انتقال کے بعد عقیقہ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میرے یہاں دو دن پہلے ایک بچی کی پیدائش ہوئی؛ لیکن عقیقہ سے قبل ہی اس کا انتقال ہوگیا۔
پوچھنا یہ ہے کہ اب اس بچی کا عقیقہ کرنا ہے یا نہیں؟
المستفتی محمد ریحان منجیرپٹی (مقیم سعودی عرب)
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب :
عقیقہ زندگی میں کیا جاتا ہے مرنے کے بعد عقیقہ کا مستحب ہونا ثابت نہیں؛ لیکن اگر محض شفاعت کی امید سے کر دیا جائے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
الدلائل:
وحاصله أن الغلام إذا لم یعق عنه فمات لم یشفع لوالدیه، ثم إن الترمذی أجاز بھا إلی یوم إحدی وعشرین، قلت: بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت فی بعض الروایات أن النبی صلی ﷲ علیه وسلم عق عن نفسه بنفسه، الخ. (فیض الباری: 4/337، کتاب العقیقة). فقط واﷲ اعلم بالصواب۔
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله، أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
28/8/1439ه 15/5/2018م الثلاثاء
۞۞۞۞۞۞۞
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.