کامیابی کا راز
سالانہ امتحان سر پر آپہونچا ، اسلم کے بھائی بہن سلمان اور ناجیہ اور اسکے دوسرے سبق کے ساتھی امتحان کی تیاری میں دل وجان سے جٹے ہوئے ہیں، ایک دوسرے سے بات چیت کرنا تو درکناران کو توکھانے پینے تک کا بھی ہوش نہیں ہے، ایسا محسوس ہو رہاہے کہ سالانہ امتحان کوئی ہمالہ پہا ڑ ہے جس کی بلندیوں کو سر کرنا بڑے ہی جان جو کھم کا کام ہے، کوئی ہسٹری کی کتاب الٹ پلٹ رہا ہے ،تو کوئی میتھ اور حساب کی ورق گردانی کر رہا ہے کوئی ہندی اور انگلش میں مشغول ہے، غرض کہ ہر ایک کی دلی خواہش یہ ہی ہے کہ امتحان میں اول میں ہی آؤں، اسلم بھی اپنے معمول کے مطابق پڑھائی لکھائی کر رہا تھا ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کے ساتھیوں کی طرح اس کے سر پر امتحان کا بھوت سوار نہیں تھا، اور نہ ہی اس کے چہرے پر خوف وہراس کا کوئی نام ونشان تھا۔
شام کی گھڑی آٹھ بجارہی تھی، اسلم کی والدہ نے آواز لگائی:’’ اسلم سلمان ناجیہ آو کھانا تیار ہے‘‘، اسلم نے جھٹ پٹ کتاب بند کر کے ڈائننگ روم کا رخ کیااور بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کردیااسلم کی والدہ نے اچار کی کٹوری دسترخوان پر رکھتے ہوئے کہا:’’ کیوں بیٹے اسلم پڑھائی لکھائی کیسی چل رہی ہے، اس بار بھی میری خواہش ہے کہ امتحان میں تم ہی اول آؤ تم میری اس خواہش کو ضرور پوری کرنا بیٹے‘‘۔ اسلم نے جواب دیا : ’’امی جان! میں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہاہوں، اب آگے خداکی مرضی ‘‘۔ ’’ نہیں نہیں تم ضرور اول آؤگے ،محنتی بچوں کی محنت رنگ لا کرہی رہتی ہے، میں بھی تمہارے لیے دعا کرونگی ‘‘ ۔۔۔۔ ’’دیکھو کھاناٹھنڈا ہو تا جا رہا ہے سلمان اور ناجیہ ابھی تک نہیں آئے، میں تو ان دونوں سے تنگ آگئی ہوں ‘‘۔ ممی! اسلم نے اٹھتے ہوئے کہا: میں جاکر ان کو دیکھتا ہوں، نہیں نہیں تم کہاں جاؤگے، تم کھاتے رہو میں خود ہی جاکر دیکھتی ہوں، اسلم کی والدہ ان دونوں کے کمرے میں پہونچی سلمان اور ناجیہ طوطے کی طرح رٹا لگارہے تھے، ارے تم دونوں کھانا نہیں کھاؤگے کیا؟ چلو جلدی کرو کھانا ٹھنڈا ہورہاہے، ان دونوں نے ممی کی بات کوسنی ان سنی کردی اور اسی طرح رٹنے میں مشغول رہے، ممی نے انکی کتاب بند کرتے ہوئے کہا: نالائقو! کیوں مجھے تنگ کر رہے ہو چلو جلدی کرو کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا، اف فوممی! آپ کیوں شور مچارہی ہیں، خواہ مخواہ ہمیں ڈسٹرب کر رہی ہیں سلمان نے ممی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر کہا، آپ کو معلوم نہیں کل سے ہمارا امتحان شروع ہو رہاہے، امتحان شروع ہور ہا ہے تو کیا ہوا، چلو کھانا کھالو پھر پڑھتے رہنا پوری رات، بڑے آئے پڑھنے والے، نہیں نہیں ممی! پلیز آپ جائیے ہم دونوں بعد میں کھالیں گے۔
اسلم کی والدہ تھک ہار کر چلی آئی لیکن وہ دونوں تھے کہ اپنی جگہ سے ہلنے کا نام نہیں لے رہے تھے، اتنی دیر میں اسلم کھانے سے فارغ ہو چکا تھا، ممی نے دسترخوان سے برتن سمیٹتے ہوئے اسلم سے کہا :’’بیٹے اسلم ان دونوں نے تومیری ناک میں دم کردیا ہے، میرے ہزار کہنے کے باوجود دونوں اپنی جگہ سے نہیں ہلے‘‘، ممی! ’’آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، پورے سال توان کو ٹی وی اور گیم سے فرصت نہیں ملتی، اب امتحان سر پر آدھمکا ہے تو انہیں پڑھنے لکھنے کی سوجھی‘‘۔
امتحان کے پیپر شروع ہو گئے، ایک ایک کرکے سارے پیپر بھی ختم ہو گئے، کچھ دنوں کے بعد امتحان کا رزلٹ بھی آگیا، پچھلے سال کی طرح اس سال بھی اسلم پورے اسکول میں فرسٹ آیا تھا، اردو میں تو اس کو پورے سو کے سو نمبر ملے تھے، ایک پیاری اور میٹھی زبان ہو نے کے ناطے اس کو اردو سے خاصا شغف بھی تھا، اس کے اول آنے کی خبر پورے محلے اور پورے قصبے میں پھیل چکی تھی، اس کے گھر پر مبارکباد دینے والوں کا نانتا بدھا ہوا تھا، اسلم کو اس کے والد کی طرف سے حسبِ وعدہ ایک نئی سائیکل گفٹ میں مل چکی تھی، سلمان اور ناجیہ گھر کے ایک کونے میں منھ لٹکائے کھڑے تھے، اس سال بھی وہ دونوں فیل ہو گئے، ابو نے تو دونوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ تم دونوں کو سمجھانا بجھانا تو بے کار ہے، لاکھ سمجھاؤ بجھاؤ لیکن پھر بھی تمہارے سر پر جوں تک نہیں رینگتی، ڈانٹ پھٹکار کا اثر بس تھوڑی دیر رہتا ہے ،اس کے بعد وہی لڑائی جھکڑا، اوروہی ٹی وی وہی گیم، کبھی کبھی تو خود مجھے اپنی قسمت پر رونا آتا ہے ۔
اسلم کے فرسٹ آنے کی خوشی میں اسلم کے والد نے اپنے رشتہ داروں، اسلم کے اساتذہ، اور اس کے درسی ساتھیوں، اور محلہ کے کچھ با اثر لوگوں کو ایک عشائیہ پر مدعو کیا، اور حسب استطاعت پر تکلف کھانوں کا بہترین انتظام بھی کیا، کھانا کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد بھی تمام مہمانوں کی زبان پر بس اسلم ہی کے قصیدے تھے، ’’واقعی بہت ہونہار بچہ ہے خدا اس کے علم میں برکت دے، مستقبل میں اس سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں، یقیناًایک دن یہ سب کا نام روشن کرے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
کھانا کھانے کے بعد کافی کا دور چلا اسی دوران بعض مہمانوں نے اسلم کے اساتذہ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ جناب آپ لوگ تو بچوں کو پڑھاتے ہی ہیں، آپ تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ اسلم کی اس کامیابی کا آخر راز کیا ہے؟ وہ ہر سال اول کیسے آتا ہے؟ اس کے دوسرے ساتھی ہر سال اس سے پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں؟ اساتذہ نے کہا: کہ بھائی ہم لوگ تو طلبہ کو گاہے بگاہے کلاس میں اس کے بارے میں بتاتے ہی رہتے ہیں کہ کیسے پڑھنا چاہئے، کیسے لکھنا چاہئے ، امتحان میں اچھے نمبرات کیسے مل سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ تمام طلبہ اس پر عمل نہیں کرتے ، آج اسلم ہی اپنے بارے میں بتائے کہ اس کی کامیابی کا اصل راز کیا ہے تو زیادہ بہتر ہوگا، اسلم مہمانوں کی خاطر داری میں مشعول تھا اسی وقت ایک استاذ نے اسلم کو آواز دی، ’’اسلم بیٹے یہاں آؤ، میں سر ‘‘؟ ’’ہاں ہاں یہاں آؤ‘‘، اسلم ٹرے کو سلمان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے جھٹ پٹ پہنچ گیا :’’میاں اسلم! آج سب مہمان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تمہاری کامیابی کا اصل راز کیا ہے تم خود ہی بیان کرو‘‘، اسلم نے ہچکچاتے ہوئے کہا :’’کہ سر میں کیا اور میری بساط کیا، اگر آپ لوگ اس کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں‘‘، نہیں نہیں ہماری دلی خواہش ہے کہ تم خود ہی اپنے بارے میں بتاؤ اسی دوران سارے مہمانوں کے کان میں یہ بھنک پڑ چکی تھی کہ اسلم اپنی کامیابی کا راز بتانے والا ہے، تو پورے ہال میں خاموشی چھا گئی تمام مہمان گوش بر آواز ہوگئے۔
اسلم چار ناچار اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ: آپ جیسے ذی علم لوگوں کے سامنے میرا کچھ کہنا سننا چھو ٹا منھ بڑی بات کی طرح ہے ، لیکن اپنے اساتذہ کے حکم کی تعمیل میں آپ کی خدمت میں اپنے بارے میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں،گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اس نے کہا : آج تک میں نے جو کچھ سیکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ: دنیا کے کسی بھی کام میں محنت اور لگن بہت ضروری ہے ، ان دونوں کے بغیر کسی بھی کام میں مہارت حاصل کرنا بہت مشکل ہے ،آج میں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ ان دونوں ہی بدولت ہے ،اس کے بعد اپنی پڑھائی لکھائی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ لکھنے پڑھنے سے متعلق کچھ قاعدے اور ضابطے ہیں،ان پر میں پوری طرح عمل کرتا ہوں ، اس لیے میں ہر سال اول آتا ہوں،اور جو بھی ان پر عمل کرے وہ یقیناًاچھے نمبرات سے کامیاب ہوگا۔
ایک تو یہ ہے کہ میں کلاس میں پوری پابندی سے حاضری دیتا ہوں ، بغیر کسی معقول عذر کے کبھی بھی کلاس سے غیر حاضر نہیں ہوتا ہوں،کیونکہ میں نے اپنے ٹیچروں سے سن رکھا ہے کہ:کلاس کی غیر حاضری سبق کی برکت کو ختم کر دیتی ہے ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:کتابوں کے اسباق تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں،اگر تسبیح کا کوئی دانہ گر جائے تو پوری تسبیح بکھر جاتی ہے،پھر اس کا جوڑنا بسااوقات بہت مشکل ہوجاتا ہے ،ٹھیک اسی طرح کلاس کی ایک دن کی غیر حاضری کتاب کے تمام اسباق پر اثر انداز ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے کتاب کے اسباق خوب اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتے ،اس لیے میں کلاس کی پابندی ضروری سمجھتا ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ :اسکول سے گھر آنے کے بعد میں اپنے تمام اسباق کو روزانہ دہرا لیتا ہوں،اور ہوم ورک کو بھی بلا ناغہ پورا کرتا ہوں، اس سلسلہ میں میں نے اپنا ایک ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہے کہ : اتنے بجے سے اتنے بجے تک انگریزی ، اتنے بجے سے اتنے بجے تک ہسٹری اور تاریخ، اتنے بجے سے اتنے بجے تک اردو وغیرہ وغیرہ، سبق کی جو چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں ان کو اپنے ساتھیو ں کی مدد سے ، یا دوسرے دن کلاس میں استاذ کی مدد سے حل کرنا ضروری سمجھتا ہوں،کسی بھی سبق کو بلا سمجھے ہوئے نہیں چھوڑتا ہوں اسی کے ساتھ ساتھ اگلے اسباق پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں،تاکہ اگلے سبق کے بارے میں ذہن بالکل ناآشنا نہ رہے۔
تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ :ہفتہ میں چھٹی کے دن ہفتہ بھر کے تمام اسباق کو ایک ایک بار ضرور دہرا لیتاہوں،اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ میرے تمام اسباق مجھے ہر وقت ازبر یاد رہتے ہیں،اس لیے مجھے امتحان سے کوئی خاص ڈر نہیں لگتا اورنہ ہی مجھے امتحان کی تیاری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، میرے لیے امتحان اور غیرِ امتحان کا زمانہ سب برابر ہے،بس انہیں چند ضابطوں پر مکمل عمل کرنے کی وجہ سے میں ہر امتحان میں اول آتا ہوں،میرے بھائی بہن سلمان اور ناجیہ اس پر عمل نہیں کرتے اس لیے وہ دونوں اکثر امتحانات میں فیل ہوجاتے ہیں،یہ کامیابی میری جاگیر نہیں ہے، جو بھی اس پر عمل کرے گا وہ یقیناًوہ اچھے نمبرات سے کامیاب ہوگا ۔
پیارے دوستو! اگر آپ بھی امتحان میں اول آنے یا اچھے نمبرات سے کامیاب ہونے کی تمنا رکھتے ہیں تو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس صرف تین چیزوں کی طرف توجہ دینی پڑے گی ،نمبر۱ کلاس میں پابندی سے حاضری دینا، نمبر۲ روزانہ اپنے اسباق کو دہرانا، نمبر۳ ہفتہ میں چھٹی کے دن اپنے پچھلے ہفتہ کے تمام اسباق کو ایک بار پھر سے دہرا لینا، بس انہیں تین چیزوں پابندی سے عمل کر لیجئے پھر دیکھئے ان شاء اللہ آپ ضرور اچھے نمبرات سے کامیابی حا صل کریں گے،اور امتحان کا کھٹکا بھی آپ کے دل سے نکل جائے گا، اور اگر آپ ان تینوں چیزوں کی پابندی نہیں کریں گے، بلکہ اپنے قیمتی اوقات کو یوں ہی کھیل تماشوں سیر سپاٹوں میں ضائع کردیں گے تو آپ کا بھی وہی حال ہوگا جو اس کہانی میں سلمان اور ناجیہ کا ہوا ہے،آپ کے سر پر بھی ہر وقت امتحان کا بھوت سوار رہے گا، آپ کا اچھے نمبرات سے پاس ہونا تو دور کی بات ہے آپ امتحان میں فیل بھی ہوسکتے ہیں، پھر آپ کو بھی اپنے ابو کی ڈانٹ پھٹکار سننی پڑے گی، اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.