہے۔ سب سے افضل حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام پیغمبروں کے سردار ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ} [البقرة: 253]
ترجمہ : ” یہ پیغمبر جو ہم نے بھیجے ہیں، ان کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا، اور ان میں سے بعض کو بدرجہا بلندی عطا کی۔
چنانچہ حدیث پاک میں ہے :
عَن أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ. (صحيح مسلم: 2278)
ترجمہ: ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میری قبر کھولی جائے گی اور سب سے پہلے میں سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی۔
دوسری حدیث پاک میں ہے کہ:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلَا فَخْرَ». (سنن الترمذي: 3148)
ترجمہ : ”حضرت ابو سعيد خدرى سے روايت ہے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار میں ہوں گا اور مجھے اس پر فخر نہیں ہے ، اور سب سے پہلے میری قبر سے مٹی ہٹائی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ، میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔ اور اس دن تمام انبیاء آدم ہو یا اس کے سوا کوئی دوسرا پیغمبر وہ میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا اور مجھے کوئی فخر نہیں ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان بعثت
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت تمام عالم کے لیے ہے۔ اور آپ تمام جہانوں کے لیے نبی ہیں۔ جس طرح آپ امت کے نبی ہیں، اسی طرح انبیاء کرام (علیہم السلام) کے بھی نبی ہیں۔
چنانچہ یہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ“۔ ترجمہ : ” اور اے پیغمبر ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لیے ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے ، اور خبردار بھی کرے۔
نبوت کی تقسیم
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) کی تحقیق کے مطابق نبوت کی دو قسمیں ہیں : (١) نبوت ذاتی۔ (٢) نبوت عرضی۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت تو ذاتی ہے اور آپ کے علاوہ دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت عرضی ہے، دلیل اس کی قرآن پاک کی یہ آیت ہے :
{وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ} [آل عمران: 81]
ترجمہ : ” اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا، پھر جب تمہارے پاس ایسا رسول آجائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے تو تم ضرور ان پر ایمان لے آنا اور ضرور اس کی مدد کرنا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم نے اقرار کرلیا اور میری دی ہوئی ذمہ داری اٹھاتے ہو ؟ اس پر، انبیاء نے عرض کیا کہ ہم نے اقرار کرلیا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا پھر گواہ ہوجاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں تمام انبیاء (علیہم السلام) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اور آپ پر ایمان لانے کا حکم فرمایا گیا چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امامت اور پیشوا ہونے کا رتبہ عطا فرمایا گیا ہے اور باقی انبیاء (علیہم السلام) کی حیثیت آپ کے تابع اور مقتدی کی ہے اور مقتدا کا اپنے مقتدی سے اعلیٰ اور افضل ہونا مسلم ہے، معلوم ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ذاتی اور باقی انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت عرضی ہے۔ اگر تمام انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کو ذاتی مان لیا جائے تو اس کا لازماً نتیجہ یہ ہے کہ سب کا رتبہ برابر ہوجائے حالانکہ یہ بات عقلاً و تقلاً محال ہے۔ (ملحض از آب حیات)
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شانِ علم
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام مخلوقات اور تمام اور انبیاء کرام (علیہم السلام) سے زیادہ علوم عطا فرمائے گئے، آپ کو اولین و آخرین کے وہ علوم عطا فرمائے گئے جو کسی اور کو نہیں دئیے گئے لیکن عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا إلا ھو“۔ (الأنعام : ٥٩)
ترجمہ : ” اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
چنانچہ حدیث پاک میں ہے : ”
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” هَلْ تَدْرُونَ مَنْ أَجْوَدُ جُودًا؟ ” قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ” اللهُ أَجْوَدُ جُودًا، ثُمَّ أَنَا أَجْوَدُ بَنِي آدَمَ، وَأَجْوَدُهُمْ مَنْ بَعْدِي رَجُلٌ عَلِمَ عِلْمًا فَنَشَرَهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمِيرًا وَحْدَهُ ” أَوْ قَالَ: ” أُمَّة وَحْدَهُ ” (شعب الإيمان: 1632)
ترجمہ : ” حضرت انس (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ سب سے بڑا سخی کون ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول یہ زیادہ جاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سب سے بڑا سخی ہے۔ پھر میں تمام انسانوں سے زیادہ سخی ہوں۔ اور پھر لوگوں میں سے زیادہ سخی وہ آدمی ہے جس نے علم سیکھا پھر اس کو آگے پھیلایا، وہ قیامت کے دن ایک جماعت کا سردار بن کر آئے گا۔
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) فرماتے ہیں : خداوند علیم تو عالم الغیب والشھادۃ اور بکل شیء علیم ہے، پھر اس کے ساتھ ” لا یضل ولا ینسی “ خود اپنی شان میں فرماتا ہے جس کے یہ معنی ہوئے کہ نا بہکے ، نہ بھولے، اس سورت میں غلطی ہو تو کیونکر ہو اور جناب سرور کائنات علیہ آلہ الصلوٰۃ والتسلیمات ہرچند بسر تھے پر خیر البشر ، خدا کی منظور نظر تھے خداوند کریم نے اپنے سب کمالوں سے حصہ کامل ان کو عنایت فرمایا تھا، من جملہ کمالات علم جو اول درجہ کا کمال ہے اپنے ہی علم میں سے ان کو مرحمت کیا چنانچہ ” وما ینطق عن الھوی (٢) ، ان ھو الا وھی یوحی “ (النجم : ٣، ٤) اس دعویٰ کے دلیل کامل ہے اس صورت میں آپ کا علم خدا ہی کا علم ہوا اور آپ کا کہا وہ خدا کا کہا نکلا۔ (فیوض قاسمی : ٤٣)
نبوت کا دارومدار عقل کامل اور اخلاق حمیدہ پر ہے
رہے معجزات وہ خود نبوت پر موقوف ہیں نبوت ان پر موقوف نہیں۔ یعنی یہ نہیں کہ جس میں معجزات نظر آئیں اس کو نبوت عطا کریں ورنہ خیر بلکہ جس میں نبوت ہوتی ہے اس کو معجزات عطا کرتے ہیں تاکہ عوام کو بھی اس کی نبوت کا یقین ہوجائے اور نبی کے حق میں اس کے معجزے بمنزلہ سند و دستاویز ہوجائیں اس لیے اہل عقل کے نزدیک اول عقل کامل اور اخلاق حمیدہ ہی کا تجس چاہیے۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عقل و اخلاق میں سب انبیاء سے افضل و اعلیٰ ہیں : مگر عقل اور اخلاص میں دیکھا تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے افضل و اعلیٰ پایا (غور کریں حضرت نانوتوی (رح) نے کس قدر صراحت اور دلیری کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے اعلیٰ و افضل ہونے کا دعویٰ کردیا اور وہ بھی غیر مسلموں کے ساتھ مباحثہ کے دوران ۔ پھر کسی کو اعتراض کی جرات بھی نہ ہوئی۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
عقل و فہم میں افضلیت کی دلیل
عقل و فہم میں اولیت اور افضلیت کے لیے تو اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہوگی کہ آپ بذات خود امی جس میں (یعنی جس ماحول میں ) پیدا ہوئے اور جہاں ہوش سنبھالا بلکہ ساری عمر گزری ، علوم سے یک لخت خالی، نہ علوم دینی کا پتا نہ علوم دنیاوی کا نشان، نہ کوئی کتاب آسمانی، نہ کتاب زمینی، بباعث جہل کیا کیا کچھ خرابیاں معاشرے میں نہ تھیں ؟
اب کوئی صاحب فرمائیں کہ ایسا شخص امی ایسے ملک میں اول سے آخر تک عمر گزاریں جہاں علوم کا نام و نشان نہ ہو، پھر اس پر ایسا دین اور ایسا آئیں، ایسی کتاب لاجواب اور ایسی ہدایات بینات جس پر ملک عرب کے جاہلوں کو علوم البیات یعنی علوم ذات وصفات خداوندی میں جو تمام علوم سے مشکل ہے اور علم عبادات اور علم اخلاق اور علم سیاسیات اور علم معاملات اور علم معاش و معاد میں، رشک ارسطو و افلاطون بنادیا جس کے باعث تہذیب عرب، رشک شائستگی حکمائے عالم ہوگی، چنانچہ ان کی کمال علمی پر آج اہل اسلام کی کتب مطولہ جو خارج از تعداد ہیں شاہد ہیں ، ایسے علوم کوئی بتلائے تو سہی کس قوم اور کس فریق میں ہیں جس کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ دونوں کا یہ حال ہے ان کے استاد اول اور معلم اول یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (عقل و دانائی اور فہم و فراست میں) کیا حال ہوگا ؟
اخلاق میں افضلیت کی دلیل
اور اخلاق کی یہ کیفیت کہ آپ کسی کے بادشاہ نہ تھے ، شہزادے نہ تھے، امیر زادے نہ تھے، نہ تجارت کا سامان تھا ، نہ کھیتی کے بڑے اسباب تھے ، نہ ہی میراث میں کوئی چیز ہاتھ آئی، نہ بذات خود کوئی دولت کمائی، ایسے افلاس میں عرب کے گردن کشوں ، جفاکشوں ، برابر کے بھائیوں کو ایسا مسخر کرلیا کہ جہاں آپ کا پسینہ گرے وہاں اپنا خون بہانے کو تیار ہیں۔
پھر یہ بھی نہیں کہ ایک دو روز کا ولولہ تھا کہ آیا نکل گیا بلکہ ساری عمر اسی کیفیت سے گزاردی۔ یہاں تک کہ گھر چھوڑا، باہر چھوڑا، زن و فرزند چھوڑے ، مال و دولت چھوڑا ، آپ کی محبت میں سب پر خاک ڈال کر اپنے سے آمادہ جنگ و پیکار ہوئے، کسی کو آپ مارا، کسی کے ہاتھ سے آپ مارے گئے، یہ تسخیر اخلاق نہ تھی تو کیا تھی ؟ یہ زور شمشیر کس تنخواہ سے آپ نے حاصل کیا، ایسے اخلاق کوئی بتلائے تو سہی حضرت آدم (علیہ السلام) میں تھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں تھے، یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں تھے یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں تھے۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل : جب عقل و اخلاق کی کیفیت تھی اور اس پر زہد کی یہ حالت کہ جو آیا وہی لٹایا، نہ کھایا نہ پہنا، نہ کوئی مکان بنانا، تو پھر کون سا عاقل یہ کہہ دے گا کہ حضرت موسیٰ علیہ و حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) وغیرہم تو نبی ہوں اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی نہ ہوں ان کی نبوت میں کسی کو تامل ہو کہ نہ ہو پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں اہل عقل و انصاف کو تامل کی گنجائش نہیں۔ (مباحثہ شاہجہان پور)
حضرت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ و مقام
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے ہیں : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے رسول ہیں، ان کو اللہ کا بیٹا سمجھنا شرکیہ عقیدہ ہے۔ قرآن کریم میں جا بجا اس باطل عقیدے کی تردید کی گئی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَابَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ} [الصف: 6] ترجمہ : ” اور وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا کہ : اے بنو اسرائیل ! میں تمہارے پاس اللہ کا پیغمبر بن کر آیا ہوں۔ “
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ } [التوبة: 30] ترجمہ :
” اور نصرانی یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ، یہ سب ان کے منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ “
{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ} [المائدة: 17]ترجمہ : ” یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے۔ “
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انھیں سولی پر نہیں چڑھایا گیا بلکہ زندہ ہی آسمانوں پر اٹھا لیا۔ قیامت کے قریب وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، چالیس یا پینتالیس برس زمین پر رہیں گے پھر ان کا انتقال ہوگا، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ مبارک میں دفن ہوں گے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ } [آل عمران: 59]
ترجمہ : ” اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، اللہ نے انھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا ” ہوجاؤ “ بس ہو ہوگئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا (20) قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا} [مريم: 20، 21]
ترجمہ : ” مریم نے کہا کہ : میرے لڑکا کیسے ہوجائے گا، جب کہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے، اور نہ میں کوئی بدکار عورت ہوں ؟ فرشتے نے کہا : ایسے ہی ہوجائے گا ، تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ : یہ میرے لیے ایک معمولی بات ہے اور ہم یہ کام اس لیے کریں گے تاکہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں، اور اپنی طرف سے رحمت کا مظاہرہ کریں ، اور یہ بات پوری طرح طے ہوچکی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا } [النساء: 157، 158]
ترجمہ : ” اور یہ کہا کہ : ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا، نہ انھیں سولی دے پائے تھے ، بلکہ انھیں اشتباہ ہوگیا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے ، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انھیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں۔ اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام ) کو قتل نہیں کر پائے بلکہ اللہ نے انھیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار اور بڑا حکمت والا ہے۔ “
چنانچہ حدیث پاک میں ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللهِ، لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلًا، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ، وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ، وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا، وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ، وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلَا يَقْبَلُهُ أَحَدٌ» (صحيح مسلم: 155)
ترجمہ : ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اللہ تعالیٰ کی مریم (علیہ السلام) کے بیٹے اتریں گے (آسمان سے ) اور وہ حاکم ہوں گے، عدل کریں گے، صلیب کو توڑدیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور ذمیوں سے جزیہ کو موقوف کردیں گے اور چھوڑدیں گے جو ان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا پھر ان سے سواری اور باربرداری کا کام نہیں لیا جائے گا اور یقیناً لوگوں کے دلوں سے کینہ، بغض، اور حسد جاتا رہے گا اور یقیناً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کو مال و دولت سے نوازنے کے لیے بلائیں گے لیکن کوئی بھی مال و دولت لینے والا نہ ہوگا۔ “
وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَآ ۙ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ
اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی کا مضمون ہے کہ اگر آپ کی قوم کے خوشحال اور مالدار قسم کے لوگ آپ کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ہر نبی کے ساتھ خوشحال لوگوں نے ایسا ہی سلوک کیا آپ گھبرائیں نہیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔ نبیوں کا مقابلہ کرنے والے بدبخت اکثرت صاحب ثروت لوگ ہی ہوا کرتے ہیں انھیں اپنی دولت پر ناز ہوتا ہے ، اس لیے وہ کسی غریب اور نادار کو اپنے پاس بٹھانا بھی پسند نہیں کرتے۔ ”کما ورد فd حدیث ھرقل“
اس آیت کے شان نزول میں امام ابن کثیر (رح) نے (تفسیر ابن کثیر : ص : ٨٩١، ج : ٢) پر ابن ابی حاتم (رح) کے حوالے سے حدیث نقل کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے بعثت میں دو تاجر آپس میں شراکت دار تھے جبکہ ایک شریک اپنے گھر میں تھا دوسرا تاجر سفر پر تھا اس نے وہیں یہ خبر سنی کہ مکہ کے ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اس نے اپنے شراکت دار کو لکھا، میں نے سنا ہے کہ مکہ کے ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، تو آپ اس کے احوال معلوم کر کے جوابی خط لکھیں، اس نے لکھا اس نبی کے پیروکار غریب غرباء ہی ہیں، کسی بڑے آدمی نے ایمان قبول نہیں کیا، یہ شخص فوراً اپنا کاروبار چھوڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور دریافت کیا آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کا رسول ہوں مجھے پر وحی نازل ہوتی ہے میں توحید اور ایمان و یقین کی دعوت دیتا ہوں، برائیوں سے خبردار کرتا ہوں، وہ شخص اسی مجلس میں مشرف بہ اسلام ہوگیا کہنے لگا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تو نے مجھے کس طرح پہچانا ؟ اس نے عرض کیا کہ آپ کو ماننے والے غریب لوگ ہیں، دولت مند اعراض کر رہے ہیں اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ
رزق کی تنگی اور کشادگی چونکہ انسانوں میں ہمیشہ غلط فہمیوں اور فسادعقائد کا ذریعہ رہی ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اصرار اور تکرار کے ساتھ اس کا ازالہ کیا جائے۔ اس لیے مکرر ارشاد فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی تمام تر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ کبھی وسعت دے کر آزماتا ہے کہ رزق کی وسعت کیا شکر کا باعث بنتی ہے یا اتراہٹ اور ناشکری کا۔ اور کبھی تنگی دے کر آزماتا ہے کہ رزق کی تنگی کیا بےصبری پیدا کرتی ہے یا اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ وہ امتحان ہے جس پر انسانیت کے پھلنے پھولنے کا دارومدار ہے۔ البتہ یہ بات کہ وسعت کب آتی ہے اور تنگی کب، اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت سے ہے۔ جو شخص اس حکمت پر یقین نہیں رکھتا وہ ہمیشہ گمراہی کا شکار ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ ارشاد فرمائی ہے کہ مالداروں کو یہ یقین ہونا چاہیے اور اسی سے شکر کی توفیق بھی ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے خرچ کرتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اسے ضرور واپس کرتا ہے۔ یعنی اس کی وجہ سے رزق میں برکت بھی ہوتی ہے اور آخرت میں اس کا بیش از بیش صلہ بھی ملے گا۔
وَھُوَ خَیْرُالرّٰزِقِیْنَ وہ بہترین رزق دینے والا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں بھی اس کی رزق رسانی کے ذرائع اس قدر رنگا رنگ اور لامحدود ہیں جن کا استقصاء ممکن نہیں، لیکن اس صفت کا اصل اظہار آخرت میں ہوگا کہ دنیا میں خرچ کیے ہوئے خزف ریزوں کے عوض میں وہ جو کچھ عطا کرے گا، آج اس کا اندازہ بھی ممکن نہیں۔ اس لیے یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہاں ” خیر “ ترجیح و تفضیل کے مفہوم میں نہیں بلکہ مطلق بیان صفت کے لیے ہے۔
وَلَوْ تَرٰٓى اِذْ فَزِعُوْا فَلَا فَوْتَ وَاُخِذُوْا مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ
یہ کفار یہاں ڈینگیں مارتے ہیں مگر وہ وقت عجیب قابل دید ہوگا جب یہ لوگ محشر کا ہول ناک منظر دیکھ کر گھبرائیں گے۔ اور کہیں بھاگنے کا امکان بھی نہیں ہوگا اور یہ قریبی مقام سے پکڑ لیے جائیں گے دنیا میں تو جرم کر کے بھاگ جانے کا امکان بھی ہوتا ہے۔ مجرم روپوش ہوجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصلے کے وقت ان کے فرار کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکے گا بلکہ فوراً گرفت میں آجائیں گے۔ اور اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ (تفسیر عثمانی وغیرہ)
بعض حضرات نے اس کو نزع اور موت کا حال قرار دیا ہے کہ جب موت کے وقت آجائے گا اور ان پر گھبراہٹ طاری ہوگی تو فرشتوں کے ہاتھ سے چھوٹ نہ سکیں گے۔ اور وہیں اپنی جگہ سے روح قبض کر کے پکڑ لیے جائیں گے۔ (معارف القرآن) ۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.