فلکیاتی حساب کے ذریعے چاند کا ثبوت

فلکیاتی حساب کے ذریعے چاند کا ثبوت، روزہ سے متعلق نئےمسائل

فلکیاتی حساب کے ذریعے چاند کا ثبوت

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔

رمضان کے مہینے کا آغاز و انتہا ء کے لیے فلکیاتی حساب کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ حدیث میں کہاگیا ہے کہ مہینے کی ابتدا و انتہا کے لیے افق پر چاند کا وجود کافی نہیں ہے بلکہ آنکھوں کے ذریعے نظر آنا ضروری ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ:

’’صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غبي عليکم فأکملوا عدۃ شعبان ثلاثين‘‘ (صحيح البخاري: 1909، صحيح مسلم: 1081)

چاند دیکھ کر روزہ شروع اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو ۔اگر بدلی چھا جائے تو شعبان کی تیس کی تعداد پوری کرو ۔

اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’لا تصوموا حتی تروا الھلال ولا تفطروا حتی تروہ فإن غم عليکم فاقدروا له‘‘.  (صحيح البخاري: 1906، صحيح مسلم: 1080)

روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو۔ اور روزہ ختم نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو ۔اور اگر بدلی چھا جائے تو اس کے لئے اندازہ لگاؤ۔

اندازہ لگانے سے مراد تیس کی تعداد کو مکمل کرنا ہے جیسا کہ پہلی حدیث میں ہے اور خود حضرت عبداللہ بن عمر کی دوسری روایات میں اس کی صراحت ہے.( دیکھئے: صحیح بخاری:1807

مذکورہ احادیث میں صراحت ہے کہ چاند کے ثبوت کا بس دو ہی ذریعہ ہے، ایک آنکھ کے ذریعے نظر آجانا، دوسرے تیس کی مقدار کا مکمل ہوجانا، اس کے علاوہ کوئی تیسرا ذریعہ نہیں ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ افق پر چاند کا وجود کافی نہیں ہے بلکہ بدلی کی وجہ سے اگر چاند نظر نہ آئے گرچہ افق پر موجود ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اوریہ کہ بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر آنے کی حالت میں تیس کی تعداد مکمل کی جائے گی، نہ یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے چاند کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے گی، اس لیے کہ آنحضورؐ نے فرمایا کہ تیس کی تعداد مکمل کر و، یہ نہیں کہاکہ ماہرین فلکیات سے معلوم کرلو، حالانکہ آنحضورﷺ کے زمانے میں بھی اس کے ماہرین موجود تھے اور مدینے کے یہودی انہیں پر اعتماد کرکے اپنے رسوم اور تیوہار وغیرہ منایاکرتے تھے بلکہ آپ نے بصراحت چاند کے معاملے پر حساب وکتاب پر اعتماد نہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا کہ:

 إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ. الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا ” يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِينَ، وَمَرَّةً ثَلَاثِينَ.(صحيح البخاري:1913)

ہم انپڑھ لوگ ہیں اس لئے حساب وکتاب کے چکر میں نہیں پڑتے ۔مہینہ اس طرح کا ہوتا ہے اور اس طرح کا ۔آپ کی مراد یہ ہے کہ مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہے اور کبھی تیس کا ۔

اس حدیث میں دین اسلام کے مزاج ومذاق کا بیان ہے کہ اس میں حد درجہ سادگی اور آسانی ہے کہ اس میں عبادات وغیرہ کی ادائیگی کے لئے کسی ایسی چیز کا پابند نہیں بنایا گیا ہے جس کا حصول دشوار ہو اور ان کے اوقات کے لئے کسی ایسی چیز کو معیار نہیں قرار دیا ہے جسے کچھ خاص لوگ ہی جان سکیں اورعام لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم کرنا دشوار ہو ۔

مذکورہ حدیث سے یہ سمجھنا غلط ہے ناخواندگی کے عام ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب و کتاب کی باریکیوں میں الجھنے کو مناسب قرار نہیں دیا اس لئے اگر یہ مجبوری ختم ہوجائے اور امت میں خواندگی عام ہو جائے تو پھر فلکیاتی حساب اور اس کے مطابق عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

کیونکہ حدیث میں کسی مجبوری کا اظہار نہیں ہے بلکہ دین اسلام کے عمومی ذوق کا بیان ہے کہ اس میں عبادات وغیرہ کے اوقات کا مدار ایسی چیزوں پر رکھا گیا جسے جاننا عوام وخواص عالم و جاہل ،شہری اور دیہاتی اور امیر وغریب سب کے لئے آسان ہے ۔چنانچہ سمت قبلہ کے بارے میں عین کعبہ کے استقبال کو ضروری قرار نہیں دیا گیا بلکہ جہت کعبہ کے استقبال کو کافی سمجھا گیا اور مدینہ کے لوگوں سے کہاگیا :

ما بين المشرق و المغرب قبلة.

مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔

کیونکہ بعینہ کعبہ کا استقبال بہت دشوار تھا ۔بلکہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت مشکل ہے کہ معمولی انحراف سے بھی عین کعبہ سے بہت دور ہوجائے گا ۔

اسی طرح سے نماز کے وقت کے معاملے میں سورج کی گردش کو اور روزہ اور عید کے لئے نئے چاند کے طلوع کو معیار بنایا گیا ہے جسے جاننا یکساں طور پر ہر ایک کے لئے بہت  آسان ہے ۔

اور یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ خواندگی کے عام ہونے کی وجہ سے امت کے لئے فلکیاتی حساب کو جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہے کیونکہ یہ فن آج بھی چند خاص لوگوں تک محدود اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے ۔اور اس کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو جاننا ان کے لئے بہت دشوار ہے ۔

اگر ان کو معیار قرار دیا جائے تو ہماری عبادتیں چند لوگوں کا دست نگر بن جائیں گی اور یہ دین کی ابدیت ، عمومیت و شمولیت ، عالمگیریت اور یسر و سہولت کے خلاف ہے حالانکہ اسی بنیاد پر شرعی احکام کی بنیاد شمسی حساب پر نہیں رکھا گیا کہ دنیا کے چند افراد اس کے حساب کو جانتے ہیں  اور ساری دنیا ان کی تقلید کرتی ہے اس کے برخلاف قمری تاریخ کو شہری اور جنگلی ہر شخص جان سکتا ہے ۔

واضح رہے کہ موجودہ دور کے ماہرین فلکیات کو اس بات کااعتراف ہے کہ فلکیاتی حساب کے ذریعے چاند کے وجود اور اس کے دکھائی دینے کے امکان کو معلوم کیا جاسکتا ہے اور اس بات کا یقینی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ آنکھوں کے ذریعے نظر آجائے گا۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply