(سلسلہ نمبر: 453)
جمائی کے وقت سنت طریقہ کیا ہے؟
سوال: یہ ہے کہ جمائی لیتے وقت کوئی دعا حدیث سے ثابت ہے کیا؟ لوگ لاحول الخ پڑھتے ہیں، نیز لوگ دلیل دیتے ہیں کہ جماہی شیطان کی طرف سے اسلئے لاحول الخ پڑھنا چاہئے اسکی شرعی كيا حیثیت ہے، نیز جمائی آئے تو اسوقت سنت طریقہ سے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
المستفتی: مکی سفیان، گورکھپور۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ جمائی شیطان کی طرف سے ہے، ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ جب کوئی شخص منہ کھول کر جمائی لیتا ہے تو شیطان اس کے پیٹ میں داخل ہوجاتا ہے۔
اس لئے جب جمائی محسوس ہو تو سنت طریقہ یہ ہے کہ حتی الامکان منہ بند کرنے کی کوشش کرے، اگر خود منہ بند نہ ہوپائے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے، اور منہ سے آواز نہ نکالے، “لا حول” یا اور کوئی دعا حدیث وفقہ کی کتابوں میں نہیں ملی۔
نوٹ: نماز کے اندر قصدًا جمائی لینا مکروہ تحریمی اور نماز سے باہر مکروہ تنزیہی ہے، البتہ اگر خود بخود آجائے تو کوئی حرج نہیں۔
الدلائل
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي ﷺ: إن الله يحب العطاس، ويكره التثاؤب، فإذا عطس فحمد الله، فحق على كل مسلم سمعه أن يشمته، وأما التثاؤب فإنما هو من الشيطان، فليرده ما استطاع، فإذا قال: ها. ضحك منه الشيطان.
(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْأَدَبُ | بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْعُطَاسِ وَمَا يُكْرَهُ مِنَ التَّثَاؤُبِ. الرقم: 6223).
عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله ﷺ قال: إذا تثاءب أحدكم فليمسك بيده ؛ فإن الشيطان يدخل. (صحيح مسلم | كِتَابٌ : الزُّهْدُ وَالرَّقَائِقُ | بَابٌ : تَشْمِيتُ الْعَاطِسِ، الرقم: 2995).
(و (كره) التثاؤب) ولو خارجها ذكره مسكين لأنه من الشيطان والأنبياء محفوظون منه. (الدر المختار).
وأما التثاؤب نفسه فإن نشأ من طبيعته بلا صنعه فلا بأس، وإن تعمده ينبغي أن يكره تحريما لأنه عبث وقد مر أن العبث مكروه تحريما في الصلاة تنزيها خارجها (قوله ولو خارجها) أي لإطلاق الحديث المار، وتقييده في بعض الروايات بالصلاة لكون الكراهة فيها أشد فلا تنافي بينهما تأمل. (رد المحتار: 1/ 645).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
1- 1- 1442ھ 21- 8- 2020م الجمعة.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.