ترجمہ اور تفسير سورہ زمر
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴿1﴾
یہ کتاب اللہ کی طرف سے اتاری گئی ہے جو زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ﴿2﴾
بیشک ہم نے آپ کی طرف (اس) کتاب کو ٹھیک ٹھیک نازل کیا ہے، سو آپ خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کی عبادت کرتے رہئے۔
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴿3﴾
یاد رکھو ! عبادت خالص اللہ ہی کے لیے ہے اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا دوست بنا رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم ان ( غیر اللہ) کی عبادت و بندگی صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔
بےشک اللہ ہی ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں اختلاف کر رہے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی جھوٹے اور نا شکرے کو ہدایت نہیں دکھاتا۔
لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿4﴾
اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا تو وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کرلیتا ( لیکن حقیقت یہ ہے کہ) اس اللہ کی ذات ان عیبوں سے پاک ہے۔ وہ اللہ ایک ہے اور زبردست (طاقتوں کا مالک)
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ ﴿5﴾
آسمان اور زمین اس نے حکمت سے پیدا کئے ہیں وہ رات کو لپیٹتا ہے دن پر اور دن کو لپیٹتا ہے رات پر اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے کہ ہر ایک وقت مقررہ تک چلتا رہے گا، ف ٧۔ یاد رکھو وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔
خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ ﴿6﴾
اسی نے تمہیں ایک جان ( آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا ہے پھر اس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا ۔ اس نے چوپائے جانوروں میں سے آٹھ جوڑے ( نر اور مادہ) پیدا کئے وہی تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تخلیق کرتا ہے۔ تین اندھیروں کے اندر ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لے جاتا ہے ( لوگو ! ) یہ ہے تمہارا رب، اسی کی بادشاہت ہے، اس کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر تم کہاں پھرے جا رہے ہو ( یعنی بھٹک رہے ہو) ۔
إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿7﴾
اگر تم نا شکری کرو گے تو بیشک اللہ تم سے بےنیاز ہے۔ وہ اپنے بندوں کی نا شکری کو پسند نہیں کرتا ۔ اسے یہی پسند ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرو ، اور اگر بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اسی رب کی طرف لوٹنا ہے ۔ تب وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے تھے۔ بیشک وہ دلوں کے حال کو جانتا ہے
وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ﴿8﴾
اور جب انسان کو کوئی سختی یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف جھک کر (عاجزی اور بےبسی کے ساتھ) پکارتا ہے۔ پھر جب وہ اس کو نعمت دے دیتا ہے تو وہ ( اپنے اس پروردگار کو) بھول جاتا ہے جسے وہ پکارتا رہا تھا ۔ اور اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک بنا لیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کرے۔ آپ کہہ دیجئے کہ تم اپنے کفر ( اور نا شکری) سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو پھر بیشک تم جہنم والوں میں سے ہو جاؤ گے۔
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿9﴾
بھلا جو شخص رات کے اوقات میں سجدہ و قیام کی حالت میں عبادت کررہا ہو، آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید کررہا ہو، (کیا وہ اس نا شکرے آدمی کے برابر ہے) آپ کہیے کہ کیا علم والے اور بےعلم کہیں برابر بھی ہوتے ہیں؟ نصیحت تو بس وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿10﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیجئے جو ایمان لے آئے ہیں کہ وہ صرف مجھ سے ہی ڈریں کیونکہ جنہوں نے اس دنیا میں بہترین کام کئے ہیں ان کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اللہ کی زمین نہایت وسیع ہے۔ صبر کرنے والوں کو ان کا پورا پورا اجر وثواب بےحساب دیا جائے گا۔
قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ﴿11﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہہ دیجئے مجھے حکم دیا گیا ہے كہ میں اللہ کی عبادت خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے کروں
وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ ﴿12﴾
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلم ( اللہ کا فرمان بردار ) بنوں۔
قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿13﴾
کہہ دو کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي ﴿14﴾
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں تو دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کرتا ہوں
فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴿15﴾
تم اللہ کو چھوڑ کر جس کی چاہے بندگی کرتے پھرو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ بیشک نقصان اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو نقصان کو ڈالنے والے ہیں ، سنو یہی وہ لوگ ہیں جو کھلا ہوا نقصان اٹھانے والے ہیں۔
لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ ﴿16﴾
ان کے لیے ان کے اوپر سے بھی آگ کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی۔ یہ چیز ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ اے میرے بندو، پس مجھ سے ڈرو۔
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ ﴿17﴾
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت میں ملوث ہونے سے احتراز کیا اور اللہ کی طرف متوجہ ہے، ان کے لیے خوش خبری ہے تو میرے ان بندوں کو خوش خبری پہنچا دو
الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿18﴾
جو لوگ پوری توجہ سے سنتے ہیں پھر اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی لوگ عقل مند ہیں۔
أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ ﴿19﴾
( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے عذاب دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے کیا آپ اس کو آگ سے ( جہنم سے) بچا لیں گے؟
لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ ﴿20﴾
البتہ جو اپنے رب سے ڈرے ان کے لیے بالاخانے اور بالاخانوں کے اوپر بھی آراستہ بالاخانے ہوں گے ۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا حتمی وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿21﴾
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا ۔ اس نے اس ( پانی کو) چشمے بنا کر زمین پر چلایا ۔ پھر ان سے مختلف رنگوں کی کھیتیاں اگائیں ۔ پھر جب وہ کھیتیاں پک کر شک ہوجاتی ہیں پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑگئی ہیں اور پھر وہ ان کو چورہ چورہ کردیتا ہے۔ بیشک اس میں عقل والوں کے لیے نصیحت ہے۔
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴿22﴾
کیا وہ جن کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے پس وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہیں (اور وہ جن کے دل سخت ہوچکے ہیں یکساں ہوں گے؟ ) تو ہلاکی ہے ان کے لیے جن کے دل اللہ کی یاد دہانی قبول کرنے کے معاملے میں سخت ہوچکے ہیں ! یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴿23﴾
اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے ایک کتاب باہم ملتی جلتی ہوئی اور بار بار دہرائی ہوئی، ف ٣٤۔ اور اس سے ان لوگوں کی جلد جو اپنے پرور دگا رسے ڈرتے ہیں، کانپ اٹھتی ہے، پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف جھک پڑتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ ہدایت بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے اور جس کو خدا گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں بن سکتا۔
أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ ﴿24﴾
کیا وہ جو اپنے چہرے کو عذاب بد کی سپر بنائے گا (اور وہ جو اس سے محفوظ ہوگا، دونوں یکساں ہوں گے ) (ایسے) ظالموں سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو ۔
كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ﴿25﴾
ان کے قبل والوں نے بھی (حق کو) جھٹلایا سو ان پر عذاب ایسے طور پر آپڑا کہ ان کو گمان بھی نہ تھا۔
فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿26﴾
سو اللہ نے انھیں دنیوی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھا دیا اور آخرت کا عذاب تو اور سخت ہے کاش یہ لوگ سمجھ جاتے۔
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿27﴾
اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کی ہدایت کے لیے ہر قسم کے مضمون بیان کردیئے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کرتے رہیں
قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿28﴾
ایک عربی قرآن کی صورت میں جس کے اندر کوئی کجی نہیں تاکہ وہ عذاب سے بچیں۔
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿29﴾
اللہ تمثیل بیان کرتا ہے ایک غلام کی جس میں کئی مختلف الاغراض آقا شریک ہیں اور ایک دو سرے غلام کی جو پورے کا پورا ایک ہی آقا کی ملک ہے کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوگا ! سزا وار شکر صرف اللہ ہے۔ لیکن ان کی اکثریت اس حقیقت کو نہیں سمجھتی۔
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ﴿30﴾
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک آپ بھی انتقال کریں گے اور ( کفار بھی) مریں گے ۔
ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ ﴿31﴾
پھر قیامت کے دن تم (دونوں فریق) اپنے پروردگار کے روبرو مقدمہ پیش کرو گے، ف ٤٣۔
الجزء ﴿ 24 ﴾
چوبيسواں پارہ
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ ﴿32﴾
پھر اس سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی ( پوری طرح) اس کے سامنے آگئی تو اس نے اسے بھی جھٹلا دیا ۔ کیا ایسے منکرین کے لیے جہنم کے سوا کوئی اور ٹھکانا ہے؟ (ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے)
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿33﴾
اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جن لوگوں نے اس کو تسلیم کیا یہی وہ لوگ ہیں جو متقی اور پرہیز گار ہیں ۔
لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ ﴿34﴾
ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی وہ خواہش کریں گے ۔ یہی نیکو کاروں کا بدلہ ہو گا
لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿35﴾
تاکہ اللہ ان سے دفع کر دے ان کاموں کے بدتر انجام کو جو انھوں نے کئے اور ان کو ان کاموں کا اس سے خوب تر صلہ دے جو انھوں نے کئے
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴿36﴾
کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ! اور یہ تم کو ان سے ڈراتے ہیں جو اس کے سوا انھوں نے بنا رکھے ہیں اور جس کو خدا گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں بن سکتا
وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ ﴿37﴾
اور جسے اللہ ہدایت دیا اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ کیا اللہ زبردست (اور) انتقام پر قادر نہیں؟
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿38﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ کہیں گے کہ اللہ نے (پیدا کیا ہے) آپ ان سے یہ بھی پوچھ لیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاروں جنہیں تم پکارتے ہو اور اللہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا (تمہارے یہ بت اور معبود) مجھے نقصان سے بچا سکتے ہیں؟ یا مجھ پر اللہ رحم کرنا چاہیے تو کیا یہ اس کو روک سکتے ہیں ؟ آپ کہہ دیجئے کہ مجھے میرا اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ کرنے والے تو اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿39﴾
کہہ دیجئے کہ اے میری قوم والو تم اپنی حالت پر عمل کئے جاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں سو عنقریب تم جان لوگے
مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ ﴿40﴾
کہ کس پر ذلیل و رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملے گی جو کسی کو ٹالنے سے ٹل نہ سکے گی
إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ ﴿41﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تمام انسانوں کے لیے یہ بر حق کتاب نازل کی ہے (اس کے بعد) جو بھی سیدھا راستہ اختیار کرے گا وہ اس کے اپنے ( فائدے) کے لیے ہوگا اور جو بھٹکے گا اس کا ( وبال) اسی پر پڑے گا ۔ آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿42﴾
اللہ جانوں کو قبض کرتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان (جانوں) کو بھی جن کی موت نہیں آئی ہے ان کے سونے کے وقت۔ پھر وہ ان (جانوں) کو تو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم کرچکا ہے، اور باقی (جانوں) کو ایک میعاد معین کیلئے رہا کردیتا ہے، ف ٥٥۔ بیشک اس (سارے تصرف) میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو سوچتے رہتے ہیں۔
أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ ﴿43﴾
کیا انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا سفارشی بنا رکھا ہے ( اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ کیا وہ سفارش کریں گے جن کے ہاتھ میں نہ تو کوئی چیز ( کوئی اختیار) ہے اور نہ وہ عقل و سمجھ رکھتے ہیں۔
قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿44﴾
آپ کہہ دیجئے سفارش تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے اسی کی سلطنت آسمانوں اور زمین میں ہے پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گئے۔
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴿45﴾
اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت کا یقین نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہونے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس وقت یہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔
قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿46﴾
آپ دعا کیجئے کہ اے اللہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے باطن اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردے گا جن امور میں یہ اختلاف کرتے رہتے تھے۔
وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ ﴿47﴾
اگر ان ظالموں کے پاس دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں اور اتنی ہی اور بھی تو قیامت کے بد ترین عذاب سے نجات کے لیے سب کا سب بدلہ میں دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے ۔ وہاں ان کے سامنے اللہ کی طرف سے ان کے کئے ہوئے وہ برے اعمال ظاہر ہوں گے جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿48﴾
(اس وقت) ان پر ان کے (تمام) برے اعمال ظاہر ہو کر رہیں گے اور انھیں وہ (عذاب) آگھیرے گا جس پر وہ استہزاء کیا کرتے تھے۔
فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿49﴾
پھر جب انسان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ ہمیں ہی پکارتا ہے اور جب ہم اس کو اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے یہ تو مجھے علم کی بنیاد پر دیا گیا ہے ( اللہ نے فرمایا) بلکہ یہ آزمائش ہے مگر اکثر لوگ وہ ہیں جو جانتے نہیں۔
قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿50﴾
ان سے پہلے والوں نے بھی یہ بات کہی تو ان کی کمائی ان کے کچھ کام آنے والی نہ بنی۔
فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ۚ وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَٰؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ ﴿51﴾
بلکہ ان کی (ساری) بدعملیاں ان پر آپڑیں اور ان میں جو لوگ ظالم ہیں ان پر ان کی بدعملیاں ابھی آپڑنے والی ہیں اور وہ ہرا نہیں سکتے۔
أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿52﴾
کیا ان لوگوں کو یہ حقیت معلوم نہیں ہوسکی کہ اللہ ہی ہے جو رزق کو کشادہ کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے۔ بیشک اس کے اندر بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿53﴾
آپ (میری طرف سے) کہہ دیجئے کہ اے میرے بندوجو اپنے اوپر زیادتیاں کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ بیشک اللہ سارے گناہ معاف کردے گا۔ بیشک وہ بڑا غفور ہے بڑا رحیم ہے۔
وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ ﴿54﴾
(لوگو ! ) اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ ، اور اس کے فرمان بردار بن جاؤ اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور کہیں سے تمہاری مدد نہ کی جا سکے۔
وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴿55﴾
اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آپڑے اور تم کو اس کی خبر بھی نہ ہو۔
أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ ﴿56﴾
(یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے کہ) کہیں کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے خدا کی جناب میں کی، اور میں تو تمسخر ہی کرتا رہا ،
أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿57﴾
یا کوئی یہ کہنے لگے کہ اگر اللہ نے مجھے ہدایت دیدی ہوتی تو میں (بھی) پرہیزگاروں میں ہوتا
أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿58﴾
یا كوئى شخص عذاب دیکھنے کے بعد یہ کہنے لگے کہ کاش مجھے دوبارہ ( دنیا میں جانے کا) موقع مل جاتا تو میں نیک عمل کرنے والوں میں سے ہوجاتا۔
بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴿59﴾
ارے کیوں نہیں! تجھ پر تو میری آیتیں یقیناً پہنچ چکی تھیں سو تو نے ان کو جھٹلایا اور تو نے تکبر کیا اور تو کافروں میں شامل ہورہا۔
وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ ﴿60﴾
اور تم قیامت کے دن ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا دیکھو گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہیں۔ کیا ان متکبرین کا ٹھکانا جہعنم میں نہ ہوگا؟
وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿61﴾
(اس کے بر خلاف) وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کی ہوگی ان کو نجات ملے گی ، نہ ان کو عذاب چھوئے گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ﴿62﴾
اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔
لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿63﴾
اسی کے اختیار میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اور جو لوگ اللہ کی آیتوں سے (اب بھی) انکار کئے جاتے ہیں وہی لوگ بڑے گھاٹے میں پڑنے والے ہیں۔
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ ﴿64﴾
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہئے کہ اے نادانو! کیا پھر بھی تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہو
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿65﴾
(آپ اس اصول کو بیان کر دیجئے کہ) جس طرح آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور آپ سے پہلے ( انبیاء کرام (علیہ السلام) پر وحی نازل کی گئی تھی (ان سے صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ) اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا ہر عمل ضائع ہوجائے گا اور تم نقصان اٹھانے والے بن جاؤ گے۔
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿66﴾
بلکہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی کے شکر گزاروں میں سے بنو۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿67﴾
اور ان لوگوں نے خدا کی صحیح قدر نہیں جانی ! زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمانوں کی بساط بھی اس کے ہاتھ میں لپٹی ہوئی ہوگی۔ وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک بناتے ہیں۔
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ ﴿68﴾
اور صور پھونکا جائے تو آسمان اور زمین میں جو بھی ہیں سب بےہوش کے گر پڑیں گے مگر جن کو اللہ چاہے پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا تو دفعتاً وہ کھڑے ہو کر تاکنے لگیں گے
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿69﴾
اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی ۔ نامہ اعمال ( لوگوں کے) سامنے رکھ دیئے جائیں گے اور تمام انبیاء اور گواہ حاضر کئے جائیں گے۔ اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کی جائے گی۔
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴿70﴾
اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ ملے گا اور اللہ سب کے کاموں کو خوب جانتا ہے۔
وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿71﴾
اور جو کافر ہیں وہ گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے، ف ٨٥۔ یہاں تک کہ جب اس تک پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور ان سے دوزخ کے محافظ کہیں گے، کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے اور تم کو تمہارے اس دن کے پیش آنے سے ڈرایا کرتے تھے، ف ٨٦۔ وہ (کافر) کہیں گے ہاں (کیوں نہیں) لیکن عذاب کی بات (آخر) کافروں پر پوری ہو کر رہی۔
قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ ﴿72﴾
پھر ان سے کہا جائے گا کہ تم جہنم کے دروازوں سے داخل ہو جاؤ ۔ اب تمہیں یہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے ، تکبر کرنے والوں کا یہ بد ترین ٹھکانا ہے۔
وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴿73﴾
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے وہ گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے پاسبان ان سے کہیں گے، السلام علیکم، شادر ہو ! پس اس میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ کے لیے۔
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۖ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴿74﴾
اور وہ کہیں گے اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو ارض جنت کا وارث بنایا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں براجماں ہوں پس کیا ہی خوب صلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا
وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿75﴾
اور آپ دیکھیں گے کہ فرشتے عرش الٰہی کو گھیرے ہوئے حمد و تسبیح کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا ۔ اور کہا جائے گا کہ ساری حد وثناء رب العالمین کے لیے ہے۔
سورہ زمر كا تعارف
یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، اور اس میں مشرکین کے مختلف باطل عقیدوں کی تردید فرمائی گئی ہے، یہ مشرکین مانتے تھے کہ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن انھوں نے مختلف دیوتا گھڑ کر یہ مانا تھا کہ ان کی عبادت کرنے سے وہ خوش ہوں گے ، اور اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں گے، اور بعض نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا تھا، اس سورت میں ان محتلف عقائد کی تردید کرکے انھیں توحید کی دعوت دی گئی ہے، یہ وہ دور ہے جب مسلمانوں کو مشرکین کے ہاتھوں بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لیے اس سورت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ کسی ایسے خطے کی طرف ہجرت کرجائیں جہاں وہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں، نیز کافروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انھوں نے اپنی معاندانہ روش نہ چھوڑی تو انھیں بدترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، سورت کے آخر میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ آخرت میں کافر کس طرح گروہوں کی شکل میں دوزخ تک لے جائے جائیں گے، اور مسلمانوں کو کس طرح گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جایا جائے گا، گروہوں کے لیے عربی لفظ زمر استعمال کیا گیا ہے اور وہی اس سورت کا نام ہے۔
﴿اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۭ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِيْ مَا هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ڛ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ﴾
مشرکین کا فاسد نظريہ
مشرک لوگ یہ کہا کرتے ہیں ان چھوٹے خداؤں کی پرستش کر کے ہم بڑے خدا کے نزدیک ہوجائیں گے اور اللہ ان کی وجہ سے ہم پر مہربانی کرے گا جس سے ہمارے کام بن جائیں گے۔
اس کا جواب دیا کہ ان لچر حیلوں سے توحید خالص میں جھگڑے ڈال رہے ہو اور اہل حق سے اختلاف کر رہے ہو اس کا عملی فیصلہ قیامت کے دن ہوجائے گا۔
جس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ منعم حقیقی کو چھوڑ کر جھوٹے محسنوں کی بندگی کروں گا اللہ تعالیٰ کی عادت مستمر ہے کہ ایسے لوگوں کو کبھی کامیابی عطا نہیں فرماتے آپ ایسے لوگوں سے ایمان لانے کی امید مت کریں ۔
وضو میں نیت کے شرط ہونے بحث
ابن العربی فرماتے ہیں : اس میں ہر عمل کے اندر نیت واجب ہونے پر دلیل ہے اور اعمال میں عظیم عمل وضو ہے جو ایمان کی شرط ہے (لیکن صحیح ہے کہ شرط ایمان ہے) امام ابوحنیفہ (رح) اور دیگر بعض فقہاء کا اختلاف ہے وہ کہتے ہیں وضو بغیر نیت کے درست ہے۔
مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں: شاید ابن العربی امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب کی حقیقت سے مطلع نہ ہو سکے ورنہ وہ نہ کہتے جو کہا۔ اور نہ امام صاحب نے یہ نہیں کہا کہ وضو کو بطور عبادت کرنا، اس سے گناہوں کا کفار ہوتا، وضو سے ناخنوں اور بالوں کے گناہوں کا جھڑنا یہ بغیر نیت کے وضو سے حاصل ہوجائے گا۔ بلکہ انھوں نے یہ فرمایا کہ : بغیر نیت کے وضو کرنا، صحت نماز کے لیے آلہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر اس عبادت کے لیے جس میں طہارت اور وضو شرط ہے۔ ہاں ایسے وضو پر ثواب مرتب نہیں ہوتا۔ لہٰذا آیت میں جس مسئلہ پر دلالت ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ (احکام القرآن ص: ٤٩٨، جلد ٢)
اخلاص عبادت کے معنی
روح المعانی میں ہے کہ: قوله: فاعبد الله مخلصاً له الدین یعنی رب العزت کی عبادت اپنے نفس، قلب اور روح کے اخلاص کے ساتھ کرو۔ نفس کے ساتھ عبادت کے اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ عبادت میں کسی قسم کی خامی یا نقص سے اجتناب ہو۔ قلب کے ساتھ عبادت کے اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کے دیکھنے سے دل بالکل مستغنی بلکہ نابینا ہو۔ اور روح کے ساتھ اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ اپنے اختصاص اور خصوصیت کی طلب کی نفی ہو۔ (روح المعانی: ص: ٣٠٩، ج: ٢٣)
﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ ۚ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اَلَا هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفَّارُ﴾
یہ مضمون قرآن حکیم میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ متعدد مقامات پر یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں ‘ جبکہ بعض جگہوں پر {یُوْلِجُ الَّــیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّــیْلِ} کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ بہرحال مقصود اس سے یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ رات اور دن کے الٹ پھیر کا یہ منضبط اور منظم نظام بےمقصد اور عبث نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے عالم نباتات کے نظام تنفس ّ (respiration system) کی مثال لی جاسکتی ہے جو کلی طور پر دن رات کے ادلنے بدلنے کے ساتھ متعلق و مشروط ہے یا پھر روئے زمین پر پھیلے ہوئے پورے نظام زندگی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس گردش لیل و نہار کا مرہون منت ہے۔ غرض اس کائنات کی کوئی چیزیا کوئی تخلیق بھی بےمقصد و بےکار نہیں۔ اور اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو پھر انسان اور انسان کی تخلیق کیونکر بےمقصد و بےکار ہوسکتی ہے ‘ جس کے لیے یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے؟
یہاں پر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال خود بخود پیدا ہونا چاہیے کہ جب کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں تو آخر انسان کا مقصد تخلیق کیا ہے؟ ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں: (فَاِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَـکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ) یعنی دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ بہرحال اگر عقل اور منطق کی عینک سے بھی دیکھا جائے تو بھی آخرت کے تصور کے بغیر انسان کی تخلیق کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ خصوصاً انسان کو نیکی اور بدی کا جو شعور ودیعت ہوا ہے وہ ایک ایسی دنیا کا تقاضا کرتا ہے جہاں اچھائی کا نتیجہ واقعی اچھا نکلے اور برائی کا انجام واقعی برا ہو۔ جبکہ اس دنیا میں ہر جگہ اور ہر وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ انسان کی اخلاقی حس (moral sense) کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے بھی ایک دوسری زندگی کا ظہور نا گزیر ہے۔
﴿خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۭ يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ﴾
انسانی پیدائش اللہ کے وجود کی نشانی ہے
اگر انسان صرف اس حقیقت پر فکر ونظر کو مرکوز رکھے۔ کہ اللہ نے تخلیق کے بالکل ابتدائی دور میں جب اپنی ربوبیت سے ہمیں کامل طور پر نوازا ہے ۔ اور اس وقت ہمارا خیال رکھا ہے ۔ جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے ۔ یعنی فی ظلمت ثلث کے جب ہم مصداق تھے ۔ ہمیں غذا پہنچائی ہے ۔ ہمیں ضروری روشنی اور پاکیزہ ہوا سے بہرہ مند کیا ہے ۔ تو کیا جب ہم میں توانائی آگئی ہے ۔ اور قدرے کسب حصول پر قادر ہوگئے ہیں ۔ تو وہ ہم کو چھوڑدیگا ؟ جب ان نازک وقتوں میں کسی معبود نے کسی بت اور کسی شیخ اور بزرگ نے ہماری مدد نہیں کی ۔ تو اب ہم جبکہ سمجھ بوجھ کے مالک ہوگئے ہیں ۔ ان کے کس طرح محتاج ہوگئے ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ یہ بالکل سادہ سی بات ہے ۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ جس خدا نے تمہیں خلعت وجود بخشا ہے ۔ جس نے ہمیشہ تمہاری ضروریات کا بلاطلب خیال رکھا ہے ۔ اور جو یکہ وہ تنہا تمہاری ہر طرح تربیت کرتا رہا ہے ۔ وہی حقیقی معبود ہے ۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور اس کے لیے عبادت و نیاز مندی کے جذبات وقف ہیں تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے ۔ اور شرک وبت پرستی کے جنگلوں میں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو
جو لوگ نظریہ ارتقاء (Evolution theory) کو مانتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ساتھ اس کے بعض اجزاء کی مطابقت ہے ‘ وہ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں کہ ابتدا میں پیدا کیے جانے والے حیوانات (lower animals) میں نر اور مادہ کی تقسیم نہیں تھی۔ جیسے امیبا (Amoeba) ہے جو دو حصوں میں تقسیم ہو کر اپنے جیسے ایک نئے وجود کو جنم دے دیتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے پر ان کا خیال ہے کہ ایسے جانور پیدا کیے گئے جن کے اندر بیک وقت مذکر اور مونث دونوں جنسیں (Sexes) موجود تھیں۔ جیسے کہ برسات کے موسم میں زمین سے نکلنے والے کینچو وں (Earth worms) میں سے ہر ایک کیڑا مذکر و مونث دونوں جنسوں کا حامل (Hermaphrodite) ہوتا ہے۔ اس کے بعدرفتہ رفتہ دونوں جنسوں میں مزید تفریق ہوئی اور پھر تیسرے مرحلے میں دونوں جنسیں علیحدہ علیحدہ پیدا ہونا شروع ہوئیں۔
فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ كى تفصيل
ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کا یہ عمل تین پردوں کے اندر ہوتا ہے۔ یعنی ایک پردہ تو پیٹ کی بیرونی دیوار (Abdominal wall) کا ہے۔ دوسرا پردہ رحم (uterus) کی موٹی دیوار ہے ‘ جبکہ تیسرا پردہ رحم کے اندر کی وہ جھلی (مَشِیمہ) ہے جس کے اندر بچہ لپٹا ہوتا ہے۔ اس میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ تین پردوں کی یہ بات قرآن نے صدیوں پہلے اس وقت کی جس وقت علم جنینیات (Embryology) کے بارے میں انسان کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر کیتھ ایل مور (جسے ایمبریالوجی پر دنیا بھر میں سند مانا جاتا ہے) نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن نے علم جنین کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں وہ واقعتا حیران کن ہیں اور یہ کہ ماں کے پیٹ کے اندر انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کی جو تعبیر قرآن نے کی ہے اس سے بہتر تعبیر ممکن ہی نہیں۔
اس كى مزيد تفصيل
پہلا مرحلہ : جب بیضہ والا خلیہ رحم کی دو نلیوں میں زرخیز پذیر ہوتا ہے (جڑ پکڑ لیتا ہے) اور یہ عمل صرف اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور یہ مقام ‘ رحم مادر میں انتہائی انوکھا اور نازک مقام ہوتا ہے۔ یہ باریک ترین خلیہ (Cell) ہی ہے جس میں ہر چیز تیار ہوتی ہے۔ ہماری آئندہ زندگی کی مکمل تفصیلات اسی مقام پر متعین ہوجاتی ہیں ‘ اس مقام سے آگے یہ دوسرے طبقے میں پہنچایا جاتا ہے۔
دوسرا مرحلہ : یہ خلیہ (Cell) رحم کی لعاب دار جھلی میں پہنچتا ہے یہ تاریک طبقہ ایک جنگل سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں یہ خلیہ جڑ پکڑ جاتا ہے اور اپنے آپ کو وہیں مناسب جگہ پر قائم کرلیتا ہے یہ مقام ایک سرنگ کی طرح جگہ میں ہوتا ہے۔ یہ بچے کی خوراک ماں کے جسم سے مہیا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ زائیگوٹ اسی جگہ تقسیم کا عمل شروع کرتا ہے۔ یہ ابتدائی تقسیم انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس لیے کہ بچے کی ابتداء (Embryo) کے پہلے مرحلہ میں تمام اعضاء کی تشکیل کی ابتداء بھی اسی دوسرے تاریک طبقہ میں شروع ہوتی ہے اصل میں بارآور بیضہ تخلیق کی ابتداء کا پہلہ مرحلہ ہوتا ہے جبکہ خلیوں کی ابتدائی تقسیم اس کے دوسرے مرحلے کی تشکیل کرتی ہے۔ یعنی مختلف انسانی خصوصیات کا باہم مل کر یک جا ہونا ‘ اس پہلے مرحلے میں قیام پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ مختلف اعضاء کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل دوسرے مرحلے میں شروع ہوتی ہے۔
تیسرا مرحلہ : یہاں ایک پوٹلی یعنی (Amniotic Sae) کے اردگرد ایک مخصوص مائع کی صورت میں پیدا ہوجاتی ہے، پھر ہمارے اعضاء اور دوسرا حیاتیاتی نظام اسی پوٹلی کے اندر ارتقاء کے مراحل طے کرتا ہے۔ یہ تیسرا تاریک مرحلہ ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کی تشکیل کا سلسلہ ماں کے پیٹ میں تین مختلف طبقوں میں ایک تین جہتی کہانی بیان کرتا ہے۔ چنانچہ یہ آیات کریمہ ان تمام سائنسی حقائق کو ظاہر کرتی ہیں جن کی مدد سے ابھی حال ہی میں ایسی دریافتیں ہوئی ہیں جو بےحد صحیح انداز میں حیاتیاتی معجزے بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ اور پھر یہ آیت کریمہ ایک چیلنج کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے کہ ” تم کس طرح جھٹلا سکتے ہو “۔ یہ یقینی طور پر قرآن کی عظمت کی نشاندہی ہے کہ اس آیت نے ماں کے پیٹ میں انسان کی تشکیل کی ایک ایسی کہانی پندرہ صدیاں قبل اس طرح کھول کر بیان کردی جب کہ اس وقت ارتقائی مرحلوں (Embryogenesis) کے متعلق کسی قسم کے حقائق موجود نہ تھے۔ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق)
﴿ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
نماز تہجد کی فضیلت
آیت کریمہ سے نماز تہجد کی فضیلت معلوم ہوتى ہے، تہجد كے فضائل ميں كچھ حديثيں:
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نماز میں اتنا قیام کرتے تھے کہ آپ کے دونوں پیر سوج گئے تھے، تو حضرت عائشہ نے کہا : یارسول اللہ ! آپ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے ذنب (بہ ظاہر خلاف اولیٰ کام) معاف فرمادیئے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا میں اس کو پسند نہ کروں کہ میں اللہ کا شکرگزار بندہ ہوجاؤں، پھر جب آپ کا جسم بھاری ہوگیا تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے، پھر رکوع کرتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٧، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١١٨، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٠٤٠)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز، حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز ہے اور سب سے پسندیدہ روزے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے تھے، پھر تہائی رات نماز میں قیام کرتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سوتے تھے (مثلاً اگر چھ گھنٹے کی رات ہو تو تین گھنٹے سوتے تھے، پھر دو گھنٹے نماز پڑھتے تھے، پھر ایک گھنٹہ سوتے تھے۔ على ہذا القیاس) اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٣١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٥٩، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٤٤٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٤٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧١٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٦٥٣)
اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں کس طرح نماز پڑھتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعات نماز پڑھتے، تم ان کے حسن اور طول کو نہ پوچھو، پھر چار رکعات نماز پڑھتے، تم ان کے حسن اور طول کو نہ پوچھو، پھر تین رکعات (نماز وتر) پڑھتے تھے، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٣٨، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٣٤١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٣٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٩٧، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٣٩٣، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ٣١٥٣)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص جب سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر یہ پڑھ کر تین گرہیں لگا دیتا ہے : ” تمہاری رات بہت لمبی ہے سو جاؤ “ جب وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ایک گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ نماز پڑھتا ہے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر صبح کو وہ تروتازہ اور خوش گوار حال میں اٹھتا ہے ورنہ سستی کا مارا ہوا نحوست کے ساتھ اٹھتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧
(حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا جو صبح تک سوتا رہتا ہے اور نماز کے لیے نہیں اٹھتا، آپ نے فرمایا : شیطان اس کے کان میں پیشاب کردیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٠، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ١٨٧)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کو جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے : کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کرلوں، کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کروں، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٣١٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاض (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : اے عبداللہ ! تم فلاں شخص کی مثل نہ ہوجانا، وہ پہلے رات کو نماز میں قیام کرتا تھا، پھر اس نے رات کے قیام کو ترک کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٥٢، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٤٤٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٤٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧١٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٨٤١)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رات میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس بندہ کو مل جائے وہ اس گھڑی میں دنیا اور آخرت کی جس چیز کا بھی سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو عطا کردیتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات میں آتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٧، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ١٥٤٧)
حضرت بلال (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم رات کی نماز کے قیام کو لازم رکھو، کیونکہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کے قیام سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور رات کے قیام گناہوں کو روکتا ہے اور گناہوں کا کفارہ ہے اور جسمانی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٨، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٢ ص ٥٠٢)
حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عبسہ نے کہا : انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت میں اللہ کو یاد کرسکتے ہو تو یاد کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٧٩، مسند احمد ج ٤ ص ١١١، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٢٧٧، صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث : ١١٤٧)
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا : یارسول اللہ ! کس وقت کی دعا سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : آدھی رات کو اور فرض نمازوں کے بعد۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٩، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ١٠٨)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو نماز کے لیے اٹھا اور اس نے اپنی بیوی کو جگایا، سھر اس نے نماز پڑھی، اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے، پھر وہ بھی نماز پڑھے اور اگر وہ اٹھنے سے منع کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈالے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٣٦، سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ١٣٠٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦١٠، مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٠، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١١٤٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٥٦٧، المستدرک ج ١ ص ٣٠٩، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٢ ص ٥٠١)
وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْهَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ﴾
طاغوت کا معنیٰ اور مصداق
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں : قرآن مجید میں ہے : ”إنه طغی“ (طٰہٰ : ٢٤) فرعون نے سرکشی کی ہے “إن الإنسان لیطغی“ (العلق : ٦) بیشک انسان ضرور سرکشی کرتا ہے۔ طغیان کا معنی ہے : نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا، طاغوت مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے : حد سے تجاوز کرنے والا اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر کیا جاتا ہے جس کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی جائے، ساحر، کاہن، سرکش جن اور نیک راستہ سے روکنے والے کو طاغوت کہا جاتا ہے، اس وزن پر اور بھی مبالغے کے صیغے ہیں جیسے جبروت اور ملکوت وغیرہ۔ (المفردات ج ٢ ص ٣٩٧، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨)
علامہ سید محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی حنفی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
علامہ مجد الدین فیروز آبادی متوفی ٠٧ (رض) ٨١ ھ نے کہا ہے کہ طاغوت کی تفسیر میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ لات اور عزیٰ طاغوت ہیں، عکرمہ اور زجاج نے کہا ہے کہ کاہن اور ساحر طاغوت ہیں، ابوالعالیہ، شعبی، عطاء اور مجاہد وغیرہ نے کہا ہے کہ طاغوت شیطان ہے۔ حضرت عمر (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ سرکش جن طاغوت ہے۔ جوہری نے کہا ہے کہ گمراہ کرنے والوں کا رئیس طاغوت ہے۔ اخفش نے کہا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اصنام (بت) طاغوت ہیں۔ زجاج نے کہا : طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔ (تاج العروس ج ١٠ ص ٢٢٥، دراحیاء التراث العربی، بیروت)
امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں طاغوت سے مراد شیطان ہے یابت ہیں، اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شیطان ہے، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کفار شیطان کی عبادت نہیں کرتے تھے، وہ تو بتوں کی عبادت کرتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بتوں کی عبادت کی دعوت شیطان نے دی تھی تو بتوں کی عبادت کرنا دراصل شیطان ہی کی عبادت کرنا ہے۔ تواریخ میں مذجکور ہے کہ بتوں کی عبادت کی اصل یہ ہے کہ وہ لوگ مشتبہ تھے، ان کا اعتقاد یہ تھا کہ الہٰ نور عظیم ہے اور فرشتوں میں چھوٹے اور بڑے مختلف انوار ہیں، پھر انھوں نے اپنے خیالات کے مطابق ان انوار کے مختلف صورتوں میں مجسمے بنالیے، وہ ان مجسموں کی عبادت کرتے تھے اور اپنے اعتقاد میں اللہ کی اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٣٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾
مطلب يہ ہے كہ جو احسن القول یعنی قرآن سنتے ہیں اور اس کا اتباع کرتے ہیں ( حضرت لاہوری) یا یہ مطلب ہے کہ خدا کی بات سنتے ہیں اور اس میں جو ہدایات اعلیٰ سے اعلیٰ ہوں ان پر عمل کرتے ہیں مثلاً ایک چیز رخصت و اباحت کی سنی، دوسری عزیمت کی، تو عزیمت اختیار کی رخصتوں کا تتبع نہیں کرتے۔ (تفسیر عثمانی)
ابن زید (رح) فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ یہ آیتیں تین افراد کے بارے میں نازل ہوئی جو جاہلیت کے دور میں بھی ” لا الہ الا اللہ“ کے قائل تھے۔ زید بن عمر، ابو ذر غفاری اور سلمان الفارسی (رض) ۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ: وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ (17) الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ (18) (سورة الزمر : ابن جریر)
اور ایک مطلب یہ ہے کہ لفظ ”القول“ سے ہر قول مراد ہوگا خواہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہو یا فرشتہ کی طرف سے اور خواہ کسی انسان کی طرف سے ہو حق یا باطل ۔ اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ حضرات ہر بات اور ہر قول سنتے تھے لیکن اتباع صرف ہی قول کی کیا کرتے تھے جو سب سے احسن اور بہتر ہے۔ یعنی لا الہ الا اللہ کی اور غیر احسن یعنی باطل اقوال کی اتباع نہیں کرتے تھے۔
جیسا کہ کلبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہ ایسا ہے کہ جیسے انسان اپنی قوم کے ساتھ مجلس میں بیٹھے اور مجلس میں کی جانے والی تمام باتیں خواہ اچھی ہوں یا بری سنے لیکن قبول صرف وہ کرے جو ان میں اچھی ہوں اور مجلس کے اقوال محاسن کو لے لے اور انھیں آگے بیان بھی کرے جبکہ برے اقوال کو ترک کر دے۔ چنانچہ مثل مشہور ہے : خذما صفا ودع ما کدر۔
انسان کے سامنے اچھے برے اقوال ہوں تو حق وباطل میں تمیز کرنا ضروری ہے: مذکورہ بالا تفسیر کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب انسان کے سامنے اقوال و کلمات خلط ملط ہوجائیں تو اس وقت صحیح و غلط ، حق وباطل کے درمیان نقد و فکر اور بحث و تمحیص ضروری ہے۔ لیکن یہ وہی شخص کرسکتا ہے جس کو نظر کی قوت اور دلائل میں غور اور اجتہاد کی شان حاصل ہو اور جسے یہ مقام حاصل نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ ایسے مجتہد اور دینی فقہ و بصیرت کے حامل اشخاص ورجال پر نظر رکھے اور ان میں سے جس کے علم وتقویٰ پر اسے اعتماد ہو اس کے قول کی اتباع کرے اور دوسرے کے اقوال ترک کر دے (اور اسی کا نام تقلید ہے) واللہ اعلم۔
کشف الاسرار میں ہے کہ دینی امور میں احسن اور حسن کی مثالیں یہ ہیں : اگر کوئی برائی کا بدلہ برائی سے دے تو حسن ہے اور اگر معاف کر دے اور بدلہ نہ لے تو احسن ہے۔ اگر دکاندار (چیز بیچتے وقت) برابر تولے یا ناپ کر دے تو حسن ہے اور اگر ذرا سا جھکتا ہوا یا زیادہ تول دے تو یہ احسن ہے۔ اگر سلام کا جواب صرف وعلیکم السلام سے دے تو حسن ہے اور اگر جواب میں کہے : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ تو احسن ہے۔ اگر وضو کے دوران اعضاء وضو کو ایک بار دھوئے تو حسن ہے اور اگر ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھوئے تو احسن ہے۔ اگر اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو اسی جیسے ظلم کے ساتھ بدلے دے تو حسن ہے اور اگر اس کے ساتھ بدلہ میں نیکی اور بھلائی کرے تو احسن ہے۔
قرآن کریم میں اس کی نظیر باری تعالیٰ کا موسیٰ (علیہ السلام) سے ارشاد ہے: فخذھا بقوۃ وامر قومک یأخذوا بأحسنھا. (سورة الاعراف : ١٤٥) ۔ اور ارشاد ہے : وتبعوا أحسن ما أنزل إلیکم من ربکم (سورة الزمر : ٥٥)
اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ آیت مذکورہ میں ”فیتبعون أحسنه“ میں احسن قول سے ماموربہ مراد ہے ورنہ تو پورا قرآن کریم ہی حسن ہے اور احسن ہے۔ احسن کہنا اخذ وعمل کے اعتبار سے ہے۔
اعمال میں احسن و افضل کی تلاش و اتباع ہی افضل ہے : حضرت مفتی محمد شفیع (رح) فرماتے ہیں : اس تفسیر کی بناء پر آیت میں اس امر پر دلیل ملتی ہے کہ انسان کو جن امور و اعمال میں اختیار دیا جائے ان میں احسن و افضل کو اختیار کرنا ہی افضل ہے۔ (واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احکام القرآن ص : ٥٠٢ جلد ٢)
﴿اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ فَوَيْلٌ لِّــلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ﴾
أفمن شرح الله الخ: اس کے مد مقابل کا جملہ محذوف ہے وہ یہ ”کمن طبع علی قلبه“ معنی یہ ہے کہ کیا پس وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے پس وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے یہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کے دل پر مہر لگ گئی ہو۔ (مظہری: ص : ٢٠٦، ج : ٨، جلالین: ص : ٣٨٧، ج : ٢)
علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں کہ اسلام کے لیے سینہ کھول دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر اطمینان نصیب ہوجائے اور اطمینان اس درجہ کا ہو کہ دل میں کسی بھی امر خداوندی پر کوئی تنگی باقی نہ رہے یہاں تک کہ احکام شریع اور طبیعت کے تقاضوں میں کوئی فرق باقی نہ رہے۔ (تفسیر قرطبی : ص : ٢١٦، ج : ١٥)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو ہم نے آپ سے شرح صدر کا مطلب دریافت کیا آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب نور ایمان انسان کے دل میں داخل ہوتا ہے تو اس کا دل کشادہ ہوجاتا ہے (جس سے احکام الہٰیہ کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے)
پھر ہم نے عرض کیا اللہ کے رسول اس شرح صدر کی علامت کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا : الإنابة الی دار الخلود والتجافي عن دار الغرور والتأھب للموت قبل نزوله. (رواہ الحاکم في المستدرک والبیہقي في شعب الإیمان ، روح المعانی : ص : ٣٣٨: ج : ٢٣: مظہری : ص : ٢٠٦: ج : ٨: کشاف : ص : ١٢٦: ج : ١٤: التفسیر المنیر : ص : ٢٧٨: ج : ٢٣)
ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف راغب اور مائل ہونا اور فریب و دھوکا کے گھر یعنی دنیا کی لذیذ اور زینت سے کنارہ کش ہونا اور مرنے سے پہلے اس کی تیاری کرنا۔
فویل للقسیۃ قلوبھم من ذکر اللہ : نتائج محرومین من القرآن: ”قاسیة“ قساوت سے مشتق ہے جس کے معنی سخت دل ہونا یعنی جس کو کسی پر رحم نہ آئے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے احکام سے کوئی اثر قبول نہ کرے۔ قساوت کا جمود ٹوٹتا ہے اللہ تعالیٰ کے خوف سے پھر بسا اوقات یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ حالت نماز میں انسان رونے لگ جاتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کے دوران وعظ میں وعیدات کے مضامین سن کر رونے لگ جاتا ہے۔
اور آدمی کا دل ایسا نرم ہوجاتا ہے کہ ضمیر کہتا ہے اللہ کو کیسے راضی کروں آہ وبکا میں فنا ہوجاتا ہے سمجھ نہیں پاتا کہ اللہ کو کیسے راضی کر کے کامیاب ہوجاؤں، یہ حالات اور کیفیات اللہ والوں کی مجالس سے میسر آسکتی ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں کو نرم کرے اور اپنی رضا کا سچا طالب بنائے۔ ورنہ ہلاکت کے دہانہ پر ہم کھڑے ہیں اور شیطانی اثرات کا غلبہ بہت زیادہ ہے حق تعالیٰ شاہ بہت محفوظ فرمائے۔ (آمین)
﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ﴾
الله نزل أحسن الحدیث: احسن الحدیث سے مراد قرآن کریم ہے۔ (التفسیر المنیر : ص : ٢٧٩: ج : ٢٣: قرطبی : ص : ٢١٨: ج : ١٥: ابن کثیر : ص : ٨١، ج : ٧)
حدیث کے لفظی معنی اس کلام یا قصے کے ہیں جو بیان کیا جاتا ہے قرآن کریم کو احسن الحدیث اس لیے فرمایا ہے کہ انسان جو کچھ بولتا ہے اس میں احسن الکلام قرآن کریم ہے۔
کتباً متشابھاً مثاني الخ: يہ احسن الحدیث کی تشریح ہے، قرآن کریم اس معنی کے لحاظ سے ”مثاني“ ہے کہ اس کی آیات بار بار تلاوت کی جاتی ہیں نیز بعض احکام اور قصص و مواعظ بار بار دہرائے جاتے ہیں اور بعض نے ” متشابہ “ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے بعض حصہ میں ایک ہی مضمون مختلف آیات میں دور تک چلا جاتا ہے اور ” مثانی “ اس کے برخلاف یہ کہ ایک آیت میں ایک مضمون بیان کر کے دوسری آیت میں اس کے بالمقابل دوسری نوع کا مضمون ہے مثلاً نیکی کے ساتھ بدی کا اور نیک کے ساتھ بد کا حال یا اس کے برعکس طریقہ بکثرت آیات میں آتا رہتا ہے۔
اس آیت شریفہ میں حق تعالیٰ جل شانہ وعزاسمہ نے اپنے ان کامل بندوں کا ذکر فرمایا جن کے دل اللہ کی خثیت سے معمور ہیں کہ ان کے سامنے جب قرآن کریم کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں یا وہ خود آیات ربانیہ کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کے جسم اور کھال کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی (رح) فرماتے ہیں : یعنی کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کھالیں نرم پڑجاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خوف ورعب کی کیفیت طاری ہو کر ان کا قلب و قالب اور ظاہر وباطن اللہ کی یاد کے سامنے جھک جاتا ہے اور اللہ کی یاد ان کے بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے، یہ حال اقویاء وکاملین کا ہوا۔
” روح المعانی میں ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے اولیاء کا بس یہی حال بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کی تلاوت و سماعت سے ان کی کھالوں اور جسم کے بال کانپ جاتے ہیں۔ پھر رحمت حق عزوجل کی وجہ سے ان پر سکون و سکنیت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ آیت میں غشی طاری ہوجانے ، وجدوحال آجانے کا کوئی ذکر نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا یہ حال ظاہر ہوتا ہے
چنانچہ سعید بن منصور اور ابن المنذر اور ابن مردویہ، ابن ابی حاتم، ابن عساکر وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عروہ بن
زبیر (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : میں نے اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے پوچھا : کیف کان یصنع اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذا قرء وا القرآن ؟
یعنی جب صحابہ کرام (رض) قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے تو ان کی کیا کیفیت ہوتی تھی ؟ انھوں نے فرمایا ان کی وہی کیفیت ہوتی تھی جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ ان کی آنکھیں گریہ کر رہی ہوتی اور ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے میں نے عرض کیا : یہاں کچھ لوگ ہیں جب قرآن سنتے ہیں تو غش کھا کر گرجاتے ہیں تو حضرت اسماء (رض) نے یہ سن کر فرمایا ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “۔ (روح المعانی : ص : ٣٤١: ج : ٢٣)
﴿قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّـقُوْنَ﴾
یوں سمجھ لیجئے کہ یہ قرآن کی ہی برکت ہے کہ عربی زبان 15 صدیاں گزر جانے کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوئی جبکہ یہ اصولی بات ہے کہ ہر زبان وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر بدل جاتی ہے کہ اس کی گرامر، تشبیہات، تمثیلیں ‘ محاورے بلکہ الفاظ کی شکل لہجہ اور معنی تک تبدیل ہوجاتے ہیں اور پانچ سو سال میں تو وہ یا معدوم ہوجاتی ہے یا بالکل ناقابل فہم ہوجاتی ہے۔ مگر سبحان اللہ قرآن کی زبان، عبارت اور لہجہ میں معمولی سا فرق بھی نہیں آیا اور یہ ایک معجزہ سے کم نہیں۔ ہم بڑے دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ عربی زبان نہ صرف فصاحت، بلاغت، ترنم اور جامعیت کے لحاظ سے بےمثال ہے بلکہ یہ ایک غیر متبدل (نہ بدلنے والا) ہونے کی خاصیت بھی رکھتی ہے۔ اس کی مثال موجودہ نشرواشاعت کے ادارے بھی ہیں۔ وہی معیاری زبان ریڈیو، ٹی وی اور رسائل و کتب میں استعمال کی جاتی ہے جس کی بنیاد 14 سو سال پہلے موجود تھی۔ لوکل لینگوئج میں کچھ تبدیلی ہو تو ہو سٹینڈرڈ زبان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ ایک خالص ترین زبان ہے، لہٰذا عربی زبان سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ
1 نبی اکرم سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان عربی ہے۔
2 قرآن عربی میں ہے۔
3 جنتیوں کی زبان عربی ہوگی۔
تو یہ سب باتیں ہیں قرآن کے عربی زبان میں نازل ہونے کی وجہ، عرب لوگ زبان کے بارے میں بڑے محتاط ہوتے تھے اور بعثت سے پہلے عرب میں شعر و شاعری کی بڑی زبردست محفلیں منعقد ہوتی تھیں اس زمانے میں جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قرآن پاک کا نزول ہوچکا تو عام رواج کے مطابق سورة ٔ کوثر خانہ کعبہ کے دروازے پر لکھ کر لگا دی گئی۔ لبید بن ربیعہ جو کہ اس وقت ملک الشعراء کہلاتا تھا۔ اپنا کلام لے کر گیا کہ خانہ کعبہ کے دروازے پر لگاؤں جب اس نے سورة کوثر پڑھی تو کلام کی عظمت، بھیجنے والے کی عظمت اور لانے والے کی عظمت اس کے دل و دماغ پر یوں چھاگئی کہ سجدے میں گر پڑا اور ایمان لے آیا۔
قرآن کی جامعیت کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اسی طرح سیدنا عمر (رض) کا ایمان لانا بھی قرآنی آیات کا ہی معجزہ تھا۔
بہرحال مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ عربی زبان سیکھنے کی پوری پوری کوشش کرے کیونکہ غیر عربی لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے علماء دین، فقہاء، محدثین اور بیشمار مترجمین کا بند و بست کر رکھا ہے، تاکہ کلام پاک کو غیر عربی لوگ بھی سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں۔ جب انسان سمجھے گا تو پھر اللہ سے ڈر کر صاف ستھری زندگی گزارنے کا اہتمام کرے گا۔ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔ کیونکہ اللہ کا مقصد تو صرف ہمیں آخرت کے عذاب سے بچانا ہے۔ اس کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں۔ اس کی عبادت سے تو صرف ہمارا اپنا ہی بھلا ہوگا۔
﴿وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ﴾
حضرات مفسرین فرماتے ہیں ”والذي“ جنس کے درجے میں ہو تو معنی یہ ہے کہ وہ ذات جو سچائی لائی یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جنہوں نے حق کی تصدیق کی تو ”الذي“ لفظاً مفرد ہے اور معنی جمع ہے لفظ کے اعتبار سے ” صدق “ مفرد کہا آگے معنی کے اعتبار سے ” اولئک ھم المتقون “ جمع کا صیغہ لائے ہیں۔ (روح المعانی : ص : ٣٥٢، ج : ٢٤)
حضرت علی (رض) ابو العالیہ اور کلبی فرماتے ہیں ”جاء بالصدق“ سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ”صدق به“ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں ان سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت علی (رض) ہیں سدی کہتے ہیں ”الذي جاء بالصدق“ سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) اور ”وصدق به“ سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ (روح المعانی : ص : ٣٥٢، ج : ٢٤)
ابن زید، مقاتل، اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں ”الذی جاء بالصدق“ سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ”وصدق به“ سے مراد تمام اہل ایمان ہیں اور انھوں نے استدلال کیا ”اولئک ھم المتقون“ سے۔ (تفسیر قرطبی : ص : ٢٢٤، ج : ١٥)
﴿اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ﴾
حیات بعد الموت کی دلیل
تفسیر مظہری ہے کہ قبض روح کے معنی اس کا تعلق بدن انسانی سے قطع کردینے کے ہیں، کبھی یہ ظاہراً و باطناً بالکل منقطع کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیا جاتا ہے باطناً باقی رہتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ صرف حِس اور حرکت ارادیہ جو ظاہری علامت زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً تعلق روح کا جسم کے ساتھ باقی رہتا ہے جس سے وہ سانس لیتا ہے اور زندہ رہتا ہے اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ روح انسانی کو عالم مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کرکے اس عالم سے غافل اور معطل کردیا جاتا ہے تاکہ انسان مکمل آرام پا سکے۔ اور کبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
آیت مذکور میں لفظ تَوَفِّیْ بمعنی قبض بطور عموم مجاز کے دونوں معنی پر حاوی ہے۔ موت اور نیند دونوں میں قبض روح کا یہ فرق جو اوپر بیان کیا گیا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ایک قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے انھوں نے فرمایا کہ سونے کے وقت انسان کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے مگر ایک شعاع روح کی بدن میں رہتی ہے جس سے وہ زندہ رہتا ہے اور اسی رابطہ شعاعی سے وہ خواب دیکھتا ہے۔ پھر یہ خواب اگر روح کے عالم مثال کی طرف متوجہ رہنے کی حالت میں دیکھا گیا تو وہ سچا خواب ہوتا ہے اور اگر اس طرف سے بدن کی طرف واپسی کی حالت میں دیکھا تو اس میں شیطانی تصرفات ہوجاتے ہیں وہ رُؤیَایٔ صادقہ نہیں رہتا۔ اور فرمایا کہ نیند کی حالت میں جو روح انسانی اس کے بدن سے نکلتی ہے تو بیداری کے وقت آنکھ جھپکنے سے بھی کم مقدار وقت میں بدن میں واپس آجاتی ہے۔
طبی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو نیند کا نظام جو اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے بلکہ تمام جانداروں کیلئے بنا رکھا ہے یہ جسم کیلئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح ہوا، خوارک، پانی اور روشنی جانداروں کی بقا کیلئے ضروری ہے۔ نیند کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا جا چکا ہے اب مختصراً عرض یہ ہے کہ جسم کے تمام اعضاء کو کچھ دیر کیلئے اس قدر سکون چاہیے ہوتا ہے کہ جس قدر سکون موت میں مل جاتا ہے۔ کیونکہ نیند میں روح کافی حد تک جسم سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ مگر اس کا رابطہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور معجزانہ نظام سے یوں رکھتا ہے کہ جو نہی جسمانی اعضاء کی تھکن دور ہوجاتی ہے، روح دوبارہ جانداروں کو چاک و چوبند کر کے اٹھا کھڑا کرتی ہے۔ ہاں جن کی موت کا وقت مقرر آچکا ہوتا ہے تو ان کی روحوں کا رابطہ جسم سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے معمول کی بات ہے اس لیے عجیب نہیں لگتی ورنہ غور کرنے سے اللہ کی شان یاد آتی ہے۔ اللہ کی بہت بڑی بڑی حکمتوں میں سے یہ نیند بھی ایک لاجواب حکمت ہے۔ نیند بیشک موت کے قریب ہوتی ہے اسی لیے مثل مشہور ہے۔ ”ستا مویا اک برابر“۔ یعنی سویا ہوا اور مرا ہوا ایک برابر ہوتا ہے۔ حسیات کے لحاظ سے جسم بالکل ساکت ہوجاتا ہے مگر دل دماغ کچھ کچھ کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ اور اسی طرح کی بیشمار مثالیں ان کے سامنے دن رات وجود میں آتی رہتی ہیں۔ مگر یہ مشرک و کافر عقل کے اندھے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی کو فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوشش کرتے چلے جاؤ۔ مسلسل ان کو اللہ کی حکمتوں ‘ اختیارات اور بادشاہت کے بارے میں بتاتے چلے جاؤ۔ اور یہ بھی دہراتے جاؤ کہ اللہ ایک ہے اور مرنے کے بعداس کے پاس ضرور جانا ہے۔ آپ پروا نہ کریں کیونکہ ان لوگوں کی ذہنیت ہم خوب جانتے ہیں۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں کی حقیقت تک پہنچنا تو ہم جیسے ناچیز لوگوں کے بس میں نہیں۔ البتہ اس میں ایک طرح کی دعوت بھی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے غور کرنے کی کچھ بھی صلاحیت عطا کی ہے اسے ان آیات میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ بنابریں جب ہم ان آیات میں غور کرتے ہیں تو سب سے پہلی نشانی جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی تخلیق اور پھر اس کے نظم و نسق کی تدبیر سراسر اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں، اسی طرح زندگی اور موت بھی تمام تر اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ جسے زندگی دینا چاہے کوئی اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتا، اور جس کی زندگی کا سلسلہ منقطع کرنا چاہے، کوئی اس کی زندگی کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح اس زندگی کی بقاء و انقطاع میں بھی کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اور یہ بات سب پر واضح ہے کہ انسانی زندگی مہد سے لحد تک ہے۔ یعنی اس کی ہمہ ہمی موت وحیات کا درمیانی فاصلہ ہے۔ اور یہ تمام تر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ انسان اپنی دولت، اثرورسوخ یا اقتدار کے زور پر اس میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ تو پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جس کے قبضے میں زندگی اور موت کی لگام ہے انسان اس سے غافل یا منحرف ہو کر زندگی بسر کرے۔ اگر اسے اس بات کا یقین ہے کہ وہ مجھے کسی وقت بھی موت کی نیند سلا سکتا ہے اور پھر قیامت کے دن مجھ سے میرے معمولات زندگی کے حوالے سے بازپرس کرنے والا ہے۔ تو آدمی اس کے سامنے سرکشی اور جحود کا رویہ اختیار کرے تو اسے نادانی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
دوسری نشانی جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک آدمی حقیقی موت سے دوچار نہیں ہوتا موت کی بہن یعنی نیند سے اسے روزانہ موت کا تجربہ کرایا جاتا ہے۔ جب کسی شخص پر گہری نیند طاری ہوتی ہے تو بجز اس کے کہ اس کی سانس کی آمدورفت جاری رہتی ہے اور زندگی کی کوئی علامت اس کے اندر دکھائی نہیں دیتی۔ وہ احساس و شعور، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتوں سے یکسر محروم ہوجاتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا تجربہ ہے کہ انسان ہر روز اپنی زندگی میں کبھی دن کے وقت اور کبھی رات میں نیند کی آغوش میں جاتا ہے اور اس وقت وہ اپنے آپ میں نہیں بلکہ کسی اور کے قبضے میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اسی نیند کو حقیقی موت میں تبدیل کردے تو چاہے اسے واپس دنیا میں بھیج دے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جس شخص کو روزانہ موت کا تجربہ ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی مکمل گرفت بھی دیکھتا ہے لیکن غفلت کے دام سے نکلنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔
تیسری نشانی جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب سونے والا نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اسے دراصل اس بات کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے کہ بعث و نشر بھی ایک حقیقت ہے۔ جو ذات بیداری پر نیند کو غالب کرتی اور پھر نیند کے پردے کو توڑ کر انسان کو بیداری میں لاتی ہے اس کے لیے انسان کو موت سے دوچار کرنا اور پھر موت سے دوبارہ اٹھانا اور میدان حشر میں پہنچا دینا آخر کیوں ناممکن ہے۔ نیند کی طرح زندگی کا بھی ایک وقت معین ہے اس وقت زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اپنے آپ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جب تک چاہے انسان زندگی کے مزے لوٹتا ہے اور جب وہ چاہے تو اس کی روح قبض کرسکتا ہے۔
﴿قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا ۭ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾
انبیاء و اولیاء کی شفاعت
یہاں قُلْ لِّلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا سے معلوم ہوا کی اللہ کے ہاں اللہ کے اذن سے شفاعت ہوسکتی ہے اور یہ انبیاء و اولیاء کا مرتبہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِه ” اللہ کے ہاں اس کے اذن کے بغیر کون شفاعت کرسکتا ہے “ (بقرہ : 255) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا گیا : وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا ” اور اگر لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تو آپ کے پاس آجائیں، پھر اللہ سے بخشش مانگیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی سفارش کردیں تو ضرور وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا رحیم پائیں گے “ (نساء : 64) یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت دنیا میں ہے اور آخرت میں آپ کی شفاعت ہی سے سب کا بیڑا پار ہوگا، اس پر کثیر احادیث متفق علیہ وارد ہیں۔
مِنْ دُوْنِ الله کا معنی
اس جگہ اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَاء سے معلوم ہوا کہ قرآن میں من دون اللہ کے الفاظ جب غیر اللہ کی شفاعت یا مدد کی نفی کے لئے آئیں تو ان کا معنیٰ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی شفاعت یا مدد کی نفی ہوتا ہے کیونکہ اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَاءَ کا معنی یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے سوا کسی کے سوا کسی کو شفیع نہ مانا جائے اس لئے کہ جو اللہ کو شفیع مانے گا وہ اللہ سے اوپر کسی کو خدا مانے گا جس کے دربار میں اللہ شفیع بنے اور یہ کفر ہے۔ لہذا اس کا یہی معنی ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کو شفیع نہ مانا جائے اسی طرح وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ الله مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ (بقرہ : 107) کا بھی یہی معنی ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی کسی کا حمایتی اور مددگار نہیں، یہ معنی نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کا مددگار نہیں ہے۔ لہذا اس مفہوم کی آیات کو انبیاء و اولیاء سے استغاثہ کی حرمت پر بطور دلیل لانا غلط استدلال ہے۔
﴿قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ﴾
إن الله یغفر الذنوب جمیعاً الخ: علامہ آلوسی (رح) لکھتے ہیں ”الذنوب“ پر الف لام استغراق کا ہے اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ (روح المعانی : ص : ٣٦٨، ج : ٢٤)
ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت یہ بتائیں: دشمن کی طرف میری چھاتی اور پیٹھ نہ دکھاؤں اور شہید ہوجاؤں تو اس صورت میں میرے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔
وہ شخص بہت خوش ہوا اور چلا گیا اتنے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے آپ نے فرمایا کہ اس شخص کو واپس بلاؤ بلایا گیا فرمایا: تو نے کیسا کہا؟ اس نے اس بات کو دوبارہ دہرایا آپ نے فرمایا کہ میں نے تو ایسا ہی بتلایا تھا مگر جبرائیل (علیہ السلام) آئے ہیں انھوں نے مجھے خبر دی کہ شہید کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ” الا الدین “ تین دفعہ اس کو دہرایا دین سے رب کا دین مراد ہے نماز رب کا دین ہے روزہ بھی دین ہے۔
علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں کچھ لوگ مشرکین میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے جو اسلام کی رغبت رکھتے تھے مگر انھوں نے زمانہ جاہلیت میں شرک، قتل زنا اور چوری بھی خوب کی تھی انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ جس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ نہایت ہی اچھی چیز ہے اہم اسلام تو قبول کرنا چاہتے ہیں مگر ہم نے سب کچھ کیا ہے اس وجہ سے ڈرتے ہیں کیا اسلام قبول کرنے سے ہماری نجات ہوجائے گی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی : ص : ٢٣٤ تا ٢٣٥، ج : ١٥)
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَيْضًا وَعَطَاءٌ نَزَلَتْ فِي وَحْشِيٍّ قَاتِلِ حَمْزَةَ، لِأَنَّهُ ظَنَّ أَنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ إِسْلَامَهُ. تفسير القرطبي (15/ 268)
ترجمہ: حضرت ابن عباس اور حضرت عكا نے یہ بھی کہا: کہ يہ آيت وحشی کے بارے میں ہوئی جس نے حضرت حمزہ کو قتل کیا، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ خدا اس كے اسلام كو قبول نہیں کرے گا۔
الغرض: مرنے سے پہلے پہلے ہر بڑے سے بڑے گناہ یہاں تک کہ کفر و شرک سے بھی جو توبہ کرلے قبول ہوجاتی ہے اور سچی توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اس لیے کسی کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
﴿وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾
اللہ تعالیٰ نے کفر و شرک اور فسق و فجور میں مبتلا اپنے بندوں سے فرمایا کہ موت کا عذاب آنے سے قبل اپنے رب کی طرف توجہ کرلو یعنی توبہ کرکے برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی کی طرف آجاؤ۔ اور اللہ نے تمہاری طرف قرآن اتارا ہے اس پر بہترین طریقہ سے عمل کرلو۔ معنی یہ ہے کہ موت تک انسان کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ وہ جب بھی توبہ کرکے نیکی کے راستہ پہ آجائے اللہ تعالیٰ اسے اپنا قرب عطا فرما دیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو بہت بڑی امید دلائی ہے۔
حضرت عمر فاروق (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص ہشام بن عاص اسلام لایا، پھر ہجرت کے موقع پہ وہ میرے ساتھ ہجرت کے سفر پہ تیار تھا، مگر اسے ابوجہل نے گرفتار کرلیا اور ہجرت سے روک دیا۔ بعد میں اس کا عقیدہ خراب کردیا گیا اور وہ دین سے پھر گیا۔ مجھے اس کا شدید افسوس تھا، جب یہ آیات اتریں : لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۔۔۔ وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ الخ۔ تو میں نے ہشام کو یہ آیات لکھ کر مکہ بھیجیں۔ ہشام کہتے ہیں جب یہ آیات مجھے مکہ میں ملیں تو میں انھیں لے کر سرگرداں پھرتا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے میری راہ نمائی فرمائی اور میرے دل نے گواہی دی کہ یہ آیات میرے ہی جیسے لوگوں کی توبہ کے لیے اتری ہیں۔ تب میں نے اپنا اونٹ لیا اور سفر کرتا ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گیا اور ایمان لے آیا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 218 مطبوعہ دار ابن حزم بیروت)
﴿لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾
“مَقَالِیْد”، “مِقْلاد” کی جمع ہے۔ جیسے “مَفاتیح” جمع ہے “مَفتاح” کی۔ یا یہ “اِقلِیْد” کی جمع ہے خلاف قیاس۔ جیسا کہ “مَذاکیر” “ذکر” کی جمع ہے۔ اور “اِقْلِیْد” دراصل فارسی کے کلمہ کلید کا معرب ہے جس کے معنیٰ ” چابی ” کے بھی آتے ہیں اور خزانے کے بھی۔ (جامع البیان، خازن، مراغی اور معارف وغیرہ) ۔ پس اہل بدعت وغیرہ زائغین نے جو مشہور کر رکھا ہے کہ فلاں علاقہ فلاں بزرگ کے حوالے ہے اور فلاں خطہ فلاں ہستی کے کنٹرول میں ہے وغیرہ وغیرہ تو یہ سب کچھ ایسے لوگوں کے من گھڑت ڈھکوسلے اور خود ساختہ مفروضے ہیں جو کہ قرآن و سنت کی ایسی تعلیمات مقدسہ سے متصادم ہیں۔ والعیاذ باللہ ۔
کوئی علاقہ اور خطہ کسی کے حوالے نہیں۔ بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور تمام خزانوں کی کنجیاں اسی وحدہ لاشریک کے پاس اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بندوں کو آسمان اور زمین سے جو بھی کچھ ملتا ہے وہ سب اسی کی عطا و بخشش سے ملتا ہے اور دنیا کے بعد آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی ان کو جو کچھ ملے گا اسی وحدہ لا شریک کی عنایت سے ملے گا کہ زمین و آسمان اور دنیا و آخرت کے سب خزانوں کی چابیاں اسی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس ہمیشہ اسی کی طرف رجوع کرنا اور رجوع رہنا چاہیے ۔ وبالله التوفیق لما یحب ویرید.
﴿وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾
اس آیت میں خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور مراد پوری امت ہے۔ (قرطبی : ص : ٢٤٢، ج : ١٥)
آپ جانتے ہی ہیں کہ نبی کا ہر کام مقبول خدا ہوتا ہے بالفاظ دیگر نبی کے ایک عمل کا اور امت کے سارے اعمال کا بھی اگر موازنہ کیا جائے تو میرا اور میرے تمام اکابر کا یہ اعتقاد ہے کہ نبی کا ایک ہی عمل تمام امت کے اعمال سے بڑھ جائے گا مگر بایں ہمہ ارشاد خداوندی یہ ہے کہ اگر بالفرض آپ سے بھی شرک صادر ہوجائے تو آپ کے اعمال بھی اکارت ہوجائیں گے (نبی سے شرک کا صدور امر محال ہے لیکن صرف امت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ ) (گلدستہ توحید : ص : ٢١)
﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾
یہ یہود ونصاریٰ اور مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق ہے اگرچہ یہ لوگ معرفت الٰہی کے دعویدار ہیں مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچانا ہی نہیں اگر پہچان لیتے تو شرک کے مرتکب نہ ہوتے۔
بخاری، مسلم ترمذی، اور نسائی وغیرہم میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے ایک عالم علماء یہود میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری کتاب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر اٹھائے گا، اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور درختوں کو پلک انگلی پر اور پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر پھر فرمائے گا میں ہوں بادشاہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات سنی تو ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی پچھلی داڑھیں ظاہر ہوئیں، اس عالم کی تصدیق کے لیے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی۔ (روح المعانی : ص : ٣٨٤، ج : ١٥، قرطبی : ص، ٢٤٤٣، ج ، ١٥، معالم التنزیل : ص : ٧٦،ج : ٤)
والأرض جمیعاً الخ: قیامت کے دن زمین کا اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہونا، اور آسمانوں کا لپیٹ کر اس کے داہنے ہاتھ میں ہونا اسلاف متقدمین کے نزدیک اپنے حقیقی معنوں میں ہے مگر مضمون آیت متشابہات میں سے ہے جس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ اور علماء متاخرین نے اس آیت کو ایک تمثیل و مجاز قرار دے کر یہ معنی بیان کئے کسی چیز کا مٹھی میں ہونا اور دائیں ہاتھ میں ہونا کنایہ ہوتا ہے اس پر پوری طرح قبضہ وقدرت سے یہی مکمل قبضہ وقدرت مراد ہے۔
﴿وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ﴾
علماء محققین کے نزدیک کل دو مرتبہ نفخہ صور ہوگا پہلی مرتبہ سب کے ہوش اڑ جائیں گے جو زندہ ہیں وہ مردہ ہوجائیں گے اور جو مرچکے تھے ان کی ارواح پر بےہوشی کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔
ثم نفخ فیه الخ: اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا جس سے مردوں کی ارواح مکمل طور پر ابدان کی طرف واپس آجائیں گی اور بےہوشوں کو افاقہ ہوگا اس وقت محشر کے عجیب وغریب منظر کو حیرت زدہ ہو کر تکتے رہیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ کی پیشی میں تیزی سے حاضر کئے جائیں گے۔ تنبیہ : ”إلا من شاء الله“ سے بعض حضرات نے جبرائیل ، میکائیل، اسرافیل ، اور ملک الموت مراد لیے ہیں بعض نے ان کے ساتھ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کو بھی شامل کیا ہے اور بعض کے نزدیک انبیاء اور شہداء مراد ہیں۔ (تفسیر عثمانی)
صور کیسے پھونکا جائے گا؟ حدیث کی روشنی میں
صور کیسے پھونکا جائے گا؟ اور قیامت کیسے قائم ہوگی؟ اس کی مکمل تفصیل تو طویل ہے مختصراً حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ صور کی شکل سینگ جیسی ہے اس کی آواز سے آسمان و زمین کی ہر مخلوق مرجائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین پر چالیس دن بارش برسائے گا جس کی وجہ سے لوگ زمین سے یوں اگیں گے جیسے زمین سے پودے اگتے ہیں اور انسان میں ایک ہڈی ہوتی ہے جسے زمین نہیں کھاتی اسے عجب الذنب کہا جاتا ہے اسی سے دوبارہ ہر شخص کا جسم بنایا جائے گا۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور دونوں بار کے صور میں چالیس برس کا فاصلہ ہوگا۔ (در منثور بروایت ابو داؤد فی البعث جلد 7 صفحۃ 252) اس حدیث کا مفہوم بخاری و مسلم میں بھی مروی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں چین سے کیسے بیٹھوں جبکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کو منہ میں رکھ لیا ہے اور اور حکم پر کان لگائے کھڑا ہے وہ منتظر ہے کہ اسے کب صور پھونکنے کا حکم ملتا ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہمیں کیا کہنا چاہیے ؟ آپ نے فرمایا کہو حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔ عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا۔ (ترمذی کتاب التفسیر سورة زمر باب 7)
حضرت اوس بن اوس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جمعہ سب سے افضل دن ہے اسی میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی میں ان کی روح قبض کی گئیں اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اسی میں سب مخلوق ہلاک ہوگی “۔ (ابودو ود کتاب الصلوۃ باب 201)
﴿وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ﴾
جب اللہ تعالیٰ میدان حشر میں فصل قضاء کے لیے جلوہ افروز ہوں گے اس وقت میدان حشر ان کے انوار و تجلیات سے جگمگا اٹھے گا یا یہ عدل و انصاف سے کنایہ ہے یعنی میدان حشر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے نور سے منور ہوجائے گا۔ وذلک حین یجلی الرب تبارک و تعالیٰ لفصل القضاء بین خلقہ (خازن و معالم ج 6 ص 71) ۔ بما أقام فیها من العدل استعیر له النور لأنه یزین البقاع ویظهر الھقوق (تفسير أبي السعود ج 7 ص 280) ۔ سب کے اعمالنامے عدالت میں پیش کیے جائیں گے اور وہاں عدالت میں انبیاء (علیہم السلام) کو بھی حاضر کیا جائے گا تاکہ وہ اپنی امتوں کے منکرین کے خلاف گواہی دیں۔ اور شہداء یعنی امت محمدیہ کو بھی حاضر کیا جائے گا تاکہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں گواہی دیں کہ بیشک انھوں نے اللہ کا پیغام اپنی امتوں کو پہنچا دیا۔ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ لِيَشْهَدُوا عَلَى أُمَمِهِمْ، وَالشُّهَداءِ، قِيلَ: جَمْعُ شَاهِدٍ، وَهُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ عَلَى النَّاسِ بِأَعْمَالِهِمْ. وَقِيلَ: هُمُ الرُّسُلُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ. وَقِيلَ: أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَشْهَدُونَ لِلرُّسُلِ. البحر المحيط في التفسير (9/ 223) مخلوق میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کسی کی بھی حق تلفی نہ ہوگی۔
﴿وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا﴾
قیامت کے آخری مناظر
ان آيتوں ميں یہ مضمون بیان ہوا کہ کافر گروہوں کی صورت میں جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔ جہنم کے دروازے ایسے بند ہوں گے جیسے کسی قید خانے کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ جہنم پر مامور فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ کیا اللہ کے رسولوں ( علیہ السلام) نے تمہیں روز قیامت کے برے انجام سے خبردار نہیں کیا تھا ؟ کافر اقرار کریں گے کہ ہمیں رسولوں نے خبردار کیا تھا لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم نے ان کی دعوت پر توجہ نہیں دی۔ فرشتے کہیں گے کہ جاؤ اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوجاؤ۔
متقی یعنی اللہ کی نافرمانی سے بچنے والے، گروہوں کی صورت میں جب جنت کی طرف لائے جائیں گے تو اس کے دروازے پہلے ہی سے کھلے ہوئے ہوں گے ۔ جنت پر مامور فرشتے انھیں مبارک باد دیں گے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہونے کی بشارت دیں گے۔ اہل جنت اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ اس نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور جنت کی وسیع سرزمین کا وارث بنایا۔ آخری منظر یہ ہوگا کہ فرشتے اللہ کے عرش کے گرد گھیرا ڈال کر اس کی تسبیح کر رہے ہوں گے ۔ ان کے درمیان اللہ کے احکامات کی حکمت و نتائج کے حوالے سے جو اختلافات تھے، ان کا فیصلہ بھی کردیا جائے گا۔ تمام فرشتے مل کر کہیں گے اَلْحُمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.
﴿وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ۚفَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ﴾
متقین جنت میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں گے کہیں گے ”الحمد لله“ اللہ پاک کا شکر ہے جو اس نے وعدے اپنے نبیوں کی زبانی دنیا میں کئے تھے آج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں کہ ان کو حکم ہے جہاں چاہیں رہیں لیکن ہر کوئی وہی جگہ چاہے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے۔ اور بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ جنت میں سیرو ملاقات کے لیے کہیں آنے جانے کی روک ٹوک نہ ہوگی۔ واورثنا الارض الخ تشریح وعدہ : اس سے مراد جنت کی زمین ہے۔ (تفسیر عثمانی : ص : ٢٠٥)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.