سورہ طور ترجمہ اور تفسير
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَالطُّورِ ﴿1﴾
طور (پہاڑ کی قسم)
وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ ﴿2﴾
اس کتاب کی قسم جو لکھی ہوئی ہے۔
فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ ﴿3﴾
کھلے کاغذ میں ،
وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ ﴿4﴾
اور آباد گھر (بیت المعمور) کی قسم
وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ﴿5﴾
اور اونچی چھت (آسمان) کی قسم
وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ ﴿6﴾
اور جوش مارتے سمندر کی قسم،
إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ﴿7﴾
کہ بیشک آپ کے پروردگار کا عذاب ضرور ہو کر رہے گا۔
مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ ﴿8﴾
کوئی بھی اسے ٹال نہیں سکتا،
يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا ﴿9﴾
جس دن آسمان زور زور سے لرزنے لگے گا
وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا ﴿10﴾
اور پہاڑ چلتے پھریں گے
فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿11﴾
سو اس دن جھٹلانے والوں کے لیے خرابی ہے
الَّذِينَ هُمْ فِي خَوْضٍ يَلْعَبُونَ ﴿12﴾
جو باتیں بناتے ہوئے کھیلتے ہیں
يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ﴿13﴾
جس دن یہ لوگ جہنم کی آگ کی طرف دھکے دے کر لائے جائیں گے
هَٰذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴿14﴾
یہی وہ آگ ہے جسے تم جھٹلاتے تھے
أَفَسِحْرٌ هَٰذَا أَمْ أَنْتُمْ لَا تُبْصِرُونَ ﴿15﴾
کیا یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھتا نہیں
اصْلَوْهَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿16﴾
(اب) اس میں داخل ہو، پھر خواہ اس پر صبر کرنا یا نہ کرنا تمہارے حق میں (سب) برابر ہے تم کو وہی بدلہ تو دیا جارہا ہے جیسا کہ تم کیا کرتے تھے۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَعِيمٍ ﴿17﴾
بیشک پرہیز گار جنتوں اور اس کی نعمتوں میں ہوں گے۔
فَاكِهِينَ بِمَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ وَوَقَاهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿18﴾
جو کچھ ان کے رب نے ان کو دیا ہوگا اس میں خوش ہوں گے۔ انھیں ان کا رب عذاب جہنم سے بچا لے گا
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿19﴾
خوب (مزے سے) کھاؤ پیوان (نیکیوں) کے بدلہ میں جو تم کرتے رہے ہو،
مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ ۖ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ ﴿20﴾
یہ لوگ برابر برابر بچھے ہوئے تخت (تختوں) پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے۔ اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کردیں گے
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ﴿21﴾
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ہوگی ہم ان کو ان کی اولاد سے ملا دیں گے اور ہم ان کے اعملا کا اجر کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے عمل کے سبب رہنے رکھا ہوا ہے۔
وَأَمْدَدْنَاهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ ﴿22﴾
اور ہم انھیں میوے اور گوشت جیسے بھی مرغوب ہوں گے روز افزوں دیتے رہیں گے،
يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ ﴿23﴾
ہاں آپس میں جام (شراب) پر چھینا جھپٹی بھی کریں گے کہ اس (شراب) میں نہ بک بک لگے گی اور نہ اور کوئی بیہودہ بات۔
وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ ﴿24﴾
اور ان کے پاس لڑکے آئیں جائیں گے جو ان کے لیے ہیں، گویا وہ محفوظ موتی ہیں۔
وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿25﴾
اور اہل جنت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر آپس میں گفتگو کریں گے
قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ﴿26﴾
اور کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے اپنے گھر (دنیا میں) ڈرا کرتے تھے۔
فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ﴿27﴾
سو اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہم کو عذاب دوزخ سے بچا لیا،
إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ ﴿28﴾
ہم اس سے پہلے اس کی دعائیں مانگا کرتے تھے واقعی وہ بڑا محسن ہے، مہربان ہے۔
فَذَكِّرْ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ ﴿29﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو نصیحت کرتے رہیے کیونکہ آپ پروردگار کے فضل و کرم سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔
أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ﴿30﴾
ہاں کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں اور ہم تو ان کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کررہے ہیں؟
قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ ﴿31﴾
آپ کہہ دیجئے (بہتر ہے) انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔
أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلَامُهُمْ بِهَٰذَا ۚ أَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴿32﴾
کیا ان کی عقلیں انھیں باتوں کی تعلیم کرتی ہیں یا یہ ہے کہ یہ ہیں ہی شریر لوگ۔
أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَلْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿33﴾
ہاں یہ کہتے ہیں انھوں نے (قرآن) کو گڑھ لیا ہے ؟ اصل یہ ہے کہ ان میں ایمان ہی نہیں،
فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ ﴿34﴾
اچھا تو یہ لوگ اسی طرح کا کوئی کلام لے آئیں، اگر یہ (اپنے دعوے میں) سچے ہیں۔
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ﴿35﴾
کیا یہ لوگ بغیر کسی کے (پیدا کئے) پیدا ہوگئے یا یہ خود (اپنے) خالق ہیں؟
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَلْ لَا يُوقِنُونَ ﴿36﴾
یا انھوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرلیا ہے ؟ اصل یہ ہے، ان میں یقین ہی نہیں۔
أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ ﴿37﴾
کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں، یا یہ لوگ حاکم (مجاز) ہیں؟
أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ ﴿38﴾
کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے باتیں سن لیا کرتے ہیں ؟ تو ان میں سے جو سن آتا ہو وہ لائے (اپنے دعوی پر) کوئی کھلی دلیل۔
أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ ﴿39﴾
کیا اللہ کے لیے تو بیٹیاں ہوں اور تمہارے لیے بیٹے؟
أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ ﴿40﴾
یا آپ ان سے کچھ معاوضہ طلب کرتے ہیں، سو وہ اس تاوان کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں؟
أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴿41﴾
کیا ان کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ وہ اسے لکھ لیا کرتے ہیں؟
أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ ﴿42﴾
کیا یہ لوگ برائی کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ سو یہ کافر خود ہی برائی میں گرفتار ہوں گے۔
أَمْ لَهُمْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿43﴾
کیا ان کا اللہ کے سوا کوئی اور خدا ہے ؟ پاک ہے اللہ ان کے شرک سے،
وَإِنْ يَرَوْا كِسْفًا مِنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَرْكُومٌ ﴿44﴾
اور اگر یہ آسمان کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھ گرتا ہوا دیکھ لیں تو بھی یہی کہیں کہ یہ تو تہ بہ تہ جما ہوا بادل ہے،
فَذَرْهُمْ حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ ﴿45﴾
تو انھیں چھوڑے رہئے، یہاں تک کہ انھیں اپنا وہ دن پیش آئے جس میں ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔
يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ ﴿46﴾
اس دن ان کا مکر و فریب ان کو ذرا بھی فائدہ نہ دے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَٰلِكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿47﴾
اور بیشک ان ظالموں کو اس دن کے عذاب کے علاوہ بھی عذاب ہونے والا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں۔
وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ ﴿48﴾
آپ اپنے پروردگار کی تجویز پر صبر سے قائم رہئے اس لیے کہ آپ تو عین ہماری حفاظت میں ہیں۔ اور آپ اپنے پروردگار کی حمد وتسبیح کیا کیجئے جب اٹھا کیجئے،
وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ﴿49﴾
اور رات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور ستاروں سے پیچھے بھی۔
سورة الطور کے متعلق احادیث
حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں بیمار ہوں ‘ آپ نے فرمایا : تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرلو ‘ پس میں نے جب طواف کیا اس وقت کیا اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کی جانب کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ (نماز میں) پڑھ رہے تھے: ” والطور۔ وکتب مسطور۔ “(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٥٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٧٦‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١ ٣١٠‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٧١٠)
حضرت جبیربن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغرب کی نماز میں سورة الطور پڑھتے ہوئے سنا جس وقت آپ ان آیتوں کو پڑھ رہے تھے :
ام خلقوا من غیر شیء ام ھم الخلقون۔ ام خلقوا السموت والارض ج بل لا یوقنون۔ ام عند ھم خزآئن ربک ام ھم المصیطرون۔ (الطور : ٣٧۔ ٣٥) آیا وہ بغیر کسی چیز کے ازخود پیدا ہوگئے ہیں یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں ؟۔ کیا انھوں نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے ؟ بلکہ وہ یقین نہیں کرتے۔ کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہ ان خزانوں کے محافظ ہیں۔
حضرت جبیر نے کہا : (ان آیات کو سن کر مجھے یوں لگتا تھا کہ) میرا دل سینے سے نکل کر اڑ جائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٥٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٦٣‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٨١١‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٩٨٧‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٣٢)
”الطور“ کا معنی اور مصداق
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ طور کے معنی میں لکھتے ہیں :
(١) مجاہد نے کہا : سریان یزبان میں طور پہاڑ کا نام ہے۔ مقاتل نے کہا : یہ طور زبیر ہے۔
(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر سبزہ پیدا ہو اور جس پر سبزہ پیدا نہ ہو اس پہاڑ کو طور نہیں کہتے۔ پھر جس پہاڑ طور کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی، اس کے مصداق میں تین قول ہیں :
(١) سدی نے کہا : یہ طور سیناء ہے (٢) ابن قتیبہ نے کہا : یہ وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا (٣) کلبی نے کہا : یہ ایک غیر معروف پہاڑ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی قمس اس لیے کھائی ہے کہ پہاڑوں میں جو اللہ تعالیٰ نے نشانیاں رکھی ہیں ان کو یاد دلایا جائے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص 376-377، دارالکتب العلمیہ، بیروت
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں :
جمہور عرب کے نزدیک ہر پہاڑ کو الطور کہتے ہیں، اس سے مراد طور سینین ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام فرمایا تھا، اس کو طور سینا بھی کہتے ہیں، اس نام سے جو پہاڑ مشہور ہے وہ مصر میں میدان تیہ کے قریب ہے۔
ابوحیان اندلسی نے سورة التین کی تفسیر میں کہا ہے کہ طور سینا شام میں ایک پہاڑ ہے اور یہ وہی پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا۔ امام راغب نے نقل کیا ہے کہ یہ پہاڑ تمام روئے زمین کو محیط ہے اور یہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے ابو حیان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غیر معروف پہاڑ ہے اور میرا اعتماد اس پر ہے کہ یہ پہاڑ مصر میں ہے، اور اسی پہاڑ پر اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا۔ امام راغب نے نقل کیا ہے کہ یہ پہاڑ تمام روئے زمین کو محیط ہے اور یہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے اور ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ جنت کا ایک پہاڑ ہے اور میرے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے، ابوحیان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ غیر معروف پہاڑ ہے اور میرا اعتماد اس پر ہے کہ یہ پہاڑ مصر میں ہے، اور اسی پہاڑ پر اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا۔ (روح المعانی جز 27 ص 41-42 دارالفکر، بیروت، 1417 ھ)
فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ
رق “ کے معانی اور مصادیق میں ارباب لغت کی تصریحات
اس آیت میں ”رق“ کا لفظ ہے، اس کے معانی کتب لغت میں حسب ذیل ہیں :
خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 175 ھ لکھتے ہیں :
”رق“ کا معنی ہے، صحیفہ بیضاء، یعنی سفید ورق، کیونکہ قرآن مجید میں ہے : ” فی رق منشور “
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
” رقیق “ کے معنی ہیں : باریک، کہا جاتا ہے : ” ثوب رقیق “ یعنی باریک کپڑا ”رقیق القلب“ جس کا دل نرم ہو اور ” رق “ کاغذ کے مشابہ اس چیز کو کہتے ہیں جس پر لکھا جاسکے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” فی رق منشور “ (المفردات ج ١ ص 265 مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، 1418 ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی متوفی 711 ھ لکھتے ہیں :
” الرق “ اس باریک کھال یا جھلی کو کہتے ہیں جس پر لکھا جاسکے اور صحیفہ بیضاء (سفید کاغذ) کو بھی کہتے ہیں۔
(القاموس ص ٧٨٨ موستہ الرسالتہ، بیروت، 1415 ھ لکھتے ہیں :
”رق“ اس چیز کو کہتے ہیں جس پر لکھا جاسکے اور یہ وہ باریک کھال ہے جس پر مصحف کو لکھا گیا اور ” منشور “ کا معنی ہے :
” مبسوط “ یعنی کھلا ہوا، اس کے مصداق میں کئی اقوال ہیں : (١) توراۃ (٢) لوح محفوظ (٣) مخلوق کے اعمال نامے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص 289، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1420 ھ)
قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 685 ھ لکھتے ہیں:
” رق “ وہ باریک کھال ہے جس پر لکھا جاسکے اور اس سے کتاب کا استعارہ کیا گیا ہے اور اس میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی یہ بہت عظیم کھال ہے اور اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان معروف کتابوں میں سے نہیں ہے۔ (تفسیر بیضاوی مع عنایۃ القاضی ج ٨ ص 65-606 دارالکتب العلمیہ، بیروت)
وَّالْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ
”البیت المعمور“ کا معنی اور اس کی تاریخ
قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ اور ان کے شارخ علامہ احمد خفا جی متوفی ١٠٦٩ ھ اور علامہ اسماعیل بن محمد قونوی متوفی ١١٩٥ ھ ” البیت المعمور “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
” البیت المعمور “ کالفظی معنی ہے : آباد شدہ گھر ‘ اس سے مراد کعبہ ہے ‘ کیونکہ لوگ اس کا قصد کرتے ہیں اور حج کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں نے اس کو آباد کیا ہے۔ قاضی بیضاوی نے سورة توبہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے : زمین میں میرے گھر مساجد ہیں اور ان کی زیارت کرنے والے ان کو آباد کرنے والے ہیں ‘ اور اس کو آباد کرنے سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اس کو قندیلوں اور فرش سے مزین کیا جائے۔
حضرت انس (رض) نے فرمایا : ”البیت المعمور“ ساتویں آسمان میں ہے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوت ہیں اور جو فرشتہ ایک بار داخل ہوتا ہے وہ دوبارہ قیامت تک نہیں داخل ہوتا۔ (المستدرک ج ٢ ص ٤٦٨ )
امام حاکم نے کہا : یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور انھوں نے اس کو روایت نہیں کیا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اور یہ بات صحیح اور ثابت ہے کہ ہر آسمان میں زمین کے کعبہ کے مقابل ایک بیت ہے۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا : ”البیت المعمور“ آسمان میں ہے اس کو ” الضراح “ (دور اور بلند) کہتے ہیں ‘ یہ ” بیت الحرام “ کی مثل اور اس کی سیدھ میں ہے ‘ اگر وہ اوپر سے گرے تو کعبہ کے اوپر گرے گا اس میں ہر روز ایسے ستر فرشتے داخل ہوتے ہیں جنہوں نے اس سے پہلے اس کو نہیں دیکھا اور اس کی آسمان میں ایسی حرمت ہے جیسی مکہ کی حرمت ہے۔ (المعجم الکبیر الحدیث : ١٢١٨٥‘ حافظ الہیشمی نے کہا : اس کی سند میں ایک راوی ہے اسحاق بن بشر ابو حذیفہ وہ متروک الحدیث ہے۔ مجمع الزوائد ج ٧ ص ١١٤‘ دارالکتاب العرابی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
قاضی بیضاوی نے آل عمران کی تفسیر میں کہا ہے کہ ”البیت المعمور“ کعبہ کی جگہ پر تھا اس کا نام ” الضراح “ تھا ‘ فرشتے اس کا طواف کرتے تھے ‘ جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا گیا تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا حج (قصد) کریں اور اس کا طواف کریں اور جب طوفان نوح آیا تو اس کو چو تھے آسمان پر اٹھا لیا گیا اور وہاں فرشتے اس کا طواف کرتے تھے ‘ اور حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ ” البیت المعمور “ ساتویں آسمان میں ہے یہ اس کے منافی نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ ثابت ہے کہ ہر آسمان میں کعبہ کے مقابل ایک بیت ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو کعبہ کی جگہ ” البیت المعمور “ تھا اس کو حضرت آدم علیہالسلام کی وفات کے بعد آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا اور وہ چوتھے آسمان میں ہے ‘ اسی طرح امام ازرقی نے ” تاریخ مکہ “ میں لکھا ہے ‘ لیکن یہ عبارت قاضی بیضاوی کی اس تحریر کے خلاف ہے کہ ” البیت المعمور “ تھا اس کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات کے بعد آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا اور وہ چوتھے آسمان میں ہے ‘ اسی طرح امام ازرقی نے ” تاریخ مکہ “ میں لکھا ہے ‘ لیکن یہ عبارت قاضی بیضاوی کی اس تحریر کے خلاف ہے کہ ” البیت المعمور “ کو طوفان نوح کے وقت چوتھے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا ‘ اور ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی اور روایت ہو نیز ” البیت المعمور “ بھی متعدد ہیں۔ (عنایۃ القاضی ج ٨ ص ٦٠٦‘ حاثیۃ القونوی علی البیضاوی ج ١٨ ص ٢٣٨‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
”البیت المعمور“ کے مصداق اور اس کے مقام کے متعلق احادیث ‘ آثار اور مفسرین کے اقوال
علامہ ابو عبداللہ محدم بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ ” البیت المعمور “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: الماوردی نے بیان کیا ہے کہ ” البیت المعمور “ چوتھے آسمان میں ہے ‘ کیونکہ حدیث میں ہے:
حضرت انس بن مالک (رض) ‘ حضرت مالک بن صعصہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے چوتھے آسمان میں لے جایا گیا سو ہمارے لیے ” البیت المعمور “ کو بلند کیا گیا پس وہ کعبہ کی سیدھ میں تھا اگر وہ گرے تو کعبہ پر گرے گا ‘ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جب وہ اس سے نکل آئیں تو پھر دوبارہ داخل نہیں ہوتے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٧٧‘ دارالکتب العمیہ ‘ بیروت)
القشیری نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ” البیت المعمور “ آسمان دنیا میں ہے۔
ابو بکر الا نباری نے کہا : ابن الکواء نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ ” البیت المعمور “ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : وہ سات آسمانوں کے اوپر اور عرش کے نیچے ایک بیت (گھر) ہے ’ اس کو ” الضرح “ کہا جاتا ہے ‘” الضراح “ آسمان میں ایک گھر ہے اور وہی ” البیت المعمور “ ہے ‘ اس کے معمور (آباد) ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کو فرشتوں نے بھر رکھا ہے۔
”البیت المعمور“ عرش کے موازی اور محاذی ہے اور دد صحیح مسلم “ میں حضرت مالک بن صعصہ سے معراج کی حدیث میں روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر میرے لیے ” البیت المعمور “ بلند کیا گیا جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٤) اور حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے ‘ جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انھوں نے ” البیت المعمور “ کی طرف اپنی پشت سے ٹیک لگائی ہوئی تھی اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور دبوبارہ نہیں آتے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٢ )
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالیٰ کے پندرہ بیت ہیں ‘ سات آسمانوں میں ہیں اور سات زمینوں میں ہیں اور کعبہ ہے اور یہ تمام بیت کعبہ کے بالمقابل ہیں۔
حسن بصری نے کہا : ” البیت المعمور “ کعبہ ہے اور یہ ” البیت الحرام “ ہے جو لوگوں سے آباد ہے ‘ اللہ تعالیٰ اس میں ہر سال چھ لاکھ آدمی بھر دیتا ہے اور اگر لوگ کم ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کمی کو فرشتوں سے پوری کردیتا ہے اور یہ وہ پہلا بیت (گھر) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے زمین پر رکھا۔
الربیع بن انس نے کہا : حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ میں ” البیت المعمور “ کعبہ کی جگہ پر تھا ‘ پھر جب حضرت نوح (علیہ السلام) کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کا حج کرنے کا حکم دیا ‘ سو لوگوں نے اس کا انکار کیا اور نافرمانی کی پھر جب طوفانی لہریں بلند ہوئیں تو ” البیت المعمور “ کو زمین سے اٹھا کر آسمان دنیا پر اسی کی مقابل جگہ پر رکھ دیا گیا ‘ پھر ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کو آباد کرتے ہیں پھر وہ اس میں دوبارہ نہیں آئیں گے حتی کہ صور پھونک دیا جائے گا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ” البیت المعمور “ کی جگہ کعبہ کو گھر بنادیا ‘ قرآن مجید میں ہے :
واذ بوأنا لابرھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شیئا وطھر بیتی للطآئفین والرکع السجود. (الحج : ٢٦) اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے البیت (عبادت کا گھر) بنانے کی جگہ مقرر کردی کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لیے اور قیام کرنے والوں کے لیے اور رکوع کرنے والوں کے لیے سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھنا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کی ویرانی کے بعد سب سے پہلے کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ارشاد ہے کہ سب سے پہلی مسجد جو زمین پر بنائی گئی وہ مسجد حرام ہے۔ الحدیث (مسند احمد ج ٥ ص ١٥٠) ( الجامع لاحکام القرآن جز ١٧ ص ٥٨‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ
”سجرت التنور“ کا معنی ہے : تنور کو آگ سے بھڑکایا ‘ قرآن مجید میں ہے: واذا البحارسجرت (التکویر : ٦) اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے۔
ایک قول یہ ہے کہ سمندر کا پانی زمین میں دھنسادیا جائے گا اور اس میں آگ بھڑکا دی جائے گی۔
ثم فی النار یسجرون (المؤمن : ٧٢) اور پھر کفار دوزخ کی آگ میں جلائے جائیں گے۔ (المفردات ج ١ ص ٢٩٦‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)
حضرت علی (رض) نے ایک یہودی سے پوچھا : جہنم کہاں ہے ؟ اس نے کہا : سمندر میں ‘ حضرت علی نے فرمایا : میرا گمان ہے کہ وہ صادق ہے اور یہ آیات تلاوت فرمائیں : ”والبحرالمسجور“ (الطور : ٦) ” واذا البحار سجرت۔ “ (التکویر : ٦)
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے فرمایا : سمندر کے پانی سے اس لیے وضو نہیں کیا جاتا کہ وہ جہنم کا ایک طبقہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : ”المسجور“ اس حوض کو کہتے ہیں جس کا پانی خشک ہوگیا ہو ‘ ایک عورت حوض سے پانی بھرنے کے لیے گئی تو کہنے لگے : ”الحوض مسجور“ حوض کا پانی خشک ہوچکا ہے۔
ابومکین کہتے ہیں : میں نے عکرمہ سے ” البحر المسجور “ کا معنی پوچھا تو انھوں نے کہا : وہ عرش کے نیچے سمند رہے۔
حضرت علی (رض) کا دوسرا قول یہ ہے کہ عرش کے نیچے بہت گاڑھا پانی ہے اس کو ”بحر الحیوان“ کہتے ہیں ‘ پہلے صور کے چالیس سال بعد اس سے بارش ہوگی اور لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٧ ص ٥٨‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
امام ابوداؤد سجستانی متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ سمندر کا سفر صرف وہی شخص کرے جو حج کرنے والا ہو یا عمرہ کرنے والا ہو یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٤٨٩‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ
النحاس نے ”الناسخ و المنسوخ“ میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ مومن کی اولاد کو اس کے ساتھ جنت کے درجہ میں بلنع کرے گا ‘ خواہ مومن کی اولاد کا عمل اس سے کم ہوتا کہ اولاد کو اپنے ساتھ جنت میں دیکھ کر مومن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ‘ پھر حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تلاوت کی۔
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل مومن کی اولاد کو مومن کے ساتھ اس کے درجہ میں بلند فرمائے گا خواہ اس کی اولاد کا عمل اس کے برابرنہ ہوتا کہ اولاد کی وجہ سے مومن کی آنکھیں ٹھنذی ہوں ‘ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ (مسند البزاررقم الحدیث : ٢٢٦٠‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٢٣٤٢۔٣٢٣٤٠۔٣٢٣٣٩۔٣٢٣٣٨)
ابو جعفر نے کہا : یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرفوع روایت ہے اور اسی طرح واجب ہے ‘ کیونکہ حضرت ابن عباس اس کو صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی روایت کرسکتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں اللہ عزوجل کے فعل کی خبر دی ہے۔
زمخشری نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے انواع و اقسام کی خوشیاں جمع کر دے گا ‘ مومنین خود کامیاب ہو کر جنت میں پہنچیں گے ‘ پھر ان کا کشادہ چشم حوروں سے نکاح کردیا جائے گا اور جنت میں وہ اپنے دیگر مومن بھائیوں سے مانوس ہوں گے اور ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ جنت کے اسی درجہ میں ہوگی۔
ذریت کا اطلاق چھوٹی اور بڑی اولاد دونوں پر ہوتا ہے ‘ اگر ذریت سے مراد یہاں نابالغ اولاد ہو تو ” بایمان “ دونوں مفعولوں سے حال ہوگا اور اس کا وہی معنی ہوگا جو ہم پہلے کرچکے ہیں اور اگر ذریت سے مرادبڑی اولاد ہو تو ” بایمان “ دونوں فاعلوں سے حال ہوگا اور اس کا معنی ہوگا کہ مومنوں کی جو اولاد ایمان لانے میں ان کی پیروی کرے گی وہ ان کے ساتھ جنت میں ہوگی۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : اس آیت میں ایمان والوں سے مراد مہاجرین اور انصار ہیں اور ذریت سے مراد تابعین ہیں ‘ اور ان سے ایک اور روایت یہ ہے کہ اگر آباء کا درجہ بلند ہو تو اللہ تعالیٰ ابناء کو آباء کے درجہ میں رکھ دے گا اور اگر ابناء کا درجہ زیادہ بلند ہو تو اللہ تعالیٰ آباء کو ابناء کے درجہ میں رکھ دے گا ‘ پھر آباء ذریت کے لفظ میں داخل ہوجائیں گے جیسا کہ اس آیت میں آباء ذریت میں داخل ہیں :
وایتہ لہم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون۔ (یٰس : ٤١) اور ان کے لیے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کے آباء کو (یعنی نسل انسانی کے آباء کو) بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔
(٤) حضرت ابن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : جب اہل جنت ‘ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ان میں سے ایک شخص اپنے ماں باپ ‘ اپنی بیوی اور اپنی اولاد کے متعلق سوال کرے گا ‘ تو اس سے کہا جائے گا : انھوں نے وہ درجہ نہیں پایا جو تمہیں حاصل ہے ‘ پس وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے اپنے لیے بھی عمل کیا ہے اور ان کے لیے بھی عمل کیا ہے ‘ پھر یہ حکم دیا جائے گا کہ ان کو اس کے درجے کے ساتھ ملا دیا جائے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٢٤٨‘ المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٦٤٠‘ حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں محمد بن عبدالرحمن بن غزوان ‘ ضیعف راوی ہے۔ )
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِھٰذَآ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ
”أحلام“ ”حلم“ کی جمع ہے اور اس کا معنی عقل ہے ارض بھی انسان کو ضبط اور کنٹرول میں رکھتی ہے، لہٰذا عاقل اس بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا اور حلم بھی عقل کے آثار سے ہے اور حلم انسان کے وقار اور اس کے ثبات کے آثار سے ہے، نیز عقل کا معنی منع کرنا ہے، اسی وجہ سے دیات کو عقول کہا جاتا ہے کیونکہ دیت انسان کو ایسی جارحیت کے ارتکاب سے روکتی ہے اور منع کرتی ہے جس کے ارتکاب کے بعد انسان کو بعد میں تاوان ادا کرنا پڑے اور اس میں ایک لطیف معنی ہے اور وہ یہ ہے کہ حلم اصل لغت میں اس خواب کو کہتے ہیں جو سونے والا دیکھتا ہے پھر اس کو انزل ہوجاتا ہے اور اس پر غسل لازم آتا ہے اور یہ بلوغ کا سبب ہے اور اسی وقت انسان مکلف ہوتا ہے اور گویا کہ اللہ تعالیٰ اپنی لطیف حکمت سے اس کی شہوت کو عقل کے ساتھ مقرون کردیتا ہے اور جب اس کی شہوت کا ظہور ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عقل کو کامل کردیتا ہے سو عقل کی طرف حلم سے اشارہ کیا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ عقل کامل انسان کو برے کاموں سے ڈرانے والی ہے اور عقل ہی کی وجہ سے انسان مکلف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢١٤۔ ٢١٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.