(سلسلہ نمبر: 555)
بلا ضرورت دوسرے کے لڑکے کو دودھ نہیں پلانا چاہئے
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت جس کو اب تک کوئی بچہ نہیں ہے وہ ایک بچے کو گود لینا چاہتی ہیں، تو دوائی کے ذریعہ سے اگر وہ اپنے آپ کو اس قابل بنالے کہ وہ دودھ والی ہو جائے تو کیا یہ دودھ بچے کو پلا دے تو اس سے رضاعت ثابت ہو جائے گی؟ اور کیا اس طرح کی دوائی استعمال کر سکتی ہے؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
المستفتی: بشیر احمد۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: بلا سخت مجبوری کے کسی عورت کو دوسرے کے بچے کو دودھ نہیں پلانا چاہئے، اس لئے اس عورت کو دودھ پیدا کرنے کے لئے دوا کا استعمال مناسب نہیں ہے، پھر بھی اگر دوا کے استعمال سے دودھ اتر آئے اور لڑکا مدت رضاعت میں دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہوئے گی۔
الدلائل
والبكر إذا نزل لها اللبن تعلق به الحرمة ما تتعلق بلبن الثيب. (المحيط البرهاني: 3/ 7).
أو نزل لها لبن من غير ولادة فأرضعت به صبيا فإن الرضاع يكون منها. (الجوهرة النيرة: 2/ 28).
وإذا نزل للبكر لبن فأرضعت صبيا تعلق به التحريم؛ لإطلاق النص ولأنه سبب النشوء. (الهداية: 1/ 219).
وفي الولوالجية: والواجب على النساء أن لايرضعن كل صبي من غير ضرورة فإذا فعلن فليحفظن أو ليكتبن اهـ. (البحر الرائق: 3/ 238).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
28- 4- 1442ھ 14- 11- 2020م الاثنین.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.