روزے كى حالت ميں انجکشن لگوانا گلوکوز يا خون چڑھوانا
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
جس انجکشن سے علاج مقصود ہو اور اس سے غذائی ضرورت کی تکمیل نہ ہوتی ہو تو اس کے بارے میں تقریبا اتفاق ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، کیوں کہ اس کے ذریعے سے داخل ہونے والی دوا طبعی راستے سے پیٹ تک نہیں پہونچتی ہے، اور اگر اس کا کچھ اثر پہونچتا ہے تو وہ مسامات کے ذریعے ، اور اس طرح سے کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے، اور رگوں کے ذریعے غذائی انجکشن لگانے یا گلوکوز چڑھانے کے بارے میں اختلاف ہے، عام طور پر علماء ہند اس بات کے قائل ہیں کہ اس کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے اور بعض عرب علماء کی بھی یہی رائے ہے، ان کے دلائل یہ ہیں:
1- رأيت رسول الله ﷺ بالعرج يصب الماء علی رأسه وھو صائم (الموطأللإمام مالک: 807، سنن أبي داود: 2365واللفظ له، مسند أحمد 15903)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے عرج نامی جگہ پر دیکھا کہ روزہ کی حالت میں پیاس یا گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کے متعلق منقول ہے:
2 – وَبَلَّ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثَوْبًا، فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِ وَهُوَ صَائِمٌ. صحيح البخاري (3/ 30)
انھوں نے روزہ کی حالت میں اپنے کپڑے کو پانی سے تر کیا اور اسے اپنے اوپر ڈال لیا۔
ٹھنڈے پانی سے غسل کی وجہ سے پیاس کی شدت کم ہوجاتی ہے ،کیوں پانی کے اجزاء مسامات کے ذریعے بدن میں داخل ہوجاتے ہیں ، مگر اس کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ،اسی طرح سے ایئر کنڈیشن میں رہنے کی وجہ سے بھوک اور پیاس کا احساس کم ہوجاتا ہے ، تو جس طرح سے ان صورتوں میں روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ، اسی طرح سے گلوکوز وغیرہ سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
3-روزہ فاسد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طبعی راستے کے ذریعے کوئی چیز پیٹ یا دماغ میں داخل ہوجائے، رگوں میں انجکشن لگانے یا گلوکوز چڑھانے سے طبعی راستے کے ذریعے وہ پیٹ تک نہیں پہونچتا ہے، بلکہ وہ سرے سے پیٹ تک پہونچتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ رگوں اور پٹھوں تک محدود رہ جاتا ہے اور اگر پہونچتا ہے تو بعینہ وہ دوا نہیں ، بلکہ اس کا اثر اور نفع پہونچتا ہے ، اور کسی چیز کے اثر کے معدے تک پہونچنے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔
اس کے برخلاف بعض دوسرے علماء کی رائے ہے کہ غذائی ضرورت کے لیے رگوں میں لگائے جانے والے انجکشن یا گلوکوز سے روزہ ٹوٹ جاتاہے۔
فقہ اکیڈمی جدہ نے یہی قرار داد پاس کی ہے، اور سعودیہ کی فتاویٰ کمیٹی نے اس کے مطابق فتویٰ دیا ہے اور مشہور فقیہ وھبہ زحیلی بھی اسی کے قائل ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں:
1- اس کے ذریعے جسم میں قوت آجاتی ہے ، نیز کھانے پینے کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے ، یہاں تک کہ اس کے ذریعے کھائے پیئے بغیر ایک طویل مدت تک زندگی گزاری جاسکتی ہے ، اس لیے یہ کھانے پینے کے حکم میں ہے اور روزہ نام ہے کھانے پینے سے رکنے کا ، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کے لیے فطری راستہ اختیار نہیں کیا گیا ہے ، جیسے کہ نشہ آور چیز کے کھانے یا اس کا انجکشن لگوانے میں فرق کا کوئی قائل نہیں ہے ، کیوں کہ ممانعت کی اصل وجہ نشہ ہے جو انجکشن کے ذریعے بھی حاصل ہورہا ہے ، اس لیے وہ بھی نشہ آور چیز کے کھانے پینے کے حکم میں ہے۔
2- حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے جو خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے حدیث کے حکم میں ہےاور بعض لوگوں نے حدیث کی حیثیت سے نقل بھی کیا ہے کہ :
إنما الوضوء مما خرج، و ليس مما دخل، والفطر في الصوم مما دخل وليس مما خرج. (إرواء الغليل: 4/ 79)
وضو جسم سے خارج ہونے والی چیزوں سے ٹوٹتا ہے ۔جسن میں داخل ہونے والی چیزوں سے نہیں ۔اور روزہ جسم میں داخل ہونے والی چیزوں سے ٹوٹتا ہے ۔خارج ہونے والی چیزوں سے نہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح جسم کے کسی بھی حصے سے ناپاکی خارج ہونے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح سے جسم میں کسی بھی طریقے سے کوئی چیز داخل ہوتو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
3- نسوں کا تعلق براہ راست دماغ سے ہوتا ہے اور یہ دماغ تک کسی چیز کے پہونچانے کے طبعی راستے ہیں جن کی دریافت ماضی میں نہ ہوسکی تھی ، اس لیے پہلے کے فقہاء نے قدیم طبی تحقیق یا اپنے مشاہدے کی روشنی میں جن ذرائع کے بارے میں سمجھا کی اس کی وجہ سے کوئی چیز دماغ یا معدے تک پہونچ سکتی ہے ان کے بارے میں فتویٰ دیا کہ اس کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
4-غسل کرنے یا تر کپڑا لپیٹ لینے کی وجہ سے یا ایئر کنڈیشن میں رہنے سے تھوڑی سی راحت تو مل سکتی ہےیا وقتی طور پر بھوک و پیاس کا احساس ختم ہوسکتا ہے مگر اس سے غذائی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی ہے، کمزوری بہر کیف لاحق ہوگی اور جسمانی توانائی متأثر ہوگی اس کے برخلاف گلوکوز کے ذریعہ غذائی ضرورت پوری ہوتی ہے اور قوت ونشاط بر قرار رہتا ہے یہاں تک کہ محض اسی کے سہارے ایک عرصے تک انسان زندہ رہ سکتا ہے۔
جولوگ انجکشن لگانے یا گلوکوز چڑھانے کی وجہ سے روزہ کے فاسد نہ ہونے کے قائل ہیں ان کے رائے زیادہ صحیح ہے کیونکہ روزہ کے صحیح یا فاسد ہونے کا مدار کھانے پینے کے مقصد کے پائے جانے یا نہ پائے جانے پر نہیں ہے بلکہ کھانے پینے کی حقیقت پر ہے اور کھانے پینے کی حقیقت یہ ہے کہ طبعی راستوں کے ذریعے کوئی چیز پیٹ میں داخل ہوجائے ، چنانچہ ایک تل کھالینے کی وجہ سے تمام فقہاء کے نزدیک روزہ فاسد ہوجاتا ہے حالانکہ اس کے ذریعے کھانے کا مقصد پورا نہیں ہوتا ہے بلکہ کنکر یا پتھر کھالینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے، اسی طرح سے حلق سے ایک قطرہ پانی اتر جانے کی وجہ سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے اور اسی بنیاد پر حدیث میں روزہ کی حالت میں ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ سےمنع کیا گیا ہے حالانکہ ایک قطرہ پانی سے پیاس میں کمی نہیں آئے گی ، اس کے برخلاف روزہ کی حالت میں غسل کرنے یا تر کپڑا لپیٹ لینے کی اجازت ہے جس سے مسامات کے ذریعے جسم میں پانی داخل ہوجاتا ہے مگر روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے اس لیے اصل اعتبار اس کا ہے کہ جو چیز جسم میں داخل ہورہی ہے اس کا راستہ کیا ہے البتہ روزہ کے مقصد کے خلاف ہونے کی وجہ سے بلاضرورت شدیدہ گلوکوز چڑھانا مکروہ ہوگا۔
کما لو اغتسل بالماء البارد فوجد برودته في کبدہ لکن ينبغي أن يکون مکروها. (مجمع الأنهر: 1/245)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.