سورہ ذاريات ترجمہ اور تفسير
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا ﴿1﴾
ان ہواؤں کی قسم جو گرداڑانے والی ہیں۔
فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا ﴿2﴾
پھر ان بدلیوں کی قسم جو (پانی کا) بوجھ اٹھا کر چلنے والی ہیں۔
فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا ﴿3﴾
پھر (ان کشتیوں کی قسم) جو نرم رفتار سے چلنے والی ہیں۔
فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا ﴿4﴾
پھر ان تقسیم کرنے والے (فرشتوں) کی قسم جو اللہ کے حکم سے تقسیم کرتے ہیں
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ ﴿5﴾
یقینا تم سے جو وعدہ کیا گیا ہے وہ بالکل سچ ہے
وَإِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ ﴿6﴾
اور انصاف کا دن قائم ہونے والا ہے۔
وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ ﴿7﴾
قسم ہے راستوں والے آسمان کی
إِنَّكُمْ لَفِي قَوْلٍ مُخْتَلِفٍ ﴿8﴾
کہ تم لوگ (آخرت کے بارے میں) مختلف باتیں کرتے ہو
يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ﴿9﴾
لیکن اس کو ماننے سے وہی انکار کرتا ہے جس کو اس سے پھرنا ہوتا ہے۔
قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ ﴿10﴾
غارت ہوں اٹکل پچو باتیں بنانے والے،
الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ ﴿11﴾
جو غفلت میں (پڑے ہوئے) اور اس دن کو بھولے ہوئے ہیں۔
يَسْأَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ ﴿12﴾
پوچھتے ہیں کہ روز جزا کب ہوگا ؟
يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ ﴿13﴾
وہ دن ہوگا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے۔
ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَٰذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ﴿14﴾
(ان سے کہا جائے گا) تم (اللہ و رسول کے) جھٹلانے کی سزا کا مزہ چکھو۔ یہی وہ عذاب ہے جس کو مانگنے میں تم جلدی کیا کرتے تھے۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿15﴾
بیشک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے،
آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ ﴿16﴾
یہ اس کو لینے والے ہوں گے جو انھیں ان کا پروردگار عطا کرے گا کیونکہ وہ پہلے ہی سے پرہیز گار تھے۔
كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴿17﴾
یہ وہ لوگ ہوں گے جو (اللہ کی یاد میں) راتوں کو بہت کم سوتے تھے
وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿18﴾
اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے۔
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ﴿19﴾
اور ان کے مال میں حق رہتا تھا سوالی اور غیر سوالی (سب) کا۔
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ ﴿20﴾
اور زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لئے،
وَفِي أَنْفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿21﴾
اور خود تمہاری ذات میں بھی کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴿22﴾
اور آسمان میں تمہارا رزق بھی ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔
فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ ﴿23﴾
آسمان اور زمین کے رب کی قسم کہ بیشک یہ بات بالکل برحق ہے (اسی طرح یقینی ہے) جس طرح تم باتیں کر رہے ہو۔
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ ﴿24﴾
کیا آپ تک ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی حکایت پہنچی ہے؟
إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ ﴿25﴾
جبکہ وہ ان کے پاس آئے، پھر (ان کو) سلام کیا (انہوں نے بھی) کہا سلام (یہ) انجان لوگ (تھے) ۔
فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ ﴿26﴾
پھر ابراہیم خاموشی سے اپنے گھر گئے اور بھنا ہوا فربہ بچھڑا لے آئے۔
فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ﴿27﴾
پھر اس کو (مہمانوں کے) سامنے رکھا اور کہا کھاتے کیوں نہیں ؟
فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ ﴿28﴾
پھر ابراہیم نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا اور وہ (اجنبی مہمان یعنی فرشتے) کہنے لگے کہ آپ نہ ڈریئے اور انھوں نے ان کو ایک بیٹے کی خوش خبری سنائی جو بڑا عالم ہوگا۔
فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ ﴿29﴾
ابراہیم کی بیوی (حیرت سے چیختی ) آئی اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ کیا میں بڑھیا اور بانجھ (اولاد جنوں گی)
قَالُوا كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ ﴿30﴾
ان (فرشتوں نے) کہا کہ آپ کے رب نے اسی طرح فرمایا ہے۔ بیشک وہی علم و حکمت والا ہے۔
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ ﴿31﴾
(ابراہیم (علیہ السلام) نے) کہا (اچھا) تمہیں کیا بڑی مہم درپیش ہے (اے آسمانی) قاصدو؟
قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُجْرِمِينَ ﴿32﴾
وہ بولے کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں،
لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِينٍ ﴿33﴾
تاکہ ہم ان مجرموں پر پکی مٹی کے کنکر برسائیں۔
مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ ﴿34﴾
جن پر آپ کے پروردگار کے پاس نشان خاص بھی پڑے ہوئے ہیں، حد سے نکل جانے والوں کے لئے،
فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿35﴾
پھر ہم نے (قوم لوط کی) اس بستی میں سے جو ایمان لے آئے تھے ان سب کو نکال لیا۔
فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿36﴾
ہم نے اس بستی میں مسلمانوں کے ایک گھر کے سوا کوئی اور گھر پایا ہی نہیں۔
وَتَرَكْنَا فِيهَا آيَةً لِلَّذِينَ يَخَافُونَ الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ﴿37﴾
ہم نے ان (تباہ حال بستیوں) میں ایسے لوگوں کے لیے نشانی چھوڑی ہے جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں
وَفِي مُوسَىٰ إِذْ أَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ ﴿38﴾
اور موسیٰ (علیہ السلام) (کے قصہ) میں بھی (نشانی ہے) جب کہ ہم نے انھیں فرعون کے پاس بھیجا، ایک کھلی ہوئی دلیل دے کر۔
فَتَوَلَّىٰ بِرُكْنِهِ وَقَالَ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴿39﴾
پھر اس نے (فرعون نے) اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اس سے منہ پھیرا اور کہا کہ یہ تو ایک جادو گر ہے یا دیوانہ ہے۔
فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴿40﴾
سو ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا اور وہ تھا ہی قابل ملامت۔
وَفِي عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ ﴿41﴾
اور عاد (کے قصہ میں بھی عبرت ہے) جب کہ ہم نے ان پر نامبارک آندھی بھیجی،
مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ ﴿42﴾
وہ آندھی جس چیز پر سے گذرتی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیتی تھی
وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّىٰ حِينٍ ﴿43﴾
اور ثمود (کے قصہ میں بھی عبرت ہے) جبکہ ان لوگوں سے کہا گیا کہ کچھ دن اور چین کرلو ،
فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ وَهُمْ يَنْظُرُونَ ﴿44﴾
پر انھوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی، سو انھیں عذاب نے آلیا اس حال میں کہ وہ دیکھ رہے تھے۔
فَمَا اسْتَطَاعُوا مِنْ قِيَامٍ وَمَا كَانُوا مُنْتَصِرِينَ ﴿45﴾
سو نہ تو وہ کھڑے ہی ہو سکے اور نہ (ہم سے) بدلہ ہی لے سکے ،
وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴿46﴾
اور (ان سے) بہت پہلے قوم نوح (کا بھی یہی حال ہوچکا تھا) وہ بڑے نافرمان لوگ تھے ،
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴿47﴾
اور آسمان کو ہم نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے اور بیشک ہم بڑی وسیع قدرت رکھنے والے ہیں
وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ ﴿48﴾
اور زمین کو ہم نے فرش بنایا، سو ہم کیسے اچھے بچھانے والے ہیں،
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿49﴾
اور ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا ہے تاکہ تم دھیان دے سکو۔
فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ ﴿50﴾
بس تم اللہ ہی کی طرف دوڑو میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں۔
وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۖ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُبِينٌ ﴿51﴾
اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبودمت قرار دو میں تمہارے لیے اس کی طرف سے کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔
كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴿52﴾
اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جسے انھوں نے ساحر یا مجنون نہ کہا ہو،
أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴿53﴾
کیا یہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے چلے آ رہے ہیں ؟ نہیں بلکہ یہ لوگ سرکش و نافرمان ہیں۔
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ ﴿54﴾
تو آپ ان کی طرف التفات نہ کیجئے کیونکہ آپ پر کوئی الزام نہیں،
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ﴿55﴾
اور (انہیں) سمجھاتے رہئے کیونکہ سمجھانا نفع دیتا ہے ایمان والوں کو۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿56﴾
اور میں نے تو جنات اور انسان کو پیدا ہی اسی غرض سے کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں۔
مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ ﴿57﴾
میں ان سے نہ روزی چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھلایا کریں ،
إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴿58﴾
بیشک اللہ بہت رزق دینے والا ہے اور زبردست طاقت و قوت والا ہے۔
فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ ﴿59﴾
ان ظالموں کے لیے بھی سزا مقرر ہے جس طرح ان سے پہلے گناہ گاروں کے لیے مقرر تھی تو آپ (ان پر عذاب آنے کی) جلدی نہ کریں۔
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوعَدُونَ ﴿60﴾
پھر ان کافروں کے لیے اس دن بڑی خرابی ہے جس دن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
مشکل الفاظ کے معانی
تفسير
”والذازیات ذروا “ اس سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو خاک اڑاتی ہیں ‘ کہا جاتا ہے ‘ ذرت الریح التراب “ ہوا نے خاک اڑائی۔
”فالحملت وقرا “ یعنی وہ ہوائیں جو بادل کی صورت میں پانی کو اٹھا کرلے جاتی ہے۔
”فالجریت یسرا“ وہ کشتیاں جو پانی میں سہولت سے چلتی ہیں۔
”فالمقسمت امرا“ وہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق چیزوں کو مخلوق کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی قسم اس لیے کھائی کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی صفت اور قدرت پر دلالت کرتی ہیں اور اس قسم کا جواب ان آیات میں ہے :
”انما توعدون لصادق“ یعنی تم سے جو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور گناہ گاروں کو جو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے وہ وعدہ اور وعید سچا ہے۔
”وان لدین لواقع“ یعنی قیامت کے دن میدان حشر میں ضرور حساب و کتاب ہوگا۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٢٨١۔ ٢٨٠‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)
حافظ اسماعیل بن عمرو بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ابو الطفیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے کوفہ میں منبر پر چڑھ کر فرمایا : تم مجھ سے اللہ کی کتاب کی جس آیت کے متعلق یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس سنت کے متعلق سوال کرو گے میں تم کو اس کی خبردوں گا ‘ تب ابن الکواء نے کھڑے ہو کہا : اے امیر المؤ منین ! اس آیت کا کیا معنی ہے: ”والذریت ذروا“ ؟ آپ نے فرمایا : اس کا معنی ہے: آندھی ‘ اس نے کہا : ”فالحملت وقرا“ کا کیا معنی ہے ‘ آپ نے فرمایا : اس کا معنی ہے : بادل ‘ اس نے کہا : ”فالجریت یسرا“ کا کیا معنی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کا معنی ہے : کشتياں۔ اس نے کہا : ”فالمقسمت امرا“اس کا کیا معنی ہے؟ آپ نے فرمایا : اس کا معنی ہے : فرشتے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٥٤‘ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
ان آیات کی یہ تفسیر حدیث مرفوع سے بھی ثابت ہے ‘ اس کی تفصیل یہ ہے:
امام بزار اپنی سند کے ساتھ صبیغ تمیمی سے روایت کرتے ہیں:
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ صبیغ تمیمی حضرت عمر بن خطاب کے پاس گیا اور کہا : یہ بتائیے : ”الذریات ذروا “ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : آندھیاں ہیں اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کو نہ سنا ہوتا تو میں تم کو نہ بتاتا ‘ اس نے کہا : اچھا بتائیے: ”فالحملت وقرا “سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ بادل ہیں اور اگر میں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ سنا ہوتا تو میں تم کو نہ بتایا ‘ اس نے کہا : اچھا یہ بتائیے کہ ”فالجریت یسرا “ سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کشتیاں ہیں اور اگر میں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ سنا ہوتا تو میں تم کو نہ بتاتا ‘ اس نے کہا : اچھا ” فالمقسمت امرا “ سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس سے مراد فرشتے ہیں اور اگر میں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ سنا ہوتا تو میں تم کو نہ بتاتا ‘(پھر حضرت عمر نے اپنی فراست سے جان لیا کہ اس شخص میں خبث باطن ہے اور یہ عناداً سوال کررہا ہے اس لیے) آپ نے حکم دیا کہ اس کو سو درے مارے جائیں اور اس کو ایک کو ٹھڑی میں قید کردیا جائے ‘ پھر جب اس کے مارے کے زخم ٹھیک ہوگئے تو پھر اس کو سو درے مارنے کا حکم دیا اور اس کو اونٹ کے کجاوے پر سوار کرا کر انکال دیا اور حضرت ابو موسیٰ اعشری کی طرف لکھا کہ لوگوں کو اس سے بات کرنے سے منع کردیں ‘ پھر ایک عرصہ تک یونہی رہا ‘ حتیٰ کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے لکھا کہ اب اس نے بہت پکی قسمیں کھا کر کہا کہ اب اس کے دل میں کوئی بغض اور عناد نہیں ہے ‘ تب حضرت عمر نے ان کی طرف لکھا کہ میرا گمان ہے کہ اب اس کے دل میں کوئی عناد نہیں رہا ‘ اب لوگوں کو اس سے بات کرنے کی اجازت دے دو ۔
امام بزار نے کہا : اس سند کے علاوہ ہمیں اور کسی طریقہ سے اس حدیث کا علم نہیں ہے اور اس سند میں ایک راوی ابو بکرہ بن ابی سبرہ ہے اور وہ ضعیف راوی ہے اور اس کا ایک راوی سعید بن سلام العطار رہے ‘ وہ اصحاب الحدیث میں سے نہیں ہے اور ہم پہلے اس کی علت بیان کرچکے ہیں اور اس سند کے علاوہ اور کسی سند سے ہمیں اس حدیث کا علم نہیں ہے۔ (کشف الاستار عن زوائد البز اور ج ٣ ص ٧٠۔ رقم الحدیث : ٢٢٥٩‘ مؤسسۃ الرسالۃ ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)
امام بزار کے حوالہ سے اس حدیث اور اس کے ضعف کو حافظ ابن عسا کر متوفی ٥٧١ ھ (تاریخ دمشق ج ٢٥ ص ٢٧٩) اور حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٥٤) نے بھی بیان کیا ہے۔
اور تم کو خیر و شر اور ثواب و عذاب کی جو خبریں دی گئیں ہیں وہ ضرور صادق ہیں اور قیامت کے دن حساب و کتاب ضرور ہوگا۔
وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْحُبُكِ
”ذات الحبک“ کے معانی
اس میں اختلاف ہے کہ اس آیت میں ”السماء“ سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین نے کہا : اس سے مراد وہ بادل ہیں جو زمین پر سایہ کرتے ہیں ‘ حضرت ابن عمر نے کہا : اس سے مراد بلند آسمان ہیں ‘ علامہ ثعلبی اور علامہ الماوردی نے کہا : اس سے مراد ساتواں آسمان ہے۔
”الحبک“ کی تفسیر میں سات قول ہیں
(١) حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : جس چیز کی ظاہری بناوٹ حسین و جمیل اور ہموار ہو۔
(٢) عکرمہ نے کہا : جب کوئی کپڑا بننے والا عمدہ کپڑا بنے تو کہتے ہیں: حبک الثوب أي أجاد ‘ سو ”ذات الحبک“ کا معنی ہے : عمدگی والا۔
(٣) ابن الا عرابی نے کہا : ہر وہ چیز جس کو تم مضبوط اور خوب صورت بناؤ اس کے متعلق کہا جاتا ہے : احتبکتہ۔ یعنی حسن اور مضبوطی والا۔
(٤) حسن بصری نے کہا : اس سے مراد ہے : میزن ‘ ان کا دوسرا قول ہے : اس سے مراد ہے ستاروں والا آسمان۔
(٥) ضحاک نے کہا : اس سے مراد ہے : مختلف راستوں والا ‘ جب ہوا چلنے سے ریگستان میں مختلف راستے بن جائیں تو کہتے ہیں : ذات الحبک۔
(٦) تو ہے کی زرہ اور گھنگریالے بالوں کو بھی ”حبک“ کہتے ہیں۔ فراء نے کہا : ہر توڑ نے والی چیز کو ” حبک “ کہتے ہیں۔
(٧) جو چیز شدید الخق ہو اس کو ” حبک “ کہتے ہیں ” ذات الحبک “ کا معنی ہوا جس کی بناوٹ شدید ہو قرآن مجید میں ہے: وبنینا فوقکم سبعا شدادا (النبا : ١٢) اور ہم نے تمہارے اوپر سات شدید آسمان بنائے۔
قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ
”خرص یخرص خرصاً“ (ن) اندازہ لگانا، اٹکل لگانا، جیسا کہ فرمایا: (ان ھم الا یخرصون) (الزخرف : ٢٠) وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔ “ (خراص “ مبالغے کا فیغہ ہے، بہت اٹکل لگانے والا۔ کفار کے پاس آسمانی ہدایت کی روشنی نہیں اس لیے وہ علم اور یقین سے محروم ہیں ان کا سارا دار و مدار ظن وتخمین اور وہم پر گمان پر ہے۔ چنانچہ شرک کی بنیاد سراسر گمان اور اندازوں کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں، اس لیے فرمایا، اٹکل لگانے والے مارے گئے۔
وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ
رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے کا سب سے عمدہ طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سبحانہ ‘ کے نزدیک سب سے پسندیدہ روزے وہ ہیں جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں ‘ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز ہے ‘ وہ نصف رات تک سوتے تھے تہائی رات میں قیام کرتے تھے اور پھر رات کے آخری چھٹے حصے میں سو جاتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٢٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٥٩‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤١٢‘ سنن ابن ماجہ : ١٤١٩)
اس حدیث کی وضاحب اس طرح ہے کہ فرض کیجئے کہ رات چھ گھنٹے کی ہے تو اس کا نصف تین گھنٹے ہیں تو آپ تین گھنٹے سو کر پھر اٹھ جائیں اور تہائی رات نماز پڑھیں اور چھ گھنٹوں کے تہائی دو گھنٹے ہیں ‘ پس آپ دو گھنٹے نماز پڑھیں اور پھر رات کے چھٹے حصہ میں پھر سو جائیں اور چھ گھنٹے کا چھٹا حصہ ایک گھنٹہ ہے ‘ پس آپ ایک گھنٹہ سو کر پھر نماز فجر کے لیے اٹھ جائیں۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ نے الذریت : ١٨۔ ١٧ کی تفسیر میں یہ حدیث ذکر کی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ‘ حتیٰ کہ جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو وہ ارشاد فرماتا ہے : کوئی ہے جو مجھ سے دعا مانگے اور میں اس کی دعا قبول کروں ‘ کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اس کو عطا کروں اور کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کروں ؟ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨‘ سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٣١٤‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٧٣٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦ )
اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے پوچھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو کس طرح نماز پڑھا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : آپ رات کے اول حصے میں سوتے تھے اور آخری حصہ میں نماز میں قیام کرتے تھے ‘ آپ نماز پڑھتے رہتے ‘ پھر آپ اپنے بستر کی طرف لوٹ جاتے ‘ پھر جب مؤذن ( نماز فجر کی) اذان کہتا تو آپ جلدی سے اٹھ جاتے ‘ پھر اگر آپ کو غسل کی حاجت ہوتی تو آپ غسل کرتے ورنہ وضو کر کے حجرہ سے باہر چلے جاتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٩‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٦٤٠)
حسن بصری نے کہا : رات کے پچھلے پہر سحر کے وقت دعا کا مقبول ہونازیادہ متوقع ہوتا ہے۔
حضرت ابن عمر اور مجاہد نے کہا : وہ سحر کے وقت نماز پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نماز کو استغفار کہا جاتا ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ وہ تہجد کے وقت اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں پھر اس نماز کو دراز کرکے سحر کے وقت تک پڑھتے رہتے ہیں۔
ابن وہب نے کہا : یہ آیت انصار کے متعلق نازل ہوئی ہے وہ صبح کے وقت قباء سے روانہ ہوتے ہیں اور مدینہ منورہ پہنچ کر مسجد نبوی میں صبح کی نماز پڑھتے ہیں ‘ ضحاک نے کہا : اس سے مراد فجر کی نماز ہے۔
ابن زیدنے کہا : اس سے مراد رات کا آخری چھٹا حصہ ہے ‘ جیسا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز کے بیان میں گزر چکا ہے۔
احنف بن قیس نے کہا : میں نے اپنے اعمال کا اہل جنت کے اعمال سے تقابل کیا تو میں نے دیکھا ‘ ہمارے اعمال اور ان کے اعمال میں بہت فرق ہے اور ہم ان کے اعمال تک نہیں پہنچ سکتے اور میں نے اپنے اعمال کا دوزخیوں کے اعمال سے تقابل کیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے اعمال میں کوئی خیر نہیں ہے ‘ وہ اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ اللہ کی کتاب اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کی تکذیب اور انکار کرتے ہیں اور میں نے دیکھا کہ ہم میں سب سے اچھا مرتبہ اس مسلمان کا ہے جس کے کچھ اعمال نیک ہوں اور کچھ اعمال برے ہوں۔ (الکشف والبیان ج ٩ ص ١١٢‘ النکت والعیون ج ٥ ص ٣٦٦۔ ٣٦٥ )
صبح تک سونے والے کی مذمت میں احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کسی ایک شخص کے رات کو سوتے وقت اس کے سر کے پیچھے گدی پر شیطان تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک دیتا ہے کہ رات بہت لمبی ہے تم سوتے رہو ‘ پھر اگر وہ بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کی ایک گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ وضو کرتا ہے تو اس کی دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کی تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے پھر وہ صبح کو تروتازہ اور خوش و خرم ہوتا ہے ‘ ورنہ وہ صبح کو خبیث النفس ‘ سستی اور نحوست کا مارا ہوا ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٦‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧)
حضرت سمرہ بن جند ب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خواب اور اس کی تعبیر کے بیان میں فرمایا : رہا وہ شخص جس کے سر کو پتھر سے توڑا جارہا تھا ‘ یہ وہ شخص تھا جو قرآن کا علم حاصل کرتا تھا اور اس پر عمل کرنے کو ترک کرتا تھا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جاتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٣‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٩٤‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٦٥٩۔ ٦٥٥ )
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح تک سو یا رہتا ہے اور نماز پڑھنے کے لیے نہیں اٹھتا ‘ آپ نے فرمایا : شیطان اس کے کان میں پیشاب کردیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٤‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧ٔ‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٠)
وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ
حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی مشک کے منہ کو بند نہ کرنا ورنہ اللہ سبحانہ ‘ بھی تمہارے اوپر اپنی عطاء کو بند کردے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٣٣)
نیز فرمایا : تم گن گن کر نہ دینا ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کردے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٣٣‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٥٤٨‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٤٦١‘ عالم الکتب)
حضرت اسماء بن ابی بکر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو آپ نے فرمایا : تم اپنی تھیلی کا منہ بند نہ کرنا ورنہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے خزانہ کا منہ تم پر بند کردے گا ‘ تم جس قدر خرچ کرسکتی ہو خرچ کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٣٤‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٥٣٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٧٥٣١)
هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَ
ان آیتوں میں یہ قصہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بدکار قوم پر عذاب دینے کے لیے بھیجے تھے ‘ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستی سدوم میں جانے سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس گئے ‘ کیونکہ حضرت لوط (علیہ السلام) ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے ‘ وہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اجنبی شکل و صورت میں گئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ضیافت کے لیے بھنا ہوا بچھڑا لے آئے ‘ جب انھوں نے کھانے سے ہاتھ روکا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خوف زدہ ہوئے کہ یہ مرا نمک کیوں نہیں کھا رہے ؟ کہیں ہی مجھے کوئی نقصان تو نہیں پہنچانا چاہتے ‘ تب انھوں نے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ فرشتے ہیں اور انھوں نے آپ کو ایک علم والے بیٹے کی بشاری دی ‘ اور بعد میں بتایا کہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو عذاب پہنچانے کے لیے آئے ہیں ،
ان فرشتوں نے کہا : ہم کو مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے ‘ وہ مجرم قوم حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں میں تھی ‘ پھر ان فرشتوں کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کیوں بھیجا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تکریم کے لیے تھا ‘ تاکہ ان کو پہلے سے معلوم ہوجائے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں میں عذاب آنے والا ہے اور وہ نا گزیر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت بدکار قوم تھی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتی تھی اور ان آیتوں میں ذکر ہے کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی ‘ اس سے مراد حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں ‘ کیونکہ قرآن مجید میں ہے: وبشرنہ باسحق (الصفت : ١١٢) اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی۔
وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ
قوم عاد کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں
غور و فکر کرنے والوں کے لیے قوم عاد میں بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں ‘ یہ بہت دراز قد اور بہت مضبوط اور قوی ہیکل لوگ تھے ‘ ان کو اپنی جسامت ‘ طاقت اور قامت پر بہت گھمنڈ تھا ‘ انھوں نے پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بنائے ہوئے تھے ‘ حضرت ھود (علیہ السلام) کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے تھے لیکن یہ اپنی طاقت کے زہم میں یہ سمجھیت تھے کہ ان کو کچھ نہیں ہوگا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت تندو تیز آندھی بھیجی ‘ وہ آندھی بادلوں کو اڑارہی تھی ‘ درختوں کو گرارہی تھی ‘ یہ آندھی مسلسل آٹھ دن رات تک چلتی رہی اور اس نے قوم عاد کو ہلاک کردیا ‘ اس آندھی کا نام دبور ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری صبا سے مدد کی گئی ہے اور قوم عاد کو دبور سے ہلاک کردیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٤٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠٠)
جو ہوا مشرق سے مغرب کی طرف چلے اس کو صبا کہتے ہیں اور جو ہوا مغرب سے مشرق کی طرف چلے اس کو دبور کہتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص ٣٦١ )
اس آیت میں ”رمیم“ کا لفظ ہے ‘ جب گھاس سوکھ کر چور چور ہوجائے تو اس کو ”رمیم“ اور ”ھشیم“ کہتے ہیں ‘ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جو چیز بوسیدہ ہو کر ہلاک ہوجائے اس کو ” رمیم “ کہتے ہیں۔ ابو العالیہ نے کہا : جن پتھروں کو کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے ان کو ” رمیم “ کہتے ہیں۔ قطرب نے کہا : ” رمیم “ کا معنی راکھ ہے ‘ جو ہڈی بوسیدہ ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائے اس کو بھی ” رمیم “ کہتے ہیں ‘ اور اس آیت کا معنی ہے : اس تندو تیز آندھی نے قوم عاد کے اجسام کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کردیا تھا۔
وَفِيْ ثَمُوْدَ اِذْ قِيْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِيْنٍ
قوم ثمود کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں
قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو اللہ کی عبادت اور توحید کا پیغام دے کر بھیجا گیا تھا ‘ اور ان کے مطالبہ پر ایک پتھر کی چٹان سے اونٹنی نکال کر حضرت صالح کی نبوت پر دلیل قائم کی گئی ‘ ان سے کہا گیا تھا کہ اس اونٹنی کا احترام کریں مگر انھوں نے اس کی کونچیں کاٹ کر اس کو گرایا اور پھر اسکو قتل کردیا ‘ حضرت صالح نے ان کو عذاب کی وعید سنائی کہ تم تین دن اپنے گھروں میں گزار لو ‘ پھر تم کو عذاب سے ہلاک کردیا جائے گا ‘ تین دن کے بعد ان کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ سب ہلاک کردیئے گئے۔ قرآن مجید میں ” صاعقۃ “ کا لفظ ہے ‘ اس کی متعدد تفسیریں ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی موت ہے ‘ اور ایک قول ہے : اس کا معنی ہے : مہلک عذاب۔ حسین بن واقد نے کہا : قرآن مجید میں جہاں بھی ” صاعقہ “ کا لفظ آیا ہے اس کا معنی عذاب ہے اور اس کا معنی کڑک بھی ہے ‘ جس قوت ان پر عذاب آیا وہ اس کو دیکھ رہے تھے اور وہ اس کے سامنے اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ‘ نہ اس کو برداشت کرنے کی اور نہ اس کو اپے سے دور کرنے کی طاقت رکھتے تھے اور وہ اس کے سامنے اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ‘ نہ اس کو برداشت کرنے کی اور نہ اس کو اپنے سے دور کرنے کی طاقت رکھتے تھے اور جس وقت وہ عذاب سے ہلاک ہو رہے تھے اس وقت وہ کسی سے مدد بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے یعنی ان کا کوئی مددگار نہ تھا۔
فَفِرُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ
اللہ کی طرف بھاگنے کے محامل
اس سے پہلی آیتوں میں یہ بتایا تھا کہ پچھلی امتوں کے کفار انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کرتے تھے اور ان کے پیغام کو مسترد کرتے تھے ‘ تو اللہ تعالیٰ ان کے اوپر عذاب نازل کرتا تھا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنی قوم سے یہ کہیے کہ پس تم اللہ کی طرف بھاگو میں تمہارے لیے اس کی طرف سے کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں ‘ اس آیت کے مفسرین نے حسب ذیل محامل بیان کیے ہیں :
(١) اپنے گناہوں اور ترک عبادت سے اس کی اطاعت اور عبادت کی طرف بھاگو۔
(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اپنے گناہوں سے اس کی طرف توبہ کے لیے بھاگو یا برے کام چھوڑ کر نیک کاموں کی طرف بھاگو۔
(٣) الحسین بن الفضل نے کہا : اللہ سے غافل کرنے والی ہر چیز سے احتراز کر کے اللہ کی طرف آؤ۔
(٤) ابوبکر الوراق نے کہا : شیطان کی اطاعت سے بھاگ کر رحمن کی اطاعت کی طرف آؤ۔
(٥) جنید بغدادی نے کہا : شیطان گناہ اور گم راہی کی طرف دعوت دیتا ہے تم اس کی دعوت کو مسترد کر کے اللہ کے احکام کی اطاعت کی طرف بھاگو وہ تم کو شیطان کے بہکانے سے محفوظ رکھے گا۔
(٦) ڈوالنون مصری نے کہا : جہل سے علم کی طرف بھاگو اور کفر سے شکر کی طرف بھاگو۔
(٧) عمرو بن عثمان نے کہا : اپنے نفسوں کی خواہشات سے اللہ سبحانہ کے احکام کی طرف بھاگو اور اپنی تدبیر پر اعتماد نہ کرو ‘ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی طرف بھاگو۔
(٨) سہل بن عبداللہ تستری نے کہا : اللہ کے ماسوا سے اللہ کی طرف بھاگو ‘ یعنی ہر اس چیز سے بھاگو جو اللہ کی اطاعت اور عبادت سے غافل اور منحرف کرتی ہے اور ہر اس چیز کے ساتھ رہو جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کی طرف راغب اور متوجہ کرتی ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
علی بان ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ خوشی یا نا خوشی سے صرف میری عبادت کریں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٧٤‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
مجاہد نے یہ کہا ہے کہ اس آیت کا معنی ہے : میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں۔
علامہ ثعلبی نے کہا : یہ قول اس لیے حسن ہے کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیتوں میں اس کی تائید ہے: ولئن سالتہم من خلقہم لیقولن اللہ۔ (الزخرف : ٨٧) اگر آپ ان سے سوال کریں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے (ان کو پیدا کیا ہے) ۔
ولئن سالتہم من خلق السموت والارض لیقولن خلقھن العزیز العلیم۔ (الزخرف : ٩) کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ ان کو اس نے پیدا کیا ہے جو بہت غالب ہے اور بہت علم والا ہے۔
رہا مومن تو وہ اللہ تعالیٰ کو مصائب میں اور خوش حالی میں یاد کرتا ہے اور رہا کافر تو وہ اللہ کو صرف مصائب میں یاد کرتا ہے، قرآن مجید میں ہے: واذا غشیہم موج کا لظلل دعوا اللہ مخلصین الہ الدین۔ (لقمان : ٣٢) اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ اخلاص کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اللہ کو پکارتے ہیں۔(الکشف والبیان ج ٩ ص ١٢٠‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
عکرمہ نے کہا ”الا لیعبدون“ اپنے معنی پر محمول ہے ‘ یعنی میں نے جنات اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت اور میری اطاعت کریں تاکہ میں عبادت گزاروں کو ثواب عطا کروں اور منکروں کو سزا دوں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٧٥)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.