surah saffat with urdu translation

Surah Saffat With Urdu Translation, Surah Saffat Tafseer In Urdu

ترجمہ اور تفسير سورہ صافات

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ﴿1﴾

قسم ہے صف باندھ کھڑے ہونے والے (فرشتوں) کی

 فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا ﴿2﴾

پھر بندش کرنے والے (فرشتوں) کی

 فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا ﴿3﴾

پھر اس کی تسبیح و تلاوت کرنے والے (فرشتوں کی )

 إِنَّ إِلَٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ ﴿4﴾

کہ بیشک تمہارا معبود ایک ہی ہے۔

 رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ﴿5﴾

آسمانوں ، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ ان کا اور مشرقوں کا پروردگار ہے۔

 إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ ﴿6﴾

بیشک ہم نے آراستہ کیا ہے آسمان دنیا کو ستاروں کی آرائش کے ساتھ،

 وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ ﴿7﴾

اور ہر شریر شیطان سے حفاظت کی غرض سے (بھی)

 لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ ﴿8﴾

وہ عالم بالا کی (باتوں کی) طرف کان بھی نہیں لگا سکتے۔ اور ہر طرف سے مار کر دھکے دے دئیے جاتے ہیں

 دُحُورًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ ﴿9﴾

اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے

 إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ﴿10﴾

سوائے اس کے جو اچک کرلے بھاگا تو اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے۔

 فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا ۚ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ ﴿11﴾

پس ان سے پوچھو کہ کیا ان کے پیدا کرنے کا معاملہ زیادہ سخت ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کی ہیں ! ہم نے ان کو تو چپکتی مٹی سے پیدا کیا ہے

 بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ ﴿12﴾

بلکہ تم تعجب کرتے ہو اور وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔

 وَإِذَا ذُكِّرُوا لَا يَذْكُرُونَ ﴿13﴾

اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہیں تو وہ نصیحت کو قبول نہیں کرتے۔

 وَإِذَا رَأَوْا آيَةً يَسْتَسْخِرُونَ ﴿14﴾

اور جب وہ کوئی نشانی ( معجزہ) دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں

 وَقَالُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ ﴿15﴾

اور کہتے ہیں یہ تو بس ایک کھلا ہوا جادو ہے۔

 أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ ﴿16﴾

بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا پھر سے اٹھائے جائیں گے؟

 أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ ﴿17﴾

اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟

 قُلْ نَعَمْ وَأَنْتُمْ دَاخِرُونَ ﴿18﴾

( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ ہاں ( تم دوبارہ پیدا کئے جاؤ گے) اور تم ذلیل و خوار کئے جاؤ گے۔

 فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنْظُرُونَ ﴿19﴾

قیامت تو بس ایک ہی للکار ہوگی سو یہ سب دیکھنے بھالنے لگیں گے

 وَقَالُوا يَا وَيْلَنَا هَٰذَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿20﴾

اور کہیں گے، ہائے ہماری شامت ! یہ تو جزا کا دن ہے

هَٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴿21﴾

(بےشک) یہ (ہی) فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

 احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ ﴿22﴾  مِنْ دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِيمِ ﴿23﴾

جمع کرلو مشرکوں اور ان کے ہم مشربوں کو اور ان کو جن کی وہ عبادت اللہ کو چھوڑ کر کیا کرتے تھے۔

پھر ان سب کو دوزخ کا رستہ دکھاؤ۔

 وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ ﴿24﴾

ابھی انھیں روکے رکھو ان سے کچھ پوچھا جائے گا۔

 مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ ﴿25﴾

کیا بات ہے، اس وقت تم کو ایک دوسرے کی مدد نہیں کر رہے ہو !

 بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ ﴿26﴾

بلکہ یہ تو آج بڑے ہی فرمان بردار بنے ہوئے ہیں !

 وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿27﴾

اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے ، پوچھتے ہوئے۔

 قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ ﴿28﴾

اور کہیں گے کہ بیشک تم ہمارے اوپر دائیں طرف سے ( قوت و طاقت کے ساتھ) آیا کرتے تھے

 قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴿29﴾

(سرغنہ) کہیں گے کہ نہیں، بلکہ تم خود ہی ایمان نہیں لائے

 وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ ۖ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ ﴿30﴾

اور ہمارا تمہارے اوپر کوئی زور تو تھا نہیں بلکہ تم خود ہی سرکش لوگ تھے۔

 فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا ۖ إِنَّا لَذَائِقُونَ ﴿31﴾

سو ہم (سب ہی) پر ہمارے پروردگار کی یہ بات محقق ہوچکی تھی کہ ہم (سب) کو مزہ چکھنا ہے

 فَأَغْوَيْنَاكُمْ إِنَّا كُنَّا غَاوِينَ ﴿32﴾

ہم نے تم کو گمراہ کیا، ہم خود بھی گمراہ تھے۔

 فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ﴿33﴾

سو وہ (سب کے سب) اس روز عذاب میں شریک رہیں گے

 إِنَّا كَذَٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ ﴿34﴾

(اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ) بیشک ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا کرتے ہیں

 إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ﴿35﴾

یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ لوگ تکبر کیا کرتے تھے

 وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ ﴿36﴾

اور کہا کرتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں گے؟

 بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ ﴿37﴾

نہیں اصل یہ ہے کہ وہ ایک سچا دین لے کر آئے ہیں اور (دوسرے) پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں۔

 إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ ﴿38﴾

بیشک تم سب درد ناک عذاب کا مزہ چکھو گے

 وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿39﴾

مگر تمہیں اس کے مطابق ہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے

 إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿40﴾

مگر اللہ کے مخلص بندے (اس عذاب سے) بچ جائیں گے۔

 أُولَٰئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ ﴿41﴾

یہی وہ لوگ ہوں گے جن کا رزق متعین و مقرر ہے۔

 فَوَاكِهُ ۖ وَهُمْ مُكْرَمُونَ ﴿42﴾

(ان جنتوں میں) میوے اور ہر طرح کا اعزازو اکرام ہو گا

 فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿43﴾

راحت کے باغوں میں ہوں گے۔

 عَلَىٰ سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ ﴿44﴾

تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے

 يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ ﴿45﴾

۔ شراب کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے

 بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ ﴿46﴾

وہ شراب سفید ہوگی پینے والوں کے لیے مزیدار

 لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ ﴿47﴾

اس سے نہ چکر آئے گا، اور نہ اس سے وہ بہکی بہکی باتیں کریں گے۔

 وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ ﴿48﴾

اور ان کے پاس نیچی نگاہ والی اور بڑی بڑی آنکھوں والی (عورتیں ، حوریں) ہوں گی

 كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ ﴿49﴾

وہ حوریں خوبصورتی میں انڈے کے چھلکے کے نیچی چھپی ہوئی جھلی جیسی ہوں گی ( جیسے صاف و شفاف نرم و نازک) ۔

 فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿50﴾

پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھیں گے ( اور گفتگو کریں گے)

 قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ ﴿51﴾

ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا کہ ( دنیا میں) میرا ایک ساتھی تھا

 يَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ ﴿52﴾

وہ کہا کرتا تھا کیا تو بھی (حشر کے) معتقدین میں سے ہے

 أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِينُونَ ﴿53﴾

کیا جب ہم مر کھپ جائیں گے اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گی تو کیا ہمیں بدلہ اور جزا دی جائے گی

 قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ ﴿54﴾

(فرمایا جائے گا) کیا تم جھانک کر اس شخص کو دیکھنا چاہتے ہو؟

 فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ ﴿55﴾

وہ جھانک کر دیکھے گا تو وہ جہنم کے بیچ میں ( آگ سے جھلس رہا) ہوگا۔

 قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ ﴿56﴾

وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم تو نے مجھے برباد کردیا ہوتا۔

 وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ ﴿57﴾

اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی آج پکڑا ہوا ہوتا۔

 أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ ﴿58﴾

تو کیا ہم (اب) نہ مریں گے

 إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَىٰ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴿59﴾

پہلی مرتبہ مرنے کے بعد ، اور نہ عذاب دیئے جائیں گے

 إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿60﴾

بیشک یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے

 لِمِثْلِ هَٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ ﴿61﴾

ایسی ہی کامیابی حاصل کرنے کے لیے عمل کرنے والوں کو چاہیئے کہ عمل کریں

 أَذَٰلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ﴿62﴾

(اللہ تعالیٰ نے پوچھا ہے کہ بتا دو ) یہ مہمان نوازی بہتر ہے یا ” زقوم “ کا درخت

 إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ ﴿63﴾

جسے ہم نے ظالموں کے لیے ایک آزمائش بنایا ہے۔

 إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ ﴿64﴾

وہ (زقوم) ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑ (تہہ) سے نکلتا ہے۔

 طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ ﴿65﴾

اس کے برگ و بار گویا شیاطین کے سر ہوں۔

 فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ﴿66﴾

وہ لوگ اسی کو کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔

 ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ ﴿67﴾

پھر انھیں کھولتا ہوا پانی ملا کردیا جائے گا۔

 ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ ﴿68﴾

پھر اخیر ٹھکانا ان کا دوزخ ہی کی طرف ہوگا

 إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ ﴿69﴾

انھوں نے اپنے بڑوں کو گمراہ پایا تھا

 فَهُمْ عَلَىٰ آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ ﴿70﴾

سو یہ بھی انھیں کے قدم پر تیزی کے ساتھ چل پڑے۔

 وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ ﴿71﴾

اور ان سے پہلے بھی اگلوں میں اکثر گمراہ ہوچکے تھے

 وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ ﴿72﴾

اور ہم نے ان میں بھی ڈرانے والے بھیجے تھے

 فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ ﴿73﴾

سو دیکھ لیجئے ان کا کیسا برا انجام ہوا جنہیں ڈرایا گیا تھا

 إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿74﴾

سوائے اللہ کے ان خاص مخالص بندوں کے جنہیں چن لیا گیا تھا

 وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ ﴿75﴾

اور ہم کو نوح (علیہ السلام) نے پکارا، اور ہم خوب فریاد کے سننے والے ہیں۔

 وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ ﴿76﴾

اور ہم نے ان کو (نوح (علیہ السلام) کو) اور ان کے گھر والوں ( ان کے تمام ماننے والوں) کو بڑی مصیبت سے نجات عطاء کی ۔

 وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ ﴿77﴾

اور ہم نے ان کی اولاد کو ( ان کی جگہ) باقی رہنے دیا۔

 وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿78﴾

اور ہم نے بعد میں آنے والے میں ان کے ذکر ( خیر) کو چھوڑا

 سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ﴿79﴾

کہ سارے جہانوں میں نوح (علیہ السلام) پر سلامتی ہو

 إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿80﴾

بیشک ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں

 إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿81﴾

بیشک وہ ہمارے ایمان والے بندوں میں سے تھے

 ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ ﴿82﴾

اور پھر ہم نے دوسروں کو ( کفار و مشرکین کو) غرق کردیا

 وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ ﴿83﴾

اور بیشک ابراہیم (بھی نوح) کے طریقے پر تھے

 إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴿84﴾

(ان کا قصہ یاد کیجئے) جب وہ اپنے پروردگار کی طرف قلب سلیم کے ساتھ متوجہ ہوئے۔

 إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ ﴿85﴾

جب انھوں نے اپنے والد اور قوم سے کہا کہ تم کن ( فضول چیزوں) کی عبادت و بندگی کرتے ہو ؟

 أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ ﴿86﴾

کیا اللہ کے سوا دوسرے من گھڑت معبودوں کے طالب ہو؟

 فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿87﴾

تو تمہارا پروردگار عالم سے متعلق کیا خیال ہے؟

 فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ ﴿88﴾

پھر ابراہیم نے ستاروں کو ایک نگاہ بھر کے دیکھا

 فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ ﴿89﴾

پھر انھوں نے کہا کہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے

 فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ ﴿90﴾

غرض وہ لوگ ان کو چھوڑ کر چلے گئے۔

 فَرَاغَ إِلَىٰ آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ﴿91﴾

تو یہ ان کے ٹھاکروں میں جا گھسے اور کہنے لگے کیا تم کھاتے نہیں ہو؟

 مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ ﴿92﴾

کیا بات ہے کچھ بولتے نہیں !

 فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ ﴿93﴾

پھر ان پر قوت کے ساتھ جا پڑے اور مارنے لگے۔

 فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ ﴿94﴾

پھر ( ان کی قوم کے لوگ) ان کے پاس دوڑتے ہوئے آئے

 قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ﴿95﴾

(ابراہیم (علیہ السلام) نے) کہا کیا تم ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں (خودہی) تراشتے ہو۔

 وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴿96﴾

اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تم کو بھی اور ان چیزوں کو بھی جن کو تم بناتے ہو

 قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ﴿97﴾

انھوں نے کہا اس کے لیے ایک مکان بناؤ پس اس کو آگ میں جھونک دو

 فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ ﴿98﴾

غرض انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ برائی کرنا چاہی لیکن ہم نے ( کفار کی سازشوں کو) نیچا کر دکھایا۔

 وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴿99﴾

اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہی میری رہنمائی کرے گا

 رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿100﴾

اے میرے پروردگار مجھے ایک صالح (فرزند) دے

 فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ ﴿101﴾

سو ہم نے انھیں ایک حلیم المزاج لڑکے کی بشارت دی،

 فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴿102﴾

پھر جب وہ بھاگ دوڑ کی عمر کو پہنچ گیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاؤ کہ ( اس سلسلہ میں) تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا کہ اے میرے ابا جان ! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہی کیجئے اور آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے

 فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ﴿103﴾

پھر جب (ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل) دونوں نے حکم الٰہی کو مان لیا باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرا دیا

 وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ ﴿104﴾

اور ہم نے انھیں آواز دی کہ اے ابراہیم

 قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿105﴾

تم نے خواب کو خوب سچ کردکھایا۔ (وہ وقت ہی عجب تھا) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔

 إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ﴿106﴾

بیشک یہ کھلا ہوا امتحان تھا

 وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿107﴾

اور ہم نے اس کو ایک عظیم قربانی کے عوض چھڑا لیا

 وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿108﴾

اور ہم نے اس کا ذکر خیر بعد میں آنے والوں کے لیے باقی رکھا

 سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿109﴾

سلامتی ہو ابراہیم پر !

 كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿110﴾

ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔

 إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿111﴾

بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں تھے۔

 وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿112﴾

اور ہم نے اس کو اسحاق جیسے نبی اور خوش نصیب بیٹے کی بھی خوش خبری دی

 وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ ﴿113﴾

اور ہم نے اس پر بھی اور اسحاق پر بھی برکتیں نازل کیں اور ان کی ذریت میں سے خوب کار بھی ہیں اور اپنی جانوں پر کھلے ہوئے ظلم ڈھانے والے بھی۔

 وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿114﴾

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر بھی احسان کیا

 وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ ﴿115﴾

اور ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم کو بڑے غم سے نجات دی۔

 وَنَصَرْنَاهُمْ فَكَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ ﴿116﴾

اور ہم نے ان سب کی مدد کی، سو یہی لوگ غالب رہے۔

 وَآتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ ﴿117﴾

اور ہم نے ان کو روشن کتاب عطا فرمائی

 وَهَدَيْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿118﴾

اور ہم نے ان دونوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی

 وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ ﴿119﴾

اور ہم نے ان کے ذکر خیر کو آنے والوں میں باقی رکھا

 سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿120﴾

سلامتی ہو موسیٰ اور ہاورن پر

 إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿121﴾

ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔

 إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿122﴾

بیشک وہ دونوں ہمارے (کامل) ایمان دار بندوں میں تھے۔

 وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿123﴾

اور بیشک الیاس (علیہ السلام) بھی ( بنی اسرائیل کے) پیغمبروں میں سے ہیں

 إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿124﴾

جب انھوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے

 أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ﴿125﴾

بعل ( نامی بت) کو پکارتے ہو اور اس کو چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے

 اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ﴿126﴾

اللہ ہی تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا گلے باپ دادوں کا بھی پروردگار

 فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ﴿127﴾

تو انھوں نے اس کو جھٹلا دیا تو بیشک وہ گرفتار ہونے والوں میں سے ہوں گے۔

 إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿128﴾

سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے (جنہیں سزا سے بچا لیا گیا)

 وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿129﴾

اور ہم نے ان کا ذکر خیر آنے والوں کے لیے باقی رکھا ہے

 سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ﴿130﴾

الیاسیوں پر سلامتی ہو !

 إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿131﴾

بیشک ہم نیکو کاروں کو اسی طرح اجر دیا کرتے ہیں

 إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿132﴾

بیشک وہ ہمارے (کامل) ایمان دار بندوں میں سے تھے

 وَإِنَّ لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿133﴾

اور بیشک لوط (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے

 إِذْ نَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ ﴿134﴾

جب ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں (ماننے والوں) کو نجات عطا کی

 إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ ﴿135﴾

سوائے اس بڑھیا کے) حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے) جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی

 ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ ﴿136﴾

پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا

 وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِمْ مُصْبِحِينَ ﴿137﴾

اور بلاشبہ تم تو صبح و شام ان پر ( ان کی بستیوں پر) گزارتے رہتے ہو

 وَبِاللَّيْلِ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿138﴾

اور شب میں بھی، تو کیا تم سمجھتے نہیں

 وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿139﴾

اور بیشک یونس (علیہ السلام) پیغمبروں میں سے تھے

 إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿140﴾

(اس وقت کا قصہ یاد کیجیے) جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے۔

 فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ ﴿141﴾

پھر قرعہ ڈالا گیا تو وہ ملزم ٹھہرے

 فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴿142﴾

پھر انھیں ایک مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتے رہے

 فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ﴿143﴾

پھر اگر وہ (اللہ کی ) تسبیح کرنے والے نہ ہوتے

 لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿144﴾

تو مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے

 فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ ﴿145﴾

پھر ہم نے ان کو چٹیل میدان میں ڈال دیا حالانکہ وہ بیمار تھے

 وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ ﴿146﴾

اور ہم نے ان پر ایک بیل دار درخت بھی اگادیا۔

 وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ ﴿147﴾

اور ہم نے ان کو ایک لاکھ (آبادی) یا اس سے بھی زیادہ کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا تھا۔

 فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿148﴾

تو وہ ایمان لے آئے، سو ہم نے انھیں ایک زمانہ تک عیش دیا،

فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ ﴿149﴾

اب آپ لوگوں سے پوچھئے کہ کیا تمہارا پروردگار کے لیے تو بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے؟

 أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ ﴿150﴾

کیا ہم نے فرشتوں کو عورت پیدا کیا اور وہ دیکھ رہے تھے۔

 أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ ﴿151﴾

یہ لوگ محض من گھڑت طور پر یہ بات کہہ رہے ہیں

 وَلَدَ اللَّهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿152﴾

کہ اللہ کے اولاد ہے، اور یہ لوگ یقیناً بالکل جھوٹے ہیں۔

 أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ ﴿153﴾

کیا اللہ نے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی؟

 مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿154﴾

تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کس طرح کے فیصلے کرتے ہو؟

 أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿155﴾

کیا تم ہوش سے کام نہیں لیتے

 أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ ﴿156﴾

کیا تمہارے پاس کوئی واضح دلیل بھی موجود ہے؟

 فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿157﴾

پس پیش کرو تم اپنی کتاب اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

 وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ﴿158﴾

اور انھوں نے خدا اور جنوں کے درمیان بھی رشتہ جوڑ رکھا ہے اور جنوں کو خوب پتہ ہے کہ وہ عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔

 سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿159﴾

اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

 إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿160﴾

اللہ کے وہ بندے جو منتخب ہوئے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں

 فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ ﴿161﴾

پس تم اور جن کو تم پوجتے ہو

 مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ ﴿162﴾

(سب مل کر بھی) کسی کو اللہ سے نہیں پھیر سکتے

 إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ ﴿163﴾

سوائے اس کے جو جہنم میں جانے والا ہے

 وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ ﴿164﴾

اور ہم میں سے ہر ایک کے لیے بس ایک معین مقام ہے

 وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ﴿165﴾

اور ہم تو خدا کے حضور بس صف بستہ رہنے والے ہیں

 وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ﴿166﴾

اور ہم نے تو اس کی تسبیح کرتے رہنے والے ہیں

 وَإِنْ كَانُوا لَيَقُولُونَ ﴿167﴾

اور بیشک یہ لوگ کہتے رہے تھے

 لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِنَ الْأَوَّلِينَ ﴿168﴾

کہ اگر ہمارے پاس پہلے لوگوں جیسی کوئی کتاب (نصیحت) ہوتی

 لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿169﴾

تو ہم اللہ کے مخلص (منتخب) بندوں میں سے ہوتے

 فَكَفَرُوا بِهِ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿170﴾

پھر ( جب وہ قرآن آگیا تو) انھوں نے اس کا انکار کردیا ۔ (ایسے لوگ) بہت جلد ( اپنا انجام) دیکھ لیں گے

 وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ﴿171﴾

اور ہمارا وعدہ اپنے بندوں یعنی رسولوں کے لیے پہلے ہی صادر ہوچکا ہے

 إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ ﴿172﴾

کہ بیشک وہی کامیاب ہوں گے

 وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ﴿173﴾

اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا

 فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِينٍ ﴿174﴾

پس آپ تھوڑے عرصہ تک ان کو نظر انداز کر یں

 وَأَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ ﴿175﴾

پس آپ تھوڑے عرصہ تک ان کو نظر انداز کر یں

 أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ ﴿176﴾

کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟

 فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ﴿177﴾

تو یادر رکھیں کہ وہ جب ان کے صحنوں میں اترے گا تو بڑی ہی بری ہوگی ان لوگوں کی صبح جن کو اس سے آگاہ کیا جا چکا ہے۔

 وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِينٍ ﴿178﴾

تو کچھ دنوں کے لیے ان سے اعراض کرو

 وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ ﴿179﴾

اور ذرا انھیں دیکھتے رہئے، سوعنقریب یہ بھی دیکھ لیں گے۔

 سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿180﴾

تیرا رب، عزت کا مالک، ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں

 وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿181﴾

اور سلام ہو پیغمبروں پر

 وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿182﴾

اور ساری خوبیاں اللہ پروردگار عالم کے لیے ہیں۔

تعارف سورة الصّٰٓفّٰت

یہ سورة مبارکہ مکی سورت ہے قرآن پاک کی 37 ویں سورت ہے۔ اس میں 182 آیات اور پانچ رکوع ہیں۔ اس کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بعثت کے بعد درمیانی دور کے آخری حصہ میں نازل ہوئی۔ کیونکہ کفار کی ایذاء رسانی سے تنگ آکر بہت سے مسلمان حبشہ ہجرت کر گئے تھے اور اس وقت تقریباً 40 صحابہ کرام آپ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ کفار بڑے پر امید تھے کہ مسلمان اس قدر پریشانی کی حالت میں ہیں اس لیے زیادہ دیر باقی نہ رہ سکیں گے اور یہ تحریک جلد ہی نیست و نابود ہوجائے گی۔ عین اس وقت یہ آیات اتریں جن سے مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمت افزائی کی گئی اور کفار کو سمجھا دیا گیا کہ ان کی امیدیں جلد اور ضرور مٹی میں مل جائیں گی۔ کیونکہ تاریخی واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ حق و باطل کی جنگ میں حق ہی کو فتح نصیب ہوتی ہے۔ خاص طور سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی جان نثاری، قربانی اور ایمان کی مضبوطی کا ذکر یوں کیا گیا کہ مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہوگئی اور ہمت بلند ہوگئی اور کفار کے حوصلے پست ہونے لگے۔ توحید کا پیغام بڑے ہی موثر انداز میں اور آخرت کا یقین دلائل سے دیا گیا ہے۔

 اس سورت کا مرکزی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر زورہے، البتہ اس سورت میں خاص طور پر مشرکین عرب کے اس غلط عقیدہ کی تردید کی گئی ہے جس کی رو سے وہ کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ سورت کا آغاز فرشتوں کے اوصاف سے کیا گیا ہے، کفار کو کفر کے ہول ناک انجام سے ڈرایا گیا ہے، اور انھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود اس دنیا میں بھی اسلام ہی غالب آکر رہے گا، اسی مناسبت سے حضرت نوح، حضرت لوط، حضرت موسیٰ ، حضرت الیاس اور حضرت یونس (علیہم السلام) کے واقعات مختصر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اور انھوں نے قربانی کے جس عظیم جذبے سے اس کی تعمیل فرمائی، اس کا واقعہ بڑے موثر اور مفصل انداز میں اسی سورت کے اندر بیان ہوا ہے، سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔

فضائل سورہ

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جس نے جمعہ کے دن سورة یاسین اور صافات کی تلاوت کی پھر اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا تو اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا “۔ (درمنثور جلد 7 صفحہ 77 بروایۃ ابن ابی داود فی فضائل القرآن)

سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں (نماز میں) تخفیف کا حکم دیا کرتے تھے اور ہمیں نماز پڑھاتے ہوئے آپ صافات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ [ السنن الکبریٰ للنسائی : ٦؍٤٤٠، ح: ١١٤٣٢۔ مسند أحمد : ٢/٢٦، ح: ٤٧٩٦ ]

 صاحب روح المعانی نے فرمایا ہے کہ : سوره صافات آخرى  آیات کریمہ: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ ، وَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ جوامع اور کامل ترین آیات میں سے ہے۔ (روح المعانی ص : ٢١١: جلد : ٢٣) ۔

 خطیب بغدادی (رح) نے حضرت ابو سعید (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کا سلام پھیرنے کے بعد یہ آیات پڑھا کرتے تھے: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ ، وَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

نیز طبرانی نے حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : من سأل دبر کل صلوۃ : سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ ، وَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ثلاث مرات فقد اکتال بالمکیال الأوفی من الأجر. یعنی جس نے ہر نماز کے بعد یہ آیات مذکورہ پڑھیں، اس نے کامل ترین پیمانہ کے ساتھ اجر وثواب حاصل کرلیا۔

 ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : من سرہ أن یکتال بالمکیال الأوفی من الأجر یوم القیامة فلیقل آخر مجلسه حین یرید أن یقوم: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ ، وَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

 یعنی جسے یہ بات پسند ہو کہ روز قیامت وہ کامل پیمانہ کے ساتھ اجر حاصل کرے اسے چاہیے کہ جب وہ مجلس سے اٹھنے کا ارادہ کرے تو آخر میں مذکورہ کلمات پڑھ لے۔ اس روایت کو امام بغوی (رح) نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اتصالاً موقوفاً روایت کیا ہے۔

تشريح

﴿وَالصّــٰۗفّٰتِ صَفًّا﴾

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ  اپنى تفسير ميں لکھتے ہیں :

 والصّٰفّٰت صفاً کی تین تفسیریں کی گئی ہیں : (ا) حضرت ابن مسعود ‘ عکرمہ ‘ سعید بن جبیر ‘ مجاہد اور قتادہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں (٢) ضحاک نے حضرت ابن عباس رض اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد آسمان میں عبادت کرنے والے ہیں (٣) نقاش نے کہا اس سے مراد مومنوں کی جماعت ہے جب وہ صف باندھ کر نماز پڑھتے ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد مشرکین کے خلاف جہاد کرنے والے صف بستہ مجاہدین ہوں ‘ اور یہ زیادہ واضح ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یْقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَھَمْ بُنْیَانُ مَّرْ صُوْصُٗ (الصف: ٤)

بےشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے فرمایا تم اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف باندھتے ہیں ! ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! فرشتے اپنے رب کے سامنے کس طرح صف باندھتے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں پھر اس سے متصل صفوں کو پورا کرتے ہیں۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣٠‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٩١٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٨٤)

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمیں لوگوں پر تین وجوہ سے فضیلت دی گئی ہے ‘ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ہیں اور ہمارے لیے تمام روئے زمین کو مسجد بنادیا گیا ہے۔ اور تمام روئے زمین کی مٹی کو ہمارے لیے تیمم کا آلہ بنادیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢٢‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

﴿فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا﴾

زجر کا معنی ہے کسی شخص کو ڈرادھمکا کر کسی برے کام سے باز رکھنا ‘ پھر اس کو مطلقاً ڈانٹ ڈپٹ کر آوازیا کسی کو بھگانے اور دور کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ‘ علامہ ماوردی نے کہا کہ: حضرت ابن مسعود ‘ مسروق ‘ قتادہ ‘ عکرمہ ‘ سعید بن جبیر اور مجاہد نے کہا ہے کہ یہ زجر کرنے والے فرشتے ہیں اور وہ بادلوں کو زجر کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں ‘ اور بندوں کو گناہوں سے زجر اور ملامت کرتے ہیں ‘ امام رازی نے کہا ہے کہ فرشتوں کی بنوآدم ( علیہ السلام) کے دلوں میں تاثیر ہوتی ہے وہ ان کے دلوں میں الہامات کے ذریعہ تاثیر کرکے ان کو گناہوں سے روکتے ہیں اور ان پر ملامت کرتے ہیں ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ شیاطین کو زجر اور ملامت کرتے ہوں کہ تم کیوں انسانوں کو برے کاموں پر اکساتے ہو (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٧‘ تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣١٤)

﴿فَالتّٰلِيٰتِ ذِكْرًا﴾

اس سے مراد قرآن کریم کی تلاوت بھی ہوسکتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغولیت بھی، بہرحال ! یہ تینوں صفتیں فرشتوں کی ہیں، اور ان میں بندگی کی تمام صورتیں جمع ہیں، یعنی صف باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا، طاغوتی طاقتوں پر روک ٹوک رکھنا، اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت اور ذکر کی مشغول رہنا۔ ان کی قسم کھا کر یہ فرمایا گیا ہے کہ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور اس کا نہ کوئی شریک ہے، اور نہ اسے اولاد کی حاجت ہے۔ فرشتوں کے ان اوصاف کی قسم کھا کر یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ اگر فرشتوں کے ان حالات پر غور کرو تو وہ سب اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لگے ہوئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے ان کا رشتہ باپ بیٹی کا نہیں، بلکہ عابد اور معبود کا ہے۔

﴿وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ مَّارِدٍ﴾

اس آیت میں شیطان کے ساتھ اس کی صفت مارد کا ذکر ہے ‘ مارد کا معنی ہے جو ہر قسم کی خیر اور بھلائی سے خالی ہو ‘ جس درخت پر پتے نہ ہوں اس کو شجرامرد کہتے ہیں ‘ ریت کے جس ٹکڑے پر کوئی سبزہ یا روئیدگی نہ ہو اس کو رملۃ مرداء کہتے ہیں ‘ اور جس لڑکے کے چہرے پر ڈاڑھی نہ آئی ہو اس کو امرد کہتے ہیں اور اس آیت میں مارد کا معنی وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمان برداری سے خالی ہو۔

حضرت شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں کہ انھیں ستاروں کی روشنی سے آگ نکلتی ہے جس سے شیطان کو مار پڑتی ہے جیسے سورج اور آتشی شیشہ سے ، یعنی اصل ستارے اپنے حال پر رہتے ہیں اور جو شعلے ان کی روشنی سے نکلتے ہیں ان سے شیاطین کو مارا جاتا ہے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ستارے دو قسم کے ہیں ایک بڑے بڑے جو لوگوں میں مشہور ہیں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے ان کو اللہ تعالیٰ نے فضاء آسمانی میں معلق کردیا ہے اس قسم کے ستاروں کو اللہ تعالیٰ شیاطین کے رجم کے لیے تیار کرتا ہے یا وہ پہلے سے موجود ہیں مگر نظر نہیں آتے لیکن جب وہ شیاطین پر پھینکے جاتے ہیں تو حرکت کی تیزی کی وجہ سے شعلہ کی صورت میں ہو کر شیاطین پر گرتے ہیں۔

 فائدہ: جنات اور شیاطین کا مادہ اگرچہ ناری اور آتشی ہے مگر شہاب ثاقب سے ان کا جل جانا ایسا ہی ہے جیسا کہ انسان کا اصل مادہ خاک ہے مگر اینٹ اور پتھر کے مارنے سے وہ زخمی ہوجاتا ہے اور کبھی ہلاک بھی ہوجاتا ہے۔ ( حضرت کاندھلوی )

 حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک انصاری نے بیان کیا کہ ایک رات کو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ‘ کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس کی روشنی پھیلی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں تم اس حادثہ کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ‘ ہم یہ کہتے تھے کہ آج رات کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا کوئی بہت بڑا آدمی فوت ہوگیا ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ستارہ اس وجہ سے نہیں ٹوٹتا کہ کوئی مرتا ہے یا پیدا ہوتا ہے ‘ لیکن ہمارا رب تبارک و تعالیٰ جب کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو حاملیں عرش فرشتے سبحان اللہ کہتے ہیں ‘ پھر جو ان کے قریب آسمان کے فرشتے ہیں سبحان اللہ کہتے ہیں ‘ حتیٰ کے ان کی تسبیح آسمان دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے ‘ پھر حاملین عرش کے قریب والے حاملین عرش سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ پھر وہ خبر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ‘ پھر آسمان کے بعض فرشتے بھی دوسروں کو بتاتے ہیں (کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے) حتیٰ کہ آسمان دنیا تک خبر پہنچتی ہے پھر جن اس سنی ہوئی بات کو لے اڑتے ہیں اور اسے ( کاہنوں کے کانوں میں) پھونک دیتے ہیں ‘ پس اگر وہ اسی طرح خبر دیں تو وہ سچ ہوتی ہے ‘ لیکن وہ اس میں اپنی مرضی سے کچھ اور ملا دیتے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٢٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٤‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٧٢)

کاہنوں کی اقسام

علامہ یحییٰ بن شرف نودی لکھتے ہیں: قاضی عیاض (رح) نے کہا ہے کہ عرب میں کہانت کی تین قسمیں تھیں :

(١) کسی انسان کا جِنّ دوست ہوتا تھا وہ آسمان سے خبریں سن کر آتا اور اس شخص کو بتا دیتا ‘ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد یہ قسم باطل ہوگئی۔

(٢) جِنّ زمین کے گردونواح اور اطراف میں پھر کر اس کی خبریں اپنے دوستوں کو بیان کرتا ‘ اس قسم کا وجود بعید نہیں ہے ‘ معتزلہ اور بعض متکلمین نے ان دونوں قسموں کا انکار کیا ہے ‘ لیکن اس قسم کے وجود میں کوئی استحالہ اور بعد نہیں ہے ‘ اور ان کی خبر کبھی سچ ہوتی ہے اور کبھی جھوٹ اور شرعاً ان کی خبر سننا اور اس کی تصدیق کرنا ممنوع ہے۔

(٣) اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں میں ایک قوت پیدا کی ہے ( جس سے وہ مستقبل کے امور کو جان لیتے ہیں) لیکن ان کی خبروں میں زیادہ ترجھوٹ ہوتا ہے ‘ اس فن کے ماہر کو عراف کہتے ہیں ‘ عراف وہ شخص ہے جو بعض اسباب اور مقدمات سے بعض چیزوں کی معرفت حاصل کرتا ہے ‘ ان تمام اقسام کو کہانت کہا جاتا ہے اور شریعت نے ان سب کی تکذیب کی ہے اور ایسے لوگوں کے پاس جانے سے منع کیا ہے۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ٢٣٣۔ ٢٣٢‘ نور محمد اصح المطابع کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

﴿لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰي وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ﴾

  الملاء اس جماعت کو کہتے ہیں جو کسی رائے پر متفق ہوجائے اور اس کا اطلاق مطلق جماعت اور مطلق اشراف پر بھی کیا جاتا ہے اور الملا الاعلیٰ ‘ الملا الاسفل کے مقابلہ میں ہے : آسمان کے اوپر رہنے والوں کی جماعت جو انسانوں اور جِنّات پر مشتمل ہے وہ الملا الاسفل ہے اور آسمان کے اوپر رہنے والوں کی جماعت پر مشتمل ہے وہ الملا الاعلیٰ ہے ‘ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے مراد اشراف ملائکہ ہیں ‘ اور ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد کراماً کا تبین ہیں۔

﴿دُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ﴾

دحور کا معنی ہے دھتکار نا اور اگر دحور کی دال پر زبر ہو تو اس کے معنی ہے دھتکارا ہوا ‘ دفع کیا ہوا جیسے مردود کا معنی ہے اور واصب کا معنی ہے ‘ دائم۔

﴿اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَةَ فَاَتْــبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ﴾

الخطفة کا معنی ہے کسی چیز کو اچک لینا ‘ کسی شخص غفلت سے فائدہ اٹھا کر اس سے کوئی چیز اچک لی جائے ‘ یہاں اس سے مراد ہے وہ جلدی سے فرشتوں کی باتوں کو اچک لیتے تھے۔ (عنایۃ القاضی ج ٨ ص ٦١۔ ٥٧‘ روح المعانی جز ٢٣ ص ١٠٥۔ ١٠٢‘ بیروت)

علامہ ابوالحسن الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں: شہاب کا معنی ہے آگ کا شعلہ ‘ اور دوسرا قول ہے اس کا معنی ہے ستارہ ‘ اور ثاقب کے معنی میں چھ قول ہیں:

زید رقاشی نے کہا جو کسی چیز میں سوراخ کر دے وہ ثاقب ہے ‘ ضحاک نے کہا اس کے معنی ہے روشن ‘ ابن عیسیٰ نے کہا اس کا معنی ہے گزرنے والا ‘ الفراء نے کہا اس کا معنی ہے بلند ‘ السدی نے کہا اس کا معنی ہے جلانے والا ‘ زیدبن اسلم اور خفش نے کہا اس کا معنی ہے روشن ہونے والا۔ (النکت والعیون ض ٥ ص ٣٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)

علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ شہاب ثاقب اصل میں آگ کے روشن شعلہ کو کہتے ہیں اور یہاں اس سے مراد وہ چیز ہے جو فضاء میں اس طرح دکھائی دیتی ہے جیسے آسمان سے کوئی ستارہ ٹوٹ کر گرا ہو۔ (روح المعانی جز ٢٣ ص ١٠٦۔ ١٠٥)

امام عبدالرحمن بن محمد بن ادریس الرازی ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند مے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جب شیطان پر شہاب ثاقب مارا جاتا ہے تو وہ اس سے خطا نہیں کرتا۔ (رقم الحدیث : ١٨١٣٧)

یزید رقاشی نے کہا شہاب شیطان میں سوراخ کرکے دوسری جانب سے نکل جاتا ہے۔ (رقم الحدیث : ١٨١٣٨)

اس میں اختلاف ہے کہ جب شیطان کو آکر شہاب ثاقب لگتا ہے تو آیا وہ اس سے ہلاک ہوجاتا ہے یا اس سے ْصرف ایذاء پہنچتی ہے ‘ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب شیطان کو شہاب ثاقب آ کر لگتا ہے تو نہ وہ اس سے قتل ہوتا ہے نہ ہلاک ہوتا ہے ‘ لیکن وہ اس سے جل جاتا ہے اور اس کے بعض اعضاء ضائع ہوجاتے ہیں ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ ہلاک ہوجاتا ہے اور مرجاتا ہے۔

جِناّت ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلےبھی آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے یا نہیں؟

امام ابن الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ نے بھی المنتظم میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بیس دن بعد ستارے ٹوٹنے کا واقع رونما ہوا ‘ لیکن صحیح یہ ہے کہ ستارے ٹوٹنے کے واقعات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پہلے بھی ہوتے تھے ‘ اور زمانہ جاہلیت کے اکثر اشعار میں اس کا ذکر ہے ‘ لیکن ان شیاطین کو بھگایا نہیں جاتا تھا ‘ یا ان سے شیاطین کو بھگایا تو جاتا تھا ‘ لیکن اس سے شیاطین کے آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے چوری چھپے جانے کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا تھا۔

اس سلسلہ میں راجح قول یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی شیاطین چوری چھپے آسمانوں پر جاتے تھے اور کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہوجاتے تھے اور فرشتوں کی باتیں اچک لیتے تھے لیکن جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگئی تو ان پر بہت سختی کی گئی اور ان کو آسمانوں پر جانے سے بالکل ہی روک دیا گیا ‘ بعض سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے پہلے ابلیس آسمانوں پر چلا جاتا تھا اور ان کی ولادت کے بعد اس کو تین آسمانوں پر جانے سے روک دیا گیا ‘ اور جب ہمارے نبی سیدنامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوگئے تو ابلیس کو تمام آسمانوں پر جانے سے روک دیا گیا ‘ اور شیاطین پر ستارے مارے گئے ‘ تب قریش نے کہا کہ قیامت آگئی۔

 بعض علامہ نے کہا کہ محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ستارے پہلے بھی گرائے جاتے تھے لیکن ظہور اسلام کے بعد آسمانوں کو سختی سے محفوظ کردیا گیا ‘ اللہ تعالیٰ نے جِنّاب کے اس قول کا ذکر فرمایا ہے:

 وَّاَ نَّالَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْ مُلِئَتْ حَرَسًاشَدِیْدًاوَّشُھُبًا وَّاَنَّاکُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَا عِدَللِسَّمْعِ فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْلَه شِھَابًا رَّصَدًا (الجن : ٩۔ ٨) (روح المعانی جز ٢٣ ص ١٠٩۔ ١٠٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

 اور بیشک ہم نے آسمانوں کو چھوا تو ہم نے دیکھا کہ وہ سخت پہرے داروں سے اور شہابوں سے بھرا ہوا ہے اور ہم ( اس سے پہلے فرشتوں کی باتیں) سننے کے لیے چند جگہوں پر بیٹھ جاتے تھے ‘ پس اب جو کوئی شخص کان لگاتا ہے تو وہ اپنے گھات میں آگ کا شعلہ (شہاب) تیار پاتا ہے۔

 اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس بات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے کہ اس زمانے میں جو شہاب ٹوٹ کر گرتے ہیں آیا ان سے شیاطین کو مارنے کا قصد کیا جاتا ہے یا نہیں ‘ اور قطعی طور پر اس طرح کہنا غیب پر حکم لگانے کے مترادف ہے۔

﴿اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ﴾

وأزواجھم سے کیا مراد ہے؟

 (١) :۔ ان مشرکوں کے ساتھ ان کی مشرک بیویوں کو بھی جمع کرو۔ (معالم التنزیل : ص: ٢١، ج: ٤، قرطبی: ص: ٧٦، ج: ١٥) ۔

 (٢) :۔ یہ ہے کہ ان کے اتباع یعنی یہودی یہودی کے ساتھ، نصرانی نصرانی کے ساتھ ملے گا لیکن اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں ازواج سے مراد یہ ہے کہ مجرم کو اس کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ ٹولیوں میں جمع کرلو۔ جیسے سود خور کو دوسرے سود خوروں کے ساتھ، زنا کار کو دوسرے زنا کاروں کے ساتھ، شراب خور کو دوسرے شراب خوروں کے ساتھ جمع کرلو۔ (مظہری: ص: ١٢٢، ج: ٨، معالم التنزیل: ص: ٢١، ج: ٤، قرطبی: ص: ٨٧٦، ج: ١٥)

﴿قَالُوْٓا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ﴾

”یمین“ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک معنی قوت اور طاقت کے بھی ہیں اس معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ ہوگی کہ ہم پر تمہاری آمد بڑے زور کی ہوا کرتی تھی، یعنی تم ہم پر خوب زور ڈال کر ہمیں گمراہ کیا کرتے تھے۔ (قرطبی: ص: ٦٩، ج: ١٥)

 اس کے علاوہ یمین کے معنی قسم کے بھی آتے ہیں تفسیر یہ ہوگی کہ تم ہمارے پاس قسمیں لے کر آیا کرتے تھے یعنی قسم کھا کر ہم پر یہ باور کراتے تھے کہ ہمارا مذہب درست ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم (معاذ اللہ) باطل ہے یہ دونوں تفسیریں درست ہیں۔ (قرطبی: ص: ٦٨، ج: ١٥)

﴿فَوَاكِهُ ۚ وَهُمْ مُّكْـرَمُوْنَ﴾

”فواکه“ ”فاکھة“ کی جمع ہے اور عربی میں ”فاکھة“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بھوک کی ضرورت رفع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ لذت حاصل کرنے کے لیے کھائی جائے۔ اور اردو میں اس کا معنی ” میوہ “ اس لیے کردیا جاتا ہے کہ ” میوہ “ بھی لذت حاصل کرنے کے لیے کھایا جاتا ہے۔

 علامہ بغوی (رح) اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ جنت کی تمام غذائیں لذت حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جائیں گی نہ کہ ان سے قوت جسمانی حاصل کی جائے گی۔ (معالم التنزیل: ص: ٢٢، ج: ٤، مدارک: ص: ١٧، ج: ٤)

 وھم مکرمون: اہل جنت کو یہ رزق پورے اعزازو اکرام کے ساتھ دیا جائے گا۔ اگر عزازواکرام نہ ہو تو لذیذ سے لذیذ غذا بھی بےحلاوت ہوجاتی ہے۔ اس لیے میزبان کا حق صرف کھانا کھلانا نہیں بلکہ پورا اعزازو اکرام بھی حقوق میں سے ہے۔

﴿عَلٰي سُرُرٍ مُّتَـقٰبِلِيْنَ﴾

اس کی عملی صورت کیا ہوگی ؟ اس کا صحیح علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے مگر بعض حضرات نے فرمایا کہ اس مجلس کا دائرہ کار اتنا وسیع ہوگا کہ کسی کو کسی کی طرف پشت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ (قرطبی : ص : ٧١، ج : ١٥، معالم التنزیل : ص : ٢٢، ج : ٤، خازن : ص : ١٧، ج : ٤: مدارک : ص : ١٧، ج : ٤)

﴿بَيْضَاۗءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ، لَا فِيْهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُوْنَ﴾

غول کا معنی ہے درد سر ‘ مستی ‘ نشہ ‘ یعنی جنت کی شراب سے درد سر اور بدمستی نہیں ہوگی ‘ اس شراب کو پینے سے سر میں چکر نہیں آئیں گے ‘ ناگہانی ہلاک کردینے والی چیز کو بھی غول کہتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٧٨۔ ٤٧٧‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ)

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ خمر میں چار اوصاف ہوتے ہیں (١) نشہ آور ہونا (٢) سردرد پیدا کرنا (٣) قے آور ہونا (٤) اور پیشاب آور ہونا اور جنت کی شراب ان چاروں اوصاف سے پاک ہوگی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨١٧٧)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی مرض (خود بہ خود) متعدی نہیں ہوتا اور نہ بدشگونی کی کوئی حقیقت ہے اور نہ غول کی کوئی تاثیر ہے۔ (صحیح مسلم کتاب السلام رقم الحدیث الباب : ١٠٧‘ رقم بلا تکرار : ٢٢٢٢ رقم المسلسل : ٥٦٨٧)

علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ عرب یہ گمان کرتے تھے کہ جنگلات میں غول رہتے ہیں اور غول جنات اور شیاطین کی جنس سے ہوتے ہیں وہ لوگوں کو مختلف رنگ کی صورتوں میں نظر آتے ہیں اور مسافروں کو راستے سے بہکا کر ہلاک کردیتے ہیں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں ان کے اس گمان کو باطل کیا ہے۔

دوسرے علماء نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ مراد نہیں ہے کہ غول کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ عزبوں کا یہ گمان باطل ہے کہ غول رنگ برنگی صورتوں میں دکھائی دیتے ہیں اور لوگوں کو راستے سے بہکا دیتے ہیں ‘ لیکن جنات میں جادو گر ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں اپنے خیالات ڈال دیتے ہیں اور ان کو شبہات اور تیسس میں مبتلا کردیتے ہیں۔

ایک اور حدیث میں ہے: حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جت تم زرخیز اور سرسبز علاقوں میں سفر کرو تو اپنی سواریوں کو چرنے دو ‘ اور اپنی منزل کھوٹی نہ کرو ‘ اور جب تم خشک اور بنجر علاقوں سے گزروتو جلدی گزر جاؤ اور اندھیرا پھیلنے سے بچو کیونکہ رات کو زمین لپیٹ دی جاتی ہے ‘ اور جب غیلان (جنات) تم کو پریشان کریں تو جلدی سے اذان دو (تاکہ ان کا شردور ہو) اور تم راستہ کے وسط میں سواری سے اترنے اور نماز پڑھنے سے پرہیز کرو کیونکہ وہاں سانپ اور درندے ہوتے ہیں اور وہاں قضاء حاجت سے بھی اجتناب کرو کیونکہ لوگ ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣٠٥‘ طبع قدیم ‘ مسند احمد قرم الحدیث : ١٣٨٦٥‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ غول بیاباں کا بہرحال وجود ہے۔ (شرح مسلم للنووی ج ٩ ص ٥٩٦٣۔ ٥٩٦٢‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ نے دراصل یہ تقریر کی ہے۔ (نہایہ ج ٣ ص ٣٥٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ مسلم : ٢٢٢٢ کی شرح لکھتے ہیں: جن کسی کو گمراہ نہیں کرسکتا اور نہ کسی کی کوئی صفت مغیر کرسکتا ہے ‘ اسی طرح حضرت عمر نے فرمایا کوئی شخص کسی کی کوئی صفت مغیر نہیں کرسکتا لیکن جنات میں جادو گر ہوتے ہیں جب وہ تم کو پریشان کریں تو نماز اذان دو۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلمج ٧ ص ١٤٦۔ ١٤٥‘ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

علامہ محمد بن خلیفہ ابی مالکی متوفیک ٨٢٨ ھ اور علامہ محمد بن محمد السنوسی المتوفی ٨٩٥ ھ نے بھی علامہ ابن الاثیر اور علامہ نووی کی تقریر نقل کی ہے اور اس کے بعد مزید یہ لکھا ہے:

یہ بھی احتمال ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سیپہلے غول بیاباں ہوتے تھے اور اس کے بعد اللہ سبحانہ نے ان کو اپنے بندوں سے رفع کردیا اور یہ آپ کی بعثت کے خصائص میں سے ہے سج طرح آپ کی بعثت سے پہلے جنات آسمانوں سے فرشتوں کی باتیں چوری چھپے سن لیا کرتے تھے اور آپ کی بعثت کے یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٧ ص ٤٢٤‘ مکمل الاکمال مع الاکمال ج ٧ ص ٤٢٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

نیز اس آیت میں ینزفون کا لفظ ہے اس کا معین ہے کسی چیز کا ختم ہوجانا نزف الماء کہتے ہیں جب کنویں کا تمام پانی نکال لیا جائے اور اس میں بالکل قانی نہ رہے ‘ نزف فی الصومۃ اس وق تکہتے ہیں جب کسی شخص کے اپنے موقف پر تمام دلائل مسترد کردیئے جائیں اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ رہے ‘ اور اس آیت میں لا ینفزون سے مراد یہ ہے کہ جنت کی شراب پینے سے مومنوں کی عقل کام کرتی رہے گی ختم نہیں ہوگی اور دوہ بہکی بہکی باتیں نہیں کریں گے۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٣١‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

﴿وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِيْنٌ﴾

جنت کی حوریں نگاہیں نیچے رکھنے والی ہوں گی اس کا مطلب یہ ہے کہ جن مردوں کے ساتھ ان کا ازدواجی رشتہ اللہ تعالیٰ نے قائم کردیا وہ ان کے علاوہ کسی بھی مرد کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی۔ (قرطبی : ص : ٧٣، ج : ١٥)

 علامہ ابن جوزی (رح) نے نقل فرمایا ہے کہ یہ عورتیں اپنے خاوندوں سے کہیں گی میرے پروردگار کی عزت کی قسم ! جنت میں مجھے تم سے بہتر کوئی نظر نہیں آتا جس اللہ نے مجھے تمہاری بیوی اور تمہیں میرا شوہر بنایا تمام تعریفیں اسی کی ہیں۔ علامہ ابن جوزی (رح) نے اس کا ایک مطلب یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کی نگاہیں نیچے رکھیں گی۔ یعنی وہ خود اتنی خوب صورت اور وفا شعار ہوں گی کہ ان کے خاوندوں کو کسی اور کی طرف نظر اٹھانے کی خواہش ہی نہ ہوگی۔ (تفسیر زاد المسیر لابن جوزی: ص : ٥٧، ٥٨، ج : ٨)

﴿كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ﴾

کأنھن بیض مکنون: گویا کہ وہ پردے میں رکھے ہوئے انڈے ہیں۔ عرب کے لوگ عام طور پر خوبصورت عورت کو شتر مرغ کے انڈے سے تشبیہ دیتے ہیں جو کہ بالکل شفاف اور اوپر سے ڈھاپا ہوا ہو۔ (معالم التنزیل: ص: ٢٣، ج: ٤)

اور شترمرغ کے انڈے سے اس تشبیہہ میں ایک اور خاص پہلو یہ ہے کہ عرب لوگ اپنی کنواری لڑکیوں کی حفاظت اور پاکدامنی کے سلسلے میں ان کو شترمرغ کے انڈوں سے تشبیہ اس لیے دیا کرتے تھے کہ شترمرغ اپنے انڈوں کی حفاظت کیلئے اپنی جان لڑا دیتا ہے۔ سو اس تشبیہ میں وہ عورتوں کی عفت، صیانت اور رنگ تینوں چیزوں کا لحاظ کرتے تھے اور ” مکنون ” میں ان کے اچھوتے پن کی طرف اشارہ ہے۔ سو جنت کی وہ عورتیں اپنے حسن ظاہر اور اپنی عفت اور پاکدامنی کی باطنی خوبیوں کے اعتبار سے بےمثال ہونگی ۔ والحمد للہ جل وعلا ۔ سو حسن ظاہر کے ساتھ ساتھ حسن باطن یعنی ان کی عفت و پاکدامنی کا بھی پایا جانا اور بدرجہ تمام و کمال پایا جانا حوران جنت کا ایک ایسا خاص وصف اور ان کی ایک ایسی امتیازی شان ہوگی جو ان کے سوا اور کہیں نہ کبھی پائی گئی ہے اور نہ کبھی پائی جانی ممکن ہے۔

﴿قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّىْ كَانَ لِيْ قَرِيْنٌ﴾

اہل جنت کی مجالس میں ایک شخص کی داستان

 اوپر کی آیات میں اہل جنت کے عمومی حالات بیان فرمانے کے بعد اب ایک جنتی کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا جو جنت کی مجلس میں اپنے ایک کافر دوست کو یاد کرے گا۔ علامہ بغوی (رح) فرماتے ہیں۔ اس مومن شخص کا نام یہودا اور اس کافر کا نام قطروس ہے اور یہ وہی دو ساتھی ہیں جن کا ذکر سورة کہف کی آیت : واضرب لھم مثلاً رجلین… الخ میں  ہے۔ (معالم التنزیل ص : ٢٣: ج : ٤)

 اور تفسیر مظہری میں کافر کا نام مطروس لکھا ہے۔ (مظہری : ص : ١١٦، ج : ٨)

 اور علامہ سیوطی تفسیر در منثور میں متعدد تابعین سے اس شخص کی تعین کے لیے ایک اور واقعہ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو آدمی کاروبار میں شریک تھے۔ ان کو آٹھ ہزار دینار کی آمدنی ہوئی اور دونوں نے چار چار ہزار آپس میں تقسیم کئے ایک شریک نے ایک ہزار دینار کی زمین خریدی دوسرے ساتھ نے کہا اے اللہ میں آپ سے ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں زمین خریدتا ہوں اور ایک ہزار دینار صدقہ کردیا۔ پھر اس کے ساتھى نے ایک ہزار روپے خرچ کر کے گھر بنوایا تو اس شخص نے عرض کیا یا اللہ میں ایک ہزار دینار میں آپ سے جنت کا ایک گھر خریدتا ہوں مزید ایک ہزار صدقہ کردیا، اس کے بعد اس کے ساتھی نے ایک عورت سے شادی کی اس پر ایک ہزار خرچ کیا۔ تو اس نے عرض کیا یا اللہ میں جنت کی عورتوں میں سے کسی کو پیغام دیتا ہوں۔ اور ایک ہزار دینا نذر کرتا ہوں پھر اس کے ساتھی نے ایک ہزار دینار میں کچھ غلام اور سامان خریدا تو اس نے پھر ایک ہزار صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کے عوض جنت کے غلام اور جنت کا سامان طلب کیا۔ اس کے بعد اتفاق سے اس مومن کو شدید کوئی حاجت پیش آئی اپنے سابق شریک کافر دوست کے پاس گیا اور اپنی ضرورت کا ذکر کیا۔ تو اس نے پوچھا تمہارے مال کا کیا ہوا ہے ؟

 اس نے جواب میں پورا واقعہ سنایا، اس پر وہ حیران ہو کر کہا کیا واقعی تم اس بات کو سچا سمجھتے ہو کہ جب ہم مرکر خاک ہوجائیں تو ہمیں دوسری زندگی ملے گی۔ مذکورہ آیات میں جنتی سے مراد وہ شخص ہے۔ جس نے آخرت کے بدلے پورا مال خرچ کردیا اور جہنمی سے مراد وہ شخص ہے۔ جس نے آخرت کی تصدیق کرنے پر اس کا مذاق اڑایا تھا۔ (تفسیر الدر المنثور بحوالہ ابن جریر وغیرہ : ص : ١٦٥، ج : ٥)

﴿اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ﴾

اللہ تعالیٰ نے دوزخ اور جنت دونوں کے تھوڑے تھوڑے حالات بیان کرنے کے بعد ہر انسان کو موازنہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ غور کرو ان میں کون سی حالت بہتر ہے۔ کیا یہ مہمانی بہتر ہے ؟ استفہامیہ انداز اختیار فرمایا کہ کیا یہ مہمانی بہتر ہے یا تھوہر کا درخت ؟

 زقوم کی حقیقت

 زقوم  کا درخت جزیرہ عرب کے علاقہ تہامہ میں پایا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی (رح) نے لکھا ہے کہ یہ دوسرے بنجر صحراؤں میں بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ناگ پھن کے نام سے مشہور ہے۔ اور بعض حضرات نے اسی کو زقوم قرار دیا ہے۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ دوزخ کا زقوم بالکل الگ چیز ہے اس کا دنیا کے زقوم سے کوئی تعلق نہیں وہ اس قدر کڑوا اور بدمزہ ہے کہ جہنمیوں کے گلے میں اٹک کر رہ جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اگر جہنم کے تھوہر کا ایک قطرہ دنیا بھر کے سمندروں میں ڈال دیا جائے تو اس کی بدبو اور ذائقہ کی وجہ سے تمام لوگوں کی معیشت برباد ہو کر رہ جائے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ (ابن کثیر : ص : ٩، ج : ٧، مظہری : ص : ١١٨، ج : ٨)

﴿اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ، اِنَّهَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِيْٓ اَصْلِ الْجَحِيْمِ﴾

قرآن کریم کی وہ آیات جن میں کافروں کے لیے زقوم کھلانے کا ذکر ہے جس وقت نازل ہوئی تو ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا تمہارا دوست حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے کہ آگ میں ایک درخت ہے حالانکہ آگ تو درخت کو کھا جاتی ہے اور خدا کی قسم ہم تو یہ جانتے ہیں کہ زقوم کھجور اور مکھن کو کہتے ہیں۔ تو آؤ کھجور مکھن کھاؤ۔ (ابن کثیر : ص : ١٨، ج : ٧، درمنثور : ص : ٢٧٧، ج : ٥، معالم التنزیل : ص : ٢٤، ج : ٤، تفسیر مظہری : ص : ١١٨، ج : ٨) میں ہے کہ زقوم دراصل بربری زبان میں کھجور اور مکھن کو کہتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے استہزاء کا یہ طریقہ اختیار کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جملے میں اس کی دونوں باتوں کا جواب دے دیا کہ اِنَّهَا شَجَــرَةٌ تَخْرُجُ فِيْٓ اَصْلِ الْجَحِيْمِ  یعنی زقوم تو جہنم کی تہہ سے اگنے والا ایک درخت ہے۔

 لہٰذا نہ اس سے مراد کھجور ہے اور نہ مکھن اس پر اشکال ہوتا ہے کہ آگ میں درخت کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب ہےکہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تو وہ آگ میں بھی درخت پیدا کرسکتا ہے اور اس کی نشوونما بھی کرسکتا ہے۔ جیسے نمونہ کے طور پر ایسے کئی حیوانات موجود ہیں جو آگ میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں آگ انھیں جلانے کی بجائے ان کی نشوونما کرتی ہے۔

﴿طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ﴾

مطلب یہ ہے کہ زقوم کا پھل اپنی بدصورتی میں شیاطین کے سر کی طرح ہوتا ہے، اب یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ شیاطین کو تو کسی نے دیکھا نہیں ؟ جواب یہ ہے کہ ایک تخییلی تشبیہ ہے۔ محاورہ میں بدصورت اور بدہیئت اشیاء کو شیطان اور جن بھوت سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اس کا منشاء انتہائی درجہ کی بدصورتی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ (روح المعانی : ص : ١٢٩، ج : ٢٣)

بعض مرتبہ تشبیہ کسی خیالی چیز سے دی جاتی ہے لیکن وہ مرئی و شاہد چیزوں سے زیادہ ذہنوں سے قریب ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کسی پراگندہ حال و پراگندہ بال شخص کو کہیں کیا بھوت کی سی شکل بنا رکھی ہیچ بھوت اگرچہ ایک خیالی چیز ہے لیکن اس کا ایک تصور ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے اس وجہ سے یہ تشبیہ اس شخص کو جس خوبی کے ساتھ مصور کرے گی کوئی دوسری تشبیہ مشکل ہی سے کرسکے گی۔ اسی طرح یہاں دوزخ کے زقوم کے پتوں اور کانٹوں کو شیاطین کے سروں سے تشبیہ دی ہے، گویا بہت سے شیاطین ننگے سر کھڑے ہوں۔ ہرچند یہ تشبیہ ہے خیالی لیکن ذہنوں میں شیاطین کا ایک خوفناک تصور موجود ہے اس وجہ سے اکو سن کر دل پر ایک کپکصپی طاری ہوجاتی ہے۔

﴿وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ ، وَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ ، وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ﴾

حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا

نوح (علیہ السلام) کی دعا سے کون سی دعا مراد ہے اکثر مفسرین کے قول کے مطابق اس سے مراد وہ دعا ہے جو سورة نوح میں مذکورہ ہے یعنی رب لا تذر علی الأرض من الکفرین دیاراً“ اور سورة قمر میں مذکور ہے یعنی إني مغلوب فانتصر“ یہ دعا حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی مسلسل سرکشی اور نافرمانی کے بعد اس وقت کی تھی جبکہ آپ کی قوم نے آپ کو صرف جھٹلانے پر اکتفاء نہ کیا بلکہ آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا۔

من الکرب العظیم:  کرب“ کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کو غرق ہونے سے بچایا۔ (تفسير کبیر : ص : ٣٣٩، ج : ٢٦، خازن : ص : ١٩، ج : ٤، مدارک : ص : ١٩، ج : ٤)

 دوسرا معنی کرب کا صدمہ کرتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم شرک میں مبتلا تھی قوم کی حالت کو دیکھ کر حضرت نوح (علیہ السلام) کو صدمہ ہوتا تھا جب یہ قوم تباہ ہوئی تو اس صدمہ سے نجات ملی۔ تیسرا معنی یہ کرتے ہیں کہ جب قوم نوح (علیہ السلام) سے استہزاء کرتی تھی اور کہتی تھی کہ آپ مجنون ہیں تو اس سے آپ کو ایذا پہنچتی تھی۔ تو جب قوم تباہ ہوئی تو یہ پریشانیاں ختم ہوئیں۔ (تفسير کبیر : ص : ٣٣٩، ج : ٢٦)

وجعلنا ذریته ھم البقین: حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو طوفان آیا تھا اس میں دنیا کی اکثر آبادی ہلاک ہوگئی تھی اور اس کے بعد ساری دنیا کی نسل حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں سے چلی، ایک بیٹے کا نام سام تھا اور ان کی اولاد سے اہل عرب اور اہل فارس اہل روم وغیرہ کی نسل چلی۔

 دوسرے بیٹے کا نام حام تھا اور ان سے افریقی ممالک کی آبادیاں دنیا میں پھیلیں، بعض حضرات نے ہندوستان کے باشندوں کو بھی شامل کیا ہے اور تیسرے بیٹے کا نام یافث تھا ان سے ترک منگول اور یاجوج ماجوج کی نسلیں نکلتی ہیں۔

 صرف ان بیٹوں کی نسل سے دوبارہ انسانیت وجود میں آئی ہے سب سے بہتر قول بھی یہی ہے۔ (مدارک: ص: ٢٠، ج: خازن: ص، ٢٠، ج: ٤، کبیر: ص : ٣٣٩، ج : ٢٦) ۔

﴿وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ﴾

شیعۃ کا مادہ ‘ شیع ہے اس کا معنی ہے کسی چیز کا پھیلنا اور قوی ہونا ‘ اگر کوئی خبر پھیل جائے اور قوی ہوجائے تو کہا جاتا ہے شاع الخبر ‘ اور جب کوئی قوم پھیل جائے اور اس کی تعداد کثیر ہوجائے تو کہا جاتا ہے شاع القوم ‘ انسان جن لوگوں سے قوت حاصل کرے اور جو لوگ اس سے محبت کرنے والے اور اس کے ہم خیال ہوں ان کو اس کا شیعہ کہا جاتا ہے۔ (الفردات ج ١ ص ٣٥٦‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

علامہ علی بن حبیب الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ اپنى تفسير ميں لکھتے ہیں :

شیعہ کا معنی ہے متبعین ‘ یہ ابن بحر کا قول ہے ‘ اور الاصمعی نے کہا ہے کہ شیعہ کا معنی ہے اعوان اور مدد گار ‘ یہ لفظ شیاع سے ماخوذ ہے ‘ شیاع ان چھوٹی لکڑیوں کو کہا جاتا ہے جن کو بڑی لکڑیوں کے ساتھ ملا کر جلایا جاتا ہے اور وہ چھوٹی لکڑیاں جلانے میں مددگار ہوتی ہیں ‘ اور اس آیت کا معنی ہے حضرت ابراہیم ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دین پر تھے اور ان کے منہاج اور ان کے طریقہ پر تھے۔ (النکت و العیون ج ٥ ص ٥٤ )

علامہ محمود بن عمر الزمخشری المتوفی ٥٣٨ ھ لکھتے ہیں :

حضرت نوح (علیہ السلام) کے جو عقائد مشہور تھے ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان ہی عقائد پر تھے ‘ اگرچہ ان کی شریعتیں مختلف تھیں ‘ یا اس کا معنی ییہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ کے دین پر متصلب اور متشدد ہونا بہت شائع ہوچکا تھا یعنی پھیل چکا تھا اور مکذبین کی سختیوں پر ان کا صبر کرنا بھی بہت مشہور ہوچکا تھا ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے ان دونوں کے اکثر احکام شرعیہ میں اتفاق ہو ‘ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے درمیان دونبی تھے ‘ حضرت ھود اور حضرت صالح (علیہما السلام) ‘ اور حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس سال کا عرصہ تھا (قرآن مجید میں ان دو نبیوں کا ذکر ہے ‘ اتنے لبمے عرصہ میں اور نبی بھی آئے ہوں گے ) ۔ (الکشاف ج ٤ ص ٥٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

﴿اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ﴾

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کی کو اکب پرستی

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم چند معین سیاروں کی تعظیم اور ان کی پرستش کرتی تھی اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ اس جہان میں خیر اور شر اور سعادت اور نحوست کے جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہ سب ان سیاروں ہی کی تاثیرات ہیں ‘ اور انھوں نے ان میں سے ہر سیارے کی ایک شکل بنا لی تھی اور اس کی صورت کے موافق ایک بت بنا لیا تھا پھر وہ ان بتوں کی تعظیم اور عبادت کو سیاروں کی تعظیم اور عبادت کا ذریعہ قرار دیتے تھے وہ سات سیارے ہیں : قمر ‘ عطارد ‘ زحل ‘ شمس ‘ مریخ ‘ مشتری ‘ اور زہرہ ‘ جو حرکت کرتے رہتے ہیں اور اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے رہتے ہیں اور ہر سیارے کی گردش ایک مخصوص وضع اور ہیئت سے ہوتی ہے ‘ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس جہان میں جس قدر حوادث رونما ہوتے ہیں وہ ان ہی سیاروں کی گردش کی مخصوص وضع کا ثمرہ اور نتیجہ ہوتے ہیں ‘ ان ہی سے موسمی تغیرات ہوتے ہیں ‘ باشوں کا آنا ‘ سمندروں میں طوفانوں کا اٹھنا ‘ زمین میں زلزلوں کا آنا ‘ لوگوں کا پیدا ہونا اور مرنا ‘ صحت مند اور بیمار ہونا ‘ فصلوں کا سرسبز ہونا یا ویران ہونا ‘ اسی طرح معین اشخاص پر جو راحت اور مصائب کے ‘ تنگی اور فراخ دستی کے اور خوشی اور نا خوشی کے ایام آتے ہیں وہ بھی ان سیار گان (متحرک ستاروں) کی تاثیرات ہیں اس لیے انھوں نے ان مخصوص سیاروں کی شکل کے بت بنا لیے تھے اور ان کی تعظیم اور عبادت کرتے تھے تاکہ ان پر راحت ‘ سعادت ‘ خوشی اور خوشحالی کے ایام سایا فگن رہیں اور وہ مصیبت ‘ نحوست ‘ رنج وغم اور تنگ دستی کے اثرات سے محفوظ رہیں۔

﴿فَنَظَرَ نَــظْرَةً فِي النُّجُوْمِ﴾

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ستاروں کی طرف دیکھنے کا مقصد

یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بظاہر ستاروں ( کواکب سیارہ) کی طرف دیکھ کر تامل اور غورو فکر کیا ‘ جس سے ان کی قوم نے یہ سمجھا کہ حضرت ابراہیم ستاروں کی چال اور ان کی مخصوص گردش کی وضع اور ہیئت سے مستقبل میں پیش آنے والے کسی واقعہ یا سانحہ کو اخذ کررہے ہیں ‘ اور دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ‘ آسمانوں اور زمینوں کی خلقت اور بناوٹ پر غور وفکر کر رہے تھے اور کاملین کے طریقہ کے مطابق آثار سے موثر اور مخلوق سے خالق پر استدلال فرما رہے تھے۔ اور یہی چیز حضرت ابراہیم کی شان کے لائق ہے لیکن آپ نے اپنی قوم کے ذہنوں میں یہ وہم ڈالا کہ آپ سیاروں کی گردش کی وضع میں غور کر کے ‘ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کو معلوم کررہے ہیں۔

علم نجوم کی شرعی حیثیت

یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج اور ستاروں میں کچھ ایسی خاصیتیں رکھی ہیں جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں جن کا ہر شخص مشاہدہ کرسکتا ہے۔ مثلاً سورج کے قرب بعد سے گرمی اور سردی کا پیدا ہونا چاند کے اتراؤ چڑھاؤ سے سمندر میں مدو جزر۔ بعض لوگوں کا خیال ہے ستاروں کا کسی خاص برج میں چلے جانا مسرتوں اور کامیابیوں غموں اور ناکامیوں میں موثر حقیقی ہیں، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ موثر حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن ان ستاروں میں ایسے خواص رکھے ہوئے ہیں جو انسانوں کی کامیابی اور ناکامیوں کا سبب بنتے ہیں جو لوگ ستاروں کو موثر حقیقی مانتے ہیں۔

ان کا خیال بلاشبہ غلط اور باطل ہے اور یہ عقیدہ انسان کو شرک کی حد تک پہنچا دیتا ہے باقی رہے وہ لوگ جو موثر حقیقی تو اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر ستاروں کے خواص اور سبب کے قائل ہیں اگرچہ یہ عقیدہ شرک نہیں۔ مگر قرآن وحدیث نہ اس تصور کی تصدیق کرتا ہے اور نہ تردید لہٰذا کچھ بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کی گردش میں طلوع و غروب میں کچھ اثرات رکھے ہوں۔ مگر ان اثرات کی جستجو کرنے کے لیے علم نجوم کی تحصیل اور اس پر مستقل اعتماد کے بارے میں فیصلہ کرنا بہرحال ممنوع اور ناجائز ہے۔ حضرت فاروق اعظم (رض) کا ارشاد گرامی ہے۔ تعلموا من النجوم ما تھتدون بہ فی البر والبحر ثم امسکواحیاء علوم الدین للغزالی (رح) : ستاروں کے علم سے اتنا علم حاصل کرو جس کے ذریعہ تم خشکی اور سمندر میں راستے جان سکو اس کے بعد رک جاؤ۔ اس ممانعت سے ستاروں کے خواص و آثار کا انکار لازم نہیں آتا لیکن ان خواص و آثار کے پیچھے پڑنے اور ان کی جستجو میں قیمتی اوقات ضائع کرنے کو منع کیا گیا ہے۔ امام غزالی (رح) نے احیاء العلوم میں اس پر مستقل بحث کرتے ہیں اس کی ممانعت کی کئی حکمتیں بتائی میں صرف دو حکمتوں کا خلاصہ لکھ دیتا ہوں۔

پہلی حکمت :۔۔ علم نجوم کے ممنوع و مذموم ہونے کی یہ ہے کہ اس علم میں انسان اتنا منہمک ہوجاتا ہے کہ آہستہ آہستہ ان ستاروں کو سب کچھ سمجھتا ہے اور یہ چیز اس کو موثر حقیقی ہونے اور مشرکانہ عقیدے کی طرف لے جاتی ہے۔ دوسری حکمت :۔ یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کچھ خواص و آثار رکھے ہیں مگر یقینی علم سوا وحی کے نہیں ہوسکتا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس قسم کا کوئی علم عطا فرمایا تھا لیکن اب وہ علم جس کی بنیاد وحی الٰہی پر تھی وہ دنیا سے مٹ سے چکا ہے اب محض اندازے اور قیاسات باقی رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن دنجومیوں کی پیشگوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ الغرض اس علم کے حاصل کرنے پر جتنی عمریں بھی کھپائی جائیں آخر کار انجام قیاس اور اندازے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ (ملخص معارف القرآن، م، ش، د)

﴿فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ﴾

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خود کو بیمار کہنے کا پس منظر

اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیمار نہیں تھے لیکن انھوں نے فرمایا میں بیمار ہوں بظاہر یہ کلام جھوٹ ہے، لیکن حقیقت میں یہ تعریض اور توریہ ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے یہ کہنے کی وجہ مفسرین نے اس طرح بیان کی ہے :

امام عبدالرحمن بن محمد ابن ابی حاتم رازی متوفی ٣٢٧ ھ لکھتے ہیں :

سفیان (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : اس کا معنی ہے: مجھے طاعون ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٢١٧)

زید بن اسلم (رض) بیان کرتے ہیں بادشاہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ کل ہماری عید ہے ‘ تم اس میں حاضر ہونا (یعنی میلے میں شریک ہونا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستارے کی طرف دیکھ کر کہا : یہ ستارہ جب بھی طلوع ہوتا ہے تو میں بیمار ہوجاتا ہوں ‘ تو بادشاہ کے کارندے چلے گئے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٨٢١٩)

امام الحسین بن مسعود الفراء ابغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے کہا ان کی قوم ستارہ شناس اور ستارہ پرست تھی ‘ اس لیے آپ نے ان کے ساتھ ان کے طریقہ کے مطابق معاملہ کیا اور اس طور سے حیلہ کیا جو ان کی رسم و رواج کے مطابق تھا ‘ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے بتوں کو توڑنے کے لیے حیلہ کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی بت پرستی کو باطل کیا جاسکے ‘ دوسرے ان کی عید اور میلہ تھا ‘ اور وہ لوگ میلہ میں جانے سے پہلے بتوں کے سامنے قربانیاں پیش کرتے تھے اور کھانے پینے کی چیزیں رکھتے تھے تاکہ اس سے بتوں کا تقرب اور تبرک حاصل ہو اور وہ میلہ سے واپس آنے کے بعدان چیزوں کو کھائیں ‘ انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا آپ ہماری عید اور ہمارے میلے میں ہمارے ساتھ چلیں ‘ حضرت ابراہیم نے ستاروں کی طرف دیکھ کر کہا میں بیمار ہوں ‘ حضر ابن عباس نے فرمایا سقیم سے مراد طاعون زدہ ہونا ہے ‘ اور وہ لوگ طاعون سیبہت گھبراتے تھے اور اس سے بہت دور بھاگتے تھے ‘ حسن بصری نے کہا سقیم سے مراد مریض ہے اور مقاتل نے کہا اس سے مراد ہے مجھے درد ہے اور ضحاک نے کہا اس کا معنی ہے : میں عنقریب بیمار ہونے والا ہوں ‘ پھر وہ لوگ پیٹھ پھیر کر چلے گئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تین بظاہر جھوٹ

 حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف تین (بہ ظاہر) جھوٹ بولے:

 ان میں سے دو جھوٹ اللہ کی خاطر تھے ‘ انھوں نے کہا إني سقیم (الصفت : ٨٩) میں بیمار ہوں ‘ اور انھوں نے کہا: بل فعله کبیرھم (الانبیاء : ٦٣) بلکہ یہ کام ان کے بڑینے کیا ہے ‘(بہ ظاہر آپ نے چھوٹے بتوں کو توڑنے کی نسبت بڑے بت کی طرف کی اور درحقیقت آپ نے خود ان بتوں کو توڑا تھا ‘ کیونکہ ان چھوٹے بتوں کو توڑنے کا سبب وہ بڑا بت تھا ‘ آپ اس کی خدائی کو باطل کرنا چاہتے اور اس کے عجز کو ثابت کرنا چاہتی تھے اور سبب کی طرف بھی فعل کی نسبت کی جاتی ہے،  اور ایک دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سارہ سفر کررہے تھے ‘ ان کا گذر ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں ہوا ‘ اس بادشاہ کو بتایا گیا کہ ایک شخص آرہا ہے اور اس کی بیوی سب سے زیادہ حسین ہے ‘ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلوا کر پوچھا یہ عورت کون ہے ؟ انھوں نے کہا یہ میری بہن ہے ‘ اور کہا اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن (جوڑا) نہیں ہے ‘ اس بادشاہ نے مجھ سے تمہارے متعلق پوچھا تھا تو میں نے اس کو بتایا کہ تم میری بہن ہو (یعنی دینی بہن ہو ‘ یہ کلام بھی بظاہر جھوٹ ہے اور حقیقت میں تعرض اور توریہ ہے) سو تم مجھ کو جھٹلانا نہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٥٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧١‘ سن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٦٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٢٣٠‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٨٧‘ رقم الحدیث : ١٦٣٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

”میں بیمار ہوں“ کہنے کی توجیہات

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کو دیکھ کر جو فرمایا تھا میں بیمار ہوں اس کی حسب ذیل توجیہات کی گئی ہیں :

(١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) روزانہ بیمار ہوجاتے تھے ‘ ہرچند کہ اس وقت آپ بیمار نہ تھے ‘ لیکن بیماری کا وقت آرہا تھا۔

(٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منشاء یہ تھا کہ میں عنقریب بیمار ہونے والا ہوں۔

(٣) تمہارے کفر اور شرک اور بےراہ روی سے میرا دل یژمردہ اور بیمار ہے۔

(٤) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بہ طور تو ریہ اور تعریض کہا کہ میں بیمارہوں منشاء یہ تھا کہ میری قوم بیمار ہے۔

(٥) سقیم سے مراد موت ہے جیسے قرآن میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہے : إنک میت (الزمر : ٣٠) بیشک آپ فوت شدہ ہیں یعنی آپ کی روح قبض کی جانے والی ہے اسی طرح اس کا معنی ہے کہ میری روح قبض کی جانے والی ہے۔

(٦) میں بیمار ہوں یعنی عنقریب جب میرا وقت پورا ہوجائے گا تو میں مرض الموت میں مبتلا ہو جاؤں گا۔

تعریض اور توریہ  کے ثبوت میں احادیث

حضرت عمر ان بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک تعریض میں جھوٹ سے بچنے کی گنجائش ہے۔ (السنن الکبری ج ١٠ ص ١٩٩‘ الکامل لا بن عدی ج ٣ ص ٥٦٧ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ (رض) کا بیٹا بیمار تھا وہ فوت ہوگیا ‘ حضرت ابو طلحہ گھر سے باہر گئے ہوئے تھے ‘ ان کی بیوی حضرت ام سلیم نے جب دیکھا کہ بچہ فوت ہوگیا تو انھوں نے اس کو گھر کی ایک جانب لٹا دیا ‘ اور جب حضرت ابو طلحہ گھر آئے اور بچہ کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا اس کو آرام ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ راحت میں ہے اور حضرت ابو طلحہ ان کو سچی گمان کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٠١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٤٤ )

حضرت ام سلیم نے اپنے بچہ کی موت کو دائمی سکون سے تعبیر کیا ‘ اس حدیث میں موت کا توریہ سکون سے کیا ہے ‘ تو ریہ کی تعریف یہ ہے کہ ایک لفظ کے دو معنیہوں قریب اور بیعد ‘ متکلم بعید معنی کا ارادہ کے اور مخاطب کے ذہن میں قریب معنی کو القاء کرے ‘ جیسے آرام اور راحت کا بعید معنی موت ہے جس کا حضرت ام سلیم نے ارادہ کرے اور مخاطب کے ذہن میں قریب معنی کو القاء کرے ‘ جیسے آرام اور راحت کا بعید معنی موت ہے جس کا حضرت ام سلیم نے ارادہ کیا تھا اور اس کا قریب معنی بیماری سے شفا یاب ہونا اور آرام پانا تھا جس کا القاء حضرت ام سلیم نے حضرت ابو طلحہ کے ذہن میں کیا تھا ‘ اسی طرح سقیم کا بعید معنی قوم کا بیمار ہونا ہے اس کا حضرت ابراہیم نیارادہ کیا تھا اور اس کا قریب معنی خود بیمار ہونا ہے جو ان کی قوم نے سمجھا تھا۔

ضرورت اور مصلحت کے وقت جھوٹ بولنے کے متعلق فقہاء اسلام کی آراء

علامہ محمد بن علی بن محمد الحصکفی الحنفی المتوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں:

اپنے حق کو ثابت کرنے کے لیے اور اپنی ذات سے ظلم کو دور کرنے کے لیے جھوٹ بولنا مباح ہے اور اس سے مراد تعریض ہے کیونکہ بیعنہ جھوٹ بولنا حرام ہے۔ (الدر المختار علی ھامش رد المختار ج ٩ ص ٥٣٥‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز ابن عابدین الدمشقی الحنفی المتوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

جھوٹ بولنا کبھی مباح ہوتا ہے اور کبھی واجب ہوتا ہے ‘ احیاء علوم الدین میں اس کا یہ ضابطہ مذکور ہے کہ ہر وہ نیک مقصود جس کو صدق اور کذب دونوں سے حاصل کیا جاسکتا ہو ان کے حصول کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ اور اگر اس نیک مقصود کو صرف جھوٹ بول کر حاصل کیا جاسکتا ہو تو اس کے حصول کے لیے جھوٹ بولنا مباح ہے ‘ اور اگر اس نیک مقصود کا حصول واج ہو تو اس کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ‘ مثلا کوئی شخص ایک بےقصور شخص کو دیکھے جو ایسے ظالم سے چھپا ہوا ہے جو اس کو قتل کرنا یا اس کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے بچانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ‘ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کی امانت چھیننا چاہے تو اس کو چھپانے کے لیے بھی جھوٹ کے سوا حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کے لیے بھی جھوٹ بولنا مباح ہے ‘ اور اگر کسی شخص نے چھپ کر زنا کیا ہو یا شراب پی ہو اور حاکم اس سے تفتیش کرے تو اس کے لیے یہ کہنا جائز ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ‘ اس لیے کہ کسی بےحیائی کا اظہار بھی بےحیائی ہے ‘ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنے بھائی کے راز کو فاش کرنے سے انکار کر دے اور اس کو چاہیے کہ وہ مقابلہ کرے کہ جھوٹ بولنے کی خرابی زیادہ ہے یا سچ بولنے کی خرابیاں زیادہ ہیں ‘ اگر سچ بولنے کی خرابیاں زیادہ ہوں تو اس کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یا اس کو شک ہو تو پھر جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ اور اگر معاملہ اس کے اپنے نفس کے ساتھ ہو تو مستحب یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولے۔

احتیاط اس میں ہے کہ جن مقامات پر جھوٹ بولنا مباح ہے وہاں پر جھوٹ بولنے کو ترک کردیا جائے ‘ عادۃً جو مبالغہ کیا جاتا ہے وہ جھوٹ نہیں ہے ‘ جیسے کوئی شخص کہے میں تمہارے پاس ایک ہزار مرتبہ آیا ہوں ‘ کیونکہ اس کلام سے مبالغہ کو بیان کرنا مقصود ہے نہ کہ عدد کو ‘ اور مبالغہ کے جواز پر یہ حدیث صحیح دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ بنت قیس رصی اللہ عنہا سے فرمایا رہے ابو جہم تو وہ تو اپنے کندھے سے لاٹھی اتارتے ہی نہیں (یعنی بہت مارتے ہیں) ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٨٠)

علامہ ابن حجر مکی نے کہا ہے کہ اشعار میں جو جھوٹ ہوتا ہے جب اس کو مبالغہ پر محمول کیا جاسکے تو اس کو بھی حرام قرار دینے سے مستثنی کرنا چاہیے ‘ جیسے ایک شعر میں ہے میں دن رات تمہارے لیے دعا کرتا ہوں اور میں کسی مجلس کو تمہارے شکر سے خالی نہیں رکھتا ‘ کیونکہ جھوٹے شخص کا قصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی جھوٹی بات کو سچا بنا کر پیش کرے اور شاعر کا قصد شعر میں سچ کا اظہار نہیں ہوتا ‘ بلکہ شعر میں جھوٹ بولنا تو ایک فن ہے۔ علامہ رافعی اور علامہ نووی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔

صاحب المجتبیٰ نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین مقامات کے سوا ہر جگہ لامحالہ جھوٹ لکھا جاتا ہے ‘ مرد اپنی بیوی یا اپنے بچے سے جو بات کرتا ہے اور مرددو آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جو بات کرتا ہے اور جنگ میں ‘ کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٢۔ ٣٠٣٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٠٥۔ ١٧٣٩‘ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٩٢١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٣٨)

امام طحاوی وغیرہ نے کہا ہے کہ جن صورتوں میں کذب مباح ہے یہ صورتیں تعریض پر محمول ہیں ‘(علامہ شامی فرماتے ہیں) یہ قول برحق ہے ‘ میں کہتا ہوں کہ اس کی تائید میں وہ حدیث ہے جو حضرت علی اور حضرت عمران بن حصین وغیرہ ھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک تعریض میں جھوٹ بچنے کی گنجائش ہے۔ (سنن کبریٰ ج ١٠ ص ١٩٩)

﴿وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾

معتزلہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے۔ اہل حق کہتے ہیں کہ نہیں، یہاں یہ بات سمجھیں کہ کا سب اور خالق میں فرق ہے۔ ایک یہ ہے کہ کا سب اپنے کسب میں اللہ کا محتاج ہے۔ لیکن خالق اپنے کسی کام میں کسی کا محتاج نہیں۔ بعنوان دیگر یہ ہے کہ خالق اپنے فعل میں منفرد ہوتا ہے اور کا سب منفرد نہیں ہوتا، اہل حق نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا اور تمہارے عملوں کا خالق ہے وہ اس طرح کہ ”ما“ کو مصدریہ قرار دیا ہے تو معنی اسی طرح ہے۔ والله خلقکم أي وعملکمیعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی پیدا اور تمہارے عمل کو بھی پیدا کیا۔ دوسرا ما کو موصولہ بھی قرار دیا ہے اور عائد إلی الموصول“ محذوف مانتے ہیں۔”والله خلقکم وما تعلمونه“ یعنی اللہ نے تم کو بھی پیدا کیا اور اس چیز کو بھی جس کو تم کرتے ہو۔ (مدارک : ص : ٢١، ج : خازن : ص : ٢١، ج : ٤)

 تو اہل حق کی دلیلوں میں ایک دلیل یہ ہے کہ تمہارا خالق بھی اللہ ہے اور تمہارے اعمال کا خالق بھی اللہ ہے۔

﴿قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَــحِيْمِ ، فَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا فَجَـعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِيْنَ﴾

جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے سامنے بتوں کی الوہیت کے باطل ہونے پر قوی دلیل پیش کی اور وہ اس دلیل کا جواب دینے پر قادر نہ ہوئے تو انھوں نے آپ کو ضرر پہنچانے کا طریقہ اختیار کیا اور کہا ان کے لیے ایک عمارت بناؤ ‘ قرآن مجید میں اس عمارت کی ساخت اور اس کی کیفیت کا ذکر نہیں ہے البتہ امام  ثعلبى المتوفی ٤٢٧ ھ اور امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ نے اس سلسلہ میں یہ روایت ذکر کی ہے : مقاتل نے بیان کیا ہے کہ ان حضرت ابراہيم كى قوم كے لوگوں كہا کہ ابراہيم  کے لیے ایک پتھر کی عمارت بناؤ جس کا طول تیس ہاتھ ہو اور اس کا عرض تیس ہاتھ ہو اور اس کو لکڑیوں سے بھر دو پھر اس میں آگ لگا دو ‘ پھر ابراہیم کو اس آگ میں پھینک دو ۔ الکشف والبیان ج ٨ ص ١٤٩‘ معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٥)

اس آگ کے لیے قرآن مجید میں حجیم کا لفظ ہے اور حجیم اس آگ کو کہتے ہیں جو بہت عظیم آگ ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو غالب اور ان کو مغلوب کردیا اور جب انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے آگ کا ضرر دو کردیا اور ان کی سازش کو ناکام بنادیا۔

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ امام ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں اور اس حدیث کو حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن العسا کر المتوفی ٥٧١ ھ نے بھی روایت کیا ہے:

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو ایک کمرے میں بند کردیا اور ان کے لیے لکڑیوں کو جمع کیا ‘ حتی کہ اگر کوئی عورت بیمار ہوتی تو وہ نذر مانتی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی تو میں ابراہیم کو جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کروں گی ‘ پھر انھوں نے اتنی زیادہ لکڑیاں جمع کرکے آگ جلائی کہ اگر اس کی سمت سے پرندے گزرتے تو آگ کی تپیش سے جل جاتے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھاتو ” آسمانوں ‘ زمینوں ‘ پہاڑروں اور فرشتوں نے فریاد کی کہ اے خدا ! تیرے نام کی سر بلندی کی پاداش میں ابراہیم کو جلایا جارہا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے اس کا علم ہے اگر وہ تم کو پکارے تو تم اس کی فریاد رسی کرنا ‘ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا : اے خدا ! تو آسمان میں واحد ہے اور میں زمین میں واحد ہوں ‘ اور میرے سوا زمین پر کوئی اور بندہ نہیں ہے جو تیری عبادت کرے ‘ مجھے اللہ کافی ہے اور وہ سب سے اچھا کار ساز ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا : ینار کوني برداوسلما علی إبرھیم. (الأنبیاء : ٦٩) اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم پر سلامتی بن جا۔ (الدر المثور ج ٧ ص ٩٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٩٥۔ ١٩٤‘ رقم الحدیث : ١٦٥٠۔ ١٦٤٩ )

فاکہہ بن مغیرہ کی باندی بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی تو میں نے ان کے گھر میں ایک نیزہ رکھا ہوا دیکھا ‘ میں نے پوچھا اے ام المومنین ! آپ اس نیزہ سے کیا کرتی ہیں ؟ انھوں نے کہا ہم اس سے چھپکلیوں کو مارتی ہوں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہ حدیث بیان کی کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو چھپکلی کے سوازمین کا ہر جانور ان کی آگ کو بجھانے کی کوشش کررہا تھا اور چھپکلی پھونک مار کر اس آگ کو بھڑکار ہی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو اس کے قتل کا حکم دیا۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٨٨٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٣١‘ مسند احمد ج ص ٨٣‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٩٣۔ ١٩٢‘ رقم الحدیث : ١٦٤٦۔ ١٦٤٥۔ ١٦٤١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے چھپکلی کو مار دیا اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس کے دس درجات بلند کیے جائیں گے ‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کیونکہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ جلائی گئی تو اس نے آگ جلانے میں مدد کی تھی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ (١٩٢‘ رقم الحدیث : ١٦٤٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

﴿وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ﴾

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت

الله كے فضل وكرم سے آگ سے صحيح وسالم نكلنے كے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کا اعلان کردیا اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں یعنی کسی ایسی جگہ جاکر آباد ہوتا ہوں جہاں اپنے رب کے احکام ادا کرسکوں اور دوسروں کو بھی راہ حق دکھا سکوں، میرا رب میری رہبری فرمائے گا اور مجھے ایسی جگہ پہنچا دے گا جہاں رہنے سے اس کی رضا مندی حاصل ہوگی،

چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے وطن سے نكل جو بابل كے قريب تھا شام کو ہجرت کر گئے اور وہاں جاکر آباد ہوگئے، آپ كے بھتيجے حضرت لوط (علیہ السلام) بھی آپ کے ساتھ تھے، دونوں نے سرزمین شام کے لیے ہجرت کی اور فلسطین کے علاقے میں جاکر آباد ہوگئے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک بیوی تو سفر ہی میں ان کے ساتھ تھیں جن کا نام سارہ (رض) تھا اور دوسری بیوی ایک بادشاہ نے پیش کردی تھی جن کا نام ہاجرہ (رض) تھا، جس بادشاہ نے حضرت سارہ (رض) کو پکڑوا کر بلایا تھا اسی نے حضرت ہاجرہ کو بطور خادمہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا تھا ، حضرت سارہ (رض) اسحاق (رض) کی والدہ تھیں اور حضرت ہاجرہ (رض) ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔

بیٹے کے لیے دعا

شادی کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر ٣٧ سال تھی۔ مگر طویل عرصہ تک آپ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اب آپ کی عمر مبارک اسی ٨٠ سال ہوچکی تھی تو اس وقت آپ نے اپنے پروردگار کے سامنے درخواست کی رب ھب لی من الصلحین کہ مولا کریم ! مجھے نیکوں میں سے بیٹا عطا کر دے۔ آپ اس وقت تک حضرت ہاجرہ (رض) سے نکاح کرچکے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا فبشرناه بغلام حلیم ہم نے آپ کو ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔ اس بردبار بیٹے سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) مراد ہیں کہ آپ کی اولاد میں سے سب سے پہلے انہی کی ولادت ہوئی۔ آپ کے دوسرے بیٹے حضرت سارہ (رض) کے بطن سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔ بہرحال یہاں پر بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کی بشارت کا ذکر ہے ، جو بڑے حوصلے اور تحمل والے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب

فلما بلغ معه السعي:  جب یہ بچہ تگ و دو کی عمر کو پہنچ گیا سعی کا معنی دوڑنا ہوتا ہے جیسے صفا ومروہ کی سعی ہوتی ہے کہ وہاں کچھ فاصلہ دوڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ تو مطلب یہ کہ جب حضرت اسماعیل بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچ گئے۔ آپ کی عمر بارہ تیرہ سال ہوگئی اور آپ اپنے باپ کے ساتھ فضل و کمال کے کام کرنے کے قابل ہوگئے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب دیکھا جس کا تذکرہ بیٹے کے سامنے اس طرح کیا قال یبني إنی أری في المنام أني أذبحک بیٹا ! بیشک میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ فانظر ماذا تریٰ دیکھو ! تمہارا اس معاملہ میں کیا خیال ہے؟ ذرا سوچ کر بتاؤ کہ تم اس خواب کو کیسا پاتے ہو۔ مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ خواب بار بار آ رہا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اور اس حکم کی تعمیل کا تقاضا کیا جا رہا تھا۔

خواب کی حقیقت

نبی کے خواب اور عام لوگوں کے خواب میں فرق ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے خواب تین اقسام کے ہوتے ہیں۔ یعنی رحمانی ، شیطانی اور نفسانی رحمانی خواب مومن کے حق میں بشارت ہوتی ہے۔ شیطانی خواب شیطان کے اثر سے ہوتے ہیں اور نفسانی خواب وہ ہوتے ہیں جو انسانی خوراک کے اثرات پر مرتب ہوتے ہیں۔ مگر نبیوں کا خواب وحی ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کوئی حکم خواب کے ذریعے بھی دیتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبوت ملنے سے چھ ماہ قبل تک جو خواب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آتے تھے ، وہ سچے ہوتے تھے اور ان کا نتیجہ روز روشن کی طرح سامنے آجاتا تھا۔ پھر اس کے بعد نزول وحی شروع ہوگیا۔ قرآن پاک میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب کا ذکر بھی آتا ہے۔ اس کی تعمبیر اگرچہ طویل عرصہ کے بعد جا کر نکلی مگر وہ حرف بہ حرف صحیح تھا۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی خواب دیکھا تھا کہ آپ طواف کر رہے ہیں۔ آپ کا خیال تھا کہ شاید اسی سال یہ خواب پورا ہوگا۔ اور آپ عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے مگر اس سال آپ بغیر عمرہ ادا کئے مقام حدیبیہ سے واپس آگئے اور اگلے سال جا کر عمرہ ادا کیا۔ اس طرح لقد صدق الله رسوله الرؤیا بالحق (الفتح۔ ٧٢) اللہ نے اپنے رسول کا خواب سچا کردیا۔

اسماعیل علیہ السلام کی قربانی

بہرحال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بار بار یہ خواب آ رہا تھا کہ آپ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو بتلا کر ان کی رائے لی تو سعادت مند بیٹے نے جواب دیا۔ قال: یابت افعل ما تؤمر اے باپ ! جس کام کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر گزرو یعنی اللہ کے حضور میری قربانی پیش کر دو ۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں حکم خداوندی کی تعمیل میں کوئی پس و پیش نہیں کروں گا بلکہ ستجدنی ان شاء اللہ من الصبرین انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ میں حکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہوں ، آپ میری گردن پر چھری چلا دیں۔ یہی وہ بردباری ہے جو اللہ نے اسماعیل (علیہ السلام) کے مزاج میں رکھ دی تھی۔ اللہ نے آپ کو نبوت و رسالت کے منصب پر فائز کیا تھا ، چنانچہ آپ کی تربیت بچپن سے کما لدرجے کی ہو رہی تھی۔ بہرحال آپ نے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کردیا۔

فلما أسلما: پھر جب دونوں باپ بیٹا مطیع ہوگئے یعنی ان میں حکم خداوندی کی تعمیل کا جذبہ حد درجہ بیدار ہوگیا۔ وتله للجبین اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل (علیہ السلام) کو پیشانی کے بل گرا دیا تاکہ آپ کی گردن پر چھری چلا دیں۔ پیشانی کے بل لٹانے کا یہ مطلب ہے کہ بیٹے کا خوبصورت چہرہ دیکھ کر باپ کے دل میں کہیں جذبہ ترحم نہ پیدا ہوجائے اور حکم الٰہی کی تعمیل میں فرق نہ آجائے۔ بہرحال جب باپ نے بیٹے کو لٹا لیا تو پھر گردن پر تیز چھری بھی چلا دی۔ مگر ابراہیم (علیہ السلام) یہ دیکھ کر پریشان ہوگئے کہ چھری اپنا کام ہی نہیں کر رہی تھی۔ ادھر سے آواز آئی وناديناه أن یا إبراهیم اللہ نے فرمایا ، ہم نے آواز دی اے ابراہیم ! قد صدقت الرؤیا تو نے خواب کو سچا کر دکھایا۔ آپ اس آزمائش میں پورے اترے۔ إنا کذالک نجزي المحسنین۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے تو تعمیل حکم کرتے ہوئے بیٹے کے گلے پر چھری چلا دی مگر اللہ تعالیٰ کو اسماعیل (علیہ السلام) کی جان بچانا مقصود تھی ، لہٰذا اس نے باپ کو اس کا بیٹا صحیح سلامت لوٹا دیا۔

اللہ نے فرمایا ان ھذا لھو البلاء المبین یہ ایک صریح آزمائش تھی جو ابراہیم (علیہ السلام) پر ڈالی گئی جس میں آپ پورا اترے اور پھر اللہ نے یہ احسان بھی فرمایا کہ اسماعیل (علیہ السلام) کا فدیہ بھی دے دیا۔ پھر وفدینہ یذبح عظیم اور ہم نے اسے ایک عظیم جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ دیا۔ یہ عظیم جانور ایک مینڈھا تھا ، جو اللہ نے جنت سے نازل فرمایا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی چھری اسماعیل (علیہ السلام) کی بجائے اس مینڈھے کی گردن پر چل گئی ، وہ ذبح ہوگیا اور اسماعیل (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ گویا مینڈھا آپ کا فدیہ بن گیا۔

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ذبح عظیم سے مراد صرف جانور کی قربانی نہیں اگرچہ وہ بہشت سے نازل شدہ عظیم جانور تھا۔ بلکہ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ ہم نے قربانی کا ایک بہت بڑا اصول قائم کردیا ہے جو تاقیامت جاری رہے گا اور اصل جذبہ ایمان و اطاعت تو وہی تھا جو بیٹے کی قربانی کے لیے موجزن تھا مگر اللہ نے جان کے بدلہ کے طور پر اسے جانور میں منتقل کردیا۔ لہٰذا انھیں جذبات کے تحت آئندہ کے لیے جانور انسانی جان کا فدیہ ہوگا۔ یہ دستور قیامت تک زندہ رہے گا اور اہل ایمان ہر سال جانوروں کی قربانی کرتے رہیں گے۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت

 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت اور بیٹے کی قربانی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا وبشرنہ باسحاق نبیا من الصلحین اور ہم نے بشارت دی (ابراہیم (علیہ السلام) کو) اسحاق (علیہ السلام) کی جو اللہ کا نبی اور نیکوں میں سے تھا۔ اس بشارت کا ذکر سورة ہود میں تفصیل کے ساتھ ہوا ہے قوم لوط پر عذاب لے کر آنے والے فرشتے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس انسانی شکلوں میں آئے۔ انھوں نے مہمان سمجھ کر بھنا ہوابچھڑا ان کے سامنے رکھا مگر ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تھے جس کی وجہ سے ابراہیم (علیہ السلام)

کچھ خوفزدہ ہوئے تو فرشتوں نے تسلی دی کہ خوف نہ کھائیے ، ہم تو قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حضرت سارہ (رض) جو پاس کھڑی تھی ہنس پڑی فبشرنھا بإسحق و من وراء إسحاق یعقوب پھر ہم نے اس کو اسحاق اور ان کے پیچھے (ان کے بیٹے) یعقوب (علیہ السلام) کی بشارت دی۔ وہ کہنے لگی ، ہائے میرے کیسے بچہ ہوگا کہ میں بڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہوچکے ہیں ، یہ تو عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا : کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو ، تم پر خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں تمہارے خاندان پر۔ اللہ تعالیٰ علم والا بیٹا عطا کرے گا اور اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پوتے یعقوب (علیہ السلام) کو بھی دیکھیں گے چنانچہ یہ بشارت بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی۔

ذبيح كون ہيں؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام یا حضرت اسحاق علیہ السلام؟

علامہ ابو عبداللہ محمد بنا احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کون سے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا ‘ اکثر علماء کا یہ مسلک ہے کہ ذبیح حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں ‘(١) حضرت عباس بن عبد المطلب ( ایک روایت کے مطابق) (٢) حضرت عبداللہ بن عباس (٣) حضرت عبداللہ بن مسعود (٤) حضرت جابر بن عبداللہ (٥) حضرت علی بن ابی طالب (٦) حضرت عبداللہ بن عمر اور (٧) حضرت عمر بن خطاب (رض) ‘ ان سات صحابہ کا یہ نظریہ ہے کہ ذبیح حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں ‘ اور تابعیں وغیرہ ھم میں سے علقمہ ‘ سعید بن جبیرـ‘ کعب الاحبار ‘ مکرمہ ‘ القاسم بن ابی بزہ ‘ عطاء ‘ مقاتل ‘ عبد الرحمن بن سابط ‘ زہری ‘ سدی ‘ عبداللہ بن الہذیل ‘ مالک بن انس وغیرہ ھم نے کہا کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ذبیح ہیں ‘ اہل کتاب یہود و نصاریٰ کا بھی اس پر اتفاق ہے ‘ الخاس اور طبری وغیر عہما کا بھی یہی مختار ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے اصحاب اور تابعین سے قوت کے ساتھ یہی منقول ہے۔

 دوسرے علماء کا یہ مختار ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں ‘ حضرت ابوہریرہ ‘ حضرت ابوالطفیل ‘ حضرت عامر بن واثلہ ( اور دوسری روایت کے مطابق) حضرت عبداللہ بن عمر ‘ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا یہی مختار قول ہے ‘ اور تابعین میں سے سعید بن المسیب ‘ الشعبی ‘ یوسف بن مہران ‘ مجاہد ‘ الربیح بن انس ‘ محمد بن کعب القرظی ‘ اکلبی اور علقمہ وغیر ہم کا یہی قول ہے۔

حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے پر دلائل

اصمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عمرو بن العلاء سے پوچھا کہ ذبیح کون ہے تو انھوں نے کہا : اے اصمعی ! تمہاری عقل کہاں چلی گئی ! حضرت اسحاق مکہ میں کب آئے تھے ؟ مکہ میں تو صرف حضرت اسماعیل تھے انھوں نے اپنی اپنے والد گرامی کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر کی تھی اور قربان گاہ بھی مکہ میں ہے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔

حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے پر اس استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ صابرین میں سے ہیں نہ کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) وإسمعیل وإدریس وذا الکفل من الصبرین اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب صابر ( نبی) تھے۔

 اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا صبر یہ تھا کہ انھوں نے ذبح کیے جانے پر صبر کیا تھا ‘ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ صادق الوعد تھے ‘ فرمایا :

واذکر في الکتاب إسماعیل إنه کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا: اور اس کتاب میں اسماعیل علیہ کا ذکر کریں ‘ وہ وعدہ کے بہت سچے تھے اور وہ رسول اور نبی تھے۔

حضرت اسماعیل کو صادق اور الوعد اس لیے فرمایا کہ انھوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ذبح کے وقت صبر کریں گے سو انھوں نے اپنے اس وعدہ کو سچا کر دکھایا ‘ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وبشرنه بإسحق نبیا من الصلحین اور ہم نے ان کو اسحاق نبی کی بشارت دی جو صالحین میں ( الصّٰفّٰت : ١١٢) سے ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ حضرت اسحاق کو ذبح ‘ کرنے کے حکم کیوں کر دیتاجب کہ وہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کو نبی بنائے کی بشارت دے چکا ہے تھا۔

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فبشرنھا بإسحق ومن وراء إسحاق یعقوب (ھود : ٧١) سو ہم نے ( ابراہیم کی زوجہ سارہ کو) اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعدیعقوب کی بشارت دی۔

تو حضرت اسحاق کو ذبح کرنے کا کیسے حکم دیا جاسکتا تھا جب کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی فرما چکا تھا کہ اسحاق کی پشت اور ان کی نسل سے یعقوب پیدا ہوں گے ‘ ظاہر ہے کہ اس بشارت کے پورا ہونے سے پہلے ان کو ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا تھا۔

نیز احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم کے بیٹے کے فدیہ میں جو مینڈھا ذبح ہوا تھا اس کے سینگ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے اس سے معلوم ہوا کہ ذبیح حضرت اسماعیل ہیں اگر حضرت اسحاق ذبیح ہوتے تو اس مینڈھے کے سینگ بیت المقدس میں رکھے ہوئے ہوتے۔ ( الجامع الاحکام القران جز ١٥ ص ٩٢۔ ١٩‘ دارا الفکر بیرت ‘ ١٤١٥ ھ)

امام الحسین بن مسعود الفراء البغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں:  القرظی بیان کرتے ہیں کہ علماء یہود میں سے ایک عالم مسلمان ہوگیا اور اس نے اسلام میں بہت نیک کام کیے، اس سے عمر بن عبدالعزیز نے پوچھاحضرت ابراہیم کے دو بیٹوں میں سے کون سے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس نے کہا حضرت اسماعیل کو، پھر اس نے کہا اے امیرالمومنین ! یہود کو بھی اس حقیقت کا علم ہے لیکن وہ آپ عرب لوگوں سے حسد کرتے ہیں کہ آپ کے باپ کو ذبح کا حکم دیا گیا ہو اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ذبیح اسحاق بن ابراہیم ہیں۔

 اور اس پر دلیل یہ ہے کہ جس مینڈھے کو بطور فدیہ ذبح کیا گیا اس کے سینگ خانہ کعبہ میں بنواسماعیل کے ہاتھوں میں رہے تھے اور حضرت ابن الزبیر اور حجاج کی جنگ میں وہ سینگ جل گئے۔

 شعبی نے کہا میں نے اس مینڈھے کے دونوں سینگوں کو کعبہ میں لٹکا ہوا دیکھا ہے۔

 حضرت ابن عباس (رض) نے کہا میں نے اس مینڈھے کے سر کو سینگوں سمیت کعبہ کے پر نالہ کے ساتھ لٹکا ہوا دیکھا ہے وہ سرخشک ہوچکا تھا۔

 اصمعی کہتے ہیں میں نے ابوعمروبن العلاء سے سوال کیا ہے کہ ذبیح کون تھے حضرت اسحٰق یا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ؟ تو انھوں نے کہا اے اصمعی ! تمہاری عقل کہاں ہے ؟ حضرت اسحٰق مکہ میں کب آئے تھے ! مکہ میں تو حضرت اسماعیل آئے تھے اور انھوں نے ہی اپنے والد کے ساتھ مل کر کعبہ کی تعمیر کی تھی۔  (معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٦، داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢٠ ھ)

حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبیح ہونے کا تورات سے ثبوت

 ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ہے کہ تورات کی آیات سے بھی یہ ثابت ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں ‘ اب ہم ان آیات کو پیش کر رہے ہیں : درج ذیل آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اکلوتے اور پہلوٹھی کے بیٹے تھے۔

 اور ابراہم کی بیوی ساری کے کوئی اولاد نہ ہوئی اس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا اور ساری نے ابرام سے کہ دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی کے پاس جاــ‘ شاید اس سے میرا گھر آباد ہو۔ اور ابرام نے ساری کی بات مانی۔ اور ابرام کو ملک کنعان میں رہتے دس برس ہوگئے تھے جب اس کی بیوی ساری نے اپنی لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے۔ اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور جب معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوئی تو اپنی بی بی کو حقیر جاننے لگی۔ ( پیدائش باب ١٦‘ آیت : ٤۔ ١ توراۃ ١٦‘ بائبل سوسائٹی لاہور ‘ ١٩٩٢)

 اور ابرام سے ہاجرہ کے ایک بیٹا ہوا اور ابرام نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ سے پیدا ہو اسماعیل رکھا۔ اور جب ابرام نے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا۔ ( پیدائش باب ١٦‘ آیت : ٤۔ ١ توراۃ ١٦‘ بائبل سوسائٹی لاہور ‘ ١٩٩٢) ان آیات میں یہ تصریح ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے ہیں اور اب جو آیات ہم ذکر کر رہے ہیں ان میں یہ تصریح ہے کہ حضرت اسماعیل کے پیدا ہونے کے بعد حضرت سارہ سے حضرت اسحاق پیدا ہوئے : اور خدا نے ابراھام سے کہ ساری جو تیری بیوی ہے اس کو ساری نہ پکارنا ‘ اس کا نام سارہ ہوگا۔ اور میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا ‘ یقینا میں اسے برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے ۔ تب ابراھام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو برس کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا اور کیا سارہ کے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی ؟۔ اور ابراھام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے۔ تب خدا نے فرمایا بیشک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو ان کا نام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی ہے باندھوں گا۔ (پیدائش۔ باب : ١٧، آیت : ١٩۔ ١٥، توراۃ ص ١٧۔ ١٦، پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور۔ ١٩٩٢ ئ)

حسب ذیل آيتوں میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم کو ان کے اکلوتے بیٹے کی قربانی کرنے کا حکم دیا گیا :

ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابراہیم کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہیم ! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔ تب اس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اسحٰق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ (پیدائش، باب ٢٢، آیت : ٢۔ ١، توراۃ ص ١٢، پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور۔ ١٩٩٢ ئ)

 اب آیات میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا، اور اب حضرت اسحٰق ان کے اکلوتے بیٹے نہ تھے کیونکہ اس وقت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی موجود تھے جو ان سے چودہ سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور وہی اکلوتے تھے، یہودیوں نے توراۃ کی اس آیات میں تحریف کرکے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ حضرت اسحٰق کا نام ڈال دیا لیکن اس آیت میں اکلوتے کا لفظ ان کی تحریف کی چغلی کھا رہا ہے

خاندان ابراہیم (علیہ السلام)

توراۃ کے بیان کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) سو سال کے ہوئے تھے کہ ان کو اس بیٹے ” غلام علیم “ کی بشارت سنائی گئی جو سارہ کے بطن سے تھے چنانچہ تحریر ہے کہ ” اور خدا نے ابراہام سے کہا کہ تیری جورو ساری جو ہے اس کو ساری نہ پکارنا اس کا نام سارہ ہوگا اور میں اس میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقینا میں اسے برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے ، تب ابراہام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو سال کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا اور کیا سارہ کے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی ؟ اور ابراہام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے ۔ تب خدان نے فرمایا کہ بیشک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو اس کا نام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی عہد ہے باندھوں گا ۔ “ (پیدائش ١٧ : ١٥ تا ٢٠)

قرآن کریم میں سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش اور خوشخبری کا ذکر سورة ہود ‘ سورة الحجر اور سورة الذاریات میں کیا گیا ہے ۔ آپ کا قرآنی نام بلاشبہ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) ہے لیکن توراۃ میں آپ کو اضحاق تحریر کیا ہے جو غالبا اضحاک ہوگا اس لیے بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ خدا کے فرشتوں نے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سوبرس کی عمر میں اور سیدہ سارہ کو نوے برس کی عمر میں بیٹا ہونے کی بشارت دی تو وہ انھوں نے اچنبھا سمجھا تھا اور دونوں کو ہنسی آگئی تھی اس لیے اس کا یہ نام تجویز ہوا یا اس لیے یہ نام رکھا گیا کہ ان کی پیدائش سیدہ سارہ کی مسرت و شادمانی کا باعث ہوئی اس لیے یہ یضحک سے یضحق اور اس سے اضحاق ہوگیا لیکن اس کی حیثیت وہی ہے جو سیدی حافظ عنایت اللہ (رح) نے اسحاق سے استدلال کیا ہے ۔

توراۃ نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اس گھر کے سارے مردوں کے ختنہ کا ذکر کیا ہے کہ ایک ہی روز ہوا جب کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر اسی برس کی تھی اس طرح سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کے ختنہ کے متعلق تحریر کیا کہ اسحاق (علیہ السلام) آٹھ دن کے ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کا ختنہ کروا دیا ۔ (پیدائش ٢١ : ٤)

سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی شادی اور اولاد در اولاد

قرآن کریم سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی شادی یا شادیوں کا ذکر نہیں کیا اگرچہ آپ کی اولاد اور اولاد کی اولاد بھی ہے بعض کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ آپ کے ہاں نبوت کا سلسلہ مسلسل چلتا رہا اور بہت سے نبی ورسول اس سلسلہ میں پیدا ہوئے جن میں سے بعض کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہوا ہے ، توراۃ میں آپ کی شادی کے بارے میں ایک طویل قصہ مذکور ہے ۔

جس کا ماحصل کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے کانہ زاد الیعزر دمشقی سے فرمایا کہ میں یہ طے کرچکا ہوں کہ اسحاق (علیہ السلام) کی شادی فلسطین کے ان کنعانی خاندانوں میں ہرگز نہ کروں گا بلکہ میری یہ خواہش ہے کہ اپنے خاندان اور باپ دادا کی نسل میں اس کا رشتہ کروں اس لیے تو سازوسامان لے کر جا اور فدان آرام میں میرے بھتیجے بتوئیل بن ناحور کو یہ پیغام دے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اسحاق سے کردے اگر وہ راضی ہوجائے تو اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ میں اسحاق کو اپنے پاس سے جدا کرنا نہیں چاہتا لہٰذا لڑکی کو تیرے ساتھ رخصت کر دے ۔ الیعزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق فورا آرام کو روانہ ہوگیا جب آبادی کے قریب پہنچا تو اپنے اونٹ کو بٹھایا تاکہ حالات معلوم کرے الیعزر نے جس جگہ اونٹ بٹھایا تھا اس کے قریب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی بتوئیل کا خاندان آباد تھا ابھی یہ اس میں مشغول تھا کہ سامنے اسے ایک حسین لڑکی نظر آئی جو پانی کا گھڑابھر کر مکان کو لیے جا رہی تھی الیعزر نے اس سے پانی مانگا لڑکی نے اس کو بھی پانی پلایا اور اس کے اونٹ کو بھی اور پھر حال دریافت کیا الیعزر نے بتویل کا پتہ دریافت کیا لڑکی نے کہا کہ وہ میرے باپ ہیں اور الیعزر کو مہمان بنا کرلے گئے مکان پر پہنچ کر اپنے بھائی لابان کو اطلاع دی لابان نے الیعزر کی بیحد مدارات کی اور آمد کیوجہ دریافت کی الیعزر نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیغام سنایا لابان کو اس پیغام سے بیحد خوشی ہوئی اور اس نے بہت سازوسامان دے کر اپنی بہن رفقہ کو الیعزر کے ہمراہ رخصت کردیا اور اس طرح رفقہ اسحاق (علیہ السلام) کی بیوی ہوئی اور اس بیوی سے سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کے توام دو لڑکے الترتیب عیسو اور یعقوب پیدا ہوئے یہ بیان توراۃ میں پیدائش باب ٦٤ کا ہے اور اس میں بہت رطب ویابس بیان ہوا ہے اس لیے ہم اس کو حذف کرتے ہوئے صرف یہ بات عرض کریں گے اس طرح قرآن کریم کی یہ پیش گوئی کہ ” اے ابراہیم ہم نے آپ کو اسحاق جیسا فرزند عطا کیا اور اسحاق کے پیچھے یعقوب بھی “ پوری ہوئی اور یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں میں سے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی سرگزشت قرآن کریم نے بہت تفصیل کے ساتھ بیان کی جو سورة یوسف میں بطور قصہ اور وہ بھی ایسا جس میں رہتی دنیا کے لوگوں کے بہت نشانیاں رکھ دی گئی ہیں ، بشرطیکہ ان نشانیوں سے کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہیے ، سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں عیسو اور یعقوب کا ذکر توراۃ میں بہت تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن اس قصہ میں رطب ویابس ہے اس لیے ہم اس کو بھی نظر انداز کرتے ہیں ۔ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی وفات کہاں اور کیسے ہوئے کچھ معلوم نہیں کیونکہ اس کا ذکر توراۃ نے بھی نہیں کیا اور تاریخ انبیاء بھی اس جگہ خاموش ہے اور غیر متعلق باتوں کو بیان کرکے وقت ضائع کرنے کا ماحصل کیا ہے اندریں صورت سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت کو اس جگہ ختم کرتے ہیں ۔

﴿وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ﴾

 وہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) كا تذكرہ

 حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں یوں تو بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے اور انھیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی عظمت سے نوازا۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ نمایاں قدوقامت کی حامل دو شخصیتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بنادیا اور جنھوں نے بنی اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ اپنا وزن محسوس کرایا، وہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) تھے۔ یہ دونوں ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو غلامی کی طویل رات کی وجہ سے آزادی کی سحر طلوع ہونے کی امید کھو چکے تھے۔ اور حکمرانوں کے بدترین ظلم اور قابل نفرت رویے کی وجہ سے ان کے اندر آزادی کی تڑپ، خاندانی خصوصیات اور اجتماعی علامات اپنا توازن کھو چکی تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بھائیوں کو شخصیت کا ایسا حُسن، اللہ تعالیٰ کے دین پر ایسی استقامت اور اپنی خصوصی تائید و نصرت سے اس طرح نوازا تھا کہ چند ہی سالوں میں فرعون اور آل فرعون جیسے جبار دشمن کو شکست دے کر بنی اسرائیل کو اس عظیم ابتلاء سے نجات دینے میں کامیاب ہوگئے جس میں وہ صدیوں سے مبتلاء تھے۔ ان کی غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور غلاموں سے بدتر جو ان کے ساتھ سلوک ہورہا تھا اسے ختم کر ڈالا۔ اور بنی اسرائیل اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ان دو بزرگوں کی نگرانی اور تربیت سے ایک ایسی عظیم امت بن کر اٹھے جس نے صدیوں تک اپنی عظمت کے جھنڈے لہرائے۔ تیسری آیت میں فرمایا کہ ہم نے ان کی مدد کی۔ اس مدد سے مراد وہ تمام آزمائشیں بھی ہوسکتی ہیں جن سے فرعون اور آل فرعون کو ہراساں کیا گیا۔ اور انھیں باور کرایا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے دین کا راستہ روکنے سے باز نہ آئے تو کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ اس سے وہ نصرت بھی مراد لی جاسکتی ہے جس سے بنی اسرائیل مصر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اور پھر جب بحرقلزم نے ان کا راستہ روکا اور فرعون کی فوجیں سر پر پہنچ گئیں تو محض اللہ تعالیٰ کی نصرت سے قلزم کا پانی سمٹ گیا اور بنی اسرائیل کو دریا پار کرنے کے لیے راستہ مل گیا۔ اسی طرح اس سے مراد وہ نصرتیں بھی ہوسکتی ہیں جو صحرائے سینا میں مصر سے نکلنے کے بعد من حیث القوم بنی اسرائیل کو وقتاً فوقتاً میسر آتی رہیں۔ حتیٰ کہ وہ اردن اور فلسطین پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

﴿وَاِنَّ اِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ﴾

حضرت الیاس علیہ السلام کا قصہ

امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن عسا کر المتوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت الیاس (علیہ السلام) کا نام و نسب اس طرح ہے : الیاس بن یا سین بن فنحاس بن العیز اور بن ہارون ‘ اور ایک قول اس طرح ہے : الیاس بن العازر بن العیز اور بن ہارون بن عمر ان بن قاھث بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔

محمد بن السائب الکلبی بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جو نبی مبعوث کیے گئے وہ حضر ت داریس ہیں ‘ پھر حضرت نوح ‘ پھر حضرت ھود ‘ پھر حضرت صالح ‘ پھر حضرت ابراہیم ‘ پھر حضرت لوط ‘ پھر حضرت اسماعیل ‘ پھر حضرت اسحاق ‘ پھر حضرت یعقوب ‘ پھر حضرت یوسف ‘ پھر حضرت شعیب ‘ پھر حضرت موسیٰ ‘ پھر حضرت ہارون ‘ پھر حضرت الیاس بن نمیس بن العاذ بن ہارون بن عمر ان بن قاھث بن لاوی بن یعقوب۔ (تاریخ دمشق ج ٩ ص ١٥٤‘ البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٤٣‘ تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢١‘ جام البیان جز ٢٣ ص ١٠٩‘ الدر المثور ج ٧ ص ١٠٢‘ روح المعانی جز ٢٣ ص ٢٠٣)

حضرت الیاس (علیہ السلام) جنہیں بائبل میں ایلیا کہا جاتا ہے وہ معتبر روایات کے مطابق نویں صدی قبل مسیح (علیہ السلام) میں ملک شام کے شہر بعلبک کے رہنے والوں کی اصلاح و تربیت کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ يہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں،  جب انھوں نے اعلان نبوت فرمایا تو کچھ یہودیوں نے ان کی تحریک پر لبیک کہا لیکن اکثریت نے ان کی شدید مخالفت بھی کی ۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے قوم کو للکارا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ سے ڈرنے کے بجائے اس ذات کو چھوڑ کر بعل بت کی عبادت و بندگی کر رہے ہو حالانکہ تمہارا اور ہمارا رب ایک ہی ہے جو تمام پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔ حضرت الیاس کی دعوت پر سوائے اللہ کی اطاعت و بندگی کرنے والوں کے بقیہ سب نے ان کو جھٹلایا اور ان کی بات سننے سے انکار کردیا۔

حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم جس بت بعل کی پرستش کرتی تھی اس کے معنی شوہر ، مالک ، سردار اور زبردست کے تھے ۔ بعل کی تاریخ بہت پرانی ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی اس بعل کی پرستش کی جاتی تھی ۔ یہ ان کا مقبول ترین بت تھا جس سے وہ اپنی مرادیں مانگا کرتے تھے۔ شام کا شہر بعلبک جس کی اصلاح کے لیے ان کو بھیجا گیا تھا اسی بت کے نام پر رکھا گیا تھا۔ بعض مفسرین کا تو یہ خیال ہے کہ مکہ مکرمہ میں جو کفار و مشرکین کا سب سے بڑا بت ” ھبل “ تھا شاید وہ بھی بعل کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

اسرائیلی روایات یہ ہیں کہ حضرت الباس (علیہ السلام) زندہ ہیں اور ان کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا گیا ہے۔ اب وہ قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ لیکن اسلامی روایات کے مطابق اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہے کہ حضرت الباس زندہ آسمانوں میں موجود ہیں۔

 بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کے متعلق بھی وہی فرمایا جو آپ سے پہلے حضرات انبیاء کرام کے لیے فرمایا تھا کہ اللہ نے آنے والی نسلوں میں ان کے نام کو زندہ رکھا ہے۔ وہ اللہ کے نیک اور مومن بندے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ہر طرف سے قوم بعلبک کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے تھے۔

﴿سَلٰمٌ عَلٰٓي اِلْ يَاسِيْنَ﴾

علامہ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں: یاسین حضرت الیاس کے باپ کا نام تھا اور رال یاسین سے مراد حضرت الیاس ہیں اور حضرت الیاس کو کنایہ سے تعبیر کرنے میں ان کی تعظیم ہے۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آل ابراہیم سے تعبیر کرنے میں آپ کی تعظیم ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یاسین سے مراد خود حضرت الیاس ہوں اور ال کا لفظ زئد ہو۔  (روح المعانی جز ٢٣ ص ٢٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

ایک تفسیر تو یہ بھى  ہے کہ یہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کا نام ہے۔ ان کو ” ال یاسین “ بھی کہتے ہیں۔ جیسے ” طور سیناء “ کو ” طور سینین “ بھی کہتے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد ان کے پیروکار ہیں۔ (تفسیر مدارک: ص: ٢٦، ج: ٤، معالم التنزیل: ص: ٣٦، ج: ٣)

﴿وَاِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ﴾

حضرت لوط عليہ السلام كا قصہ

حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بھیجتے تھے۔ اللہ نے آپ آپ کو سدوم اور عامورہ کی ان بستیوں کے لوگوں کی اصلاح کے لیے نبی بنا کر بھیجا تھا جنہوں نے بےحیائی اور بےغیرتی کے وہ کام کر رکھے تھے جو ان سے پہلے کسی قوم نے نہیں کئے تھے وہ پوری قوم خلاف فطرت فعل کرتی اور اس پر کسی شرمندگی کے بجائے جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اس فعل بد سے روکنا چاہا تو ان پر طعن وطنز کے تیر چلانے کے ساتھ ساتھ یہ دھمکیاں بھی دی جانے لگیں کہ اے لوط ! اگر تم نے اپنے وعظ و نصیحت کا سلسلہ بند نہیں کیا تو ہم تمہیں نہ صرف اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے بلکہ تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے۔

آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا ، اللہ نے اپنے فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں بھیجے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی جو ان بدکاروں کی سرپستی کرتی تھی اس نے قوم کے لوگوں کو بتا دیا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت لڑکے مہمان بن کر آئے ہیں ۔ یہ پوری بدکار قوم حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچی اور مطالبہ کیا کہ ان لڑکوں کو ہمارے حوالے کر دو ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) سخت پریشان ہوگئے۔ فرشتوں نے کہا کہ اے لوط (علیہ السلام) آپ پریشان نہ ہوں درحقیقت ہم اللہ کے فرشتے ہیں جو اس قوم پر عذاب لانے کے لیے بھیجے گئے ہیں آپ اپنی بیوی کے سوا سارے گھر والوں اور اہل ایمان کو صبح ہی صبح لے کر اپنے گھر سے اس طرح نکل جائیے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھئے ، چنانچہ حضرت لوط (علیہ السلام) صبح اہل ایمان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ سب سے پہلے ایک زبردست آواز اور چیخ سنائی دی پھر ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور ان پر پتھروں کی زبردست بارش کردی گئی ۔ اس کے بعد ان آباد بستیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا اور سمندر کا پانی اس طرح چڑھ کر آگیا کہ وہی آباد بستیاں پانی کے نیچے چلی گئیں اور وہ بحیرہ مردار بن گئیں۔

اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے فرمایا ہے کہ ان تباہ کی ہوئی بستیوں سے کبھی صبح اور کبھی رات کے اندھیروں میں تمہارے قافلے ان کے پاس سے گزرتے ہیں کبھی تم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ آباد بستیاں کیوں تباہ کر کے سمندر میں غرق کردی گئیں ۔ اگر تم غور و فکر کرو گے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس قوم نے نہ صرف یہ کہ بدکاروں میں انتہاء کردی تھی بلکہ اللہ کے پیغمبر کی توہین بھی کی تھی اور ان کو جھٹلا دیا تھا ۔ فرمایا کہ تمہارے اندر اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں اگر تم نے ان کی اطاعت نہ کی اور اپنے کفر و شرک میں مبتلا رہے تو تمہارا انجام بھی گزری ہوئی قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔

﴿وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ﴾

حضرت یونس (علیہ السلام) جو بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے انبیاء میں سے ایک نبی ہیں ان کو بابل و نینوا کے نافرمانوں کی اصلاح و تربیت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت یونس (علیہ السلام) نے نینوا کے لوگوں کو مسلسل سات سال تک تبلیغ دین فرمائی مگر وہ اپنی کافرانہ اور مشرکانہ حرکتوں سے باز نہیں آئے۔ ایک دن حضرت یونس (علیہ السلام) نے پوری صورت حال اللہ کی بارگاہ میں پیش کر کے عرض کیا اے اللہ یہ قوم اپنے گناہوں پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کر رہی ہے اور کسی طرح میری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے لہٰذا اب آپ اس قوم کے لیے اپنا فیصلہ فرما دیجئے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کرلی تھی جس کا انھیں یقین تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر ہی حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی بیوی اور دو بچوں کو لے کر نینوا سے نکل گئے۔

 راستے میں ان کے ایک بیٹے کو بھیڑیا لے گیا ۔ تلاش کرنے کے باوجود نہ مل سکا ۔ ادھر دوسرا بچہ پانی میں بہہ گیا ۔ آپ کی بیوی اپنے بچے کو بچانے کے لیے دوڑیں تو وہ بھی لا پتہ ہوگئیں ۔

 حضرت یونس (علیہ السلام) تن تنہاء دریا کی طرف چلے ۔ لوگوں سے بھری ہوئی ایک کشتی میں سوار ہوگئے جب کشتی بیچ دریا میں پہنچی تو وہ بھنور میں پھنس گئی اور سب کے ڈوبنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ۔ ملاح نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر بھاگا ہے اور وہ کشتی پر سوار ہے جب تک وہ اس کشتی سے نہیں اترے گا ہم سب کا زندہ بچنا مشکل ہے۔

 حضرت یونس (علیہ السلام) کو احساس ہوا کہ میں بھی تو اللہ کا بندہ اور غلام ہوں اور اپنے آقا اللہ کی اجازت کے بغیر گھر سے روانہ ہوگیا ہوں ۔ انھوں سے سب سے کہا کہ وہ میں ہی ہوں ۔ سب نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ قرعہ اندازی کی جائے ۔ قرعہ اندازی کی گئی تو اس میں تین مرتبہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا آخر کار حضرت یونس (علیہ السلام) نے خود ہی پانی میں چھلانک لگا دی ادھر اللہ نے ایک بہت بڑی مچھلی کو حکم دیا کہ وہ یونس (علیہ السلام) کو نگل کر اپنے پیٹ میں ان کی حفاظت کرے ، چنانچہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے جیسے ہی پانی میں چھلانگ لگائی تو وہ مچھلی جو منہ کھولے ہوئے تیار تھی اس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو ان تمام حالات کا سخت افسوس تھا اور انھوں نے یہ تسبیح پڑھنا شروع کی ” لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظمین “ انھوں نے اس تسبیح کو اتنی کثرت سے پڑھا کہ اللہ کو ان پر پیار آگیا ۔ مچھلی نے اللہ کے حکم سے ایک طویل عرصہ تک پیٹ میں رکھنے کے بعد ان کو کسی چٹیل میدان میں اگل دیا۔ تقریباً چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے وہ بہت کمزور اور نا تو اں ہوگئے تھے اللہ نے ان پر سایہ کرنے کے لیے ایک کدو کی بیل کو اگا دیا اور بعض روایات کے مطابق ایک پہاڑی بکری روزانہ ان کے قریب آتی اور حضرت یونس (علیہ السلام) اس کا دودھ پی لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی تسبیح نہ کرتے یعنی اپنے کئے پر شرمندگی اور ندامی کا اظہار نہ کرتے تو قیامت تک وہ اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔

ادھر جب نینوا کے لوگوں نے دیکھا کہ گہرے سیاہ بال بڑی تیزی سے ان کی طرف امنڈ امنڈ کر آ رہے ہیں اس میں دھواں اور زبردست گھن گرج ہے تو وہ سب کے سب سہم گئے اور سمجھ گئے کہ اب اللہ کا عذاب نازل ہونے والا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کیا مگر وہ تو جا چکے تھے۔ پوری قوم نے فیصلہ کیا کہ سب بچے بڑے اپنے مویشی جانور لے کر میدان میں نکل جائیں اور اللہ سے دعا کریں اور معافی مانگیں چنانچہ پوری قوم اپنی بیوی ، بوڑھے ، جوانوں اور تمام مویشوں کو لے کر کھلے میدان میں جمع ہوگئے اور عرض کیا الٰہی ہم سے بھول ہوگئی ہمیں معاف کر دیجئے۔ عذاب کا فیصلہ ہونے کے باوجود اللہ نے پوری قوم کے استغفار کی وجہ سے معافی کا حکم دے دیا اور اس قوم سے اللہ کا عذاب ٹل گیا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) صحت مند ہوتے گئے تو اللہ نے حکم دیا کہ اب وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ جائیں اور ان کی اصلاح کا کام کریں چنانچہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) اپنے شہر میں آئے تو پوری قوم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی مکمل اطاعت و فرمان برداری کا وعدہ کر کے اپنی اصلاح شروع کردی ۔ ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) کی بیوی اور دونوں بچوں کو لوگوں نے پانی میں ڈوبنے اور بھیڑیئے سے بچا لیا تھا وہ بھی واپس آگئے۔ اس طرح اللہ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو ہر طرح کی خوشیاں عطاء فرما دیں۔

اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو ایک مرتبہ پھر آگاہ کیا ہے کہ موت کے فرشتے اور کسی قوم پر عذاب کا فیصلہ ہونے کے بعد پھر دعا و استغفار کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی واحد ایسی قوم تھی جس پر عذاب کا فیصلہ ہونے کے باوجود ان کو معاف کردیا گیا تھا۔ فرمایا کہ اے مکہ والو ! تمہارے اندر تو وہ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں کہ تمہارے حق میں ان کی دعا ہی کافی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی مکمل اطاعت و فرمان برداری کی جائے ۔ اگر آپ پر ایمان نہ لائے اور نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر اللہ کا وہ فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگے گی جس سے قومیں تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔

﴿فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُوْنَ﴾

ملائکہ سے متعلق بعض قبائل کا عقیدہ

 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش، جہینہ، بنی سلمہ، خزاعہ اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ان قبائل کے لوگ اس خیال سے ان کی پوجا کرتے اور قربانیاں دیتے تھے کہ اگر کبھی ہمیں پروردگار کی ناراضگی سے واسطہ پڑا تو پروردگار کی بیٹیاں ہمیں اس کے غضب سے بچا لیں گی۔ ان کے اس عقیدے کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جارہا ہے کہ آپ ان سے پوچھئے کہ تم نے جو پروردگار کے متعلق یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ہے کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں، کیا تم نے اس عقیدے کے اندر جو قباحتیں مضمر ہیں کبھی ان پر غور کیا ہے۔ ان میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تم نے فرشتوں کو مونث گمان کر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تمہیں اس کی خبر کیسے ہوئی کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مونث پیدا فرمایا ہے۔ کیا فرشتوں کی تخلیق کے وقت تم موجود تھے، تم دیکھ رہے تھے کہ کس کس مخلوق کو پیدا کیا جارہا ہے اور ان میں مذکر کون ہے اور مونث کون ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہے تو اس کا ثبوت لاؤ۔ یہی مضمون سورة الزخرف میں بھی ان الفاظ میں بیان ہوا ہے :  وَجْعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَادُالرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ط اَشَہِدُوْا خَلْقَھُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُھُمْ وَیُسْئَلُوْنَ . کیا انھوں نے فرشتوں کو جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں عورتیں بنادیا ہے، کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے، ان کا یہ بیان لکھ رکھا جائے گا اور ان سے اس کی پرسش ہوگی۔ “

﴿وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ﴾

یعنی جب مشرکین نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بنا لیا تو پھر سوال ہوا کہ فرشتوں کی مائیں کون ہیں ؟ جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں۔ تو انھوں نے کہا بڑی بڑی جنیاں فرشتوں کی مائیں ہیں۔ گویا جنات کو اللہ تعالیٰ کا سسرال بنادیا ۔ (العیاذ باللہ ) (التفسیر المنیر: ص: ١٤٧، ج: ٢٣) حافظ ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے بعض دشمنان خدا کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ابلیس اللہ تعالیٰ کا بھائی ہے۔ (العیاذ باللہ) (ابن کثیر: ص: ٣٧، ج: ٧)

﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ﴾

حضرات مفسرین فرماتے ہیں کہ بعض اوقات دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے پیروکاروں کو ظاہری طور کامیابی نہیں ہوتی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ بلکہ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ آخرت میں جا کر پورا ہوگا اہل ایمان وہاں پر منصور ہوں گے اور ان کے مخالفین مقہور ہو کر اللہ تعالیٰ کے عذاب میں پکڑے جائیں گے۔ (روح المعانی : ص : ١٥٦، ج : ٢٣، خازن : ص : ٣١،ج : ٤)

 سورة الرعد میں اللہ تعالیٰ نے حق وباطل کی کشمکش کو سیلاب کی جھاگ کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ جس طرح سیلاب کی جھاگ میں وقتی طور پر جوش و خروش پایا جاتا ہے اسی طرح باطل کو بھی ابال آتا ہے جو جلدی ختم ہوجاتا ہے جس طرح سیلاب کا جھاگ ختم ہوجاتا ہے اور مفید پانی زمین کی سیرابی کے لیے باقی رہ جاتا ہے اسی طرح کفر و شرک کا طوفان تو چھٹ جاتا ہے اور حق کی پائیداری باقی رہ جاتی ہے اگر دنیا میں اللہ کے نبی یا اس کے نیک بندے مغلوب بھی ہوجائیں پھر بھی اللہ تعالیٰ حق کو ہی غالب کرتا ہے تمام انبیاء کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا کیا تکالیف برداشت نہیں کرنی پڑی بالاخر فتح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی اور کفار پر آپ کو غالب کردیا۔

﴿فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاۗءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ﴾

صبح کے وقت کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں دشمن کا حملہ عموماً صبح کے وقت ہوا کرتا تھا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی یہی معمول تھا کہ آپ کو جب کسی دشمن کے خطے پر حملہ کرنا مقصود ہوتا تو صبح تک انتظار فرماتے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان نے صبح کے وقت خیبر پر حملہ کیا اس وقت لوگ کاشتکاری کے لیے اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے۔ جب انھوں نے اسدی لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے۔ بخدا یہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نظر آتے ہیں۔

 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرجت خیبر یعنی خیبر اجڑ گیا۔ إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرین. (قرطبی ص : ١٤٠: ج : ١٥، روح المعانی : ص : ١٥٧، ج : ٢٣)

 تو یہاں پر بھی وہی الفاظ استعمال کئے کہ جب ہم کسی قوم کے صحن میں اتریں گے تو لوگوں کو صبح بہت بری ہوگی چنانچہ خیبر پر حملہ کے نتیجہ میں جنگ ہوئی خیبر فتح ہوا اور وہ سارا علاقہ مسلمانوں کے زیر نگین ہوا۔

﴿سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ، وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ ، وَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾

حضرات مفسرین فرماتے ہیں کہ ان آخری آیات میں پوری سورة کا خلاصہ و نچوڑ بیان کردیا گیا ہے ابتداء سورة میں توحید بیان ہوئی مشرکین جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔ پہلی آیت میں اس طویل مضمون کی طرف اشارہ تھا اس کے بعد انبیاء کرام کے واقعات بیان کئے گئے۔ پھر مشرکین کے اعتراضات کے عقلی و نقلی جوابات دئیے گئے جس میں بتایا گیا بالاخر فتح حق کو ہوگی۔ ان باتوں کو جو شخص عقل و بصیرت کی نگاہ سے پڑھے گا وہ بالاخر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا پر مجبور ہوگا چنانچہ اسی حمد وثناء پر سورة کو ختم کیا گیا ہے۔

 انبیاء کے ساتھ صرف سلام کا صیغہ بغیر صلوٰۃ کے استعمال کرنا جائز ہے : اس آیت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے ناموں کے ساتھ صرف صیغہ سلام لانا بھی جائز ہے بغیر لفظ صلوٰۃ کے۔

 اس میں کوئی کراہت نہیں (اگرچہ لفظ صلوٰۃ کے ساتھ لانا زیادہ بہتر ہے) ان آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ جل شانہ وعزاسمہ نے اہل ایمان کو اپنی ذات عالی کی تسبیح وتحمید اور اپنے پیغمبر ان عالی شان پر سلام بھیجنے کا طریقہ اور کیفیت بتلائی ہے۔

 ایک عجیب نکتہ : ان آیات کی ترتیب میں اگر غور کیا جائے تو ایک عجیب نکتہ کی طرف رسائی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے تسبیح کا ذکر فرمایا اور آخر آیت میں تحمید کا ذکر فرمایا جب کہ درمیان میں پیغمبروں پر سلام کا ذکر فرمایا اور انہی آیات پر سورة مبارکہ کا اختتام فرمایا۔

 سلام کو تسبیح وتحمید کے درمیان میں لانے سے شاید اسی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیاء (علیہم السلام) پر درود سلام کا ہدیہ بھیجنے کی توفیق مل جانا بھی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس پر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ضروری ہے۔ (کذافی روح المعانی ص : ٢١٠، جلد : ٢٣)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply