hamare masayel

بھائی کو جائداد دے کر بچوں کے کہنے پر واپس لینا 

بھائی کو جائداد دے کر بچوں کے کہنے پر واپس لینا

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ میں:

عبداللطيف کے دو لڑکے ہیں: محمد حنیف، محمد شریف، دونوں باحیات ہیں، شریف کی پیدائش کے دس سال کے بعد عبد اللطيف کا انتقال ہوگیا، دونوں بھائی ایک ساتھ رہنے اور کھانے کمانے لگے، شریف کی پرورش، تعلیم، تربیت، شادی وغیرہ ایک باپ کی طرح اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے حنیف نے بحسن وخوبی بلاجھجک اور ڈھنگ سے کیا، اس وقفہ میں جو بھی جائداد وغیرہ حنیف نے خریدا وہ کچھ اپنے نام سے اور کچھ شریف کے نام سے لیا، مکان بنوایا، ریڈیمیڈ کا کارخانہ لگایا۔ سب ایک ساتھ کرتے رہے، ایک موقع پر حنیف نے بغیر اپنی بیوی بچوں سے مشورہ کیے ہوئے شریف سے کہہ دیا کہ ایک چکی تمہارے نام ہے تم لے لو، ایک چکی میرے نام ہے، میں لے لوں، یہ بٹوارہ دونوں بھائیوں نے بیٹھ کر کرلیا، کارخانہ حنیف نے شریف کو دے دیا اور اپنے لیے دوسرا کارخانہ کھول لیا اور اپنے اپنے کام میں لگ گئے، حنیف کے بچوں کو یہ تقسیم پسند نہیں آئی، جس کا اظہار حنیف نے شریف سے بھی کیا، کیوں کہ رقبہ کا فرق بہت زیادہ ہے۔ بچے تیار نہیں ہیں، کسی وقت بیٹھ کر سمجھ لیا جائے، اس مشورہ پر شریف خاموش رہا اور کوئی جواب نہیں دیا۔

اس ذہنی بٹوارے سے گھر کے سبھی افراد ناخوش رہے، لیکن اس کے باوجود ایک مدت تک آپسی تعلقات بہت ہی درست اور صحیح رہے، لیکن اس کا اثر دونوں طرف رہا، اب دھیرے دھیرے صورتِ حال یہ ہے کہ اس ذہنی بٹوارے سے ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کو روادار نہیں ہیں، دونوں کے بچے جوان ہیں، حنیف اور ان کے بچے چاہتے ہیں کہ جو بھی تقسیم ہو وہ رقبہ کے لحاظ سے برابر برابر ہو، اس وقت شریف جس حصہ پر قابض ہے وہ حنیف کے حصہ سےرقبہ سے کئی گنا زیادہ ہے، کیا یہ ذہنی بٹوارہ صحیح ہے، اس سلسلہ میں شریعت مطہرہ کیا کہتی ہے؟ حنیف کا از سر نو تقسیم کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟

نوٹ: سوال نامہ میں مذکورہ جائداد عبداللطيف کی نہیں ہے بلکہ یہ صرف محمد حنیف نے اپنی محنت سے بنایا تھا۔جو کچھ زمین جائداد اپنے نام و بھائی محمد شریف کے نام. اب اس میں محمد حنیف برابر برابر تقسیم چاہتے ہیں۔

المستفتی محمد اعجاز احمد انصاری، پسر حاجی محمد حنیف انصاری فیض آباد۔

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

 مذکورہ بالا سوال سے معلوم ہوا کہ محمد حنیف نے اپنی محنت اور کمائی سے بنائی ہوئی جائداد کے ایک بڑے حصہ کو اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے چھوٹے بھائی محمد شریف کو دے دیا اور اس نے قبضہ بھی کرلیا ہے، یہ صورت جائداد کے بٹوارہ کی نہیں ہے بلکہ اسے شریعت میں ھبہ اور ہدیہ کہتے ہیں اور ھبہ تام ہونے کے بعد مالک کی مرضی کے بغیر کسی کو اسے باطل کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ ھبہ کردہ چیز کی واپسی کا مطالبہ شرعاً مکروہ ہے اور حدیث شریف میں اس شخص کو اس کتے کی طرح بتایا گیا ہے جو قے کر کے خود اپنی قے چاٹنے لگے (اللہ ہماری حفاظت فرمائے) تاہم اگر موہوب لہ(جس کو ہبہ کیاگیا ہے) بلا کسی دباؤ کے اپنی خوشی سے واپس کردے تو لینے میں کوئی حرج نہیں۔

لہذا: صورتِ مسئولہ میں محمد حنیف کو اپنے بھائی محمد شریف کو ھبہ کی ہوئی جائداد کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، نیز محمد حنیف کے بیوی بچوں کی عدمِ رضا مندی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا؛ کیوں کہ جائداد کے مالک محمد حنیف ہیں نہ کہ ان کے بیوی بچے، اور مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف کا مکمل اختیار ہے اسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔

نوٹ: محمد حنیف نے اپنے بھائی کو از راہ ہمدردی اپنی جائداد دیا ہے جس پر اسے اللہ کے یہاں اور دنیا میں بھی بہترین بدلہ ملے گا، اس لیے اپنی دی ہوئی جائداد کو واپس لے کر اتنے بڑے اجر سے اپنے کو محروم کرنا اور وعیدِ نبوی کا مستحق بننا کوئی دانش مندی کی بات نہیں ہے، البتہ محمد شریف کو اختیار ہے اگر اپنی خوشی سے چاہے تو واپس کرکے برابر جائداد لے سکتا ہے۔ والله اعلم بالصواب۔

الدلائل

قال الله تعالیٰ: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ﴾ [النساء: 29]

وعن ابن عباس رضی الله عنهما قال قال رسول الله صلی الله علیه و سلم: لیس لنا مثل السوء الذی یعود في ھبته کالکلب یرجع في قیئه. (صحيح البخاری 157/1).

وشرائط صحتها في الموهوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاعٍ ممیزاً غیر مشغولٍ، ورُکنھا ھو الإیجاب والقبول، وحکمھا ثبوت الملک الموھوب له غیر لازم. (الدر مع الرد  688/5 کراچی).

لو قال: نحلتک داري أو اعطیتک أو وھبت منک کانت ھبة. (الفتاوى الھندیه 396/4 زکریا).

وفي الفتاوى العتابیة: الرجوع في الھبة مکروه في الأحوال کلھا ویصح. (الفتاوى التاتارخانیة 448/14).

فلو وھب لذي محرم منه نسباً لایرجع. (الدر المختار 407/5 بیروت).

لیس لأحد أن یأخذ مال غیره بلا سبب شرعي وإن أخذه ولو علی ظن أنه ملکه وجب علیه رده. (شرح المجله لسلیم رستم باز 64/1، رقم المادة: 97 کوئٹه).

وتنعقد الھبة بالإيجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل، لأنها من التبرعات، والتبرع لایتم إلا بالقبض. (شرح المجله لسلیم رستم باز 414/1. رقم المادة: 837)کوئٹه.

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 19 – 11 – 1439ھ 2- 8 – 2018 م الخميس

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply